سنت صحابه

306

اهل سنت عدالت صحابه پرقرآن اور حدیث سے استدلال کرتے هیں چنانچه قرآن کی تین آیتیں پیش کرتے هوئے کهتے هیں که خداوند سبحان کا ارشاد هے :”*كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ”*4″تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لئے منظرعام پر لایا گیا ہے” ۔اور دوسری آیت یه پیش کرتے هیں :”*وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ “*5″ اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درمیانی اُمت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو ” ۔اورتیسری آیت جو پیش کی جاتی هے وه یه هے :”*لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ “*”یقینا خدا صاحبانِ ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے ” ۔ 6ان تین آیتوں سے یه استدلال کیا جاتا هے که خیر امت اور امت وسط سے مراد اصحاب هیں یه اصحاب وهی هیں که جنهیں خدا مؤمن مانتاهے اور ان سے راضی هے پس جو افراد خیر امت اور مؤمن هوں اور الله ان سے راضی هو یعنی ان کے افعال ،رفتار و گفتار سے راضی هے پس ان کی سنت بھی حجت هوگی ۔جب که پهلی اور دوسری آیت کا تعلق صحابی سے مخصوص نهیں بلکه اس میں تمام امت شامل هے انهی تین آیتوں میں سے تو یه آیت ان اصحاب سے مخصوص هے جو بیعت رضوان میں شریک تھے پس تمام صحابی اسمیں شامل نهیں هیں اس کےکیوں کی علاوه الله کی رضایت بیعت رضوان سے مربوط تھی یعنی خدا بیعت رضوان میں ان کے موقف سے راضی تھا اس کا مطلب یه نهیں که خدا ان کے تمام کاموں سے راضی رهے گا ۔دانشمندان اهل سنت نے قرآن کے علاوه احادیث و روایات سے بھی استدلال کیا هے . جس میںمںی سب سے اهم اور معروف روایت یه هے ارشاد پیغمبر (ص)هے که :”أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُم”۔(مترجم) ‏.7″میرے اصحاب کی مثال آسمان کے ستاروں جیسی هے اس میں جس کسی کی اقتداء کروگے هدایت پاؤگے “۔ 8جب که ابن حزم نے اسی روایت کو ساقط، مکذوب، اور غلط جاناهے اس کے علاوه بعض روایات میں یه آیا هے ۔”اهل بیتی كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُم اهْتَدَيْتُم”۔‏.”میرے اهل بیت کی مثال ستاروں جیسی هے ان میں جس کی اقتداء کروگے هدایت پاؤگے” ۔ 9اور یه حدیث ثقلین جیسی متواتر حدیث سے بالکل هم آهنگ هے ۔ اس کے علاوه قرآن مجید میں ان اصحاب کا جو جنگ میں رسول کوپیٹھ دکھا کر بھاگ گئے یا وه اصحاب جنهوں نے دستورات پیغمبر (ص)سے سرپیچی کی هے یا ان پر اشکلالات کیئے هیں ان سب کا تذکره کیا اور بعض کو صریحاً فاسق قرار دیا هے ایک جگه فرمایا :
“*وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُواْ مِنْهَا رَضُواْ وَإِن لَّمْ يُعْطَوْاْ مِنهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ “*”اور ان ہی میں سے وہ بھی ہیں جو خیرات کے بارے میں الزام لگاتے ہیں کہ انہیں کچھ مل جائے تو راضی ہوجائیں گے اور نہ دیا جائے تو ناراض ہوجائیں گے” ۔ 10اور ایک جگه فرمایا:”*يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ “*”ایمان والو اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ اور اس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے ” ۔ 11اهل سنت کے اکثر مفسرین نے کها یه آیت ولید عقبه کے بارے میں نازل هوئی اور ولیدا بن عقبه مسلماً صحابی پیغمبر(ص)هے ،ابن عاشور نے اپنی تفسیر میں اس قول کو مورد اتفاق جانا هے اور کها هے که اس سلسلے میں روایات بهت زیاده هیں ۔ اس کے علاوه سوره، نور سوره احزاب ،سوره برائت اور سوره منافقوں میں ایسے افراد کا ذکر هے جو بظاهر مسلمان اور صحابی رسول تھےلیکن باطن میں مناقق تھے تھے،داستان افک کے جس کے سلسله میں سوره نور کی پندره آیتیں نازل هوئیں ان آیات میں جس گروه کی سرزنش کی گئی وه سب بظاهر مسلمان اور صحابی پیغمبر تھے بهر حال صحابه اپنے تمام احترام کے باوجود ان میں بعض صالح اور بعض غیر صالح افراد تھے اسی لئے سب کے اقوال کویکساں طور پر حجت نهیں مانا جاسکتا ۔اس کے علاوه بعض مشهور اور سرشناس صحابه کے کام ایسے هیں جو کسی بھی طرح قابل توجیه نهیں هیں اور کوئی منطق اسے قبول نهیں کرسکتی کیا هم یه جانتے هیں که جنگ جمل کی آگ بھرکانے والے طلحه اور زبیر جیسے معروف صحابی تھے جنهوں نے امام وقت کے خلاف خروج کیا اور ستّره هزار مسلمانوں کے قتل کا سبب بنے کیا ایسے افعال کی کوئی منطقی دلیل هے ؟ کیا ایسے افراد کی سنت حجت هوسکتی هے ۔اسی طرح هم یه بھی جانتےهیں که معاویه نے یهی کام اپنے وقت کے امام حضرت علی علیه السلام کے ساتھ انجام دیا جس کی وجه سے جنگ صفین میں ایک لاکھ مسلمان تهه تیغ هوئے کیا یه قتل و غارتگری توجیه کے قابل هے ؟کیا ایسے افراد کو اب عادل مانا جائے گا ؟کیا ایسے افراد کو مجتهد کهنا اور ان کے افعال کو خطائے اجتهادی کهه کر توجیه کرنا کوئی عقلی بات هے ؟ اگر ایسا هے تو هر دور میں اسی عنوان کےتحت هر قسم کے گناه کی تو جیه کی جاسکتی هے کیا کوئی دانشمند ایسی باتوں کو قبول کرسکتاهے ؟ بهرحال هم مصاحبت پیغمبر کی وجه سے صحابه کا احترام کرتے هیں لیکن انهیں تمام مسلمانوں کی طرح دو یاچند گروهوں میں تقسیم کرتے هیں اور ان میں سے ان افراد کی روایت قبول کرتے هیں جو عادل هوں ۔————–1 . الموقعات شاطبی ، ج 4 ،ص 74 .2 . الاصحابه فی تمیز الصحابه ، ج1،ص157 .3 . .وهی مدک ،ص 162 .4 . آل عمران ، 110 .5 . بقره ، 143 .6 . فتح ، 18 .7 . (مترجم) 9- سنت صحابه کی حجیت پر دلیل نقل :سنت صحابه کی حجیت پر جو دلیلیں نقل هوئی هیں بالخصوص جو روایات پیش کی گئی هیں ان میں سندی اشکال اور خود اهل سنت کے محدثیں کی جانب سے ان روایات کے جھوٹ اور جعلی هونے کی تصریح کے علاوه دلالت کے اعتبار سے بھی مخدوش هے کیونکه هم دیکھتے هیں که صحابه کی سیرت میں اختلاف بلکه تناقص پایاجاتا هے اور کسے ممکن هے سیرت کے اس آشکار اختلاف کے باوجود ان کی سیرت بطور مطلق حجت قرار پائے .صحیح بخاری میں پیغمبر اکرم(ص) سے انس نے روایت کی که پیغمبر(ص) نے فرمایا:لیردن علی ناس من اصحابی الحوض حتیّ اذا عرفتهم اختلجوا دونی فاقول اصحابی فیقول لاتدری ما اخدثو بعدک .1کسےممکن هے اس روایت کے هوتے هوئے صحابه کی عدالت اور ان کی سنت کو حجت ماناجائے اور کسی طرح اس صحابی کی سنت کو ثابت کی جائے که جس نے فقط کچھ دن پیغمبر(ص) کے ساتھ گذار هیں کیا مصاحبت کا مرتبه ایمان سے بڑھ کر هے ؟جب ایمان کے لئے نهیں کها جاسکتا که ایمان عصمت اور گناهوں کے عدم ارتکاب کا باعث هے تو بھلا مصاحبت سے اسے معجزه کی کیسے امید رکھی جاسکتی هے .قابل غور بات یه هے که اهل بیت علیهم السلام سے دوری اور رسول(ص) علم کے باب هے اور اهل بیت علیهم السلام کی روایتوں سے دوری نے انهیں شرعی احکام کے استنباط کرنے میں مشکل اور گرفتاری میں ڈال دیا اور پھر خلفاء کے اعمال کو صحیح ثابت کرنے کے چکر میں عصمت صحابه جیسے امور کے قائل هوگئے اور انهی امور کو استنباط فقهی میں داخل کردیا جسکی وجه سے ایسی مشکلات کا شکار هوگئے جو آج تک ان کے دامن گیر هے .————–1- (مترجم)صحيح بحاري ، كتاب الرقاق ، باب في الحوض ، حديث نمبر1441.8 . میزان الاعتدال ، ج1 فص413/607 .9 .الاحکام ابن حزم،ج6 ، ص810 .10 . توبه ، 58 .11 . حجرات ، 6 .
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.