معجزہ
معجزہ کی ضرورتیہ ثابت ہو جا نے کے بعد کہ حکمت ِ الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے حواس وعقل کے ذریعہ جو معلومات حاصل کرتا ہے اس سے زیادہ معلومات اس کو حاصل ہوتو اب یہ معلومات لا محالہ کسی غیرمعمولی طریقہ یعنی وحی اور نبوت کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتی ہیں اور یہ ثابت ہوجانے کے بعد تمام انسان حامل وحی ہونے کی صلاحیت و استعداد بھی نہیں رکھتے مجبورا کچھ ہی افراد پر وحی نازل ہوگی اور دوسرے افراد با واسطہ طور پر ان سے استفادہ کریں گے اب یہ مسئلہ در پیش ہے کہ ہم کو یہ کیسے معلوم ہو کہ کس شخص پر وحی ہو ئی ہے ؟کیونکہ وحی کوئی قابل محسوس چیز نہیں ہے کہ جب کسی پر نازل ہوتو دوسرے افراد بھی اس کا مشاہدہ کریں اور سمجھ لیں کہ فلاں شخص پیغمبر ہے لہٰذا کوئی ایسا طریقہ ہونا چاہئے کہ جس سے ہم سمجھ جائیںکہ یہ شخص دوسروں سے ممتاز ہے اور حامل وحی ہونے کی استعداد رکھتا ہے اور خدا نے بھی اس پر وحی نازل کی ہے ۔یہاں جوجواب دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس پر خدا کی کوئی نشانی ہو نی چاہئے یعنی اس شخص کے رفتار وکردار واعمال اس چیز کی نشاندہی کرتے ہوں کہ وہ خدا سے رابطہ رکھتا ہے تو اس وقت قاعدہ (حکم الا مثال فیما یجوزوفیمالا یجوز واحد )کے مطابق ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح وہ اس سلسلے میں خدا سے رابطہ رکھتا ہے اس کے مثل دوسرے تمام امور میں بھی رابطہ رکھتا ہوگا ۔مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کے پاس کوئی معجزہ ہونا چاہئے جس سے لوگ سمجھ سکیں کہ پیغمبر خدا سے ربطہ خاص کے تحت وہ افعال انجام دے سکتا ہے جو دوسرے انسان انجام نہیں دے سکتے اور یہ معجزہ اس کوخداوند عالم نے عطا کیا ہے ۔اس وقت ان کی سمجھ میں آجائے گا کہ یہ شخص خدا سے رابطہ رکھتا ہے اور وہ اس (پیغمبر)کی باتوں کو قبول کر لیں گے ۔اس بارے میں کچھ مسائل زیر بحث آتے ہیں :١۔ معجزہ کیا ہے ؟٢۔کیا معجزہ عقلاً ممکن ہے ؟٣۔کیا معجزہ قانون علت کے ساتھ سازگار ہے ؟یا میل کھاتا ہے؟٤۔کیا پیغمبر کے لئے صاحب معجزہ ہونا ضروری ہے یا پیغمبر پر خدا کا محض ایک فضل ہے ؟٥۔کیاتمام انبیاء صاحب معجزہ تھے یا معجزہ بعض انبیاء علیہم السلام کے لئے مخصوص تھا ؟٦۔کیاصاحب معجزہ انبیاء علیہم السلام ابتدا سے ہی معجزہ دکھلا تے تھے یا جب ان سے معجزہ کا مطالبہ کیا جاتا تھا تو معجزہ دکھلا تے تھے ؟٧۔کیا معجزہ نبوت کی قطعی دلیل ہے یا عوام الناس کو قانع کرنے کے لئے ہے ؟٨۔کیا انبیاء علیہم السلام معجزہ دکھلا نے کے سلسلے میں لوگوں کا ہر مطالبہ قبول کرلیا کر تے تھے یا بعض مطالبوں کو قبول کرتے تھے اور بعض کورد فرمادیا کرتے تھے اور اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ؟٩۔کیا انبیاء علیہم السلام کے علا وہ کو ئی اور صاحب ِ معجزہ ہو سکتا ہے یا نہیں ؟١٠۔ انبیاء علیہم السلام اور غیر انبیاء کے معجزات کے با رے میں قر آ ن کے بیانات (اگر غیر انبیاء کے لئے صا حبِ معجزہ ہو نا قبول کر لیا جائے ) یہ وہ مسائل ہیں جن کا الگ الگ ایک سر سری جا ئزہ لینے کی ضرو رت ہے :
معجزہ کی حقیقتبغیر کسی شک و شبہ کے معجزہ ایک غیر معمو لی عمل ہے جو عادت کے خلا ف ظاہر ہو تا ہے چا ہے یہ کام خار جی دنیا سے تعلّق رکھتا ہو یا خبر کی صو رت میں سامنے آ ئے خبر دینا بھی ممکن ہے دنیا کے عام دستور کے خلا ف غیر معمو لی ذرائع سے ہو۔لیکن معجزہ کی حقیقی تعریف میں صرف اتنا ہی کافی نہیں ہے کیو نکہ انبیاء علیہم السلام کے علا وہ بھی بہت سے افراد مل سکتے ہیں کہ جنھو ں نے غیر معمو لی کام انجام دیئے ہیںاور ا ب بھی مو جو د ہیں جیسے ریاضت کش مرتا ض اور جادو گر وغیرہ جو غیر معمو لی کام انجام دیتے ہیں لیکن ان کے یہ افعال معجزہ نہیں ہیں ۔ اس لئے معجزہ کی تعریف میں یہ بھی بڑھا نا چا ہئے کہ وہ غیر معمو لی کام کہ جوعادت کے خلا ف ظہو ر ہو خدا کی طرف سے ہو نا چا ہئے اور چو نکہ ہم کو یہ معلوم نہیں کہ کو نسا عمل خدا کی طرف سے ہے اور کو نسا عمل خدا کی طرف سے نہیں ہے ۔معجز ہ کے لئے کچھ علا متیں مدّ نظر رکھی گئی ہیں:١۔معجزہ کسی بھی بڑی طا قت سے مغلو ب نہیں ہو تا ،عالم ِ طبیعت یعنی دنیا میں بہت زیا دہ علّت و معلو ل یا اسباب و اور مسبّب مو جود ہیں۔ایک علّت کسی شئے کے وجود میں ممکن ہے موئثر ہو لیکن اس سے زیادہ قوی کو ئی دوسری علّت کمزو ر علّت پر غالب آکر اس کے اثر کو روک سکتی ہے۔مثال کے طور پر آگ کاغذ کو جلا دیتی ہے لیکن اگر آگ پر پانی ڈالا جائے تو خود آگ بجھ جاتی ہے اس مقام پر ایک علّت ِمادی دو سری علّت پر غالب آجاتی ہے۔ عالمِ فطرت میں ایسے سیکڑوں بلکہ ہزاروں اسباب ومسبّبات ہیں جو دوسرے اسباب سے مغلو ب ہو جا تے ہیںلیکن معجزہ وہ ہے جس پر کو ئی بھی علّت غالب نہیں آسکتی نہ تو کو ئی دنیا وی چیز اس کو با طل کر سکتی ،نہ اسکے اثر کو زائل کر سکتی اور نہ ہی اس کو رو ک سکتی اور نہ ہی کوئی مادیّت سے ما وراء عمل اس میں کو ئی خلل اندازی کر سکتا فرض کیجئے کو ئی مرتاض یا جادو گر بہت زیادہ ریا ضت و مشقّت کے ذریعہ ایسی طاقت پیدا کر لے کہ وہ غیر معمو لی کام انجام دینے لگے مثال کے طور پر ہا تھ کے اشا رے سے چلتی ٹرین (ریل) روک دینے کی قوّت رکھتا ہو تو بھی اس طرح کی طاقتیں کبھی معجزہ کے سامنے ٹک نہیں سکتیں۔ کو ئی بھی مادّی یا ما دّیت سے ما وراء انسانی طا قت نہ معجزہ کے اثر کو بے کار کر سکتی ہے اور نہ ہی اس کی راہ میں رکا وٹ بن سکتی ہے ۔ یہ امارات میں سے ہے کہ یہ کام، خدا کا کام ہے ۔ ایک جا دو گر ہاتھ کے اشا رے سے چلتی ہو ئی ریل کو روک سکتا ہے لیکن ممکن ہے دوسرا اس سے بڑا جادوگر اس جادوگرکے جادوکو توڑ کرایک اشارہ سے ریل گاڑی کو چلا دے یا شروع میں ہی جب وہ ریل کو روکنا چاہتاہویہ اسکے اس جادو کو باطل کردے اور ایساہونا محال نہیں ہے کیو نکہ جس کی طاقت زیادہ ہوتی ہے وہ غالب آجاتا ہے اور کمزور کو مغلوب کر دیتا ہے لیکن معجزہ میں کوئی بھی بڑی سے بڑی طاقت معجزہ کے عمل میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ کیونکہ وہ طاقتیں اگر انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کوئی اور ہیں تو وہ خداوند عالم کی قدرت اور ارادہ کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتیں اوراگر بالفرض کوئی اور پیغمبر اس میں خلل اندازی کرنا چاہے گا تو یہ بھی اﷲکے ا مر کو توڑنے کے مترادف ہوگا اس لئے کہ جب خدا اپنی حکمت کے ذریعہ کسی پیغمبر کے یہاں معجزہ ظاہر کرنا چاہے گا تو کسی نہ کسی حکمت کے تحت ہوگا وہ حکمت کے بغیر معجزہ ظاہر نہیں کرتا اب اگر کوئی دوسرا پیغمبر آکر اس پیغمبر کے معجزہ کو روکنا چاہے تو اس سے خود خدا کے منشاء کی خلاف ورزی لازم آتی ہے جو ایک نبی کے لئے بعید ہے نتیجتاً معجزہ کبھی بھی کسی عامل سے مغلوب نہیں ہوسکتا۔٢۔معجزہ سیکھا اور سکھایا نہیں جاسکتا،معجزہ کوئی سیکھنے کی چیز نہیں ہے کہ کوئی پڑھکر یاد کرلے اور نہ ہی معجزہ میں ریاضت اور مشقت کی ضرورت ہے کہ کوئی زحمتیں اٹھاکر صاحب معجزہ بن جائے بلکہ یہ ایک الہٰی عطیہ ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے لیکن دوسرے غیر معمولی کام جو بعض افراد انجام دیتے ہیں وہ سیکھے اور سکھائے جاسکتے ہیں اور جب تک وہ افراد ریاضت کرتے رہیں گے ان سے نتیجہ حاصل کرتے رہیں گے ۔یہ سب اپنی ریاضت سے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ا ن کے کام خدائی کام نہیں ہیں اس کے بر عکس (تعلیم وتعلّم یاد نیوی اسباب سے مغلوب ہوئے بغیر) معجزہ کاظہور اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ امر خدا کے حکم سے ہے ۔اسی بناء پر اگر اس طرح کے کسی انسان کا تعارف کرایا جائے اور لوگ اس کی زندگی سے واقف ہوں کہ ا س نے اس کام کے لئے نہ کوئی ریاضت کی ہے نہ کسی سے پڑھا ہے اور نہ ہی کسی استاد سے سیکھا ہے اور وہ معجزہ دکھلائے تو لوگ آسانی سے قبول کرلیتے ہیں کیونکہ یہ قدرت الہٰی سے رونما ہوا ہے ۔بر فرض لوگوں کے درمیان کوئی نا آشنا پیغمبر ہو ( کیونکہ پیغمبر ہمیشہ اپنی ہی قوم کے درمیان سے مبعوث کئے جاتے تھے اور لوگ ان کو اچھی طرح پہچا نتے ہوتے تھے اور ان کی پوری زندگی لوگوں پر آشکار ہوا کرتی تھی پھر بھی فرض کر لیجئے کہ ) لوگ نہیں جانتے کہ اس پیغمبر نے کسی سے سیکھا اور پڑ ھا لکھا ہے یا نہیں تو لوگ اس کے معجزہ کا توڑ کرنے والوںسے مدد حاصل کرکے مقابلے کرسکتے ہیں کہ کوئی اس پر غالب آسکتا ہے یا نہیںاگر کوئی غالب آجائے تو معجزہ معجزہ نہیں ہوسکتا جیسے حضرت موسی ٰ علیہ السلام کا معجزہ فرعون کے جادوگر جس کے مقابلہ پر آگئے تھے اور انھوں نے دیکھ لیا کہ وہ سب مغلوب اور بے بس ہیں ۔یہ سب اس بات کی نشانی ہے کہ یہ انسان کا کام نہیںہے بلکہ انسان کے بس سے باہر ہے ۔لہٰذا مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں : (معجزہ وہ غیرمعمو لی فعل ہے جو قدرت الہٰی کے پر تو میں انجام دیا جاتا ہے اور معجزہ کی دو علامتیں ہیں :١۔کسی سے سیکھ کر یا سکھاکر حاصل نہ ہوا ہو۔٢۔ کسی بھی دوسری قوت سے مغلوب نہ ہو ۔
کچھ سوالوں کے جوابات
١۔سوال : کیا معجزہ نبوت کے دعوے سے وابستہ ہے یا نہیں ؟یہ انبیا ء علیہم السلام سے مخصوص نہیں ہے ،انبیاء علیہم السلام کے علاوہ دوسرے افراد بھی معجزہ دکھلاسکتے ہیں؟ یقینا ہم اس موضوع پر بعد میں تفصیلی بحث کریں گے لیکن یہاں اجمالی طور پر اتنا عرض کردینا چاہتے ہیں کہ معجزہ کے لئے دو اصطلاحیں ہیں : اگر چہ لفظ معجزہ قرآنی اصطلا حوں میں سے نہیں ہے بلکہ معجزہ کا لفظ علما ئے اصول دین کے درمیان رائج رہا ہے لیکن انکے درمیان بھی معجزہ کے لئے دو اصطلا حیں رائج رہی ہیں۔١۔معجزہ کی وہ شکل جو خاص معنی میں ا نبیاء علیہم السلام سے مخصوص ہے اور نبوّت کے دعوے سے وابستہ ہے ۔٢۔معجزہ کی وہ شکل جو عام معنی میں ہے اور جس کی ہم ائمہ علیہم السلام کی طرف نسبت دیتے ہیں کہ وہ اگرچہ پیغمبر نہیں تھے لیکن وہ خدا کی اجا زت سے معجزے انجام دیا کر تے تھے۔ظاہر ہے کہ غیر نبی کی طرف سے معجزہ کی نسبت ادّعا ئے نبوّت کے ساتھ برابر نہیں ہے اس بناء پر جب ہم معجزہ کو نبوّت کی دلیل کے عنوان سے پیش کر تے ہیں تو اس کی خاص اصطلا ح مدّ نظر ہو تی ہے یعنی جو کچھ پیغمبر اپنی نبوّت کی دلیل کے عنوان سے پیش کر تا ہے اور جب ہم اس کو غیر انبیاء سے منسوب کرتے ہیں تو اس کے عام معنی مراد ہو تے ہیں یعنی ہر وہ غیر معمو لی کام جو قدرت َالہٰی کے پر تو میں (الٰہی منصب ) نبوّت یا امامت کو ثابت کر نے کے لئے انجام دیا جاتا ہے چا ہے وہ فعل کسی نبی کے ذریعہ انجام پائے یا کسی غیر نبی کے ذریعہ انجام دیا جائے ۔
٢۔کیامعجزہ عقلی طور پر ممکن ہے یا نہیں ؟کچھ افراد کہتے ہیں کہ معجزہ عقلی طور پر ممکن نہیں ہے کیو نکہ یہ قانو ن علیت کے خلا ف ہے یعنی یہ مسئلہ دوچیزوں میں منحصر ہو جاتا ہے کہ یا تو ہم قانو ن علّیت کو تسلیم کریں اور معجزہ کا انکار کر دیں یا معجزہ کو قبو ل کریں اور قانون علیت کو تسلیم نہ کریں ۔یہ افراد کہتے ہیںکہ قانون علیت کو تسلیم کر نے کا مطلب یہ ہے کہ ہر معلو ل کی مخصوص علّت ہوتی ہے جو اس کے وجو د یا ظہور کا سر چشمہ قرار پاتی ہے مثلاً حرارت کا سر چشمہ آگ ہے ۔اس بناء پر یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ حرارت یا (گرمی ) برف سے پیدا ہوتی ہے۔اسی طرح گھاس کا اگنا ،خود زندگی کا وجود ، انسان کا زندہ ہونا ،مرنا ، بیمار ہونا اور شفا پانا ان تمام عوارض یا معلو لوں کا سر چشمہ ان کی مخصوص علّتیں ہو تی ہیں ۔اگر ہم یہ تسلیم کرلیں کہ کوئی چیز علت و معلول کے اس قانون کے بغیر وجود پاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو ا کہ ہم قا نو نِ علّیت کو تسلیم نہ کریں اس سلسلہ میں سادہ اندیشی کے کئی جوابات دیئے گئے ہیں جو بحث کے قابل نہیں ہیں ۔مثال کے طور پر کہتے ہیں کہ یہ ایک استشنائی مسئلہ ہے یعنی ہم قانون علیت کو قبول کرتے ہیں لیکن یہ اس سے آزاد اور مستثنیٰ ہے یہ ایک عامیانہ سی بات ہے کیونکہ اگر قانون علیت ایک عقلی قانون ہے تو اس میں استشناء کا سوال نہیں پیدا ہوتا ۔اس لئے ہم اس طرح کے جوابوں سے قطع نظر کرتے ہیں ۔ ان جوابات کی کوئی علمی حیثیت نہیں ہے ۔پس معترض کا کہنا یہ ہے کہ آپ نے جو معجزہ کی تعریف کی ہے اس سے قانون علیت کا ٹوٹنا لازم آتا ہے اور قانون علیت کا ٹوٹ جانا اس کے معتبر نہ ہونے کے برابر ہے یعنی اگر ایک جگہ بھی استثنا ء یا جدا گا نہ مسئلہ کی بات کی گئی تو اس سے ثابت ہوگا کہ علیت و معلولیت کا وجود ضروری ہی نہیں ہے جبکہ قانون علیت کے کچھ فروعات ہیں (اور منجملہ ان کے ایک فرع کا لازم و ضروری ہونا بھی ہے) یعنی کسی معلول کا اپنی علت تامّہ کے بغیر متحقق ہونا محال ہے تو اب آپ جو کہتے ہیں کہ ایک جگہ آگ گلزار بن گئی یعنی بغیر پانی کے آگ بجھ گئی اور آگ کی جگہ بغیر بیج ڈالے گلستان تیار ہوگیا تو اس کا مطلوب یہ ہوگا کہ قانون علیت ٹوٹ گیا اور آگ کے اندر سے بھی پھولوں کا کھلنا ممکن ہے اور اس سے قانون علّیت سے کسی مسئلہ کے استشناء کا مطلوب قانون علّت کی ضرورت کا انکار ہے۔یعنی اپنی علّت تامّہ کے بغیر پھول کھل اٹھیں یا دوسری جانب آگ کی علّت تامّہ جلا ناہے لیکن وہ نہیں جلاتی یعنی وہ اپنی علت تامّہ سے منفک (جدا)ہوجاتی ہے ۔اس کا صاف سا مطلب قانون علّیت کا انکار ہے ۔شاید اسی وجہ سے (اشاعرہ )نے قانون علّیت کا انکار کرتے ہوئے کہا تھا :(جس چیز کو ہم علّت سمجھتے ہیں۔خدا کی سنّت ہے ہم یہ جو دیکھتے ہیں کہ چراغ کے جلتے ہی کمرہ میں روشنی ہوجاتی ہے تو چراغ جلنے اور کمرہ میں روشنی ہونے کے درمیان کسی طرح کا رابطہ نہیں ہے بلکہ یہ خدا کی سنّت ہے جو اس طور پر جاری ہے کہ جب آپ چراغ جلائیں گے توکمرہ میں روشنی کرے گا )لہٰذا معجزات اور غیر معمو لی امور کے بارے میں اشاعرہ کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں اور وہ کہتے ہیں :کسی طرح کی علّیت کا وجود نہیں ہے بلکہ ایک فعل خدا کی سنّت کے خلاف انجام پایا ہے اور خلاف سنت کام انجام پا نا محال نہیں ہے ،اب تک خدا کی سنت رہی ہے کہ اس طرح کی رفتار اپنا ئے لیکن بعض مواقع پر وہ سنّت کے خلا ف بھی عمل کر تا ہے ۔بنا بر این اشا عرہ نے اس اعتراض کے جواب میں اس قضیہ کی دو شقو ں میں سے ایک شق کو قبول کر لیا اور وہ علیت حقیقی کا انکار ہے ۔ان کے مقابل کچھ افراد قانون علیت کو قبول کر تے ہیں اور معجزات کا انکار کر تے ہیں یعنی قرآن میں بیان ہو نے والے معجزات کی مختلف طریقو ں سے تا ویل کیا کر تے ہیں (چنانچہ مختلف بحثو ں کے ضمن میں ہم نے ان کے طریقۂ کار کے با رے میں اشارہ کیا ہے )مثال کے طور پر انھو ں نے بنی اسرائیل کے دریا سے پار ہو جا نے کی دریا ئے نیل کے جزر و مد سے تاویل کی ہے اور اسی طرح سے دوسری چیزیں بھی بیان کی ہیں ان لوگوں نے بھی ان دو شقو ں میں سے اس کو قبول کیا ہے کہ معجزہ کو ئی چیز نہیں ہے اور قرآ ن کر یم میں جو کچھ اس بارے میں بیان ہوا ہے وہ مجاز اور استعا رہ کے طور پر بیان ہوا ہے اور معجزہ کا عقیدہ رکھنا در اصل خرا فات ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
صحیح جواب کیا ہے؟!صحیح جواب یہ ہے کہ قانون علیت اپنی جگہ باقی ہے اور استثناء کی بھی گنجائش نہیں ہے ۔معجزہ بھی ایک ایسی حقیقت ہے جو قانون علیت سے منافات نہیں رکھتا اس کو یوں سمجھئے :قرآن (جیسا کہ ہم نے توحید کی بحث میں بیان کیا ہے )قانون علیت کو پوری طرح تسلیم کرتا ہے ۔ اس طور پر کہ نہ تو دو سری چیزوں کے طول میں خدا کی فاعلیت کا انکار کرتا اور نہ ہی اس سے معجزات اور خلا ف عادی افعال کی نفی لا زم آتی ۔ہم یہاں مجمل طور پر اشارہ کر دیں کہ قانون علیت کے دو معنی ہیں :١۔کو ئی بھی معلول علت کے بغیر وجود میں نہیں آتا ہر معلول علت کا محتاج ہے۔قدر متیقن علت فاعلی کا محتاج ہو تا ہے اور اگر معلول مادی ہو تو علت ما دی اور صوری کا بھی محتاج ہے اور اگر کام کر نے والا کو ئی حکیم ہے تو علت غائی بھی ضروری ہے۔بہر حال بحث علت فاعلی سے ہے اور ہر معلول کے لئے علت فاعلی ضرو ری ہے اس قانون کو کو ئی توڑ نہیں سکتا اس کے ایک بدیہی معنی ہیں کہ اگر ایک چیز اپنے آ پ وجود میں نہیں آ تی تو لا محالہ کسی اور نے اس کو وجود بخشا ہے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام چیزیں عام اسباب یا علتو ں کے ذریعہ ہی وجود پا ئیں بلکہ یہ قا نون صرف اتنا کہتا ہے کہ ہم ہر معلول کے لئے ایک علّت کے قا ئل ہو ں اور اسی طریقہ سے ہم اس پو ری دنیا کے وجو د سے خدا کے وجو د کا یقین حاصل کر تے ہیں ۔علیّت خدا اس لئے ہے کہ دنیا معلول ہے دنیا کا وجود محتاج ہے اور بغیر علّت کے وجود نہیں پا سکتا ۔٢۔قانون علیت کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ ہم معلول کی ایک خاص علت بیان کر یں کہ اس معلول کے وجود کے لئے اس علت کا ہونا حتمی اور ضروری ہے یقینا کلی طور پر علت ومعلول کے درمیان سنخیت پائی جاتی ہے لیکن عقل بغیر تجربہ کے کبھی بھی ایک وجود کے لئے کوئی ایک ایسی علت مقرر نہیں کرسکتی کہ جس پر وہ وجود منحصر ہوعام طور پر اشیاء کی مخصوص علتیں تجربوں کے ذریعہ معین کی جاتی ہیں ۔عام طور پر اس لئے کہا گیا ہے کہ ممکن ہے کوئی غیب کے ذریعہ سمجھ لے )اور تجربہ بھی کسی وجود کی مخصوص منحصر علت کو ہرگز تمام زمانوں میں ہر جگہ ثابت نہیں کرسکتا کیونکہ انسان کا تجربہ محدود ہے ہم سیکڑوں اور ہزاروں تجربے بھی کر ڈالیں تب بھی عقل کہتی ہے کہ ممکن ہے یہ وجود کسی اور ایسے طریقہ سے بھی حاصل ہوجائے کہ جس کا علم ہم نہیں رکھتے شاید ہزاروں سال تک انسان یہ سوچتا رہا کہ حرارت آگ کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے حاصل نہیں ہوسکتی اور شاید آگ کے کشف ہونے سے پہلے وہ اس فکرمیں رہا ہو کہ آ فتاب کے علا وہ کسی اور چیز سے حرارت حاصل نہیں ہوسکتی لیکن جب آگ کا انکشاف ہوا تو معلوم ہوا کہ اس سے بھی حرارت حاصل ہو تی ہے اور آج دوسرے متعدد طریقو ں سے حرارت پیدا کی جا رہی ہے۔بہت سے کیمیائی عمل ورد عمل سے حرارت پیدا کر دیتے ہیں ۔ دو چیزوں کے ٹکرا نے یا رگڑ نے یا حر کت دینے سے حرارت پیدا ہو تی ہے اور ممکن ہے اس کے علاوہ دوسرے طریقہ سے بھی حرارت پیدا ہو تی ہو جس کوہم نہیں جا نتے۔معلو م ہوا تجر بہ کبھی بھی ہر زمانہ اور ہر جگہ کے لئے علت منحصرہ کا اثبات نہیں کر تا ۔اب اگر لوگ خیال کر تے ہوں کہ ایک فرشتہ کے وجود کی ایک مخصوص علّت ہے اور پھر اسکی کو ئی اور نئی علّت معلو م ہو جائے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قا نون علّیت ٹوٹ گیا ؟ایک وجود کے لئے کو ئی نہ کوئی علّت ہو نے کا قا نون تو بدیہی تھا لیکن کسی مخصوص علّت کی نشاندہی نہیں کر رہا تھا ۔صرف اتنا بتا رہا تھا کہ کوئی معلول بغیر علّت کے وجود میں نہیں آسکتا لیکن وہ علّت کیا ہے قا نو ن علّیت نے نہیں بتا یا تھا ؟جب ایک نئی علّت پتہ چلی تو ہم سمجھ گئے کہ پہلے والی علّت (علّت منحصرہ ) نہیں تھی بلکہ اس معلول کے لئے اس علّت کی جگہ اُس علّت سے بھی استفا دہ کیا جا سکتا ہے ۔اب اگرہم یہ تسلیم کر لیں کہ بیمار ہمیشہ دوا کھا نے سے ہی صحتیاب نہیں ہوتا بلکہ اس کے دوسرے طریقہ بھی ہو سکتے ہیں تو اس سے قانو ن علّیت نہیں ٹوٹتا ۔ایک بے جان پیکر کے جاندار جسم میں بدلنے کا ایک فطری طریقہ یہ ہے کہ وہ جاندار کے جسم کا حصّہ بن جا ئے اور نطفہ یا بیج کی شکل اختیار کرے اور پھر ایک جاندار میں تبدیل ہو جائے ۔ اب اگر کو ئی اور طریقہ بھی ہو کہ جس سے ایک بیجان وجود جاندار میں تبدیل ہو جائے تو اس سے قا نون علیت نہیں ٹوٹتا بلکہ اس کوایک نئی علَّت کا انکشاف کہا جا ئے گا ایسی صورت میں نئی علّت کی دو صو رتیں ہیں :ایک تو یہ کہ وہ علّت علمی انکشافات کی ما نند صرف مادی ہو جو مثلاًآواز اور تصویر کی منتقلی کے طریقوں کی صورت میں رو نما ہوا کر تی ہے اور ہر ایک اس سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔یہ وہ مادی اور قدرتی علّتیں ہیں جن کا علم پہلے نہیں تھا اور اب ان کی شناخت ہو ئی ہے لیکن کبھی کبھی علّتیں تحصیل کے قابل ہو تی ہیں اور کچھ لوگ ان کو حاصل بھی کر لیتے ہیں لیکن وہ علّتیں مادّ ی علّتو ں کے مثل نہیں ہوتیں ۔جیسے وہ نفسانی قوّتیں جو اہل ریاضت حاصل کر تے ہیں وہ بھی عالم ما دیّت میں ایک وجو د کی پیدائش کے لئے ایک علّت اور سبب ہے لیکن خود علّت کو ئی مادی وجود نہیں رکھتی بلکہ ایک غیر مر ئی نفسیاتی عمل ہے اور اس سے بھی قا نو ن علّیت کا ٹوٹنا لا زم نہیں آ تا بلکہ ایک نئی علّت کا انکشاف ہے ۔ہاں بس ایک مادی وجود کے لئے ایک غیر مادی علّت ہے ۔ ان سب سے بالا تر ایک معنوی علّت ہے جو قابل تحصیل اور سیکھنے سکھا نے کی چیز نہیں ہے بلکہ خالص الہٰی عطیہ ہے وہ بھی ایک طرح کی علت ہی ہے چنانچہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک پیغمبر نے مردہ کو زندہ کردیا تو اس کا مطلب ہے کہ خداوند عالم نے ایک قوت اس پیغمبر کو عطا کی تھی اور پیغمبر نے خدا کے اذن سے اس قدرت کا استعمال کیا تھا یہی قدرت ایک علت ہے کیو نکہ ایک نئی چیز کے وجود ،مردہ کے زندہ ہونے اور مریض کے صحتیاب ہونے میں موثر ہوئی ہے ۔پیغمبر نے خداوند عالم کی عطا کردہ اس نفسانی قوت کااستعمال کیا ہے جو خدا نے اس کو عطا کی ہے لیکن وہ سیکھنے سکھانے کی چیز نہیں ہے اور نہ ہی دوسروں کی اس تک رسائی ہوسکتی ہے لیکن بہر حال وہ ایک علت ہے لہٰذا خلاصئہ جواب یہ ہوا :معجزہ کا تسلیم کرنا قانون علیت کا نقض نہیں ہے بلکہ مادی موجودات کے لئے ایسی علت کا تسلیم کرنا ہے جو مادی علتوں کی جنس سے نہیں ہے بلکہ ایک معنوی علت ہے جو پروردگار نے اپنے لطف کے تحت عطیہ کے طور پر پیغمبر کی ذات میں ودیعت کی ہے اور وہ قابل تعلیم و تعلم بھی نہیں ہے ۔
٣۔کیا انبیاء علیہم السلام کا صاحب اعجاز ہونا ضروری ہے ؟یہ بات تو واضح ہوگئی کہ معجزہ کسے کہتے ہیں اور یہ کہ معجزہ قانون علیت سے کوئی تنا قض نہیں رکھتا اور اعجاز آمیز امور کا ظہورمحال نہیں ہے نہ محال ذاتی ہے اور نہ محال وقوعی، محال ذاتی اس لئے نہیں ہے کہ اس فرض سے تنا قض لازم نہیں آتا اور محال وقوعی اس لئے نہیں ہے کہ اس کی علت کا متحقق ہونا ممکن ہے چنانچہ معجزہ کے فرض کرنے کا مطلب کسی علت کے بغیر معلول کا فرض کر لینا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسے معلول کے وجود کو ہم نے تسلیم کیا ہے کہ جس کی علت سے ہم واقف نہیں ہیں اور یہ عقلا محال نہیں ہے ۔اب سوال پیش آتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا صاحب اعجاز ہونا ضروری ہے یا نہیں ؟اگر خدا تمام انبیاء کو معجزہ کے بغیر ہی بھیج دیتا تو نہ کوئی اعتراض کرتا اور نہ ہی الہٰی غرض فوت ہوتی اور نہ ہی حکمت الٰہی کے خلاف ہوتا ۔جی ہاں بعض حضرات یہ خیال کرتے ہیں کہ جب انبیاء علیہم السلام کی دعوت حق ہے اور ان کی تعلیمات انسان کی عقل اور فطرت کے موافق ہے تو ایسی صورت میں جیسے ہی وہ لوگوں کے درمیان سے مبعوث کئے گئے اور انھوں نے حق باتیں بیان کیں لوگوں کو قبول کرلیناچاہئے اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے کہ لوگ محسوس کریں کہ یہ باتیں غیب کے ذریعہ غیر معمولی ذرائع سے پہنچی ہیں۔فرض کیجئے کہ کوئی شخص پیغمبر کی نبوت پر اعتقادنہیں رکھتا لیکن اس کی تعلیمات کے مطالب کو تسلیم کر تا ہے ۔پیغمبر کہتا ہے : سچ بو لووہ کہتا ہے : ہاں سچ بو لنا اچھی بات ہے ہم یہ بسر و چشم قبو ل کر تے ہیں ہمیشہ سچ بو لیں گے۔پیغمبر نے کہا : اپنی لڑ کیوں کو قتل نہ کرو ۔وہ کہتا ہے :ہاں صحیح ہے ۔اپنے بچو ں کو قتل نہیں کر نا چا ہئے ۔پیغمبر کہتا ہے : خدا کے سا منے سر جھکا ئو ۔وہ کہتا ہے : با لکل ٹھیک ہے ۔خدا وند عالم نے ہم سب کو پیدا کیا ہے اس کے بدلے ہم کو خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے ہم اس کی پرستش کر نے کو تیار ہیں ۔پیغمبر نے کہا :روزہ رکھو ۔وہ کہتا ہے :ہاں روزہ صحت و تند رستی کے لئے مفید ہے ۔پوری رضا و رغبت کے ساتھ ہم روزہ رکھیں گے ۔بنا بر این چونکہ انبیاء علیہم السلام کے تمام دستو رات و احکامات عقل اور فطرت کے مطابق ہیں اور لوگ ان کو تسلیم کر تے ہیں تو پھر انبیاء علیہم السلام کو لو گو ں کے سامنے غیر معمو لی افعال انجام دینے کی ضرور ت کیا ہے ؟گویا معترض یہ کہنا چا ہتا ہے کہ با لفرض معجزہ کا امکان پایا بھی جاتا ہو تو اس کی ضرورت کیا ہے؟ معجزہ ممکن ہونے کی صورت میں خدا نے کسی کو معجزہ دیدیا ہوتو یہ اس پر خداوند عالم کا فضل واحسان ہے ورنہ اتمام حجت معجزہ پر موقوف نہیں ہے ۔جواب : اس طرح سے سوچنا صحیح نہیں ہے کیو نکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ا نبیاء علیہم السلام کی دعوت عقل وفطرت کے موافق ہے لیکن کیا تمام انسان تمام صورتوں میں اس مطابقت کو سمجھتے یا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ؟اگر تمام صورتوں میں تمام انسان اس قدر آسانی سے عقل وفطرت کی تعلیمات کو سمجھ لیا کرتے تو پھر پیغمبر کو مبعوث کر نے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی لوگوں کی ہدایت کے لئے عقل ہی کافی ہوتی ہاں کچھ کلیات ہیں مستقلات عقلیہ جو عقل کے نزدیک مسلمات میں شمار ہوتے ہیں اور اس سے ملتی جلتی چیزیں موجود ہیں جن کو آسان دلیلوں کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے اور کسی حدتک عقل درک کرتی ہے جیسے :(وَزِ نُوْا بِالْقِسْطَا سِ الْمُسْتَقِیْمِ ذَ الِکَ خَیْروَاَحْسَنُ تَاوِیْلاً)”اور جب کچھ بیچنا ہوتو بالکل صحیح ترازو سے تو لا کرو (ہر گز کم نہ تولنا )یہی(طریقہ )بہتر ہے اورانجام (بھی اسکا)اچھا ہے” ۔اس کو توتمام لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن انبیاء علیہم السلام کی دعوتِ تبلیغ میں سب کچھ اس کے مثل نہیں ہے در اصل نبیوںکو مبعوث کر نے کی ضرورت بھی اس لئے پیش آئی کہ جن چیزوں کو عقل نہیں سمجھتی انبیاء علیہم السلام ان چیزوں کو انسانوں کو سمجھائیں اﷲ کے احکام کا فطرت کے مطابق ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام انسان اس مطابقت کو خود درک کر لیں گے مثال کے طور پرکیا تمام لوگ بذات خودیہ سمجھ سکتے ہیں کہ صبح کی نماز دو رکعت کیوں ہے ؟نہیں ایسا نہیں ہے اگر ہم ساٹھ سال تک بھی اپنے ذہن پر زور ڈالتے رہیں آخر تک ہم نہیں سمجھ سکتے کہ صبح کی نماز کیوں دو رکعت ہے ؟ اور کس دلیل کے تحت صبح کی تین رکعت نماز پڑھنا باطل ہے ؟اور اس کے بر عکس مغرب کی نماز تین رکعت کیوں ہے ؟ اس چیز کو عقل نہیں سمجھ سکتی اس بنا پر انبیاء علیہم السلام کی ہر بات کو تمام لوگ عقلی طور پر نہیں سمجھ سکتے لہٰذا ان کو لا محالہ حکم خدا کے طور پر سمجھنا ہوگا انبیاء علیہم السلام کی دعوت تبلیغ میں بہت سی باتیں جو سمائی ہوئی ہیں اسی طرح کی ہیںاور انبیاء علیہم السلام کو مبعوث کرنے کی اصل ضرورت یہی تھی کہ جن چیزوں کو لوگوں کی عقل درک نہیں کرتی وہ آکر ان کو سمجھائیں۔اس طرح کی چیزوں کو تمام لوگ اپنی عقل کی روشنی میں کیسے تسلیم کرسکتے ہیں؟ ہاں ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کے ہماری عقل اس چیز کومحسوس کرتی ہے کہ اگر اس نے انبیاء علیہم السلام کے حکم پر عمل کیا تو اس کے بدلے میں جو انھوں نے وعدہ کئے ہیں اور ثواب وعذاب کے جو احتمالات ہیں ان میں ہمارا کوئی نقصان نہیں ہے لیکن احتیاط کا مسئلہ اس سے الگ ہے کہ عقل اس کے وجود کو اس طر ح سمجھ لے کہ صحیح معنی میں اس کے لئے حجت تمام ہوجائے کہ اگر یہ کام انجام نہ دیا تو یقینا مواخذہ کیا جائے گا اس کو عقل نہیں سمجھ سکتی ۔بنا بر این تمام لوگوں پر انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ خدا کی حجت تمام ہو جانے کے لئے خدا کی ایک ایسی نشانی کا ہونا ضروری ہے اگر وہ نشانی نہ ہو تو تمام لوگوں پر خدا کی حجت تمام نہ ہو۔کیونکہ بہت سے مسائل ایسے ہیںکہ جن کا صحیح ہونا عقل بشر درک نہیں کرسکتی اور اس کے لئے خدا کی حجت تمام نہیں ہوتی ۔نتیجہ کے طور پرانبیاء علیہم السلام کی تمام دعوت ِتبلیغ لوگوں کے لئے ثابت اور لازم ہونے اور ان پر حجت تمام ہوجانے کے لئے ضروری ہے کہ پیغمبر کی نبوت کووہ سمجھ لیں اور پیغمبر کوسمجھنا اس چیز پر موقوف ہے کہ ان کے پاس نبوت کی کوئی نشانی ہو اور وہ نشانی خداکی طرف سے ہو جو عام طور پر لو گوں میں نظر نہ آتی ہو۔جب لوگ پیغمبر کے پاس اس طرح کی کسی نشانی کا مشاہدہ کریں گے تو فو راَ سمجھ جائیں گے کہ جس وحی کا یہ پیغمبر ادّعا کررہا ہے و ہ بھی خدا کی طرف سے ہی ہو جیسے تمام عقلا ء اپنی زندگی میں اپنی نشانیاں کام میں لاتے ہیں ۔اگر کو ئی شخص آپ کے پاس آکر یہ کہے کہ (میں آپ کے پاس فلاں شخص کا یہ پیغام لیکر حاضر ہوا ہوں کہ آپ فلاں چیز مجھکو دیدیجئے )توآپ اس سے یہی سوا ل کریں گے کہ :آپ کے پاس فلاں شخص کے پاس سے آنے کا کیا ثبوت ہے ؟اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا کو ئی خط یا کو ئی نشانی ہونا چاہئے یا وہ کوئی ایسی چیز جانتا ہو جسکا اس شخص کے علاوہ او ر کسی کو علم نہ ہو یا اس پیغام رساں کے ہاتھ میں کوئی ایسی چیز ہو جو فلاں شخص سے مخصوص ہو اگر اس طرح کا کو ئی ثبوت پیغام بر کے پاس مل جا ئے تو ظاہر ہے کہ اس کا فلاں شخص سے رابطہ ثابت ہو جا ئیگا ۔ بہر حال نشانی طلب کرنے کا مقصد پیغام کی صداقت کا پتہ چلا نا ہے لیکن اگر پیغام بر کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو تو پیغام رساں کے پیغام کو قبول کر نا لازم نہیں ہے حتی کہ اگر آ پ نے امانت اس کے سپر د کر دی تو خود اس کے ذمہ دار ہو ں گے ۔خدا جب پیغمبر کو لو گوں کے در میان مبعوث کر تا ہے تو وہ لو گوں سے جان، مال ،افکار ،عقائد اور ایک لفظ میں پوری ہستی کا طالب ہو تا ہے ۔ یہ سب خدا کے اموال ہیں جو انسانو ں کے پاس امانت کے طور پر ہیں اب اگر کو ئی شخص آ کر یہ کہے کہ یہ سب کچھ مجھے دیدو اپنی جان فلاں جگہ قر بان کر دو اپنا مال فلا ں جگہ خرچ کر دو کیو نکہ یہ سب خدا کی امانتیں ہیں تو جب تک ہم یہ نہ سمجھ لیں کہ یہ شخص خدا کا پیغمبر ہے ہم اس کو یہ چیزیں دینے کا حق نہیں رکھتے ۔ اسی لئے نبی کے پاس کو ئی الہٰی نشانی ہو نا چاہئے اور یہ ایک فطری امر بھی ہے اور اسی لئے قر آ ن کریم میں بہت سی قو موں سے نقل ہوا ہے کہ جب ان کے در میان انبیاء علیہم السلام مبعوث کئے جا تے تھے تو وہ ان سے نبوّت کی نشانی کا مطالبہ کیا کرتے تھے :(فَأْتِ بِآیَةٍاِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ )(١)”اگر آ پ سچّے ہیں اور خد ا کے نبی ہیں تو آ پ کے پاس کو ئی نشا نی ہو نا چا ہئے ”۔اس بنا ء پر انبیاء علیہم السلام کا صاحب اعجاز ہو نا ضرو ری ہے ‘جب تک ان کے پاس نبوّت کی نشانی نہ ہواسوقت تک لوگوںپرحجت تمام نہیںہوسکتی ؟
٤۔ اب سوال یہ ہے کہ: کیا تمام انبیاء علیہم السلام صاحب معجزہ تھے یا معجزہ بعض انبیاء علیہم السلام سے مخصوص تھا ؟تو یہ سوال پیش آتا ہے کہ پھر تمام انبیاء علیہم السلام کی دعوت ِتبلیغ کیسے قابل تسلیم ہو گی اور لو گو ں پر کیسے حجت تمام ہوگی؟ہمیں ان سوالات کا کہیں عقلی اعتبا ر سے اور کہیں قرآ ن کریم کی آ یات کی روشنی میں جا ئزہ لینا چا ہئے ۔ابتک ہماری بحث عقلی تھی ۔ہم اجمالی طور پر پہلے عرض کئے دیتے ہیں کہ کوئی ایسی آ یت کہ جس میں صاف طور پر یہ بیان کیا گیا ہو کہ ہر پیغمبر صاحب معجزہ تھا ہم کو قرآ ن ِکریم میں نہیں مل سکی اس صورت میں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ اگر یہ صحیح ہے کہ بعض انبیاء علیہم السلام صا حب اعجاز نہیں تھے اس لئے کہ (دلیل کا نہ ملنا وجود کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے ) ٢٤ یا ٢٥ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ بقیہ انبیاء علیہم السلام کے نام کا قرآن میں کوئی تذکرہ نہیں ہے جبکہ نبی ایک لاکھ چوبیس ہزار ہیں تو بقیہ انبیاء علیہم السلام کے اسمائے گرامی کا قرآن میں ذکر کیوں نہیںآیا ؟اس سے بڑھکر یہ کہ قرآن کریم میں جن انبیاء کا ذکر ہے ان کی تمام خصوصیات کا بیان ہوا ہو، لازم نہیں ہے ۔کچھ کو صاحب ِمعجزہ کہا ہے اور کچھ کے بارے میں صاحبِ اعجاز ہونے کا بیان نہیں ہے ۔ معلوم ہوا کہ صرف قرآن کا بیان نہ کرنا ان کے صاحب معجزہ نہ ہونے کی دلیل نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ عقلی طور پر ہر پیغمبر کا صاحب اعجا ز ہو نا ثابت کرسکتے ہیں ؟ یا نہیں ۔ ممکن ہے، کچھ انبیاء علیہم السلام صاحب معجزہ نہ ہوں اور اس میں عقلی طو ر پر کو ئی حرج بھی نہ ہو ، نبوّت کی ضرو رت پر ہما ری دلیل یہ تھی کہ اگر معجزہ نہ ہو گا تولو گو ں پر حجت تمام نہیں ہو گی۔یہ دلیل آیا تمام انبیاء علیہم السلام کے لئے ہے یا نہیں ؟ فرض کیجئے کہ ایک نبی آ یا اور معجزہ بھی ساتھ لا یا اور ثابت ہو گیا کہ وہ نبی ہے اب اپنے بعد وا لے پیغمبر کا وہ تعا رف کر ائے اور کہے کہ میں دنیا سے جا نے والا ہوں میرے بعد فلاں شخص نبی ہے، توکیا اس آنے والے…………..١۔سو رئہ شعراء آیت ١٥٤۔پیغمبر کے لئے بھی معجزہ پیش کر نے کی ضرو رت ہے؟ بظاہر اس کو معجزہ دکھا نے کی کو ئی ضرورت نہیں کیو نکہ جس طرح اس سے پہلے نبی کی نبوّت ثابت ہو ئی تھی جو کچھ بھی وہ خدا کی طرف سے بھیجے جا نے کا ادّ عا کرے گا اس کا صحیح ہو نا ثابت ہو گا اگر نبی ہو نا، جو کچھ اس پر وحی ہو ئی ہے خدا کی طرف سے قبول کئے بغیر ہو تو معجزہ کا کو ئی فائدہ نہ ہوگا۔اس لئے کہ معجزہ جو کچھ خدا وند عالم نے اس پر نازل کیاہے اس کی حقّانیت کی نشانی کے طور پر ہی پیش کیا جاتا ہے (اب اگر فرض کیجئے کہ بعض چیزیں وہ اپنی طرف سے بیان کر تا ہے تو ان کا اتّباع ضرو ری ہے یا نہیں؟ یہ دوسرا مسئلہ ہے لیکن اس حد تک یقینی ہے کہ جو با تیں وہ خدا کی طرف سے ہو نے کا ادّ عا کر رہا ہے ان کو تسلیم کرنا چاہئے اور حجت تمام ہے ور نہ ہر لفظ کے لئے تو معجزہ پیش نہیں کیا جا سکتا ۔مثال کے طور پر اگر ایک پیغمبر خدا کی طرف سے معجزے لیکر آئے اور وہ یہ اعلان کرے کہ میں خدا کی طرف سے تمہا رے درمیان بھیجا گیا ہوں اور لوگ بھی سمجھ جائیں کہ اس کا خداوند عالم سے ارتباط ہے تو اس صورت میں اگر وہ پیغمبر اگلے دن کہتا ہے کہ فلاں حکم خدا کی طرف سے نا زل ہو ا ہے تو اس کو مان لینا چاہئے اب ہر حکم کے لئے تو وہ معجزہ پیش نہیں کرے گا اسی طرح اگر اپنے بعد خدا کی طر ف سے آ نے والے کسی پیغمبر کا تعارف کرائے تو کیا عقل کی رو سے بعد میں آ نے والے پیغمبر کا بھی صاحب معجزہ ہو نا ضرو ری ہے ؟معلوم ہو ا کہ بعض حالات میں بغیر معجزہ کے بھی لو گو ں کے لئے حجت تمام ہو جانا ممکن ہے اگرچہ یہ حجت بھی در اصل کسی سابقہ معجزہ پر ہی قا ئم ہے کیو نکہ اس سے پہلے کے نبی کی نبوّت معجزہ کے ذریعہ ثابت تھی اور اسی کے توسّط سے دو سرے انبیاء علیہم السلام کی نبوّت کا اثبات ممکن ہوا ہے یا ایک ہی وقت میں کئی انبیاء علیہم السلام ہی ہوئے ہیں ان میں سے کسی ایک کا صا حب معجزہ ہو نا کا فی ہے اب وہی اگر دو سرے انبیاء علیہم السلام کی بھی تصدیق فرمادے تو ان کی نبوّ ت ثابت ہو جا ئیگی ۔ حضرت لو ط اور حضرت ابراہیم علیہما السلام ایک ہی زمانہ میں تھے اور دونوں پیغمبر بھی تھے جب حضرت ابراہیم کی نبوّت ثابت ہو گئی اگر آ پ یہ فرما دیں کہ حضرت لو ط علیہ السلام بھی پیغمبر ہیں تو لو کوں پر حجت تمام ہوجائیگی اور الگ سے ان کو معجزہ دکھلا نے کی ضرورت نہ ہو گی ۔یا یہ آیت جس میں خدا فر ما تا ہے :(اِ ذْاَرْسَلْنَا اِلَیْھِمُ اثْنَیْنِ فَکَذَّبُوْھُمَا۔۔۔)(١)”اس طرح کہ ہم نے دو رسو لوں کو بھیجا تو ان لو گوں نے جھٹلادیا ”۔توجیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ ان دو آد میو ں کو حضرت عیسی بن مر یم نے بھیجا تھا چنانچہ حضرت عیسیٰ کی نبوّ ت ہی دلیل کے لئے کا فی تھی اور آ یت میں بھی یہ نہیں ہے کہ ان دو نوں نے کو ئی معجزہ پیش کیا ہو البتّہ یہ ان کے…………..١۔سورئہ یس آیت١٤۔صاحب اعجاز نہ ہو نے کی دلیل نہیں ہے ۔ ممکن ہے وہ معجزہ لیکر آئے ہو ں لیکن آیت میں بیان نہ کیا گیا ہو لیکن اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوّت ثابت تھی اور آ پ ہی نے ان دونوں حضرات کا پیغمبر کے عنوان سے تعارف کرا یا تھا تو ان کی نبوّت بھی (کو ئی مخصوص معجزہ پیش کئے بغیر ) ثابت ہو جا ئیگی اور لو گو ں پر حتی آئندہ نسلوں کے لئے بھی حجت تمام ہو جائیگی یعنی جب گزشتہ انبیاء علیہم السلام اپنے بعد آنے والے کسی نبی کا اس طرح تعارف کرا ئیں کہ مثلاًسو سال بعد ایک نبی آ ئیگا اور اس کی خصو صیات کو اس طرح بیان فر ما دیں کہ کسی شک و شبہ کی کو ئی گنجائش نہ رہ جائے تو کیا پھر بھی اس نبی کو معجزہ پیش کر نے کی کو ئی ضرو رت ہے ؟جی نہیں !اگر گزشتہ نبی کی نبوّت ثابت ہو چکی تھی اور جن افراد کے در میان اس کوبھیجا جا نا تھا ان تک یہ خبر پہنچ چکی تھی اور اس کے خصو صیات بھی اس طرح بیان کردئے گئے تھے کہ ان میں کسی شک و شبہ کی کو ئی گنجائش با قی نہ رہ گئی تھی تو پھر اس آ نے والے نبی کے لئے اپنی نبوّت کی دلیل میں معجزہ دکھلا نے کی ضرورت نہیں رہ جا ئیگی ۔ہاں اگر وہ ان افراد کے درمیان بھیجا گیا ہو کہ جن پر گزشتہ نبی کی نبوّت ثابت نہ ہو اور اس کا معجزہ اور اس کی خبر ان تک نہ پہنچی ہو تو یہ لوگ معجزے کے مطالبہ کا حق رکھتے ہیں ، جیسا کہ حضرت مو سیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ نے حضرت محمّدمصطفےٰ ۖکے آنے کی خبر پہلے سے دیدی تھی۔چنانچہ قرآ ن کہتا ہے کہ پیغمبر اکرم ۖ کی خصوصیات انھو ںنے اس طرح بیان کر دی تھیں 🙁 یَعْرِفُوْنَہُ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبنائَھُم ْ) (١)”وہ جس طرح اپنے بچو ں کو پہچانتے تھے (اسی طرح )وہ پیغمبر کو یھی جانتے اور پہچانتے تھے”۔(وَکَانُوْامِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا )(٢)”اور ان کے مبعوث ہو نے سے پہلے بشارت دیا کر تے تھے کہ یہ پیغمبر آنے والا ہے اور ہما رے دین کی تائید کر نے والا ہے ”۔تو کیا اس طرح کے لو کو ں کو حق ہے کہ وہ پیغمبر اسلا م ۖکی نبوّت ثابت نہ ہو نے اور ان پر حجت تمام نہ ہو نے کی بات کریں ؟ ہاں جن لو گو ں کے لئے حضرت مو سی ٰاور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کی نبوّت ثا بت نہیں تھی تو ظاہرہے حضرت رسو ل خدا کی نبوّت بھی ثابت نہیں ہو گی یا گزشتہ انبیاء علیہم السلام نے جو بشارتیں دی تھیں ان تک نہ پہنچی ہو ں تو ان کے لئے حجت تمام نہ ہو گی ۔جہاں تک یہو دیو ں اور عیسا ئیوں کا سوال ہے (خاص طور پر جو آپ کے…………..١۔سورئہ بقرہ آیت١٤٦۔٢۔سورئہ بقرہ آیت ٨٩۔اوصاف سے پو ری وضاحت کے ساتھ آگاہ تھے) حجت تمام ہو چکی تھی اور نبی اکرم ۖکو ان کے سامنے معجزہ پیش کر نے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔معلوم ہوا لو گو ں کے لئے کسی نبی کی نبوّ ت معجزہ کے بغیر بھی صرف دوسرے انبیا ء علیہم السلام کی بشارتو ں اور پیشین گو ئیوں کے ذریعہ ثابت ہو جا نا ممکن ہے۔لہٰذا ہر پیغمبر کے لئے یقینی طور پر معجزہ ہو نے پر کو ئی عقلی دلیل نہیں پائی جاتی ۔عقل صرف اتنا کہتی ہے کہ جہاں (تمام حجت معجزہ پر ہی مو قو ف ہو معجزہ کا پیش کر نا ضروری ہے لیکن اس کو تمام انبیا ء علیہم السلام کے لئے کلیہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔