منابع استنباط میں شهرت حصہ دوم

247

شهرت عملیوه روایت جس میں فقهاء کے درمیان اس پر عمل اور استناد مشهور هو-1. اس شهرت کو شهرت عملی کهتے هیں اوردو مقام پر اس سے استفاده کیا جاتا هے ۔1- پهلے یه که باب تعارض کے مرجحات میں جهاں فقهاء کهتے هیں اگر هم یه مانتے هوں که جو چیز واقعیت سے نزدیک تر هو مرجح هوگی پس شهرت عملی بھی مرجیح هوگی لیکن صرف اس صورت کهمیں فقه کے قدیم علماء اور گذشتگان کی روایت کے مطابق عمل هو ۔2- دوسرے یه که سند روایت کے ضعف کو بر طرف کرنے میں شهرت عملی سے کام لیا جاتا هے یعنی جب بھی کوئی روایت قوانین کے حساب سے ضعیف هو لیکن کئی علماء اور فقهاء نے اس روایت کے مطابق فتوا دیا هو تو ان کا فتوی اور عمل سند روایت کے ضعف کو بر طرف کرتا هے اور اس روایت کو قابل اعتما دبناتا هے اسی طرح که جس طرح کوئی خبر صحیح اور معتبر هو لیکن فقهاء اس روایت سے گریز کریں اور کوئی اعتنا نه کریں تو ایسی روایت درجهء اعتبار سے ساقط هو جائے گی لیکن بعض فقها جیسے صاحب مدارک وغیره شهرت اور اعراض کے ذریعه ضعف سند کی برطرفی یا سند کے بے اعتبار کرنے کوقبول نهیں کرتے -2 ۔
ج: شهرت فتوائیشهرت فتویٰ سے مراد یه هے که اگر کوئی فتویٰ اجماع کی حدتک پهنچے اور فتویٰ شاذ کے مقابل قرار پائے تو بعض مسلک امامیه کے اصولی یه مانتے هیں که شهرت فتویٰ امارات معتبره میں سے ایک هے . ان کا کهنا هے که هر چند کسی فقیه کا فتویٰ دوسرے فقیه کےلئے حجت نهیں هوتا لیکن یهی فتویٰ جب شهرت کی حدتک پهنچ جائے اور فتویٰ دینے والے زیاده هوں تو دوسرے فقیه کےلئے یهی شهرت اور فتویٰ کی کثرت حکم شرعی پر دلیل بنےگی که وه بھی اسی حکم کو استنباط کرے شهید اول نے کتاب “ذکری” میں اس نظریه کو قبول کیا هے -3 ۔لیکن دوسرے گروه کا یه ماننا هے که شهرت فتویٰ معتبر نهیں هے اور اس پر منبع استنباط کے عنوان سے تکیه نهیں کیا جاسکتا .جو شهرت فتویٰ کو حجت مانتے هیں ان کی دلیل یه هے که :اگر خبر واحد سے حاصل هونے والا ظن خبر واحد سے حاصل شده ظن سے کهیں زیاده قوی تر هے -4 اور دوسری دلیل یه که زراره اور عمرابن حنظله کی روایت میں آیا هے جو مشهور هے اسے لے لو اور جو شاذ و نادر هے اسے چھوڑ دو اسی طرح شهرت فتویٰ کے طرفداروں نے اپنے مدعا پرآیهءنبا کے ذیل میں وارد شده جمله سے مدد لی هے -5 جس میں خداوند عالم فرماتا هے :” * أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ “*”اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ اور اس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے ” ۔6ان دلیلوں کے کئی جواب دیے گئے هیں جس کی تفصیل اصول کی مفصل کتابوں میں دیکھی جاسکتی هے ۔بعض نے قدماء کے نزدیک مفهوم شهرت اور متاخرین کی شهرت میں فرق کیا هے . ان کا کهنا هے که :تاریخ تشیع میں آرائے فقهی کئی مراحل سے گذرے هیں ابتداء میں یعنی عصر تشریع میں لوگ روایات و احادیث کو خود ائمه علیهم السلام سے دریافت کرتے اور پھر ان پر عمل کرتے تھے اس کے بعد جو مرحله آیا اس میں احادیث کو کتاب اور جزوات میں جمع کیا گیا جس سے اصول اربعماه ( یعنی چارسو اصل اور کتاب ) وجود میں آئے پھر تیسرے مرحلے میں علمائے دین نے انهیں کتابوں اور جزوات کو مترتب اور منظم کرنا شروع کیا اس کے بعد چوتھا مرحله فتووں کا مرحله هے جس میں حذف سند اور تخصیص و تقیید اور جمع و ترجیح کے بعد متن احادیث کے مطابق فتوا دیا جانے لگا چنانچه شیخ صدوق نے اپنی کتاب “من لایحضر ه الفقیه” میں یهی کام کیا هے اب آخری اور پانچواں مرحله تطبیق و تفریع احادیث کا دور هے اور یهیں سے جدید اور فرعی مسائل کو استنباط کیا جانے لگا ۔اسی لئے مرحلهء پنجمپانچویں مرحله سے پهلے شهرت فتویٰ وثوق و اطمینان کا موجب تھا لیکن پانچویں مرحله میں فقهاء کے فتووں میں حدس و استنباط کا جنبه پیدا هوگیا اسی لئے اس مرحله کے فتوے آنے والے فقهاء کےلئے حجت نهیں هوں گے -7. اهل سنت کی کتابوں میں شهرت فتویٰ کے مسئله کو ایک اور انداز میں پیش کیا گیا هے ان لوگوں نے بحث اجماع میں یه مسئله اٹھایا که آیا اکثر یت کی آراء پر اجماع تحقق پاتا هے یا نهیں ؟جمهور اهل سنت نے کها هے که قول اکثریت اور قول مشهور سے اجماع ثابت نهیں هوتا لیکن معتزله کے مشهور عالم ابوالحسن حناط اور ابن جریر طبری اور ابوبکر رازی نے کها هے :ایک یا دو فرد کی مخالفت اجماع کو نقصان نهیں پهنچاتی اور ابن حاجب کا کهنا هے که کسی مسئله میں مخالفت شاذ هی کیوں نه هو اجماع کو قطعیت سے گرادیتا هے لیکن اس کے باوجود اتنی بڑی اکثریت (اجماع )کو حجت جانتی هے -8 ۔غزالی نے کها-9: امت کی عصمت اور حجیت ثابت هے لیکن اگر کوئی قول شهرت تک پهنچ جائے ( مگر اجماع تک نه پهنچے ) تو یه شهرت حجت نهیں هے کیونکه اختلاف کے ثابت هوتے هی حجیت ساقط هوجائےگی جیسا که ارشاد خداوندی هے :”*وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ “*”اگر کسی چیزمیں اختلاف کا شکار هوجاؤ تو اس کا فیصله الله پر چھوڑ دو “————–1 . اصول الفقه ، ج2 ،ص 252 .2 . مصباح الاصول ، ج2 ، ص143 .3. ذکری ، للشیعه مقدمه مؤلف ، ج1 ، ص52 .4. انوار الاصول ، ج2 ، ص417 .5 .فوائد الاصول ، ج 3 ، ص155 .6 . انوار الاصول ، ج 2 ،ص 423 .7 . وهی مدرک .8 .اصول الفقه الاسلامی ، ج 1 ،ص 518 .9 . المستفیٰ، ج1 ، ص117 .

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.