عدل

241

 ! سورہ ٔ نساء میں فرماتا ہے :(انّ اللّہ لا یظلم مثقال ذرَّة…) (نسائ٤٠)” خدائے متعال ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا”نیزسورئہ کہف میں فرماتاہے :(…ولا یظلم ربّک احد ) (کہف٤٩)” تیرا پر وردگار کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے ”اسی طرح سورئہ نساء میں فرماتا ہے :(ما اصابَکَ من حسنة فمن اللّٰہ و ما اصابَکَٔ من سیّئة فمِن نَّفسک…) (نسائ٧٩)”تم تک جو بھی اچھائی اور کامیابی پہنچی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو بھی برائی پہنچی ہے وہ خود تمہاری طرف سے ہے ۔”سورئہ سجدہ میں فرماتا ہے :(الّذی احسن کل شی ء خلقہ…) (سجدہ١)”اس نے ہرچیز کو حسن کے ساتھ بنایاہے۔”اس بناپر،ہر مخلوق اپنی جگہ پر انتہائی حسن کے ساتھ خلق کی گئی ہے ۔بعض مخلو قات میں جو بدصو رتی ،نا مناسب یا عیب ونقص پایا جا تا ہے ،وہ موازنہ اور نسبت کی وجہ سے پیش آتا ہے ۔مثلا سانپ اور بچھو کا وجود ہماری نسبت بد اور نا مناسب ہے اور کانٹے کو جب پھول سے موازنہ کیا جاتاہے تو کانٹازیبا نہیںہو تا،لیکن یہ سب اپنی جگہ پر حیرت انگیز مخلوق اور سرا پا خو بصورت ہیں ۔دوسرے الفاظ میں ،یہ کہا جائے کہ تمام اشیاء اپنے وجوداور وجود کی بقا میں جس جس چیز کی محتاج ہین اور ان میں سے جو عیب پایاجاتا ہے ،وہ انھیں خود رفع نہیں کر سکتیں اور وہ اتفاقی طور پر اور خودبخودبھی رفع نہیں ہوسکتا۔بلکہ یہ سب عالم مشہود سے مافوق ایک مقام کی طرف سے فراہم کئے جاتے ہیں ۔وہی ہے جو ہر حاجت اور عیب کو دور کر تا ہے ،البتہ خودہرحاجت وعیب سے پاک و منز ہ ہے ورنہ دوسرے مبداء کی ضرورت پڑے گی جواس کے عیب و نقص کودور کرے اور اس صورت میں وہ خود بھی عالم کے ضرورت مندوں میں سے ایک قرار پائے گا ۔وہی ہے ،جو اپنی لامتنا ہی قدرت اور علم سے کائنات کی ہر مخلوق کو وجود بخشتا ہے کائنات اور کائنات میں موجود ہ ہر شی کو تکامل کی شاہراہ پر ناقابل استثناء قوانین کے ذریعہ مقصد اور کمال کی منز ل کی طرف راہنمائی کر تا ہے اس بیان سے یہ نتیجہ نکلتے ہیں :١۔خدائے متعال کائنات میں ،مطلق سلطنت کا مالک ہے اور ہر مخلوق جووجود میں آتی ہے اورہرواقعہ جو رونما ہوتا ہے ،ان کاسرچشمہ اس کا حکم وفرمان ہے۔چنانچہ فرماتا ہے :(…لہ الملک و لہ الحمد…) (تغابن١)”مطلق سلطنت اوربادشاہی اسی سے مخصوص ہے اور حقیقت میں ہر ستائش کا وہی سزاوار ہے کیونکہ نیکی اور اچھائی اسکی خلقت سے پیدا ہوئی ہے ”(…اِنِ الحکم الاّ للّٰہ…) (یوسف٤٠)”حقیقت میں ہر حکم خدائے متعال کی طرف سے ہے”٢۔خدائے متعال عادل ہے ،کیونکہ عدالت حکم میں یا اس کے جاری ہونے کی صورت میں یہ ہے کہ اس میں استثنا اور امتیاز نہیں ہے ۔ یعنی جو مواقع حکم سے مربوط ہیںوہ ،یکساں ثابت ہوں اور جو مواقع قا بل نفاذہیں وہ یکساں نافذکئے جائیں ۔چنانچہ معلوم ہوا کہ کائنات اور اس میں موجود چیزوں کا نظم و نسق کچھ ناقابل استثنا قوانین کے سایہ میں ہیں۔جن کا مجموعہ قانون علیت ومعلو لیت ہے ۔ چل رہا ہے ۔مثلا آگ کچھ خاص شرائط کے ساتھ ،ایک جلنے والی چیز کو جلائے گی ، خواہ یہ کالا کوئلہ ہو یا ہیرا ،خشک لکڑی ہو یا ایک ضرورت مند مفلس کا لباس ۔اس کے علاوہ جس نے عدالت کو نظرانداز کیا،وہ اپنی کچھ ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے ظلم و ستم کو انجام دیتا ہے ۔خواہ یہ ضرورت مادی ہو جیسے کوئی شخص دوسرے کے مال کو لوٹ لیتا ہے اور اپنے انبار میں اضافہ کرتا ہے ،یا معنوی ضرورت ہو جیسے کوئی شخص دوسروں کے حقوق پر تجاوز کر کے یا قدرت اثرورسوخ اور تسلّط کا اظہار کر کے لذت محسوس کرتا ہے ۔چنانچہ یہ معلوم ہوا کہ،خالق کائنات کی ذات اقدس کے بارے میں کسی قسم کی حاجت قابل تصور نہیں ہے اورجو بھی حکم اس کے منبع جلال سے جاری ہوتا ہے،اگر ایک تکوینی حکم ہے تو وہ عام مصلحتوں کو پورا کرنے کے لئے ہے کہ خلقت کے لئے جس کی مراعات ضروری ہے اور اگر ایک تشریعی حکم ہے تو وہ اس کے بندو ں کی سعادت اور خوشبختی کے لئے ہے اور اس کا نفع انہی کو ملتا ہے۔خدائے متعا ل ا پنے کلام پاک میں فر ماتا ہے :(انّ اللّہ لایظلم مثقال ذرةٍ…) (نسائ٤٠)”خدائے متعال ذرہ برابرظلم نہیں کرتاہے ”(…وما اللّہ یرید ظلماً للعباد) (غافر٣١)”خدائے متعال اپنے بندوںپر ظلم کرنا نہیں چاہتا ہے ۔”

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.