موجود نا محسوس پر اعتقاد

197

نا محسوس مو جودپر اعتقادخدا شناسی کے ضمن میں ایک معمولی شبہ یہ ہے کس طرح ایک ایسے موجود پر ایمان لایا جا سکتا ہے کہ جو قابل درک نہیں ہے اور نہ ہی اسے حس کیا جاسکتا؟یہ شبہ ہمیشہ ان لوگوں کے ذہنوں میں اٹھتا ہے کہ جو قوی فکر کے مالک نہیں ہیں، لیکن ایسے دانشور بھی ہیں کہ جنھوں نے اپنے ا تفکر کی بنیا د ”اصالت حس” پر قائم کی ہے اور نا محسوس موجود سے انکار ہے یا کم از کم اسے یقینی معرفت سے بعید سمجھا ہے۔اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ ادراکات حسی کو جسم و جسمانیات سے بدن کو مس کرنے کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے اورہمارے حواس میں سے ہر حس اپنی موقعیت اور خاص شرائط کے تحت مادی موجودات کو درک کرتی ہے اور جس طرح آنکھ سے سننے یا کان سے دیکھنے کی توقع باطل ہے اسی طرح یہ انتظار بھی باطل ہے کہ ہمارے حواس تمام موجودات کو درک کرلیںگے۔ا یک تو یہ کہ مادی موجودات کے درمیان ا یسی بھی چیزیں موجود ہیں جو حس کے دائرے سے باہر ہیں جس طرح کہ ہمارے حواس (ULTRA-VIOLET (اور (INFRA – RED)کے انوار اور الکٹرومنٹک وغیرہ امواج کو درک کرنے سے عاجز ہے۔دوسرا یہ کہ ہم بہت سے حقائق کو ظاہری حواس کے علاوہ دوسری راہوں سے درک کرتے ہیں، اور ان کے وجود کا یقینی ا عتقاد حاصل کرلیتے ہیں جبکہ وہ حس کی قدرت سے باہرہیں، جیسے کہ ہم خود اپنے ڈر، ارادہ، محبت اور دوسری صفات سے آگاہ ہیں، اور ان کے وجود پر پورا ایمان بھی رکھتے ہیں، حالانکہ یہ روحی آثار خود روح کی طرح حس کے دائرے سے باہر ہیں، اس کے علاوہ خود ادراک ایک غیر عادی اور نامحسوس امر ہے۔لہذا حواس کے ذریعہ کسی چیز کا درک نہ ہونا نہ تنہا اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا بلکہ اسے بعید بھی نہیں کہا جا سکتا۔
خدا پر ایمان رکھنے کے سلسلہ میں جہل اور خوف کاکردار۔جامعہ شناسوں کی طرف سے دوسرا شبہ جو پیش کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ خدا پر اعتقاد رکھنا ، خوف و خطر کی وجہ سے ہے بجلی یا زلزلہ یا اسی طرح کے اور دوسرے خطرات کی وجہ سے یہ تصور وجود میں آیا ہے در اصل بشر نے اپنی روحی اطمینان کی خاطر (العیاذ باللہ) ایک خیالی موجود بنام ”اللہ” کو مانا ہے اور اس کی عبادت میں مشغول ہے، اسی وجہ سے خطرات کے مقابلہ میں محافظت کا امکان جس قدر بڑ ھتی جاتی ہے یا خطرات ، حوادثات کے اسباب و علل جیسے جیسے آشکار ہوتے جاتے ہیں ویسے اسی اعتبار سے خدا پر ایمان ضعیف ہوتا جاتا ہے۔مارکسیسم نے اس شبہ کو اپنی کتابوں میں بعنوان”علم جامعہ شناسی” کے نتائج کے تحت بڑی آب و تا ب کے ساتھ بیان کیاہے جسے غیر مطلع لوگوں کو دھوکا دینے کا ایک بہترین وسیلہ تصور کیا جاتا ہےاس شبہ کے جواب میں یہ کہنا بہتر ہے کہ سب سے پہلے یہ شبہ تنہا ایک مفرو ضہ ہے جسے بعض جامعہ شناسوں نے پیش کیا ہے اور اس کے صحیح ہونے پر کسی بھی علمی دلیل کا وجود نہیں ہے۔دو سرے ، اس زمانہ میں بہت بڑے بڑے مفکرین تھے جو ہر ایک سے ز ائد حوادثات کےعلل و اسباب سے آگاہ تھے اور خدائے حکیم پر مضبوط عقیدہ رکھتے تھے اور اب بھی اسی عقیدہباقی ہیں،(١) ایسا ہر گز نہیں ہے کہ خدا پر ایمان رکھنا خوف وجہل کا نتیجہ ہے۔تیسرے ، اگر بعض حوادثات سے خوف یا اس کے و اسباب سے نا آگاہی ہی خدا پر اایمان رکھنے کا سبب ہے تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ وجود خدا خوف و جہل کا نتیجہ ہے جس طرح سے کہ بہت سے روحی اثرات جیسے لذت طلبی اور شہرت طلبی وغیرہ… علمی و فنی اور فلسفی انکشافات کا سبب ہے، لیکن یہ ان کے اعتبار کو خدشہ دار نہیں کرتا۔چوتھے: اگر بعض لوگوں نے خدا کو، اس عنوان سے پہچانا ہے کہ وہ مجہول العلة حوادثات کو وجودبخشنے والاہے یہاں تک کہ اگر علل و اسباب کے آشکار ہونے کی وجہ سے ان کے ایمان میں کمی واقع ہوگئی ہے تو یہ خدا پر اعتقاد کے معتبر نہ ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتی بلکہ یہ سب کچھ ان کے ایمان کے ضعیف ہونے کی علامت ہے، اس لئے کہ جہانی حوادثات کی بہ نسبت خدا کا علت قرار دیا جانا ، اسکی طبیعی علتوں کے اثر انداز ہونے کی سنخیت کے اعتبار سے علت خدا کے عرض میں واقع نہیں ہے بلکہ ایک ایسی علت ہے جو ہر ایک کو شامل ہوتی ہے، اور تمام مادی وغیرمادی علتوں کے پہچاننے یا نہ پہچاننے میں اس کے طول میں موثر ہے،اور اس کی نفی و اثبات کے لئے کسی بھی قسم کی تاثیر سے عاری ہے۔(٢)
کیا قاعدہ علیت ایک قاعدہ کلی ہے۔شبہات میں سے ایک شبہ جسے غربی دانشمندوں نے بیان کیا ہے یہ ہے کہ اگر اصل علیت کلیت سے متصف ہے تو پھر خدا کے لئے بھی علت کا ہونا ضروری ہے، حالانکہ اس کے لئے فرض یہ ہے کہ اس کے لئے کوئی علت نہیں ہے لہذا بے علت خدا کو ماننا قانون علیت کا نقض کرنا اور عدم کلیتپر دلیل ہے، اور اگر قاعدہ علیت کی کلیت کو نہ مانیں تو پھر واجب الوجود کو ثابت کرنے کے لئے اس……………………………………(١) جیسے انشٹن، کرسی وریس والکسیس کارل اور دوسرے برجستہ مفکرین کہ جنھوں نے وجود کے اثبات کے لئے مقالہ تحریر کئے جن میں سے بعض مقالے جات کو کتاب ”اثبات وجود خدا” میں جمع کیا گیا ہے۔(٢)آئندہ دروس میں مزید وضاحت آئے گی ۔قاعدہ و قانون سے استفادہ نہیں کر سکتے، اس لئے کہ یہ ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ اصل مادہ یا انرجی خود بخود علت کے بغیر وجود میں آگیا ہو ، اور اس میں ہونے والے تغیرات کی وجہ سے تمام موجودات ظہور میں آئے ہیں۔یہ شبہ بھی جیسا کہ ساتویں درس میں اشارہ کیا جاچکا ہے، قاعدہ علیت کے تحت کی گئی غلط تفسیر کا نتیجہ ہے، یعنی ان لوگوں نے یہ تصور کرلیا ہے کہ اس قاعدہ کا مفاد یہ ہے کہ (ہر شی موجود علت کی محتاج ہے) جبکہ اس کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ (ہر ممکن الوجود یا وابستہ موجودعلت کا محتاج ہے) یہ ایک استثنا نا پذیر قاعدہ کلی ہے، لیکن یہ فرضیہ کہ اصل مادہ یا انرجی علت کے بغیر وجود میں آجائے اور اس میں ہونے والے تغیرات کی وجہ سے یہ جہان خلق ہو جائے، اشکالات و اعتراضات سے خارج نہیں ہے، جسے ہم آئندہ دروس میں بیان کریں گے۔
علوم اجتماعی کے نتائج۔ایک شبہ یہ ہے کہ جہان و انسان کے پیدا کرنے والے وجود پر اعتقاد رکھنا جدید علوم کی رو سے سازگار نہیں ہے مثلاً کمیسٹری میں یہ بات مسلم ہے کہ مادہ اور انرجی ہمیشہ ثابت ہیں لہٰذا کوئی بھی شی عدم سے وجود میں نہیں آتی اور کوئی موجود بھی پوری طرح فنا نہیں ہوتا حالانکہ خدا پر عقیدہ رکھنے والوں کا یہ کہنا ہے کہ اس نے مخلوقات کو عدم سے ،ہستی کی صورت میں وجود بخشا ہے۔اسی طرح بیالوجی میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ زندہ موجودات بے جان موجودات سے متولد ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ انھیں کمال حاصل ہوتا ہے، یہاں تک کہ انسان وجود میں آتا ہے حالانکہ خدا پر ایمان رکھنے والوں کا عقید ہ ہے کہ اس نے ہر ایک کو جداگانہ خلق کیا ہے۔جواب میں یہ کہنا بہتر ہے کہپہلے یہ کہ ماد ہ ا ورانرجی کی بقا کا قانون ایک علمی اور تجربی قانون کے عنوان سے تنہا ان موجودات کے لئے ثابت ہے کہ جو قابل تجزیہ ہیں، لہٰذا اس کے ذریعہ اس فلسفی مسئلہ کو حل نہیں کیا جاسکتا، کہ مادہ یا انرجی ازلی و ابدی ہیں یا نہیں؟دوسرے یہ کہ مجموعی اعتبار سے مادہ، انرجی کا ثابت ہونا اور اس کی ہمیشگی سے تعلق رکھنا کسی خالق سے بے نیازی کی دلیل نہیں ہے بلکہ دنیاء جہان کی عمر جس قدر بھی طولانی ہوگی ا س خالق کی ضرورت اتنی ہی زیادہ ہوگی، اس لئے کہ معلول کے لئے علت کی احتیاج کا معیار اس کی ذاتی وابستگی اور اس کا ممکن ہونا ہے نہ یہ کہ وہ حادث ہے اور محدودیت (قید) زمانی سے متصف ہے۔ایک دوسری تعبیر کے مطابق مادہ اور انرجی جہان کی علت مادی کو تشکیل دیتے ہیں، نہ علت فاعلی کو بلکہ وہ خود علت فاعلی کے محتاج ہیں۔تیسرے ،مادہ و انرجی کے ثابت ہونے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ نئے موجودات وجود میں نہ آئیں اور ان میں کمی یا زیادتی واقع نہ ہو، بلکہ بعض موجودات جیسے روح، عقل ارادہ وغیرہ مادہ اور انرجی کی قسم سے نہیں ہیں، کہ جس کی کمی یا زیادتی، مادہ اور انرجی کے قانون بقا سے منافات ر کھے ۔چوتھے : فرضیہ تکامل جسے ابھی تک پوری طرح علمی حلقے میں اعتبار نہیں ملا ہے اور جسے بہت سے مفکرین نے رد کیا ہے، خدا پر اعتقاد رکھنے سے منافات نہیں رکھتا، اور حد اکثر زندہ موجودات کے درمیان صرف علت اعدادی کو ثابت کرتا ہے نہ یہ کہ خدا سے ا س کے رابطہ کی نفی کرتا ہے ، جس کی دلیل یہ ہے کہ اسی فرضیہ کے بہت سے طرفدار آج بھی اور گذشتہ ادوار میں جہان و انسان کے پیدا کرنے والے پر ایمان رکھتے تھے اور رکھتے آئے ہیں۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.