قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کے اوصاف

1,166

قرآن کریم کی بہت سی آیات میں تقریباً تمام انبیاء علیہم السلام کے اجتماعی اوصاف بیان ہوئے ہیں ہم یہاں ان ہی عمومی اوصاف کا ذکر کررہے ہیں
رسول ،نبی اورنذیرقرآن کریم میں تین صفات نبی، رسول اور نذیر تمام انبیاء علیہم السلام کیلئے ذکر ہوئے ہیں اسکے علاوہ دوسرے صفات بھی بیان کئے گئے ہیں جو یا تو عمومیت نہیں رکھتے یا پھر انبیاء علیہم السلام کی خصوصیت کے عنوان سے تنہاذکر نہیں ہواہے ۔مثال کے طور پر قرآن کریم میں ”بشیر”کی صفت انبیاء علیہم السلام کے لئے ذکر ہوئی ہے لیکن وہ کہیں پر بھی تنہا استعمال نہیں ہوئی ہے۔اسکے بر خلاف نذیر کی صفت تنہا بھی ذکر ہوئی ہے حالانکہ بہت سی آیات میں بشیر اور نذیر ایک دوسرے کے پہلوبہ پہلو ذکر ہوئے ہیں ۔ (مبشرین ومنذرین،نَذِیْراًوبشیرا) قرآن پیغمبروں کا نذیر کے عنوان سے تعارف کرتے ہوئے کہتاہے:(وَاِنْ مِنْ اُمَّةٍ اِلّٰا خَلاٰ فِیْہا نَذِیر)(١)”اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں کوئی ڈرانے والانہ گذرا ہو”۔لیکن قرآن کریم میں کہیں لفظ” بشیر ”تنہا نہیں آیا ہے۔یہ ایک نفسانی اور تربیتی نکتہ ہے اور اس چیز پر دلالت کرتا ہے کہ انسان کی تعمیر اور تربیت کیلئے ”انذار”یعنی خوف دلانا”تبشیر”یعنی بشارت دینے سے زیادہ اہم…………..١۔سورہ فاطرآیت٢٤۔ہے۔دوسرے لفظوں میں ،انسان خوف کا عمل”امید”کے عمل سے بہت زیادہ مؤثر ہے ۔انسان جہاں اپنی زندگی میں تغیر اور تبدیلی ایجاد کرنا،اپنے کسی ارادہ سے منصرف ہونا اور دوسروں کی پیشکش پر کوئی دوسری رفتار منتخب کرنا چاہتا ہے اس کیلئے (انداز)کا عمل ”تبشیر”کے عمل سے کہیں زیادہ مؤثر ہے ۔شاید اسی بنیاد پر قرآن نے پیغمبروں کے لئے صفات کے طور پر تنہا ”نذیر”کی خصوصیت کو بیان کیا ہے ”بشیر”کی خصوصیت تنہا بیان نہیں کی ہے ،بہر حال قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کے لئے تین اسماء نبی،رسول اور نذیر عمومیت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں ۔نذیر ڈرانے والے اور خوف دلانے والے کو کہتے ہیں ۔ہروہ پیغمبر جو انسان کی رہنمائی اور انسانوں کی ہدایت کیلئے مبعوث ہوتاہے اس کی دعوت”انداز”کے ساتھ ہوتی ہے ۔وہ لوگوں کو برے کاموں کے انجام سے ڈراتا ہے اور غلط قسم کے عقائد و افکار کے عقاب سے ان کو خوف دلاتاہے تاکہ وہ ان کو اس طرح کے غلط کاموں سے روک سکے ۔رسول اس شخص کو کہتے ہیں جو پیغام کا حامل ہوتا ہے اور ایک شخص کی طرف سے دوسرے شخص کی طرف بھیجا جاتاہے اور یہ بات پورے مکمل یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بہت سے انبیاء علیہم السلام خداکی طرف سے لوگوں کیلئے رسالت یعنی (پیغام )کے حامل رہے ہیں ۔خدا مرسل ہے ،لوگ ”مرسل الیھم”ہیںاور انبیاء علیہم السلام بھی ”رسول”یا”مرسل”ہیں۔درحقیت ”پیغمبر”اور پیمبر فارسی میں ”رسول”کو ہی کہتے ہیں ۔ان تینوں صفات میں نبی کا مفہوم زیادہ وضاحت چاہتا ہے:جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ لفظ نبی کی اصل کے سلسلے میں بہت زیادہ اختلافات ہیں۔بعض کہتے ہیں کہ اس لفظ کا مادّہ ”نبوت” رفعت یا (بلندی)کے معنی میں ہیں اور بعض دوسرے افراد کہتے ہیں کہ یہ ”نبأ”سے مشتق ہے اور اس کے معنی ”خبر”کے ہیں ۔شاید دوسرا احتمال زیادہ قوی ہو اگر چہ معنویت اور انسانیت کے لحاظ سے تمام انبیاء علیہم السلام بہت ہی بلند و بالامقام رکھتے ہیں اوروہ معاشرہ کے ممتاز افراد ہوتے ہیں لیکن خدااور انسان کے مابین ان کی وساطت کے بیان میں ان کی رفعت و بلندی کی طرف اشارہ کرنے کی کوئی مناسبت سمجھ میں نہیں آتی ۔لہٰذا قوی احتمال یہی ہے کہ نبی کا اصل مادّہ ”نبأ ”ہو اور نبی وہ ہے جس کے پاس ایسی خبریںہو ں کہ جن سے دوسرے بے خبر ہوںاور یہ مخصوص خبریں وہی غیب کی خبریں ہیں ۔ اس بیان کی روشنی میں ہم نبی اس شخص کو کہہ سکتے ہیں جو غیب کی اطلاع رکھتاہو اور اسکے پاس غیب کی خبریں ہوں۔
رسول اورنبی کا فرقنبوت اور رسالت کے مفہوم اور ان دونوں کے مصداق آپس میں کیا نسبت رکھتے ہیں اس پر بہت زیادہ بحثیں ہوئی ہیں ۔یقینا اگر نبوت اور رسالت کے مفہوم کے درمیان عام خاص مطلق کی نسبت پائی جاتی ہوتو قدرتی طور پر ان دونوں کے مصداق میں بھی وہی نسبت ہوگی لیکن ان دونوں لفظوں کے لغوی معنی سے یہ بات واضح اور روشن ہوجاتی ہے کہ ان دونوں مفاہیم کے درمیان کوئی اشتراک نہیں ہے ۔نبوت کا مطلب چاہے رفعت ہو اور چاہے حاملِ خبر ہونا ہو رسالت کا مفہوم یہ نہیں ہے ۔ہاں رسالت کا لازمہ یعنی خداوند عالم کی طرف سے پیغام کے حامل ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ رسول اس پیغام سے مطلع ہو۔لیکن مفہوم رسالت میں نبوت کے معنی شامل نہیں ہیں۔ ہاں اس کے لوازم کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ نبوت کا مفہوم رسالت کے مفہوم میں شامل ہے۔مصداق کے اعتبار سے بھی (جیسا کہ آیات اور ان سے بھی زیادہ صریح انداز میں روایات سے استفادہ ہوتاہے)نبوت اور رسالت کے درمیان عام خاص مطلق کی نسبت ہے ممکن ہے کوئی کہے کہ نبوت کا رسالت سے اعم ہونے کا دعویٰ بعض آیات کے ظاہری مطالب کے ساتھ سازگار نہیں ہے مثال کے طورپر خداوند عالم بعض آیات میں ارشاد فرماتا ہے:(وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِیًّ اِلّٰا۔۔۔)(١)”اورہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا رسول یا نبی نہیں بھیجا ہے کہ۔۔۔”۔حالانکہ اگر نبی رسول سے اعم ہوتا تو خداوندعالم کو (وَمَااَرْسَلْنَامِنْ نَبِیٍّ)فرمانا چاہیے تھا اور رسول کا ذکر نہیں کرنا چاہئے تھا ۔اس لئے کہ جب عام کا ذکر کردیا جائے تو خاص بھی اس کے ضمن میں آجاتا ہے ۔اس بناء پر خاص کا عام کے پہلو میں ذکر کرنا بلاغت کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔اسی طرح خداوند عالم بعض انبیاء علیہم السلام کے بارے میں فرماتاہے :(۔۔۔وَکَانَ رَسُولًا نَبِیّاً)(٢)”۔۔۔اور رسول ونبی تھے ”۔حالانکہ مقام توصیف میں خاص کے بعد عام ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی ۔یہ ویسی ہی ہے کہ جیسے کہا جائے :”فلاں شخص(قفہا میں)اعلم ہے اور فقیہ بھی ہے ”تو ظاہر ہے کہ (اَعْلَم)ْ کے اندر فقیہ کے معنی موجود ہیں۔…………..١۔سورئہ حج آیت٥٢۔٢۔سورئہ مریم آیت٥١۔اگر رسالت کیلئے نبوت لازمی ہوتو نبی ہونے کا رسول ہونے کے بعد ذکر کرنا مناسب نہ ہوتا۔علامہ طباطبائی نے تفسیر المیزان میں اس اعتراض کا جواب دیا ہے ۔ان کا خیال ہے کہ ”نبی”اور ”رسول” دومتباین اور مختلف مفہوم رکھتے ہیں اگر چہ رسالت کیلئے نبوت بھی لازم ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ نبوت کا مفہوم رسالت کے مفہوم میں شامل ہو ۔رسول قاصد اور ایلچی کو کہتے ہیں یعنی وہ شخص جو ایک چیز کسی شخص سے لیکر دوسرے شخص تک پہنچانے کے لئے واسطہ ہو اور نبی اس کو کہا جاتا ہے جو اہم غیبی خبریںرکھتا ہے ۔یہ دو مفہوم ایک دوسرے سے جدا ہیں اور اگر مصداق کے اعتبار سے ایک دوسرے کیلئے اخص ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ دونوں مفہوم کے اعتبار سے مشترک ہیں دوسرے لفظو ں میں ان کے درمیان عام خاص کی نسبت مصدا ق کے اعتبار سے ہے مفہو م کے اعتبار سے نہیں ۔ان دونو ں میں فرق کیا ہے؟ علامہ طبا طبا ئی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے ما بین رسول اس شخص کو کہا جاتا ہے جو خا ص رسا لت کا حا مل ہو کبھی انبیاء علیہم السلام کلی طو ر پر خداوند عالم کی عبا دت ،اطاعت اور راہِ حق پر (جو خدا وند عالم کی بند گی کی راہ ہے )گا مزن رہنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن کبھی خدا وند عالم کی طرف سے امت کے لئے خاص پیغام رکھتے ہیں اس بنا ء پر جس کے پاس خدا وند عالم کی طرف سے مخصوص پیغام ہو رسول کہا جاتا ہے اور جو کلی طور پر لو گوں کو راہِ حق کی دعوت دیتا ہے اس کو ”نبی”کہتے ہیں ان دونوں مفہو مو ں کے مدّ نظر ”کَانَ رَسُوْلاً نَبِیّاً”کی اس طرح تو جیہ کی جا سکتی ہے :”رَسُوْ لاً”یعنی خا ص قو م کیلئے مخصوص رسالت رکھتا ہے اور”نَبِیّاً” یعنی غیبی خبر و ں سے آگا ہ تھا ۔ اس صورت میں تکرا ر کی مشکل پیش نہیں آ ئیگی۔ آیت ( مَااَرْسَلْنَامِنْ قَبْلِکَ مِنْرَسُوْلٍ وَ لَانَبِیٍّ)میں ان ہی دو مقام کی طرف اشارہ ہے ۔ ممکن ہے دو مقام کسی شخص میں جمع ہو جا ئیں اور ممکن ہے کسی شخص میں جمع نہ ہو ں ۔ لہٰذا یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر رسول نبی بھی ہو آیت میں بھی مقامِ رسالت اور مقا مِ نبوّت رکھنے وا لوںکا ذکر ہے لیکن یہ ثابت کر نے کیلئے تما م رسول مقا مِ نبوّت کے بھی حا مل ہو تے ہیں کسی دو سری دلیل کی ضرو رت ہے ۔مندر جہ بالا تو جیہ نبو ت اور رسالت کے لغوی مفہوم کے ساتھ بھی سا ز گار ہے ۔ البتہ علّا مہ طبا طبا ئی نے ایک دوسرے فرق کی طرف بھی اشا رہ کیا ہے جو پہلے فرق کے بر خلاف اِن دونوں لفظوں کے لغوی معنی سے قا بلِ استفا دہ نہیں ہے بلکہ اس کا ماخذ روایات ہیں اس طرح کی روا یات اصولِ کا فی میں بھی ہیں جن میں سے ایک روایت میں آیا ہے :رسول وہ ہے جو فر شتۂ وحی کو بیداری کے عا لم میں دیکھتا ہے اور اس سے گفتگو کر تا ہے لیکن نبی وہ ہے جس پر خواب میں وحی ہو تی ہے(١) جیسا کہ ہم نے عر ض کیا کہ یہ فرق لفظ رسول اور لفظِ نبی سے لغوی اعتبا ر سے حا صل نہیں ہو تا بلکہ یہ ایک خصوصیت ہے جو الگ سے بیا ن ہو ئی ہے ۔
انبیاء علیہم السلام کی تعدادقرآن کریم کی کچھ آیات اس بات پر دلا لت کر تی ہیں کہ خدا وند عالم نے کثیر تعداد میں انبیا ء مبعوث کئے ہیں اور قرآنِ کریم میں ان میں سے صرف چند انبیا ء علیہم السلام کی داستان بیان کی گئی ہے۔ قرآنِ کریم میں صا ف طور پر ٢٥ انبیاء علیہم السلام کے اسما ئے گرامی کا تذ کرہ ہے لیکن یہ بھی صاف طور پر بیا ن کر دیا ہے کہ دوسرے انبیاء علیہم السلام بھی تھے جن کے نہ تو اسماء قرآنِ کریم میں بیان ہوئے ہیں اور نہ ہی ان کی داستا نیں بیان ہو ئی ہیں لیکن پیغمبرو ں کی تعداد کتنی تھی یہ قر آ ن کر یم کے الفا ظ سے معلوم نہیں ہو تا ۔روا یات میں بھی انبیاء علیہم السلام کی کثرت کی طرف اشا رہ ہے لیکن ان کی تعداد بہت کم روایتو ں میں بیا ن کی گئی ہے۔ ایک روایت میں پیغمبرو ں کی تعداد ایک لا کھ چو بیس ہزا ر اور رسو لو ں کی تعداد تین سو تیرہ معین کی گئی ہے۔(٢) اب یہ روایت کتنی قا بلِ اعتما د ہے یہ الگ بحث ہے ۔ بہر حال اس طرح کی بات بعض روا یتو ں میں موجود ہے ۔اب ہم مجمو عی طور پر ، انبیا ء علیہم السلام کے با رے میں نا زل ہو نے والی آیات کا تذ کرہ کررہے ہیں ارشاد ہو تا ہے :(وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا۔۔۔)(٣)”اور یقینا ہم نے ہر امّت میںایک رسول بھیجاہے ۔۔۔”۔
کلمۂ امت کی وضاحتجس امت کے لئے رسول بھیجا جا ئے اس سے کیا مرا د ہے ؟ امت کے لغت میں متعدد معنی ہیں منجملہ یہ کہ :انسا نو ں کے کسی مجمو عہ ، پیشوا ، راستہ اور زما نہ کو امت کہتے ہیں ۔ قر آ نِ کریم میں ”امةً وا حِدَ ةً ” ایک مشخص و معین زمانہ کے معنی میں استعمال ہو ا ہے ۔…………..١۔ ملا حظہ کیجئے بہ: کلینی ، الکافی (الا صول ) ، کتا ب الحجة ، با ب الفرق بین الر سو ل والنبیّ والمحدَث ۔٢۔بصا ئر الد رجات صفحہ ١٢١ ،الخصال صفحہ ٣٠٠ اور ٦٤١ ۔٣۔سورئہ نحل آیت٣٦۔اورایک مقام پر ارشاد ہو تا ہے :(اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ کَانَ اُمَّةً)”بیشک ابراہیم ایک مستقل امّت ہیں” شا یدیہاں لفظ امت اما م کے معنی میں استعمال ہو ا ہے لیکن قر آنِ کریم میں زیا دہ تر مقا مات پر یہ کلمہ ”لو گو ں کے ایک مخصوص گر وہ ”کے معنی میں استعمال ہو ا ہے ۔اب یہ گروہ کن خصوصیات کا حا مل ہو کہ اس کو امت کہا جا سکے اس کی کو ئی وضا حت نہیں کی گئی ہے۔ بعض افراد کہتے ہیں امت یعنی لو گو ں کا وہ گروہ جن کا ہدف مشترک ہو یا ان کی زند گی بسر کر نے کا عنوا ن مشترک ہو یا ان کے ایک دو سرے سے کا فی روا بط مشترک ہوںلیکن قرآ ن ِ کریم میں اس لفظ کااستعمال اس تفسیر کے ساتھ موا فق نہیں ہے ۔قرآن کریم میں حیوانوں کے گروہ کو بھی ( اُمَم ) کہا گیاہے :(۔۔۔اِلَّااُمَم اَمْثَالُکُمْ)(١)”جو اپنی جگہ تمہاری طرح کی جماعت نہ رکھتاہو”۔اس بناء پر کلمہ امت قرآن کریم میں تقریباً جماعت کے مساوی ہے۔یعنی کچھ افراد کا مجموعہ چاہے وہ انسان ہوں یا حیوان اب رہا قرآن کا یہ جملہ ”کہ ہر امت کیلئے ایک رسول تھا ،اس سے مراد انسانوں کا ہر گروہ”ہے لیکن قرآن نے اس اعتبار سے انسانوں کی کسی جماعت کو ایک مجموعہ یا گروہ شمارکیا ہے یہ بات واضح نہیں ہے ۔کسی شک و شبہ کے بغیر انسانوں کے مجموعہ پر ”امت واحد ” کا اطلاق ایک اعتبا ری امر ہے لیکن سوا ل یہ ہے کہ اس ا عتبار کی بنیاد اور معیا ر کیا ہے؟ جس طرح ہم اسکول میں طلبہ کی ایک جما عت کو ایک ساتھ سبق پڑھنے کے لحا ظ سے ایک جما عت یا کلاس کہتے ہیںیا ہم فو ج کی ایک جما عت کو ان کے درمیا ن مخصوص قو انین میں اشترا ک کی وجہ سے ایک یونٹ کہتے ہیں ۔اسی طرح انسانو ں کے مجموعہ کو بھی مشترکہ طو ر پر ایک ہی دین کے پیرو ہو نے کی وجہ سے ایک مجموعہ شمار کر سکتے ہیں ۔ دوسرے لفظو ں میں حضر ت مو سیٰ علیہ السلام کی شر یعت کی پیر وی کر نے والوں کو شریعت میں اشتراک کی وجہ سے ” حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی امت شما ر کر تے ہیں ” اب سوال یہ ہے کہ کیا ایک امت کے افراد کا ایک ہی زمانہ میں یا ایک ہی جگہ پر زند گی بسر کر نا یا ان کے درمیان اقتصا دی روا بط میں بھی اشترا ک پا یا جانا ”ایک امت ” شمار کر یں یا اسی طرح جگہ کے اشتراک کا لحا ظ کر تے ہو ئے جو لوگ کسی مخصوص جغرا فیا ئی حدود میں زند گی بسر کر رہے ہو ں ان کو بھی ”ایک امت”کہا جا سکتا ہے۔ اب یہ سوال پیش آ تا ہے کہ لفظ ”امت”سے مند ر جہ ذیل قسم…………..١۔سورئہ انعام آیت ٨ ٣۔کی آیات میں کیا مرا د ہے ؟(وَلَقَدْ بَعَثْنٰا فِیْ کُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلاً ۔۔۔)(١)”اور یقینا ہم نے ہر امّت میں ایک رسول بھیجا ہے ۔۔۔”۔اور ایک آیت میں یہ ارشاد ہو تا ہے :(۔۔۔وَاِنْ مِنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْر)(٢)”اور کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گذراہو ”۔یہا ں لفظ ”امت ”انسا نو ں کے کس طرح کے مجمو عہ کے لئے استعمال ہو ا ہے ؟ اور اس مجمو عہ کے درمیان وجہ اشتراک کیا ہے ؟ کیا اس سے مرا د یہ ہے کہ ہر زمانہ میں انسانو ں کا ایک ایسا مجموعہ رہا ہے کہ جن کی ہدا یت کے لئے پیغمبر مبعوث کئے گئے ہیں ؟یا امت سے مراد مخصو ص جغرا فیا ئی حدود میںرہنے والے افراد یا ایک ایسی قوم ہے جو ایک ہی زبان بو لتی ہو ؟حقیقت یہ ہے کہ ان سوالات کے جوا بات قر آ ن کریم کی آیات سے نہیں ملتے ۔ ہاں یہ بات مسلّم ہے کہ قرآنِ کریم نے انسانو ں کے جن مجمو عہ کو امت شما ر کیا ہے ان کے با رے میں اعلان کیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک امت کے لئے کو ئی نہ کو ئی پیغمبر ضرور مبعوث ہو ا ہے لیکن قر آ ن کا کسی ایک مجمو عہ کو امت میں شما ر کر نے کا معیار ہمارے لئے آ شکار نہیں ہے ۔
انبیاء علیہم السلام کی کثرتقرآ نِ کریم کی کچھ آیات صرف اس چیز پر دلالت کر تی ہیں کہ لو گو ں کے درمیان بڑی تعداد میں پیغمبر مبعوث کئے گئے ہیں ۔خدا وند عالم کا ارشاد ہے:(اِذْ جَائَتْہُمْ الرُّسُل ُ مِنْ بَیْنِ اَیْدِ یْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ۔۔۔)(٣)…………..١۔سورئہ نحل آیت٣٦۔٢۔سورئہ فاطر آیت٢٤۔٣۔سورئہ فصلّت آیت١٤۔”جب ان کے پاس سامنے سے اور پیچھے سے ہمارے نمائندے آئے ۔۔۔”۔یہ آیت اس بات پر دلالت کر تی ہے کہ انبیائے الٰہی کی تعداد اس قدر زیا دہ تھی گو یا ان کے آگے پیچھے انبیاء علیہم السلام ہی انبیاء علیہم السلام تھے ۔ اسی طرح خدا وند عالم ارشاد فر ماتا ہے :(ثُمَّ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَا۔۔۔)(١)”اور اسکے بعد ہم نے مسلسل رسول بھیجے ۔۔۔”۔یہ آیت بھی اس بات کی طرف اشا رہ کر تی ہے کہ کم و بیش ہر زمانہ میں پیغمبر مو جو د تھے اور خداوند عالم کا ار شاد ہو تا ہے :(وَ لِکُلِّ اُمَّةٍ رَسُوْل۔۔)(٢)”اور ہر امّت میںایک رسول ہو اہے ۔۔۔”۔ان آیات میں مجمل طور پر یہ حقیقت بیان ہو ئی ہے کہ خدا وند عالم نے قو موں اور امتو ں کے در میان بڑ ی تعداد میں نبیوں کو مبعوث کیا ہے لیکن اس بات کی وضا حت نہیں ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی تعداد کتنی تھی اور کیا ہر زمانہ میں صرف ایک ہی پیغمبر رہا ہے یا ایک ہی زمانہ میں ایک سے زیا دہ پیغمبر بھی مبعوث کئے گئے ہیں ۔قرآنِ کریم سے تو نہیں مگر کچھ دوسری دلیلو ں سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ کبھی کبھی ایک ہی وقت اور ایک ہی زمانہ میں متعدد پیغمبر مبعوث ہو ئے ہیں اسی طرح حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے وا قعہ سے مر بوط آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام آپ کے ہم عصر تھے اور حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کی شریعت کی پیروی کر تے تھے ۔ علاوہ ازین کچھ آیات سے کئی پیغمبروں کا ایک ہی زما نہ میں موجود ہو نا پتہ چلتا ہے ۔خدا وند عالم کا ارشا د ہو تا ہے :(اِذْاَرْسَلْنَا اِلَیْہِمُ اثْنَیْنِ فَکَذَّبُوْ ھُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ۔۔۔)(٣)”اس وقت جب ہم نے ان کے پا س دو رسولوں کو بھیجا لیکن ان لوگوں نے ان دونو ں کو جھو ٹا خیال کیاتو ہم نے ایک تیسرے پیغمبر کے ذریعہ ان دونو ں کی تا ئید کر دی ”۔ان تمام با توں کے با وجو د کچھ اور سوا لا ت بھی ہیں جن کے جوا بات قرآ ن کی آیات سے حا صل نہیں ہو تے جیسے گذ شتہ امتو ں میں ہر ایک کے درمیان مبعوث کئے جا نے والے انبیا ء کے نام اور دوسری تفصیلات کیا ہیں؟ کیا…………..١۔سورئہ مومنون آیت٤٤۔٢۔سورئہ یونس آیت٤٧۔٣۔سورئہ یس آیت ١٤ ۔کوئی زمانہ ایسا بھی گذر اہے کہ جس وقت لو گو ں کے درمیان کوئی پیغمبر مو جو د نہ رہا ہو ؟ یہ وہ سوا لات ہیں کہ جن کے صاف و صریح جوا بات ظوا ہر آیات سے پتہ نہیں چلتے البتہ آخر ی سوا ل کے با رے میں کچھ اس طرح کے مشترک مضمون کی حا مل روا یات مو جو د ہیں ” لَا تَخْلُوْالْاَرْضَ مِنْ حُجَّةٍ”(١)”زمین کبھی حجتِ خدا سے خا لی نہیں رہ سکتی ”۔لیکن اس روایت سے بھی مندرجہ بالا آخر ی سوال کا جو ا ب صریح طور پر نہیں دیا جا سکتاچو نکہ حجت نبی اور رسول دو نو ں کو کہتے ہیں اور اس میں امام (اور پیغمبر کے وصی ) بھی شا مل ہیں اس بنا ء پر اس روایت کے سہا رے یہ ثابت نہیں کیا جا سکتاکہ انسانو ں کے درمیان کسی فا صلے کے بغیر ہمیشہ پیغمبر مو جو د رہے ہیں ۔یہا ں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہم مسلما نو ں کے عقیدے کے مطابق پیغمبر اکر م ۖ کے بعدزمین و زمان کا پیغمبر سے خا لی ہو نا مسلّم ہے اور یہ بات ضروریاتِ اسلام سے ہو نے کے علاوہ جو آیات نبوّت کے ختم ہو نے پر دلالت کر تی ہیں ان سے بھی اس کا پتہ چلتا ہے لیکن ہم کو قر آنِ کریم سے کو ئی ایسی دلیل نہ مل سکی جس کے تحت پیغمبر اسلا م ۖسے پہلے ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کی مو جو د گی ثابت ہو ۔قرآنِ کریم کی آیات سے ایک اور بات جس کا پتہ چلتا ہے یہ ہے کہ صرف کچھ ہی انبیائے الٰہی کے اسما ء اور ان کے حا لاتِ زند گی قرآنِ کریم نے بیان کئے ہیں ، تمام انبیاء علیہم السلام کی داستان قرآنِ کریم میں بیان نہیں ہو ئی ہے ۔خدا وند عالم ارشا د فر ماتا ہے(اِنَّااَوْْحَیْنَا اِلَیْکَ کَمٰااَوْحَیْنَااِلیٰ نُوْحٍ وَالنَّبِیِّینَ مِنْ بَعْدِہِ وَاَوْحَیْنَااِلیٰ اِبْرَاہِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبٰاطِ وَعِیْسٰی وَاَیُّوْبَ وَیُوْنُسَ وَ ھٰرُوْنَ وَسُلیْمَٰنَ وَاٰتَیْنَا دَاوُوْد َزَبوُراً۔ وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنٰھُمْ عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ وَ رُسُلاً لَمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَیْکَ وَکَلَّمَ اﷲُ مُوْسیٰ تَکْلِیْماً) (٢)”ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی نازل کی ہے جس طرح نوح اور ان کے بعد کے انبیاء کی طرف وحی کی تھی اور ابراہیم ،اسماعیل ،اسحاق ،یعقوب،اسباط، عیسیٰ، ایوب،یونس، ہارون، اور سلیمان کی طرف وحی کی ہے اور داؤد کو زبور عطا کی ہے اور بہت سے رسول (بھیجے) جن کے قصے ہم آپ سے پہلے ہی بیان کرچکے ہیں اور بہت سے ایسے رسول (بھیجے) جن کا تذکرہ ہم نے تم سے نہیں کیا ہے اور اﷲنے تو موسیٰ سے (کھل کر ) با تیں بھی کی ہیں ”۔…………..١۔الکا فی (الاصول )کتا ب الحجة باب ا نَّ الاَ رْ ضَ لَا تَخْلُوْ ا مِنْ حُجَّةٍ ۔٢۔سورئہ نساء آیت ١٦٣۔١٦٤۔ایک دوسری آیت میں ارشا د ہو تا ہے :(وَلَقَدْ اَرْسَلْنَارُسُلاً مِنْ قَبْلِکَ مِنْہُمْ مَنْ قَصَصْنَاعَلَیْکَ وَمِنْہُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَیْکَ۔۔۔)(١)”اور ہم نے آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیجے ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ آپ سے کیا ہے اور بعض کا تذکرہ بھی نہیں کیا ہے ۔۔۔”۔ان آیا ت سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ پیغمبروں کی تعداد اُن سے کہیں زیا دہ ہے کہ جن کی داستان قرآنِ کریم میں بیان کی گئی ہے ۔
انبیاء علیہم السلام کی جنسقر آنِ کریم نے انبیاء علیہم السلام کے با رے میں ایک با ت عمومیت کے ساتھ یہ بیان کی ہے کہ تما م انبیاء علیہم السلام صرف مرد ہو ئے ہیں :(وَمَااَرْسَلْنَامِنْ قَبْلِکَ اِلّٰارِجَالًا نُوحِیْ اِلَیْہِمْ مِنْ اَھْلِ الْقُرَیٰ۔۔۔)(٢)”او ر (اے رسول )آپ سے پہلے بھی ہم نے آ با دیو ں میں رہنے وا لے ان مر دوں کے سواکہ جن پر وحی کی ہے کسی کو (رسول بنا کر ) نہیں بھیجا ”۔(وَمَااَرْسَلْنَامِنْ قَبْلِکَ اِلّٰارِجَالًا نُوْحِیْ اِلَیْہِم فَسْئَلُوْااَھْلَ الذِّ کْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَاتَعْلَمُوْ نَ )(٣)”اور ہم نے آپ سے پہلے بھی سوا ئے اُن مَردوں کے کہ جن کی طر ف ہم وحی بھیجتے تھے کسی کو پیغمبر نہیں بنایا پس اگر تم خودنہیں جانتے ہوتو اہل ذکر سے دریافت کرو”۔(وَمَااَرْسَلْنَاقَبْلَکَ اِلّٰا رِجَالًا نُوْحِیْ اِلَیْہِمْ۔۔۔)(٤)”اور ہم نے آپ سے پہلے بھی سو ا ئے ان مر دوں کے کہ جن پرہم وحی کیا کرتے تھے کسی کورسو ل بنا کر نہیں بھیجا ”۔چنانچہ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا مذکورہ آیات کے ظاہر بلکہ ان کے صاف و صریح بیان سے معلوم ہوتا ہےکہ تمام پیغمبر مرد تھے اور عورتوں کے درمیان سے کوئی بھی پیغمبر مبعوث نہیں کیا گیا۔…………..١۔سورئہ غافر آیت٧٨۔٢۔سورئہ یوسف آیت١٠٩۔٣۔سورئہ نحل آیت٤٣۔٤۔سورئہ انبیاء آیت٧ ۔
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.