اولواالعزم انبیاء علیہم السلام

192

انبیاء علیہم السلام سے متعلق ایک بحث یہ ہے کہ کیا تمام انبیا ء علیہم السلام کی رسالت ساری دنیا کے لئے عمومی رسالت تھی یا ہر نبی ایک خاص گروہ کے لئے بھیجا گیا ہے ۔ اس مسئلہ کے جواب میں مفسرین میں اختلاف پا یا جاتا ہے پھر بھی مندرجہ ذیل دو با توں پر سب کا اتفاق ہے١۔ تقر یباً تمام مفسر ین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی رسالت عا لمی رسالت نہیں تھی دوسرے لفظو ں میں کم از کم بعض انبیا ء علیہم السلام کی رسالت ایک مخصوص قوم تک محدود تھی ۔٢۔بعض نا سمجھ افراد نے جس شبہ کا اظہار کیا ہے اس سے صرف نظر کرتے ہوئے سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پیغمبر اسلام ۖ تمام دنیا والوں کیلئے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اور آپ کی رسالت کسی خاص قوم سے مخصوص نہیں ہے ۔علاّمہ طباطبائی نے قرآن کریم کی آیات سے استفادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انبیاء کے درمیان پا نچ پیغمبر صا حبِ شریعت اور آسمانی کتاب یا صحیفے اور اجتما عی احکام لیکر آئے ہیں۔ وہ پانچ انبیاء علیہم السلام حضرتِ نو ح علیہ السلام، حضرتِ ابرا ہیم علیہ السلام ، حضر ت مو سیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، اور حضر ت محمد مصطفےٰ ۖ ہیں، ان ہی پا نچوں حضرات کو قر آن کریم نے اولو االعزم پیغمبر کے نا م سے یا د کیا ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہو تا ہے :(فَا صْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ ۔۔۔)(١)…………..١۔سو رئہ احقاف آیت٣٥۔” پس ( اے رسول ) جس طرح اولواالعزم( عالی ہمت ) انبیاء صبر کر تے رہے تم بھی صبر کرو ”۔علامہ طبا طبائی کی نظر میں یہ پانچ او لو االعزم پیغمبر وہ ہیں جن میں ہر ایک مند رجہ بالا خصو صیات کے علاوہ اپنے زمانہ میں پوری دنیا کے لئے رسول رہا ہے اور ان کی دعوت کسی خاص گروہ سے مخصو ص نہیں رہی ہے اس کے بر خلاف بقیہ تمام انبیا ء علیہم السلام ہیںجو ایک مخصو ص گرو ہ کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ۔ علامہ طبا طبا ئی نے مندر جہ بالا دعوے کو ثابت کر نے کے لئے قرآنِ کریم کی آیات شا ہد میں پیش کی ہیں ۔ (١) یہا ں یہ با ت بھی قا بلِ ذکر ہے کہ ان پانچ افراد کو بعض روا یتو ں میں بھی او لو االعزم انبیاء علیہم السلام کے نا م سے یا د کیا گیا ہے اور ان کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔(٢)
کیا اولو ا العزم انبیا ء علیہم السلام ہی صا حبا نِ کتاب و شریعت ہیں ؟جیسا کہ بیان کیا گیا اس میں کو ئی شک نہیں کہ انبیاء علیہم السلام کے ایک گرو ہ کو قر آن کریم نے اولو ا العزم انبیاء علیہم السلام کے نا م سے یا د کیا ہے اور سورئہ احقا ف میں(فَاصْبِرْکَمَا صَبَرَ اُوْلُوْاالْعَزْمِ مِنَ الرُّ سُلِ )اس مسئلے پر واضح طور سے دلا لت کر تی ہے لیکن کسی بھی قطعی دلیل کے ذریعہ پتہ نہیںچلتا کہ یہ او لوا العزم انبیاء علیہم السلام کو ن سے انبیاء علیہم السلام ہیں ؟ آیا یہ او لو ا العزم انبیا ء وہی انبیاء علیہم السلام ہیں کہ جن پر آسمانی کتا بیں نا زل ہو ئی ہیں ؟ یا او لو االعزم ا نبیاء علیہم السلام سے مراد رسو لو ں کا وہ گروہ ہے جوصا حبِ شریعت ہے ؟ یہ وہ سوا لات ہیں جن کے جوا بات کے لئے ہمارے پاس کو ئی قطعی دلیل نہیں ہے۔ دو سرے الفاظ میں قر آن کریم کی کوئی آیت یا توا تر کے ساتھ منقو ل کو ئی بھی روایت ایسی نقل نہیں ہو ئی ہے جس سے یہ معلوم ہو تا ہو کہ صرف پانچ انبیاء علیہم السلام (یعنی حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابرا ہیم علیہ السلام ، حضرت مو سیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفےٰ) ہی صا حبا ن کتاب و شریعت ہو ئے ہیں ۔البتہ جیسا کہ ہم پہلے اشا رہ کرچکے ہیں بعض روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اولو االعز م انبیاء علیہم السلام صرف یہی پانچ ا نبیاء علیہم السلام ہیں لیکن یہ روا یات حدّ توا تر تک نہیں پہنچتیں اس بنا پر ان…………..١۔رجوع کیجئے : سید محمد حسین طبا طبائی ، المیزا ن فی تفسیر القر آن انتشا را ت اعلمی جلد ٢ صفحہ ١٤١ و ١٤٢ ۔)٢۔ نمونہ کے طور پر ملا حظہ کیجئے ، کلینی کی الا صو ل من الکا فی ، کتاب الحجة باب طبقات الا نبیاء والرّسل والا ئمہ حدیث ٣ ۔ علامہ طبا طبائی رحمة اﷲ علیہ کے بقول کہ او لو ا العزم پیغمبر پا نچ افراد ہیں اس مطلب پر روایت حد مستفیض پر دلا لت کر تی ہیں ۔ ملاحظہ ہو المیزان جلد ٢ صفحہ ١٤٥ ، ١٤٦ اور جلد ١٨ صفحہ ٢٢٠ ۔کو دلیل ظنی شما ر کیا جاتا ہے دلیل قطعی نہیں ہیں۔ ان مطالب سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا تا ہے کہ اگر ہم کو کو ئی ایسی آیت یا روایت ملے جو اس چیز پر دلالت کر ے کہ او لو االعزم ا نبیاء علیہم السلام صا حبا نِ کتاب و شریعت ان پانچ انبیا ء سے زیادہ ہیں تو وہ دلیل کسی معا رض کے بغیر قا بل قبول ہوگی اور اس کے مطالب کی تصدیق کی جا سکتی ہے ۔ بہر حال اس وقت یہی کہا جا سکتا ہے کہ صا حبا نِ کتاب و شریعت ا نبیاء علیہم السلام کوان پا نچ انبیا ء علیہم السلام میں منحصر کر نادلیلِ ظنی کے تحت ہے اور اس کا اظہا ر صرف بعض روایات سے ہو تا ہے ۔
صا حبانِ کتا ب او لو االعزم ا نبیاء علیہم السلام کی رسالت کا دا ئرہاب سوا ل یہ ہے کہ آیا او لو ا العزم انبیاء علیہم السلام کی رسالت (چا ہے وہ پا نچ افراد ہو ں یا زیادہ ) ساری دنیا کے لئے تھی یا ان میں سے ہر ایک نبی کسی خا ص قو م کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا تھا؟ جیسا کہ ہم پہلے بھی اشا رہ کرچکے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ پیغمبر اسلام ۖکی رسالت پوری دنیا کیلئے تھی لیکن دوسرے اولوا العزم انبیاء علیہم السلام کے بارے میںکیا کہا جائے ؟ اس سوال کے جواب میں اسلامی دانشمندوں نے دو بنیادی نظر یے پیش کئے ہیں :الف:اولوا العزم انبیاء علیہم السلام کی رسالت عا لمی رسالت نہیں تھی یعنی پور ی دنیا کے لئے وہ رسول بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے مثال کے طور پر حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام صرف بنی اسرائیل کیلئے نبی بنا کر بھیجے گئے تھے اور ان کی دعوت اسی قوم سے مخصوص تھی ۔بعض آیات سے بھی ان کے اس دعوے کی تائید ہوتی ہے( وَ رَسُوْلاً اِلَیٰ بَنِیْ اِسْرَا ئِیْلَ ۔۔۔)(١)”اور (عیسیٰ کو )رسو ل کے عنوان سے بنی اسرا ئیل کی طرف بھیجے گا ”(وَاِذْ قَالَ عِیْسَیٰ ابْنُ مَرْیَمَ یَٰبَنِیْ اِسْرَا ئِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اﷲِ اِلَیْکُمْ ۔۔۔)(٢)”اور جب عیسیٰ بن مر یم نے کہا اے بنی اسرا ئیل میں تمہا رے پاس خدا کا بھیجا ہوا (آیا) ہوں ”۔(٣)مندجہ بالا آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان انبیاء علیہم السلام کی رسالت پوری دنیا کیلئے نہیں تھی اس بناء پر ایک…………..١۔سورئہ آلِ عمران آیت٤٩۔٢۔سورئہ صف آیت٦۔٣۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میںبھی بہت سی آیات ہیں جو اس چیز پر دلالت کرتی ہیں کہ وہ خاص بنی اسرائیل کے لئے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے مثال کے طور پر سورئہ اسراء کی دوسری آیت میں ارشاد خداوندی ہے :(وَآتَیْنَا مُوْسَیٰ الْکِتَابَ وَجَعَلْنَاہ ھُدیً لِبَنِیْ اِسْرَائِیْلَ۔۔۔)”اور ہم نے موسیٰ کو کتاب(توریت)عطا کی اور اسکو بنی اسرائیل کا رہنما قرار دیا ۔۔۔” اسی طرح ملاحظہ فرمائیں سورئہ اسراء (آیت١٠١)سورئہ طہ آیت٤٧،سورئہ شعراء آیت ١٧۔اور سورئہ غا فر آیت٥٣۔پیغمبر کے آسمانی کتاب کے حا مل ہونے اور اس کے عا لمی ہو نے کے مابین کوئی لزو م نہیں پایا جاتا ۔ب۔دوسرے نظریہ کی بنیاد پر اولوا العزم انبیاء علیہم السلام اور صاحبان کتاب دو طرح کے تبلیغی فرائض انجام دیتے تھے ۔١۔خدا کی عبادت ،توحید اور شرک نہ کرنے کی دعوت ۔٢۔ایک خاص شریعت اور احکام کی دعوت ۔پہلی دعوت پوری دنیا کیلئے تھی اس کے برخلاف دوسری دعوت ایک خا ص قوم سے مخصوص تھی مثال کے طور پر آیات قرآنی سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو پیغام توحید کے ساتھ شرک نہ کرنے کی دعوت دی تھی اور اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت اپنے اعتقادی پہلو سے فرعون اور فرعونیوں کے لئے بھی شامل تھی حالانکہ ان کا بنی اسرائیل میں شمار نہیں ہوتا ۔ دوسری طرف بنی اسرائیل کے مصر سے خارج ہونے اور ان کے اس سرزمین میں پہنچنے کے بعد کہ جس کا خدا نے حکم دیا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کچھ تختیاں نازل ہوئیں ان الواح پر وہ احکام درج تھے جو قوم بنی اسرائیل سے مخصوص تھے اس میںدوسرے قبیلوںاور قوموں کو خطاب نہیں کیا گیا تھا ۔اس خیال کی بنیاد پر حامل کتاب انبیاء علیہم السلام ایک طرف تو دعوت عام کے تحت پوری دنیا کو توحید یعنی خدائے لاشریک کی عبادت کی دعوت دیا کرتے تھے اور دوسری طرف اپنی قوم والوں کو مخصوص احکام و شرائع کی دعوت دیا کرتے تھے اور قوم پر ان احکام کی اطاعت واجب تھی ۔یہ دونوں نظریے اس باب میں بیان کئے گئے تمام نظریوں میں سب سے اہم نظریے ہیں۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.