پیغمبر اسلام ۖ کی رسالت کا اثبات
انبیاء الٰہی کے درمیان حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام، اور حضرت مو سی علیہ السلام نے خدا کی جانب سے زمانے کے تقاضوں کے لحاظ سے اخلاقی وظائف اور فردی و اجتماعی احکام و قوانین پر مشتمل کتاب ،بشر کی دسترس میں قرار دی، لیکن یہ کتابیں یا تو زمانہ کے گذرنے کے ساتھ بالکل محو ہوگئیں یا اُن میں لفظی اورمعنوی تحریفیں کی گئیں، اور اس طرح آسمانی شریعتیں مسخ ہوگئیں جب کہ جناب موسی علیہ السلام کی کتاب توریت میں بے شمار تحریفیں ہوئیں اور اب حضرت عیسی علیہ السلام کی انجیل کے نام سے کوئی کتاب باقی نہیں رہی، بلکہ آج جو کچھ ہے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد اُن کے حواریوں کے نوشتہ جات ہیں، جنھیں کتاب مقدس کا نام دیا گیا ہے۔اگر کوئی منصف انسان کتاب توریت اور انجیل کا مطالعہ کرے تو اُسے بخوبی معلوم ہو جائے گا، کہ یہ کتابیں حضرت موسی علیہ السلام اور جناب عیسی علیہ السلام کی نہیں ہیں توریت کا حال تو یہ ہے کہ وہ خدا کو ایک انسان کی شکل میں بیان کرنے کے علاوہ خدا اور اس کے رسولوں کی طرف شرمناک نسبتیں دیتی ہے ،کہ خدا بہت سے امور سے بے خبر ہے(١) اور بارہا جس عمل کو انجام دیتا ہے اس سے پشیمان ہوجاتا ہے(٢) وہ اپنے بندوں میں سے ایک بندہ (حضرت یعقوب علیہ السلام) سے کشتی لڑتا ہے لیکن اُسے مغلوب نہیں کر پاتا اور جب تھک جاتا ہے تو اُس سے التماس کرتا ہے کہ اُسے چھوڑ دے ، تا کہ اس کی مخلوقات اپنے خدا کو اِس حال میں مشاہدہ نہ کرے،(٣) اسی کتاب میں جناب دائود علیہ السلام کی طرف زنا محصنہ کی نسبت دی ہے (٤) اور جناب لوط علیہ السلام کی طرف شراب نوشی اور محارم سے زنا کی نسبت بھی دی گئی ہے،(٥) اس کے علاوہ کتاب توریت کے لانیوالے حضرت موسیٰ کی موت کی شرح بھی بیان کرتی ہے کہ وہ کیسے اور کہاں انتقال کر گئے(٦)کیا صرف یہی نکات ہمارے سمجھنے کے لئے کافی نہیں ہیں کہ یہ توریت حضرت موسی علیہ السلام کی توریت نہیں ہے؟ لیکن انجیل کا حال تو توریت سے بھی برُا ہے ا س لئے کہ اولاً جو کتاب حضرت عیسی علیہ السلام پر نازل ہوئی یہ وہی انجیل نہیں ہے اور خود مسیحیوں نے بھی کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا ہے،…………………………(١)توریت سفر پیدائش۔ تیسرا باب شمارہ ٨۔١٢(٢)توریت، سفر پیدائش۔ چھٹا باب شمارہ ٦۔(٣)توریت، سفر پیدائش ۔٣٢٠ باب شمارہ ٢٤۔٣٢.(٤) عہدقدیم، سموئیل کی دوسری کتاب گیارہواں باب۔(٥) توریت سفر پیدائش انیسواں باب شمارہ ٣٠۔٣٨۔(٦) تورات سفر تشنیہ ۔باب ٣٤بلکہ آج جو کچھ بھی اُن کے حواریوں کے نوشتہ جات ہیں یہ کتا ب شراب نوشی کی تجویز کے علاوہ اُسے بنانے کو حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات میں شمار کرتی ہے(١)خلاصہ یہ ہے کہِ ان دواولوالعزم رسولوں پر جو کچھ بھی نازل ہوا تحریف کا شکار ہوگیا، اور اب اس میں لوگوں کی ہدایت کی صلاحیت باقی نہیں رہی، لیکن یہ تحریفیں کیسے ہوئیں اس کی بڑی مفصل داستان ہے جسے یہاں بیان کرنے کا موقع نہیں ہے۔(٢)ہاں! حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت کے چھ سو سال بعد جب جہل اور ظلم و بربریت نے دنیا کے گوشہ گوشہ کو تاریک بنارکھا تھا، اور ہدایت کے چراغ خاموش ہوچکے تھے، تو خداوند متعال نے اس دور کے پست ترین اور تاریک ترین سرزمین پر اپنے آخری رسول ۖ کو مبعوث کیا ،تا کہ ہمیشہ کے لئے چراغ وحی کو فروزاں بنادے ،اور نسخ و تحریف سے محفوظ جاودانی کتاب کو بشر کے ہاتھوں میں تھا دے اور اس طرح لوگوں کو حقیقی معارف، آسمانی حکمتیں اور الٰہی قوانین کی تعلیم سے آراستہ کردے نیز دنیا و آخرت میں سعادت کی راہ کی طرف گامزن کر دے ۔(٣)امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام آنحضرت ۖ کی بعثت کے دور کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ‘ خدا نے اپنے رسول ۖ کو اس وقت مبعوث کیا جب گذشتہ انبیاء علیہ السلام کی بعثتوں سے کافی فاصلہ واقع ہوچکا تھا، لوگ گہرے خواب میں پڑے سورہے تھے، دنیا کے گوشہ گوشہ میںفتون کے شعلے بھڑک رہے تھے، امور پراکندہ تھے، جنگ کے شعلہ بھڑک رہے تھے، گناہ اور جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی، دھوکہ دھڑی اور حیلہ گری آشکار تھی، حیا ت بشر کا تناور درخت مرجھایا ہوا تھا اور اس کے سرسبز ہونے کی کوئی اُمید بھی نہ تھی، پانی کی قلت، مشعل ہدایت خاموش ، گمراہی کے……………………………(١)انجیل، یوحنا باب سوم.(٢)اظہار الحق، مصنف رحمة اللہ ہندی، الہدیٰ الی دین المصطفیٰ مصنف علامہ بلاغی، راہ سعات، مصنف علامہشعرانی.(٣)سورۂ جمعہ ٣٢.پرچم لہرا رہے تھے، بشر کو بد بختیوں نے گھیر رکھا تھا، اور اپنا کریہہ چہرہ نمایاں کردیا تھا، ایسی گمراہی و جہالت اور بد اخلاقی کی وجہ سے فتنہ کے سر اٹھانے کا ہر دم خطرہ تھا، لوگوں پر ناامیدی، ڈر، اور نا امنی کے تاریک بادل چھا ئے ہو ئے تھے، اور اپنے لئے شمشیر کے علاوہ کسی اور چیز کو پناہگاہ نہیں سمجھتے تھے’۔(١)آنحضرت ۖکے ظہورکے بعد بشر کے لئے خدا شناسی، حقیقت جوئی، نبوت کے سلسلہ میں جستجو تحقیق، اور دین اسلام کی حقانیت جیسے اہم موضوعات تصور کئے جاتے رہے ہیں، ان موضوعات کے اثبات کے ساتھ نسخ و تحریف سے محفوظ قرآن کریم کی حقانیت اور اس کا کتاب الھی و آسمانی ہونا نیز تا قیامت بشر کے لئے ضمانت شدہ راستہ ،تمام صحیح عقائد کے اثبات اورتمام احکامات کا تعارف رہتی دنیا تک کے لئے کی گئی ہے ، جس کے ذریعہ تمام معارف ہستی کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے۔
پیغمبر اسلام ۖ کی رسالت کا اثبات۔جیسا کہ ہم نے ستائسیویں درس میں بیان کیا کہ کسی بھی نبی کی نبوت کو ثابت کرنے کے لئے تین راستے ہیں۔ ١۔پہلا راستہ، اس نبی کی گذشتہ زندگی سے آشنائی اور حالات و قرائن سے مدد لینا۔٢۔ دوسرا راستہ، گذشتہ نبی کی پیشینگوئی۔٣۔ تیسرا راستہ ، انبیا ء علیہم السلام کا معجزہ دکھانا ہے۔آنحضرت ۖ کی نبوت کے اثبات کے لئے یہ تینوں راستہ موجود تھے مکہ والوں نے آپ کی چالیس سالہ زندگی کو نزدیک سے مشاہدہ کیا تھا اور بخوبی اُنھیں معلوم تھا کہ آپ ۖکی زندگی میں کوئی ضعیف پہلو نہیں ہے اور اِس حد تک آپ ۖکو سچا اور امانتدار سمجھتے تھے ،کہ آپ کوامین کے لقب سے یاد کرتے تھے، لہٰذا ایسے شخص کی طرف جھوٹ بولنے اورجھوٹے دعویٰ کرنے کی…………………………………………(١)نہج البلاغہ ۔خطبہ ١٨٧
نسبت نہیں دی جاتی تھی ،اس کے علاوہ گذشتہ نبیوں نے آپ کے ظہور کی بشارت دی تھی(١) اور اہل کتاب کا ایک گروہ واضح نشانیوں اور علامات کے ساتھ انتظار میں تھا۔(٢) یہاں تک کہ یہ لوگ مشرکین عرب سے کہا کرتے تھے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ایک رسول مبعوث ہونے والا ہے کہ جس کی خبر گذشتہ انبیا ء علیہم السلام نے دی ہے اور وہ ادیان توحیدی کی تصدیق بھی کرے گا۔(٣) اسی وجہ سے یہودو نصاریٰ کے بعض علما ء اِنھیں علامتوں کے پیش نظر آپ پر ایمان لائے (٤) اگر چہ ان میں سے بعض نے نفسا نی اور شیطانی خواہشات کی وجہ سے اسلام کو قبول کرنے سے روگردانی کرلی، قرآن کریم اس سلسلے میں فرماتا ہے:(اَوَلَم یَکُن لَّھُم آیَةً اَن یَعلَمَہُ عُلمَائُ بَنِ اِسرَائِیلَ)(٥)کیا اُن کے لئے یہ نشانی کافی نہیں ہے کہ آپ ۖ کو علماء بنی اسرائیل جانتے ہیں۔جس طرح علماء بنی اسرائیل کی طرف سے آنحضرت ۖ کے سلسلہ میں خبر دینا ،اور گذشتہ نبیوں کی پیشینگوئیاں، آنحضرت ۖکی رسالت پر اہل کتاب کے لئے روشن گواہیاں تھیں اسی طرح دوسروں کے لئے گذشتہ نبیوں کی حقانیت نیز خود آنحضرت ۖکی حقانیت پر حجت تھی، اس لئے کہ وہ لوگ ان پیشنگوئیوں کی صداقت اور علامتوں کو بخوبی مشاہدہ کرتے تھے اور اپنی عقل کی بنیاد پر اچھی طرح تشخیص بھی دیتے تھے۔………………………………………………(١)سورۂ صف آیت/٦(٢)سورۂ اعراف۔ آیت /١٥٧،بقرہ آیت/١٤٦، سورہ انعام آیت/٢٠(٣)سورۂ بقرہ۔ آیت /٨٩(٤)سورۂ مائدہ آیت /٨٣، احقاف آیت/١٠(٥) سورہ شعراء ۔ آیت /١٩٧
اور سب سے عجیب بات تو یہ ہے کہ آج کی توریت و انجیل میں ایسی بشارتوں کو تحریف اور محو کردینے کی تمام سعی و کوشش کے باوجود اس میں ایسے نکات ا ب بھی موجود ہیں جو حق کے طلبگاروں پر حجت تمام کر دیتے ہیں، جیسا کہ علما یہود و نصاریٰ میں سے ایک کثیر تعداد،انھیں نکات کے پیش نظر حق طلبی کی وجہ سے دین اسلام پر ایمان لاچکی ہے۔(١)اسی طرح آنحضرت ۖنے بے شمار معجزے پیش کئے جو احادیث کی صحیح کتابوں میں تواتر کے ساتھ نیز تاریخ کے دامن میں آج محفوظ ہیں،(٢)لیکن آخری رسول اور جاودانی دین کو پہچنوانے میں عنایت الٰہی کا تقاضا یہ تھا، کہ ان معجزات کے علاوہ جو اتمام حجت کردیتے ہیں، آنحضرت ۖ کو ایک ایسا ابدی معجزہ عطا کر ے کہ جو قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے حجت رہے، ہاں وہ قرآن ہے، اسی وجہ سے آئندہ درس میں ہم اس کتاب کی اعجازی شان بیان کریں گے۔…………………………(١)ان علماء میں مرزا محمد رضا (جنکا شمار تہران کے عظیم یہودی دانشمندوں میں ہوتا ہے) اور ‘اقامة الشہود فی رد الیہود’ کے مصنف بھی ہیں، یزد کے علماء یہود میں سے حاج بابا قزوینی صاحب کتاب ‘محضر الشہود فی رد الیہود’ بھی ہیں۔ مسیحیوں کے مطابق اسقف پروفیسر عبد الاحد دائود صاحب کتاب ‘محمد در توریت و انجیل’ ہیں۔(٢)بحار الانوار ج٢٧ ص٢٢٥ اتک ١٨، اور تمام حدیث و تاریخ کی کتابیں ملاحظہ فرمائیں