آیہء صادقين کی روشنی ميں اما مت

323

( >یاایّہاالذین آمنوااتقوااللّٰہ وکونوامع الصادقين < (سورئہ توبہ/ ١١٩”اے صا حبا ن ایمان!الله سے ڈرواورصادقين کے ساته ہوجاؤ”جس آیہء شریفہ کے بارے ميں ہم بحث وتحقيق کرنا چاہتے ہيں،اس پر سر سری نگاہڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ميں ایک اخلاقی پہلوہے مذ کورہ آیت ميں تقوی کاحکمدینے کے بعد مو منين سے یہ کہا جا رہا ہے کہ صادقين کے ساته ہوجاؤ۔ليکن یہ بات یاد رہے کہہميں ہميشہ سرسری نگاہ کرنے سے پرہيز کرنا چاہئے۔ قرآن مجيد کا ارشادہے:( >فارجع البصرہل تریٰ من فطور ثمّ ارجع البصرکرّتين < (سورہ ملک/ ٣۔ ۴”پهر نظراڻهاکردیکهوکہيں کوئی شگاف تو نہيں ہے۔اس کے بعدباربارنگاہ ڈالو”خاص کر قرآن مجيد ميں اس کے بلندمعارف تک رسائی اوراس کے مفاہيم کی گہرائيوںتک پہنچنے کے لئے اس امر کی رعا یت بہت ضروری ہے چنانچہ بعض مواقع پر خودقرآن نےتدبرکرنے کاحکم فرمایاہے۔ہميشہ اور بار بارغوروخوض کی ضرورت ہے۔ اس لئے قرآن مجيد کےسلسلہ ميں ابتدائی اورسرسری نگاہ ڈالنے پر اکتفا نہيں کرنا چاہئے بلکہ اس کی آیتوں پر تدبراور غورو خوض کرناچاہئے۔اگرہم اس آیہ کریمہ کا اس نقطہ نظر سے مطا لعہ کریں تو ہميں معلوم ہو گا کہ اس آیتکریمہ ميں قرآن مجيد کے ایک عظيم اور اصلی معارف، یعنی اما مت و رہبری کے مسئلہ ، کوبہترین تعبير ميں پيش کيا گيا ہے۔اس لحاظ سے امامت سے مربوط آیات کی بحث و تحقيق ميں یہ آیہ کریمہ بهی نمایاںاور قابل توجہ ہے۔ اس آیہ شریفہ کے سلسلہ ميں بحث و تحقيق چند محوروں پرمشتمل ہے:١۔آیت کے مفردات اور مفاہيم کی تحقيق۔٢۔مذکورہ آیت کااس سے پہلے والی آیات سے ربط٣۔اس آیت کامسئلہ رہبری سے ربطہ اور اس کے قرائن کی چهان بين پڑتال۔۴۔علما ء ومفسرین کے بيانات ۵۔شيعہ،سنی احادیث وروایاتآیت کے بارے مفردات ميں بحثاس حصہ ميں جن الفاظ کی تحقيق ضروری ہے وہ لفظ”صدق”اور”صادقين”ہيں۔اسسلسلہ ميں پہلے ہم ان کے لغوی معنی پر ایک نظرڈاليں گے اور ان کے بعد اس کے قرآنیاستعمالات پر بحث کریں گے۔
استعمالا ت لغویاس سلسلہ ميں ہم دو اہل لغت کے بيانات کی طرف اشارہ کرتے ہيں:١۔ ابن منظور نے “لسان العرب ١”ميں لفظ”صدق”کے مختلف استعمالات کویوں بيانکياہے:الصدق:نقيض الکذب،سچ،جهوٹ کی ضدہے۔رجل صدق:نقيض رجل سوء۔اچهاانسان برے انسان کی ضدہے۔یعنی اچهائی اور برائیکی صفتيں ایک دوسرے کی ضدہيں۔وکذالک ثواب صدق وخمارصدق،اسی طرح کہا جاتا ہے اچها لباس اوراچهابرقعہ۔ویقال: رجل صدق،مضاف بکسرالصادومعناہ نعم الرجل هونيزاسی——–١۔لسان العرب ،ج ١٠ ،ص ٣٠٩ ۔ ٣٠٧طرح حالت اضا فت ميں صاد کے کسرے کے ساته استعمال ہو تا ہے”رجل صدق”یعنیوہ ایک اچها مردہے۔رجل صدق اللقاء وصدق النظر،خوش اخلاق مرداور خوش بين انسان۔والصّدق:بالفتح الصلب من الرماح وغيرہا، ورمح صدق:مستو،وکذالک سيف صدق:صاف اورسيدها نيزہ ،اوراسی طرح سيدهی تلوارکو بهیصدق کہتے ہيں۔عن ابن درستویہ:قال إنّما لصدق الجامع للاٴوصاف المحمودة۔ابن درستویہ کا کہنا ہےکہ”صدق”اس شخص کوکہاجاتاہے جس ميں تمام پسندیدہ اوصاف موجودہوں۔قال الخليل:الصدق:الکامل کلّ شیءٍ۔خليل نے کہاہے کہ ہرمکمل چيزکو”صدق”کہتے ہيں۔٢۔”مفردات قرآن ١ ” ميںراغب کاکہناہے:ویعبّرعن کل فعل فاضل ظاہراًوباطناًًبالصدق،فيضاف إليہ ذٰلک الفعل الّذی یوصف بہ نحو قولہ۔۔۔”ہروہ کام جوظاہروباطن کے اعتبارسےاچها اور پسندیدہ ہو اسے”صدق” سے تعبير کيا جاتا ہے اوراس کے موصوف کی”صدق”کینسبت )اضافت) دی جاتی ہے۔استعما لات قرآ نی کے وقت ہم اس کے شاہدپيش کریں گے۔
استعمالات قرآنیقرآن مجيد ميں ہميں بہت سی ایسی آیات نظر آتی ہيں جن ميں لفظ”صدق”کوایسیچيزوں کی صفت قرار دیا گياہے جوگفتگووکلام کے مقولہ نہيں ہےں۔نمونہ کے طور پر درج ذیلآیات ملاحظ ہوں:——–١۔مفردات فی القرآن،ص ٢٧٧ ،دارالمعرفة،بيروت”وبشّرالّذین آمنوا اٴنّ لہم قدم صدق عندربّہم<( (سورہ یونس/ ٢اس آیہء شریفہ ميں‘ صدق”،”قدم”کی صفت واقع ہے۔( >ولقدبوّاٴنا بنی اسرائيل مبوّاٴصدق>)سورئہ یونس/ ٩٣اس آیہء شریفہ ميں”صدق”کو”جگہ”کی صفت قرار دیا گياہے۔( >وقل ربّ اٴدخلنی مدخل صدق واٴخرجنی مخرج صدق<سورئہ اسراء/ ٨٠اس آیہء شریفہ ميں “مدخل” و “مخرج” یااسم مکان)داخل اورخارج کرنے کی جگہ) ہيںیا مصدر) خودکوداخل کرنایاخارج کرنا)ہيں۔بہرحال کسی طرح بهی مقولہ کلام سے نہيں ہے۔( >فی مقعد صدق عند مليک مقتدر>)سورئہ قمر/ ۵٠اس آیہ شریفہ ميں “صدق”،”مقعد”)جگہ اوربيڻهنے)کی صفت ہے۔>ليس البرّاٴن توَلّوُاوجوہکم قبل المشرق والمغرب ولکنّ البرّمن آمن باللّٰہ واليوم الآخروالملائکةوالکتاب والنبيّين وآتی المال علی حبّہ ذوی القربی واليتامیٰ والمساکين وابن السبيل والسائلينوفی الرقاب واقام الصلوة وآتی الزکوةوالموفون بعہدہم إذاعاہدواوالصابرین فی الباٴسائ والضرّاء( وحين الباٴس اولئک الّذین صدقواواٴُولئک ہم المتّقون>)سورئہ بقرہ/ ١٧٧اس آیہء شریفہ ميں خداوندمتعال نے پہلے نيکيوں کوعقائد کے شعبہ ميں یعنیخدا،قيامت،فرشتوں،آسمانی کتابوں اورانبياء پرایمان کے سلسلہ ميں اس کے بعدعمل کےشعبہ ميں یعنی اپنے رشتہ داروں،محتاجوں،ابن سبيل اورسائلوں کوانفاق کرنا،خداکی راہ ميںبندوں کو آزادکرنانيزایفائے عہدکرنا وغيرہ وغيرہ کی طرف اشارہ کياہے۔اس کے بعداخلاقی شعبہميں یعنی مشکلات و پریشاں نيوں ميںصبروتحمل استقامت و پائيداری کا مظا ہرہ کر نے کیطرف اشارہ کرتا ہے۔اورمذکورہ تينوں شعبوں ميں نيکياں کرنے والوںصد ق وتقویٰ کے ذریعہتعریف کرتاہے۔لغت اورآیات کریمہ ميں مذکورہ استعمالات کے پيش نظرواضح ہوجاتاہے کہ”صدق”کاایکایساوسيع مفہوم ہے کہ جس کا دائرہ صرف مقولہء،کلام،وعدہ وخبرتک محدود نہيں ہے،بلکہ یہفکرواندیشہ عقا ئد و اخلا قيات نيزانسانی رفتارجيسے دیگر مواردپربهی اطلاق کرتا ہے اوراسکااستعمال ان موا رد ميں حقيقی ہے۔
اس آیت کا گزشتہ آیات سے ربطاس آیت سے پہلی والی آیت )جيساکہ تفسير وحدیث کی کتابوں ميں آیا ہے )انمومنين کے بارے ميں ہے کہ جنہوں نے پيغمبراسلام (ص) کے ہمراہ جنگ تبوک ميں جانےسے انکار کيا تها اوراس کے بعدنادم اورپشيمان ہوکرانهوں نے توبہ کرلی تهی،مسلمانوں نےپيغمبراکرم (ص) کے حکم سے ان کے ساته اپنے رشتہ نا طے توڑ دئے تهے،یہاں تک کہ انکی بيویوں نے بهی ان سے بات کرنا چهوڑدی تهی۔انہوں نے جب شہر سے باہرنکل کربارگاہ الٰہی ميں التماس والتجا کی اور خدا کی بارگاہ ميں توبہ کی تو خدا وند متعال نے ان کی توبہ قبول کی اوروہ پهرسے اپنے لوگوں اوراپنےخانوادوں ميں واپس لوڻے۔بعد والی آیت ميں بهی خدا وند متعال فرماتا ہے”اہل مدینہ اوراس کے اطراف کے لوگوںکو نہيں چا ہئيے کہ پيغمبر خدا (ص)کی مخالفت اوران سے رو گردانی کریں۔ اس کے بعد خداکی راہ ميں مشکلات و پریشا نياں،بهوک وپياس کی سختياں برداشت کرنے کی قدرواہميت کیطرف بهی اشارہ کرتاہے۔اس آیہء شریفہ)زیر بحث آیت)ميں مؤمنين کومخاطب کرکے انهيں تقویٰ و پر ہيز گاری کاحکم دیا گيا ہے،اورانهيں اس بات کا پيغام دیا گيا ہے کہ وہ”صادقين”کے ساته ہوجائيں۔اب دیکهنایہ ہے کہ آیہء شریفہ ميں”صادقين”سے مراد کون لوگ ہيں؟
اس آیت کا ائمہ معصومين(ع)کی امامت سے ربطابتدائی نظر ميں )جيسا کہ”صدق” کا مفہوم بيان کرتے ہوئے اشارہ کيا گيا ) ایسالگتاہےکہ جملہ<کونوامع الصادقين>سے مرادسچوں کے ساته ہونے کاحکم ہے۔قابل غور بات اورجو چيز ضروری ہے وہ سچ بولنااورجهوٹ بولنے سے پر ہيز کر نا ہے۔ ليکنسچ بولنے والوں کے ساته ہونا یہ شر عی واجبات ميں سے نہيں ہے،جبکہ سچوں کے ساتهہونے کا یہ آیہ شریفہ ميں حکم ہواہے اور یہ امروجوبی ہے اور جملہ<کونوامع الصادقين>کاوقوع”إ تقوااللّٰہ”کے سياق ميں ہے کہ جس ميں تقوائے الٰہی کا حکم تهالہذایہ بيشک وجوب کےلئے ہے اوراس سے وجوب کی مزیدتاکيدہوتی ہے۔مفہوم صدق کی وسعت کے پيش نظرمقولہ کلا م و گفتگو تک محدودیت نہيں ہے بلکہاس کا دائرہ فکرو عقائد،اخلاق وکردار نيزرفتار و عمل تک پهيلا ہواہے کہ جس ميںصادقين سےہونے کو آیہء کریمہ ميںواجب قرار دیا گياہے،ہم اس نتيجہ پرپہنچتے ہيں کہ صادقين کے ساتهہونے سے مرادجسمانی معيت اورہمراہی نہيں ہے بلکہ ہمراہی ہراس چيز ميں ہے جس ميںصحت وسچائی پا ئی جاتی ہو اورآیہء کریمہ ميں صادقين سے مرادوہ لوگ ہيں جوصدق مطلقکے مالک ہيں نہ مطلق صدق کے۔او رصدق مطلق وہ ہے جوہر جہت سے سچااورصحيحہواورفکروعقائد،گفتاروکرداراور اخلاقيات کے لحاظ سے کسی طرح کا انحراف نہ رکهتاہو۔اس طرحکا شخص معصوم کے علاوہ کوئی اور نہيں ہوسکتاہے۔اس طرح کے انسان کے ساته ہونےکامطلب اس کے افکار و عقائد، کردارواخلاق کی پيروی کر نا ہے۔چونکہ مسلمانوں کااس بات پراجماع ہے کہ چودہ معصومين عليہم السلام کے علاوہکوئی صاحب عصمت اور صدق مطلق کا مالک نہيں ہے،اس لئے”صادقين” سے مرادپيغمبراکرمصلی الله عليہ وآلہ وسلم اور ائمہ معصومين عليہم السلام ہوں گے۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.