امامت آیہء مباہلہ کی روشنی ميں
نجران کے عيسائی اوران کاباطل دعویٰ>فمن حاجّک فيہ من بعد ما جاء ک من العلم فقل تعالوا ندعُ اٴبنائنا و اٴبناء کم و نسائنا و( نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم ثمّ نبتہل فنجعل لعنة اللّٰہ علی الکاذبين>)آل عمران/ ۶١(“پيغمبر!)علم کے آجانے کے بعدجو لوگ تم سے (حضرت عيسی عليہ السلام کے بارےميں)کٹ حجتی کریں،ان سے کہ دیجئے کہ چلوہم لوگ اپنے اپنے فرزند،اپنی عورتوں اوراپنےاپنے نفسوں کودعوت دیں اورپهرخداکی بارگاہ ميں دعا کریں اورجهوڻوں پرخداکی لعنت کریں”آیہء شریفہ ميں گفتگونجران کے عيسائيوں کے بارے ميں ہے کہ وہ حضرت عيسی عليہالسلام کوخداجانتے تهے اوران کے بغيرباپ کے پيداہونے کی وجہ سے ان کے خدا ہونے کیدليل تصورکرتے تهے۔اس سے پہلی والی آیت ميں ایاہے:( >إنّ مثل عيسی عند اللّٰہ کمثل آدم خلقہ من تراب ثمّ قال لہ کن فيکون>(آل عمران/ ۵٩”بيشک عيسی کی مثال الله کے نزدیک آدم جيسی ہے کہ انهيں مڻی سے پيداکيا اور پهرکہاکہ ہو جاؤ تو وہ خلق ہوگئے۔”مذکورہ آیت ان کے دعوے کوباطل کرتی ہے۔یعنی اگرتم لوگ حضرت عيسی بن مریمعليہماالسلام کے بارے ميں بغيرباپ کے پيداہونے کے سبب ان کے خدا ہونے کے قائل ہو توحضرت آدم عليہ لسلام ماں اورباپ دونوں کے بغيرپيدا ہوئے ہيں،اس لئے وہ زیادہ حقدار وسزاوارہيں کہ تم لوگ ان کی خدائی کے معتقدہوجاؤ۔اس قطعی برہان کے باوجود انہوں نے حق کوقبول کر نے سے انکارکيااوراپنےاعتقادپرڈڻے رہے۔بعدوالی آیت ميں خدائے متعال نے پيغمبراکرم (ص) سے مخاطب کر کے حکم دیاکہانهيں مباہلہ کرنے کی دعوت دیں۔اگرچہ اس آیت (آیہء مباہلہ)کے بارے ميں بہت سی بحث ہيں،ليکن جوبات یہاں پرقابلتوجہ ہے،وہ اہل بيت عليهم السلام،خاص کرحضرت علی عليہ السلام کے بارے ميں چندنکاتہيں،جوآنحضرت (ص) کے ساته مباہلہ کے لئے آئے تهے۔مذکورہ آیہء شریفہ اوراس سے مربوط احادیث کی روشنی ميں ہونے والی بحثيں مندرجہذیل پانچ محورپر استوارہے:١۔پيغمبراکرم (ص) ماٴمورتهے کہ مباہلہ کے لئے کن لوگوں کواپنے ساته لائيں؟٢۔ان کے ميدان مباہلہ ميں حاضرہونے کامقصدکياتها؟٣۔آیہء شریفہ کے مطابق عمل کرتے ہوئے آنحضرت (ص) کن افراد کواپنے ساته لائے؟۴۔آیہء مباہلہ ميں حضرت علی عليہ السلام کامقام اوریہ کہ آیہء شریفہ ميں حضرت علیعليہ السلام کونفس پيغمبر (ص)کہا گياہے نيزاس سے مربوط حدیثيں۔۵۔ان سوالات کا جواب کہ مذکورہ آیت کے ضمن ميں پيش کئے جاتے ہيں۔
پہلامحورآیہء مباہلہ ميں پيغمبر (ص) کے ہمراہپہلی بحث یہ کہ پيغمبراسلام (ص) کو مباہلہ کے سلسلہ ميں اپنے ساته لے جانے کےلئے کن افرادکودعوت دینی چاہئے تهی،اس سلسلہ ميں ایہء شریفہ ميں غوروخوض کے پيشنظردرج ذیل چندمسائل ضروری دکهائی دیتے ہيں:الف:”ابنائنا”اور”نسائنا”سے مرادکون لوگ ہيں؟ب:”انفسنا”کامقصودکون ہے؟>۔۔۔تعالوا ندع اٴبنائناو اٴبنا ئکم۔۔۔<ابناء ابن کاجمع ہے یعنی بيڻے،اورچونکہ”ابناء کی”ضميرمتکلم مع الغير یعنی “نا” کیطرف نسبت دی گئی ہے ١ اوراس سے مرادخودآنحضرت (ص) ہيں،اس لئے آنحضرت (ص)کوکم ازکم تين افراد،جوان کے بيڻے شمارہوں،کومباہلہ کے لئے اپنے ہمراہ لاناچاہئے۔>۔۔۔ونسائنا ونسائکم۔۔۔<“نساء”اسم جمع ہے عورتوں کے معنی ميں اورضميرمتکلم مع الغير یعنی “نا”کی طرفاضافت دی گئی ہے۔اس کاتقاضایہ ہے کہ آنحضرت (ص) اپنے گهرانے ميں موجود تمامعورتوں(چنانچہ جمع مضاف کی دلالت عموم پرہوتی ہے) یاکم ازکم تين عورتوں کو)جوکم سے١۔اس آیہء شریفہ ميں استعمال کئے گئے متکلم مع الغير والی ضميریں،معنی کے لحاظ سے یکساں نہيںہيں۔”ندع”ميں پيغمبرصلی الله عليہ وآلہ وسلم اورطرف مباہلہ وآنحضرت عليہ السلام یعنی نصاریٰمقصودہے،اور”ابناء”،”نساء”و”انفس”اس سے خارج ہيں۔اور”ابنائنا،”نسائنا”اور”انفسنا”ميں خودپيغمبراکرم صلی اللهعليہ وآلہ وسلم مقصودہيں اورطرف مباہلہ اورابناء،نسائ اور انفس بهی اس سے خارج ہيں۔”نبتهل” ميں پيغمبرصلی الله عليہ وآلہ وسلم اور طرف مباہلہ اور ابناء،نساء اورانفس سب داخل ہيں۔کم جمع کی مقدار اور خاصيت ہے)مباہلہ کے لئے اپنے ساته لاناچاہئے۔اس بحث ميں قابل ذکرہے،وہ”اٴبنائناونسائناواٴنفسنا”کی دلالت کااقتضاہے اوربعدوالےجوابات محورميں جومباہلہ کے هدف اورمقصدپربحث ہوگی وہ بهی اس بحث کاتکملہ ہے۔ليکن”اٴبناء”اور”نساء”کے مصادیق کے عنوان سے کتنے اورکون لوگ مباہلہ ميںحاضرہوئے،ایک عليحدہ گفتگوہے جس پرتيسرے محورميں بحث ہوگی۔>۔۔۔وانفسنا وانفسکم۔۔۔<انفس،نفس کی جمع ہے اورچونکہ یہلفظ ضميرمتکلم مع الغير”نا” (جس سےمقصودخودآنحضرت (ص) کی ذات ہے)کی طرف مضاف ہے،اس لئے اس پر دلالت کرتاہے کہپيغمبراسلام (ص) کو)جمع کے اقتضاکے مطابق)کم ازکم تين ایسے افراد کومباہلہ کے لئے اپنےساته لاناچاہئے جوآپ کے نفس کے زمرے ميں آتے ہوں۔ کيا”اٴنفسنا”خودپيغمبراکرم) ص)پرقابلانطباق ہے؟اگر چہ”اٴنفسنا” ميں لفظ نفس کا اطلاق اپنے حقيقی معنی ميںصرف رسول الله (ص)کے نفس مبارک پرہے،ليکن آیہء شریفہ ميں موجود قرائن کے پيش نظر”اٴنفسنا”ميں لفظ نفسکوخودآنحضرت (ص) پراطلاق نہيں کياجاسکتا ہے اور وہ قرائن حسب ذیل ہيں:١۔”اٴنفسنا”جمع ہے اورہرفرد کے لئے نفس ایک سے زیادہ نہيں ہوتاہے۔٢۔جملہء<فقل تعالواندع>آنحضرت (ص) کواس کے حقيقی معنی ميں دعوت دینے کاذمہدارقراردیتا ہے اورحقيقی دعوت کبهی خودانسان سے متعلق نہيں ہوتی ہے،یعنی انسانخودکودعوت دے،یہ معقول نہيں ہے۔اس بنائ پر،بعض لوگوں نے تصورکياہے کہ”فطوّعت لہ نفسہ”یا”دعوت نفسی”جيسےاستعمال ميں”دعوت”)دعوت دینا )جيسے افعال نفس سے تعلق پيداکرتے ہيں۔یہ اس نکتہ کےبارے ميںغفلت کانتيجہ ہے کہ یہاں پریا تو یہ”نفس”خودانسان اوراس کی ذات کے معنی ميںاستعمال نہيں ہواہے،یا”دعوت سے مراد ” (دعوت دینا)حقيقی نہيں ہے۔بلکہ”فطوّعت لہ نفسہقتل اٴخيہ”کی مثال ميں نفس کامقصودانسان کی نفسانی خواہشات ہے اوراس جملہ کا معنییوں ہے “اس کی نفسانی خواہشات نے اس کے لئے اپنے بهائی کوقتل کرناآسانکردیا”اور”دعوت نفسی”کی مثال ميں مقصوداپنے آپ کوکام انجام دینے کے لئے مجبوراورآمادہکرناہے اوریہاں پردعوت دینا اپنے حقيقی معنی ميں نہيں ہے کہ جونفس سے متعلق ہو۔٣۔”ندع”اس جہت سے کہ خودپيغمبراسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم پرمشتمل ہے اسلئے نفس پردلالت کرتاہے اوریہ ضروری نہيں ہے،کہ دوسروں کودعوت دینے والا خودمباہلہ کامحورہو،اوروہ خودکوبهی دعوت دے دے۔
دوسرامحور:مباہلہ ميں اہل بيت رسول (ص)کے حاضر ہونے کامقصدپيغمبراسلام (ص) کوکيوں حکم ہوا کہ مباہلہ کر نے کے واسطے اپنے خاندان کوبهیاپنے ساته لائيں،جبکہ یہ معلوم تهاکہ مباہلہ دوفریقوں کے درميان دعویٰ ہے اوراس داستان ميںایک طرف خودپيغمبر (ص) اور دوسری طرف نجران کے عيسائيوں کے نمائندے تهے؟بعض لوگوں کا خيال ہے کہ آنحضرت (ص) کے نزدیک ترین رشتہ داروں کے ميدان مباہلہميں حاضر ہونے کامقصدصرف آنحضرت (ص) کی بات سچی ہونے اوران کی دعوت صحيح ہونےکے سلسلہ ميں لوگوں کواطمينان ویقين دکهلانا تها،کيونکہ انسان کے لئے اپنے عزیز تریناشخاص کو اپنے ساته لاناصرف اسی صورت ميں معقول ہے کہ انسان اپنی بات اوردعویٰ کےصحيح ہونے پرمکمل یقين رکهتاہو۔اوراس طرح کااطمينان نہ رکهنے کی صورت ميں گویا اپنےہاتهوں سے اپنے عزیزوں کوخطرے ميں ڈالناہے اورکوئی بهی عقلمند انسان ایسااقدام نہيںکرسکتا۔پيغمبراکرم (ص) کے تمام رشتہ داروں ميں سے صرف چنداشخاص کے ميدان مباہلہميں حاضرہونے کے حوالے سے یہ توجيہ صحيح نہيں ہوسکتی ہے،کيونکہ اس صورت ميں اسخاندان کاميدان مباہلہ ميں حاضرہونااور اس ميں شرکت کرناان کے لئے کسی قسم کی فضيلتاورقدرمنزلت کاباعث نہيں ہوسکتاہے،جبکہ آیہء شریفہ اوراس کے ضمن ميں بيان ہونے والیاحادیث ميں غوروخوض کرنے سے معلوم یہ ہوتاہے کہ اس ماجراميں پيغمبراسلام (ص) کےہمراہ جانے والوں کے لئے ایک بڑی فضيلت ہے۔اہل سنت کے ایک بڑے عالم علامہ زمخشری کہتے ہيں:”وفيہ دليل لاشيئ اقویٰ منہ علی فضلہ اصحاب الکساء” ١”آیہء کریمہ ميں اصحاب کساء)عليہم السلام)کی فضيلت پرقوی ترین دليل موجود ہے”آلوسی کاروح المعانی ميں کہناہے:”و دلالتہا علی فضل آل اللّٰہ و رسولہ (ص) ممّا لایمتری فيہامؤمن والنصب جازم الایمان” ٢”آیہ کریمہ ميں ال پيغمبر (ص)کہ جو آل الله ہيں ان کی فضيلت ہے اوررسول الله (ص) کیفضيلت،ایسے امور ميں سے ہے کہ جن پرکوئی مؤمن شک و شبہ نہيں کر سکتا ہے اورخاندان پيغمبر (ص)سے دشمنی اور عداوت ایمان کونابودکردیتی ہے”اگرچہ آلوسی نے اس طرح کی بات کہی ہے ليکن اس کے بعد ميں آنے والی سطروںميں اس نے ایک عظيم فضيلت کو خاندان پيغمبر (ص) سے موڑ نے کی کوشش کی ہے۔ ٣اب ہم دیکهتے ہيں کہ خداوند متعال نے کيوں حکم دیاکہ اہل بيت علہيم السلامپيغمبراکرم (ص) کے ساته مباہلہ کر نے کے لئے حاضر ہوں؟اس سوال کے جواب کے لئے ہمپهرسے آیہء شریفہ کی طرف پلڻتے ہيں<۔۔۔فقل تعالوا ندع اٴبناء ناو اٴبناء کم و نساء نا و نسائکمواٴنفسنا واٴنفسکم ثمّ نبتہل فنجعل لعنة اللّٰہ علی الکاذبين<آیہء شریفہ ميں پہلے پيغمبراکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی طرف سے‘اٴبناء”،”نسا ء”اور”اٴنفس”کودعوت دینااورپهردعاکرنااورجهوڻوں پرخداکی لعنت قراردینابيان ہواہے۔——–١۔تفسيرالکشاف،ج ١،ص ٣٧٠ ،دارالکتاب العربی ،بيروت۔٢۔روح المعانی،ج ٣،ص ١٨٩ ،دارئ احيائ التراث العربی ،بيروت۔٣۔اس کے نظریہ پراعتراضات کے حصہ ميں تنقيد کریں گے۔آیہء مباہلہ ميں اہل بيت رسول)ص)کی فضيلت وعظمت کی بلندیمفسرین نے کلمہ”ابتهال”کودعاميں تضرع یانفرین اورلعنت بهيجنے کے معنی ميں لياہےاوریہ دونوں معنی ایک دوسرے سے منا فات نہيں رکهتے ہيں اور”ابتهال”کے یہ دونوں معافیہوسکتے ہيں۔آیہء شریفہ ميں دوچيزیں بيان کی گئی ہيں،ایک ابتهال جو”نبتهل”کی لفظ سے استفادہہو تاہے اوردوسرے “ان لوگوں پرخدا کی لعنت قراردیناجواس سلسلہ ميں جهوڻے ہيں”<فنجعللعنةالله علی الکاذبين>کاجملہ اس پردلالت کرتاہے اوران دونوں کلموں ميں سے ہرایک کے لئےخارج ميں ایک خاص مفہوم اورمصداق ہے دوسرا فقرہ جوجهوڻوں پرخداکی لعنت قراردیناہےپہلے فقرے ابتہال پر”فاء”کے ذریعہ کہ جو تفریع اور سببيت کے معنی ميں ہے عطف ہے۔لہذا،اس بيان کے پيش نظرپيغمبراکرم (ص) اورآپ کے اہل بيت عليہم السلام کاتضرع)رجوع الی الله)ہے اورجهوڻوں پرخداکی لعنت اورعقوبت کامرتب ہونا اس کامعلول ہے،اوریہایک بلند مقام ہے کہ خداکی طرف سے کافروں کوہلاک کرنااورانهيں سزادیناپيغمبراسلام (ص)اورآپ کے اہل بيت عليہم السلام کے ذریعہ انجام پائے۔یہ مطلب آنحضرت (ص) کے اہلبيت)عليہم السلام)کی ولایت تکوینی کی طرف اشارہ ہے،جوخداوندمتعال کی ولایت کے برابرہے۔اگرکہاجائے کہ:<فنجعل لعنةالله>ميں”فاء”اگرچہ ترتيب کے لئے ہے ليکن ایسے مواقعپر”فاء”کے بعدوالاجملہ اس کے پہلے والے جملہ کے لئے مفسرقرار پاتاہے اور وہ تر تيب کہجس پر کلمہ “فاء” دلالت کرتا ہے وہ تر تيب ذکری ہے جيسے 🙁 >ونادیٰ نوح ربّہ فقال ربّ إنّ ابنی من اٴہلی>)ہود/ ۴۵”اورنوح نے اپنے پروردگارکو آواز دی کہ پروردگاراميرافرزندميری اہل سے ہے۔”یہاں پرجملہء”فقال۔۔۔”جملہ “فنادیٰ” کوبيان )تفسير)کرنے والاہے۔جواب یہ ہے:اولاً:جس پرکلمہ”فاء”دلالت کرتاہے وہ ترتيب وتفریع ہے اوران دونوں کی حقيقت یہ ہےکہ”جن دوجملوں کے درميان”فاء”نے رابطہ پيداکياہے،ان دونوں جملوں کا مضمون ہے کہ دوسرےجملہ کامضمون پہلے جملہ پرمترتب ہے”اوریہ”فاء”کاحقيقی معنی اورتفریع کالازمہ ہے۔یعنی ترتيب ذکری پر”فاء”کی دلالت اسکے خارج ميں دومضمون کی ترتيب کے معنی ميں نہيں ہے،بلکہ لفظ اور کلام ميں ترتيب ہےلہذا اگراس پرکوئی قرینہ مو جودنہ ہوتوکلام کواس پرحمل نہيں کر سکتے۔اس صورت ميں ایہءشریفہ آنحضرت (ص) کے خاندان کے لئے ایک عظيم مر تبہ پردلالت رہی ہے کيونکہ ان کیدعاپيغمبراسلام (ص) کی دعا کے برابرہے اورمجموعی طور پریہ دعااس واقعہ ميں جهوٹ بولنےوالوں پر ہلاکت اورعذاب ا لہٰی نازل ہو نے کا باعث ہے۔دو سرے یہ کہ:جملہء”فنجعل لعنة اللّٰہ”ميں مابعد”فاء”جملہء سابق یعنی “نبتهل”کےلئے بيّن اورمفسّرہونے کی صلاحيت نہيںرکهتاہے،کيونکہ دعاکرنے والے کا مقصدخداسے طلبکر ناہے نہ جهوڻوں پرلعنت کر نا۔اس صفت کے پيش نظراس کو لعنت قرار دینا )جو ایک تکوینیامر ہے) پہلے پيغمبراسلام (ص)اورآپکے __________اہل بيت عليہم السلام سے مستندہےاوردوسرے”فاء”تفریع کے ذریعہ ان کی دعاپر متو قف ہے۔گویااس حقيقت کا ادراک خودنجران کےعيسائيوں نے بهی کياہے۔اس سلسلہ ميں ہم فخررازی کی تفسير ميںذکرکئے گئے حدیث کےایک جملہ پرتوجہ کرتے ہيں:”۔۔۔فقال اٴسقف نجران: یامعشرالنصاریٰ! إنّی لاٴری وجوہاً لوساٴلو الله اٴن یزیل جبلاً من مکانہلاٴزالہ بہا فلا تباہلوا فتہلکوا ولایبقی علی وجہ الاٴرض نصرانّی إلیٰ یوم القيامة۔” ١”نجران کے) عسائی)پادریان نورانی چہروں کودیکه کرانتہائی متائثرہوئے اور بو لے اے◌ نصرانيو!ميں ایسے چہروں کودیکه رہاہوں کہ اگروہ خدا سے پہاڑ کے اپنی جگہ سے ڻلنے کامطالبہ کریں تووہ ضرور اپنی جگہ سے کهسک جا ئيں گے۔اس لئے تم ان سے مباہلہ نہکرنا،ورنہ هلاک ہوجاؤگے اورزمين پرقيامت تک کوئی عيسائی باقی نہيں بچے گا۔”غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ آیہء شریفہ کے مضمون ميں درج ذیل امورواضح طورپربيان ہوئے ہيں:١۔پيغمبراکرم (ص)،اپنے اہل بيت عليہم السلام کواپنے ساته لے آئے تاکہ وہ آپ کےساته اس فيصلہ کن دعاميں شر یک ہوں اورمباہلہ آنحضرت (ص)اورآپ کے اہل بيت عليہمالسلام کی طرف سے مشترک طور پر انجام پائے تاکہ جهوڻوں پرلعنت اورعذاب نازل ہونے ميںمؤثرواقع ہو۔٢۔آنحضرت (ص)اورآپکے اہل بيت (ع)کاایمان و یقين نيز آپ کی رسالت اور دعوت کا مقصدتمام لوگوں کے لئے واضح ہوگيا۔٣۔اس واقعہ سے آنحضرت (ص) کے اہل بيت عليہم السلام کا بلند مرتبہ نيز اہل بيت کیآنحضرت (ص) سے قربت دنياوالوں پرواضح ہوگئی۔اب ہم یہ دکهيں گے کہ پيغمبراسلام)ص)”اٴبنائنا”)اپنے بيڻوں)”نسائنا”)اپنیعورتوں)اور”اٴنفسنا”)اپنے نفسوں)ميں سے کن کواپنے ساته لاتے ہيں؟——–١۔التفسير الکبير،فخر رازی،ج ٨،ص ٨٠ ،داراحيائ التراث العربی۔
تيسرامحورمباہلہ ميں پيغمبر (ص)اپنے ساته کس کو لے گئےشيعہ اور اہل سنّت کااس پراتفاق ہے کہ پيغمبراسلام (ص) مباہلہ کے لئے علی،فاطمہ، حسن اورحسين عليہم السلام کے علاوہ کسی اورکواپنے ساته نہيں لائے۔اس سلسلہميں چندمسائل قابل غورہيں:الف:وہ احادیث جن ميں پيغمبر (ص) کے اہل بيت عليہم السلام کاميدان مباہلہ ميںحاضرہونابيان کياگياہے۔ب:ان احادیث کا معتبراورصحيح ہونا۔ج۔اہل سنّت کی بعض کتابوں ميںذکرہوئی قابل توجہ روایتيں۔مباہلہ ميں اہل بيت رسول)ص)کے حاضر ہونے کے بارے ميں حدیثيں ١۔اہل سنّت کی حد یثيں:چونکہ اس کتاب ميں زیادہ تر روئے سخن اہل سنّت کی طرف ہے لہذااکثرانهيں کےمنابع سے احادیث نقل کی جائيں گی۔نمو نہ کے طورپراس حوالے سے چنداحادیث نقل کی جارہی ہيں:
پہلی حدیث:صحيح مسلم) ١)سنن ترمذی) ٢)اورمسنداحمد) ٣)ميںيہ حدیث نقل ہوئی ہےجس کیمتفق اور مسلم لفظيں یہ ہيں:——–١۔صحيح مسلم،ج ۵،ص ٢٣ کتاب فضائل الصحابة،باب من فضائل علی بن ابيطالب،ح ٣٢ ،موسسئہعزالدین للطباعةوالنشر٢۔سنن ترمذی،ج ۵،ص ۵۶۵ دارالفکر ٣۔مسنداحمد،ج، ١،ص ١٨۵ ،دارصادر،بيروت”حدثنا قتيبة بن سعيد و محمد بن عباد۔۔۔ قالا: حدثنا حاتم )و ہو ابن اسماعيل ) عن بکير بنمسمار، عن عامر بن سعد بن اٴبی وقاص، عن اٴبيہ، قال: اٴمر معاویہ بن اٴبی سفيان سعدافًقال: ما منعک اٴن تسب اٴبا التراب؟ فقال: اٴماّ ما ذکرتُ ثلاثاً قالہنّ لہ رسواللّٰہ (ص) فلن اٴسبّہ۔لاٴن تکون لی واحدة منہنّ اٴحبّ إلیّ من حمرالنعم۔سمعت رسول للّٰہ (ص) یقول لہ لماّ خلّفہ فی بعض مغازیہ فقال لہ علیّ: یا رسول اللّٰہ، خلّفتنیمع النساء والصبيان؟ فقال لہ رسول اللّٰہ (ص):اٴما ترضی اٴن تکون منّی بمنزلة ہارون من موسیإلاّ انہ لانبوة بعدی؟و سمعتہ یقول یوم خيبر: لاٴُعطيّن الرایة رجلاً یحبّ اللّٰہ و رسولہ و یحبّہ اللّٰہ و رسولہ۔ قال:فتطاولنا لہا۔ فقال: اُدعو الی علياً فاٴُتی بہ اٴرمد، فبصق فی عينہ ودفع الرایة إليہ،ففتح اللّٰہ عليہ۔ولماّنزلت ہذہ الایة<۔۔۔فقل تعا لواندع ابنائناوابنائکم>دعارسول اللّٰہ-صلی اللّٰہ عليہ وسلم -علياًوفاطمةوحسناًوحسيناً،فقال:اللّہمّ ہؤلائ اٴہلی”۔”قتيبةبن سعيد اور محمد بن عبادنے ہمارے لئے حدیث نقل کی،– عامربن سعدبن ابی وقاصسے اس نے اپنے باپ)سعد بن ابی وقاص)سے کہ معاویہ نے سعدکوحکم دیااورکہا:تمهيںابوتراب)علی بن ابيطالب عليہ السلام)کودشنام دینے اور برا بهلا کہنے سے کو نسی چيز مانعہوئی)سعدنے)کہا:مجهے تين چيزیں)تين فضيلتيں)یادہيں کہ جسے رسول خداصلی الله عليہوآلہ وسلم نے ان کے بارے ميں فرمایا ہے،لہذاميں انهيں کبهی بهی برابهلا نہيں کہوںگا۔اگرمجه ميں ان تين فضيلتوں ميں سے صرف ایک پائی جاتی تووہ ميرے لئے سرخ اونڻوں سےمحبوب ترہوتی:١۔ميں نے پيغمبرخدا (ص) سے سنا ہے ایک جنگ کے دوران انهيں)حضرت علی عليہالسلام)مدینہ ميں اپنی جگہ پررکهاتهااورعلی(عليہ السلام)نے کہا:یارسول الله!کياآپمجهےعورتوں اوربچوں کے ساته مدینہ ميں چهوڑرہے ہيں؟ )آنحضرت (ص)نے) فرمایا:کياتم اس پرراضینہيں ہوکہ ميرے ساته تمہاری نسبت وہی ہوجو ہارون کی)حضرت)موسی)عليہ السلام )کےساته تهی،صرف یہ کہ ميرے بعد کوئی پيغمبرنہيں ہو گا؟٢۔ميں نے)رسول خدا (ص))سے سنا ہے کہ آپ نے روز خيبر علی کے با رے ميں فرمایا:بيشکميں پرچم اس شخص کے ہاته ميں دوں گاجوخدا ورسول (ص)کو دوست رکهتاہے اورخداورسول(ص)اس کو دوست رکهتے ہيں۔)سعدنے کہا):ہم)اس بلندمرتبہ کے لئے)سراڻهاکر دیکه رہےتهے)کہ آنحضرت (ص) اس امر کے لئے ہميں مقررفرماتے ہيںيانہيں؟)اس وقت آنحضرت (ص)نےفرمایا: علی (عليہ السلام) کو ميرے پاس بلاؤ ۔ علی (عليہ السلام) کو ایسی حالات ميںآپکے پاس لایا گيا، جبکہ ان کی آنکهوں ميں دردتها،آنحضرت (ص)نے اپنا آب دہن ان کی آنکهوںميں لگا یااورپرچم ان کے ہاته ميں تهمادیااورخدائے متعال نے ان کے ذریعہ سے مسلمانوںکوفتح عطاکی۔٣۔جب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی:< قل تعالو اندع اٴبناء نا و اٴبنائکم و نسائنا و نسائکم و اٴنفسنا واٴنفسکم۔۔۔>توپيغمبراکرم (ص)نے علی،فاطمہ،حسن اورحسين) عليہم السلام)کوبلاکرفرمایا:خدایا!یہ ميرے اہل بيت ہيں۔”اس حدیث سے قابل استفادہ نکات:١۔حدیث ميں جوآخری جملہ آیاہے:”الّٰلہمّ هٰؤلاء اٴ هلی”خدایا!یہ ميرے اہل ہيں،اس باتپردلالت کرتاہے”اٴبناء””نساء”اور”اٴنفس”جوآیہء شریفہ ميں ائے ہيں،وہ اس لحاظ سے ہے کہ وہپيغمبرصلی الله عليہ وآلہ وسلم کے اہل ہيں۔٢۔”اٴبناء””نساء”و”اٴنفس”ميں سے ہرایک جمع مضاف ہيں)جيساکہ پہلے بيان کياگيا)اسکا اقتضایہ ہے کہ آ نحضرت صلی الله عليہ وآلہ وسلم کواپنے خاندان کے تمام بيڻوں،عورتوں اوروہ ذات جو آپ کا نفس کہلاتی تهی،سب کوميدان مباہلہ ميں لائيں،جبکہ آپ نے”اٴبناء”ميں سےصرف حسن وحسيںعليہما السلام کواور”نساء”سے صرف حضرت فاطمہ سلام اللهعليہاکواور”اٴنفس”سے صرف حضرت علی عليہ السلام کواپنے ساته لایا۔اس مطلب کے پيشنظرجوآپ نے یہ فرمایا:”خدایا،یہ ميرے اہل ہيں”اس سے معلوم ہوتاہے کہ آنحضرت (ص) کے اہلصرف یہی حضرات ہيں اورآنحضرت (ص) کی بيویاں اس معنی ميں اپکے اہل کے دائرے سےخارج ہيں۔٣۔”اہل”اور”اہل بيت”کے ایک خاص اصطلاحی معنی ہيں جوپنجتن پاک کہ جن کوآلعبااوراصحاب کساء کہاجاتاہے،ان کے علاوہ دوسروں پر اس معنی کااطلاق نہيں ہو تاہے۔یہمطلب،پيغمبراسلام (ص) کی بہت سی احا دیث سے کہ جو آیہء تطہير کے ذیل ميں ذکر ہوئیہيں اور اس کے علاوہ دوسری مناسبتوں سے بيان کی ہيں گئی بخوبی استفادہ کياجاسکتاہے۔
دوسری حدیث:فخررازی نے تفسيرکبيرميں ایہء مباہلہ کے ذیل ميں لکهاہے:”روی اٴنّہ – عليہ السلام – لماّ اٴورد الدلائل علی نصاری نجران،ثمّ إنّہم اٴصروا علی جہلہم، فقال -عليہ السلام – إنّ اللّٰہ اٴمرنی إن لم تقبلوا الحجّة اٴن اٴباہلکم۔ فقالوا: یا اٴبا القاسم، بل نرجعفننظر فی اٴمرنا ثمّ ناٴتيک۔فلمّا رجعوا قالوا للعاقب – وکان ذاراٴیہم – :یا عبدالمسيح، ماتری؟ فقال: و اللّٰہ لقد عرفتم یا معشرالنصاری اٴنّ محمداً نبیّ مرسل و لقد جاء کم بالکلام الحق فی اٴمر صاحبکم و اللّٰہ ما باہل قومنبياً قط فعاش کبيرہم و لا نبت صغيرہم! و لئن فعلتم لکان الا ستئصال ، فإن اٴبيتم إلاّ الإصرار علیدینکم و الإقامة علی ما اٴنتم عليہ فوادعوا الرجل و انصرفوا إلی بلادکم۔ و کان رسول اللّٰہ(ص)خرج وعليہ مرط من شعراٴسود، وکان قد احتضن الحسين واٴخذ بيد الحسن، و فاطمہتمشی خلفہ وعلی – عليہ السلام – خلفہا، و ہو یقول:إذا دعوت فاٴمّنوا فقال اٴسقف نجران: یامعشر النصاری! إنّی لاٴری وجوہا لو ساٴلوا اللّٰہ اٴن یزیل جبلاً من مکانہ لاٴزالہ بہا! فلا تباہلوافتہلکوا، و لا یبقی علی وجہ الاٴض نصرانیّ إلی یوم القيامة۔ ثمّ قالوا: یا اٴبا القاسم! راٴینا اٴن لانباہلک و اٴن نقرّک علی دینک فقال:- صلوات اللّٰہ عليہ – فإذا اٴبيتم المباہلة فاسلموا یکن لکم ماللمسلمين، و عليکم ما علی المسلمين، فاٴبوا، فقال: فإنیّ اٴُناجزکم القتال، فقالوا مالنا بحربالعرب طاقة، ولکن نصالک علی اٴن لا تغزونا و لاتردّنا عن دیننا علی اٴن نؤدّی إليک فی کل عاماٴلفی حلّة:اٴلفاٴ فی صفر و اٴلفافی رجب، و ثلاثين درعاً عادیة من حدید، فصالحہم علیذلک۔وقال: والّذی نفسی بيدہ إنّ الہلاک قد تدلّی علی اٴہل نجران، ولولاعنوالمسخوا قردة وخنازیر و لاضطرم عليہم الوادی ناراً ولاستاٴ صل اللّٰہ نجران واٴہلہ حتی الطير علی رؤس الشجر ولما حالا لحوال علی النصاری کلّہم حتی یہلکوا و روی اٴنّہ – عليہ السلام -لمّ خرج فی المرطالاٴسود فجاء الحسن -عليہ السلام – فاٴدخلہ، ثمّ جائ الحسين -عليہ السلام – فاٴدخلہ ،ثمّفاطمة – عليہا السلام – ثمّ علی – عليہ السلام – ثمّ قال:<إنّما یرید اللّٰہ ليذہب عنکم الرجس اہلالبيت و یطهّرکم تطہيراً>واعلم __________اٴنّ ہذہ الروایة کالمتّفق علی صحّتہا بين اٴہل التّفسير والحدیث۔” ١”جب پيغمبراسلام صلی الله عليہ وآلہ وسلم نے نجران کے عيسائيوں پردلائل واضح کردئے اورانہوں نے اپنی نادانی اورجہل پراصرارکيا،تو آنحضرت (ص) نے فرمایا:خدائے متعال نے مجهےحکم دیاہے اگرتم لوگوں نے دلائل کوقبول نہيں کيا تو تمہارے ساته مباہلہ کروں گا۔”)انہوںنے)کہا:اے اباالقاسم!ہم واپس جاتے ہيں تاکہ اپنے کام کے بارے ميںغوروفکرکرليں،پهرآپکے پاسآئيں گے۔——–١۔تفسيرکبيرفخر رازی،ج ٨،ص، ٨،داراحيائ التراث العربی۔جب وہ)اپنی قوم کے پاس)واپس چلے گئے،انهوں نے اپنی قوم کے ایک صاحب نظر کہ جس کانام”عاقب”تها اس سے کہا:اے عبدالمسيح!اس سلسلہ ميں آپ کانظریہ کيا ہے؟اس نے کہا:اےگروہ نصاریٰ!تم لوگ محمد(صلی الله عليہ وآلہ وسلم)کوپہنچانتے ہواورجانتے ہووہ ا لله کے رسولہيں۔اورآپ کے صاحب)یعنی حضرت عيسیٰ عليہ السلام)کے بارے ميں حق بات کہتےہيں۔خداکی قسم کسی بهی قوم نے اپنے پيغمبرسے مباہلہ نہيں کيا،مگر یہ کہ اس قوم کےچهوڻے بڑے سب ہلاک ہو گئے ۔چنانچہ اگرتم نے ان سے مباہلہ کياتو سب کے سب ہلاکہوجاؤگے۔ اس لئے اگراپنے دین پرباقی رہنے کے لئے تمهيں اصرار ہے توانہيں چهوڑکراپنے شہرواپس چلے جاؤ۔پيغمبراسلام (ص))مباہلہ کے لئے)اس حالت ميں باہرتشریف لائے کہحسين(عليہ السلام)آپکی آغوش ميں تهے،حسن(عليہ السلام)کاہاته پکڑے ہوئے تهے،فاطمہ(سلام الله عليہا)آپکے پيچهے اورعلی(عليہ السلام)فاطمہ کے پيچهے چل رہے تهے۔آنحضرت(ص)فرماتے تهے:”جب ميں دعامانگوں تو تم لوگ آمين کہنا”نجران کے پادری نے کہا:اے گروہنصاریٰ!ميں ایسے چہروں کودیکه رہاہوں کہ اگرخداسے دعا کریں کہ پہاڑاپنی جگہ سے ہٹجائے تو وہ اپنی جگہ چهوڑ دے گا ۔لہذاان کے ساته مباہلہ نہ کرنا،ورنہ تم لوگ ہلاک ہوجاؤگے اورروی زمين پرقيامت تک کوئی عيسائی باقی نہيں بچے گا۔اس کے بعد انہوں نے کہا: اےاباالقاسم! ہمارا ارادہ یہ ہے کہ آپ سے مباہلہ نہيں کریں گے۔پيغمبراسلام صلی الله عليہ وآلہوسلم نے فرمایا:اب جبکہ مباہلہ نہيں کررہے ہوتومسلمان ہوجاؤتاکہ مسلمانوں کے نفع ونقصانميں شریک رہو۔انہوں نے اس تجویزکوبهی قبول نہيں کيا۔آنحضرت (ص)نے فرمایا:اس صورت ميںتمهارے ساته ہماری جنگ قطعی ہے۔انہوں نے کہا:عربوں کے ساته جنگ کرنے کی ہم ميںطاقت نہيں ہے۔ليکن ہم آپ کے ساته صلح کریں گے تاکہ آپ ہمارے ساته جنگ نہ کریں اورہميںاپنادین چهوڑنے پرمجبورنہ کریں گے،اس کے بدلہ ميں ہم ہرسال آپ کودوہزارلباس دیں گے،ایکہزار لباس صفرکے مہينہ ميں اورایک ہزارلباس رجب کے مہينہ ميں اورتيس ہزارآ ہنی زرہ اداکریںگے۔آنحضرت صلی الله عليہ وآلہ وسلم نے ان کی اس تجویزکوقبول کر ليااس طرح ان کے ساتهصلح کرلی۔اس کے بعدفرمایا:قسم اس خداکی جس کے قبضہ ميں ميری جان ہے،اہل نجراننابودی کے دہانے پرپہو نچ چکے تهے،اگرمباہلہ کرتے توبندروں اورسوروں کی شکل ميں مسنحہوجاتے اورجس صحراميں سکونت اختيار کر تے اس ميں آگ لگ جاتی اورخدا وندمتعال نجراناوراس کے باشندوں کو نيست و نابود کر دیتا،یہاں تک کہ درختوں پرموجودپرندے بهی ہلاکہوجاتے اورایک سال کے اندراندرتمام عيسائی صفحہء ہستی سے مٹ جاتے۔روایت ميں ہے کہجب پيغمبراکرم (ص)، اپنی پشمی کالی رنگ کی عبا پہن کر باہرتشریف لائے)اپنےبيڻے)حسن(عليہ السلام)کوبهی اس ميں داخل کر ليا،اس کے بعدحسين(عليہ السلام) آگئےانہيں بهی عبا کے نيچے داخل کيا اس کے بعدعلی و فاطمہ )عليہما السلام) تشریف لائےاس کے بعد فرمایا: <إنّمایریداللّہ۔۔۔>”پس الله کاارادہ ہے اے اہل بيت کہ تم سے ہر طرح کیکثافت وپليدی سے دوررکهے اوراس طرح پاک وپاکيزہ رکهے جو پاک وپاکيزہ رکهنے کاحقہے۔”علامہ فخر رازی نے اس حدیث کی صحت و صدا قت کے بارے ميں کہا ہے کہ تمام علماءتفسير و احادیث کے نزدیک یہ حدیث متفق عليہ ہے۔”حدیث ميں قابل استفادہ نکات:اس حدیث ميں درج ذیل نکات قابل توجہ ہيں:١۔اس حدیث ميںرسول (ص) کے اہل بيت کاحضور اس صورت ميں بيان ہواہے کہخودآنحضرت (ص) آگے آگے)حسين عليہ السلام)کوگود ميں لئے ہوئے ،حسن(عليہالسلام)کاہاته پکڑے ہوئے جوحسين(عليہ السلام)سے قدرے بڑے ہيں اورآپکی بيڻی فاطمہسلام الله عليہاآپکے پيچهے اوران کے پيچهے(عليہ السلام) ہيں۔یہ کيفيت انتہائی دلچسپ اورنمایاں تهی۔کيو نکہ یہ شکل ترتيب آیہء مباہلہ ميںذکرہوئی تر تيب و صورت سے ہم آہنگ ہے۔اسہماہنگی کا درج ذیل ابعادميں تجزیہ کياجاسکتاہے:الف:ان کے آنے کی ترتيب وہی ہے جوآیہء شریفہ ميں بيان ہوئی ہے۔یعنی پہلے “اٴبناءنا”اس کے بعد”نسائنا”اورپهرآخرپر”اٴ نفسنا”ہے۔ب:یہ کہ رسول خدا (ص) اپنے چهوڻے فرزندحسين بن علی عليہماالسلام کوآغوشميں لئے ہوئے اوراپنے دوسرے فرزندخورد سال حسن بن علی عليہماالسلام کاہاته پکڑے ہوئےہيں،یہ آیہء شریفہ ميں بيان ہوئے”بناء نا” کی عينی تعبيرہے۔ج۔بيچ ميں حضرت فاطمہ زہرا سلام الله عليہا کاقرارپانااس گروہ ميں”نساء نا”کےمنحصربہ فردمصداق کے لئے آگے اورپيچهے سے محافظ قرار دیا جا نا،آیہء شریفہ ميں”نساءنا”کی مجسم تصویر کشی ہے۔٢۔اس حدیث ميں پيغمبراکرم (ص)نے اپنے اہل بيت عليہم السلام سے فرمایا:اذادعوتفاٴ منوا”یعنی:جب ميں دعاکروں توتم لوگ آمين ١کہنااوریہ وہی١۔دعا کے بعد آمين کہنا،خدا متعال سے دعا قبول ہونے کی درخواست ہے۔چيزہے جوآیہء مباہلہ ميں ائی ہے:نبتهل فنجعل لعنةالله علی الکاذبين<یہاں پر”ابتهال”)دعا)کوصرف پيغمبراکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم سے نسبت دی گئیہے،بلکہ”ابتهال”پيغمبرصلی الله عليہ وآلہ وسلم کی طرف سے دعاکی صورت ميں اورآپ کےہمراہ آئے ہوئے اعزّہ واقر باکی طرف سے آمين کہنے کی صورت ميں محقق ہونا چاہئے تاکہ)اس واقعہ ميں)جهوڻوں پرہلاکت اورعقوبت الہٰی واقع ہونے کاسبب قرارپائے،جيساکہ گزر چکاہے۔٣۔گروہ نصارٰی کی طرف سے اہل بيت عليہم السلام کی عظمت وفضيلت کا اعتراف یہاںتک کہ ان کے نورانی و مقدس چہروں کو دیکهنے کے بعد مباہلہ کرنے سے انکار کر دیا۔
تيسری حدیث:ایک اورحدیث جس ميں”اٴبنائنا”،”نسائنا”اور”اٴنفسنا”کی لفظيںصرف علی،فاطمہ،حسناورحسين عليہم السلام پر صادق آتی ہيں،وہ حدیث”مناشد یوم الشوری”ہے۔اس حدیث ميںاميرالمؤمنين حضرت علی عليہ السلام،اصحاب شوریٰ)عثمان بن عفان،عبدالرحمن بنعوف،طلحہ،زبيراورسعدبن ابی وقاص) سے کہ جس دن یہ شورٰی تشکيل ہوئی اورعثمان کیخلافت پرمنتج و تمام ہوئی،اپنے فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے فرماتے ہيں۔اس طرح سےکہ ان تمام فضيلتوں کو یاد دلاتے ہوئے انہيں خداکی قسم دیتے ہيں اور ان تمام فضيلتوں کواپنی ذات سے مختص ہونے کاان سے اعتراف ليتے ہيں۔حدیث یوں ہے:”اٴخبر نا اٴبو عبد اللّٰہ محمد بن إبرہم، اٴنا ابوالفضل اٴحمد بن عبدالمنعم بن اٴحمد ابن بندار، اٴنااٴبوالحسن العتيقی، اٴنا اٴبوالحسن الدارقطنی، اٴنا اٴحمد بن محمد بن سعيد، اٴنا یحی بن ذکریابن شيبان، اٴنا یعقوب بن سعيد، حدثنی مثنی اٴبو عبداللّٰہ،عن سفيان الشوری، عن اٴبن إسحاقالسبيعی، عن عاصم بن ضمرةوہبيرة و عن العلاء بن صالح، عن المنہال بن عمرو، عن عبادبنعبداللّٰہ الاٴسدی و عن عمروبن و اثلة قالوا: قال علیّ بن اٴبی طالب یوم الشوری: واللّٰہ لاٴحتجنّعليہم بمالایستطيع قُرَشيّہم و لا عربيّہم و لا عجميّہم ردّہ و لا یقول خلافہ۔ ثمّ قال لعثمان بنعفان ولعبدالرحمن بن عوف و الزبير و لطلحة وسعد – و ہن اٴصحاب الشوری و کلّہم من قریش، وقد کان قدم طلحة – اُنشدکم باللّٰہ الذی لا إلہ إلّاہو، اٴفيکم اٴحد وحّد اللّٰہ قبلی؟ قالوا:اللّہمَّ لا۔قال: اٴنشدکم باللّٰہ، اٴفيکم اٴحد اٴخو رسول اللّٰہ – صلی اللّٰہ عليہ وسلم – غيری، إذ آخی بينالمؤمنين فاٴخی بينی و بين نفسہ و جعلنی منہ بمنزلة ہارون من موسی إلّا اٴنی لستبنبیً؟قالوا:لا۔قال:اٴنشدکم باللّٰہ،اٴفيکم مطهَّرغيری،إذسدّ رسول اللّٰہ (ص) اٴبوابکم و فتح بابیو کنت معہ فی مساکنہ ومسجدہ؟ فقام إليہ عمّہ فقال: یا رسول اللّٰہ، غلّقت اٴبوابنا و فتحت بابعلیّ؟ قال: نعم، اللّٰہ اٴمر بفتح با بہ وسدّ اٴبوابکم !!! قالوا: اللّہمّ لا۔ قال: نشدتکم باللّٰہ، اٴفيکماٴحد اٴحب إلی للّٰہ و إلی رسولہ منّی إذ دفع الرایة إلیّ یوم خير فقال : لاٴعطينّ الرایة إلی منیحبّ اللّٰہ و رسولہ و یحبّہ اللّٰہ و رسولہ، و یوم الطائر إذ یقول: ” اللّہمّ ائتنی باٴحب خلقک إليکیاٴکل معی”، فجئت فقال: ” اللّہمّ و إلی رسولک ، اللّہمّ و إلی رسولک”غيری؟ ١ قالوا: اللّہمّ لا قال:نشدتکم باللّٰہ، اٴفيکم اٴحد قدم بين یدی نجواہ صدقة غيریحتی رفع اللّٰہ ذلک الحکم؟ قالوا: اللّہمّ لا۔قال:نشدتکم باللّٰہ، اٴفيکم من قتل مشرکی قریش والعرب فی اللّٰہ و فی رسولہ غيری؟ قالوا: اللّہمّ لا۔قال: نشدتکم باللّٰہ، اٴفيکم اٴحد دعا رسول اللّٰہ(ص) فيالعلم و اٴن یکون اُذنہ الو اعية مثل ما دعالی؟ قالوا: اللّہمّ لا قال: نشدتکم باللّٰہ، ہل فيکماٴحد اٴقرب إلی رسول اللّٰہ (ص) فی الرحم و من جعلہ و رسول اللّٰہ (ص) نفسہ و إبناء اٴنبائہو۔۔۔غيری؟ قالوا:اللّٰہم لا۔۔۔” ٢اس حدیث کومعاصم بن ضمرةوہبيرةاورعمروبن وائلہ نے حضرت )علی عليہ السلام) سےروایت کی ہے کہ حضرت علی عليہ السلام نے شوریٰ کے دن یوں فرمایا:”خداکی قسم بيشک ميں تمہارے سامنے ایسے استدلال پيش کروں گا کہ اهل عرب وعجم نيز قریش ميں سے کوئی شخص بهی اس کومستردنہيں کرسکتااورمذهبی اس کےخلاف کچه کہہ سکتا ہے۔ميں تمهيں اس خداکی قسم دلاتاہوں جس کے سوا کوئی خدانہيںہے،کياتم لوگوں ميں کوئی ایسا ہے جس نے مجه سے پہلے خدائے واحدکی پرستش کی ہو۔؟انہوں نے کہا: خدا شاہد ہے! نہيں۔ آپ(ع)نے فرمایا:تمهيں خداکی قسم ہے،کياتم لوگوں ميںميرے علاوہ کوئی ہے،جورسول (ص) کا بهائی ہو،جب)آنحضرت (ص)نے)مؤمنين کے درمياناخوت اوربرادری برقرارکی،اورمجهے اپنا بهائی بنایااور ميرے بارے——–١۔شائدمقصودیہ ہوکہ”خداوندا!تيرے پيغمبر(صلی الله عليہ وآلہ وسلم)کے نزدیک بهی محبوب ترین مخلوقعلی)عليہ السلام ہيں۔”٢۔تاریخ مدینہ دمشق،ج ۴٢ ،ص ۴٣١ ،دارالفکرميں یہ ارشاد فر ما یا کہ:” تمہاری نسبت مجه سے ویسی ہی جيسے ہارون کی موسی سےتهی سوائے اس کے کہ ميں نبی نہيں ہوں “۔انہوں نے کہا:نہيں۔فرمایا:تمهيں خداکی قسم دے کر کہتاہوں کہ کياميرے علاوہ تملوگوں ميں کوئی ایساہے جسے پاک وپاکيزہ قراردیاگياہو،جب کہ پيغمبرخداصلی الله عليہ وآلہوسلم نے تمهارے گهروں کے دروازے مسجدکی طرف بندکردئيے تهے اورميرے گهرکادروازہکهلارکها تهااورميں مسکن ومسجدکے سلسلہ ميں انحضرت (ص)کے ساته )اور آپ کے حکمميں)تها،چچا)حضرت)عباس اپنی جگہ اڻهے اورکہا:اے الله کے رسول !ہمارے گهروں کے دروازےبند کر دئيے اورعلی) عليہ السلام )کے گهرکاادروازہ کهلارکها؟پيغمبر (ص) نے فرمایا:یہ خدائے متعال کی طرف سے ہے کہ جس نے ان کے دروازہکوکهلارکهنے اورآپ لوگوں کے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا؟انہوں نے کہا:خداشاہدہے،نہيں۔فرمایا:تمهيں خداکی قسم دلاتاہوں،کيا تمہارے درميانکوئی ہے جسے خدااوررسول مجه سے زیادہ دوست رکهتے ہوں،جبکہ پيغمبر (ص)نے خيبرکےدن علم اڻهاکرفرمایا”بيشک ميں علم اس کے ہاته ميں دونگاجوخداورسول (ص) کودوسترکهتاہے اورخدااوررسول اس کودوست رکهتے ہيں”اورجس دن بهنے ہوئے پرندہ کے بارے ميںفرمایا:”خدایا!ميرے پاس اس شخص کو بهيج جسے توسب سے زیادہ چاهتا ہے تاکہ وہ ميرےساته کها نا کهائے۔”اوراس دعاکے نتيجہ ميں،ميں اگيا۔ميرے علاوہ کون ہے جس کے لئے یہاتفاق پيش آیا ہو؟انہوں نے کہا:خداشاہد ہے،نہيں۔فرمایا:تمهيں خداکی قسم دلاتاہوں،کياتم لوگوں ميں ميرے علاوہ کوئی ہے،جس نےپيغمبر سے سرگوشی سے پہلے صدقہ دیاہو،یہاں تک کہ خدائے وند متعال نے اس حکم کومنسوخ کر دیا؟انہوں نے کہا۔خدا شاہدہے نہيں۔فرمایا:تمهيں خداکی قسم ہے،کياتم لوگوں ميں ميرے علاوہ کوئی ہے،جس نے قریشاورعرب کے مشرکين کوخدااوراس کے رسول (ص)کی راہ ميں قتل کياہو؟انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہيں۔فرمایا:تمهيں خداکی قسم ہے،کياتم لوگوں ميں ميرے علاوہ کوئی ہے،جس کے حقميں پيغمبراکرم (ص))افزائش)علم کے سلسلہ ميں دعاکی ہواوراذن واعيہ)گوش شنوا)کا خداسے مطالبہ کياہو،جس طرح ميرے حق ميں دعاکی؟انہوں نے کہا:خدا گواہہے،نہيں۔فرمایا:تمهيں خداکی قسم ہے،کياتم لوگوں ميں کوئی ہے جوپيغمبراکرم (ص)سےرشتہ داری ميں مجه سے زیادہ نزدیک ہواورجس کوپيغمبرخدا (ص)نے اپنا نفس،اس کے بيڻوںکواپنے بيڻے کہاہو؟انہوں نے کہا:خدا گواہ ہے،نہيں۔”اس طرح ہم دیکهتے ہيں کہ اس حدیث ميں مباہلہ ميں شریک ہو نے والے افراد،کہجنهيں پيغمبراکرم (ص)اپنے ساته لائے تهے وہ،علی،فاطمہ،حسن،وحسين )عليہمالسلام)کی ذات تک محدود ہيں۔حدیث کامعتبرراورصحيح ہونا:ا ہل سنت کی احادیث کے بارے ميں ہم صرف مذکورہ احادیث ہی پراکتفاکرتے ہيں،اوراناحادیث کے مضمون کی صحت کے بارے ميں یعنی مباہلہ ميں صرف پنجتن آل عبا)پيغمبر کےعلاوہ علی،فاطمہ حسن وحسين عليہم السلام)ہی شا مل تهے اس حوالے سے صرف حاکمنيشابوری کے درج ذیل مطالب کی طرف اشارہ کرتے ہيں:وہ اپنی کتاب”معرفةعلوم الحدیث” ١ميں پہلے آیہء مباہلہ کے نزول کوابن عباس سے نقلکرتاہے اور وہ انفسنا سے حضرت علی عليہ السلام،”نسائنا”سے حضرت فاطمہ سلام اللهعليہااور”اٴبناء نا”سے حسن وحسين عليہما السلام مراد ليتا ہے۔اس کے بعدابن عباس اوردوسروں سے اس سلسلہ ميں نقل کی گئی روایتوں کومتواترجانتے ہوئے کے اہل بيت(ع)کےبارے ميں پيغمبر اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی اس فرمائش:”ہؤلائ اٴبنائناواٴنفسناونسائنا”کے سلسلہ ميں یاددہانی کراتاہے۔چنا نچہ اس باب ميں اصحاب کے ایک گروہ جيسے جابربن عبدالله،ابن عباس اوراميرالمؤمنين کے حوالے سے مختلف طرق سے احادیث نقل ہو ئی ہيں،اس مختصرکتاب ميںبيان کرنے کی گنجائش نہيں ہے،اس لئے ہم حاشيہ ميں بعض ان منابع کی طرف اشارہ کرنےہی پر اکتفاکرتے ہيں ٢——–١۔معر فة علوم الحدیث،ص ۵٠ ،دارالکتب العلمية،بيروت٢۔احکام القرآن /جصاص/ج ٢/ص ١۴ دارالکتاب العربی بيروت، اختصاص مفيد/ص ۵۶ /من منشورات جماعة المدرسينفی الحوزة العلمية، اسباب النزول /ص ۶٨ /دارالکتب العلمية بيروت،اسد الغابة/ ج ۴/ ص ٢۵ / داراحيائ التراث العربی/ بيروت الا صابہ/ج ٢/جزء ۴/ص ٢٧١ ، البحر المحيط/ج ٣/ ص ۴٧٩ / داراحيائ التراث العربی بيروت،البدایة و النهایة/ ج ۵/ ص ۴٩ دارالکتب العلمية بيروت، البرهان/ ج ١/ص ٢٨٩ / مؤسسہ مطبوعاتی اسماعيليان، التاج الجامع للاصول/ ج ٣ص ٣٣٣ /داراحياء التراث العربی بيروت، تاریخ مدینہ دمشق/ج ۴٢ /ص ١٣۴ / دارالفکر، تذکرہ خواص الامة/ ص ١٧ / چاپنجف، تفسير ابن کثير/ج ١/ص ٣٧٨ /دارالنعرفة بيروت،تفسيربيضاوی/ج ١/ص ١۶٣ /دارالکتب العلمية بيروت، تفسيرخازن)الباب التاٴویل) /ج ١/ص ٢٣۶ /دارالفکر، تفسير الرازی/ج ٨/ص ٨٠ /داراحياء التراث العربی بيروت، تفسيرالسمر قندی)/ بحرالعلوم)/ج ١ص/ ٢٧۴ دارالکتب العلمية بيروت، تفسير طبری/ ج ٣ /ص ٣٠١ ۔ ٢٩٩ /دالفکر،تفسير طنطاوی/ ج ٢/ ص ١٣٠دارالمعارف القاہرة، تفسير علی بن ابراہيم قمی /ج ١/ص ١٠۴ ، تفسير الماوردی/ ج ١/ ص ٣٨٩ و ٣٩٩ / مؤسسةظالکتب الثقافية/ دارالکتب العلمية بيروت، التفسير المنير/ج ٣/ ص ٢۴٩ ،٢۴٨، ٢۴۵ / دارالفکر، تفسيرالنسفی) درحاشيہئ خازن)/ ج ١/ ص ٢٣۶ /دارالفکر،تفسيرالنيشابوری/ج ٣/ص ٢١٣ /دارالمعرفة بيروت،تلخيص المستدرک/ج ٣/ص ١۵٠ /دارالمعرفة بيروت،جامع احکامالقرآن/قرطبی/ج ۴/ص ١٠۴ /دارالفکر، جامع الاصول/ج ٩/ص ۴۶٩ داراحياء التراث العربی،الجامع الصحيحللترمذی/ج ۵/ص ۵٩۶ /دارالفکر، الدرالمنثور/ج ٢/ص ٢٣٣ ۔ ٢٣٠ /دارالفکر، دلائل النبوة ابونعيم اصفہانی/ص ٢٩٧ ، ذخائرالعقبی/ص ٢۵ /مؤسسةالوفائ بيروت، روح المعانی/ج ٣/ص ١٨٩ /داراحيائ التراث العربی، الریاضالنضرة/ج ٣/ص ١٣۴ /دارالندوة الجدید بيروت، زاد المسير فی علم التفسير/ج ١/ص ٣٣٩ /دارالفکر، شواہد التنزیل/حاکمحسکانی/ج ١/ص ١۶٧ ۔ ١۵۵ /مجمع احيائ الثقافة الاسلامية، صحيح مسلم/ج ۵/ص ٢٣ /کتاب فضائل الصحابة/باب فضائلعلی بن ابی طالب /ح ٣٢ /مؤ سسة عزّالدین، الصواعق المحرقة/ص ١۴۵ /مکتبة القاہرة، فتح القدیر/ج ١/ص ٣١۶ /طمصر )بہ نقل احقاق)، فرائد السمطين/ج ٢/ص ٢٣،٢۴ /مؤ سسةالمحمودیبيروت، الفصولالمہمة/ص ٢۵ ۔ ٢٣،١٢۶ ۔ ١٢٧ /منشورات الاعلمی، کتاب التسہيل لعلوم التنزیل /ج ١/ص ١٠٩ /دارالفکر،الکشاف/ج ١/دارالمعرفة بيروت، مدارج النبوة/ص ۵٠٠ بمبئی)بہ نقل احقاق)،المستدرک علیالصحيحن/ج ٣/ص ١۵٠ /دارالعرفةبيروت،مسند احمد/ج ١/ص ١٨۵ /دار صادربيروت، مشکوةالمصابيح/ج ٣/ص ١٧٣١ /المکتبالاسلامی، مصابيح السنة/ج ۴/ص ١٨٣ /دارالمعرفة بيروت، مطالب السئول/ص ٧/چاپ تہران، معالم التنزیل/ج ١/ص ۴٨٠ /دارالفکر، معرفة اصول الحدیث/ص ۵٠ /دارالکتب العلمية بيروت، مناقب ابن مغازلی /ص ٢۶٣ /المکتبةالاسلامية تہران
٢۔شيعہ اماميہ کی احادیثشيعہ روایتوں ميں بهی اس واقعہ کے بارے ميں بہت سی فراوان احادیث موجودہيں،یہاں پرہم ان ميں سے چنداحادیث کونمونہ کے طورپرذکرکرتے ہيں:
پہلی حدیثامام صادق عليہ السلام سے روایت ہے کہ،جب نجران کے عيسائی پيغمبراسلام (ص)کے پاس آئے،ان کی نمازکا وقت ہو گياوہيں پرگهنڻی بجائی اور)اپنے طریقہ سے)نماز پڑهناشروع کےا۔اصحاب نے کہا:الله کے رسول یہ لوگ آپکی مسجد ميںيوںعمل کررہے ہيں!آپ نےفرما یا: انهيں عمل کر نے دو۔جب نمازسے فارغ ہوئے،پيغمبراکرم (ص)کے قریب آئے اورکہا:ہميں آپ کس چيزکیدعوت دیتے ہو؟آپنے فرمایا:اس کی دعوت دیتاہوں کہ،خدائے واحدکی پرستش کرو، ميں خدا کارسولہوں اورعيسیٰ خدا کے بندے اور اس کے مخلوق ہيںوہ کهاتے اورپيتے ہيں نيزقضائے حاجتکرتے ہيں۔انہوں نے کہا:اگروہ خدا کے بندے ہيں تواس کاباپ کون ہے؟پيغمبرخدا (ص) پروحی نازل ہوئی کہ اے رسول ان سے کہدیجئے کہ وہ حضرت آدمعليہ السلام کے بارے ميں کياکہتے ہيں؟وہ خداکے بندے اوراس کی مخلوق ہيں اورکهاتےاورپيتے ہيں…اورنکاح کرتے ہيں۔آپنے فرمایا:اگرخداکے ہربندے اورمخلوق کے لئے کوئی باپ ہوناچاہئے توآدم عليہ السلامکا باپ کون ہے؟وہ جواب دینے سے قاصررہے۔خدائے متعال نے درج ذیل دوآیتيں نازل فرمائيں:>إنّ مثل عيسی عند اللّٰہ کمثل آدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فيکون ۔۔۔ فمن حاجّک فيہ منبعد ماجاء ک من العلم قل تعالوا ندع اٴبناء نا واٴبنائکم ونسائنا ونسائکم واٴنفسنا واٴنفسکم < (آل( عمران / ۶١”عيسی کی مثال الله کے نزدیک آدم جيسی ہے کہ انهيں مڻی سے پيداکيااورپهرکہاہوجاتو وہپيداہوگئے…اے پيغمبر!علم کے آجانے کے بعدجولوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سےکہدیجئے کہ ڻهيک ہے تم اپنے فرزند،اپنی عورتوں اوراپنے نفسوں کو بلاؤاور ہم بهی اپنےفرزند،اپنی اپنی عورتوں اور اپنے نفسوں کو بلاتے ہيں پهرخداکی بارگاہ ميں دونوں ملکردعاکریںاورجهوڻوں پرخداکی لعنت کریں”پيغمبراکرم (ص) نے فرمایا:”ميرے ساته مباہلہ کرو،اگر ميں نے سچ کہاہوگاتوتم لوگوںپرعذاب نازل ہوگااوراگرميں نے جهوٹ کہاہوگاتومجه پر عذاب نازل ہوگا”انہوں نے کہا:آپنے منصفانہ نظریہ پيش کياہے اورمباہلہ کوقبول کيا۔جب وہ لوگ اپنےگهروں کولوڻے،ان کے سرداروں نے ان سے کہا:اگرمحمد (ص)اپنی قوم کے ہمراہ مباہلہ کےلئے تشریف لا ئيں ،تووہ پيغمبرنہيں ہيں،اس صورت ميں ہم ان کے ساته مباہلہ کریں گے،ليکناگر وہ اپنے اہل بيت)عليہم __________السلام)اوراعزہ کے ہمراہ تشریف لا ئيں توہم ان کے ساته مباہلہنہيں کریں گے۔صبح کے وقت جب وہ ميدان مباہلہ ميں اگئے تودیکهاکہ پيغمبر (ص) کے ساتهعلی،فاطمہ،حسن اورحسين عليہم السلام ہيں۔اس وقت انہوں نے پوچها:یہ کون لوگ ہيں؟انسے کہاگيا:وہ مردان کاچچا زادبهائی اورداماد علی بن ابيطالب ہيں اور وہ عورت ان کی بيڻیفاطمہ ہے اوروہ دوبچے حسن اورحسين )عليہماالسلام)ہيں۔انہوں نے مباہلہ کر نے سے انکار کيا اورآنحضرت (ص)سے کہا:”ہم آپ کی رضایت کے طالب ہيں۔ہميں مباہلہ سے معاف فرمائيں۔”آنحضرت (ص) نے ان کے ساته صلح کی اورطے پایاکہوہ جزیہ اداکریں۔ ١دوسری حدیثسيدبحرانی،تفسير”البرہان”ميں ابن بابویہ سے اورحضرت امام رضا عليہ السلام سےروایت نقل کرتے ہيں:”حضرت)امام رضا عليہ السلام)نے مامون اور علماء کے ساته)عترت وامت ميں فرقاورعترت کی امت پرفضيلت کے بارے ميں)اپنی گفتگو ميں فرمایا:جہاں پر خدائے متعال——–١۔تفسير علی بن ابراهيم،مطبعة النجف ،ج ١،ص ١٠۴ ،البرہان ج ١،ص ٢٨۵ان افرادکے بارے ميں بيان فرماتاہے جو خدا کی طرف سے خاص طہار ت و پاکيزگی کے مالکہيں،اور خدااپنے پيغمبر(صلی الله عليہ وآلہ وسلم)کوحکم دیتاہے کہ مباہلہ کے لئے اپنے اہل بيتکو اپنے ساته لائيں اورفرماتاہے:<۔۔۔فقل:تعالوا ندع اٴبنائنا واٴبنائکم ونسائنا ونسائکم واٴنفسناواٴنفسکم۔۔۔<علماء نے حضرت سے کہا: آیہ ميں‘اٴنفسنا”سے مرادخودپيغمبر (ص) ہيں!امام رضاعليہ السلام نے فرمایا:آپ لوگوں نے غلط سمجها ہے۔بلکہ”اٴنفسنا” سے مرادعلی بنابيطالب(عليہ السلام)ہيں۔اس کی دليل یہ ہے کہ پيغمبراکرم (ص) نے بنی وليعہ سے فرمایا:”اٴولاٴبعثنّ إليہم رجلاً کنفسی”یعنی:”بنی وليعہ کواپنے امورسے دست بر دار ہو جا ناچاہئے،ورنہ ميں اپنے مانندایک مردکوان کی طرف روانہ کروں گا۔””اٴبنا ء نا” کے مصداق حسن وحسين)عليہماالسلام)ہيں اور”نساء نا”سے مراد فاطمہ(سلام الله عليہا) ہيں اوریہ ایسی فضيلت ہے،جس تک کوئی نہيں پہونچ سکااوریہ ایسی بلندیہے جس تک انسان کاپہنچنااس کے بس کی بات نہيں ہے اوریہ ایسی شرافت ہے جسے کوئیحاصل نہيں کرسکتاہے۔یعنی علی(عليہ السلام)کے نفس کواپنے نفس کے برابرقراردیا۔ ١
تيسری حدیثاس حدیث ميں،ہارون رشيد،موسی بن جعفر عليہ السلام سے کہتاہے:آپ کس طرحاپنے آپ کوپيغمبر (ص) کی اولادجانتے ہيں جبکہ انسانی نسل بيڻے سے پهيلتی ہے اورآپپيغمبر (ص) کی بيڻی کے بيڻے ہيں؟امام )عليہ السلام )نے اس سوال کا جواب دینے سے معذرت چاہی ۔ہارون نے کہا:اسمسئلہ ميں اپ کواپنی دليل ضروربيان کرنا ہو گی آپ فرزندان،علی عليہ السلام کا یہ دعوی١۔تفسير البرہان،ج ١،ص ٢٨٩ ،مؤسسہئ مطبو عاتی اسما عيليانہے آپ لوگ قرآن مجيدکامکمل علم رکهتے ہيں نيز آپ کا کہنا ہے کہ قرآن مجيدکاایک حرف بهیآپ کے علم سے خارج نہيں ہے اوراس سلسلہ ميں خداوندمتعال کے قول:<۔۔۔ما فرّطنا فیالکتاب من شیء۔۔۔> ١سے استدلال کرتے ہيں اوراس طرح علماء کی رائے اوران کے قياس سے اپنے آپ کوبےنياز جانتے ہو!حضرت)امام مو سی کاظم عليہ السلام)نے ہارون کے جواب ميں اس آیہء شریفہ کیتلاوت فرمائی جس ميں حضرت عيسیٰ عليہ السلام کوحضرت ابراهيم عليہ السلام کیذریت تایاگيا ہے:>و من ذرّیّتہ داود و سليمان و اٴیوب و یوسف و موسی و ہارون و کٰذلک نجزی المحسنين زکریا ویحی و عيسی وإلياس۔۔۔> ٢”اورپهرابراهيم کی اولاد ميں داؤد،سليمان،ایوب،یوسف،موسیٰ اورہارون قراردیا اورہم اسی طرحنيک عمل کرنے والوں کوجزادیتے ہيں۔اورزکریا،یحیٰ،عيسیٰ اورالياس کو بهی رکهاجوسب کےسب نيک عمل انجام دینے والے ہيں ۔”اس کے بعد امام (عليہ السلام)نے ہارون سے سوال کيا:حضرت عيسیٰ(عليہالسلام)کاباپ کون تها؟اس نے جواب ميں کہا:عيسیٰ(عليہ السلام)بغيرباپ کے پيداہوئےہيں۔امام (ع)نے فرمایا:جس طرح خدائے متعال نے جناب عيسی کوحضرت مریم(سلام اللهعليہا)کے ذریعہ ذریت انبياء)عليہم السلام)سے ملحق کياہے اسی طرح ہميں بهی اپنی والدہحضرت فاطمہ زہراء سلام الله عليہاکے ذریعہ پيغمبراکرم (ص)سے ملحق فرمایاہے۔اس کے بعد حضرت(ع)نے ہارون کے لئے ایک اور دليل پيش کی اور اس کے لئے——–١۔انعام/ ٣٨٢۔انعام/ ٨۴ ۔ ۵آیہء مباہلہ کی تلاوت کی اورفرمایا:کسی نے یہ دعوی نہيں کياہے کہ مباہلہ کے دوران،پيغمبراکرم (ص)نے علی،فاطمہ،حسن اورحسين عليہم السلام کے علاوہ کسی اورکو زیر کساءداخل کياہو۔اس بناء پر آیہء شریفہ ميں”اٴبنائنا”سے مرادحسن وحسين) عليہماالسلام)”نسائنا”سے مرادفاطمہ (سلام الله عليہا) اور”اٴنفسنا”سے مرادعلی عليہ السلام ہيں۔ ١
چوتهی حدیثاس حدیث ميں کہ جسے شيخ مفيدنے”الاختصاص”ميںذکرکياہے۔موسی بن جعفرعليہالسلام نے فرمایا:پوری امت نے اس بات پراتفاق کياہے کہ جب پيغمبراکرم (ص) نے اہل نجرانکومباہلہ کے لئے بلایا تو زیر کساء)وہ چادر جس کے نيچے اہل بيت رسول تشریف فرما تهے(علی، فاطمہ،حسن اورحسين عليہم السلام کے علاوہ کوئی اور نہيں تها۔اس بنائ پرخدائےمتعال کے قول:< فقل تعالوا ندع اٴبنائنا و اٴبناء کم و نساء نا و نسائکم و اٴنفسنا و اٴنفسکم>ميں “اٴبنائنا”سے حسن وحسين)عليہماالسلام)”نسائنا”سے فاطمہ سلام الله عليہااور”اٴنفسنا”سے علی بن ابيطالب عليہ السلام مرادہيں۔ ٢شيخ محمدعبدہ اوررشيدرضاسے ایک گفتگوصاحب تفسير”المنار”پہلے تو فر ما تے ہيں کہ”روایت ہے کہ پيغمبراکرم (ص)نے مباہلہکے لئے علی(ع)وفاطمہ(س)اوران کے دو نوں بيڻوں کہ خدا کا ان پر درودو سلام ہوکاانتخابکيااورانهيں ميدان ميں لائے اور ان سے فرمایا:”اگرميں دعا کروں تو تم لوگ آمين کہنا”روایتکوجاری رکهتے ہوئے اختصار کے ساته مسلم اورترمذی کو بهی نقل کرتے ہيں اس کے بعدکہتے ہيں :١۔البرہان ،ج ١،ص ٢٨٩ ،مؤسسہ مطبو عاتی اسماعيليان٢۔الاختصاص،ص ۵۶ ،من منشورات جماعةالمدرسين فی الحوزةالعلميةاستادامام)شيخ محمدعبدہ)نے کہاہے:اس سلسلہ ميںروایتيں متفق عليہ ہيں کہ پيغمبر(ص) نے مباہلہ کے لئے علی(ع)فاطمہ(س)اوران کے بيڻوں کومنتخب کيا ہے اورآیہء شریفہ ميںلفظ”نسائنا” فاطمہئ کے لئے اورلفظ”اٴنفسنا” کا استعمال علی کے لئے ہواہے۔ليکن ان روایتوںکاسرچشمہ شيعہ منابع ہيں)اورانہوں نے یہ احادیث گهڑلی ہيں)اور اس سے ان کا مقصدبهیمعلوم ہے۔وہ حتی الامکان ان احادیث کو شائع و مشہور کرنا چاہتے ہيں اوران کی یہ روش بہتسے سنّيوں ميں بهی عام ہو گئی ہے!ليکن جنہوں نے ان روایتوں کوگهڑا ہے،وہ ڻهيک طریقہسے ان روایتوں کو آیتوں پر منبطق نہيں کرسکے ہيں،کيونکہ لفظ”نساء”کا استعمال کسی بهیعربی لغت ميں کسی کی بيڻی کے لئے نہيں ہواہے،بالخصوص اس وقت جب کہ خود اس کیبيویاں موجودہوں،اور یہ عربی لغت کے خلاف ہے اوراس سے بهی زیادہ بعيد یہ ہے کہ”اٴنفسنا”سے مراد علی (ع)کو ليا جائے” ١استاد محمدعبدہ کی یہ بات کہ جن کا شمار بزرگ علماء اورمصلحين ميں ہوتا ہےانتہائی حيرت انگيزہے۔باوجوداس کے کہ انهوں نے ان روایتوں کی کثرت اوران کے متفق علےہہونے کو تسليم کيا ہے،پهربهی انهيں جعلی اور من گهڑت کہاہے۔کياایک عام مسلمان ،چہ جائيکہ ایک بہت بڑاعالم اس بات کی جرائت کرسکتاہے کہ ایکایسی حقيقت کوآسانی کے ساته جهڻلادے کہ جورسول الله (ص) کی صحيح ومعتبر سنّتميں مستحکم اور پائداربنيادرکهتی ہو؟!اگرمعتبرصحاح اورمسانيدميںصحيح سندکے ساته روایتنقل ہوئی ہے وہ بهی صحيح مسلم جيسی کتاب ميں کہ جواہل سنّت کے نزدیک قرآن مجيدکےبعددومعتبرترین کتابوں ميں سے ایک شمارہوتی ہے،اس طرح بے اعتبارکی جائے،تومذاہباسلامی ميں ایک مطلب کوثابت کرنے یامستردکرنے کے سلسلہ ميں کس منبع و ماخذپراعتمادکيا جا سکتا ہے ؟اگر ائمہ——–١۔المنار،ج ٣،ص ٣٢٢ ،دارالمعرفة بيروتمذاہب کی زبانی متوا تراحادیث معتبرنہيں ہو ں گی توپهرکونسی حدیث معتبرہوگی؟!کياحدیث کوقبول اورمستردکرنے کے لئے کوئی قاعدہ و ضابط ہے یاہرکوئی اپنے ذوقوسليقہ نيزمرضی کے مطابق ہرحدیث کوقبول یامستردکرسکتاہے؟کيایہ عمل سنّت رسول(ص)کے ساته زیادتی اوراس کامذاق اڑانے کے مترادف نہيں ہے؟شيخ محمدعبدہ نے آیہء شریفہ کے معنی پردقت سے توجہ نہيں کی ہے اورخيال کياہےکہ لفظ “نسائنا”حضرت فاطمہ زہراء )سلام الله عليہا )کے بارے ميں استعمالہواہے۔جبکہ”نسائنا”خوداپنے ہی معنی ميں استعمال ہواہے،رہاسوال رسول خدا (ص) کیبيویوں کا کہ جن کی تعداداس وقت نوتهی ان ميں سے کسی ایک ميں بهی وہ بلند مرتبہصلاحيت موجودنہيں تهی اورخاندان پيغمبر (ص) ميں تنہاعورت،جوآپ کے اہل بيت ميںشمارہوتی تهيں اورمذکورہ صلاحيت کی مالک تهيں،حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللهعليہا)تهيں،جنهيں انحضرت (ص) اپنے ساته مباہلہ کے لئے لے گئے۔ ١”اٴنفسنا”کے بارے ميں اس کتاب کی ابتداء ميں بحث ہوچکی ہے انشا الله بعد والےمحور ميں بهی اس پرتفصيل سے روشنی ڈالی جائيگی ۔ایک جعلی حدیث اوراہل سنّت کااس سے انکارمذکورہ روایتوں سے ایک دوسرامسئلہ جوواضح ہوگياوہ یہ تهاکہ خامس آل عبا)پنجتنپاک عليہم السلام)کے علاوہ کوئی شخض ميدان مباہلہ ميں نہيں لایاگيا تها۔مذکورہ باتوں کے پيش نظربعض کتابوں ميں ابن عساکر کے حوالے سے نقل کی گئیروایت کسی صورت ميں قابل اعتبار نہيں ہے،جس ميں کہاگياہے کہ پيغمبراکرم (ص) ابوبکراورانکے فرزندوں،عمراوران کے فرزندوں،عثمان اوران کے فرزندوں اورعلی عليہ السلام اوران کے١۔اس سلسلہ ميں بحث ،آیہء تطہيرکی طرف رجوع کيا جائے ۔فرزندوں کواپنے ساته لائے تهے۔ایک تو یہ کہ علماء ومحققين،جيسے آلوسی کی روح المعانی ١ ميںيادہانی کےمطابق،یہ حدیث جمہورعلماء کی روایت کے خلاف ہے،اس لئے قابل اعتمادنہيں ہے۔دوسرے یہ کہ اس کی سندميں چند ایسے افرادہيں جن پرجهوڻے ہونے کاالزامہے،جيسے:سعيدبن عنبسہ رازی،کہ ذہبی نے اپنی کتاب ميزان الاعتدال ٢ ميںيحيیٰ بن معينکے حوا لے سے کہاہے کہ:”وہ انتہائی جهوٹ بولنے والا ہے”اورابوحاتم نے کہاہے کہ:”وہ سچنہيں بولتاہے۔”اس کے علاوہ اس کی سندميںهيثم بن عدی ہے کہ جس کے با رے ميںذہبیکاسيراعلام النبلاء ٣ميں کہناہے:ابن معين اورابن داؤدنے کہاہے:”وہ انتہائی جهوٹ بولنےوالاہے”اس کے علاوہ نسائی اوردوسروں نے اسے متروک الحدیث جانا ہے۔افسوس ہے کہ مذکورہ جعلی حدیث کاجهوڻامضمون حضرت امام صادق اورحضرت امامباقر )عليہماالسلام)سے منسوب کر کے نقل کياگياہے!——–١۔روح المعانی،ج ٣،ص ١٩٠ ،داراحيائ التراث ا لعربی٢۔ميزان الاعتدال،ج ٢،ص ١۵۴ ،دارالفکر٣۔سيراعلام النبلاء،ج ١٠ ،ص ١٠۴ ،مؤسسہ الرسالہ