امامت،آیہ اولی الامر کی روشنی ميں

520

 
>یا اٴیّہا الّذین آمنوا اٴطيعوا اللَّہ و اٴطيعوا الرسول واولی الاٴمر منکم فإن تنازعتم فی شیءٍ فردوہ( إلی اللّٰہ و الرّسول إن کنتم تؤمنون با اللّٰہ و اليوم الاٴخر، ذلک خير و اٴحسن تاٴویلاً < (نساء/ ۵٩”اے صاحبان ایمان!الله کی اطاعت کرورسول اوراولوالامرکی اطاعت کرو جوتمهيں ميں سے ہيںپهراگرآپس ميں کسی بات ميں اختلاف ہوجائے تواسے خدااوررسول کی طرف پلڻادواگرتم اللهاورروزآخرت پرایمان رکهنے والے ہو۔یہی تمهارے حق ميں خيراورانجام کے اعتبارسے بہترین باتہے۔”خداوندمتعال نے اس آیہ شریفہ ميں مومنين سے خطاب کياہے اورانهيں اپنی اطاعت،پيغمبراسلام (ص)کی اطاعت اوراولی الامر کی اطاعت کرنے کاحکم فرمایاہے۔یہ بات واضح ہے کہ پہلے مرحلہ ميں خداوندمتعال کی اطاعت،ان احکام کے بارے ميںہے کہ جوخداوندمتعال نے انهيں قرآن مجيدميں نازل فرمایاہے اورپيغمبر (ص) نے ان احکامکولوگوں تک پہنچایاہے،جيسے کہ یہ حکم:<اٴقيمواالصلوٰ ةوآتواالزکوٰة>پيغمبر (ص)کے فرامينکی اطاعت دو حيثيت سے ممکن ہے:١۔وہ فرمان جوسنّت کے عنوان سے آنحضرت)ص)کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہيں:یہ اوامراگرچہ احکام الٰہی ہيں جو آنحضرت (ص) پر بصورت وحی نازل ہوئے ہيں اورآنحضرت(ص) نے انهيں لوگوں کے لئے بيان فرمایاہے،ليکن جن مواقع پریہ اوامر”اٴمرکم بکذااواٴنّہاکم منہذا”)ميں تم کو اس امرکا حکم دیتا ہوںيااس چيزسے منع کرتاہوں)کی تعبيرکے ساته ہوں)کہ فقہکے باب ميں اس طرح کی تعبيریں بہت ہيں )ان اوامراورنواہی کوخودآنحضرت (ص)کے اوامرونواحی سے تعبير کيا جا سکتا ہے نتيجہ کے طور پر ان کی اطا عت آنحضرت کی اطاعتہوگی،چونکہ مذکورہ احکام خداکی طرف سے ہيں،اس لئے ان احکام پرعمل کرنا بهی خداکیاطاعت ہوگی۔٢۔وہ فرمان،جوآنحضرت)ص)نے مسلمانوں کے لئے ولی اورحاکم کی حيثيت سے جاریکئے ہيں۔یہ وہ احکام ہيں جوتبليغ الہی کا عنوان نہيںرکهتے ہيں بلکہ انهيں انحضرت صلی اللهعليہ وآلہ وسلم نے اس لحاظ سے جاری فرمایاہے کہ آپ مسلمانوں کے ولی،سرپرستاورحاکم تهے،جيسے جنگ وصلح نيزحکومت اسلامی کوادارہ کرنے اورامت کی سياست کےسلسلہ ميں جاری کئے جا نے والے فرامين۔آیہء شریفہ ميں<واٴطيعواالرّسول>کاجملہ مذکورہ دونوں قسم کے فرمانوں پرمشتملہے۔
تمام اوامرونواہی ميں پيغمبر(ص)کی عصمتپيغمبراکرم (ص) کی عصمت کوثابت کرنے کے بارے ميں علم کلام ميں بيان شدہقطعی دلائل کے پيش نظر،آنحضرت (ص)ہر شی کا حکم دینے یا کسی چيز سے منع کرنے کےسلسلہ ميں بهی معصوم ہيں۔آپ(ع)نہ صرف معصيت وگناہ کا حکم نہيں دیتے ہيں،بلکہ آنحضرت(ص)،امرونہی ميں بهی خطا کر نے سے محفوظ ہيں۔ہم اس آیہء شریفہ ميں مشاہدہ کرتے ہيں کہ آنحضرت (ص) کی اطاعت مطلق اورکسیقيدوشرط کے بغيربيان ہوئی ہے۔ اگرآنحضرت (ص)کے امرونہی کرنے کے سلسلہ ميں کوئیخطاممکن ہوتی یااس قسم کااحتمال ہوتا تو آیہء شریفہ ميں انحضرت (ص) کی اطاعت کا حکمقيد و شرط کے ساته ہوتا اورخاص مواقع سے مربوط ہوتا۔ماں باپ کی اطاعت جيسے مسائل ميں،کہ جس کی اہميت پيغمبر (ص) کی اطاعتسے بہت کم ہے،ليکن جب خدائے متعال والدین سے نيکی کرنے کاحکم بيان کرتا ہے، تو فرماتاہے:>و وصّينا الاٴنسان بوالدیہ حسناً و إن جاہدک لتشرک بی ماليسلک بہ علم فلا تطعہما <( (عنکبوت/ ٨”اورہم نے انسان کوماں باپ کے ساته نيکی کا برتاؤکرنے کی وصيت کی ہے اوربتایا ہے کہ اگروہتم کوميراشریک قرار دینے پرمجبورکریں کہ جس کہ کاتمهيں علم نہيں ہے توخبرداران کیاطاعت نہ کرنا۔”جب احتمال ہوکہ والدین شرک کی طرف ہدایت کریں توشرک ميں ان کی اطاعت کرنےسے منع فرماتاہے،ليکن آیہء کریمہ<اُولیّ الاٴمر>ميں پيغمبر (ص) کی اطاعت کوکسیقيدوشرط سے محدودنہيں کياہے۔پيغمبراکرم (ص) کی اطاعت کوکسی قيدوشرط کے بغيرتائيدوتاکيدکرنے کے سلسلہميں ایک اورنکتہ یہ ہے کہ قرآن مجيدکی متعددآیات ميں انحضرت (ص) کی اطاعت خداوندمتعالکی اطاعت کے ساته اورلفظ”اٴطيعوا”کی تکرارکے بغيرذکرہوئی ہے۔آیہء شریفہ<واٴطيعوااللّٰہوالرّسول لعلّکم ترحمون>یعنی”خدااوررسول کی اطاعت کروتاکہ موردرحمت قرارپاؤ “مذکورہميںصرف ایک لفظ”اٴطيعوا”کاخدااورپيغمبردونوں کے لئے استعمال ہونا اس کا مطلب یہ ہے کہآنحضرت (ص) کی اطاعت کا واجب ہوناخداکی اطاعت کے واجب ہونے کے مانندہے۔اس بناءپرپيغمبر (ص) کے امرپراطاعت کرناقطعی طورپراطلاق رکهتا ہے اورناقابل شک وشبہ ہے۔
اُولوالاامرکی اطاعتائمہ عليہم السلام کی امامت و عصمت کے سلسلہ ميں آیةمذکورہ سے استفادہ کرنے کے لئے مندرجہ چندابعادپرتوجہ کرناضروری ہے:ا۔اولوالامرکامفہوم٢۔اولوالامرکامصداق٣۔اولوالامراو رحدیث “منزلت”حدیث”اطاعت”اورحدیث”ثقلين”۴۔شيعہ اورسنی منابع ميں اولوالامرکے بارے ميں چنداحادیث
اولوالامرکامفہوماولو الامر کا عنوان ایک مرکب مفہوم پرمشتمل ہے۔اس جہت سے پہلے لفظ”اولوا” اور پهرلفظ “الامر”پرتوجہ کرنی چاہئے:اصطلاح”اولوا”صاحب اور مالک کے معنی ميں ہے اورلفظ”امر”دومعنی ميں ایاہے: ایک”فرمان” کے معنی ميں دوسرا”شان اورکام”کے معنی ميں۔”شان وکام”کامعنی زیادہ واضح اورروشن ہے،کيونکہ اسی سورئہ نساء کی ایک دوسری آیت ميں لفظ”اولی الامر”بيان ہواہے:>و إذجاء ہم اٴمر من الاٴمن اٴو الخوف اٴذاعوا بہ و لوردّوہ إلی الرّسول و إلی اٴولی الاٴمر منہم( لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم۔۔ (نساء/ ٨٣”اورجب ان کے پاس امن یاخوف کی خبرآتی ہے توفوراًنشرکردیتے ہيں حالانکہ اگررسولاورصاحبانامرکی طرف پلڻادیتے توان ميں ایسے افراد تهے کہ جوحقيقت حال کاعلم پيداکرليتے” -اس آیہء شریفہ ميں دوسرامعنی مقصودہے،یعنی جولوگ زندگی کے اموراوراس کےمختلف حالتوں ميں صاحب اختيارہيں،اس آیت کے قرینہ کی وجہ سے”اولی الامر”کالفظ موردبحث آیت ميں بهی واضح ہوجاتاہے۔مورد نظرآیت ميں اولوالامرکے مفہوم کے پيش نظر ہم اس نکتہ تک پہنچ جاتے ہيںکہ”اولوالامر”کا لفظ صرف ان لوگوں کو شامل ہے جو در حقيقت فطری طورپرامورکی سرپرستیاورصاحب اختيارہونے کے لائق ہيں اورچونکہ خداوندمتعال ذاتی طورپرصاحب اختيارہے اورتمامامورميں سرپرستی کااختياررکهتاہے،اس لئے اس نے یہ سرپرستی انهيں عطاکی ہے ۔خواہاگربظاہرانهيں اس عہدے سے محروم کر دیاگيا ہو،نہ ان لوگوں کوجوزوروزبردستی اورناحق طریقہسے مسلط ہوکرلوگوں کے حکمران بن گئے ہيں۔اس لئے کہ صا حب خانہ وہ ہے جوحقيقت ميںاس کامالک ہو چا ہے وہ غصب کر ليا گيا ہو،نہ کہ وہ شخص جس نے زورو زبر دستی یامکروفریبسے اس گهرپرقبضہ کر ليا ہے۔
اولوالامرکا مصداقاولوالامرکے مصادیق کے بارے ميں مفسرین نے بہت سے اقوال پيش کئے ہيں۔اسسلسلہ ميں جونظریات ہميں دستياب ہوئے ہيںوہ حسب ذیل ہيں:١۔امراء٢۔اصحاب پيغمبر (ص)٣۔مہاجرین وانصار۴۔اصحاب اورتابعين۵۔چاروخلفاء۶۔ابوبکروعمر٧۔علماء٨۔جنگ کے کمانڈر٩۔ائمہء معصومين)عليہم السلام)١٠ ۔علی(عليہ السلام)١١ ۔وہ لوگ جوشرعی لحاظ سے ایک قسم کی ولایت اورسرپرستی رکهتے ہيں۔١٢ ۔اہل حل وعقد١٣ ۔امرائے حق ١ان اقوال پرتحقيق اورتنقيدکرنے سے پہلے ہم خودآیہء کریمہ ميں موجودنکات اورقرائنپرغورکرتے ہيں:
آیت ميں اولوالامرکامرتبہبحث کے اس مرحلہ ميں ایہء شریفہ ميں اولوالامرکی اطاعت کرنے کی کيفيت قابلتوجہ ہے:
پہلانکتہ: اولوالامرکی اطاعت ميں اطلاق آیہء شریفہ ميں اولوالامرکی اطاعت مطلق طورپرذکرہوئی ہے اوراس کے لئے کسی قسم کی قيدوشرط بيان نہيں ہوئی ہے،جيساکہ رسولاکرم صل (ص) کی اطاعت ميں اس بات کی تشریح کی گئی۔یہ اطلاق اثبات کرتاہے کہ اولوالامرمطلق اطاعت کے حامل و سزاوارہيں اوران کی اطاعتخاص دستور،مخصوص حکم یا کسی خاص شرائط کے تحت محدودنہيں ہے،بلکہ ان کے تماماوامرونواہی واجب الاطاعت ہيں۔——–١۔تفسيرالبحرالمحيط،ج ٣،ص ٢٧٨ ،التفسيرالکبيردوسرانکتہ:اولوالامرکی اطاعت،خدااوررسولکی اطاعت کے سياق ميںيعنی ان تينمقامات کی اطاعت ميں کوئی قيدوشرط نہيں ہے اوریہ سياق مذکورہ اطلاق کی تاکيدکرتاہے۔
تيسرانکتہ:اولوالامرميں”اٴطيعوا”کاتکرارنہ ہونا۔گزشتہ نکات سے اہم تراس نکتہ کامقصدیہ ہے کہ خدا ورسولکی اطاعت کے لئے آیہءشریفہ ميں ہرایک کے لئے الگ سے ایک”اٴطيعوا”لایاگياہے اور فرمایاہے: <۔۔۔اٴطيعواللّٰہواٴطيعواالرّسول>ليکناولوالامرکی اطاعت کے لئے”اٴطيعوا”کے لفظ کی تکرارنہيں ہوئی ہےبلکہاولی الامر”الرسول”پرعطف ہے،اس بناپروہی”اٴطيعوا”جورسول کے لئے آیا ہے وہ اولیالامرسے بهی متعلق ہے۔اس عطف سے معلوم ہوتاہے کہ”اولوالامر”اور”رسول”کے لئے اطاعت کے حوالے سےدوالگ الگ واجب نہيں ہيں بلکہ وجوب اطاعت اولوالامر وہی ہے جو وجوب اطاعت رسولہے یہاس امر کی دليل ہے کہ اولوالامر کی اطاعت تمام امر ونہی ميںرسول اکرم (ص)کی اطاعتکے مانندہے اوراس کانتيجہ گناہ وخطاسے اولوالامرکی عصمت،تمام اوامرونواہی ميںرسول کےمانندہے۔اس برہان کی مزیدوضاحت کے لئے کہاجاسکتاہے:آیہء شریفہ ميں رسول اکرم صل (ص)اوراولوالامرکی اطاعت کے لئے ایک”اٴطيعوا”سے زیادہ استعمال نہيں ہوا ہے اوریہ”اٴطيعوا”ایکہی وقت ميں مطلق بهی ہواورمقيّدبهی یہ نہيں ہوسکتاہے یعنی یہ نہيں کہا جاسکتاہے کہیہ”اٴطيعوا”رسول خدا (ص) کے بارے ميں مطلق ہے اوراولوالامرکے بارے ميں مقيّدہے،کيونکہاطلاق اور قيدقابل جمع نہيں ہيں۔اگر”اٴطيعوا”پيغمبر (ص) کے بارے ميں مطلق ہے اورکسیقسم کی قيدنہيں رکهتا ہے،)مثلاًاس سے مقيّدنہيں ہے کہ آنحضرت (ص) کا امرونہی گناہ یااشتباہ کی وجہ سے نہ ہو)تواولوالامر کی اطاعت بهی مطلق اوربلا قيد ہو نی چاہئے ورنہنقيضين کاجمع ہونا لازم ہوگا۔ان نکات کے پيش نظریہ واضح ہوگياکہ آیہء کریمہ اس امر پر دلالت کر تی ہے کہ اس آیتميں”اولوالامر”پيغمبراکرم (ص) کے مانند معصوم ہيں۔یہ مطلب کہ”اولوالامر کی اطاعت”آیہء کریمہ ميں مذکورہ خصوصيات کے پيشنظر،اولوالامر کی عصمت پر دلالت ہے،بعض اہل سنّت ١ مفسرین،من جملہ فخررازی کی توجہکا سبب بنا ہے۔اس لحاظ سے یہاں پران کے بيان کاخلاصہ جواس مطلب پر قطعی استدلال ہےکی طرف اشارہ کرنا مناسب ہے:
آیہء اولوالامر کے بارے ميں فخررازی کا قولفخررازی نے بهی”اولوالامر”کی عصمت کو آیہء شریفہ سے استفادہ کيا ہے ان کے بيانکا خلاصہ حسب ذیل ہے:”خداوند متعال نے آیہء کریمہ ميں “اولوالامر” کی اطاعت کو قطعی طورپرضروری جانا ہے،اورجسکسی کے لئے اس قسم کی اطاعت واجب ہواس کاخطاواشتباہ سے معصوم ہو ناناگزیرہے،کيونکہ اگر وہ خطاواشتباہ سے معصوم نہ ہو اور بالفرض وہ خطا کا مر تکب ہو جائے تو ،اسآیت کے مطابق اس کی اطاعت کرنی ہوگی!اوریہ ایک امر خطا واشتباہ کی اطاعت ہوگی،جبکہخطااوراشتباہ کی نہی کی جاتی ہے لہذا انہيں چاہٴے کر اس کے امر کی پيروی کيجائے،کيونکہ اس قسم کے فرض کا نتيجہ فعل واحد ميں امرونہی کا جمع ہو نا ہے )جو محال ہے) ٢۔فخررازی اولوالامرکی عصمت کوآیہء سے استدلال کرنے کے بعد،یہ مشخص کرنے کےلئے کہ اولوالامر سے مراد کون لوگ ہيں کہ جن کامعصوم ہونا ضروری ہے کہتا ہے:——–١۔غرائب القرآن،نيشا بوری،ج ٢،ص ۴٣۴ ،دارالکتب العلمية بيروت،تفسيرالمنار،شيخ محمدعبدہورشيدرضا،ج ۵،ص ١٨١ دارالمعرفةبيروت٢۔التفسيرالکبير،آیت کے ذیل ميں”اولوالامر سے مرادشيعہ اماميہ کے ائمہ معصو مين عليهم السلام(ع)نہيں ہو سکتےہيں،بلکہ اس سے مراداہل حل وعقد)جن کے ذمہ معاشرہ کے اہم مسائل کے حل کرنے کیذمہ داری ہے)کہ جواپنے حکم اورفيصلے ميں معصوم ہوتے ہيں اوران کے فيصلے سوفيصد صحيحاورمطابق واقع ہوتے ہيں”۔
فخررازی کاجوابیہ بات کہ اولوالامر سے مراد اہل حل وعقد ہيں اور وہ اپنے حکم اور فيصلہ ميں معصومہيں،مندرجہ ذیل دلائل کے پيش نظر صحيح نہيں ہے:١۔آیہء کریمہ ميں “اولوالامر”کا لفظ جمع ا ور عام ہے کہ جو عمو ميت و استغراق پر دلالتکر تا ہے۔اگر اس سے مراد اہل حل وعقد ہوں گے تو اس کی دلالت ایک مجموعی واحد پر ہو گیاور یہ خلاف ظاہر ہے۔وضاحت یہ ہے کہ آیہء کریمہ کاظاہریہ بتاتاہے کہ ایسے صاحبان امرکی اطاعت لازم ہےجن ميں سے ہر کوئی، واجب الاطاعت ہو ،نہ یہ کہ وہ تمام افراد ) ایک مشترک فيصلہ کی بنيادپر)ایک حکم رکهتے ہوں اور اس حکم کی اطا عت کر نا واجب ہو ۔٢۔عصمت،ایک تحفظ الہٰی ہے،ایک ملکہ نفسانی اورحقيقی صفت ہے اوراس کے لئےایک حقيقی موصوف کاہوناضرودری ہے اوریہ لازمی طور پرایک امرواقعی پر قائم ہو نا چاہئے جبکہاہل حل وعقدایک مجموعی واحدہے اورمجموعی واحد ایک امراعتباری ہو تا ہے اورامر واقعی کاامراعتباری پر قائم ہونا محال ہے۔٣۔مسلمانوں کے درميان اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ شيعوں کے ائمہ اورانبياء کے علاوہکوئی معصوم نہيں ہے۔
ائمہء معصومين )ع )کی امامت پر فخررازی کے اعتراضاتاس کے بعد فخررازی نے شيعہ اماميہ کے عقيدہ، یعنی”اولوالامر”سے مرادبارہ ائمہمعصومين ہيں،کے بارے ميں چنداعتراضات کئے ہيں:
پہلا اعتراض:ائمہء معصومين )عليہم السلام) کی ا طاعت کا واجب ہونا یا مطلقاً ہے یعنیاس ميں ان کی معرفت وشناخت نيزان تک رسائی کی شرط نہيں ہے،تو اس صورت ميں تکليفمالایطاق کا ہو نا لازم آتا ہے،کيونکہ اس فرض کی بنياد پر اگر ہم انهيں نہ پہچان سکيں اوران تکہماری رسائی نہ ہو سکے،تو ہم کيسے ان کی اطاعت کریں گے؟یا ان کی شناخت اور معرفتکی شرط ہے،اگر ایسا ہے تویہ بهی صحيح نہيں ہے ،کيونکہ اس بات کا لازمہ ان کی اطاعت کاواجب ہونامشروط ہوگا،جبکہ آیہء شریفہ ميں ان کی اطاعت کا واجب ہو نا مطلقاً ہے اوراس کےلئے کسی قسم کی قيدوشرط نہيں ہے ۔
جواب:ائمہء معصومين کی اطاعت کے واجب ہونے ميں ان کی معرفت شرط نہيں ہے تاکہاگرکوئی انهيں نہ پہچانے تواس پران کی اطاعت واجب نہ ہو،بلکہ ان کی اطاعت بذاتخودمشروط ہے۔نتيجہ کے طور پر انهيں پہچاننا ضروری ہے تاکہ ان کی اطاعت کی جاسکے اوراندونوں کے درميان کافی فرق ہے۔مزیدوضاحت:بعض اوقات شرط، شرط وجوب ہے اور بعض اوقات شرط،شرط واجب ہے۔مثلاًوجوب حج کے لئے استطاعت کی شرط ہے اورخوداستطاعت وجوب حج کی شرط ہے۔اس بناء پراگر استطاعت نہ ہو توحج واجب نہيں ہو گا۔ليکن نمازميں طہارت شرط واجب ہے،یعنی نماز جوواجب ہے اس کے لئے طہارت شرط ہے۔اس بناء پر اگرکسی نے طہارت نہيں کی ہے تووہ نمازنہيں پڑه سکتا ہے،وہ گناہ کا مرتکب ہوگا،کيونکہ اس پر واجب تهاکہ طہارت کرے تاکہ نمازپڑهے۔ليکن حج کے مسئلہ ميں ،اگراستطاعت نہيںرکهتا ہے تواس پر حج واجب نہيں ہے اور وہکسی گناہ کا مرتکب نہيں ہوا ہے۔اس سلسلہ ميں بهی پيغمبر (ص) اورامام(ع)دونوں کی اطاعت کے لئے ان کی معرفتکی شرط ہے۔اس لحاظ سے ان کی معرفت حاصل کرنا ضروری ہے تاکہ ان کی اطاعت کیجاسکے۔پس ان کی اطاعت کاوجوب مطلقاًہے،ليکن خوداطاعت مشروط ہے۔خدائے متعال نے بهی قطعی دلالت سے اس معرفت کے مقدمات فراہم کئے ہيں۔جسطرح پيغمبراکرم (ص) قطعی دلائل کی بناپرپہنچانے جاتے ہيں،اسی طرح ائمہ معصومين عليہمالسلام کو بهی جوآپکے جانشين ہيں قطعی اورواضح دلائل کی بناپر جيسا کہ شيعوں کے کلاماورحدیث کی کتابوں ميں مفصل طورپرآیاہے اوران کے بارے ميں معرفت اورآگاہی حاصلکرناضروری ہے۔
دوسرااعتراض:شيعہ اماميہ کے عقيدہ کے مطابق ہرزمانہ ميں ایک امام سے زیادہ نہيںہوتا ہے،جبکہ”اولوالامر”جمع ہے اورمتعدداماموں کی اطاعت کوواجب قراردیتاہے۔
جواب:اگرچہ ہرزمانے ميں ایک امام سے زیادہ نہيں ہوتاہے،ليکن ائمہ کی اطاعت مختلفومتعددزمانوں کے لحاظ سے ہے،اوریہ ہرزمانہ ميں ایک امام کی اطاعت کے واجب ہونے کےمنافی نہيں ہے۔نتيجہ کے طورپرمختلف زمانوں ميں مومنين پرواجب ہے کہ جس آئمہ معصوم کیطرف سے حکم ان تک پہنچے،اس کی اطاعت کریں۔
تيسرااعتراض:اگرآیہء شریفہ ميں”اولوالامر”سے مراد آئمہ معصومين ہيں توآیہئ شریفہکے ذیل ميں جوحکم دیاگياہے کہ اختلافی مسائل کے سلسلہ ميں خدائے متعال اوررسول(ص)کی طرف رجوع کریں،اس ميں ائمہ معصومين(ع)کی طرف لوڻنے کا بهی ذکرہوناچاہئے تهاجبکہ آیت ميںيوں کہاگياہے:<فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوہ إلی اللّٰہ والرّسول>”پهراگرآپس ميںکسی بات ميں اختلاف ہوجائے تواسے خدااور رسولکی طرف ارجاع دو۔”جبکہ یہاںپر”اولوالامر”ذکرنہيں ہواہے۔
جواب:چونکہ ائمہ معصومين عليہم السلام اختلافات کو حل کرنے اوراختلافی مسائل کےبارے ميں حکم دینے ميں قرآن مجيداورسنّت (ص)کے مطابق عمل کرتے ہيں اورکتاب وسنّتکے بارے ميں مکمل علم وآگاہی رکهتے ہيں،اس لئے اختلافی مسائل ميں کتاب و سنت کیطرف رجوع کرناخدا اوررسولکی طرف رجوع کرناہے۔اسی لئے”اولوالامر”کاذکر اور اس کیتکرارکرنایہاں پرضروری نہيں تها۔جملہء شرطيہ ميں”فائے تفریع”ایک اورنکتہ جو”اولوالامر”کے معنی کو ثابت کرنے کے لئے بہت مؤثرہے وہ جملہئشرطيہ ميں<اٴطيعو اللّٰہ واٴطيعوالرّسول واٴولی الاٴمر>کے بعد”فائے تفریع”کا پایا جا نا ہے۔یہ جملہء شرطيہ یوں ایاہے:<فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوہ إلی اللّٰہ و رسول>اختلافیمسائل کوخدائے متعال اوررسول (ص)کی طرف پلڻانے کاوجوب،خدا،رسولاوراولی الامرکیاطاعت کے وجوب پرمتفرع ہواہے،اوراس بيان سے بخوبی سمجه ميں آتاہے کہ اختلافی مسائلکوخدااوررسول (ص)ی طرف پلڻانے ميں اولوالامرکی اطاعت دخالت رکهتی ہے۔یہ تفریعدوبنيادی مطلب کی حامل ہے:١۔اولوالامرکی عصمت :اس لحاظ سے کہ اگراولوالامرخطااورگناہ کامرتکب ہو گااوراختلافی مسائل ميںغلط فيصلہ دے گا تواس کے اس فيصلہ کاکتاب وسنت سے کوئی ربط نہيںہوگاجبکہ تفریع دلالت کرتی ہے کہ چونکہ اولی الامرکی اطاعت ضروری ہے لہذا چاہيئےکہ،اختلافی مسائل کوخدااوررسول (ص) کی طرف پلڻا یا جائے۔٢۔کتاب وسنت کے بارے ميں کامل ووسيع معلو مات:اس لحاظ سے اگراولی الامر کتابوسنت کے ایک حکم سے بهی جاہل ہواوراس سلسلہ ميں غلط حکم جاری کرے تواس حکمميں اس کی طرف رجوع کرناگویاکتاب وسنت کی طرف رجوع نہ کرنے کے مترادفہے۔جبکہ”فائے تفریع”سے یہ سمجه ميں آتاہے کہ اولی الامرکی اطاعت مسلسل اختلافیمسائل کوکتاب وسنت کی طرف پلڻانے کاسبب ہے۔اس لئے آیہء شریفہ ميں فائے تفریع،کاوجوداولی الامر کے تعين کے لئے کہ جس سے مرادائمہ معصومين (ع)واضح قرینہ ہے۔مذکورہ نکات سے استفادہ کی صورت ميں اب تک درج ذیل چندمطالب واضح ہوگئے:١۔آیہء شریفہ ميں”اولی الامر”سے مرادجوبهی ہيں ان کاامرونہی کر نے ميں گناہاورخطاسے معصوم ہونا ضروری ہے۔٢۔اولی الامرکا انطباق اہل حل وعقدپر صحيح ودرست نہيں ہے۔)جيساکہ فخررازی کانظریہ ہے)٣۔اب تک جوکچه ثابت ہوچکا ہے اس کے پيش نظراگر”اولی الامر”کے بارے ميں ہمارےبيان کئے گئے گيارہ اقوال پرنظرڈاليں،توآیہء کریمہ کی روشنی ميں”اولی الامر”سے مرادتنہاشيعہ اماميہ کا نظریہ قابل قبول ہے اوریہ امران کے علاوہ دوسروں کے عدم عصمت پراجماعہونے کی بهی تاکيدکرتاہے۔ظالم حکام اولوالامرنہيں ہيںاولوالامرکے مفہوم ميں اشارہ کياگياکہ اولوالامرميںصرف وہ لوگ شامل ہيں،جوامت کیسرپرستی ان کے امور کے مالک ہوں،اوریہ عنوان ان پر بهی صادق ہے کہ جنهيں ظلم اورناحقطریقہ سے امت کی سرپرستی سے عليحدہ کياگياہے۔اس کی مثال اس مالک مکان کیجيسی ہے،جس کے مکان پرغاصبانہ قبضہ کرکے اسے نکال باہرکر دیاگياہو۔دوسرانکتہ جو”اولوالامر”کے مقام کی عظمت اور اس کے بلند مر تبہ ہونے پر دلالت کرتاہے وہ”اولوالامر”کاخداورسول (ص)کے او پرعطف ہوناہے۔مطلقاً وجوب اطاعت ميں خدا ورسولکے ساته یہ اشتراک و مقا رنت ایک ایسا رتبہ ہے جوان کے قدرومنزلت کے لائق افراد کے علاوہدوسروں کے لئے ميسرنہيں ہے۔یہ دواہم نکتے)مفہوم”اولوالامر”اوروجوب اطاعت کے سلسلہ ميں الوالامرکاخداورسولپرعطف ہونا) خود”اولوالامر”کے دائرے سے ظالم حکام کے خارج ہونے کوواضح کرتا ہے۔زمخشری کاتفسيرالکشاف ١ميں اس آیہء شریفہ کے ذیل ميں کہناہے:”خدااوررسول (ص)ظالم حکام سے بيزارہيں اوروہ خداورسول کی اطاعت کے واجب ہونےپرعطف کی صلاحيت نہيں رکهتے ہيں۔ان کے لئے شائستہ ترین نام”اللصوص المتغلبہ”ہے۔یعنیایسے راہزن کہ جو لو گوں کی سر نوشت پرزبردستی مسلط ہوگئے ہيں۔”اس بيان سے معروف مفسرقرآن،طبری کے نظریہ کاقابل اعتراض ہوناواضح ہوجاتاہے،جسنے ظالم کام کو بهی اولوالامر کی فہرست ميں شامل کرتے ہوئے ان کی اطاعت کے ضروریہونے کی طرف اشارہ کياہے۔
اولوالامرکے بارے ميں طبری کا قولمناسب ہے کہ ہم اس سلسلہ ميں طبری کے بيان اورا ستدلال کی طرف اشارہ کریں:اٴولی الاٴقوال فی ذلک بالصواب قول من قال:”ہم الاٴمراؤالو لاةلصحة الاٴخبارعن رسول اللّٰہ (ص)بالاٴمربطاعتہ الاٴئمّة والولاةفيماکان طاعة وللمسلمين مصلحة”——–١۔الکشاف،ج ١،ص ٢٧٧ ۔ ٢٧۶ ،دارالمعرفة،بيروتکالذی حدثنی علی بن مسلم الطوسی قال:ثنا ابن اٴبی فدیک قال:ثنی عبداللّٰہ ابن محمدبنعروة،عن ہشام بن عروة،عن اٴبی صالح السمان،عن اٴبی ہریرة:اٴن النبیّ- (ص) وسلم-قال:سيليکم بعدی ولاة،فيليکم البرّببرّہ،والفاجر بفجورہ۔فاسمعوالہم واٴطيعوافی کل ماوافق الحق وصلوّاوراء ہم!فإن اٴ حسنوا فلکم ولہم،وإن اٴساؤوافلکموعليہم!وحدثنا ابن المثنی قال:ثنا یحيی بن عبيداللّٰہ قال:اٴخبرنی نافع،عن عبداللّٰہ،عن النبیّ- (ص)-قال:علی المرء المسلم الطا عة فيما اٴحبّ وکرہ إلاّاٴن یؤمر بمعصيةٍ،فمن اٴمربمعصية فلا طاعة۔حدثناابن المثنی قال:ثنی خالدبن عبيداللّٰہ،عن نافع،عن اٴبی عمر،عن النبیّ- (ص)-نحوہ۔ ١طبری نے تمام اقوال ميں سے اس قول کو ترجيح دی ہے کہ جس ميں”اولوالامر”سےمرادمطلق حکام)نيک وبد)ليا گياہے۔اوراس سلسلہ ميں ان دواحادیث سے استدلال کيا ہے،جنميں حکمران اور فرمانرواؤں کی اطاعت کو مطلق طور پر ضروری جا ناکيا گيا ہے۔نہ صرف”اولی الامر”کا مفہوم اوراس کا رسول (ص) پر عطف ہونااس نظریہ کو مستردکرتا ہے،بلکہ ایسی صورت ميں طبری کے نظریہ پر چند اعتراضات بهی وارد ہوتے ہيں:پہلا اعتراض:یہ احادیث قابل اعتبار اورحجت نہيں ہيں،کيونکہ حدیث کی سند ميں پہلےابن ابی فدیک کا نام ہے کہ اہل سنّت کے رجال وحدیث کے ایک امام،ابن سعدکا اس کے بارےميں کہنا ہے:——–١۔تفسيرطبری،ج ۵،ص ٩۵ ،دارالمعرفة،بيروت”کان کثيرالحدیث وليس بحجة” ١”اس سے کافی احادیث رو ایت ہوئی ہيں اور)اس کی بات) حجت نہيں ہے”ابن حبان نے اسے خطا اوراشتباہ کرنے والا جانا ہے۔ ٢ اس کے علاوہ اس کی سند ميںعبدالله بن محمد بن عروة ہے کہ جس کا علم رجال کی معروف کتابوں ميں موثق ہونا ثابت نہيںہے۔دوسری حدیث کی سند ميں بهی بعض ضعيف اور مجہول افراد پائے جاتے ہيں،جيسےیحيیٰ بن عبيدالله،کے متعلق اہل سنت کے ائمہء رجال جيسے ابوحاتم،ابن عيينہ، یحيیٰالقطان،ابن معين ،ابن شيبہ،نسائی اوردار قطبنی نے اسے ضعيف اور قابل مذمت قراردیا ہے۔ ٣
دوسرااعتراض:ان احادیث کا آیہء “اولی الامر” سے کوئی ربط نہيں ہے اور یہ احادیثاس آیت کی تفسير نہيں کرتی ہيں۔تيسرااعترض:طبری کی یہ تفسيرقرآن مجيد کی دوسری آیات سے تناقص رکهتیہے،من جملہ یہ آیہء شریفہ:( لاتطيعوااٴمرالمسرفين الذین یفسدون فی الاٴرض ولا یصلحون (شعراء/ ۵٢ ١ ۔ ١۵١”اورزیادتی کرنے والوں کے حکم کی اطاعت نہ کرو،جوزمين ميں فساد برپاکرتے ہيں اوراصلاح کےدر پی نہيں ہيں”علماء بهی اولوالامرنہيں ہيں”اولوالامر”کا مفہوم سرپرستی اورولایت کو بيان کرتا ہے اورعلماء کا کردار لوگوںکووضاحت اور آگاہی دینے کے علاوہ کچه نہيں ہے، کيونکہ:——–١۔الطبقات الکبری،ج ۵،ص ۴٣٧ ،داربيروت للطباعةوالنشر٢۔کتاب الثقات،ج ٩،ص ۴٢ ،مؤسسةالکتب الثقافية٣۔تہذیب التہذیب ،ج ١١ ،ص ٢٢١ ،دارالفکرایک تو،”اولوالامر”کے عنوان سے صاحبان علم وفقہ ذہن ميں نہيں آتے ہيں مگریہ کہ خارجسے اس سلسلہ ميں کوئی دليل موجود ہو جس کے روسے علماء اوردانشوروں کو سر پرستیحاصل ہو جائے اوریہ دلالت آیت کے علاوہ ہے جنہوں نے اس قول کو پيش کياہے،وہ اس لحاظسے ہے کہ لوگ اپنی زندگی کے معاملات ميں علماء کی اطاعت کرکے ان کی راہنمائی سےاستفادہ کریں۔دوسرے یہ کہ:اس آیہء شریفہ سے قبل والی آیت ميں خداوند متعال نے حکام کےفرائض بيان کئے ہيں:>وإذا حکمتم بين الناس اٴن تحکموا بالعدل<“جب کوئی فيصلہ کرو توانصاف کے ساته کرو”زیر بحث آیت ميں”اولوالامر” کی نسبت لوگوں کی ذمہ داریوں کوبيان کيا گيا ہے اوراسسے واضح ہوتا ہے کہ “اولوالامر”سے مراد مذکورہ صفات کے حامل وہی حکام ہيں،نہ علمائتيسرے یہ کہ:اگراس سے مراد علماء ہيں توکيا یہ علماء بہ طور عام اور بہ حيثيتمجموعی مراد ہيں یا یہ کہ بہ حيثيت استغراقی،ان ميں ہرفرد ولی امر ہے اوراس کی اطاعتواجب ہے؟اگر پہلا فرض مراد ہے ،تواس پر اعتراض اہل حل وعقد والے قول اورفخررازی کے نظریہکے سلسلہ ميں بيان ہوچکا ہے،اوراگردوسری صورت مراد ہے توآیہء شریفہ ميں مطلقا طور پرکس طرح ان کی اطاعت واجب ہو ئی ہے،جبکہ اگرایسا ہے تواس کے ضوابط اورشرائط قرآنوحدیث ميں بيان ہونے چاہئے تهے۔چوتهے یہ کہ: پچهلی آیت ميں “فائے تفریع “کی وضاحت ميں آیہء شریفہ کے بعد والےجملہ ميں آیاہے:<فإنّ تنازعتم فی شيئٍ فردّوہ إلی اللّٰہ والرّسول> یہ جملہ فائے تفریع کےذریعہ پہلے والے جملہ سے مر بوط ہے کہ اس کے معنی اختلافی صورت ميں خدا اوررسول کیطرف رجوع کر ناخدا ورسول نيز اولی الامر کی مطلقاً اطاعت کے وجوب پر متفرع ہے۔ اس جملہسے واضح ہو جا تاہے کہ اختلافی مسائل ميں خدااوررسول کی طرف رجوع کر نا ضروری ہے،یہرجوع کر نا‘اولوالامر” کی اطاعت ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔اوربعد والے جملہ ميں لفظ “اولوالامر”کونہ لانے کا مقصد بهی اسی مطلب کو واضح کرتا ہے یعنی تنہا”اولوالامر” ہے جوکتاب وسنت کےمعانی و مفاہيم نيز تمام پہلوؤں سے آگاہ ہے لہذا اختلافی مسائل ميں اس کی طرف رجوع کرنا درحقيقت خدااوررسولکی طرف رجوع کر نا ہے اور ہم جانتے ہيں کہ مطلقاً یعنی بہ طور کلیعلماء ایسے نہيں ہيں سواء ان لو گوں کے کہ جو منجانب الله گناہ وخطاء سے محفوظ ہيں۔
آیہء کریمہ کے بارے ميں چند دیگر نکاتاس قول کے بارے ميں کہ”اولوالامر”سے مراد علماء ہيں ،مفسرین کے بيانات ميں بعضقابل غور باتيں دیکهنے ميں آتی ہيں ،شائستہ نکات کو ملحوظ رکهتے ہو ئے آیت ميں غوروخوص ان اعتراضات کو واضح کر دیتا ہے پہلا نکتہ:<فإنّ تنازعتم>ميں مخاطبين وہی ہيںجو<یاایّہا الذین آمنوا>ميں مخاطبين ہيں۔”آیت ميں مخاطب مو منين “کا اولوالامر کے درميانتقابل کا قرینہ متقاضی ہے کہ”الذین آمنوا””اولوالامر” کے علاوہ ہوں کہ جس ميں حاکم و فرمانروااولوالامر اور مطيع وفرمانبردارمومنين قرار دیئے جائيں ۔دوسرانکتہ:اس نکتہ کے پيش نظر،مو منين کے اختلا فات ان کے آپسی ا ختلا فات ہيںنہ ان کے اور اولوالامر کے درميان کے اختلافات۔تيسرانکتہ: یہ کہ مو منين سے خطاب مورد توجہ واقع ہو اور اس کو اولی الامر کی طرفموڑ دیا جائے ،یہ سياق آیت کے خلاف ہے اوراس تو جہ کے بارے ميں آیہء شریفہ ميں کوئیدليل موجود نہيں ہے۔
چند نظریات پرتنقيدقرطبی اورجصّاص نے جملہ<فإن تنازعتم فی شیءٍ فردّوہ إلی اللّٰہ والرّسول>کواس پردليل قراردیا کہ”اولوالامر” سے مرادعلماء ہيں،اورچونکہ جو علماء نہيں ہيں وہ خدا ورسولکیطرف پلڻانے کی کيفيت کو نہيں جانتے ہيں،اس لحاظ سے خدائے تعالیٰ نے علماء کوخطاب کياہے اورانهيں جهگڑے اوراختلاف کی صورت ميں حکم دیاہے کہ اختلافی مسئلہ کو خدا اور رسولکی طرف پلڻادیں۔ ١ابوالسعود نے اپنی تفسير ميں اس قول کو پيش کيا ہے اورمذکورہ دومفسروں نے جوکچه کہا ہے،اس کے خلاف ہے:جملہء”فإن تنازعتم”اس کی دليل ہے کہ اولوالامر سے مراد علماءنہيں ہو سکتے ہيں،کيونکہ مقلد مجتہد کے حکم کے بارے ميں اس سے اختلاف نہيں کرسکتاہے!مگر یہ کہ ہم کہيں کہ جملہ”فإن تنازعتم”کا مقلدین سے کوئی ربط نہيں ہے اوریہ خطابصرف علماء سے ہے اوراس سلسلہ ميں کسی حد تک التفات ملا حظہ کيا گيا ہے ليکن ےہبهی بعيد ہے۔ ٢قرطبی اورجصّاص کے لئے یہ اعتراض ہے کہ وہ التفات)توجہ) کے قائل ہوئے ہيں اور جملہ”تنازعتم” کو علماء سے خطاب جاناہے جبکہ بظاہر یہ ہے کہ‘ ‘تنازعتم” کا خطاب تمام مومنينسے ہے اوراس التفات کے بارے ميں کوئی دليل موجود نہيں ہے۔ابوالسعودکا اشکال یہ ہے کہ اس نے آیہء شریفہ ميں اختلاف کو “اولوالامر”سے مرادعلماء ہو نے کی صورت ميں اختلاف بين علماء اور مقلدین سمجها ہے ،جبکہ مؤ منين سےخطاب ہے،چونکہ مؤ منين آیہء شریفہ ميں اولوالامر کے مقابلہ ميں قراردئے گئے ہيں ،لہذاان کےاختلافات ان کے آپسی اختلافات ہوں گے،نہ کہ علماء کے فرض کر نے کی صورت ميں اولوالامر١۔جامع احکام القرآن،ج ۵،ص ٢۶٠ ،دارالفکر۔احکام القرآن جصاص،ج ٢،ص ٢١٠ ،دارالکناف العربی۔٢۔ارشاد العقل السليم ،تفسير ابوالسعود،ج ٢،ص ١٩٣ ،داراحيائ التراث العربی ،بيروت۔کے ساته یہاں تک واضح ہوا کہ مذکورہ نکات کے پيش نظر”اولوالامر”سے مرادعلمائنہيںہوسکتے ہيں۔قرطبی اورجصاص کا نظریہ بهی صحيح نہيں ہے،جنهوں نے التفات کا سہارالے کراس قولکوصحيح قراردینے کی کوشش کی ہے اورابوالسعود کا نظریہ بهی درست نہ ہونے کی وجہسے اس کامستردہونا واضح ہے۔
اصحاب اور تابعين بهی اولوالامر نہيں ہيں۔آیہء شریفہ ميں چند دوسرے ایسے نکات بهی موجود ہيں کہ جن کی روشنی ميںاصحاب یا اصحاب وتابعين یا مہا جرین وانصار کا اولوالامر نہ ہوناثابت کيا جاسکتا ہے:١۔آیہء شریفہ ميں عموماً مؤ منين سے خطاب کيا گيا ہے اور ایسے افراد کہ جن کیاطاعت کرنا مؤمنين کے لئے بطور مطلق واجب ہے،ان کا ذکر ہے لہذا مؤمنين وہ لوگ ہيں کہ جنکی شان اطاعت وفرمانبرداری ہے اورخدا ورسول نيز اولوالامر کی شان مو منين کے اوپرمطلقاًاختيار اور فرمانروائی ہے ،ان دونوں کا)مفہوم)ایک دوسرے کے مد مقابل واقع ہو نا واضحقرینہ ہے کہ مؤ منين “اولوالامر”کے علاوہ ہيں۔مؤمنين کی حيثيت صرف فرمانبرداری ہے،اورانکے مقابل یعنی خداورسول نيزاولوالامر کی حيثيت فرماں روائی ہے۔یہ مغایرت جس چيزکی تاکيد کرتی ہے ،وہ یہ ہے کہ اولوالامرکا تذکرہ خداورسول کےساته ایک سياق ميں واقع ہے اورآیت ميں خدا اورسولکی حيثيت سواء مطاع )جس کی اطاعتکی جائے )کے کچه نہيں ہے،لہذا اولوالامرکی بهی و ہی حيثيت ہو نی چا ہئے۔اس مطلب کا تقاضا یہ ہے کہ اولوالامر،اصحاب ،تابعين یا مہاجرین وانصارکے زمرے سےنہيں ہوں گے کيوں کہ ایسی صورت ميں مذکورہ مغایرت موجود نہيںر ہے گی،حالانکہ جو مؤمنين آیہء شریفہ کے نزول کے وقت اس کے مخاطب واقع ہوئے ہيں وہ،وہی اصحاب ،مہاجرین اورانصا رہيں۔٢۔دوسرانکتہ یہ ہے کہ اگر اولوالامر کے مصداق اصحاب ہوگے، تو کےا یہ تمام اصحاب بہحيثيت مجموعی ہيں ےا بنحواستغراقی ؟مزید واضح لفظوں مےں کيا اصحاب مےں سے ہر ایک فرد بہ طورمستقل اولوالامر ہے اور قوم کی سرپرستی کا اختياررکهتاہے، یا تمام اصحاب بہ حيثيت مجموعی اس عہدے کے مالکہيں؟ فطری بات ہے کہ دوسری صورت کے اعتبار پر سب کا اجماع اور اتفاق ہوگا؟دوسرا فرض )یعنی عام بہ حيثيت مجموع) ظاہر کے خلاف ہے، جيسا کہ فخررازی کےبيان ميں اس کی وضاحت ہو چکی ہے ، او ر پہلا فرض یعنی اصحاب ميں سے ہر ایک بہ طورمستقل صاحب ولایت ہوگا، یہ بهی ظاہر اور اصحاب کی سيرت کے خلاف ہے ۔ کيونکہ اصحابکے زمانہ ميں ایسا کچه نہيں تها کہ ہر ایک دوسرے کے لئے )وہ بهی مطلقاً) وجوب اطاعت کامالک ہوا۔اس کے علاوہ اصحاب علمی اور عملی لحاظ سے ایک دوسرے سے کافی مختلفتهے۔ان ميں کافی تعداد ميں ایسے افراد بهی تهے جن ميں علمی اور اخلاقی صلاحيتوں کافقدان تها۔مثال کے طور پر وليدبن عقبہ ١ کے فاسق ہو نے کے بارے ميں آیت نازلی ہوئی ہےکہ جس کی خبر کی تحقيق واجب وضروری ہے ان حالات کے پيش نظر کس طرح ممکن ہے کہ” اولوالامر”کے مصداق بہ طور مطلق اصحاب یا مہاجرین و انصار ہوں؟سریہ کے سردار بهی اولوالامر کے مصداق نہيں ہيں:اسی طرح”اولوالامر” کے مصداق سریہ ٢کے کمانڈو بهی نہيں ہيں کيونکہ جو کچه ہمنے بيان کيا، اس کے علاوہ “اولوالامر” کا رسول (ص) پر عطف ہونا، “اولوالامر”کی مطلق اطاعتکے و اجب ہونے پر دلالت کر تا ہے اور جملہ “فإن تنازعتم” کامتفرع ہو نا، خدا و١۔ اصحاب کے بارے ميں مصنف کی کتاب ” عدالت صحابہ در ميزان کتاب و سنت ” ملاحظہ ہو٣۔جن جنگوں ميں پيغمبراکرم صلی لله عليہ وآلہ وسلم نے ذاتی طورپر شرکت نہيں کیہے،انهيں سریہ کہتے ہيں۔پيغمبر اور اولوالامرکی مطلق اطاعت نيز”اولوالامر” کی عصمت پر دليل ہيں ۔سریہ کے کمانڈمعصوم نہيں ہيں،اس سلسلہ ميں اصحاب اورتابعين کی طرف سے کچه آثار نقل ہوئے ہيںجواس مطلب کی تائيد کرتے ہيں۔ہم یہاں پر ان آثار ميں سے چند کی طرف اشارہ کررہے ہيں:١۔ابن عباس سے ایک حدیث ميں روایت کی گئی ہے:آیہء”اولی الامر”ایک ایسے شخصکے بارے ميں نازل ہوئی ہے،کہ جسے پيغمبراکرم (ص) نے ایک سریہ ميں)سرپرست و سر براہکے عنوان سے) بهيجا تها۔ ١اس حدیث کی سند ميں حجاج بن محمد کا نام آیا ہے کہ ابن سعدنے اس کے بارے ميں کہا ہے:”کان قد تغيّرفی آخر عمرہ””یعنی:آخر عمر ميں اس کا حافظہ مختل ہوگيا تها۔اورابن حجر نے کہا ہے کہ اس نے اسی حالت ميں روایت کی ہے ٢ فطری بات ہے کہ اسکيفيت و حالت کے پيش نظر اس کی روایت معتبر نہيں ہوسکتی ہے۔٢۔ایک دوسری حدیث ميں ميمون بن مہران سے روایت ہوئی ہے کہ”اولوالامر” وہ لوگہيں جوسریہ)جنگوں) ميں شرکت کرتے تهے۔ ٣اس حدیث کی سند ميں عنبسة بن سعيدضریسکا نام ہے کہ ابن حبان نے اس کے بارے ميں کہا ہے:” “کان یخطی ۴”یعنی :وہ مسلسل خطا کا مرتکب ہوتاتها۔”——–١۔تفسير طبری،ج ۵،ص ٩٢ ،دارالمعرفة،بيروت٢۔تہذیب التہذیب،ج ٢،ص ١٨١٣۔تفسير طبری ،ج ۵،ص ٩٢ ،دارالمعرفة،بيروت۴۔تہذیب التہذیب،ج ٨،ص ١٣٨طبری نے ایک حدیث ميں سدی سے نقل کيا ہے ١کہ اس نے آیہء “اولوالامر” کو اس قضيہ سےمرتبط جانا ہے کہ ایک سریہ)جنگ) ميں خالد بن وليدکوکمانڈر مقرر کيا گيا تهااورس سریہ ميںعماریاسر بهی موجود تهے اور انہوں نے ایک مسلمان کو دئے گئے امان کے سلسلہ ميں خالدسے اختلاف رای کا اظہارکيا تها۔ ٢یہ حدیث بهی صحيح نہيں ہے،کيونکہ ایک تو یہ مرسل ہے اوردوسرے سدی کے بارےميں یحيیٰ بن معين ا ورعقيلی سے نقل ہو ا ہے کہ وہ ضعيف ہے اورجوزجانے اسے کافی جهوڻابتا یا ہے ۔ ٣٣۔بخاری نے آیہء “اولوالامر” کی تفسير ميں جو حدیث ذکر کی ہے وہ یوں ہے:”حدثناصدقة بن الفضل،اٴخبرناحج ابن محمّد،عن ابن جریح،عن یعلی بن مسلم،عن سعيد بنجبيرعن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما:”اٴطيعوااللّٰہ واٴطيعوالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم”قال:نزلت فیعبداللّٰہ بن حذافة ابن قيس بن عدی اذبعثہ النبی (ص) فی سریة۔ ۴اس حدیث ميں سعيدبن جبيران نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آیہء<اٴطيعوااللّٰہواٴطيعواالرّسول واٴولی الاٴمرمنکم>عبدالله بن حذافہ کے بارے ميں نازل ہو ئی ہے،جب رسولخدا (ص)نے اس سے ایک سریہ کے لئے روانہ کيا۔چونکہ یہ حدیث فتح الباری ميں ابن حجر کے کلام سے اخذ کی گئی ہے اس لئےاحتمال ہے کہ یہ روایت سنيد بن داؤد مصيصی سے روایت ہوئی ہو جيسا کہ ابن سکن سےمنقول ہے نہ کہ صدقہ بن——–١۔تفسير طبری ،ص ٩٢ ،دارالمعرفة٢۔تفسير طبری ،ص ٩٢ ،دارالمعرفہ٣۔تہذیب التہذیب،ج ١،ص ٢٧٣۴۔صحيح بخاری،ج ٣،ص ٣٧۶ ،کتاب التفسير،باب قولہ<اٴطيعواللّٰہ۔۔۔>ح ١٠١٠ ،دارالقلم ،بيروتفضل سے جيسا کہ اکثر نے نقل کيا ہے اور موجودہ صحيح بخاری ميں بهی اسی کے حوآلےسے آیا ہے اورسنيد بن داؤد کو ابی حاتم ونسائی نے ضعيف جانا ہے۔ ١اس بناپر ایک تو یہ بات مسلّم ویقينی نہيں ہے کہ بخاری ميں موجود روایت صدقہ بنفضل سے ہوگی،بلکہ ممکن ہے سنيد سے ہو جبکہ وہ ضعيف شمار ہو تا ہے۔دوسرے یہ کہ:اس کی سند ميں حجاج بن محمدہے کہ ابن سعد نے اس کے بارے ميںکہا ہے:”کان قد تغيرفی آخرعمرہ””یعنی:آخر عمر ميں اس کا حافظہ مختل ہوگيا تها۔”اور ابن حجر نے کہاہے:اس نے اسی حالت ميںروایت کی ہے۔ ٢ابوبکراورعمربهی اولوالامر کے مصداق نہيں ہيںمذکورہ وجوہ کے پيش نظر واضح ہوگيا کہ ابوبکر اور عمربهی “اولوالامر”کے مصداق نہيںہيں نيزان وجوہ کے علاوہ دین وشریعت سے متعلق سوالات کے جوابات ميں ان کی لا علمیناتوانی اوراحکام الٰہی کے خلاف ان کا اظہار نظر بهی اس کا بين ثبوت ہے کہ جو تاریخ وحدیثکی کتابوں ميں کثرت سے درج ہے۔اس سلسلہ ميں کتاب الغدیر کی جلد ۶اور ٧ کی طرف رجوعکيا جاسکتاہے۔اہل سنت کی بعض کتابوں ميں درج یہ حدیث کہ جس ميں ان کی اقتداء کرنے کااشارہہواہے:”إقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر”کئی جہات سے باعث نزاع ہے۔من جملہ یہ کہ اسکی سند ميں عبدالملک بن عمير ہے کہ تہذیب الکمال ٣ميں احمد بن حنبل——–١۔فتح الباری،ج ٨،ص ٢۵٣٢۔تہذیب التہذیب،ج ٢،ص ١٨١٣۔تہذیب الکمال،ج ١٨ ،ص ٣٧٣ ،موسسہ الرسالةسے اس کے بارے ميں یوں نقل ہوا ہے:عبد الملک بن عمير بہت زیادہ مضطرب البيان ہے اسسے منقول ميں نے ۵٠٠ سو روایتيں دیکهی ہيں کہ جن ميں اکثر غلط ہيں عبدالملک بن عميرمضطرب الحدیث جداً۔۔۔مااٴری لہ خمساًئة حدیث، وقد غلط فی کثيرمنہا” اور احمد بن خليل نےبهی اس کے ضعيف ہونے کے بارے ميں اشارہ کيا ہے۔اور ابو حاتم سے نقل کياہے:)عبدالملک)ليس بحافظ۔۔۔تغيرحفظہ قبل موتہ”عبدالملک کا حافظ درست نہيں ہے اور موتسے پہلے اس کا حا فظ کهو گيا تها۔اورترمذی ١کی سند ميں سالم بن علاء مرادی ہے کہ ابن معين اور نسائی نے اسےضعيف جانا ہے۔ ٢اس کے علاوہ ترمذی کی سند ميں سعيد بن یحيیٰ بن سعيد الاموی ہے کہابن حجر نے صالح بن محمد سے نقل کيا ہے:”إنّہ کان یغلط”یعنی:”وہ مسلسل غلطی کرتا‘ تها۔ ٣اس کے علاوہ اگر اس قسم کی احادیث ثابت ہوتيں توابو بکر اورعمر سقيفہ ميں انسے استدلال کرتے اورخلافت کے لئے اپنی صلاحيت ثابت کرتے جبکہ اس قسم کی کوئی چيزقطعی طورپر نقل نہيں ہوئی ہے اور یہ قطعی طورپرثابت ہے کہ مذکورہ حدیث صاد ر نہيں ہوئیہے اور جعلی ہے۔او لياء شرعی(باپ)بهی اولوالامر کے مصداق نہيں ہيں :باپ،دادا و غيرہ کہ جو ولایت شرعی رکهتے ہيں وہ بهی بہ طور مطلق “اولوالامر” نہيںہيں۔گزشتہ موارد ميں ذکر شدہ مطالب سے بهی یہ مسئلہ واضح ہو جاتاہے۔——–١۔سنن ترمذی ،ج ۵،ص ۵٧٠ ،ح ٣۶۶٣٢۔ميزان الاعتدال،ج ٢،ص ١١٢ ،دارالفکر٣۔تہذیب التہذیب ،ج ۴،ص ٨۶
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.