امامت آیہء ولایت کی روشنی ميں

416

( >إنّماوليکم اللّٰہ ورسولہ والّذین آمنواالّذین یقيمون الصلوٰةویؤ تون الزکوٰة وہم راکعون> ( مائدہ/ ۵۵”بس تمہاراولی الله ہے اوراس کا رسول اوروہ صاحبان ایمان ہيں،جونمازقائم کرتے ہيں اورحالترکوع ميںزکوٰةدیتے ہيں”۔اميرالمؤمنين حضرت علی عليہ السلام کی امامت اوربلافصل ولایت کے سلسلہ ميںشيعہ اماميہ کی ایک اوردليل آیہء شریفہ ولایت ہے۔آیہء شریفہ کے استدلال کی تکميل کےسلسلہ ميں پہلے چندمو ضوعات کا ثابت کرنا ضروری ہے:١۔آیہئ شریفہ ميں “إنما” حصر کے لئے ہے۔٢۔آیہ ئ شریفہ ميں لفظ “ولی” حص کے معنی اولی بالتصرف اورصاحب اختيارنيزسرپرست ہو نے کے ہے۔٣۔آیت ميں “راکعون”سے مراد نماز ميں رکوع ہے، نہ کہ خضوع وخشوع۔۴۔اس آیہء شریفہ کے شان نزول ميں، کہ جواميرالمؤمنين حضرت علی عليہ السلام کےبارے ميں ہے، ذکر ہواہے کہ حضرت(ع)نے رکوع کی حالت ميںزکوٰةدی ،)یعنی اپنے مالکوخداکی راہ ميں انفاق کياہو)ثابت ہو۔اس باب ميں ہم ان موضوعات کوثابت کرنے کی کوشش کریں گے اورآخر پر اس آیہءشریفہ سے مربوط چند سوالا ت کا جواب دیں گے۔
لفظ”إنما”کی حصر پر دلالتعلما ئے لغت اورادبيات نے اس بات کی تاکيد کيہے کہ لفظ”إنما”حصرپر دلالت کرتاہے۔یعنی عربی لغت ميں یہ لفظ حصر کے لئے وضع کيا گيا ہے۔ابن منظورنے کہاہے:اگر ” إنّ”پر”ما”کا اضافہ ہو جائے تو تعيين وتشخيص پر دلالتکرتاہے۔جيسے خداوند متعال کا قول ہے:إنّماالصدقات للفقراء والمساکين۔۔۔ ١ چونکہ اس کی دلالت اس پر ہے کہ حکم مذکور کو ثابت کرتا ہے اوراس کے غير کی نفی کرتا ہے۔ ٢جوہری نے بهی اسی طرح کی بات کہی ہے۔ ٣فيروزآبادی نے کہاہے:” اٴنّما”،” إنّما”کے مانند مفيد حصرہے۔اور یہ دونوں لفظ آیہء شریفہء:<قل إنّمایوحی إلیّ اٴنّماإلٰہکم إلٰہ واحد> ۴ميں جمع ہوئےہيں۔ ۵ابن ہشام نے بهی ایساہی کہا ہے۔ ۶اس لئے اس ميں کوئی شک وشبہ نہيں ہے کہ لغت کے اعتبار سے لفظ” إنّما”کوحصرکے__________لئے وضع کيا گياہے۔اگرکوئی قرینہ موجو ہوتواس قرینہ کی وجہ سے غيرحصرکے لئے استفادہکياجاسکتا ہے،ليکن اس صورت ميں” إنّما”کااستعمال مجازی ہوگا۔
“ولیّ”کے معنی کے بارے ميں تحقيق”ولّی”ولایت سے مشتق ہے۔اگرچہ یہ لفظ مختلف معانی ميں استعمال ہوا ہے ليکن اسکے موارد استعمال کی جستجو و تحقيق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اصلی معنی سرپرستی ،اولویت——–١۔توبہ/ ٢ ۶٠ ۔لسان العرب،ج ١،ص ٣ ٢۴۵ ۔صحاح اللغة،ج ۵،ص ٢٠٧٣۴۔انبياء/ ۵ ١٠٨ ۔القاموس المحيط،ج ۴،ص ١٩٨ ،دارالمعرفة،بيروت۔۶۔مغنی اللبيب ،ج ١،ص ٨٨ ،دارالکتب العلمية بيروتاورصاحب اختيار ہو نے کے ہے۔ابن منظورکا”لسان العرب”ميں کہنا ہے”الولیّ ولیّ اليتيم الّذی یلی اٴمرہ ویقوم بکفایتہ،وولیّالمرئةالّذی یلی عقدالنکاح عليہا۔وفی الحدیث:اٴیّماامرئة نکحت بغيرإذن موليہا فنکاحہاباطل۔وفیروایة:”وليّہا”اٴی متولّی اٴمرہا” ١یتيم کا ولی وہ ہے جو یتيم کے امور اور اس کی کفالت کا ذمہ دار ہے اوراس کے امورکینگران کرتا ہے۔عورت کا ولی وہ ہے کہ جس کے اوپر اس کے عقد ونکاح کی ذمہ داری ہو۔حدیث ميں آیا ہے:جوبهی عورت اپنے مولا)سرپرست)کی اجازت کے بغيرشادی کرےتواس کا نکاح باطل ہے۔ایک روایت ميں لفظ”وليهاکے بجائے لفظ”موليها”آیا ہے کہ جس کےمعنی سرپرست اورصاحب اختيار کے ہيں۔فيومی”المصباح المنير”ميں کہتا ہے:”الولیّ فعيل بہ معنی فاعل من وليہ إذقام بہ۔ومنہ<اللّٰہ ولیّ الّذین آمنوا>،والجمع اٴولياء،قال ابنفارس:وکلّ من ولی اٴمراٴحد فہووليّہ۔وقد یطلق الولیّ اٴیضاًعلی المعتق والعتيق،وابن العموالناصر۔۔۔والصدّیق۔۔۔ویکون الولیّ بمعنی مفعول فی حق المطيع،فيقال:المؤمن ولیّ اللّٰہ”۔ ٢”فعيل)کے وزن پر)ولی فاعل کے معنی ميں ہے۔ ٣) کہا جاتا ہے):وليہ یہ اس——–١۔لسان العرب ،ج ١۵ ،ص ١٠۴ ،دار احياء التراث العربی ،بيروت٢۔المصباح المنير،ج ٢،ص ٣۵٠ ،طبع مصطفی البابی الحلبی واولادہ بمصر٣۔”فعيل”صفت مشبہ ہے۔کبهی فاعل کے معنی ميں بهی استعمال ہوتاہے، جيسے “شریف”اورکبهی مفعول کے معنی ميں آتا ہے۔فيومی نے اپنے بيان ميں اس کی طرف اشار ہ کيا ہے کہآیہء شریفہ ميں “فعيل”فاعل کے معنی ميں استعمال ہوا ہے۔چنانچہ مؤمن کو کہا جاتا ہے”ولیخدا” یعنی جس کے امورکی تدبير خدا کے ہاته ميں ہے اور وہ ا سے اپنے الطاف سے نواز تاہے۔صورت ميں ہے جب کسی کے امو ر کے لئے عملاً قيام کرے اس کے کام کواپنے ذمہ لے لے۔آیہء شریفہ: <اللّٰہ ولیّ الذین آمنوا>ميں ولایت اسی کی ہے۔یعنی خداوند متعال مؤمنين کےامور کے حوالے سے صاحب اختيارا ور اولی بالتصرف ہے۔ابن فارس نے کہا ہے:جو بهی کسیکے امورکاذمہ دار ہوگا وہ اس کا “ولی”ہوگا۔اور بعض اوقات”ولی”)دوسرے معانی ميں جيسے)غلام کوآزاد کرنے والا،آزاد شدہ غلام ،چچازاد بهائی،یاوراوردوست کے معنی ميں بهی استعمالہوا ہے۔ان بزرگ ماہرین لغت کے بيان سے استفادہ کيا جاسکتا ہے کہ یاور اوردوست جيسےمفاہيم ولی کے حقيقی معنی نہيں ہيں بلکہ کبهی کبهی ان معنوں ميں استعمال ہو تا ہےاوراس قسم کا استعمال مجازی ہے۔”ولی”کے معنی ميں یہ جملہ معمولاًلغت ١کی کتابوں ميں بہ کثرت نظر آتا ہے وہ ناقابلاعتناء ہے “من ولی اٴمر اٴحدفہووليہ”یعنی:”جو کسی کے کام کی سر پرستی اپنے ذمہ لے لےوہ اس کا ولی ہے”ان معانی کے پيش نظر،ایسا لگتا ہے کہ لفظ”ولی”کا حقيقی اور معروف ومشہور معنیوہی صاحب اختياروسر پرست ہو ناہے۔ قرآن مجيد ميں اس لفظ کے استعمال پر جستجو وتحقيق بهی اسی مطلب کی تائيد کرتی ہے۔ہم لفظ”ولی”کے قرآن مجيد ميں استعما ل ہونے کے بعض موارد کا ذکر کرکے بعض——–١۔لسان العرب،ج ١۵ ،ص ۴١٠ ،المصباح المنير،ج ٢،ص ٣۵٠ طبع مصطفٰی البابی الحلبی بمصر،النہایةج ۵،ص ٢٢٨ المکتبة العلمية،بيروت،منتہی الارب ،ج ۴،ص ١٣٣٩ ،انتشارات کتابخانہ سنائی،مجمعالبحرین،ج ٢ص ۵۵۴ ،دفتر نشر فرهنگ اسلامی،الصحاح،ص ٢۵٢٩ ،دارالعلم للملابين، المفردات،ص ۵٣۵ ، دفتر نشر کتابمعجم مقا یيس اللغة،ج ۶،ص ١۴١ ۔دوسرے موارد کی طرف اشارہ کرتے ہيں: ١
چند بنيادی نکات کی یاد دہانییہاں پر چند نکات کی طرف اشارہ کرناضروری ہے:پہلانکتہ:عام طور پر لغت کی کتابوں ميں ایک لفظ کے لئے بہت سے موارداستعمال اورمختلف معانی ذکر کئے جاتے ہيں۔اس کا یہ مطلب نہيں ہے کہ یہ لفظ ہر معانی کے لئے الگالگ وضع کيا گيا ہے اوروہ لفظ مشترک ہے اوران معانی ميں سے ہرایک،اس کا حقيقی معنیہے لفظی اشتراک)یعنی ایک لفظ کے کئی معانی ہوں اور ہر معنی حقيقی ہو )اصول کے خلافہے۔اور علم لغت اورادبيات کے ماہرین نے جس کی وضاحت کی ہے وہ یہ ہے کہ اصل عدماشتراک ہے۔
١۔قرآن مجيد ميں لفظ”ولی”کے استعمال کے مواقع:الف۔< اٴللّٰہ ولی الذّین آمنوا یخرجہم من الظلمات إلی النور>)بقرہ/ ٢۵٧ )”الله صاحبان ایمان کاولی ہے وہ انہيں تاریکوں سے نکال کرروشنی ميں لے آ تاہے۔”ب۔< إنّ ولی اللّٰہ الذّی نزل الکتاب و ہو یتولّی الصالحين>)اعراف/ ١٩۶ )”بيشک ميرا مالک ومختاروہ خدا ہے جس نے کتاب نازل کی ہے اور وہ نيک بندوں کاولی ووارث ہے۔”ج۔ام إتّخذ وا من دونہ اٴوليائ فاللّٰہ ہوالولی وہو یحيی الموتی)شوریٰ/ ٩)”کياان لوگو ں نے اسکے علاوہ کو اپنا سر پرست بنایا ہے جب کہ وہی سب کاسرپرست ہے اور وہی مردوں کو زندہکرتا ہے۔”د۔<قل اٴغيراللّٰہ اٴتخذوا ولياًفاطرالسموات والارض وہو یطعم ولا یطعم۔۔۔>)انعام/ ١۴ )”آپ کہئے کہکيا ميں خد ا کے علاوہ کسی اورکواپنا ولی بنالوں جب کہ زمين وآسمان کاپيداکرنے والا وہیہے، وہی سب کوکهلاتاہے اس کوکوئی نہيں کهلاتاہے۔”ہ ۔<و انت ولينا فاغفر لنا وارحمنا وانت خيرالغافرین>)اعراف/ ١۵۵ )”توہمارا ولی ہے،ہميں معافکردے اورہم پررحم کر کہ توبڑابخشنے والاہے۔”و۔<فإن کان الذی عليہ الحق سفيہاًاو ضعيفاًاولا یستطيع ان یمل ہو فليملل وليہبالعدل>)بقرہ/ ٢٨٢ )”اب اگر حق اس کے خلاف ہو اوروہ نادان یاکمزورہو اور اس کو لکهنے کی صلاحيت نہ ہو تو اس کے ولی کو چاہئيے کہ عدل و انصاف کے ساته اسے لکهے۔ز۔<ومن قتل مظلوماً فقدجعلنا لوليہ سلطاناً>)اسراء/ ٣٣ )”جومظلوم قتل ہوتاہے ہم اس کے ولیکوبدلہ کااختياردیتے ہيں۔دوسر ی آیات: یوسف/ ١٠١ ، ہود/ ١١٣ ، شوریٰ/ ۴۶ ،فصلت/ ٣١ ، نحل/ ۶٣ ، بقرہ/ ١٠٧ و ١٢٠ توبہ/ ٧۴، و ١١۶ ، عنکبوت/ ٢٢ ،شوریٰ/ ٨و ٣١ ،نساء/ ۴۵٧۵،٨٩،١٢٣ و ١٧٣ ،احزاب/ ١٧ و ۶۵ ،فتح/ ٢٢ )مذکورہ ١۵ آیات ميںولی اورنصيرایک ساته استعمال ہوئے، ہيں نساء/ ١١٩ ، مریم/ ۵،سباء/ ۴١ ، نمل ۴٩ ،نساء/ ١٣٩ ،یونس/ ۶٢ ، اسراء/ ٩٧ ،الزمر/ ٣، شوریٰ/ ۶ممتحنہ/ ١،آل عمران/ ١٧۵ ،انفال/ ۴٠ ،محمد/ ١١ بقرہ/ ٢٨۶ ،توبہ/ ۵١ ،حج/ ٧٨ ۔کتاب”مغنی اللبيب”کے مصنف،جمال الدین ابن ہشام مصری،جواہل سنت ميں علم نحوکے بڑے عالم مانے جاتے ہيں جب آیہء شریفہ<إنّ اللّہ وملائکتہ یصلّون علیالنّبی ١>ميں قرائت رفع)ملائکتُہ)کی بنياد پر بعض علمائے نحو جو” إنّ”کی خبر)یصلّی ہے)کومحذوف اورمقدر جانتے ہيں،نقل کرتے ہوئے کہتے ہيں:”واماّقول الجماعةفبعيدمن جہات:إحداہااقتضاؤہ للإشترا والاٴصل عدمہ لما فيہ من الإلباس حتیّ” إنّ قوماًنفوہ۔ثمّ المثبتون لہ یقولون:متی عارضہ غيرہ ممّایخالف الاٴصل کالمجاز قدّم عليہ ٢”ان کی بات کئی جہتوں سے حقيقت سے بعيد ہے۔اول اس لحاظ سے کہ ان کے بيان کا لازمہیہ ہے کہ صلاة کو مشترک لفظی تسليم کریں جبکہ اشتراک خلاف اصل ہے یہاں تک کہ بعضنے اسے بنيادی طو ر پر مسترد کيا ہے اور جنہوں نے اسے ثابت جا نا ہے انهوں نے اسے مجازاور اشتراک کی صورت ميں مجاز کو اشتراک پر مقدم جانا ہے۔”فيروزآبادی،صاحب قاموس نے بهی صلوٰت کے بارے ميں ایک کتاب لکهی ہے کہ جسميں آیہء شریفہ<إنّ اللّہ وملا ئکتہ یصلّون علی النبیّ۔۔۔>کے بارے ميں تحقيق کی ہے اورمذکورہبيان کو ابن ہشام سے نقل کيا ہے۔ ٣اس بناء پر،ولایت کے مفہوم ميں)جو کئی معانی ذکر ہوئے ہيں)سے جو معنی قدرمتيقّن اوریقينی ہيں وہ سرپرستی اورصاحب اختيار ہو نے کے ہيں،اور دوسرے معانیجيسے،دوستی اوریاری اس کے حقيقی معنی کے حدود سے خارج ہيں اور ان کے بارے ميںاشتراک لفظی کا سوال ہی پيدا——–١۔احزاب/ ۵۶٢۔مغنی اللبيب،ج ٢،باب پنجم،ص ٣۶۵٣۔الصلوةوالبشرفی الصلوة علی خيرالبشر،ص ٣٣ ،دار الکتب العلمية،بيروتنہيں ہوتا۔لہذا اگر مادئہ “ولی”قرینہ کے بغير استعمال ہو تو وہ سرپرستی اورصاحب اختيار ہو نےکے معنی ميں ہوگا۔دوسر ا نکتہ بعض اہل لغت نے مادہ “و لی”کو ایک اصل پر مبنی جانا ہے اورمفہوم کااصلی ریشہ)جڑ) کو “قرب” قراردیا ہے۔اور بعض مفسرین نے کلمہ”ولی”کو اسی بنياد پرذکر کياہے، اس سلسلہ ميں چندمطالب کی طرف توجہ کر نا ضروری ہے:سب سے پہلے اس بات کو ملحوظ رکهناچاہئے کہ لغوی معنی کے اس طرح کی تحليلاوراس کاتجزیہ ایک حدس وگمان اور خوامخواہ کے اجتہاد کے سواء کچه نہيں ہے اوراس پرکوئیدليل نہيں ہے۔دوسرے یہ کہ وہ چيز جومعنی کے سمجهنے اوراس لفظ سے تبادر کے لئے معيار ہے وہاس کے استعمال کازمانہ ہے۔بيشک بہت سے مواقع پر”ولی”کے معنی سے قرب کامفہوم ذہنميں پيدا نہيں ہوتاہے۔بعض مواقع پرکہ جہاں قرینہ موجودہوجيسے”المطرالولی”)وہ بارش جوپہلیبارش کے بعدیااس کے بہت قریب واقع ہو ئی ہو )ميں اس قسم کے استعمال کوقبول کياجاسکتا ہے۔اس بناپراگرفرض بهی کر لياجائے کہ”قرب”اس معنی کی اصلی بنيادتهی اورآغاز ميںلفظ”ولی”کامفہوم”قرب”کے معنی ميں استعمال ہوتا تها،ليکن موجودہ استعمال ميںوہ معنیمتروک ہو چکاہے اوراب اس کااستعمال نہيں ہے۔تيسرا بعض اہل لغت جيسے ابن اثيرنے”النہایة ١” ميں اورابن منظورنے”لسانالعرب ٢”ميں”ولی” کے معنی بيان کرتے ہوئے کہا ہے کہ “ولی” خداکے——–١۔النہا یة،ج ۵،ص ٢٢٨٢۔لسان العرب ،ج ١۵ ،ص ١٠۶ناموں ميں سے ایک نام ہے اوریہ ناصرکے معنی ميں ہے اورکہاگياہے کہ اس کے معنیامورجہان کے متولی و منتظم کے ہيں۔اس بيان سے استفادہ ہوتاہے کہ”ولی”جوخداکے ناموں ميں سے ایک نام ہے،ان کےنزدیک ناصرکے معنی ميں ہے،جبکہ مطلب صحيح نہيں ہے کيو نکہ اگر “ولی”کے معنی ناصرکےہوں گے)چونکہ”ولی”کاایک مادہ اورایک ہيئت ہے،اوراس کامادہ”ولی””ول ی”وہيئت فعيلہے)تواس کاتقاضایہ ہے کہ مادہ”ولی”نصرکے معنی ميں اوراس کی ہيئت)ہيئت فعيل) فاعل کےمعنی ميں ہے۔ایک بات یہ کہ یہ دونوں نظریہ، بغيردليل کے ہيں اوردوسرے یہ کہ:فعيل صفت مشبہ ہےجس کی دلا لت ثبوت پرہے جبکہ فاعل حدوث پردلالت کرتاہے اوریہ دونوں مفہوم کے اعتبار سےایک دوسرے کے متغائيرہ ہيں۔اس لئے”ولی”اسم الہی، اسی صاحب اختياراورکائنات کے امورميں متولی کے معنیميں ہے کہ جس کو دونوں اهل لغت نے اپنے مختارنظریہ کے بعد”قيل”کے عنوان سے بيانکياہے۔چوتهانکتہ:قرآن مجيدکی بہت سی آیتوں ميں”ولی”،”نصير” کے مقابلہ ميں آیاہے،جيسے<ومالکم من دون اللّٰہ من ولیّ ولانصيرا ١>تمہارے لئے اس کے علاوہ نہ کوئیسرپرست ہے اورنہ مددگار”اگر”نصير”،”ولی”کے معنی ميں ہوتاتواس کے مقابلہ ميں قرارنہيں دیا جا تااوران دونوںلفظوں کاایک دوسرے سے مقابلہ ميںواقع ہو نااس بات کی دليل ہے کہ مفہوم کے لحاظ سےیہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہيں۔——–١۔بقرہ/ ١٠٧پانچواں نکتہ:بعض افرادنے قرآن مجيد کی بہت سی آیات کے بارے ميںيہ تصورکيا ہے کہولی اورولایت نصرت اورمددکے معنی ميں استعما ل ہوا ہے،جيسے:<مالکم من ولایتہم منشیء ١>جب کہ ولایت سے مراد”نصرت کی ولایت”ہوسکتاہے نہ یہ کہ ولایت”نصرت”کے معنیميں ہے،کيونکہ نصرت ومددولایت و سر پرستی کی علا متوں ميں سے ایکعلا مت ہے اس لحاظ سے ولایت کامعنی سرپرستی کے علاوہ کچه نہيں ہے اوراس سے نصرتویاریميں سرپرستی مرادہے۔”ولی”کے معنی کے سلسلہ ميں جوکچه بيان کياگيا،اس کے پيش نظر،آیہء کریمہ ميںصرف سرپرست اورصاحب اختيارہی والا معنی مراد ہے۔اس کے علاوہ آیہء شریفہ ميں قطعی ایسے قرینہ موجودہيں کہ جس سے مراد”دوست”اور”یاور”نہيں ہوسکتے ہيں۔اس کی مزیدوضاحت سوالات کے جواب ميں ائے گی۔رکوع کے معنیلغت ميں”رکوع”کے معنی جهکنااورخم ہوناہے۔اسی لئے نمازميں جهکنے کو”رکوع”کہتےہيں۔ ٢زبيدی”تاج العروس ٣”ميں کہتاہے:”اگررکوع کوتنگدستی اورمفلسی کے لئے استعمال کياجائے اور ایسے شخص کوجواميری کےبعدفقيری اورتنگدستی ميں مبتلا ہو جا ئے اورزوال سے دوچارہو تواسے”رکع——–١۔انفال/ ٧٢، ٢۔الصاح جوہری،ج ٣،ص ١٢٢٢ ،دارالعلم للملابين،القاموس المحيط،فيروزآبادی،ج ٣، ص ٣١دارالمعرفہ، بيروت،المنير،فيومی،ص ٢۵۴ ،ط مصر،جمهرة اللغة،ابن درید،ج ٢، ص ١٧٧٠ کتاب العين،خليل بن احمد فراہيدی،ج ١،ص ٢٠٠٣۔تاج العروس،ج ٢١ ،ص ١٢٢ ،دارالہدایة للطباعة والنشر والتوزیع۔الرجل”کہتے ہيں اوریہ استعمال مجازی ہے۔”اس لئے رکوع کاحقيقی معنی وہی جهکنااورخم ہوناہے اوراگراسے دوسرے کسیمعنی،جيسے زوال اورخضوع ميں استعمال کياجائے تویہ اس کے مجازی معنی ہيں اوراس کےلئے قرینہ کی ضرورت ہے۔
آیہء ولایت کی شان نزولشيعہ اوراہل سنّت تفسيروں کے منابع ميں موجودبہت سی احادیث کے مطابق یہ آیہئشریفہ حضرت علی بن ابيطالب عليہ السلام کے بارے ميں ناز ل ہو ئی ہے اور<الذینآمنوا۔۔۔>سے مرادوہی حضرت(ع)ہيں۔ہم اس سلسلہ ميں ایک حدیث کو درج کرتے ہيں،جس کوثعلبی ١ نے اپنی تفسير ٢ميںسنی محدثين اور مفسرین سے نقل کيا ہے اورشيعوں کے بڑے مفسرشيخ طبرسی نے بهیاس کو”مجمع البيان ٣”ميں درج کياہے:”۔۔۔عن عبایة بن الربعی قال:بيناعبداللّٰہ بن عباس جالس علی شفيرزمزم إذااٴقبل رجل متعمّمبالعمامة؛فجعل ابن عباس لایقول:”قال رسول اللّٰہ (ص)إلاّقال الرجل:قال رسول اللّٰہ (ص)”!!فقالابن عباس:ساٴلتک باللّٰہ،من اٴنت؟قال:فکشف العمامةعن وجہہ وقال:یا اٴیّہاالناس،من عرفنیفقد عرفنی ومن لم یعرفنی فاٴنا”جندب من جنادةالبدری،اٴبوذرالغفاری،سمعت رسول اللّٰہ——–١۔ثعلبی کے بارے ميں ذہبی کا قول دوسرے اعتراض کے جواب ميں بيان کياجائے گا۔٢”الکشف والبيان”ج ۴،ص ٨١ ۔ ٨٠ ،داراحيائ التراث العربی٣۔مجمع البيان،ج ٣،ص ٣٢۴(ص)بہا تين وإلاّصمّتا،وراٴیتہ بہا تين وإلاّفعميتا،یقول:علیّ قائد البررة،وقاتل الکفرة،منصورمننصرہ،مخذول منخذ لہ۔اٴماّ إنّی صلّيت مع رسول اللّٰہ (ص) یوماًمن الاٴیاّم صلاةالظّہر،فدخل سائلفی المسجدفلم یعطہ اٴحد،فرفع السائل یدہ إلی السّماء وقال:اللّہمّ اٴشہد إنّی ساٴلت فیمسجدرسول اللّٰہ فلم یعطنی احد شيئاً – وکان علیّ راکعاً – فاٴومی إليہ بخنصرہ اليمنی – وکانیتختّم فيہا – فاٴقبل السائل حتيّاٴخذالخاتم من خنصرہ!وذلک بعين النبيّی۔فلماّ فرغ النّبيّی (ص)من الصلاةرفع یدہ إلی السّماء وقال:اللّہمّ إنّ اٴخی موسی ساٴلکفقال:<ربّ اشرح لی صدری ویسّرلی امری،واٴجعل لی وزیراً من اٴہلی ہارون اٴخی اشدد بہاٴزری>۔فاٴنزلتَ عليہ قرآناًناطقاً۔<سنشدّعضدک باٴخيک ونجعل لکما سلطا ناً>۔اللّہمّ واٴنامحمّدنبيّک وصفيک۔اللّہمّ فاشرح لی صدری ویسّرلی اٴمری،واٴجعل لی وزیراًمن اٴہلیعليّاً اشددبہ ظہری۔قال اٴبوذر:فواللّٰہ مااستتمّ رسول اللّٰہ الکلمة حتّی اُنزل عليہ جبرئيل من عنداللّٰہ،فقالیامحمّد!إقراٴ،فقال:ومااٴقراٴ؟قال:إقراٴ:، “إنّما وليّکم اللّٰہ ورسولہ إلی راکعون”الآیة۔”عبایہ بن ربيع سے روایت ہے کہ اس نے کہا:اس وقت جب عبدالله بن عباس)مسجد الحرامميں)زمزم کے کنارے بيڻهے تهے ) اور پيغمبر اکرم (ص) سے حدیث روایت کررہے تهے)اچانکایک عمامہ پوش شخص آپہونچا)اوررسول خدا (ص)سے اس طرح حدیثيں نقل کرنا شروعکيں)کہ جب عبدالله ابن عباس کہتے تهے:”قال رسول الله، (ص)”وہ شخص بهی کہتاتها:”قالرسول الله (ص)۔”ابن عباس نے کہ:تمهيں خدا کی قسم ہے یہ بتاؤکہ تم کون ہو؟اس شخصنے اپنے چہرے سے نقاب ہڻائی اورکہا:اے لوگو!جومجهے پہچانتاہے،وہ پہچانتاہے،اورجومجهےنہيں پہچانتاميں اسے اپنے بارے ميں بتادیناچاہتاہوں کہ ميں جندب،جنادئہ بدریکابيڻا،ابوذرغفاری ہوں۔ميں نے رسول خدا (ص) سے اپنے ان دونوں)کانوں کی طرف اشارہ کرتےہوئے)کا نوں سے سنا اگریہ با ت صحيح نہ ہو تو)ميرے کان)بہرے ہو جائيں اوران دونوں انکهوںکی طرف اشارہ کرتے ہوئے) آنکهوں سے دیکها اگر یہ با ت درست نہ ہو تو ميری آنکهيں اندهیہوجائيں)ميں نے سنا اور دیکها) فرما رہے تهے: علی (عليہ السلام) نيکوں کے پيشوااور کافروںکے قاتل ہيں۔جوان کی مددکرے گااس کی خدا نصرت کرے گا،اورجوانهيں چهوڑدے گاخدااسےبهی چهوڑدے گا۔ایک دن ميںرسول خدا (ص)کے ساته ظہرکی نمازپڑه رہاتهاکہ ایک سائل نے اہل مسجد سےسوال کيا،کسی نے اس کی حاجت پوری نہيں کی۔سائل نے اپنے ہاتهآسمان کی طرف بلندکئے اورکہا:خداوندا! تو گواہ رہناکہ ميں نے مسجدالنبيميں سوال کيااورکسی نے ميری حاجت پوری نہيںکی۔علی(عليہ السلام)رکوع کی حالت ميں تهے،اپنی چهوڻی)انگلی جس ميں انگوڻهیتهی)سے اس کی طرف اشارہ کيا۔سائل نے سامنے سے آکرانگوڻهی آپ(ع)کے ہاته سے نکاللی۔رسول خدا (ص)اس واقع کے شاہد اور گواہ ہيں جب پيغمبراسلام (ص)نمازسے فارغ ہوئےآسمان کی طرف رخ کرکے عرض کی:خداوندا!ميرے بهائی موسیٰ(عليہ السلام) نے تجه سےسوال کيا اور کہا”پروردگارا!ميرے سينے کوکشادہ کردے،ميرے کام کو آسان کر دے اور ميری زبانکی گرہوں کوکهول دے،تا کہ یہ لوگ ميری بات سمجه سکيں اور ميرے اہل ميں سے ميرےبهائی ہارون کوميراوزیرقراردیدے،اس سے ميری پشت کومضبوط کردے،اسے ميرے کام ميںشریک بنادے۔”)اس کی درخواست کو بر لا)اور تو نے اس داستان کے بارے ميں قرآنمجيدميںيوں فرمایا:”ہم تمهارے بازؤں کوتمهارے بهائی)ہارون)سے مضبوط کردیں گے اورتمهيںان پرمسلط کردیں گے۔”خداوندا!ميں تيرا بر گزیدہ پيغمبرہوں،خداوندا!ميرے سينے کوکشادہ کردے،ميرے کام کوآسانکر،ميرے اہل ميں سے ميرے بهائی علی(ع)کومير اوزیرقراردے اوراس سے ميری پشتکومضبوط کر۔)ابوذرکہتے ہيں:)خدا کی قسم رسول خدا (ص)نے ابهی اپنی بات تمام بهی نہيںکی تهی کہ جبرئيل امين خداکی طرف سے نازل ہوئے اورکہا:اے محمد!پڑهئے!) آنحضرت نے)کہا:کيا پڑهوں؟ )جبرئيل نے کہا)پڑهئيے:< إنّماوليکم اللّٰہ ورسولہ۔۔۔”<شيخ طبرسی نے اس حدیث کے خاتمہ پرکہاہے:اس روایت کوابواسحاق ثعلبی نے اپنیتفسير ميں اسی سند سے)کہ جيسے ميں نے ذکرکی ہے)نقل کياہے۔اس شان نزول کو بيانکر نے والی بہت ساری حدیثيں ہيں ان ميں سے بعض کوہم دوسری مناسبتوں کے سلسلہميں بيان کریں گے اوران ميں سے بعض دوسری احادیث کے حوالہ ابن تيمہ کے جواب کے ذیلميں عرض کریں گے۔ان احادیث کے پيش نظرواضح ہو گيا کہ یہ شان نزول قطعی ہے اوراس ميںکسی قسم کے شک وشبہ کی گنجا ئش نہيں ہے۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.