جنسی مشکلات میں ایک بڑی غلط فہمی
” میں چاہتا ہوں کہ خون کے آنسوں روؤں چونکہ انکھوں میں اشک خشک ہو گئے؟میں چاہتا ہوں کہ فریاد کروں لیکن سینے سے آہ نہیں نکلتی !
چاہتا ہوں کہ غور و فکر کروں، مگر کس چیز کے بارے میں ؟ کون سی بدبختی کے بارے میں؟کس بیہودگی کے بارے میں؟کیا سوچنے سمجھنے والا دماغ ان سختیوں کے مقابلے میں اپنی جگہ باقی رہ سکتا ہے ۔لاچارو اکیلا، سرگرداں، پریشان، اپنے حال ومستقبل سے ڈرا ہواہوں،ہر آدمی اور ہر چیز سے نفرت کرنے والا، اور اس بدنام اور نجس ماحول سے آلودہ !!اکیس سالہ جوان ہوں ،حساس ترین دس سال صرف اکیلے گذار چکا ہوں، زندگی کی سختیاں اور معاشرے کا بد نما چہرا مجھے ہمیشہ تکلیف پہنچاتا ہے…مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا،چند سال قبل جب میں ایک کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا اچانک بغیر کسی ارادے کے ایک خراب جنسی عادت سے آشنا ہوگیا ، وہ وقت تو گذر گیا مگر کسی نے مجھے نہیں بتایا کہ جوانی کا وقت کس قدر حساس اور خطر ناک ہوتا ہے؟ برہنہ عورتوں اور لڑکیوں کی تصویریںجو شہوت اور ہوس کی آگ میں جل رہی ہوتی تھیں میرے اند ر کے ہیجان سے دامن گیر ہوتی تھیں ۔جی ہاں میں اس کا عادی ہوچکا ہوں، جسمانی اور روحانی طور پر بیمار ہوگیاہوں ، اور جنون کی منزلوں میں قدم رکھ چکا ہوں ، اس قدر پریشان ہوں جسکا تصور بھی نہیں تھا ۔ٓآپ سے معذرت خواہ ہوں کہ خط کو طول دے رہا ہوں،یہ فریاد و نالے جو آپ کے کانوں تک پہنچ رہے ہیں تنہا میرے نہیں ہیں بلکہ مجھ جیسے بہت سے جوان ہیں جو اس منزل سے گذر رہے ہیں، اور میری طرح بے یار و مددگار ہیں ۔یہ بات بھی ذکر کر دوں کہ جوانی کے سولہویں اور سترہویں سال کے درمیان میں دو بار خود کشی کرنے کی کوشش کر چکا ہوں،لیکن مجھ بے سہارا کو مرنے بھی نہیں دیا جاتا ،! اس وقت میں بہت زیادہ ناتواں ہو چکا ہوں، بہت معذرت کے ساتھ یہ بیان کررہاہوں کہ کچھ دنوں سے غیر ارادی طور پر مجھ سے کچھ قطرات…. نکلتے ہیں …–؟ اس وقت میں ہلاکت کے طوفان میں ادھر ادھر سرگرداں ہوں شایداس کا ایک پہلو مجھے نابودی کی طرف لے جارہا ہے ! ….۔میری آپ سے گذارش ہے کہ مجھے اس سے نجات دیدیجئے، امیدہے کہ جلداز جلد جواب مرحمت فرمائیں گے،اگر چاہیں تو پوسٹ کے ذریعہ یا اپنے مجلہ “نسل جوان” میں اس کا جواب دے سکتے ہیں ،ہم آپ جیسے پاکدل راہنمااور اس مجلہ میں کام کرنے والوں کی ترقی کے لئے دعا کرتے ہیں جو میری اور مجھ جیسے دوسرے آلودہ افراد کی حفاظت کیلئے اس مجلہ کو نشر کررہے ہیں ۔
س ۔ ب ۔ مشہد
اہم مسئلہ یہاں ہےرنج و غم سے بھرا ہوا ایک دوسرا خط جوایک جوان کی پریشانی اور معاشرے کے غمگین پہلو سے متعلق تھاآپ کے سامنے ذکر کیا جس میں لکھنے والے کے نام کی صرحت سے گریز کیا گیا ۔اب ہم “استمناء” یا (Masturdation)کے خطرناک اور ناہنجار عادت کے بارے میں گفتگواور اس سے مقابلہ کرنے کے طریقہ کو بتاتے ہیں، ممکن ہے ہم اس خطرناک سیلاب کو کسی حد تک روکنے میں کامیاب ہو جائیں ۔اس حساس مسئلے میں ایک غلط فہمی یہ ہے کہ بعض ڈاکٹران متخصص افراد کے مقابلے میں جنہوں نے اپنی زندگی کے کافی سال اس کے مطالعہ میں صرف کر ڈالے ہیں اور اس گندی عادت کے بارے میں اپنی کتابوں میں کافی کچھ تحریر کیا (جسکی مثالیں گذشتہ بحثوں میں قاری عزیز ملاحظہ فرماچکے ہیں) اس طرح اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ :” ہمیں میڈیکل میں اس عمل کا کوئی نقصان نہیں ملا،لیکن اس کے غلط اور مہلک آثار سے اگر ڈرایا جائے تو ممکن ہے اس میں کچھ نامطلوب آثار پیدا ہو جائیں!”کبھی کہتے ہیں : اس عمل میں اور جنسی معاشرت میں کوئی خاص فرق نہیں ہے ۔بغیر مطالعہ کے سبب وجود میں آنے والے نظریات ہی ہیں جنکی وجہ سے بہت سے جوان اس نجس عادت کا شکار ہو گئے ہیں ۔اس نظریہ کا جواب دوسرے با خبر ڈاکٹر اس طرح دیتے ہیں:یہ افراد اس مسئلہ کے بنیادی نکتہ سے بے خبر ہوتے ہیں: بے شمار مشاہدات کی گواہی اور اس بیماری میں مبتلا افراد کے اعترافات کی بناء پر یہ عمل انسان کی عادت میں داخل ہوجاتاہے ، جس کا انجام ہلاکت ہوتا ہے ، جس سے آسانی سے دامن نہیں بچایا جا سکتا ۔ممکن ہے کوئی نشہ آور مادہ ایک بار استعمال کرنے سے نقصان نہ پہنچائے لیکن اس کی عادت ہونے کا خطرہ ساتھ ساتھ ہوتا ہے، ایسی عادت کہ جو انسان کی ہر چیز کو فنا کے گھاٹ اتار دیتی ہے ۔جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اس موضوع کے ماہرین افراد کی تحریروں کے مطابق یہ منحوس عمل انسان کو اس کا عادی بنا دیتا ہے، جس سے جوانوں کوپرہیز کرنا چاہیے ۔ (توجہ کریں)دوسرنکتہ : اس موضوع میں اس بات کا اضافہ کرنا مناسب ہوگا کہ اس عمل میں آلودہ ہونے کے لئے وسائل کی فراہمی بہت آسان ہے ، در حقیقت وسائل کی ضرورت ہی نہیں ہے ،ہر حال میں اس کو انجام دیا جا سکتا ہے، اور اس کی کوئی حد بھی معین نہیں ہے ۔المیہ یہ ہے کہ یہ بیماری ۱۶ سے ۲۰سال (جنسی تحریک کے طوفان کا زمانہ) تک کے جوانوں کو بہت جلد اپنی زد میں لے لیتی ہے،اور ایک عادت کی صورت اختیار کر لیتی ہے، حالانکہ جنسی مباشرت اس کی طرح سادہ نہیں ہوتی ہے، چونکہ شوہر اور بیوی خاص امکانات کے بغیر اس کو انجام نہیں دے سکتے ۔جو افراد اس بیماری کے نقصانات کو کم شمار کرتے ہیں وہ یقینا ” اس بیماری کے عادی ہونے ” ااور اس مسئلے کے دوسرے حالات و جوانب سے آشنا نہیں ہیں ۔ورنہ اس قدر حساس حقیقت کا انکار کیونکر ممکن ہے،جبکہ اس بیماری میں مبتلا جوان ہلاکت ،جنون ، کلی طور پر مفلوج اور ناتوانی ، کی حد تک پہنچ چکے ہیں اور اپنی ہر چیز اس کی وجہ سے گنواں دی ہے ۔کیا ان حساس مشاہدات کاانکار کیا جا سکتا ہے ؟!حالانکہ اکثر مریضوں کاکہنا ہے کہ ہم اس عادت کے نقصانات، اور ضررسے ہر گز آشنا نہ تھے ، اس لئے ان کونصیحت کرنے کا مسئلہ بھی منتفی ہے ۔
اس بیماری سے بچنے کے دستورات اور طریقے ۔ان حقائق کی وضاحت کے بعد، اب ہم تمام جوانوں کی توجہات کو مندرجہ ذیل نکات کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیںکہ کس طرح اس عادت میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہا جائے ۔اور اگر خدا نخواستہ اس میں مبتلا ہو گئے ہیں تو کس ا طرح سے اس کا علاج کیا جائے ۔
پہلا قدم:اس بیماری میں مبتلا افراد پہلے مرحلہ میں اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ یہ بیماری اپنے تمام مہلک آثار کے باوجود علاج کے قابل ہے، ڈاکٹروں اور اس میں مبتلا افراد کے بقول ،اگر صحیح طریقے سے عمل کیا جائے تو تمام غلط عادتوں کی طرح اس کو بھی یقینی طور پر چھوڑا جا سکتا ہے ۔اس بات کی طرف توجہ رہے کہ اس کی وجہ سے جو برے آثار پیدا ہوجاتے ہیں وہ بہت جلد ختم ہوجاتے ہیں کیونکہ جوانوں کی طاقت اور نشاط ، گذشتہ پریشانیوں کو ختم کردیتی ہے ( میں یہ نہیں کہہ رہاہوں کہ سب کو ختم کردیتی ہیں لیکن اکثر مشکلات کو ختم کردیتی ہے) اور جس طرح سے بچوں اور جوانوں کے جسم کے زخم بہت جلد ختم ہوجاتے ہیں اسی طرح اس برے عمل کے اثرات بھی بیدار ہونے کے بعد ختم ہوجائیں گے ۔اس بیماری میں مبتلا جوان اگر اپنی کامیابی کے بارے میں مایوسی یا تردید کا شکار ہیں تویقینا وہ ایک بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں چونکہ مایوسی اور تردید ان کی کامیابی کی راہ میں ایک عظیم سد راہ ہے ۔اس بنا پر سب سے پہلا اور ضروری مسئلہ یہ ہے کہ جوان اس بات پر یقین اور بھروسہ رکھیں کہ اس بری عادت کا ترک کرنا ممکن ہے اور اس کے تمام خطرناک نتائج سے رہائی پانا محال نہیں ہے ۔اب جبکہ آپ نے پہلا قدم اٹھا لیا ہے اور کامل ایمان اور امید کے ساتھ اس کاعلاج کرنے کی طرف بڑھ گئے ہیں تو پھر پہلے علاج اور قانون پرعمل کرنے کے لئے تیار ہوجائیں ۔اس قدر مہم جس کا تصور نا ممکن ہے۲۔ تمام ڈاکٹر اس بات کے قائل ہیں کہ ہر عادت کے ترک کرنے سے پہلے محکم ارادہ در کارہوتا ہے ،یعنی بہت ہی مضبوط ،یقینی اور محکم ارادہ ۔ممکن ہے آپ اس موضوع کو سادہ اور معمولی موضوع شمار کریں ، حالانکہ ہماری نظر میں یہ اس درجہ مہم اور موثر ہے جسکا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔اس عمل کے ترک کرنے کا محکم ارادہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ سب سے پہلے اس عمل کے تمام نقصانات اور خطر ناک نتائج اور ضرر جنہیں ہم نے گذشتہ بحث میں ذکر کیا ہے،کئی بار دہرائیں،اور اس عمل کے تمام خطیرنتائج جو مبتلااورعادی افراد کے منتظر ہیں ان کو اپنی نظر میں مجسم بنا ئیں ، اورغیر معمولی انسانی قدرت “جو ہر انسان میں پوشیدہ ہے” کو مد نظر رکھتے ہوئے صمیمانہ اور مستحکم ارادہ کریں ۔ہم جانتے ہیں کہ اس بیماری میں مبتلا بعض جوان اعتراض کریں گے کہ ” ہم میں محکم ارادے کی توانائی نہیں ہے ارادے کی قدرت ہم سے سلب ہو چکی ہے، اورہم نے اس کو ترک کرنے کے لئے بارہا ارادہ کیا مگر پھر بھی ارادے چکنا چور ہو گئے ” !ہم آپ کے اعتراض کو اچھی طرح سمجھتے ہیں لیکن آپ ہمارے جواب کو دقت کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں ۔ہم اعتراض کرنے والوں سے سوال کرتے ہیں :” کیا تم نے کبھی اپنے والدین ، بھائی بہن یا کسی دوسرے محترم شخص کے رو برو اس عمل کو انجام دینے کی جرئت کی ہے ؟؟۔۔حتما تمہارا جواب منفی ہوگا ۔میں آپ سے سوال کرتا ہوں کیوں ؟آپ کہیں گے :چونکہ یہ عمل شرمناک ہے!گویا آپ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ آپ نے یہ صمیمانہ ارادہ کر لیا ہے کہ اس شرمناک عمل کو ان کے سامنے انجام نہیں دیں گے !۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح آپ خود کو اس عمل کے مقابلے میں بے ارادہ اور بے اختیار سمجھتے ہیں ویسے نہیں ہیں، اگر آپ بے اختیار اورفاقد الارادہ ہوتے تو ان کے سامنے اس عمل کو انجام دینے میں کوئی شرم محسوس نہ کرتے !۔جوانوں کو چاہیے کہ اپنے اس عظیم ارادہ اور اختیار کو جس طرح اس مقام پر استعمال کرتے ہیں ہر موقع پر استعمال کریں ۔ یہ سرمایہ تمہارے وجود میں پایا جاتاہے اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے ؟۔اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ خدا ہر جگہ موجود ہے اور تمہارے تمام کامو ں پر اس کی نظر رہتی ہے ، تم ہر جگہ اس کے حضور میں ہو ، کیا یہ مناسب ہے کہ ایسے پروردگار کے سامنے اس زشت عمل کو انجام دیاجائے ؟!دلچسپ بات یہ کہ اسلام کے عظیم راہنما امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں ایک شخص عرض کرتاہے: فلاں شخص بیچارہ ایک جنسی کجروی کا شکار ہوگیا ہے(اس عادت کے علاوہ کسی دوسری کجروی ) اور اس میں اس کا اپنا کوئی ارادہ نہیں ہے !آپ نے غصہ کے عالم میں فرمایا: کیسی بات کرتے ہو ؟ کیا وہ شخص اس عمل کو لوگوں کے سامنے انجام دے سکتا ہے ؟!اس نے عرض کیا : نہیں ۔آپ نے فرمایا: اس کا مطلب ہے کہ سب کچھ اس کے اپنے ارادے اور اختیار سے ہے ۔جیسا کہ بعض افراد کا کہنا ہے : “ہم نے بارہا صمیمانہ ارادہ کیا مگر وہ ٹوٹ جاتا ہے” ہم ان لوگوں سے صاف طور پر کہتے ہیں ارادہ کے ٹوٹنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ارادے کے تمام اثرات ، انسان کے وجودسے ختم ہو چکے ہیں ،بلکہ یہی ٹوٹا ہو ارادہ انسان کے دل اور روح کی گہرائیوں میں ایک ایسا اثر چھوڑتا ہے جو آخری پختہ ارادے کو گزشتہ ارادے سے محکم بنا تا ہے ( غور کریں ) ۔آپ کے لئے ایک مثال پیش کرتا ہوں:بسا اوقات انسان کوشش کرتا ہے کہ اپنے پیروں کے سہارے ایک پہاڑ پر چڑھ جائے یا گاڑی کے ذریعے کسی اونچائی سے گذر جائے ممکن ہے پہلی یا دوسری مرتبہ میں کبھی کبھی دسویں مرتبہ میںبھی کامیاب نہیں ہو پاتا ، لیکن اخری بار میں وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور اس سے گذر جاتاہے ، اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ پہلی بار میں اس نے کچھ نہیں کیا بلکہ ہر دفعہ اس کے عبور کرنے میں اس نے دشوار قدم اٹھائے اور پیچھے رہ گیا لیکن اس نے جانے ان جانے میں ایک حد تک آمادگی کو سیکھا اور اس کو محفوظ کیا ،جس کے نتیجہ میں وہ باالآخر کامیاب ہو گیا ۔دانشمند حضرات کا کہنا ہے کہ ایک شعر یا نثر کے کچھ حصے کے حفظ کرنے میںممکن ہے پہلی بار اس کو ۵ مرتبہ دہرانا ضروری ہو ، اور ممکن ہے کچھ وقفہ کے بعد اس کوبھول جائے ،لیکن اب دوبارہ یاد کرنے کے لئے ۵ بار دہرانا ضروری نہیں ہے ،ممکن ہے ۳ مرتبہ دہرانا کافی ہو ۔یعنی یاد کرنے کے گذشتہ کچھ اثرات انسان کی روح میں باقی رہ گئے تھے، جسکی وجہ سے دوسری مرتبہ یاد کرنا آسان ہوگیا تھا ۔ لہذا انسانی روح سے مربوط تمام مسائل اسی طرح ہیں ۔اس لئے اگر آپ نے اب تک دس بار بھی ارادہ کرکے اس کو توڑ ڈالا ہے پھر بھی اس عادت کو ترک کرنے کے لئے ایک قوی ،پختہ اور مستحکم ارادہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں اور اپنی تمام معنوی توانائی (مخصوصا ایمان کی طاقت) کو جمع کرکے اس کامیابی کو حاصل کر لیں ،اور اپنے عظیم الشان راہنما علی(ع) کے اس فرمان کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ” صاحبان ایمان ایک پہاڑ کی مانندمستحکم اور ارادے میں استقامت رکھنے والے ہوتے ہیں ۔”اب جب کہ آپ پختہ ارادہ کر چکے ہیں آنے والے بقیہ دستورات پر دقت کے ساتھ عمل کریں ۔دس قوانین جنسی کجروی مخصوصا “استمناء” (Masturdation ) جس کو کبھی کبھی تاریخی افسانے کے تناسب سے ” اونانیسم ” بھی کہا جاتا ہے ۔ حالانکہ یہ نا قابل انکار ہے اس لئے کہ یہ بہت جلد انسان کو اپنا عادی بنالیتاہے ، اور اس کی جڑیں اس قدر پھیل جاتی ہیںجس کی وجہ سے انسان ایک دن میں کئی بار اس کا ارتکاب کرنے لگتا ہے ۔یہاں تک کہ بعض مبتلا افراد نے خود اعتراف کیا ہے کہ کبھی کبھی وہ اس منزل تک پہنچ جاتے ہیں کہ بغیر کسی عمل کے محض تصور اور فکر سے مخصوص خطرات ان کے جسم سے خارج ہو جاتے ہیں ۔لیکن اس سے کہیں خطرناک اس عادت کے مقابلے میں نا امیدی اور مایوسی ہے ، اس لئے کہ نا امیدی اس بیماری میں مبتلا افرادکی کامیابی کے لئے ایک سد راہ بن جاتی ہے ، اور غیر معمولی نامطلوب نفسیاتی عکس العمل ان کے وجود میں پیدا کردیتی ہے ۔اس میں مبتلا افراد اگر اس عادت کے مقابلے میں کامیاب اور اس کے تمام اثرات کو اپنے وجود سے نکالنا چاہتے ہیں ہر گز اس فکر کو ذہن میں نہ آنے دیں کہ یہ بیماری یا اس کے اثرات آخری عمرتک دامن گیر رہیں گے ۔مختصر یہ کہ نہایت ہوشیاری اور پختہ ارادے کے ساتھ آنے والے دستورات پر عمل کرتے ہوئے اس عادت سے مقابلے کے لئے کھڑے ہو جائیں ۔جو لوگ اس عادت کے چنگل سے نجات پا گئے ہیں انہیں اپنی پاکیزگی کی قدرکرنا چاہیے ،اور اس کی حفاظت کا خاص خیال رکھیں ۔اور اس راہ کے ہر شیطانی وسوسہ سے ہوشیار رہیں،اور اپنی تقدیر کو کسی بھی قیمت پر گمراہ افراد یا معاشرے کے سپرد نہ کریں ۔جیسا کہ ہم پہلے بھی اس بات کا اشارہ کر چکے ہیں کہ ہر قسم کی غلط عادت منجملہ خطرناک جنسی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی شرط “امید اور کامیابی کا اطمنان رکھنے کے ساتھ” صمیمانہ اور مستحکم ارادہ ہے ۔ایسا فولادی اور محکم ارادہ جسکا تکیہ ایمان ،شرافت اور وجدان پر ہو ۔
مصمم ،راسخ اور ناقابل عدول ارادہآخر کار اگر یہ عزم و ارادہ کسی خاص اسباب کی وجہ سے ٹوٹ بھی جائے تو پھر نئے سرے سے ایک نہ ٹوٹنے والا اور راسخ ارادے کی بنیاد ڈالیں اور اسی امید اور ایمان کے ساتھ اپنے ارادے کی تجدید کریں ۔ اس لئے کہ ان شکستہ ارادوں کے باقی رہ جانے والے اثرات جس وقت جمع ہوجائیں گے اپنی تاثیر ضرور دکھائیں گے ۔مسلم طور پر اگر یہ مصمم ارادے ٹوٹنے سے رہ جائیں تو بہت جلد اس بدترین عادت کے تمام منفی آثار انسان کے جسم و روح سے نکل جائیں گے ۔یہ امر بدیہی ہے کہ اگر یہ لوگ اپنے خدا سے رابطہ بر قرار کرلیں اور اپنے پورے وجوداور اس کے ہر ذرہ کے ساتھ اس سے مدد کا مطالبہ کریں، اس کے لطف کی امید کریں یقینا ایمان کے سائے میں بہت جلد نتیجہ حاصل کر سکتے ہیں ۔اب جب کہ ان مراحل کو طے کر لیا ہے ، مندرجہ ذیل امور کا دقت سے استعمال کریں ۔شاید یہ امور بعض افراد کی نگاہ میں بہت سادے ہوں لیکن ان پر عمل کرنے سے معلوم ہوگا کہ ان کے اثرات معجزے کی مانند ہیں ۔
۱۔ ہرطرح کی مصنوعی تحریک سے پرہیز کرنا ۔اگر جوان اس انتظار میں ہیں کہ ہر شب سنیما یا ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر شہوت سے بھر ی سیکسی فلمیں دیکھیں ، اور ہر روز اپنے مہم وقت کا کچھ حصہ عشقیہ ناول پڑھنے اور گمراہ کرنے والے رسالو ں میں شہوت انگیز تصویریں دیکھنے میں صرف کریں اور گلی کوچوں میںبرہنہ عورتوں اورلڑکیوںپر نگاہ ڈالیں اور ان تمام کاموں کے ساتھ کسی طرح کی برائی سے دوچار نہ ہوں ! یہ یقینا ایک بڑی غلط فہمی ہے ۔اس طرح کی مصنوعی تحریکات جن کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے ، جوانوں کو ان کی زندگی کے بنیادی مسائل سے جداکر دیتی ہے اورشدت اور طغیانی کے ساتھ جنسی مسائل کی طرف کھینچ لیتی ہیں ۔دن رات بے چینی کی حالت اور دائمی غصہ کی کیفیت ان کے تمام وجود پر سایہ فگن ہو جاتی ہے جو اس کے نامطلوب آثار ہیں ۔یہ دائمی تحریکات ان کی زندگی کے بہترین حصہ “یعنی جوانی کے دور ” کو برباد اوران کے اعصاب ( پٹھے اور رگوں ) کوخراب کر دیتی ہیں ۔تمام جوان! خصوصا وہ افراد جو جنسی عادتوں کا شکارہیں انہیں چاہیے کہ شدت کے ساتھ ان امور سے اجتناب کریں ، فیلمیں نہ دیکھنے ،اور اس طرح کے ناولوں کو مت پڑھیں، اورچوری چھپے ایسے عمل انجام دینے سے پرہیز کریں، اپنی فکر کو اس طرح برباد نہ کریں اور اپنے طاقتور اعصاب کو دائمی ہیجان سے ضعیف نہ بنائیں ۔اس مسئلہ میں کامیاب رہنے کے لئے اپنے تمام خالی وقت کو صحیح و سالم سرگرمیوں میں مصروف رکھیں،اپنے دوستوں کی مدد سے صحیح پلاننگ کے ساتھ اپنے اوقات کو منظم کریں ۔یہ سرگرمیاں اختیار کی جاسکتی ہیں:جسمانی ریاضت کریںچاہے اکیلے یا کسی گروہ کے ساتھ۔تازی اور آزاد ہوا میں چہل قدمی کریں ۔اچھی اور مفید کتابوں کا مطالعہ کریں ۔گھر میں پھلواریوں کی دیکھ بھال یا کلی طور پر کھیتی باڑی کے کام انجام دیں ۔اپنے روز مرہ کے کاموں کو خود انجام دیں ۔اشعار کی جمع آوری ۔تصویروں اور ٹکٹ کا جمع کرنا اور اس جیسے دوسرے امورکو انجام دینا ۔مختلف انجمنوں اور علمی یا اخلاقی کانفرسوں میں شرکت کرنا ۔
۲۔اپنے پورے وقت کو مختصر کاموںسے منظم کرناجوانوں کو چاہیے کہ حتمی طور پر اپنے تمام شب و روز کے اوقات کو اس طرح منظم کریں کہ ایک گھنٹہ بھی بیکار اور پروگرام سے خالی نہ ہو۔ہم یہ نہیں کہتے کہ صرف پڑھائی کرتے رہو یا مسلسل کام کرتے رہو بلکہ اگر تفریح اور ورزش بھی کرنا چاہتے ہو تو وہ بھی پروگرام کے تحت ہونا چاہیے،ایک گھنٹہ بھی پروگرام سے خالی نہ رہنے پائے ۔ممکن ہے کہ کوئی جوان بے کار ہو اور کام تلاش کررہا ہو۔لیکن اسی حالت میں اپنے دن رات کے خالی وقت کا پروگرام بنائیں ،چاہے وہ تفریح ہو یا مطالعہ ہو ، آرام ہو یا کوئی دوسری سرگرمی۔ہاں اگر جوان اپنے وقت کو پروگرام کے تحت کچھ زیادہ منظم کرلیں اس طرح کہ ایک لمحہ کے لئے بھی ان کی فکر بے کار نہ رہے تو زیادہ بہتر ہوگا ،اس لئے کہ فکر کا مصروف رہنا اس عادت بد کو ترک کرنے میں زیادہ فائدے مند ثابت ہوگا ۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ سیگریٹ کے عادی لوگ چھٹی کے دنوں میں کام کے ایام کی بانسبت زیادہ سگریٹ پیتے ہیں ، یہ فرق اسی اثر کا نتیجہ ہے جو فکر اور اعصاب کو مثبت کاموں میں مصروف کرنے کے ذریعہ نامعقول اور نقصان دہ کاموں سے روکتاہے ۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ غلط جنسی عادتوں میں گرفتار لوگ اگر اپنے تمام وقت کو ایک منظم پروگرام کے تحت مشغول نہ کریں تواس عادت کو آسانی سے دور نہیں کر سکتے ہیں ۔اس طرح کے پروگرام کی تشکیل یقینی طور پر اس عادت کو ترک کرنے اور اس کے سبب پیدا ہونے والی اکژ مشکلات کے دور کرنے کے لئے نہایت موثر اورسود مند ثابت ہوتی ہے ۔
۳ ۔ ورزش کی طرف خاص توجہیہ بات معروف ہے کہ ورزش کرنے والے افراد کو جنسی امور سے لگاؤ بہت کم ہوتا ہے ، اس لئے کہ ورزش ، بدن اور فکرکی طاقت کو بڑی مقدار میں اپنے آپ سے مخصوص کر لیتی ہے ، اور فطری طور پر دوسرے باقی مسائل میں کم ہو جاتی ہے ۔اس بنیاد پر جنسی تحریکات کے طوفان کومسدود کرنے کے لئے جوانوں کو ورزش کے وسیع اور متنوع پروگرام کا انتخاب کرنا چاہیے ۔اس بری عادت کے شکار غالبا کنارہ کش ، گوشہ نشین، غیر متحرک اور خاموش افراد ہوتے ہیں ،اور یہی کنارہ کشی اور گوشہ نشینی ان کی بیماری میں شدت پیدا کردیتی ہے ۔ اگر یہ لوگ اس عالم سے باہر آجائیں اور اپنی زندگی میںمزید تحرک پیدا کر لیں،یقینی طور پر ان کی حالت میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے اور اس عادت سے چھٹکارا مل سکتا ہے ۔اس لئے کہ معمولا ان لوگوں کے جسم میں ضعف اوراعصاب کی کمزوری پائی جاتی ہے ۔ مختلف اور مناسب ورزش ان کے اعصاب کی تقویت کے لئے نہایت موثر ہے ۔ان افراد کے پاس اپنی مشغولیت کے علاوہ جتنا بھی اضافی اور خالی وقت پایا جاتا ہے اس کو کھیل کود، مختلف ورزش یا کھلی فضا میں چہل قدمی میں سے مخصوص کردیں، تاکہ اپنی کھوئی ہوئی سلامتی کو دوبارہ حاصل کر سکیں، اور ساتھ ساتھ جسمانی اور فکری طاقت بھی اس حصہ سے مخصوص ہو جائے گی ۔جس طرح حرکت اورورزش ان کے لئے فائدہ بخش ہے اسی طرح کنارہ کشی اور گہر ی فکربھی زہرکی طرح قاتل ہے جس سے ہر قیمت پران کو دور رہنا ہے ۔اس نصیحت کو فراموش مت کریں اور اس کے معجز نما اثرات کا ضرور مشاہدہ کریں ۔دن بھر اس قدر ورزش کریں کہ رات میں جب بستر پر جائیں تو فورا گہری نیند کی آغوش میںچلے جاؤ،اس طرح آپ لاحق ہونے والے خیالات و افکار کے تمام شراور نقصانات سے محفوظ ہو جائیں گے ۔
۴۔ایک عادت کو دوسری عادت کا جانشین ہونا چاہیے ۔ماہرین نفسیات کا کہنا ہے :بری عادت ترک کرنے کے لئے اچھی عادت کا تلاش کرنا ضروری ہے تاکہ اس کو بری عادت کا جانشین بنایا جا ئے ۔مثلا جو لوگ جوا کھیلنے کے عادی ہیں حالانکہ وہ اس کے تمام نقصانات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں،اس کے باوجود وہ اس کو نہیں چھوڑتے ہیں ، ان کے بقول جب جوے کا وقت ہوتا ہے وہ نہیں جانتے کہ کون سی طاقت ان کو ایک قیدی کی طرح اس طرف لے جاتی ہے اور ان کا عقل و وجدان بھی اس صورت میں اس کے محکوم ہو جاتے ہیں؟!اس طرح کے افراد جو اس بری عادت کے شکار رہتے ہیں وہ اپنے اس وقت کو مناسب کھیل (ایک سالم ورزشی مقابلہ ) کا جانشین بنائیں تاکہ یہ اچھی عادت اس کی جگہ آجائے ۔گویا اس وقت میں جو خاص طاقت اس عادت کی تحریک میں پیدا ہوتی ہے اس کا رخ اس اچھی عادت کی طرف موڑ دیا جائے ،اور اس کے نامطلوب رد عمل بھی سامنے نہ آنے پائیں ۔( غور کریں) ۔جنسی غلط عادتوں کے مقام میں بھی عین اسی وقت جب اس کی تحریک جوانوں میں پیداہوتی ہے ایسے پروگرام کو وقت سے پہلے تلاش اور اس پر عمل کیا جائے جیسے علمی اور ورزشی مقابلہ ،یا کوئی دلچسپ ورزش ، پہاڑوں پر گھومنا ، گھڑ سواری وغیرہ….ان کاموں کو اس قدر مسلسل انجام دیا جائے کہ یہ بری عادت کی جانشین بن جائیں ۔
۵۔ ہر حال میں تنہائی سے پرہیز ۔ایسے افراد کو بغیر کسی قید و شرط کے تنہا رہنے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ہرگز اکیلے نہ رہیں، گھر میں بھی تنہا نہ رہیں، رات کو کمرہ میں اکیلے نہ سوئیں، خلوت میں مطالعہ کے لئے اکیلے نہ جائیں ۔کسی جگہ پر صرف تنہائی کا احساس ہوتے ہی فورا وہاں سے باہر نکل جائیں ۔اس طرح کے لوگ اس نکتہ کو کبھی فراموش نہ کریں کہ جیسے ہی اپنے آپ میں گذشتہ عادت کی پہلی تحریک کو محسوس کریں فورکسی دوسرے کام میں مشغول ہو جائیں ۔ اگر چہ اس نکتہ کو فراموش کرنا بہت سخت کام ہے ۔ہر جوان کی فکر میں اس عادت کو پرورش دینے کے لئے تنہائی بہترین اور کامل راستہ ہے لہذا جو جوان بھی اپنی خوش بختی، سلامتی اور استمناء کے خطروں سے سلامتی کا خواہاں ہے اسے تنہائی سے پرہیز کرنا چاہیے ۔
۶۔ پہلی فرصت میں شادی ۔ان افراد کے پاس اگر امکانات موجود ہیں توپہلی فرصت میں شادی کریں ، یہاں تک کہ اگران کے پاس صرف رشتہ (البتہ عقد شرعی کرنا زیادہ بہتر ہے)کرنے کے امکانات فراہم ہوں تو (لیک عقد شرعی جاری ہوگیا ہو) اس موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔مختصر یہ کہ شادی اس جنسی بے راہ روی سے مقابلہ کرنے کے لئے قابل دید تاثیر رکھتی ہے ۔اگرہم توقعات کے دامن کو چھوٹا اور بیجا تشریفات کو حذف کرلیں تو شادی نہایت ہی سادہ اور آسان امر ہے ۔ لیکن افسوس کہ غلط رسم و رواج اورغلط بندشوں نے ہر طبقے( پڑھے لکھے ا ور جاہل لوگوں )کے ہاتھ پیروں میں زنجیریں ڈال دی ہیں ۔بعض جوان عام طور پر شادی کرنے سے ڈرتے ہیں ۔البتہ یہ وحشت مکمل طور پر بے بنیاد ہے اس لئے کہ تمام قوانین پرعمل پیرا ہونے سے غلط عادتیں بھی آسانی سے چھوٹ جاتی ہیں اور شادی کے تمام مراحل میں بھی وہ کامیاب ہوجاتا ہے ۔
۷۔اپنے نفس کو تلقین اور ارادے کی تقویت ۔” تلقین “( یعنی خود کو آگاہ کرنایا سمجھانا) اس عادت سے مقابلہ کرنے میں بہترین کردار ادا کرتی ہے ۔اس عادت میں مبتلا افراد کو چاہیے کہ مسلسل خود کو تلقین کرتے رہیں کہ وہ اس غلط عادت کے ترک کرنے پرمکمل طور پر قادر ہیں ۔کیونکہ تلقین اس بیماری میں مبتلا افراد کے لئے بہت قوی اور سریع اثر رکھتی ہے ، جیسا کہ ایک ماہر نفسیات(ڈاکٹر ویکٹور پوشہ فرانسی) کہتاہے :” اس تلقین کو مندرجہ ذیل صورت میں چند روز تک مسلسل انجام دیں ” ہر دن سکون واطمئنان کی جگہ بیٹھ کر جب اس کاذہن ہر فکر سے خالی ہوتو اپنی فکر متمرکز کرکے ان جملوں کی تکرار کرے :”میں اس عادت کو اپنے سے مکمل طور پر دور کر سکتاہوں، میں اس بات پرقادر ہوں “!اس سادہ تلقین کی تکرار انسان کی روح کی تقویت اور اس عادت بلکہ ہر عادت کے چھوڑنے کے لئے عجیب و غریب تاثیر رکھتی ہے( اگر آپ چاہیں تو آزما سکتے ہیں) ۔اس کے علاوہ ارادے کی تقویت کے لئے کتابوں کا مطالعہ کریں، کافی کتابیں جو شخصیت کے رشد وتحکیم اور ارادے کی تقویت کے موضوع پر لکھی گئی ہیںموجود ہیں ۔جبکہ اس بات کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ تمام افراد جو اس عادت یا ہر بری عادت کے ترک کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ان کا اعتراف ہے کہ اس راہ کا سب سے پہلا قدم” مصمم ارادہ” ہے ۔
۸۔ مکمل پرہیزاس علاج کے دوران گمراہ اور اس بیماری میں مبتلا افرادکی معاشرت اور ہم نشینی سے کلی طور پر اجتناب کیا جائے ،جیسے کسی وبا میں مبتلا افراد سے فرار کیا جاتا ہے ، اس کے علاوہ اس عمل کے وحشتناک اور مہلک نتائج سے لاپروا نہ رہیں ، اور وسوسہ پیدا کرنے والی باتوں کو ہر گز گوش گذار نہ کریں ۔اس بیماری میں مبتلاغلط ساتھی اس راستہ کو جاری رکھنے کے لئے عجیب و غریب کردار ادا کرتے ہیں جو خود گناہ کا احساس نہیں کرتے بلکہ دوسروں کو اس بدبختی کا شکار کرنا چاہتے ہیں اور اپنی غمگین کہانی میں انکو شریک بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس لئے وہ اس عمل کو ایک لطف اندوز اور بے ضرر عمل ثابت کرنے کی سعی کرتے ہیں ۔لیکن با ہوش جوان ان کے بچھائے ہوئے شیطانی جال میں کبھی نہیں پھنستے ۔
۹۔ عام قوت اور کھانے کی طاقتکامل اور سالم غذا، جسمانی طاقت دینے کے علاوہ جوانوں کو اس عادت سے جو ان کے اعصاب کی کمزوری کا سر چشمہ ہے یا خود اعصاب کی کمزوری کا سبب ہے، ایک عجیب تاثیر عطا کرتی ہے ۔ٹھنڈے پانی سے نہانا (موسم کو مدنظر رکھتے ہوئے )اور اس کے بعد بدن کو تولیے سے مساج دینا اس طرح کے افراد کی بہت مدد کرتا ہے ۔اسی طرح ان کو چست لباس(جو مصنوعی تحریک کا باعث بنتے ہیں ) پہننے سے پر ہیز کرنا چاہیے ۔اس طرح کے لباس اصولی طور پر جوانوں کو نقصان پہنچاتے ہیںاور کبھی کبھی جسم کے فطری رشد و نمو کے لئے مضراور خطرناک ہوتے ہیں ، اس کے علاوہ وسوسہ اور تحریک جنسی کا سبب بنتے ہیں ۔
۱۰۔ ایمان اور عقیدے کی طاقت کا سہاراایمان اور عقیدے کی طاقت ایسے لوگوں کی بے حد معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے ۔اور ان کو اس عادت کے چنگل سے چھٹکارا دلاتی ہے ۔اس طرح کے افراد اپنے آپ کوبارگاہ رب العزت میں ذلیل اور مردود شمار نہ کریں،بلکہ ہمیشہ خداوند متعال کے لطف کے امیدوار رہیں، نماز کے وقت اور نماز کے بعد اپنے سر کو سجدے میں رکھ کر اپنے مہربان اور معاف کرنے والے خالق کے ساتھ راز ونیاز کریں ، اپنے مکمل قلبی انہماک اور اپنے وجود کے تمام ذرات کے ساتھ اس کی بارگاہ میںتوسل کریںاور اس بدبختی سے نجات کی دعا کریں ، یقین رکھیں اگرکوئی جوان اس طرح خدا کی بارگاہ میں استمداد کریں تو اس کی مدد ضرور شامل حال ہوگی ، اور زندگی کی اس جنگ میں کامیابی ان کے قدم چوم لے گی ۔اس کے علاوہ ہر جگہ اور ہر حال میں خدا کو حاضر و ناضر سمجھنا چاہئے اور کبھی بھی اپنے آپ کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ اس کے سامنے غلط کام انجام نہ دیں ۔ہمیں یقین ہے کہ اگر اس بیماری میں مبتلا حضرات مذکورہ قوانین پر دقت کے ساتھ ایک مہینہ تک عمل کریں تو منحرف راستہ سے نجات حاصل کرلیں گے ۔
قارئین کے فیصلوں کے چند نمونےاس کتاب کے حوالے سے ہمیں بڑی تعدادمیں جھنجوڑنے والے خطوط موصول ہوئے ، جسکا صرف ایک نمونہ بغیر کسی ردوبدل کے قاریان کے سامنے پیش کر رہے ہیں ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیمخدا کے نام سے شروع کرتا ہوں جس نے جوانوں کو پیدا کیا اور جس نے تمام انسانوں کو پاک پیدا کیا ہے ۔جیسا کہ میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا ، بغیر کسی تمہید کے اپنی داستان آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں تاکہ جوانوں کے لئے عبرت بن جائے ۔میں ۱۹ سال کا جوان ہوں ، نو جوانی میں قرآن اور امام زمانہ(ع) سے نہایت لگاؤ رکھتا تھا اور ابھی بھی وہ ہی صورت ہے ،نا محرم پر نظر کرنے سے مجھے سخت نفرت تھی اوراس کوگناہ عظیم سمجھتا تھا،کبھی غلط نگاہ سے کسی کی طرف نہیں دیکھتا تھا ۔جس وقت میں نے بلوغ کی منزلوں میں قدم رکھا اور کالج میں داخل ہوا تو میرے اندر تغیر پیدا ہونا شروع ہو گیا ، اور آہستہ آہستہ شیطان مجھ میں سرایت کرنے لگا،اور مجھے راہ راست سے منحرف کر دیا،یہاں تک کہ نامحرم کو دیکھنا میری عادت بن گئی،اور غلط دوستوں سے آشنائی ہو گئی ، انہوں نے اس عادت سے جو چار سال سے میرے دامن گیر تھی مانوس بنا دیا، کالج کے پورے چار سال تک میں نے اس گندی عادت کو جاری رکھا ، اور ناقابل انکار پڑھائی کی کمی مجھ میں پیدا ہوگئی جس کو کاملا محسوس کرتا تھا،حالانکہ ہائی اسکول کے دوران میں ممتاز طالب علموں میں ہوتا تھا ،لیکن کالج میں مجھے بار بار امتحان دینے پڑے ، چار سال تک میں خدا سے دوراپنے آپ سے غافل اور پستی میں رہا ،یہاں تک کہ ان چار سالوں میں میری تمام صلاحیتیں من جملہ میری صحت ختم ہوگئی ، اس عمل کے تمام اثرات مجھ میں ظاہر ہو گئے ،جسمانی کمزوری،خون کی کمی ، حافظہ کا فقدان ، ہاتھوں میں رعشہ، انکھوں کا کمزور ہوجانا وغیرہ ۔کالج کے چوتھے سال میں غفلت کی نیند سے بیدار ہوا اور کوشش کرتا رہا کہ اس عمل سے نجات حاصل کرلوں لیکن میری تمام کوششیں رایگان ہوجاتیں ،دو تین دن تو تحمل کرتا لیکن پھر واپس اسی عادت پر پلٹ آتا ، اس سال گرمیوں تک اس عمل کو ترک کرنے کے لئے اپنی تمام تر کوششیں کرتا رہا آخر کار ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا،خداوند عالم ، ائمہ، اور امام زادوں سے توسل کیا ،اذان سے پہلے قرآن مجید کی تلاوت سنتا اور آنسو بہاتا ، اس وقت میں خو ن کے آنسو بہاتا مگر میری آنکھوں کے آنسو خشک ہو چکے تھے ،کسی سے میں اپنا درد دل بھی بیان نہیں کر سکتا تھا ۔اس وقت میں تلاوت قرآن کرتا اور اپنے خالق سے باتیں کرتا اور اس سے مدد طلب کرتا ، ۲ یا ۳ دن تک اس عمل کو انجام دیتا لیکن تیسرے روز پھر اسی عمل کو انجام دیتا اور اس کے بعد گریا و زاری کرتا ، اور حمام جاکر غسل کرتا ، پھر اس کو ترک کرنے کا مصمم ارادہ کرتا ،لیکن آپ نہیں جانتے کہ جب میں اس عمل کو چھوڑ دیتا تھا تو میں کس قدر خوشی ہوتاتھا کہ گویا اللہ نے میرے تمام گناہوں کو بخش دیا ہے ! لیکن اللہ شیطان پر لعنت کرے پھر—مختصر یہ کہ غروب سے پہلے قرآن مجید کی تلاوت کو سنتا تھا اور ساتھ ساتھ گریہ و زاری کرتا اور اللہ سے مدد طلب کرتا تھا اور اس کی پناہ کا مطالبہ کرتا ،اس کے بعد نماز پڑھتا اور دعا کرتا کہ اللہ تمام جوانوں کو جو اس عمل کے عادی ہیں اور من جملہ مجھ کو نجات عنایت فرما ۔میں اپنے دوستوں کو دیکھتا کہ کس درجہ ترقی کر رہے ہیں اور ایک میں ہوں جو بالکل ان کے برعکس ہوں ،پستی کے راستوں کو طے کرتے ہوئے میں نے سن۱۳۷۰ء کے متحانی مقابلہ (compation) میں شرکت کی اوراس میں نا کام ہوا جس کی وجہ میں اسی عادت کو سمجھتا ہوں ،اس دوران کبھی بھی اللہ کا لطف میرے شامل حال نہ ہوا،آخر کار اللہ نے میرے حق میں ایک مہربانی فرمائی کہ ایک دن لائبریری میں میری نظر ایک کتاب پر پڑی جس کا نام ” جوانوں کے جنسی مشکلات اور ان کا حل ” تھا ۔میںنے اس کتاب کو خرید لیا ، یہ کتاب وہی کتاب نجات تھی جس نے مجھے ہلاکت کی پستی سے نجات عطا کردی ۔یہ ہی کتاب ہے جو اکثر جوانوں کو نجات یافتہ بناتی ہے، اگر جوان اس میں بتائے ہوئے دستورات پر عمل کرے تویقینا اس عمل کے ترک کرنے میں حتمی کامیابی نصیب ہوگی ۔میں اپنے خالق کا شکر گزار ہوں کہ اس نے اپنے لطف میں مجھے شامل فرمایا اوریقینی ہلاکت اور پستی سے مجھے نجات بخشی ہے ۔میں نے کتاب کے تمام مطالب کو اچھی طرح پڑھا ہے اور اس میں ذکر دس دستورات پر مکمل طریقے سے عمل کیا اور اس کے ساتھ نماز کواول وقت ادا کرتا اور اس کے بعد اللہ سے دعا کرتاکہ اللہ تمام جوانوں کو اور مجھ کو اس عادت سے نجات عنایت کرے ۔اور آیة الکرسی کی ہر روز اس قدر تکرار کرتا تھا کہ جب بھی گناہ کی فکر ذہن میں آتی فور آیة الکرسی کی تلاوت کرتا تھا، اور اس کی حیرت کن تاثیر کا مشاہدہ کرتا تھا ۔ان دو آیتوں کو:” اذا فعلوا فاحشة او ظلموا انفسھم ، ذکرواللہ ، فاستغفروا بھم ومن یغفر الذنوب الا اللہ ، ولم یصروا علی ما فعلوا وھم یعملون” اور” ان الذین اتقوا اذا مستھم طائف من الشیطان تذکروا فاذاھم مبصرون ” ہمیشہ پڑھتا تھا جس کے نتیجے میں کلی طور پر میرے ذہن سے وہ بدبختی والی فکر خارج ہوگئی، یہ دونوں آیتیں یقینا بہت موثر ہیں ۔سب سے پہلے میں نے پختہ ارادہ کیا کہ نامحرم عورتوں اور لڑکیوں پر نظر نہیں ڈالوں گا ، اس کے بعد میںنے اپنے پورے دن کا ایک پروگرام بنایا تاکہ مجھے عمل بد انجام دینے کے لئے بالکل فرصت نہ مل سکے وغیرہ۔جسکی مکمل تفصیل کتاب ” جوانوں کے جنسی مشکلات اور ان کا حل ” میں بیان کی گئی ہے ۔ پہلی بارمیں نے اپنے یقین و ایمان کو قوی کیا اور خداوند متعال سے مدد کی درخواست کی جو کہ باقی تمام چیزوں سے مہم ہے ۔میں اس جملے پر جو اس کتاب کے آخر میں ذکر کیا گیا ہے مکمل یقین رکھتا تھا ۔” ہمیں یقین ہے کہ اگر اس بیماری میں مبتلا حضرات مذکورہ قوانین پر دقت کے ساتھ ایک مہینہ تک عمل کریں تو منحرف راستہ سے نجات حاصل کرلیں گے ۔”مختصر یہ کہ کئی بار م-صمم ارادہ کرنے کے بعد آخر کار میںاس عمل کے ترک کرنے میں کامیاب ہو گیا،اور نجات پا گیا ۔اور اب تک جب میں اس خط کو تحریر کر رہا ہوں ،اس عمل کو چھوڑے ہوئے دو ماہ ہو چکے ہیں ۔آپ نہیں جانتے کہ جب ایک مہینہ ہو گیا تھا تو میں کس قدر خوش تھا، میں نے دورکعت نمازشکر پڑھی اورابھی تک وہ دو رکعت نمازشکر مسلسل پڑھتا ہوں اور پنے پروردگار سے دعا گو ہوں کہ اس احساس کو تمام جوانوں میں پیدا کرے جو اس جنسی عادت میں مبتلا ہیں (انشاء اللہ) ۔جو جوان اس عمل کو انجام دیتے ہیں اگر وہ اس بات کو جان جالیں کہ یہ عمل کس قدر خطرناک اوراس کے نتائج کتنے بدبخت اور ہلاک کرنے والے ہیں ،تو وہ یقینا اس کو ترک کرنے کا مصمم ارادہ کرلیں گے اور کتاب میں بتائے گئے دستورات پر عمل کریں گے اوریقینا ایک مہنیے میں اس عادت سے نجات پا جائیں گے ۔ انشاء اللہ۔دل چاہتا ہے کہ فریاد کروں اور تمام انسانوں کو پکار پکار کر کہوں کہ میں نے بدبختی اور پستی کی موت سے نجات حاصل کر لی ہے ۔دل چاہتا ہے کہ خون کے آنسوںروؤں، ناکامی کے آنسوں نہیں بلکہ خوشی اور کامیابی کے آنسوں ۔دل چاہتا ہے کہ گھر والوں سے بہت سی باتیں کروں اور ہنستا رہوں اس لئے کہ دو مہینے پہلے تک اس طرح کی ہنسی جو دل سے نکلتی ہے کبھی میرے لبوں پر نہیں آئی ۔اس وقت میں بہت کم بات کرتا تھا ۔خدایا تیرا شکر کہ تونے اپنے لطف سے بہرہ مند کیا جو بندہ تجھ سے دور بھاگ رہا تھا ۔خدایا تیرا شکر کہ تونے مجھے حقیقت سے آشنا کر ایا اورمیری مدد کی کہ میں حقیقت سے پیوستہ ہو جاؤں ۔عزیز جوانوں! ملک کے مستقبل ساز جوانوں !کوشش کرو اگر پاک ہوتوہمیشہ پاک رہو، اگر پاک نہیں ہو تو پاک ہو جاؤ،اور کتاب ” جوانوں کے جنسی مشکلات اور ان کا حل” کا مطالعہ کرواور اس کے دستورات پر عمل کرو،یقین جانوں کہ اگر آپ اس عادت کا شکار ہیںتو ضرورنجات پا ؤگے ۔اور آپ کو مطمئن ہوناجا چاہیے کیونکہ میری نجات کے آخری لمحے میں میرے دل میں ایک ایسی امید پیدا ہوگئی تھی جس کی وجہ سے مجھے یقین ہو گیا تھا کہ مجھے نجات حاصل ہوگی ۔عزیز جوانوں! اگر تم نے ارادہ کیا تھا کہ اس عمل کو چھوڑ دو گے اور پھر ناکام ہوگئے ،تودوبارہ پختہ ارادہ کرو اور کبھی بھی ناامید نہ ہوناکبھی یہ مت کہنا کہ اب وقت گذر گیا ہے ،اگر تم نے اس عمل کو بہت زیادہ انجام دیا ہے تو مکرر ارادے کی پختگی سے یقینا کامیاب ہو جاؤگے ۔ مصمم ارادے کی اس وقت تک تجدید کرو جب تک اپنی کامیابی کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لو ۔انشاء اللہ، یقینا تم اپنی کامیابی کو اپنی آنکھوںضرور دیکھو گے ، لہذا آئندہ ارادہ کو مصمم ارادے کے ساتھ انجام دو ۔اس کتاب کے ضمن میں ایک دوسری کتاب ” پریشانیوں اور نا امیدی پرغلبہ کا بہترین راستہ ” (بہترین غلبہ بر نگرانیھا و نا امیدیھا) کا مطالعہ کرنانہایت ہی فایدے مند ہے ۔ (انتشارات نسل جوانان) ۔اوراے پاکیزہ افراد! آپ نے اس کتاب کولکھ کرخطرناک دلدل میں پھنسے بہت سے جوانوں کو نجات عطا کی ہے اور نجات دے رہے ہیں ، ہم جانتے ہیں کہ آپ کوہم جوانوں کے شکریہ کی ضرورت نہیں ہے ،کیونکہ آپ اپنی محنت اورہمت کا اجر اپنے خداوندعالم سے طلب کرو گے ۔خدایا ہم جوانوں کو اس عادت کے ترک کرنے میں مدد فرما!تاکہ کامیاب وکامران ہو جائیں ۔خدایا ہم جوانوں کوہدایت فرما کہ ہم اپنی قدر و قیمت سے آشنا ہو جائیں تاکہ اس طرح کے غلط کاموں کو انجام دینے سے دور رہیں اور نامحرم پر نگاہ کرنے سے دور رہیں، اس لئے کہ ان کاموں سے ہم نہایت پستی میں چلے جائیں گے ۔خدایا میں جانتا ہوں کہ اس عمل کے ارتکاب سے میرا حافظہ اورفراست ضایع ہو گئی ہے ، میرے گذشتہ حافظہ اور فراست کو واپس پلٹا دے !مجھے یقین ہے کہ اگر میں تیری پناہ میں آجاؤں تو میراکھویا ہوا حافظہ اور فراست واپس مل جائیگی ۔لہذا اے ارحم الراحمین میں تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں!خدا جن جوانوں نے اس عمل کو ترک کیا ہے، ان کی تو خود مدد فرماتا کہ گذشتہ نقصان کو پورا کرسکیں ۔خدایا ہمارے گذشتہ اعمال کی توبہ کو قبول فرما !اور ہماری مدد فرما کہ ہم پھر اس جانسوز عمل میں دوبارہ مبتلا نہ ہوں ۔اور ہر وہ جوان جو میری طرح اس سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو نجات عنایت فرما، چونکہ تمام امور تیرے اختیار میں ہیں ۔خدایا ! وہ تمام افراد جو جوانوں کی راہنمائی کے کوشاں ہیں ان کی مدد فرما تاکہ وہ مزید بہتر طریقے سے اس خدا پسند کام کو انجام دے سکیں ، اوربہشت جاویداں ان کو نصیب فرما ۔