معاد جسمانی کے سلسلے میں ملا صدرا کا نظریہ
اور یہ صورت متوسط لوگوں کے لئے دنیوی انسان کو دکھائی دے گی اور نشان دے گی اور کامل انسانوں کی اس نشأة میں فقط روح ہوگی ۔اب ہم آخوند ملاصد ر ا کی بعض عبارتوں کی یاد آوری کریں گے:١۔’فکلجوھر نفسانی مفارق یلزم شبح مثالی ینشامنہ بحسب ملکاتہ واخلاقہ وہیئاتہ النفسانیة بلا مدخلیة الاستعدادات وحرکات المواد کما فی ہذا العالم شیئا فشینا’ ا لی ان قال ‘فان قلت : النصوص القراٰنیہ دالة علی ان البدن الاخروی لکل انسان ہوبعینہ ہذا البدن الدنیاوی لہ ۔قلنا : نعم ولکن من حیث الصورة لامن حیث المادة وتمام کل شیء بصورتہ لابمادتہ۔’پس ہر جوہر مفارق نفسانی کے لئے شبح مثالی لازم و ضروری ہے کہ جو نفس سے ملکات کے مطابق انشاء ہوئی ہے استعداد کی مدخلیت اور مادوں کی حرکات کے بغیر جس طریقہ سے دنیا میں ہوگی ۔اس کے بعد کہتے ہیں : اگر کہو گے کہ قرآن کی قطعی دلیلیں ثابت کرتی ہیں کہ قیامت میں یہی دنیاوی بدن ہوگا تو ہم کہیں گے : صحیح ہے کہ یہی دنیا وی بدن ہوگا مگر صورت کے اعتبار سے نہ کہ مادہ کے اعتبار سے ،اس لئے کہ کسی شے کی شیئیت اس کی صورت سے ہے نہ کہ مادہ سے ۔
٢۔’وانزل من ہذا المرتبة من الاعتقاد فی باب المعاد وحشر الاجساد، اعتقاد علماء الکلام کالامام الرازی ونظرائہ بناء علی ان المعاد عندہم عبارة عن جمع متفرقات اجزاء مادیة لاعضاء اصلیة باقیة عندہم ‘ الی ان قال:: ‘ ولا یخفی علی ذی بصیرة ان النشأة الثانیة طور اخر من الوجود یباین ہذا الطور المخلوق من التراب والماء والطین ، وان الموت والبعث ابتداء حرکة الوجود الی اللہ اوالقرب منہ لا العود الی الخلقة المادیة والبدن الترابی الکثیف الظلمانی’۔(١)اور اس مرتبہ سے حقیر و پست تر ( کہ جو پہلے ذکر کیا گیا ہے ) معاد کے باب میں اعتقادی نظریہ اور اجسام کا محشور ہونا علمائے علم کلام کے اعتقاد کے مطابق جیسے امام فخر رازی اور ان ہم فکر وں کا نظریہ ہے ۔کیونکہ ان کے نزدیک معاد و قیامت متفرق شدہ مادی اجزاء و اعضاء کا جمع کرنا ہے ۔ باقیماندہ اجزاء اصلی کے ساتھ ان تمام اجزاء کو جمع و محشور کرنا ہے ۔ یہاں تک کہ کہتے ہیں :کسی صاحب فکرو نظر پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ نشاة دوم وجود سے ہٹ کر ایک دوسرا ہی ماجرا ہے۔اس دنیا کی خلقت خاک و آب اور مٹی سے ہے اور یہ موت و حشر خداوند عالم کی جانب سفر کی ابتداء ہے یا یہ اس ( خداوند عالم ) کی جانب قرب کی ابتدا ہے نہ کہ مادی خلقت و خاکی بدن کی طرف پلٹنا۔جو کچھ بیان کیا گیا اس سے قرآن کریم اور معتبر احادیث سے مستفاد و مطالب اور آخوند ملاصدرا کے نظریہ میں فرق و تغایر واضح ہوجاتا ہے ۔ہاں ملاصدرا نے اسی جسم و جسمانیت اور اس کے امثال کا ذکر متعدد بار کیا ہے مگر اس کی تصریح میں بیان کیا ہے کہ مراد اس بدن سے ،عنصری و مادی بدن نہیں ہے ۔…………..(١)اسفار ،ج٩،ص١٥٣،طبع بیرت ۔ و در صفحات ١٢،٣٩، ١٤٨، ١٥٣،١٥٦،١٥٧، ١٦٦، ١٧٤، ١٧٦،١٧٨،ان صفحات میں اسی طرح کے مطالب بھی واضح بیان ہوئے ہیں۔
ملاصدرا کے نظریہ کی رد میں تین برجستہ شخصیتوں کے اقوالاس بحث کے خاتمہ پرتین اہم علمی صاحب تقویٰ شخصیتوں کے اقوال کو نقل کرتے ہیں وہ برجستہ شخصیتیں مرحوم آیةاللہ مرزا احمد آشتیانی ، آیة اللہ حاج شیخ محمد تقی آملی رحمة اللہ علیہ اورآیة اللہ سید احمد خوانساری رحمةاللہ علیہ ہیں کہ جنھوں نے مطالب کی اچھی طرح سے شرح کی ہے اور ملاصدرا کے نظریہ کی رد اور مخالفت میں شرعی دلیلوںکو کتاب خدا اور سنت نبوی واحادیث کے ذریعہ ثابت کیا ہے اس کو آپ حضرات کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے ملاحظہ فرمائیں :۔١۔مرحوم مرزا احمد آشتیانی، اصل معاد کو ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں :’الثانی انہ بعد ماثبت بحکم العقل والنقل لزوم المعاد ویوم الجزاء وقع البحث فی ان ما ینتقل الیہ الارواح فی القیامة الکبری ویوم الحساب، ہل ہو عین الابدان الدنیویة البالیة العنصریة بشمل شتاتہا وجمع جہاتہا بامرہ تبارک وتعالی کما یقتضیہ الاعتبار حیث ان النفس خالفت او اطاعت وانقادت لما کانت بتلک الجوارح فحسن المجازات وکمال المکافات بان یکون المجازی عین من اطاع او عصی ام لا ،بل تنتقل الی صور مجردة تعلیمیہ ذات امتداد نظیرالقوالب المثالیتہ والصور المارتیہ؟’الی ان قال:’ماوقع التصریح بہ فی القرآن الکریم ہوالاول ،کما فی جواب سؤال ابراہیم ں حیث قال:رب ارنی کیف تحیی الموتی قال اولم… حکیم وقولہ تعالی فی جواب (ایحسب الانسان ان لن نجمع عظامہ بلی قادرین علی ان نسوی بنانہ) وقولہ عزشانہ فی جواب سؤال من یحیی العظام وہی رمیم قل یحییہا الذی انشاہا اول مرة وہو بکل خلق علیم وغیر ذلک من الایات۔’الی ان قال:’ولکن جماعة من اہل الحکمة المتعارفہ ذہبوا لشبہة عرضت لہم الی الثانی ولابد لنا من حلہا ودفعہا بعون اللہ تعالی۔’دوم :عقل اور نقل کے حکم کے مطابق معاد کے لازم ہونے اور روز حساب کے ثابتہونے کے بعد ،بحث اس میں ہے کہ جس چیز سے ارواح قیامت اور روز حساب تعلق رکھیں گی بعینہ و بالکل یہی دینوی اجسام ہیں کہ جن کے پراکندہ ہونے کے باوجود انھیںانہی بدنوں کو جمع کیا جائے گا خداوند عالم کے حکم کے مطابق جس طرح عقلائی اعتبارسے بھی ان ہی مطالبکی اقتضاء کرتا ہے اس لئے کہ : خداوند کی مخالفت یا موا فقیت اور اطاعت ان ہی اعضاء اورجوارح نے کی ہے پس بہتر ہے قیامت کے دن مجازات و عقوبت بھی ان ہی اعضاء وجوارح کوہونی چاہیئے اس بیان کے مطابق جزا یا سزا پانے والا وہی اطاعت یانافرمانی کرنے والا ہو یا وہ نہ ہو بلکہ ارواحمجردہ ہوں، اجسام تعلیمی کی صورتوں میں کہ جس میں امتداد بھی موجود ہو جسے مثالی (برزخی)ڈھانچہ یا ان صورتوں اور شکلوں کی طرح جو آئینوں میں منتقل ہوتی ہیں اس کے بعد آپ فرماتے ہیں :جس چیز کی قرآن کریم تصریح کرتا ہے وہ در حقیقت پہلا قول ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہاکہ اے میرے پروردگار ! تو کیسے مردوں کو زندہ کرے گا وغیرہ ………اس کے جواب میں خداوند عالم نے فرمایا : کیا تم یقین نہیں رکھتے ہو؟ اسی طرح خدا نے اس کے جواب میں فرمایا: انسان گمان کرتا ہے ہم اس کے بدن کی ہڈیوں کو جمع نہیں کریں گے بلکہ ہم یقینا جمع کریںگے اور ان ہی ہڈیوں کو پہلی حالت میں پلٹانے کی طاقت رکھتے ہیں حالانکہ ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی انگلیوں کے پور پور کو پہلی حالت پر پلٹا دیں۔خداوند رب العزت نے اس سوال کے جواب میں کہ (جب ایک شخص خدمت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ میں ایکبوسیدہ ہڈی لیکر آیا اور ہاتھوں میں پیسنے کے بعد کہتا ہے کہ کون ہے جو ان بوسیدہ ہڈیوںکو زندہ کرے گا حالانکہ یہ تو بالکل پراگندہ و متلاشی ہوچکی ہے؟۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ آپ کہہ دیجئے ! ان بوسیدہ ہڈیوں کو وہی زندہ کرے گا جس نے ابتداء میں ان کوخلق کیا ہے اور وہ ہر چیز کے خلق کرنے پر قادر وداناوتوانا ہے۔ (چاہے کوئی چیزپہلے سے ہو یا نہ ہو ۔ یا کوئی چیز ہو لیکن پراگندہ ہو چکی ہو تو اس چیز کو پہلی صورت میں پلٹا سکتا ہے ) اس طرح قرآنی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اس بدن عنصری کومادی کے سا تھ انسان کی بازگشت ہے۔لیکن فلاسفہکے ایک گروہ کے یہاں شبہہ ایجاد ہوا ہے، جس کی بنا پر وہ دوسرے قول اور نظریہ کے قائل ہیں ۔ (قیامت کے دن روح کا تعلق مثالی بدن کی شکل میں ہوگا) لہٰذا ضروری ہے کہ ان کے شبہات کو خداوند عالم کی مدد اور استعانت سے حاصل کریں ،اس کے بعد آخوند ملا صدرا کے مسلک کو خلاصہ کے طور پر بیان کرتے ہوئے اس پر انتقاد و تنقید کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’فانکار المعاد الجسمانی وعود الارواح الی الاجسام الذی یساعدہ العقل السلیم یخالف نص القران بل جمیع الادیان و انکار لما ہو ضروری الاسلام ، اعاذنا اللہ تعالی من زلات الاوہام و تسویلات الشیطان۔’معاد جسمانی کا انکار اور ارواح کا اجسام میں پلٹنا جس پر عقل بھی مساعدہے اور اس کو مانتی ہے یہ انکار قرآن کریم کے نص کے خلاف ہے بلکہ یوں عرض کروں تمام ادیان کے خلاف ہے اور دین مقدس اسلام کے ضروریات کا ا نکار ہے خداوند عالم ہم کو ایسی وہمی غلطیوں اور لغزشوں سے محفوظ رکھے اور شیطانی افکار اور وسوسوں سے نجات د ے۔٢۔ جناب آیة اللہ احمد خوانساری بحث معاد میں فرماتے ہیں پس بیشک جو بدن قیامت کے دن محشور ہوگاوہ یہی مادی و عنصری بدن ہے، چنانچہ یہ مطلب بالکل صراحت کے ساتھ قرآنی آیات و احادیث میں موجود ہے اور کبھی کہاجاتا ہے قیامت کے دن جو بدن محشور ہوگا وہ یہ بدن مادی نہیں ہے بلکہ بدن مثالی ہے جو خداوند عالم کے اذن سے نفس کے ذریعہ وجود میں آیا ہے اور یہ بدن مثالی مختلف ہے اختلاف ملکات نفسانیہ کی بناپر کہ جو دنیا میں حاصل ہوا ہےاس کے بعد شروع کرتے ہیں شبہوں کو ذکر کرنا اور ان کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔اس بحث میں کچھ شبہات موجودہیںکہ جو دوسرے قول سے مناسبت رکھتے ہیں ۔ (وہ یہ کہ قیامت میں مثالی بد ن محشور ہونگے ) اس کے بعدشبہوں کو ذکر کرتے ہوئے ان کا جواب دیتے ہیں۔اس کے بعد وہ آیات اور روایات جو معاد کومذکورہمعنی میں ثابت کرتی ہیں ان کو ذکر کرتے ہیں۔٣۔ مرحوم آیةاللہ مرزا محمد تقی آملی رحمة اللہ علیہ فقیہ وفلسفی ، تعلیقہ شرح منظومہ کے درر الفوائد میں توضیح اور تعلیق کے بعد اس سلسلے میں جس کو مصنف نے اختیار کیا ہے فرماتے ہیں یہ آخری چیز ہے جو کہ اس طریقہ کے بارے میں کہا جاسکتاہے لیکن حقیقت مطلب ومفہوم یہ ہے کہ :’ہذا غایة ما یمکن ان یقال فی ہذہ الطریقة ولکن الانصاف انہ عین انحصار المعاد بالروحانی لکن بعبارة اخفی فانہ بعد فرض کون شیئیة الشیء بصورتہ وانّ صورة ذات النفس ہو نفسہ وان المادة الدنیویة لمکان عدم مدخلیتھا فی قوام الشیء لایحشر، وان المحشور ہوالنفس ،غایة الامر اما مع انشائہا لبدن مثالی قائم بہا قیاما صدوریاً مجرداًعن المادة ولوازمہا الا المقدار کما فی نفوس المتوسطین من اصحاب الشمال او اصحاب الیمین و اما بدون ذلک ایضاً کما فی المقربین (ولعمری) ان ہذا غیر مطابق مع ما نطق علیہ الشرع المقدس علی صادعہ السلام والتحیةوانا اشہد اللہ وملائکتہ وانبیائہ ورسلہ انی اعتقد فی ہذہ الساعة وہی ساعة الثلاث من یوم الأحد الرابع عشر من شہر شعبان المعظم سنة ١٣٦٨ فی امر المعاد الجسمانی بما نطق بہ القران الکریم واعتقد بہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ والائمة المعصومین صلوات اللّٰہ علیہم اجمعین وعلیہ اطبقت الامة الاسلامیة …’یہ آخری چیز ہے جو اس طریقہ وروش کے بارے میں کہی جاسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس بات سے معاد کا معاد روحانی میںثابت ہونا منحصر ہے مگر یہ بات نہایت ہی پوشیدہ اورمخفی طور پر کہی گئی ہے بس جب ہم نے فرض کر لیا کہ کسی شے کی ہستی اور وجوداسی صورت میں اور یہ کہ صاحب نفس کی صورت خود اس کا نفس ہے اور یہ کہ دنیوی مادہ کسی شے میں مداخلت نہ رکھنے کی وجہ سے محشور نہیں ہوگااور یہ کہ قیامت کے دن جو چیز محشور ہوگی وہ وہی نفس ہے نہایت امر یا جسم مثالی نفس کے انشاء سے حاصل ہوتا ہیکہ اس بدن مثالی کا قیام ایک قسم کا صدور جو مادہ اور لوازم مادہ سے عاری ہے سوائے مقدار کے ۔چنانچہ یہ مطلب نفوس متوسطہ جیسے اصحاب شمال (جہنمیوں) یا اصحاب یمین (بہشتیوں) میںموجود ہے ۔ یا انشائے نفس کے بغیر ہے جسم مثالی محشور ہوتا ہیجس طرح یہ بات مقربین سے مخصوص ہے، لیکن مجھیاپنی جان کی قسم ہے کہ یہ عقیدہ شریعت مقدسہ کے مطابق نہیں ہے کہ اس شریعت کے مبلغ اور مبین پر (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ) درود وسلام ہو،اور میںاللہ اور اس کے ملائکہ اور انبیاء و مرسلین کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ اس وقت ١٤شعبان المعظم ١٣٦٨ھ اتوار کے دن تین بجے ، اس معاد جسمانی پر میرا عقیدہ ہے کہ جس کو قرآن مجید اور حضور اکرم ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ اور ائمہ معصومین (ع) نیبیان فرمایا ہے اور اس بیان پر میرا عقیدہ استوارو قائم ہے اور اس پر تمام امت اسلامی کا اتفاق ہے ان تین اقوال میں ملاصدرا کے نظریہ اور عقیدہ کو شدت سے رد کیا گیا ہے ۔ اور وہی معاد جسمانی کا عقیدہ تمام علماء وفقہاء اور محدثین کی نظر میں مورد قبول واقع ہوا ہے۔