جہاد اور شہادت
خداوند عالم قرآن مجيد ميں فرماتا ہے كہ ‘ جو لوگ ايمان لے آئے ہيں اور اپنے وطن سے ہجرت كر لى ہے اور اپنے مال اور جان سے خدا كے راستے ميں جہاد كرتے ہيں وہ اللہ كے نزديك ايك بلند و بالا مقام اور رتبہ ركھتے ہيں اور وہى نجات پانے والے لوگ ہيں خدا انہيں اپنى رحمت اور رضوان اور بہشت كى كہ جس ميں دائمى نعمتيں موجود ہيں خوشخبرى اور بشارت ديتا ہے_ وہ بہشت ميں ہميشہ رہيں گے اور يقينا اللہ تعالى كے نزديك يہ ايك بہت بڑى جزا اور ثواب ہے_ (494)
اللہ تعالى فرماتا ہے كہ ‘ اللہ تعالى نے مجاہدوں كو جہاد نہ كرنے والوں پر بہت زيادہ ثواب ديئے جانے ميں برترى اور بلندى دى ہوئي ہے_ (495)رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ ‘ بہشت كا ايك دروازہ ہے كہ جس كا نام باب المجاہدين ہے_ جب مجاہد بہشت كى طرف روانہ ہوں گے تووہ دروازہ كھل جائيگا جب كے جانے والوں نے اپنى تلواروں كو اپنے كندھوں پر ڈال ركھا ہو گا دوسرے لوگ قيامت كے مقام پر كھڑے ہونگے اور فرشتوں ان كا استقبال كريں گا_ (496)پيغمبر اسلام نے فرمايا ہے كہ ‘ ہر نيكى كے اوپر كوئي نہ كوئي اور نيك موجود ہے يہاں تك كہ انسان اللہ كے راستے ميں مارا جائے كہ پھر اس سے بالاتر اور كوئي نيكى موجود نہيں ہے_ (497)امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ‘ جو شخص اللہ كے راستے ميں شہادت پالے تو خداوند عالم سے اس كا كوئي ياد نہيں دلائے گا_ (498)رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ ‘ خداوند عالم شہيد كو سات چيزيں عنايت فرمائيگا_ 1_ جب اس كے خون كا پہلا قطرہ بہتا ہے تو اس كے تمام گناہ معاف كر ديتا ہے_ 2_ شہادت كے بعد اس كا سر دو حوروں كے دامن ميں قرار ديتا ہے اور وہ اس كے چہرے سے غبار كو ہٹاتى ہيں اور كہتى ہيں_ تم پر شاباش ہو وہ بھى ان كے جواب ميں ايسا كہتا ہے_ 3_ اسے بہشت كا لباس پہنايا جاتا ہے_ 4_ بہشت كے خزانچى اس كے لئے بہترين عطر اور خوشبو پيش كرتے ہيں كہ ان ميں سے جسے چاہے انتخاب كرلے_5_ شہادت پانے كے وقت وہ اپنى جگہ بہشت ميں ديكھتا ہے_ 6_ شہادت كے بعد اس كى روح كى خطاب ہوتا ہے كہ بہشت ميں جس جگہ تيرا دل چاہتا ہے گردش كر_ 7_ شہيد اللہ تعالى كے جمال كا مشاہدہ كرتا ہے اور اس ميں ہر پيغمبر اور شہيد كو آرام اور سكون ہے_(499)
خدا قرآن ميں فرماتا ہے كہ ‘ خداوند عالم مومنين كے جان اور مال كو خريد تا ہے تا كہ اس كے عوض انہيں بہشت عنايت فرمائے يہ وہ مومن ہيں جو اللہ كے راستے ميں جنگ كرتے ہيں اور دشمنوں كو قتل كرتے ہيں اور خود بھى قتل ہوجاتے ہيں يہ ان سےاللہ تعالى كا وعدہ ہے جو تو رات اور انجيل اور قرآن ميں اللہ تعالى نے لكھ ديا ہے اور اللہ تعالى سے كون زيادہ وعدہ كو پورا كرنے والا ہے؟ تمہيں يہ معاملہ مبارك ہو كہ جو تم نے خدا سے كر ليا ہوا ہے اور يہ ايك بڑى سعادت ہے_ (500)قرآن مجيد كى يہ آيت ايك بڑى لطيف اور خوش كن آيت ہے كہ جو لوگوں كو عجيب اور لطيف ارو ظريف انداز سے جہاد كا شوق دلاتى ہے _ ابتداء ميں كہتى ہے _ كہ اللہ تعالى نے مومنين كے مال اور جان كو خريد ليا ہے اور اس كے عوض ان كو بہشت ديتا ہے يہ كتنا بہترين معاملہ ہے؟ اللہ تعالى جو غنى مطلق اور جہان كا مالك ہے وہ خريدار ہے اور فروخت كرنے والے مومنين ہيں جو خدا اور آخرت پر ايمان ركھتے ہيں_ اور جن چيزوں پر معاملہ كيا ہے وہ مومنين كے مال اور جان ہيں اور اس معاملہ كا عوض بہشت ہے اس كے بعد خدا فرماتا ہے كہ تورات اورانجيل اور قرآن يعنى تين آسمانى بڑى كتابيں ہيں جن ميں اس طرح كا ان سے وعدہ درج كيا گيا ہے_ پھر خدا فرماتا ہے كہ كس كو پيدا كر سكتے ہو كہ اللہ تعالى سے وعدہ پر عمل كرے آخر ميں خدا مومنين كو خوشخبرى ديتا ہے كہ يہ ايك بہت بڑى نيك بختى اورسعادت ہے_
قرآن مجيد ان لوگوں كے لئے جو خدا كے راستے ميں شہيد ہوجاتے ہيں مقامات عاليہ كو ثابت كرتا ہے اور فرماتا ہے كہ ‘ ان لوگوں كو مردہ گمان نہ كرو جو اللہ كے راستے ميں شہيد ہوجاتے ہيں بلكہ وہ زندہ ہيں اور اللہ تعالى كے ہاں روزى پاتے ہيں_ (501) لفظ عندہم جو اس آيت ميں ہے وہ بلند و بالا مقام كى طرف اشارہ ہے مرنے كے بعد انسان كى روح كا زندہ رہنا شہيدكے ساتھ مخصوص نہيں ہے بلكہ تمام انسان زندہ ہيں ليكن شہداء كى خصوصيت يہ ہے كہ شہيد اللہ كے ہاں عاليترين مقامات اور درجات ميں زندہ رہتا ہے اور انہيں مقامات عاليہ ميں روزى ديا جاتا ہے اور يہ واضح ہے كہ ان مقامات ميں روزى ديا جانا دوسروں كے ساتھ مساوى اور برابر نہيں ہے_ اللہ تعالى كے راستے ميں شہادت بہت بڑى قيمت اور بڑى عبادت ہے_ عارف اس ممتاز راستے ميں عالى مقامات تك جاپہنچتا ہے_ اس بزرگ عبادت كو دوسرى عبادت سے دو چيزوں كى وجہسے خصوصيت اورامتياز حاصل ہے_ پہلي_ مجاہد انسان كى غرض اور غايت اپنے ذاتى مفاد اور لواحقين كے مفاد كو حاصل كرنا نہيں ہوتا وہ كوتاہ نظر اور خودخواہ نہيں ہوتا بلكہ وہ جہاں ميں خدا خواہ ہوا كرتا ہے_ مجاہد انسان كلمہ توحيد اور اسلام كى ترويج اور وسعت كو چاہتا ہے اور ظلم اور ستم اور استكبار كے ساتھ مبارزہ اور جہاد كرتا ہے اور محروم طبقے اور مستضعفين سے دفاع كرتا ہے اور اجتماعى عدالت كے جارى ہونے كا طلبكار ہوتا ہے اور چونكہ يہ غرض سب سے بلند اور بالا ترين غرض ہے لہذا وہ اعلى درجات اور مراتب كو پاليتا ہے_
دوسرى _ ايثار كى مقدار
مجاہد انسان اللہ تعالى سے تقرب اور اس كى ذات كى طرف سير اور سلوك كے لئے ارزشمند اور قيمتى چيز كا سرمايہ ادا كرتا ہے اگر كوئي انسان صدقہ ديتا ہے تو تھوڑے سے مال سے درگذر اور صرف نظر كرتا ہے اور اگر عبادت كرتا ہے تو تھوڑا سا وقت اور طاقت اس ميں خرچ كرتا ہے ليكن مجاہد انسان تمام چيزوں سے صرف نظر اور درگذر كرتا ہے اور سب سے بالاتر اپنى جان سے ہاتھ دھوليتا ہے اور اپنى تمام ہستى كو اخلاص كے ساتھ اللہ تعالى كے سپرد كر ديتا ہے_ مال اور جاہ و جلال مقام اور منصب اور اہل اور عيال اور رشتہ داروں سے صرف نظر كرتا ہے اور اپنى جان اور روح كو اپنے پروردگار كے سپرد كر ديتا ہے_ جس كام كو متدين اور عارف لوگ پورى عمر كرتے ہيں مجاہد انسان ان سب سے زيادہ تھوڑے سے وقت ميں انجام دے ديتا ہے_ مجاہد انسان كى عظيم او رنورانى روح كے لئے ماديات اور مادى جہان تنگ ہوتا ہے اسى واسطے وہ شير كى طرح مادى جہان كے پنجرے كو توڑتا ہے اور تيز پرواز كبوتر كى طرح وسيع عالم اور رضايت الہى كى طرف پرواز كرتا ہے اور اعلى مقامات اور مراتب تك اللہ تعالى كى طرف جاپہنچتا ہے_ اگر دوسرے اولياء خدا سارى عمر ميں تدريجاً محبت اور عشق اور شہود كے مقام تك پہنچتے ہيں تو مجاہد شہيد ايك رات ميں سو سال كا راستہ طے كر ليتا ہے اورمقام لقاء اللہ تك پہنچتا ہے _ اگر دوسرے لوگ ذكر اور ورد قيام اور قعود كے وسيلے سے اللہ كا تقرب حاصل كرتے ہيں_ تو اللہ تعالى كے راستے ميں جہاد كرنے والا انسان زخم اور درد سختى اور تكليف كو برداشت كرتے ہوئے اپنى جان كى قربانى دے كر اللہ تعالى كا تقرب ڈھونڈتا ہے_
ان دو ميں بہت زيادہ فرق ہے_ جنگ اور جہاد كا ميدان ايك خاص قسم كى نورانيت اور صفا اور معنويت ركھتا ہے_ شور و شفب اور عشق اور حركت اور ايثار كا ميدان ہے_ محبوب كے را ستے ميں بازى لے جانے اور ہميشگى زندگى كا ميدان ہے_ مورچے ميں بيٹھتے والوں كا زمزمہ ايك خاص نورانيت اور صفا اور جاذبيت ركھتا ہے كہ جس كى نظير اور مثال مساجد اورمعابد ميں بہت كم حاصل ہوتى ہے_
494_الذين آمنوا و ہاجروا و جاہدوا فى سبيل اللہ باموالہم و انفسہم اعظم درجة عنداللہ و اولئك ہم الافائزون_ يبشّرہم ربّہم برحمة منہ و رضوان و جنات لہم فيہا نعيم مقيم_ خالدين فيہا ابداً انّ اللہ عندہ اجر عظيم_ توبہ/ 20495_و فضّل اللہ المجاہدين على القاعدين اجراً عظيما_ نساء / 95_496_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ:للجنّة باب يقال لہ باب المجاہدين يمضون اليہ فاذا ہو مفتوح و ہم متقلّدون بسيوفہم و الجمع فى الموقف و الملائكة ترحب بہم_ وسائل/ ج 11 ص 5_497_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ:فوق كل ذى برّ برّ حتى يقتل فى سبيل اللہ، فاذا قتل فى سبيل اللہ فليس فوقہ برّ_ وسائل/ ج 11 ص 10_498_قال ابوعبداللہ (ع): من قتل فى سبيل اللہ لم يعرفہ اللہ شيئاً من سيئاتہ_ وسائل/ ج 11 ص 9_499_قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ و آلہ:للشہيد سبع خصال من اللہ: اول قطرة من دمہ مغفور لہ كل ذنب_ و الثانية يقع راسہ فى حجر زوجتہ من الحور العين و تسمحان الغبار عن وجہہ و تقولان مرحبا بك و يقول ہو مثل ذالك لہما_ و الثالثة يكسى من كسوة الجنة_ و الرابعة تبتدرہ خزنة الجنة بكل ريح طيّبہ ايّہم ياخذہ معہ_ و الخامسة ان يرى منزلہ_ والسادسہ يقال لروحہ اسرح فى الجنة حيث شئت_ والسابعة ان ينظر فى وجہ اللہ و انّہا لراحة لكل نبيّ و شہيد_ وسائل/ ج 11 ص 9_500_انّ اللہ اشترى من المؤمنين انفسہم و اموالہم بانّ لہم الجنة_ يقاتلون فى سبيلاللہ فيقتلون و يقتلون وعداً عليہ حقاً فى التورات و الانجيل و القرآن و من اوفى بعہدہ من اللہ فاستبشروا ببيعكم الذى بايعتم بہ و ذالك ہو الفوز العظيم_ توبہ/ 111_501_و لا تحسبن الذين قتلوا فى سبيل اللہ امواتاً بل احياء عند ربّہم يرزقون_ آل عمران/ 169_