انفاق ہر چیز اور ہر طریقہ سے

156

<اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اٴَمْوَاْلَہُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّہٰارِ سِرّاًوَّعَلَاْنِیَةً فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَاْ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاْ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ>(سورئہ بقرہ: آیت۲۷۴)جولوگ اپنے اموال کو راہ خدا میں رات میں ،دن میں، خاموشی سے اور علانیہ خرچ کرتے ہیں ان کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ حزن۔
توضیحبہت سی روایات میں آیا ہے کہ یہ آیت حضرت علی کی شان میں نازل ہوئی ہے اس لئے کہ آپ نے ایک درہم رات میں ، ایک درہم دن میں، ایک درہم علانیہ اورایک درہم خاموشی سے اور پوشیدہ طور سے راہ خدا میں انفاق کیا تھا۔ لیکن قرآن کریم نے اسے انفاق کے مختلف طریقے اور کیفیتوں کے سلسلہ میں ایک حکم کے عنوان سے بیان کیا ہے اور انفاق کرنے والوں کی یہ ذمہ داری قرار دی ہے کہ وہ علانیہ اور پوشیدہ انفاق کرنے کے لحاظ سے سامنے والے کی اخلاقی اور سماجی حیثیت اورعزت و آبرو کی حفاظت کا خاص خیال رکھیں۔یعنی جب حاجت مند پر انفاق کو ظا ہر کرنے کی کوئی علت اور سبب نہ ہو تو ان کی عزت و آبرو کی حفاظت اور مزید خلوص کے لئے پوشیدہ طور پر انفاق کیا جائے اور جہاں پر کوئی مصلحت (مثلاً دینی شعائر کی تعظیم کرنا، دوسروں میں شوق پیدا کرناہو)اور کسی حاجت مند مسلمان کی بے عزتی اور توہین کا سبب نہ ہو تو علانیہ انفاق کیا جا سکتا ہے۔پروردگار عالم اس طرح انفاق کرنے والوں کو اجر و ثواب کیخوشخبری دیتے ہوئے فرماتا ہے: –“فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَاْ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَاْ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ”(ان کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ حزن) چونکہ انسان زندگی بسر کرنے کے لئے اپنے آپ کو مال و دولت سے بے نیاز نہیں پاتاہے لہٰذا وہ عام طور سے انہیں کھو دینے پر غمگین ہو جاتا ہے اس لئے کہ وہ نہیں جانتا کہ آئندہ اس کے حالات کیسے ہو ں گے ۔یہی فکر بہت سے مواقع پرانسان کو انفاق کرنے سے روک دیتی ہے۔ لیکن وہ لوگ جو ایک طرف پروردگار کے کئے ہوئے وعدوں پر ایمان رکھتے ہیں اور دوسری طرف انفاق کے سماجی اثرات و برکات کو جانتے ہیں ۔ ایسے لوگ راہ خدا میں انفاق کرتے ہیں نہ آئندہ کے سلسلہ میں فکر مند اور خوف زدہ ہوتے ہیں اور نہ مال کے چلے جانے پر غمگین ہوتے ہیںاس لئے کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انہوں نے جو چیز راہ خدا میں دی ہے اس سے کہیں زیادہ فضل خدااور اس کی انفرادی سماجی اور اخلاقی برکتوں میں سے اسے اس دنیا میں بھی حاصل ہو گا آخرت میں بھی۔<قُل لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا یُقِیْمُواالصَّلٰوةَ وَ یُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنَا ہُمْ سِرّاًوَّ عَلَاْنِیَةًمِّنْ قَبْلِ اٴَنْ یَّا تِیَ یَوْمٌ لاَّ بَیْعٌ فِیْہِ وَلَاْ خِلَاْلٌ>اورآپ میرے ایماندار بندوں سے کہہ دیجئے کہ نمازیں قائم کریں اور ہمارے رزق میں سے چھپا کر اور علانیہ ہماری راہ میں انفاق کریں قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جب نہ تجارت کام آئے گی اور نہ دوستی۔(سورئہ ابراہیم آیت/۳۱)
تو ضیحپروردگار عالم پہلے فرماتا ہے کہ: اے میرے رسول آپ میرے با ایمان بندوں سے کہہ دیجئے کہ نماز قائم کریں اور جو کچھ بھی میں نے انہیں روزی عطا کی ہےاس میں سے چھپا کر اور علانیہ انفاق کریں”قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا یُقِیْمُواالصَّلٰوةَ وَ یُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنَا ہُمْ سِرّاًوَّ عَلَاْنِیَةً”اس کے بعد فرماتاہے :قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس دن نہ ہی تجارت کام آئے گی کہ انسان اس کے ذریعہ اخروی سعادت اور عذاب سے نجات کو خریدسکے اور نہ ہی کوئی دوستی اور رفاقت کام آئے گی (مِنْ قَبْلِ اٴَنْ یَّا تِیَ یَوْمٌ لاَّ بَیْعٌ فِیْہِ وَلَاْ خِلَاْلٌ)بے شک اس دن بازار عمل بند ہو جائے گا اور کسی طرح کی کوئی بھی خرید و فروخت اور تجارت نہ ہوگی ۔ صرف وہی زاد راہ کام آئے گا جسے پہلے سے مہیا کر رکھا ہے اور ہر شخص اپنے عمل کے مطابق جزایا سزا پائے گا ۔ ایسے دن کے لئے بہترین زاد راہ یہی انسانی امداد اور حاجت مندوں پر انفاق کرنا ہے۔

۱۶ . پوشیدہ طور پر انفاق بہتر ہے<اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا ھِیَ وَاِنْ تُخْفُوْھَا وَ تُوٴْتُوْھَا الْفُقَرَ آءَ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ یُکَفِّرُ عَنْکُمْ مِنْ سَیِّئَاتِکُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ> (سورئہ بقرہ آیت/ ۲۷۱)اگرتم صدقہ کو کھلے عام دوگے تویہ بھی ٹھیک ہے ۔اور اگر چھپا کر فقراء کے حوالے کردوگے تو یہ بھی بہت بہتر ہے لہٰذا اس کے ذریعہ تمہارے بہت سے گناہ معاف ہو جائیں گے اور خدا تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔
وضاحتبے شک راہ خدا میں انفاق کرنا چاہئے علانیہ ہو یا چھپا کر ہر ایک کا مفید اور نفع بخش اثر اور فائدہ ہوتا ہے ۔اس لئے کہ جب انسان کھلے عام اپنے مال کو راہ خدا میں خرچ کرتا ہے اور اگر یہ انفاق واجب ہو تو لوگوں کو اس طرح کے نیک کام کے شوق کے علاوہ انفاق کرنے والے سے اس تہمت کو دور کرتا ہے کہ اپنے واجب وظیفہ پر عمل نہیں کیا ۔اور اگر مستحب ہو تو در حقیقت یہ ایک طرح کی عملی تبلیغ ہے کہ لوگوں کوعمل صالح ،محرومین اور فقراء کی حمایت اور مدد اور عوامی منفعت کے کاموں کو انجام دینے کا شوق پیدا کرتا ہے ۔اوراگر خفیہ طور سے اور لوگوں کی نظروں سے دور ہو کر انفاق کیا جائے تو اس میں ریا کاری کا امکان کم ہوجاتا ہے بلکہ مزید خلوص کے ساتھ انجام پاتا ہے خاص طور سے فقراء کی مدد کرنے میں ان کی عزت و آبرو کی حفاطت زیادہ بہتر طریقہ سے ہوتی ہے ۔ اس لئے آیت کہہ رہی ہے :”دونوں طریقہٴ انفاق بہتر ہےں لیکن خفیہ انفاق زیادہ بہتر ہے۔ “بعض مفسرین نے کہاہے کہ یہ حکم مستحبی انفاق کے بارے میں ہے اور واجبی انفاق جیسے زکوٰةوغیرہ میں بہتر یہ ہے کہ ہمیشہ علانیہ ہونا چاہئے لیکن یہ بات مسلّم ہے کہ دو نوں حکم (انفاق کو ظاہر کرنا یا مخفی کرنا)میں کوئی ایک بھی حکم عمومی نہیں ہے بلکہ مواقع کے مختلف ہونے کے اعتبار سے ہیں لہٰذا جب تشویق کا اثر زیادہ ہواور خلوص کے لئے نقصان دہ نہ ہو تو بہتر ہے کہ علانیہ انفاق کیا جائے اور جب آبرو منداور باعزت افراد ہوں اور ان کی عزت وآبرو کی حفاظت کا سبب بنے کہ خفیہ اور پوشیدہ طور سے انفاق کیا جائے اور ریاکاری یا خلوص کے ختم ہو جانے کا ڈر ہو تو ایسی صورت میں خفیہ طور سے انفاق کرنا بہتر ہے۔بعض حدیثوں میںآیا ہے کہ واجبی انفاق کو علانیہ اور مستحبی انفاق کو پوشیدہ طور پر ہونا چاہئے۔حضرت امام جعفرصادق سے منقول ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: زکوٰة واجب کو کھلے عام اپنے مال سے نکالو اور کھلے عام انفاق کرو لیکن مستحبی انفاق کو اگر پوشیدہ طور سے خرچ کرو تو زیادہ بہتر ہے۔اس طرح کی دیگر احادیث گذشتہ باتوں کے خلاف نہیں ہیں اس لئے کہ واجب ذمہ داریوںکی انجام دہی میں دکھاوے کی گنجائش کم ہوتی ہے اس لئے کہ واجب ہے اور ہر شخص کو انجام دینا واجب ہے اور ایک لازمی مالیات اور ٹیکس کے مانند ہے جسے ہر فرد کو ادا کرنا ضروری ہے لہٰذا اس کو کھلے عام انجام دینا بہتر ہے۔ لیکن مستحبی انفاق جس میں وجوب کا پہلو نہیں ہوتا لیکن ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کو علانیہ اور ظاہر کرنا خلوص نیت کے لئے مضر اور نقصان دہ ہو لہٰذا اس کو پوشیدہ طور سے انجام دیناہی زیادہ بہتر ہے۔”وَ یُکَفِّرُ عَنْکُمْ مِنْ سَیِّئَاتِکُم ” اس جملہ سے معلوم ہوتاہے کہ راہ خدامیں انفاق کا گناہوں کی بخشش میں بہت گہرا اثر ہے اس لئے کہ حکم انفاق کے بعد اسی جملہ میں فرمایا ہے :اور پروردگار تمہارے گناہوں کومعاف کردے گا ۔البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چھوٹے سے انفاق کے اثر میں سارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے بلکہ کلمہ “من” جو عام طور سے تبعیض یعنی (بعض ) کے لئے استعمال ہوتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انفاق گناہوں میں سے بعض گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بنتا ہے اور وہ بھی انفاق کی مقدار اور میزان خلوص سے مربوط ہے ۔انفاق گناہوں کی بخشش کا سبب ہے اس سلسلہ میں شیعہ وسنی دونوں کتابوں میں بہت سی روایات وارد ہوئی ہیں ۔انہیں میں سے ایک حدیث یہ بھی ہے کہ: پو شیدہ طورپر انفاق کرنا غضب الٰہی کو ختم کر دیتا ہے اورجس طرحپانی آگ کو بجھا دیتا ہے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔ایک دوسری روایت میں اس طرح آیا ہے کہ :سات لوگ ایسے ہیں جنہیںاللہ اس دن اپنی رحمت کے سایہ میں لئے ہوگا جس دن اس کے سایہٴ رحمت کے علاوہ کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا :۱۔ حاکم عادل،۲۔ وہ جوان جو عبادت اور بندگی ٴ خدا میں پروان چڑھے ،۳۔ جس کا دل مسجد سے وابستہ ہو،۴۔ وہ لوگ جو دوسروں کو اللہ کے لئے دوست رکھتے ہیں اور محبت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہوتے ہیں اور عشق و محبت کے ساتھ جدا ہوتے ہیں۔۵۔ وہ شخص جسے ایک خوبصورت اور صاحب مقام و منزلت عورت گناہ کی دعوت دے اور وہ شخص خدا کے خوف سے گناہ پر آمادہ نہ ہو ۔۶۔ وہ شخص جو پوشیدہ طور سے انفاق کرے اس طرح سے کہ اگر داہنے ہاتھ سے انفاق کرے تواس کا بایاں ہاتھ با خبر نہ ہو ۔۷۔ جو شخص تنہائی میں خدا کو یاد کرے اور اس کی آنکھوں سے اشک جاری ہو جائیں ۔”وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ” اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ بھی انفاق کیا جا تا ہے خدا اس سے با خبر ہے چاہے علانیہ ہو یا پوشیدہ طور پر۔ اسی طرح وہ تمہاری نیتوں سے بھی باخبر ہے ۔ انفاق کو علانیہ یا پوشیدہ طور سے کس مقصد کے تحت انجام دے رہے ہو ۔بہر حال انفاق میں جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے مالپاک و پا کیزہ ہواور عمل میں خلوص ہو دوسروں کے باخبر ہونے یا نہ ہونے کا کوئی اثر نہیں ہے بلکہ علم خدامیں آنا اور اس کا آگاہ ہونا ہی سب سے اہم چیزہے اسلئے کہ وہ علیم ہے اور وہی ہر عمل کی جزا دینے والاہے اور ہر ظاہر وباطن سے باخبر ہے۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.