عمل اور رد عمل کا سلسلہ
اسی طرح خداوند عالم نے ان خواہشات کے ضمن میں نفس انسانی کے اندر علم ومعرفت ،یقین اور بندگی کے خزانے بھی ودیعت فرمائے ہیں۔نفسانی خواہشات در حقیقت حیوانی وجود کا مقدمہ ہیں اوران خواہشات کا اکثر حصہ حیوانات کے اندر پایا جاتا ہے صرف انسان ایک ایسی مخلوق ہے جسکو خداوند عالم نے ‘ارادہ’کے ذریعہ ان خواہشات پرغلبہ حاصل کرنے ،انہیں روکنے یامحدود رکھنے کی صلاحیت بھی عنایت فرمائی ہے اوراسی ارادہ کے ماتحت ہوجانے کے بعد یہ اڑیل اور خود سر حیوانی خصلتیں بھی بہترین روحانی اور اخلاقی فضائل و اقدار ،بصیرت ویقین، عزم واستقلال اور تقوی وپرہیزگاری جیسی حسین شکل اختیار کر لیتی ہیں۔وہ خواہشات جن سے انسان کے اندر حیوانی اور جسمانی پہلو کی تشکیل ہوتی ہے یہ جب کنٹرول اور قابو میں رکھنے والے اسباب کے ماتحت آتی ہیں تو اخلاقی اقدار میں تبدیل ہوجاتی ہیںاور وہی خواہشات اس کے ‘انسانی’پہلو کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ یہ خود سرحیوانی خواہشات تقویٰ اور پرہیزگاری کے ذریعہ کس طرح ان بلندوبالا انسانی اقدار میں تبدیل ہوتی ہیں اور تقوی و پرہیز گاری کی بنا پر نفس کے اندرکس قسم کے تغیرات اورتبدیلیاںرونماہوتے ہیں جو اس حیوانی خصلت کو علم ویقین اور صبر و بصیرت میں تبدیل کردیتے ہیں؟اسکا جواب ہمیں نہیں معلوم ہے۔بلکہ نہایت افسوس کے ساتھ کہناپڑتاہے کہ ایک تویہ کہ ہمیں یہ بات معلوم نہیں ہے۔ اور مزیدافسوس یہ کہ علم ومعرفت کا یہ وسیع باب انسان کیلئے آج تک نہ کھل سکا اور قدیم وجدیدماہرین نفسیات یہاں تک کہ اسلامیات کے ماہرین میں سے کوئی بھی آج تک اس گتھی کو سلجھا نے میںکامیاب نہیںہوسکاہے۔لیکن جب ہم خود اپنے نفس کے اوپر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں اسکے اندربڑے پیمانہ پر رونما ہونے والے عمل اور رد عمل کے سلسلہ کا صاف اشارہ ملتاہے جیسے حیا ئ،جنسی خواہشات پر غلبہ حاصل کرنے کا ‘ذریعہ’ہی نہیں ہے بلکہ حیاء ان خواہشات کو کچلنے کا ‘نتیجہ’بھی ہے۔چنانچہ انسان ادب،فن اور ذوق کے غیر اخلاقی مواقع پر جس حد تک جنسی خواہشات کو کچلتارہتاہے اس کی حیامیں اتنا ہی اضافہ ہوتاجاتاہے ۔ادب سے ہمار ی مراد ،ہرگز بدکاری نہیںہے البتہ وہ بلندپایہ ادب ،فن اور ذوق جس کی بناء انسان حیوانیت سے ممتاز ہوتاہے وہ اسی قوت برداشت اور تقوی کی بناء پر حاصل ہوتا ہے۔اس سلسلہ میں جب ہم قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں تو اسکے اندر بھی ہمیں واضح طورپر اشارے ملتے ہیں جو ہمیںاپنے نفس کے بارے میں غور کرنے سے حاصل ہورہے تھے ۔خداوند عالم کا ارشاد ہے:(۔۔۔واتقوااﷲ ویعلمکم اﷲ۔۔۔)(١)…………..(١)سورئہ بقرہ آیت ٢٨٢۔’یعنی تم پر ہیزگار اور متقی بن جائواور خداوند عالم تم کو دولت علم عطا فرمائے گا’اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس آیت کا دوسرا جملہ ( ویعلمکم اﷲ)پہلے جملہ پر بغیرکسی رابطہ کے عطف کیا گیاہے اوران دونوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے؟ یا ایسا نہیں ہے بلکہ علم و تقویٰ میں گہرا رابطہ ہے اور یہ دونوں جملے در حقیقت ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں ۔ اور ایک ترازو کے دوپلڑوںکی طرح ہیں؟جو شخص بھی قرآن مجید کے اسلوب سے باخبر ہے وہ اسمیں کوئی شک وشبہ نہیں کرسکتا اوروہ یقینی طورپر جانتاہے کہ یہ دونوں جملے ایک ہی ترازو کے دوپلڑوںکی مانند ہیں۔ خداوند عالم نے اپنے بندوںکے لئے یہاں جس علم کاتذکرہ فرمایا ہے وہ علم تقویٰ کا ہی نتیجہ اور اثر ہے اور یہ علم اس علم سے بالکل مختلف ہے جسے ہم تعلیم کے ذریعہ حاصل کرتے ہیں۔ یہ علم، نور ہے جو خداوند عالم اپنے جس بندے کو چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے۔اس نور کی طرف سورئہ حدید کی یہ آیۂ کریمہ بھی اشارہ کر رہی ہے:(یاأیھاالذین آمنواا تقوااﷲ وآمنوابرسولہ یؤتکم کفلین من رحمتہ ویجعل لکم نوراً تمشون بہ)(١)’ایمان والو اﷲ سے ڈرو اور رسول پر واقعی ایمان لے آئو تاکہ خدا تمہیں اپنی رحمت کے دوہرے حصے عطا کردے اور تمہارے لئے ایسا نور قرار دیدے جسکی روشنی میں چل سکو’اس نور سے مراد علم ہے لہٰذا سورئہ بقرہ اور سورئہ حدید دونوں مقامات پرعلم اور تقویٰ کے درمیان ایک جیسارابطہ پایا جاتا ہے۔تقویٰ خواہشات کے طوفان کے سامنے بند باندھنے کا نام ہے اور خواہشات کے سامنے۔…………..(١)سورئہ حدید آیت٢٨۔لگائی جانے والی یہی بندش ایک دن نور علم و بصیرت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔جناب یوسف کے واقعہ کے ذیل میں ارشاد الٰہی ہے :(ولمابلغ أشدہ آتیناہ حکماً وعلماً وکذٰلک نجزی المحسنین)(١)’اور جب یوسف اپنی جوانی کی عمر کو پہونچے تو ہم نے انہیں حکم اور علم عطا کردیا کہ ہم اسی طرح نیکی کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں’جناب موسیٰ کے قصہ میں بھی بعینہ یہی تذکرہ موجودہے :(ولمابلغ أشدہ واستویٰ آتیناہ حکماً وعلماً وکذٰلک نجزی المحسنین)(٢)’اور جب موسی جوانی کی توانائیوں کو پہونچے اور تندرست ہوگئے تو ہم نے انہیں علم اور حکمت عطا کردی اور ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں’اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خداوند عالم نے جناب موسی اور جناب یوسف کو اس خاص انعام سے کیوں نواز ا دوسرے لوگوں کو یہ نعمت کیوں نہیں ملی؟کیاخدا یوں ہی بلاسبب اپنے بعض بندوں کو ایسے اعزاز سے نوازدیتاہے اور دوسروں کو محروم رکھتاہے؟یا ایسا نہیں ہے بلکہ یہ سب تبدیلیاں ثابت واستوار الٰہی سنتوںکے تحت انجام پاتی ہیں۔جو لوگ قرآنی لہجہ سے واقف ہیں انھیں اس بات میں ذرہ برابر بھی شک وشبہ نہیں ہوسکتا کہ ان دونوںآیتوں میں علم وحکمت کا تعلق ‘احسان ‘سے قراردیا گیا ہے۔ ‘وکذٰ لک نجزی المحسنین ‘اور ہم احسان کرنے والوں کو اسی طرح جزادیاکرتے ہیں’تو جب وہ علم وحکمت جو جناب مو سی اور جناب یوسف کو خدا کی طرف سے عطا کی گئی ہے وہ سنت الٰہی کی بناء پر احسان سے…………..(١)سورئہ یوسف آیت ٢٢(٢)سورئہ قصص آیت ١٤مربوط ہے تو اسکے معنی یہ ہوئے کہ محسنین اپنے احسان اور حسن عمل کی وجہ سے ہی رحمت الٰہی کے مستحق ہوتے ہیںاور اسی بناء پر ان کو اسکی بارگاہ سے علم وحکمت کی دولت سے نوازا جاتا ہے۔لہٰذا اس استدلال کی درمیانی کڑیوں کو چھوڑتے ہوئے ہم مختصر طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ’ درحقیقت وہ احسان،علم وحکمت میں تبدیل ہوگیا ہے۔’اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ تقوی اور خواہشات نفس کی مخالفت،احسان کا واضح ترین مصداق ہیں۔فی الحال ہم اس موضوع کو مزید طول نہیں دے سکتے کیونکہ اس اہم موضوع کے لئے ہمارے پاس مناسب مقدار میں علمی مواد موجودنہیں ہے۔خدا وند عالم سے یہی دعا ہے کہ کوئی ایسا صاحب علم و کمال پیدا ہوجائے جو بہترین انداز سے اس مسئلہ کی گتھیاں سلجھا دے۔ کیونکہ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ نفس کے اندرعمل اور رد عمل کا سلسلہ بالکل اسی طرح رونما ہوتارہتاہے جس طرح فیزکس،کیمسٹری اور زولوجی وغیرہ کے میدانوں میں دکھائی دیتاہے مثلاًحرارت حرکت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور حرکت حرارت میں بدل جاتی ہے یا بجلی کی طاقت حرکت پیدا کردیتی ہے اور اسی حرکت سے بجلی بنائی جاتی ہے بالکل اسی طرح نفس کے اندربھی عمل اور رد عمل کا سلسلہ پایا جاتاہے جسکی طرف قرآن مجید کی بعض آیتوں میں سرسری اشارہ موجود ہے ،لہٰذااسلام سے تعلق رکھنے والے علم النفس کے ماہرین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نفس کے اسرار سے پردہ ہٹاکر ان کے اصول وقوانین کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔