بچوں کی تربیت میں معلم کا کردار

258

بچوں کی تربیت میں معلم کا کردارابوسفیان کا بیٹا معاویہ نے ٤١ھ میں مسند خلافت پر آنے کے بعد یہ ٹھان لی کہ علی (ع)کو لوگوں کے سامنے منفورترین آدمی کے طور پر پہچنوائیں ۔ اس مکروہ ہدف کے حصول کیلئے علی (ع)کے دوستوں کو تلوار اور نیزوں کے ذریعے فضائل على (ع)بیان کرنے سے منع کیا گیا، دوسری طرف علی (ع)کے دشمنوں کو بیت المال میں سے جی بھر کے مال وزر دیا گیا تاکہ آپ کے خلاف پیامبر(ص) کی طرف سے احادیث گڑھیں۔ اس کے علاوہ پورے عالم اسلام میں یہ حکم جاری کردیا گیاکہ نمازجمعہ کے بعد ہر مسجد سے ان پر لعن کیا جائے ۔یہ عملی بھی ہوا اور بچے باتوں باتوں میں آپ پر لعن کرنے لگے۔ عمر عبد العزیز جو اموی خلفاء میں سے ہے،بچپن میں دوسرے بچوں کے ساتھ علی (ع) پر لعن کررہا تھا اس وقت وہاں سے ان کے استاد جو ایک مؤمن اور صالح انسان تھا کا گزر ہوا ۔ وہاں سے توخاموش نکل گئے،لیکن جب مدرسہ کا وقت ہوااور عمر آیا تو استاد نماز میں مشغول ہوا ۔ نماز کو طول دینا شروع کیا ، عمر سمجھ گیا کہ نماز تو صرف بہانہ ہے۔عمر نے پوچھا :حضرت استاد کیا میں ناراضگی کی علت دریافت کر سکتا ہوں؟تو استاد نے کہا : بیٹا کیا آج تم نے علی پر لعن کی؟کہا: ہاں ۔کب سے تمہیں معلوم ہوا کی اہل بدر پر خدا غضبناک ہوا ہے؟ جبکہ ان پر خدا راضی ہے۔کیا علی اہل بدر میں سے نہیں تھے؟کہا: کیا بدر اور اہل بدر کیلئے ان کے صالح اعمال کے سوا کوئی اور چیزباعث افتخار ہے؟عمر نے کہا: میں آپ کے ساتھ وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد زندگی بھر ان پر لعن نہیں کرونگا۔ کئی سال اسی طرح گزرگئے۔ ایک دن ان کے والد جو حاکم مدینہ تھا نماز جمعہ کا خطبہ فصیح وبلیغ انداز میں دیتا تھا۔ لیکن جب علی پر لعن کرنے کا وقت آتا تھا تو اس کی زبان میں لکنت پیدا ہوجاتی جس سے عمر کو بہت تعجب ہوا۔کہا بابا جان میں نہیں جانتا کہ کیوں کر آپ کی فصاحت وبلاغت ادھر آکر ماند پڑ جاتی ہے اور زبان بند ہوجاتی ہے؟!کہا میرے بیٹے؛ اس پر تو متوجہ ہوا؟!بیٹے نے کہا:جی ہاں۔باپ نے کہا: میرے بیٹے صرف تمہیں اتنا بتادوں کہ اگر اس مرد الہی (علی (ع)) کے فضائل میں سے جتنا میں جانتا ہوں ان لوگوں کو پتہ چل جاتے تو یہ سب ان کی اولادوں کے گرویدہ ہوجاتے اور ہمارے پیچھے کوئی نہیں آتے۔جب عمر بن عبدالعزیز نے یہ سنا تو اپنے استاد کی نصیحت پربھی یقین ہوگیا۔اس وقت اس نے یہ عہد کرلیا کہ اگر کبھی برسر اقتدار آئے تو ضرور اس نازیبا عمل کو روک دوں گا۔اور جب ٩٩ھ میں یہ برسر اقتدار آیا تو سب سے پہلا کام یہی کیا کہ علی پر لعن وشتم کو ممنوع قرار دیا ۔ اس لعن کے بدلے انّ اللہ یأمر بالعدل والاحسان کی تلاوت کرنے کا حکم دیا۔
بچوں کو تعلیم دینے کا ثوابپیامبر اسلام (ص) نے فرمایا: جب استاد بچے کو تعلیم دیتے ہوئے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھواتا ہے تو اس وقت خدا وند اس بچے اور اس کے والدین اور معلّم کو آتش جہنم سے رہائی کا پروانہ عطا کرتا ہے-1امام صادق(ع) نے رسولخدا (ص)کے روایت کی ہے: ایک دن حضرت عیسیٰA ایک قبر کے قریب سے گزرے اس صاحب قبر پر عذاب ہورہا تھا دوسرے سال جب وہاں سے گذرے تو عذاب ٹل چکا تھا۔ سوال کیا پروردگارا کیاماجراہے؟وحی آئی اس کے بیٹے نے ایک راستے کی مرمت کی اور ایک یتیم کو پناہ دی، اس نیک عمل کی وجہ سے اسے عذاب سے نجات دی۔
علم دین سکھانے پرثوابعبد الرحمن سلمی نے امام حسین (ع) کے بیٹے کو سورۂ حمد یاد کرایا تو امام نے معلم کی قدر دانی کرتے ہوئے کچھ پیسے اور کپڑے دئے اور اس معلم کے منہ کو جواہر سے بھر دیا ۔ تو وہاں پر موجود لوگوں نے تعجب کیساتھ کہا: اتنا زیادہ انعام؟!تو امام (ع) نے فرمایا : کہاں یہ مالی انعام اس معلم کی عطا کے برابر ہوسکتا ہے؟ 2
والدین سے زیادہ استاد کا حقسکندر اپنے استاد کا بہت زیادہ احترام کرتا تھا ، جب اس سے وجہ پوچھی گءی تو کہا: کیونکہ میرے باپ نے مجھے عالم ملکوت سے زمین پر لایا اور استاد نے زمین سے اٹھاکرآسمان پر لے گیا-3امام سجاد(ع) فرماتے ہیں : تیرے استاد کا تجھ پر یہ حق ہے کہ تو اسے بزرگ سمجھے اور مجالس میں اس کا احترام کرے۔ اس کی باتیں غور سے سنے اور ان پر توجہ دے۔ اپنی آواز اس سے بلند نہ کرے اور اگر کوئی شخص اس سے کچھ پوچھے تو تو جواب نہ دے اور لوگوں کو اس سے استفادہ کرنے دے اس کے پاس کسی کی غیبت نہ کرے اور جب کوئی تیرے سامنے اس کی برائی کرے توتواس کا دفاع کرے ، تو اس کے عیوب پر پردہ ڈالے اور اس کی اچھائیاں ظاہر کرے۔ اس کے دشمنوں کے ساتھ مل کر نہ بیٹھے اور اس کے دوستوں سے دشمنی کا آغاز نہ کرے۔ اگر تو اس طرح کرے گا تو خدا تعالی کے فرشتے گواہی دینگے کہ تو نے اس جانب توجہ دی ہے اور تو نے علم لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کیلئے نہیں بلکہ خدا کیلئے حاصل کیا ہے۔اور شاگردوں کا حق تجھ پر یہ ہے کہ تو یہ جان لے کہ خدا تعالی نے تجھے جو علم بخشا ہے اور اس کی جو راہیں تجھ پر کھولی ہیں اس کے سلسلے میں تجھے ان کا سرپرست قرار دیا ہے ۔لہذا اگر تو انھیں اچھی طرح پڑھائے اور نہ انہیں ڈرائے اور نہ ہی ان پر غضبناک ہو تو خدا تعالی اپنے فضل سے تیرا علم بڑھائے گا اور اگر تو لوگوں کو اپنے علم سے دور رکھے اور جب وہ تجھ سے اس کی خواہش کریں تو انھیں ڈرائے اور ان پر غضبناک ہو تو عین مناسب ہوگا کہ خدا تعالی تجھ سے علم کی روشنی چھین لے اور لوگوں کے دلوں میں تیری حیثیت گھٹادے ۔ 4
والدین کی ظلم ستانی اور فراری بچّےیہ ایک ستم رسیدہ بچی کا خط ہے جو اپنے باپ کے ظلم وستم سے دل برداشتہ ہوکر گھر سے فرارہونے سے پہلے لکھا ہے:بابا یہ اولین اور آخرین خط ہے جسے غور سے پڑھ لو شاید آپ کا ضمیر جو مردہ ہوچکاہے بیدا ر ہوجائے اور سمجھے کہ کس قدر تو خود خواہ اور پست فطرت انسان ہو!بابا میں تجھ سے متنفر ہوں دوبارہ تیرے منحوس چہرے کو نہیں دیکھوں گی،تو اس قابل نہیں کہ تجھے باپ کہہ کر پکاروں۔بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ تو باپ ہونے کیلئے کبھی خلق نہیں ہوا۔تو ایک پلید اور کثیف بلا ہو۔ تو نے مجھے بچپن سے لیکر اب تک ساری چیزوں سے محروم رکھا ، میری پیاری ماں کو طلاق دیکر خوشی اور نشاط کا دروازہ مجھ پر بند کردیا۔جبکہ میرے لئے میری ماں کے علاوہ کوئی نہ تھا ۔ ایک بیٹی کیلئے ماں سے بڑھ کر اور کون دل سوز ہوسکتا ہے؟ میں کبھی بھی اس دن کو فراموش نہیں کروں گی جس دن تو نے میری ماں کو طلاق دی اور انہوں نے مجھے آخرین بار اپنے آغوش میں لے کرگرم آنسؤں سے میرے چہرے کو تر کرکے چلی گئی ۔ اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں چلی گئی وہ زندہ ہے یا مردہ؟لیکن اس دن جب تو نے مجھے آواز دی بیٹی میں تیرے لئے خوش خبری لایا ہوں ، کہ میری ماں مر گئی ہے ۔یہ کہہ کر قہقہہ لگانا شروع کیا ۔ اس دن ماں سے ملنے کی امید بالکل ختم ہوگئی ۔ اور جب میں اپنی ماں کی جدائی میں رونے لگی تو تو نے ٹھوکر مجھے ماری اور میں بیہوش ہوگئی اور میں نہ جان سکی کہ میں کہاں کھڑی ہوں؟!بابا کیا مجھے ماں کی جدائی میں رونے کا بھی حق نہ تھا؟ ارے بابا اب میں وہ نو سالہ نہیں رہی اب میں تیرے اس وحشی رویّے کو برداشت اور تحمل نہیں کرسکتی ۔ یہ رات کے ساڑھے گیارہ بج چکے ہیں۔ جب کہ تو اور تیری بیوی فلم ہال سے واپس گھر نہیں پہنچے ہیں ۔ کل صبح میں اس جہنم سے ہمیشہ کیلئے نکل جاؤں گی۔ اور دنیا والوں کو بتادوں گی کہ ایسے ظالم ،بے رحم اور سنگدل باپ بھی دنیا میںموجود ہیں ۔ مگر لوگوں کو یقین نہیں آئے گا-5
————1 ۔ جامع احادیث شیعہ،ج١٥، ص٩۔2 ۔ مستدرک الوسائل،ج١، ص٢٩٠3. کشکول شیخ بہائی، ص٢٧۔4 ۔ مکارم الاخلاق،ص٤٨٤.5 ۔ الگوئی تربیت کودکان و نوجوانان،ص٢٤٨۔اولاد صالح خدا کی بہترین نعمتحسن بن سعید کہتاہے کہ خدا نے ہمارے دوستوں میں سے ایک دوست کو بیٹی عطا کی تو وہ بہت افسردہ حالت میں امامصادق (ع) کی خدمت میں آیا۔ امام (ع) نے فرمایا:کیوں مغموم ہو؟اگر خدا تعالی تجھ پر وحی نازل کرے اور کہے کہ تمہارے بارے میں میں فیصلہ کروں یا تم فیصلہ کروگے؟ تو تم کیا جواب دوگے؟اس نے عرض کیا: میں کہوں گا بار خدایا! جو تو انتخاب کرے وہی میرے لئے ٹھیک ہے۔امام نے قرآن کی اس آیہ کی تلاوت فرمائی جس میں حضرت خضرA کی داستان ذکر ہوئی ہے، کہ حضرت خضر (ع) نے ایک لڑکے کو پکڑ کر مارڈالا جس پر حضرت موسی (ع)کو سخت اعتراض کیا تھا،جس کی علت یوں بتائی :فَأَرَدْنَا أَن يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِّنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا-1۔”تو میں نے چاہا کہ ان کا پروردگار انہیں اس کے بدلے ایسا فرزند دیدے جو پاکیزگی میں اس سے بہترہو اور صلئہ رحم میں بھی”خدا تعالی نے اس بیٹے کے بدلے میں انہیں ایک بیٹی عطا کی جس کی نسل سے (٧٠)ستّر پیامبران الہی وجود میں آئے-2دوران جاہلیت میں بچیوں کی ولادت پر ماں باپ بہت مغموم ہوجاتے تھے۔ ایک دن امیر اسحاق بن محمد کو خبر ملی کہ ان کے ہاں بیٹی ہوئی ہے، تو ہو بہت مغموم ہوگیا اور کھانا پینا بھی چھوڑدیا۔ بہلول عاقل نے جب یہ خبر سنی تو کہا : اے امیر! کیا خدا نے سالم اور بے عیب ونقص بیٹی عطا کی اس لئے تم مغموم ہوگئے؟!کیا تیرا دل چاہتا تھا کہ مجھ جیسا ایک پاگل بچہ تجھے عطا ہو؟!اسحاق بے اختیار اس حکیمانہ باتوں کو سن کر مسکرانے لگا اور خواب غفلت سے بیدار ہوا-3
تحفہ بیٹی کو پہلے دےرسولخدا (ص)نے فرمایا:جو بھی بازار جائے اور کوئی تحفہ اپنے گھر والوں کیلئے خریدے تو ایسا ہے کہ مستحق افراد میں صدقہ دیا ہو۔ اس تحفہ کو تقسیم کرتے وقت بیٹیوں کو بیٹوں پر مقدم رکھے۔کیونکہ جو بھی اپنی بیٹی کو خوش کرے تو ایسا ہے جیسے اولاد اسماعیل (ع) میں سے ایک غلام آزاد کیا ہو۔ اور اگر بچے کو خوش کیا تو خوفخدا میں گریہ کرنے کا ثواب ہے۔ اور جو بھی خوف خدا میں روئے وہ بہشتی ہے-4
————1 ۔ الکہف،٨١.2 ۔ سفینة البحار،ج١،ص١٠٨ .3 ۔ مجموعہ قصص و حکایات بہلول عاقل .4 ۔ آثار الصادقین،ج١٥،ص٣١٠۔بچوں پر باپ کے حقوق
باپ تمام نعمتوں کا باعثواما حق ابیک ، فتعلم انہ اصلک ، وانک فرعہ ؛ اونک لولاہ ، لم تکن؛ فمھما رایت فی نفسک مما یعجبک ۔ فاعلم ان اباک اصل النعمۃ علیک فیہ ، واحمداللہ و اشکرہ علی قدر ذالک ولاقوۃ الا باللہ-1اولاد پر باپ کا حق یہ ہےکہ جان لو وہ تمھارا اصل اور جڑ ہے اور تو اس کا فرع اورشاخ ۔ اگر وہ نہ ہوتا تو تو بھی نہ ہوتا ۔ اور خدا کی تچھ پر نعمتوں کا موجب وہ تھا ، اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرو۔اور کوئی بھی طاقت خدا کی طاقت سے زیادہ نہیں ہے ۔اور یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ہر انسان یہ شعور رکھتا ہے کہ اس کا مہربان باپ نے اسے بہت ساری مشکلات اور سختیوں سے نجات دلائی ہے اور محفوظ رکھا ہے ، ہمارے بچپنے کازمانہ لیجئے کہ ہماری جسمانی طور پر پرورش کرنے کیلئے دن رات کوشش اور محنت کرتے ہیں اور اپنا سکون اور چین کھو دیتے ہیں۔ اسی لئے ہمیں چاہئے کہ خدا کی عبادت اور شکر گزاری کے بعد والدین کی شکر گزاری بھی ضرور کرنا چاہئے۔لیکن حدیث شریف کی روشنی میں پھر بھی کما حقہ ان کا شکر ادا نہیں کرسکتے: عَنْ حَنَانِ بْنِ سَدِيرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي جَعْفَرٍ ع هَلْ يَجْزِي الْوَلَدُ وَالِدَهُ فَقَالَ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا فِي خَصْلَتَيْنِ أَنْ يَكُونَ الْوَالِدُ مَمْلُوكاً فَيَشْتَرِيَهُ فَيُعْتِقَهُ أَوْ يَكُونَ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَيَقْضِيَهُ عَنْه-2 حنان بن سدیر نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ امام محمد باقر سے سوال کیا کہ کیا بیٹا اپنے باپ کا حق ادا کرسکتا ہے یا نہیں؟! تو فرمایا : صرف دو صورتوں میں ممکن ہے : پہلا یہ کہ اگر باپ کسی کا غلام ہو اور اسے بیٹا خرید کر آزاد کردے ، یا اگر کسی کا باپ مقروض ہو اور بیٹا اس کا قرض ادا کرے ۔
باپ کا احترام واجبقرآن مجید کی آیتوں کے علاوہ روایات اسلامی میں بھی ماں باپ کے حقوق اور احترام کا سختی سے حکم دیا گیا ہے، اور ساتھ ہی احترام کرنے کا ثواب اور اثر اور نہ کرنے کا عقاب اور اثر بھی جگہ جگہ ملتا ہے۔ چنانچہ امام صادق سے منقول ہے : ان یوسف لما قدم علیہ الشیخ یعقوب دخلہ عزالملک فلم ینزل الیہ فہبط علیہ جبرئیل فقال : یا یوسف ابسط راحتک۔ فخرج منہا نور ساطع فصار فی جوالسماء ۔ فقال یوسف : یا جبرائیل ما ھذا النور الذی خرج من راحتی؟!! قال: نزعت النبوۃ من عقبک عقوبۃ لما لم تنزل الی الشیخ یعقوب فلا یکون من عقبک نبی-3 امام صادق (ع) سے مروی ہے کہ جب حضرت یعقوب مصر میں وارد ہوئے حضرت یوسف (ع) بھی بہت سارے لوگوں کے ساتھ ان کی استقبال کے لئے نکلے ۔ جب نزدیک ہوئے تو مقام و جلالت شہنشاہی سبب بنی کہ آپ سواری سے نیچے نہیں اترے ۔(اگرچہ نہ بعید نظر آتا ہے کہ خدا کا نبی ایسا کرے ! بہرحال روایت کے صحیح ہونے یا نہ ہونے بررسی کرنے کی ضرورت ہے) تو جبرئیل امین نے کہا : اے یوسف! ہاتھ کھولو۔اور جب یوسف نے اپنی مٹھی کھولی تو اس میں سے ایک نور آسمان کی طرف ساطع ہونے لگا۔ تو حضرت یوسف نے سوال کیا جبرئیل یہ کیا ہے؟! جبرئیل نے کہا : یہ نبوت کا نور تھا کہ تیری نسل سے خارج ہوگیا۔ اور یہ اس لئے تیری نسل سے خارج ہوگیا کہ تم اپنے باپ کے احترام میں سواری سے نیچے نہیں اترے۔اسی لئے سلسلہ نبوت آپ کے بھائی کے صلب سے جاری ہوا۔ پیامبر اسلام کے ایک قریبی رشتہ دار نے سوال کیا : میرے ماں باپ فوت ہوچکے ہیں اور ان کا میرے اوپر حق ہے کیسے اسے اتاروں؟ تو فرمایا: ان کے لئے نماز پڑھو، مغفرت طلب کرو، اور ان کی وصیت پر عمل کرو، اور ان کے دوستوں کا احترام کرو، اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک رکھو،اور فرمایا : ماں کا حق باپ کےحقوق کے دوبرابر ہے-4
بچوں پر ماں کے حقوقوحق امک ان تعلم انھا حملتک حیث لا یحتمل احد احدا ، وطاعتک من ثمرہ قلبھا ما لا یعطی احد احدا ، ووقتک بجمیع جوارحھا ، ولم تبال انتجوع وتطعمک ، وتعطش وتسقیک ، وتعریٰ وتکسوک ، وتضحیٰ وتظلک ، وتھجر النوم لاجلک ، ووفقتک الحروا البرد لتکون لھا ، فانک لا تطیق شکرھا ال یعون اللہ وتوفیقہ -5تیری ماں کا حق تجھ پر یہ ہے کہ تو جان لے کہ وہ تجھے اٹھاتی رہی کہ کوئی بھی کسی کو اس طرح نہیں اٹھاتا۔ اور اپنےدل کا پھل کھلاتی رہی کہ آج تک کسی نے کسی کو نہیں کھلایا۔ اور وہ اپنی پوری طاقت اور پورے وجود کے ساتھ تمھاری حفاظت کرتی رہی۔ اور اپنی بھوک اور پیاس کی پروانہیں کی لیکن تجھے وہ سیر اور سیراب کرتی رہی۔ اور خود برہنہ رہی لیکن تجھے لباس کا بندوبست کرتی رہی ۔ اور خود کو دھوپ میں اورتجھے اپنی محبت کےسایہ میں رکھتی رہی،اور خود اپنی رات کی نیند اور آرام کی پروا نہیں لیکن تمھاری نیند اور آرام وسکون اور گرمی اور سردی سے محفوظ رکھتی رہی، تاکہ تو اس کا بن کے رہے، پس تو کسی بھی صورت میں اس کی شکرگزارینہیں کرسکتا مگر یہ کہ خدا تجھے اس کی توفیق دے۔امام سجاد کے کلام میں باپ کے حقوق پر ماں کے حقوق کو مقدم کیا ہے ، شاید اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بیٹے کی شخصیت سازی میں ماں کا زیادہ کردار ہوتا ہے۔ اور زیادہ زحمتیں اور مشقتیں برداشت کرتی ہیں۔اور یہ دین مبین اسلام کا طرہ امتیاز ہے وگرنہ دوسرے مکاتب فکر اور ادیان والے اتنی عظمت اور احترام کے قائل نہیں ہیں۔عورت کو ماں کی حیثیت سے جو حقوق اسلام نے دئے ہیں وہ مغربی دنیا میں وجود نہیں رکھتے۔وہاں جب بچہ قانونی طور پر حد بلوغ کو پہنچتا ہے تو خاندان کو چھوڑ جاتا ہے۔ اور ماں باپ سے بالکل الگ زندگی کرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ اور ایسا رویہ خاندانی ماحول کو بالکل بے مہر و محبت ماحول میں تبدیل کر دیتا ہے۔ کئی کئی سال گذرجاتے ہیں لیکن اولاد اپنے والدین کو دیکھنے اور ملنے بھی نہیں آتے ۔ اور حکومت بھی مجبور ہو جاتی ہے کہ ایسے والدین کو بوڑھوں کے گھر منتقل کریں۔افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بیگانوں کی اندھی تقلید نے اسلامی معاشروں میں بھی یہ حالت وکیفیت پیدا کردی ہے۔ جہاں والدین خاندان کے چشم و چراغ ہیں وہاں آہستہ آہستہ انھیں خاندان سے دور اور الگ کرتے جارہے ہیں۔اور بوڑھوں کے گھر بھیجنا شروع کیا ہے۔قرآن مجید نے اس غلط ثقافت پر مہر بطلان لگادی ہے ۔اور ماں باپ کے حقوق کے بارے میں سختی سے تاکید کی ہے ۔ یہاں تک کہ اپنی عبادت کا حکم دینے کیساتھ ساتھ ماں باپ پر احسان اور نیکی کرنے کا حکم دیا ہے۔ یعنی اللہ کی عبادت کے فورا بعد والدین کے حقوق کا خیال کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان حقوق کو ہم چند عناوین میں بیان کریں گے۔
————1 ۔ حقوق اسلامی۔ ص۱۴۶۔2 ۔ بحار الانوار ، ج ۱۷، ص ۶۶۔3 ۔ حقوق اسلامی ص ۱۴۸۔4 ۔ ترجمہ رسالۃ الحقوق،ص۱۳۹۔5 ۔ ہمان ، ص ۱۳۱۔حق احسانمتعدد آیات میں یکتا پرستی کی طرف دعوت کیساتھ ساتھ ماں باپ کیساتھ احسان کرنے کا بھی حکم آیا ہے: وَاعْبُدُواْ اللّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا-1 خدا کی عبادت کرو اور اس کیساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کیساتھ احسان کرو۔ دوسری جگہ فرمایا: قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا -2 . کہہ دیجئے کہ آؤ ہم تمہیں بتائیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا کیا حرام کیا ہے … خبردار کسی کو اس کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا . وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً وَذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ۔ -3 اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خبردار خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ قرابتداروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا. اور احسان سے مراد کچھ محدود چیزیں نہیں بلکہ سب نیک اور شائستہ کام مراد ہے جو انسان کسی دوسرے کیلئے انجام دیتا ہے۔اولاد پر والدین کا بہت بڑا حق ہے خصوصاً ماں کا ۔ چنانچہ ایک جوان پیامبر اسلام (ص) کی خدمت میں آیا اور عرض کیا :یا رسول اللہ (ص)میری ضعیفہ ماں ہے جو حرکت نہیں کرسکتی ۔ میں اسے اپنے دوش پر اٹھا کر ادھر ادھر لے جاتا ہوں ، اسے خود اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتا ہوں اور جو بھی میری ماں مجھ سے تقاضا کرے اسے پورا کرتا ہوں اسے خوش رکھتا ہوں ۔ کیا میں نے ان کی میرے لئے اٹھائی ہوئی زحمتوں کا ازالہ اور حق اداکیا یا نہیں؟رسولخدا (ص) اس جوان کےحسن سلوک پر بہت خوش ہوئے اور فرمایا : آفرین ہو تجھ پر ، لیکن پھر بھی ماں کی زحمتوں کا ازالہ نہیں کرسکتے، کیونکہ وہ تجھے نو ماہ بڑی مشقتوں کیساتھ پیٹ میں اٹھاتی رہی اور جب تو دنیا میں آیا تو اس کی پستانوں سے خوراک حاصل کرتے رہے۔ اور تجھے اپنی آغوش میں لیکرادھر ادھر پھراتی رہی ۔ اور ہمیشہ تیری مدد کرتی رہی اور ہر قسم کی اذیت و آزار سے تمھیں بچاتی رہی، اس کا دامن تیری آرام گاہ تھی اور وہ تیری رکھوالی۔ ماں دن رات اس شوق اور آرزو کیساتھ تیری پرورش کرتی رہی کہ تو بڑے اور قدرت مند ہو تاکہ تو اچھی زندگی گزارسکے، لیکن تو! اگرچہ ماں کی اس قدر خوش اسلوبی کیساتھ خدمت کرتے رہے ہو لیکن اس امید اور آرزو کے بغیر! اس لئے تو ماں کی زحمتوں کا ازالہ اور جبران نہیں کرسکتے -4امام صادق(ع) فرماتے ہیں: ایک شخص رسولخدا (ص)کی خدمت میں مشرف ہوا اور عرض کیا کہ میں ایک ایسا جوان ہوں جو خدا کی راہ میں جہاد کرنے کی خواہش رکھتا ہے لیکن میری ماں اس کام کی طرف ہرگز مائل نہیں۔رسول اکرم(ص) نے فرمایا: واپس جا اور اپنی ماں کے پاس رہو ۔ اس خدا کی قسم جس نے ہمیں حق پر مبعوث فرمایا ہے ایک رات ماں کی خدمت کرنا خدا کی راہ میں ایک سال تک جہاد کرنے سے بہتر ہے-5اسلام ماں باپ سے نیکی کو فضیلت اور برتری کا معیار قرار دیتا ہے امام صادق Aنقل کرتے ہیں : ایک دن رسول اکرم(ص) ایک مجلس میں تشریف فرما تھے کی آپ کی رضاعی بہن وارد ہوئیں۔آنحضرت 7 نے ان کی شایان شان عزت کی اور انہیں دیکھ کر خوش ہوئے اور ان کیلئے کپڑا بچھا دیا تاکہ اس پر بیٹھیں اور بعد میں ان سے گفتگو میں مشغول ہوگئے۔ کچھ دیر بعد وہ چلی گئیں اور تھوڑی ہی دیر بعد ان کا بھائی جو آنحضرت کا رضاعی بھائی تھا حاضر خدمت ہوا لیکن اب کے آنحضرت (ص)نے اس کیلئے ویسی تعظیم انجام نہ دی۔ حاضرین میں سے ایک نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! اس فرق کی کیا وجہ تھی حالانکہ یہ شخص مرد ہے۔ آپ نےفرمایا: اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لڑکی اپنے باپ اور ماں کا زیادہ احترام کرتی ہے۔ 6————1 ۔ نساء ۳۶۔2 ۔ انعام ۱۵۱۔3 ۔ بقرہ ۸۳ ۔4 ۔ الگوہای تربیت کودکان،ص٦٧5 ۔ جامع السعادات،ج٢،ص٢٦١ ۔6- ۔ جامع السعادات، ج٢،ص٢٦٠

 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.