والدین پر بچوں کی ذمہ داریاں(حصہ دوم)
پیدائش کے بعدکانوں میں اذان واقامتامام حسن (ع) جب متولد ہوئے تو پیامبر اسلام (ص)نے ان کے کانوں میں اذان واقامت پڑھی۔ اور علی سے فرمایا : یا علی (ع) اذا ولد لک غلام اوجاریة فاذّن فی اذنہ الیمنی و اقم فی الیسری فانّہ لا یضرّہ الشیطان ابداً-1اے علی ! اگر تمہیں بیٹا یا بیٹی عطا ہو تو ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہیں تاکہ اسے شیطان کبھی ضرر نہ پہنچا سکے۔اور فرمایا:من ساء خلقہ فاذّنوا فی اذنہ -2 اگر بچہ روئے یا بد خلق ہوجائے تو اس کے کانوں میں اذان کہو۔اور یہ عمل سائنسی طور پر بھی ثابت ہوچکی ہے کہ نوزائدہ بچہ نہ صرف پیدا ہوتے ہی ہماری باتوں کو سمجھ سکتا ہے بلکہ ماں کے پیٹ میں بھی وہ متوجہ ہوتا ہے اور اپنے ذہن میں حفظ کرلیتا ہے۔ ماں کے دل کی دھڑکن جو بچے کیلئے دینا میں آنے کے بعد آرام کا سبب بنتی ہے۔ جب ماں گود میں اٹھاتی ہے اور خصوصاً بائیں طرف، توروتا بچہ خاموش ہوجاتا ہے۔اسی لئے اگر ماں حاملہ گی کے دوران قرآن سنا یا پڑھا کرے تو بچے میں بھی وہی تأثیر پیدا ہوگی اور اگر گانے وغیرہ سنے تو بھی ۔ اس کی بہت ساری مثال دی جاسکتی ہے:قم مقدس میں ایک قرآنی جلسے میں جب سید محمد حسین طباطبائی کے والد محترم سے سؤال کیا گیا کہ آپ کے خیال میں کیا سبب بنی کہ محمد حسین پانچ سال میں حافظ کلّ قرآن بنا؟ توفرمایا: جب یہ اپنی ما ں کے پیٹ میں تھا تو اس وقت وہ قرآن کی زیادہ تلاوت کیا کرتی تھی۔گذشتہ علمائے کرام کی تاریخ کا مطالعہ کرے تو ان میں بھی ایسے ہی واقعات ملتے ہیں، ان میں سے ایک سید رضی اور سید مرتضی کا واقعہ ہے۔ خود سید مرتضی Rفرماتے ہیں: جب اپنے استاد محترم شیخ مفید (رح)کے درس میں حاضر ہوا تو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ دروس پہلے سے ہی پڑھا ہوا ہے۔ جب اپنی مادر گرامی کے پاس آکر یہ ماجرا بیان کیا تو وہ کچھ تأمل کے بعد کہنے لگی: درست ہے جب آپ گہوارے میں تھے اس وقت آپ کے والد گرامی یہ دروس اپنے شاگردوں کو دیا کرتے تھے۔یہی ماں تھی کہ جب ان کو بیٹے کے مجتہد ہونے کی خبر دی گئی تو کہا : اس میں تعجب کی بات نہیں کیونکہ میں نے کبھی بھی انہیں بغیر وضو کے دودھ نہیں پلائی ۔ اور یہی ماں جناب شیخ مفید (رح)کی خواب کی تعبیر تھی، جنہوں نے حضرت فاطمہ(س) کوخواب میں دیکھا تھا کہ آپ حسن و حسین کے ہاتھوں کو پکڑ کے آپ کے پاس لاتی ہیں اور فرماتی ہیں : اے شیخ میرے ان دو بیٹوں کو دینی تعلیم دو۔ جب خواب سے بیدار ہوا تو بڑا پریشان حالت میں ، کہ میں اور حسنین کو تعلیم؟!!!جب صبح ہوئی تو سید رضی اور مرتضی کے ہاتھوں کو اسی طرح سے جیسے خواب میں دیکھا تھا ، ان کی مادر گرامی پکڑ کے لاتی ہیں اور کہتی ہیں : جناب شیخ ! آپ میرے ان دو بیٹوں کو فقہ کی تعلیم دیں۔ایک عالم کہتا ہے کہ ایک صابئی نے مجھ سے کہاکہ مجھے اسلام کی تعلیم دو تاکہ میں مسلمان ہوجاؤں۔ میں نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگا کہ مجھے بچپنے سے ہی اسلام سے بہت لگاؤ ہے اور اسلام کا بہت بڑا شیدائی ہوں۔ اور جب بھی اذان کی آواز آتی ہے تو سکون ملتا ہے اور جب تک اذان تمام نہ ہو ، اذان کے احترام میں کھڑا رہتا ہوں۔ میں نے اس کی ماں سے وجہ دریافت کی تو اس کی ماں نے کہا : درست ہے جب میرا بیٹا اس دنیا میں آیا تو ہمارے ہمسائے میں ایک مسلمان مولانا رہتا تھا جس نےاسکے کانوں میں اذان و اقامت پڑہی تھی۔ 3————1. تحف العقول،ص١٦ ۔2 ۔ محاسن برقی ج٢،ص٤٢٤ .3 ۔ مجمع البحرین، ص ٥٩٠.دودھ کی تأثیربچے کی شخصیت بنانے میں ماں کی دودھ کا بڑا اثر ہے۔ اسی لئے امام المتقین -1نے فرمایا:فانظروا من ترضع اولادکم انّ الولد یشبّ علیہ۔دیکھ لو کون تمھاری اولادوں کو دودھ پلارہی ہے؟ کیونکہ بچے کی پرورش اسی پر منحصر ہے۔ امام صادق(ع) فرماتے ہیں: عَنْ أُمِّهِ أُمِّ إِسْحَاقَ بِنْتِ سُلَيْمَانَ قَالَتْ نَظَرَ إِلَيَّ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع وَ أَنَا أُرْضِعُ أَحَدَ ابْنَيَّ مُحَمَّدٍ أَوْ إِسْحَاقَ فَقَالَ يَا أُمَّ إِسْحَاقَ لَا تُرْضِعِيهِ مِنْ ثَدْيٍ وَاحِدٍ وَ أَرْضِعِيهِ مِنْ كِلَيْهِمَا يَكُونُ أَحَدُهُمَا طَعَاماً وَ الْآخَرُ شَرَاباً 2 ۔اے ام اسحاق بچے کو دونوں پستانوں سے دودھ دیا کرو کیونکہ ایک چھاتی کا دودھ روٹی اور دوسری چھاتی کا دودھ پانی کا کام دیتا ہے۔
بچپنے کا دورقَالَ الصَّادِقُ ع: دَعِ ابْنَكَ يَلْعَبْ سَبْعَ سِنِينَ وَ يُؤَدَّبْ سَبْعَ سِنِينَ وَ أَلْزِمْهُنَفْسَكَ سَبْعَ سِنِينَ فَإِنْ أَفْلَحَ وَ إِلَّا فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا خَيْرَ فِيهِ -3امام صادق(ع) : فرمایا: اپنے بیٹے کو سات سال تک آزاد چھوڑ دو تاکہ وہ کھیلے کودے ،دوسرے سات سال اسے ادب سکھائیں پھر تیسرے سات سال اسے اپنے ساتھ ساتھ کاموں میں لگادے۔صَالِحُ بْنُ عُقْبَةَ قَالَ سَمِعْتُ الْعَبْدَ الصَّالِحَ ع يَقُولُ تُسْتَحَبُّ عَرَامَةُ الصَّبِيِّ فِي صِغَرِهِ لِيَكُونَ حَلِيماً فِي كِبَرِهِ ثُمَّ قَالَ مَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ إِلَّا هَكَذَا-4امام موسی کاظم(ع) نے فرمایا: اپنے بچوں کو بچپنے میں اچھلنے کودنے کا موقع دوتاکہ بڑے ہوکر حلیم (اور خوش خلق)بن جائیں۔————1 ۔ وسائل،ج٢١،ص٤٥٣.2 ۔ ھمان3 ۔ من لا یحضرہ الفقیہ،ج۳، ص۴۹۲۔4 ۔ الکافی،ج۶، ص۵۱۔پاک اور حلال غذا کی تأثیراگر بچوں کو لقمہ حرام کھلائیں گے تو فرزند کبھی صالح نہیں ہوگا۔کیونکہ حرام لقمہ کا بہت برا اثر پڑتا ہے جس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں ، چنانچہ امام حسین (ع) نے عاشور کے دن کئی مرتبہ فوج اشقیا کو نصیحت کی لیکن انہوں نے نہیں سنی توامام نے فرمایا:قد ملئت بطونکم من الحرام۔ تمہارے پیٹ لقمہ حرام سے بھر چکے ہیں جس کی وجہ سے تم پر حق بات اثر نہیں کرتی۔ پس جو ماں باپ اپنے بچوں کو لقمہحرام کھلائے وہ بچوں کی اصلاح کی امید نہ رکھیں۔
بچے کی کفالتقَالَ الصادق : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص بَلَغَهُ أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ تُوُفِّيَ وَ لَهُ صِبْيَةٌ صِغَارٌ وَ لَيْسَ لَهُ مَبِيتُ لَيْلَةٍ تَرَكَهُمْ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ وَ قَدْ كَانَ لَهُ سِتَّةٌ مِنَ الرَّقِيقِ لَيْسَ لَهُ غَيْرُهُمْ وَ إِنَّهُ أَعْتَقَهُمْ عِنْدَ مَوْتِهِ فَقَالَ لِقَوْمِهِ مَا صَنَعْتُمْ بِهِ قَالُوا دَفَنَّاهُ فَقَالَ أَمَا إِنِّي لَوْ عَلِمْتُهُ مَا تَرَكْتُكُمْ تَدْفِنُونَهُ مَعَ أَهْلِ الْإِسْلَامِ تَرَكَ وُلْدَهُ صِغَاراً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ -1حدیث میں ہے کہ اصحاب پیامبر(ص) میں سے ایک نے مرتے وقت زیادہ ثواب کمانے کی نیت سے اپنا سارا مال فقراء میں تقسیم کروایا۔ اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بالکل خالی ہاتھ چھوڑ دیا ، جو لوگوں سے بھیگ مانگنے پر مجبور ہوگئے ۔ جب یہ خبر رسولخدا (ص) تک پہنچی تو آپ سخت ناراض ہوگئے اور پوچھا : اس کے جنازے کیساتھ کیا کیا؟ لوگوں نے کہا قبرستان میں دفن کیا گیا۔ پیامبر (ص)نےفرمایا: اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے نہ دیتا۔کیونکہ اس نے اپنے بچوں کو دوسروں کا دست نگر بنادئے بچوں کا احترامبچوں کو جب بھی کوئی نصیحت کرنی ہو تو میرے بیٹے کہہ کر بلاؤ۔ قرآن بچوں کی تربیت اور نصیحت پر بہت زور دیتا ہے ۔ ائمہ کی سیرت میں بھی ہمیں یہی چیز ملتی ہے۔ایک دن امام حسین (ع) نماز کے دوران پیامبر اسلام (ص)کے کندھوں پرسوار ہوئے تو رسولخدا (ص)نے انہیں نیچے اتارا ۔جب دوسرے سجدے میں گئے تو دوبارہ سوار ہوئے۔ یہ منظر ایک یہودی دیکھ رہا تھا،کہنے لگا آپ اپنے بچوں سے اتنی محبت کرتے ہیں ؟ ہم اتنی محبت نہیں کرتے۔ تو آپ (ص)نے فرمایا: اگر تم خدا اور اسکے رسول پر ایمان لے آتے تو تم بھی اپنے بچوں سے اسی طرح محبت کرتے ، اس شخص نے متأثر ہوکر اسلام قبول کیا۔ 2
امام حسن مجتبی (ع) اور بچےایک مرتبہ آپ کا گذر ایسی جگہ سے ہوا جہاں بچے کھیل کود میں مشغول تھے اور ایک روٹی ان کے پاس تھی اسے کھانے میں مصروف تھے۔ امام کو بھی دعوت دی ، امام نے ان کی دعوت قبول کرلی اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا شروع کیا۔ پھر سارے بچوں کو اپنے گھر لے گئے اور ان کو کھانا کھلایا اور لباس بھی دیا پھر فرمایا: ان بچوں کی فضیلت مجھ سے زیادہ ہے کیونکہ انہوں نے اپنا سب کچھ میرے لئے حاضر کئے،کہ ان کے پاس ایک روٹی کے علاوہ کچھ نہ تھا لیکن میں نے جو بھی کھلایا،اس کے علاوہ میرے پاس اور بھی موجود ہے۔ 3امام زین العبدین (ع)نے ایک بار نماز جلدی جلدی پڑھ لی ۔ لوگوں نے سوال کیا مولا ایسا کیوں کیا؟ تو فرمایا : کیونکہ صفوں میں بچے بھی نماز پڑھ رہے تھے جن کی رعایت کرتے ہوئے نماز جلدی جلدی تمام کی۔اس طرح ایک اور روایت میں ہے کہ امیر المؤمنین (ع)نے ایک یتیم بچے کو غمگین حالت میں دیکھا تو ان کو خوش کرنے کیلئے ان کیساتھ پیار سے باتیں کرنے لگے ، لیکن یتیمی کی اداسی کی وجہ سے کوئی اثر نہیں ہوا تو امیر المؤمنین (ع) اپنے گٹھنے ٹیک کر بھیڑ کی آوازیں نکالنے لگے تو تب جا کر یتیم بچے کی چہرے پر مسکراہٹ آگئی ، یہ منظر کسی نے دیکھ کر کہنے لگا مولا ! یہ آپ کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ایک حکومت اسلامی کا سربراہ چوپائیوں کی آوازیں نکالے!۔ تو میرے مولا نے فرمایا : کوئی بات نہیں اس کے بدلے میں ایک یتیم کو میں نے خوش کیا۔پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا: بہترین گھر وہ ہے جہاں یتیموں کی پرورش اور دیکھ بھال ہوتی ہو۔ اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیموں کی اہانت ہوتی ہو۔مزید فرمایا: وَ عَنْهُ ص أَنَّهُ قَالَ أَنَا وَ كَافِلُ الْيَتِيمِ كَهَاتَيْنِ فِي الْجَنَّةِ وَ أَشَارَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَ الْوُسْطَى ومن مسح یدہ برأس یتیم رفقاً بہ جعل اللہ لہ فی الجنة لکل شعرة مرّت تحت یدہ قصراًاوسع من الدنیا بمافیھا وفیھا ماتشتھی الانفس وتلذّالاعین وھم فیھا خالدون۔ 4اور جو بھی یتیموں کی تعلیم و تربیت اور سرپرستی کرے گا وہ قیامت کے دن میرےساتھ ان دو انگلیوں کی مانند ہوگا۔اور جو بھی کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے گا تو خدا تعالی اس کیلئے ہربال جو اس کے ہاتھوں کے نیچے آئے ، کے بدلے بہشت میں ایک محل عطا کرے گا جو اس دنیا و مافیھا سے بھی بڑا ہوگا اور اس قصر میں وہ چیزیں ہونگی جنہیں نہ کسی نے چکھا ہوگا اور نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا۔علامہ رضی نے اپنی کتاب اقبال الاعمال میں لکھا ہے کہ آپ کی مراد کافل سے ابوطالب ہے۔ 5اسی طرح امام حسن مجتبی (ع) ایک دن دوش نبی پر سوار تھے۔ کوئی آکر کہنے لگا : اے حسن مجتبی !کتنی خوبصورت آپ کی سواری ہے؟ تو رسول اللہ (ص)نے فرمایا: اسے نہ کہو کہ تیری سواری کتنی اچھی ہے بلکہ مجھ سے کہو کہ تیرا شہسوار کتنا اچھا ہے؟! صرف وہ فخر نہیں کرتا کہ اس نے دوش نبوت پر پاؤں رکھا ہے ،بلکہ میں بھی فخر کرتا ہوں کہ وہ میرے دوش پر سوار ہے۔
————1 ۔ بحار،ج١٠٠، ص١٩٧ .2 ۔ بحار،ج١٠، ص ٨٣۔3 ۔ شرح ابن ابی الحدید،ج١١،ص۔١٩.4 ۔ میزان الحکمہ ،باب الیتیم۔ح۶۸۱۱۔5 ۔ الاقبال ، ص۶۶۲۔بچوں کو ان کے ا حترام کی یقین دہانیاگر ماں باپ ان کا احترام نہ کریں تو وہ ان کے قریب نہیں جائیں گے اورنہ ان کی باتیں سنیں گے۔اگر ہم چاہیں کہ ہمارے بچے ہماری بات مانیں اور ہم نصیحت کریں تو ضروری ہے کہ بچوں کیلئے احترام کے قائل ہوں ۔اور ان سے مشورت مانگیں ،ان کی باتوں کو بھی اہمیت دیں ۔ ہمارے لئے قرآن مجید میں نمونہ عمل موجود ہے کہ حضرت ابراہیم (ع) جو سو سالہ بزرگ ہوتے ہوئے بھی تیرہ سالہ بچے سے مشورہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بیٹا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے خدا کی راہ میں قربان کر رہا ہوں، اس میں تیری کیا رائے ہے؟!
بچوں کی تحقیر، ضد بازی کا سببایک جوان کہتا ہے کہ میرے والدین گھر میں مجھے کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔اگر میں کوئی بات کرتا ہوں تو ٹوک دیتے ۔ مجھے کسی بھی گھریلو کام میں شامل نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی کام کروں تو اسے اہمیت نہیں دیتے ۔ اور دوسروں کے سامنے حتی میرے دوستوں کے سامنے میری تحقیر اور توہین کرتے ۔ اس وجہ سے میں احساس کمتری کا شکار ہوا ۔ اور حقارت اور ذلّت کا احساس کرنے لگا۔ اور اپنے آپ کو گھر میں فالتو فرد سمجھنے لگا ۔ اب جبکہ میں بڑاہوگیا ہوں پھر بھی دوستوں میں کوئی بات کرنے کی جرأت نہیں ۔ اگر کوئی بات کروں تو بھی گھنٹوں بیٹھ کر اس پر سوچتا ہوں کہ جو کچھ کہا تھا کیا غلط تو نہیں تھا ۔ اس میں میرے والدین کی تقصیر ہے کہ انہوں نے یوں میری تربیت کی ۔عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ رَجُلٍ عَنْأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ دَعِ ابْنَكَ يَلْعَبُ سَبْعَ سِنِينَ وَ أَلْزِمْهُ نَفْسَكَ سَبْعاً فَإِنْأَفْلَحَ وَ إِلَّا فَإِنَّهُ مِمَّنْ لَا خَيْرَ فِيهِ -1 اسی لئے امام باقر (ع)نے فرمایا:بچے کو پہلے سات سال بادشاہوں کی طرح ، دوسرے سات سال غلاموں کی طرح اور تیسرے سات سال وزیروں کی طرح اپنے کاموں میں اسے بھی شامل کرو اور ان سے بھی مشورہ لیا کرو۔ اگر بچے احساس حقارت کرنے لگے تو نہ وہ تعلیمی میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ دوسرے ترقیاتی کاموں میں ۔ایک بچی کہتی ہے کہ :میری ماں ہمیشہ مجھے حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتی تھی۔ ایک دفعہ امتحانات میں کم نمبر آنے کی وجہ سے میری خالہ کے سامنے توہین کرنا شروع کی تو انہوں نے میری ماں سے کہا: بہن !ان کی توہین نہ کرو مزید خراب ہوجائے گی۔ ماں نے کہا یہ ایسی ہے تو ویسی ہے۔ میری خالہ نے ماں سے اجازت لیکر مجھے امتحانات تک اپنے گھر لے گئی۔میری خالہ زاد بہن مہری میری ہمکلاس تھی ۔ان کے ساتھ تیاری کی تو مہری حسب سابق irst اور میں third آئی ۔جس پر مجھے خود یقین نہیں آرہی تھی۔
بچوں کی مختلف استعدادوں پر توجہوالدین کو چاہئے کہ اپنے بچے کے اندر کیا صلاحیت اور استعداد موجود ہے، اس پر توجہ دینا چاہئے۔ اگر وہ تعلیم میں کمزور ہے تو آپ اس کو مجبور نہ کریں ، بلکہ دیکھ لیں کہ کس میدان (فیلڈ) میں وہ مہارت حاصل کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ بہزاد نامی ایک شخص تھا۔جو ایران کا بہت بڑا نامور نقّاش تھا ۔ یہ کلاس میں نہ خود پڑھتا تھا اور نہ دوسروں کو پڑھنے دیتا۔ لیکن شکل سے پڑھا لکھا اور ہنر مند نظر آتا تھا۔ ایک دن ایک ماہرنفسیات نے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے نصیحت کرنے لگا۔ بہزاد خاموشی کے ساتھ ان کی نصیحت سننے کیساتھ ساتھ زمین پر ایک مرغے کی تصویر بنائی جو درخت پر بیٹھا ہے ۔ جب اس ماہرنفسیات نے یہ دیکھا تو سمجھ گیا کہ اس لڑکے میں بہت بڑی صلاحیت موجود ہے۔ اس کے والد کو بلایا اور کہا یہ نقاشی میں بہت مہارت رکھتا ہے۔ اس شعبے سے ان کو لگاو اوردلچسپی ہے۔انہیں نقاشی کی کلاس میں بھیج دو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا ۔ جو بعد میں بڑا نامور اور معروف نقاش ایران کے نام سے پوری دینا میں مشہور ہوا۔ 2
تشویق کرنے کا حیرت انگیز نتیجہاگر آپ کا بچہ تعلیمی میدان میں کمزور ہو تو آپ ان کی تحقیر نہ کریں ۔ کیونکہ خدا تعالی نے ہر کسی کو ایک جیسا ذہن عطا نہیں کیا ہے۔ ممکن ہے ایک شخص کند ذہن ہو یا تند ذہن۔ ایسی صورت میں تشویق کریں تاکہ بیشتر اپنے فیلڈ میں مزید ترقی کرسے۔ ایک شخص کہتا ہے کہ میرا ایک دوست مداری تھا کہ جو مختلف شہروں میں لوگوں کو مختلف کرتب دکھاتا پھرتا تھا۔میں اس پر حیران تھا کہ کس طرح وحشی حیوانات (شیر،ببر،ہاتھی،کتا، ریچھ و۔۔۔)اس کے تابع ہوتے ہیں؟ ایک دن میں نے اس پر تحقیق کرنا شروع کیا تو معلوم ہواکہ وہ ہر حیوان کو معمولی سی کرتب دکھانے پر اسے گوشت کی چند بوٹیاں کھلا کراور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا کر اس کی تشویق کرتا ہے۔جب جنگلی اور وحشی جانوروں میں تشویق اس قدر مؤثر ہے تو کیا انسانوں میں مؤثر نہیں ہوگا؟!۔
بچوں سے محبتاسلام اس بات پر بہت توجہ دیتا ہے کہ بچوں کو پیا رو محبت دیا کریں۔ رسول خدا (ص) ایک دن اپنے بچوں کو زانو پر اٹھائے پیار ومحبت کیساتھ بوسہ دے رہے تھے اتنے میں دورجاہلیت کے کسی بڑے خاندان کا آدمی وہاں پہنچا ۔ اور کہامیرے دس بیٹے ہیں لیکن آج تک کسی ایک کو بھی ایک بار بوسہ نہیں دیا۔یہ سن کر آپ (ص) سخت ناراض ہوگئے۔ اور غصّے سے چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ اور فرمایا: من لایَرحَم لا یُرحَم جس نے دوسروں پر رحم نہیں کیا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا ۔ اور تیرے دل سے رحم نکل گیا ہے تو میں کیا کروں؟!ایک دفعہ جب آپ سجدے میں گئے تو حسن مجتبی (ع) کاندوں پر سوار ہوئے،جب اصحاب نے سجدے کو طول دینے کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا:حسن میرے کاندہے پر سوار ہوا تھا اور میں انہیں اتارنا نہیں چاہتا تھا، جب تک خود اپنی مرضی سے نہ اترآے ۔ 3
بچوں کے درمیان عدالت اور مساواتنعمان بن بشیر کہتا ہے کہ ایک دن میرے والد نے مجھے ایک تحفہ دیا،لیکن دوسرے بھائیوں کو نہیں دیاتو میری ماں(عمرہ بنت رواحہ )نے میرے باپ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا : میں اس برتاؤ پر راضی نہیں ہوں جب تک تیرے اس عمل پر رسولخدا (ص) تأیید نہ کرے۔ میرے باپ نے عاجزانہ طور پر ماجرابیان کیا :تو آپ نے فرمایا: کیا سب کو دئے؟ کہا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: پس خدا سے ڈرو۔ اور اولادوں کیساتھ مساوات و برابری سے پیش آؤ۔میں اس ظالمانہ رفتار پر گواہی نہیں دیتا۔ 4
————1 ۔ وسائل الشیعہ ج ۱۵ ، ص ۱۹۴، الکافی،ج۶، ص۴۶۔2 ۔ جعفر سبحانی؛رمزپیروزی مردان بزرگ،ص١١.3 ۔ بحار،ج١٠، ص٨٤.4 میزان الحکمة،ج١٠،ص٧٠.بچوں کے درمیان عادلانہ قضاوتِ أَنَّ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ كَانَا يَكْتُبَانِ فَقَالَ الْحَسَنُ لِلْحُسَيْنِ خَطِّي أَحْسَنُ مِنْ خَطِّكَ وَ قَالَ الْحُسَيْنُ لَا بَلْ خَطِّي أَحْسَنُ مِنْ خَطِّكَ فَقَالَا لِفَاطِمَةَ احْكُمِي بَيْنَنَا فَكَرِهَتْ فَاطِمَةُ أَنْ تُؤْذِيَ أَحَدَهُمَا فَقَالَتْ لَهُمَا سَلَا أَبَاكُمَا فَسَأَلَاهُ فَكَرِهَ أَنْ يُؤْذِيَ أَحَدَهُمَا فَقَالَ سَلَا جَدَّكُمَا رَسُولَ اللَّهِ ص فَقَالَ ص لَا أَحْكُمُ بَيْنَكُمَا حَتَّى أَسْأَلَ جَبْرَئِيلَ فَلَمَّا جَاءَ جَبْرَئِيلُ قَالَ لَا أَحْكُمُ بَيْنَهُمَا وَ لَكِنَّ إِسْرَافِيلَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمَا فَقَالَ إِسْرَافِيلُ لَا أَحْكُمُ بَيْنَهُمَا وَ لَكِنَّ أَسْأَلُ اللَّهَ أَنْ يَحْكُمَ بَيْنَهُمَا فَسَأَلَ اللَّهَ تَعَالَى ذَلِكَ فَقَالَ تَعَالَى لَا أَحْكُمُ بَيْنَهُمَا وَ لَكِنَّ أُمَّهُمَا فَاطِمَةَ تَحْكُمُ بَيْنَهُمَا فَقَالَتْ فَاطِمَةُ أَحْكُمُ [احْكُمْ] بَيْنَهُمَا يَا رَبِّ وَ كَانَتْ لَهَا قِلَادَةٌ فَقَالَتْ لَهُمَا أَنَا أَنْثُرُ بَيْنَكُمَا جَوَاهِرَ هَذِهِ الْقِلَادَةِ فَمَنْ أَخَذَ منهما [مِنْهَا] أَكْثَرَ فَخَطُّهُ أَحْسَنُ فَنَثَرَتْهَا وَ كَانَ جَبْرَئِيلُ وَقْتَئِذٍ عِنْدَ قَائِمَةِ الْعَرْشِ فَأَمَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَنْ يَهْبِطَ إِلَى الْأَرْضِ وَ يُنَصِّفَ الْجَوَاهِرَ بَيْنَهُمَا كَيْلَا يَتَأَذَّى أَحَدُهُمَا فَفَعَلَ ذَلِكَ جَبْرَئِيلُ إِكْرَاماً لَهُمَا وَ تَعْظِيماً -1امام حسن اور امام حسین (ع)اپنے بچپن کے دوران اکثر علوم وفنون اور معارف اسلامی میں مسابقہ کرتے تھے ۔ ایک دن دونوں نے خوشخطی کا مقابلہ کیا اور ،پیغمبر7کے پاس لائے اور کہا :نانا جان ہم دونوں میں سے کس کا خط اچھا ہے؟ فرمایا: عزیزان میں لکھنا تو نہیں جانتا ،میں نے کبھی لکھا بھی نہیں نہ کسی مکتب میں پڑھا ہواہے اسے بابا علی (ع) کے پاس لے جاؤ وہ کاتب وحی بھی ہیں۔ دونوں نے فرمایا آپ کی بات بالکل درست ہیں ۔گئے اور بابا کے سامنے رکھ دئے۔علی (ع)نے فرمایا: دونوں لکھائی اچھی اور خوبصورت ہیں۔ بچوں نے کہا آپ یہ بتائیں کونسی لکھائی بہتر ہے ؟فرمایا اگر آپ دونوں مدرسہ جاتے اور اپنے استاد کو دکھاتے تو اچھا تھا ۔ لیکن آپ دونوں نے خود سیکھے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ اپنی ماں کے پاس لے جاؤ جو فیصلہ وہ کرے گی ،ہمارے لئے قبول ہے ۔ حسنین (ع)نے کہا ٹھیک ہے ۔جب اپنی ماں سے اسی طرح سوال کیا تو فرمایا:دونوں کی لکھائی اچھی ہیں۔ ان دونوں خطوں کے درمیان فرق پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔ جو چیز نانا اور بابا نے میرے پاس بھیجی ہیں اس میں مجھے زیادہ دقّت کی ضرورت ہے۔حضرتزہرا (س)نے اپنی گردن بند کو کھولا جس میں سات دانے تھے۔ کہا : میں یہ دانے زمین پر گراتی ہوں ،آپ دونوں میں سے جس نے بھی دانے زیادہ اٹھائے اسی کا خط بہتر ہوگا۔ جب گرائی تو دونوں نے ساڑھے تین ساڑھے تین دانے اٹھائے۔ نتیجہ مساوی نکلا،دونوں راضی ہوگئے۔ آخر جواب تو وہی نکلاجو بابا اور نانا نے دئے تھے۔اور ہم نہیں چاہتے تھے کہ آپ کا یہ دانہ توڑ دے ۔ تو مادر گرامی نے فرمایا: اسے تم نے نہیں توڑے بلکہ خدا نے دوبرابر کیا۔ اور جسے خدا نے توڑا ہو وہ اس جیسے لاکھ دانے سے بہتر ہے۔
والدین نظم و حقوق کی رعایت کریںالمؤمنین (ع) فرماتے ہیں کہ ایک دن پیامبر اسلام (ص)میرے گھر پر آرام فرمارہے تھے، امام حسن (ع)نے پانی مانگا ۔ آپ اٹھے اور کچھ دودھ لیکر آئے اور امام حسن (ع)کو پیش کی ،امام حسین (ع)نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور کاسہ خود لیکر پینا چاہا ۔ پیامبر اسلام (ص)کے امام حسن کی حمایت کی اور امام حسین کو نہیں دیا۔یہ منظر حضرت زہرا (س) دیکھ رہی تھی ،کہنے لگی: یا رسول اللہ(ص)!کیا حسن سے زیادہ محبت ہے؟تو فرمایا :نہیں بلکہ اس لئے حسن کا دفاع کررہا ہوں کہ اس نے پہلے پانی مانگا تھا۔میں نے اس کی نوبت کی رعایت کی ہے-2ایک شخص رسول خدا کی خدمت میں اپنے دو بچوں کیساتھ حاضر ہوا ،ایک بچے کو پیار کیا دوسرے سے کوئی محبت کا اظہار نہیں کیا ۔ تو آپ نے فرمایا: یوں اپنے بچوں میں غیر عادلانہ رفتار نہ کرو،بلکہ ان کے ساتھ اسی طرح مساوات اوربرابری کا رویہ اختیار کرو جس طرح دوسرے تمھارے ساتھ رویہ اختیار کرنا چاہتے ہو۔ 3
بچے کو خدا شناسی کا درس دیںبیٹے کے حقوق کے بارے میں فرماتے ہیں کہ : و اما حق ولدک ، فتعلم انہ منک، ومضاف الیک فی عاجل الدنیا بخیرہ و شرہ؛ وانک مسؤل عما ولیتہ من حسن الادب و الدلالۃ علی ربہ ، والمعونۃ علی طاعتہ فیک و فی نفسہ ، فمثاب علی ذالک و معاقب، فاعمل فی امرہ عمل المتزین بحسن اثرہ علیہ فی عاجل الدنیا المعذر الی ربہ فیما بینک وبینہ بحسن القیام علیہ، والاخذ لہ منہ۔ ولاقوۃ الا باللہ-4 یعنی بیٹے کا حق باپ پر یہ ہے کہ اسے اپنی اولاد سمجھے اور اس دنیا میں اس کی نیکی اور بدی کو تیری طرف نسبت دی جائے گی ، اور تو ہی اس کا ولی ہوگا ، اور تم پر لازم ہے کہ اسے با ادب بنائے اسے اصول دین کا سبق سکھائے اور خدا کی اطاعت اور بندگی کی راہ پر لگائے اور اس سلسلے میں ان کی مدد کرے تاکہ خدا کے نزدیک تو سرخ رو ہو سکے اور اجر پا سکے، اگر ان امور میں سستی کی تو عذاب الہی کو اپنے لئے آمادہ کیا ہے ، پس ضروری ہے کہ ان کو کچھ اس طرح تربیت دیں کہ تیرے مرنے کے بعد جب لوگ اسے دیکھے تو تجھے اچھے نام سے یاد کریں ، اور تو بھی خداکے سامنے جواب دہ ہو اور اجر وثواب پا سکے۔شیخ شوشتری جو اپنے زمانے کے نامور عرفاء میں سے تھے ٨٠ سال کی عمر میں ٢٨٣ھ میں وفات پاچکے ہیں، کہتے ہیں: میں تین سال کا تھا کہ دیکھا میرے ماموں محمد بن سواد رات کے وقت نماز شب میں مصروف ہیں۔ مجھ سے کہا بیٹا کیا اپنےخدا کو یاد نہیں کروگے جس نے تجھے پیدا کیا ہے؟ میں نے کہا: کیسے اسے یاد کروں؟ تو جواب دیا جب سونے کا وقت آئے تو ٣بار دل سے کہو: (خدا میرے ساتھ ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے اور میں اس کے حضور میں ہوں )۔ کچھ راتیں گزر گئیں پھر مجھ سے کہا اس جملے کو سوتے وقت ٧ مرتبہ پڑھ لیا کرو۔ میں نے ایساکیا تو اس ذکر کی لذت اور مٹھاس کو میں محسوس کرنے لگا۔ ایک سال کے بعد مجھ سے کہا اسے اپنی پوری زندگی پڑھا کرو۔ یہی ذکر تمھیں دنیا و آخرت دونوں میں سرخ رو کریگا۔ اس طرح میرے پورے وجود میں بچپنے میں ہی خدا پر ایمان مضبوط ہوگیا تھا۔ 5
————1 ۔ بحار الانوار،ج۴۳،ص۳۰۹۔2 ۔ ہمان،ج٢٣،ص٢٧٣۔3 ۔ بحار،ج٢٣،ص١١٣۔4 ۔ حقوق اسلامی،ص ۱۵۶۔5 ۔ الگوہائی تربیت کودکان ونوجوانان،ص٤٩۔کاشف الغط(رح)اور بیٹے کی تربیتحضرت آیةاللہ شیخ جعفر کاشف الغطاء(رح) اپنے بچے کی تربیت کرنے کیلئے ایک مؤثر طریقہ اپناتے ہیں ، وہ یہ ہے: آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بیٹا بھی سحر خیزی اور نماز شب کا عادی ہوجائے۔ اور آخر عمر تک اس عمل کو انجام دیتے رہے۔ ایک رات اذان صبح سے پہلے بیٹے کے بسترے کے قریب آئے اور بالکل آرام سے اسے بیدار کرنے لگا اور کہا عزیزم !اٹھو اور مولا علی (ع)کے حرم مطہر میں شرف یاب ہوجائیں ۔ بیٹے نے کہا بابا آپ جائیں میں بعد میں آوں گا ۔ کہا نہیںبیٹا میں منتظر رہوںگا۔ بیٹا اٹھا اور حرم کی طرف وضو کرکے روانہ ہوئے۔ ایک فقیرحرم مطہر کے سامنے بیٹھ کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا رہا تھا۔اس وقت آیةاللہ کاشف الغطاء (رح)نے کہا: بیٹا ! یہ شخص کس لئے یہاں کھڑا ہے؟کہا : بھیک مانگنے کیلئے۔کہا :اس کو کتنا درہم ملتا ہوگا؟بیٹا :شاید کچھ رقم ملتا ہوگا اور واپس جاتا ہوگا۔کیا یقینا اسے دینار ملتا ہوگا؟بیٹا:البتہ یقینا تو پیش بینی نہیں کرسکتا لیکن کچھ نہ کچھ تو ضرور ملتا ہوگا ۔یا ممکن ہے خالی ہاتھ بھی جاتا ہوگا۔یہاں جس نکتے کی طرف آپ بچے کو متوجہ کرانا چاہتے تھے ٹھیک اسی جگہ پر آگئے اوراپنے مطلب کیلئے زمینہ فراہم ہوگیااور فرمایا: بیٹا دیکھ یہ گدا گر کمانے کیلئے سویرے سویرے یہاں آتا ہے جبکہ اسے سوفیصد یقین تونہیں پھر بھی اتنی جلدی نیند سے بیدار ہوکر آتا ہے؛ لیکن تمھیں تو اس ثواب پر پورا پورا یقین ہے کہ جو خدا تعالی نے سحر خیزی کیلئے معین کیا ہے اور ائمہ طاہرین کے فرامین پر بھی یقین رکھتے ہو ، پس کیوں سستی کرتے ہو؟!!اس خوبصورت تمثیل نے اتنا اثر کیا کہ بیٹے نے زندگی کے آخری لمحات تک نماز شب کو ترک نہیں کیا-1ہمارے لئے بھی یہی درس ملتا ہے کہ اگر چاہتے ہوں کہ ہمارے بچے بھی سحر خیز ہوں تو پہلے ہم اس پر عمل پیرا ہوں۔ چنانچہ رسول اللہ(ص)کے پاس ایک ماں اپنے بیٹے کو لے آئی کہ اسے نصیحت کرے کہ وہ خرما نہ کھائے۔ کیونکہ حکیموں نے اس کیلئے منع کیا ہے۔ یا رسول اللہ (ص) اسے نبوت کی مبارک زبان سے سمجھائیں ممکن ہے وہ باز آجائے۔ آپ نے فرمایا:بہت اچھا آج اس کو لیجائیں کل لے آئیں۔ دوسرے دن جب آئی تو بڑی نرمی سے نصیحت کی : بیٹا ماں کی باتوں کو سنا کرو اور کھجور کھانے سے پرہیز کرو تاکہ تمھاری بیماری ٹھیک ہوجائے اور بعد میں تم زیادہ کھجور کھا سکے۔اور زیادہ کھیل کود سکے۔اور خوش وخرم زندگی کرسکے اور تیری ماں بھی تجھ پر راضی ہوسکے۔ بچے نے آپ کی باتوں کو قبول کرلی اور کہا: اب بات سمجھ میں آئی کہ کیوں کھجور نہ کھاؤں۔ اب میں دلیل سمجھ گیا ۔ جب باتیں ختم ہوئیں تو ماں نے تشکر کرنے کے بعدکہا:یا رسول اللہ (ص)یہی باتیں کل بھی تو آپ بتا سکتے تھے ۔ فرمایا : کیونکہ کل میں خود کھجور کھا چکا تھا ۔ اچھی بات اس وقت مؤثر ہوتی ہے جب خود اس پر عمل کرے۔ 2
امام خمینی(رح)اور بچوں کے دینی مسائلامام خمینی کی بیٹی نقل کرتی ہے کہ امام خمینی(رح)بچوں پر بہت مہربان تھے۔ ہم گھر میں بڑے مہر ومحبت کیساتھ رہتے تھے لیکن ہم جب کوئی خلاف کام کرتے تو سختی سے منع کرتے تھے۔ عملی طور پر ہمیں سمجھایا ہوا تھا کہ کوئی کام ان کے میل یا مرضی کے خلاف نہیں کریں گے۔ ہم بھی فروعی کاموں میں آزاد لیکن اصولی کاموں میں سخت مقید تھے۔ ہم میں سے کسی کی مجال نہیں تھی کہ مخالفت کرے۔ ہمیشہ ہمیں مقید رکھتے تھے کہ کوئی گناہ نہ کریں اورآداب اسلامی کی پابندی کریں۔ اس کے علاوہ ہم جتنا شوروغل مچائیں کچھ نہیں کہتے تھے اور نہ کوئی اعتراض کرتے۔ ہاں اگر کسی پڑوسی کی طرف سے کوئی شکایت آئے تو سختی سے اعتراض کرتے تھے۔ ہم گھر کے صحن میں کھیل کود میں مصروف ہوتے تھے۔ نماز کے وقت بھی اگر کھیلتے رہے تو کبھی نہیں کہا ،بچو اذان کا وقت ہوگیا ہے آؤ وضو کریں نماز پڑھیں۔بلکہ خود اذان سے آدھا گھنٹہ پہلے مصلّی پر کھڑے ہو جاتے تھے اورآپ کو دیکھ کر ہم بھی نماز کیلئے تیار ہوجاتے۔اور جب بھی ہمیں کسی کام سے روکتے تھے زندگی بھر میں وہ کام انہیں انجام دیتے ہوئے ہم نے نہیں دیکھے،حجاب اور پردے کے بارے میں سخت حساس تھے، اور گھر میں کوئی بھی غیر اخلاقی باتیں جیسے غیبت،جھوٹ ،کسی بڑے کی بے احترامی یا کسی مسلمان کی توہین نہیں کرنے دیتے ۔ آپ معتقد تھے کہ بچے آزادانہ کھیل کود کریں۔ فرماتے تھے اگر بچے شرارت نہ کرے تو وہ بیمار ہے اس کی علاج کرنا چاہئے۔آپ کے بیٹے سید احمد خمینی(رح)سے جب انٹرویو لیا گیا تو فرمایا: میری بیوی گھریلو عادت کے مطابق بچی کو میٹھی نیند سے نماز صبح کیلئے اٹھایا کرتی تھی۔ جب امام خمینی کو یہ معلوم ہواتو پیغام بھیجا کہ : اسلام کی مٹھاس کو بچے کیلئے تلخ نہ کرو۔! یہ باتاس قدر مؤثر تھی کہ میری بیٹی اس دن کے بعد خود تاکید کرتی تھی کہ انھیں نماز صبح کیلئے ضرور جھگایا کریں ۔ اس وقت میں نے لااکراہ فی الدین کو سمجھا۔ 3
بچوں کومستحبات پر مجبور نہ کریںوالدین کو چاہئے کہ ان پر سختی نہ کریں اور مستحبات پر مجبور نہ کریں، کیونکہ اس کا نتیجہ منفی ہوگا جیسا کہ اس مسیحی کا قصہ مشہور ہے کہ مسلمان بھائی نے جسے صبح سے لیکر رات تک مسجد میں قید رکھا ،دوسرے دن جب اسے جگانے گیا تو اس نے کہا : بھائی مجھے بال بچے بھی پالنا ہے تواورکسی بے کار آدمی کو تلاش کرو ۔ اس طرح وہ دوبارہ مسیحیت کی طرف چلاگیا۔ایک جوان کہتا ہے کہ ہمارے والد صاحب ہم تمام بہن بھائیوں کو نماز شب کیلئے جگایا کرتے تھے۔میں بہت چھوٹا تھا نیند سے اٹھنا میرے لئے سخت ہوتاتھا، جب مجھے آواز دیتا تھا، حسن اٹھوتو میں بستر میں لیٹ کر ہی زور سے ولا الضالین یا اللہ اکبرکہتا تھا۔ 4————1 ۔ ہمان،ص٢٠٨۔2 ۔ ہماں،ص٣١٦۔3 ۔ خاطرات فریدہ خانم مصطفوی ،پابہ پای آفتاب،١٠٠۔4 ۔ قصص العلما،ص١٨٥۔