حضرت ختمی مرتبت ۖ کی عملی سیرت

170

حضرت ختمی مرتبت ۖ کی عملی ‘Practicaly’ سیرتیوں توحضرت ۖ کا کوئی بھی ایسا عمل نہیں مل سکتا کہ بغیر انجام دیئے کسی دوسرے کو حکم دیا ہو لیکن حضور ۖ کے دو کام ایسے ہیں جو بہت ہی آشکارا ہیں کہ سب کو معلوم ہو گیا کہ حضرت ۖ نے یہ عمل انجام دیئے ہیں۔آپ ۖ کا پہلا کام: مدینہ منورہ میں مسجد بنوائی، مسجد بنانے میں آپ ۖ خود بھی کام انجام دیتے تھے اور مسلمان خواتین کے لئے بھی ایک وقت مقرر فرمادیا تھا تاکہ اس ثواب سے خواتین بھی محروم نہ رہیں اور انھیں احساس کمتری نہ ہو۔آپ ۖ کا دوسرا کام:لوگوں کے درمیان اخوت وبرادری اور بھائی چارگی قائم کی جیسا کہ خدا وند عالم نے حکم دیا تھا (انما المومنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم واتقوا اللہ لعلکم تر حمون)(١)یعنی مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس بھائیوں کے درمیان صلح وآشتی برقرار رکھو اور تقویٰ اختیار کرو امید ہے کہ تم مشمول رحمت الٰہی قرار پائوگے۔اس آیت میں دو مومنوں کے درمیان تعلقات کو دو بھائیوں کے درمیان رابطہ سے تشبیہ دی گئی ہے جس سے چند باتیں سامنے آتی ہیں۔١۔دو بھائیوں کی دوستی، محکم اور عمیق و پائیدار ہے۔٢۔دو بھائیوں کی دوستی ،دو طرفہ ہے نہ کہ ایک طرفہ۔٣۔دو بھائیوں کی دوستی، فطرت وطبیعت کا تقاضہ ہے(جس کا مادی دنیا سے کو ئی تعلق نہیں ہے)٤۔دشمن کے مقابل، دو بھائی ، ایک دوسرے کے لئے قوت بازو ہیں۔٥۔دونوں بھائیوں کی اصل ایک ہے۔٦۔اگر ایک مومن دوسرے مومن کو بھائی تسلیم کرے گا تو عفو وبخشش کا جذبہ زیادہ ہوگا اور اس کی خطائوں سے چشم پوشی کرے گا (چونکہ دو بھائیوں کے درمیان ایسا ہی ہوتا ہے)……………………………………(١)سورۂ حجرات/١٠٧۔ایک بھائی دوسرے بھائی کی خوشی میں خوش اور اس کے غم میں غمگین و رنجیدہ ہوتا ہے، اگر ایک مومن دوسرے مومن کو اپنا بھائی نہیں سمجھتا تو بالکل اس کے بر خلاف نظر آئے گا، اگر ایک مومن خوش ہے تو دوسرا اس کی خوشی سے رنجیدہ ہوگا اور اگر ایک رنجیدہ ہے تو دوسرا اس کے دردوالم سے خوشحال ومسرور ہوگا، اگر ایک بھائی ترقی کے زینوں کو طے کر رہا ہے تو دوسرا بھائی اسے تنزلی کی طرف کھینچتا نظر آئے گااور اگر ایک بھائی پستی کی جانب جا رہا ہے تو بجائے اس کے کہ اسے سہارادیکرترقی کی طرف لا کر اس کا مددگارو معاون ثابت ہو ، گڑھے میں ڈھکیلتا نظر آئے گا۔روایت میں آیا ہے کہ ‘دو بھائی دو ہاتھوں کی مانند ہیںکہ دھوتے وقت ایک دوسرے کا مددگار ثابت ہوتا ہے'(١)اس روایت سے یہ صاف ظاہر ہے کہ بھائی اسی کوکہتے ہیں جو دوسرے بھائی کے لئے معاون ومددگار ثابت ہو ، اگر ایسا نہیں ہے تو کچھ بھی ہو، بھائی کہلانے کاحقدار نہیںہے۔آغازاسلام میں، رسول اسلام ۖ ،سات سو چالیس افراد کے ساتھ ‘نخیلہ نامی مقام پر’ قیام پذیر تھے کہ جبرئیل امین یہ پیغام لے کر نازل ہوئے کہ خدا وند عالم نے فرشتوں کے درمیان برادری قائم کردی ہے یعنی ایک کودوسرے کا بھائی قرار دیا ہے، آپ ۖ نے بھی اپنے اصحاب کے درمیان عقد اخوت پڑھا اور ایک کو دوسرے کا بھائی بنا دیا جن میں سے چند افراد کے اسماء گرامی مندرجہ ذیل ہیں:۔١۔ابوبکروعمر۔٢۔عثمان و عبد الرحمن۔
٣۔سلمان و ابوذر۔ ٤۔طلحہ وزبیر۔٥۔مصعب وابو ایوب انصاری۔٦۔حمزہ و زید بن حارثہ۔٧۔ابو درداء وبلال۔٨۔جعفر طیارو معاذ بن جبل۔٩۔مقدادوعمار۔١٠۔عائشہ وحفصہ۔١١۔ام سلمیٰ و صفیہ۔١٢۔اور خود کو حضرت علی ـ کا بھائی قرار دیا(٢)……………………………………(١) المحجة البیضائ: ج٣،ص٣١٩(٢)بحار الانوار:ج٣٨،ص٣٣٥جنگ احد میں دو شہید بنام عبداللہ ابن عمر اورعمر ابن جموح ، کہ جن کے درمیان آپ ۖ نے رشتۂ اخوت قائم کیا تھا ، حضور نے حکم دیا کہ ان دونوں کو ایک قبر میں دفن کرو(١)اخوت و برادری کا رابطہ صرف مردوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ خواتین کے لئے بھی وارد ہوا ہے، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے (وان کانوا اخوة رجالاونسائ)(٢)یعنی اخوت و برادری قائم کرو چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔برادری اور ہمبستگی فقط اور فقط فی سبیل اللہ ہونی چاہیئے ، اگر کوئی انسان کسی کو دنیا کے لئے بھائی بنائے تو اسے اس کی مراد حاصل نہیں ہو سکتی اور قیامت میں ایک دوسرے کے دشمن بھی ہو جائیں گے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے…………..(الاخلاء یو مئذ بعضھم لبعض عدو الا المتقین)(٣)ہوشیار ہوجائو! (جو لوگ دنیاوی غرض سے بھائی اور دوست بنتے اور بناتے ہیںوہ) قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے پرہیز گارں گے(یعنی جن لوگوں نے خدا کے لئے دوستی وبرادری قائم کی تھی وہی فائدہ میں ہیں )امام جعفر صادق ـ فرماتے ہیں: ‘مومن، مومن کا بھائی ہے، یہ دونوں ایک جسم کی مانند ہیں، اگر ایک جسم کا ایک حصہ بھی اذیت وتکلیف میں ہوتا ہے تو پورے جسم کو تکلیف محسوس ہوتی ہے’ (٤)یعنی بھائی وہی ہے جو اپنے بھائی کی تکلیف کا احساس کرے ۔……………………………………(١)شرح نھج البلاغہ: ابن ابی الحدید معتزلی،ج١٤،ص٢١٤۔ بحارالانوار:ج٢٠،ص١٢١(٢)سورۂ نسائ١٧٦(٣)سورۂ زخرف٦٧(٤) اصول کافی:ج٢،ص١٣٣مشہورو معروف فارسی شاعر جناب سعدی شیرازی صاحب اس حدیث کو اپنے اشعارر میں اس طرح قلم بند کرتے ہیں۔
بنی آدم اعضای یک پیکرندکہ در آفرینش ز یک گوہر ندچو عضوی بہ درد آورد روزگاردگر عضوھا را نماند قرارتو کز محنت دیگران بی غمینشاید نامت نہند آدمی(١)
یعنی بنی نوع انسان ،ایک جسم کی مانند ہیں جو ایک ہی گوہر سے پیدا ہوئے ہیں، جب جسم کے کسی ایک حصہ میں درد ہوتا ہے تو جسم کا کوئی حصہ بھی قرار نہیں پاتا، ہر حصہ بے چین ومضطرب اور پریشان رہتا ہے، اگر تم دوسروں کی زحمت اور تکلیف کی پرواہ نہیں کرتے تو تم آدمی کہلانے کے لائق نہیں ہو۔ یا ایک اردو شاعر اس طرح قلمبند کرتا ہے:۔
انس سے انساں بنا گر انس ہی اس میںنہ ہوآدمی وہ ہو تو ہو انسان ہو سکتا نہیں
جناب سعدی شیرازی کہہ رہے ہیں کہ تم آدمی کہلانے کے لائق نہیں ہو لیکن اردو شاعر ایک قدم آگے بڑھ کر کہتا ہے کہ ممکن ہے کہ تم آدمی کہلائو لیکن انسانیت کا خواب مت دیکھنا چونکہ انسانیت کا تمھارے اندر دوردور تک نام ونشان نہیں ہے۔
٦۔ حضرت ۖ کی نظر میں حقوق برادریجب ایک مومن نے دوسرے مومن کو بھائی مان ہی لیا ہے تو اب ظاہر ہے کہ اس کے حقوق کی بھی رعایت کرنی پڑے گی (قانون کا النگھن ضروری ہے)رسول اسلا م ۖ فرماتے ہیں: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان کی گردن پر تیس حق ہیںکہ جن کا ادا کرنا واجب ہے، ان میں سے چند حقوق مندرجہ ذیل ہیں:۔١۔اس کے ساتھہ عفووبخشش اور مہربانی کے ساتھہ پیش آئے۔٢۔اس کے رازاں کو مخفی رکھے۔……………………………………(١)گلستان سعدی۔ دیوان سعدی شیرازی٣۔اس کی خطائوں کا جبران کرے۔٤۔اس کے عذرو معذرت کوقبول کرے۔٥۔اس کے دشمنوں اور بد خواہوں سے اس کا دفاع کرے۔٦۔اس کے بارے میں اچھا سوچے۔٧۔اس سے کئے وعدوں کی وفا کرے۔٨۔اگر وہ بیمار ہوجائے تو اس کی مزاج پرسی کرے۔٩۔اگر وہ مر جائے تو اس کی تشییع جنازہ میں شرکت کرے۔١٠۔اس کی دعوت اور اس کے تحفہ کو قبول کرے۔١١۔اس کے تحفہ کے بدلہ میں اس سے بہترین تحفہ دے۔١٢۔اس کی خدمتوں کا شکریہ ادا کرے۔١٣۔اس کی مدد کرنے کی کوشش کرے۔١٤۔اس کی عزت وناموس کی حفاظت کرے۔١٥۔اس کی حاجت روائی کرے۔١٦۔اس کی مشکل حل کرنے میں وسیلہ بنے۔١٧۔اس کے سلام کا جواب دے۔١٨۔اس کی قسم قبول کرے۔١٩۔اس کے دوست کو بھی دوست رکھے۔٢٠۔اس کی گفتگو کا احترام کرے۔٢١۔اس کو حوادثات میں تنہا نہ چھوڑے۔٢٢۔جو کچھہ اپنے لئے چاہے وہ اس کے لئے بھی چاہے۔(١)……………………………………(١)بحار الانوار:ج٧٤،ص٢٣٦٧۔ حضور ۖ کی سیرت باعث محبوبیتآپ ۖ کی سیرت ،خلّاق دوجہاں کو اتنی زیادہ پسند آئی کہ اپنا محبوب بنا لیا اور آپ ۖ کا لقب حبیب اللہ پڑ گیا، اور جہان اسلام بڑی شان وشوکت کے ساتھہ آپ ۖ کے اس لقب پر فخرو مباہات کرکے نعت شریف پڑھتا نظر آتا ہے ۔جب خدا وند عالم نے آپ ۖ کو اپنا محبوب بنالیا تو یہ ظاہر سی بات ہے کہ محبوب سے متعلق ہر چیز محبوب ہوجاتی ہے اس کی ہر ادا دل میں جگہ بناتی ہے، آنکھوں میں سما جاتی ہے لہٰذا۔١۔جب آپ ۖ کو بچپن کے عالم میں دیکھا تو فرمایا:(ألم یجدک یتیمافأویٰ)(١)یعنی اے میرے رسول ۖ کیا جب ہم نے تمھیں یتیم پایا تو تمھارے لئے پناہگاہ کا انتظام نہیں کیا؟تمام تفاسیر کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس آیت سے جناب ابو طالب ـ کی جانب اشارہ ہے چونکہ جب آپ ۖ یتیم تھے تو آپ ۖ کی پناہ گاہ جناب ابو طالب ـکے علاوہ کوئی نہیں تھی ۔٢۔آپ ۖ کو وطن میں دیکھا تو فرمایا:(لا اقسم بھٰذا البلد وانت حل بھٰذا البلد)(٢)یعنی اے میرے رسول میں اس شہر پر عذاب نازل کر ہی نہیں سکتا جب تک کہ تم اس شہر میں ہو ، مجھے یہ گوارہ نہیں ہے کہ جس شہر میں رحمة للعالمین ہو اس پر عذاب نازل کروں۔٣۔آپ ۖ کو سفر کی حالت میں دیکھا تو فرمایا:(ووجدک ضالا فھدیٰ)(٣)یعنی اے میرے حبیب کیا ہم نے تمھاری گمراہیوں میں ہدایت نہیں کی؟یہ مسئلہ پیچیدہ ہے کیونکہ آپ ۖ تو دونوں عالم کے رہبر بناکر بھیجے گئے تھے پھر آپ ۖ کو ہدایت کی ضرورت کیا معنی؟مراد یہ ہے کہ جب آپ ۖ کسی مسئلہ میں مشوش ہوتے تھے تو خدا وند عالم آپ ۖ کی ہدایت و رہنمائی کرتا تھا کہ ایسا کرو یہ بہتر ہوگا وغیرہ……٤۔آپ ۖ کی حیا کو دیکھا تو فرمایا: (فیستحی منکم)(٤)اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ میرا رسول تم میں سب سے زیادہ حیا دار ہے۔……………………………………(١)سورۂ ضحیٰ/٦(٢)سورۂ بلد/١،٢(٣)سورۂ ضحیٰ٧(٤)سورۂ ضحیٰ/٧٥۔آپ ۖ کی ضیا کو دیکھا تو فرمایا:(وداعیا الیٰ اللہ بأذنہ و سراجا منیرا)(١)میرا رسول تمھیں میری طرف دعوت دینے والا اور تمھارے لئے راہ ضلالت و گمراہی میں چراغ ہدایت ہے۔٦۔آپ ۖ کی عبا کو دیکھا تو فرمایا:(یا ایھاالمدثر)(٢)اللہ اکبر…آپ ۖ نماز کی حالت میں جو کمبلی اوڑھے تھے وہ بھی خدا کو اتنی پسند آئی کہ آپ ۖکا لقب قرار دیا ‘اے کمبلی اوڑھنے والے رسول’٧۔آپ ۖ کے کردار کو دیکھا تو فرمایا:(انک لعلیٰ خلق عظیم)(٣)یعنی اے میرے حبیب آپ خلق عظیم پر فائز ہیں، جیساکہ ہم نے پہلے بھی اس کی کئی مرتبہ تکرار کی ہے کہ آپ ۖ کو ہمارے لئے نمونۂ عمل(Ideal) بناکر بھیجا گیا ہے اور خدا وند عالم اس بات سے یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ میرے حبیب کے جیسا کسی کا اخلاق نہیں ہے لہٰذا اگر تمھیں نمونے کی ہی تلاش ہے تو میرے حبیب کو ہی نمونہ بناناچونکہ یہی ایک ایسی شخصیت ہے جو نمونۂ عمل(Ideal ) بننے کے قابل ہے ورنہ باقی تو سب ایسے ہی ہیں جیسے آب رواں پر حباب۔٨۔آپ ۖ کی رفتار کو دیکھا تو فرمایا:(انک علیٰ صراط مستقیم)(٤)اس آیت سے اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر تمھیں صراط مستقیم چاہیئے تو میرے حبیب کی راہ اپنائو یہی صراط مستقیم ہے۔٩۔آپ ۖ کے پرستار کو دیکھا تو فرمایا:(رحماء بینھم)(٥)اشارہ ہے جناب ابو طالب ـ کی طرف کہ آپ کے جیسا کوئی پرستار اور نگہبان نہیں وہ تو دوسرے لوگوں کے لئے بھی رحم دل انسان ہے۔١٠۔آپ ۖ کے یار کو دیکھا تو فرمایا:(اشداء علیٰ الکفار ) (٦)اشارہ ہے مولا علی ـ کی ذات گرامی کی جانب کہ یہ میری عبادت میں اتناغرق ہے کہ اسے میرے سوا کچھ نظرہی نہیں آتا اور میرے دشمنوں کے مقابلہ میں بہت شدید ہے ، ان کو معاف نہیں کرے گا سوائے اس کے کہ ان کی نسلوں میں کوئی محمد و آل محمدکا شیعہ آنے والاہو۔……………………………………(١)سورۂ احزاب/٤٦(٢)سورۂ مدثر/١١(٣)سورۂ قلم/٤(٤)سورۂ زخرف/٤٦(٥)سورۂ فتح/٢٩(٦)سورۂ فتح/٢٩١١۔آپ ۖ کی اصالت کو دیکھا تو فرمایا: (اصلھا ثابت)(١)اشارہ ہے آپ ۖ کے شجرۂ نسب کی جانب کہ آپ ۖ کے شجرہ میں کسی قسم کے شک وتردد کی گنجائش نہیں ہے (وہ اور ہوں گے جن کا شجرۂ نسب معلوم ہی نہیں دور جانے کی ضرورت نہیں صرف باپ کو دیکھا جائے تو باپ نہیں ملتا)١٢۔آپ ۖ کی سیادت کو دیکھا تو فرمایا:(یٰس والقرآن الحکیم)(٢)یعنی آپ ۖ کو اتنا پاک و پاکیزہ اور طاہر پایا کہ یٰس جیسے لقب سے نوازا۔١٣۔آپ ۖ کی طہارت کو دیکھا تو فرمایا:(طٰہ ما انزلنا علیک القرآن لتشقیٰ)(٣)یعنی اے میرے طاہر و پاک طینت حبیب ہم نے اپنی عبادت اس لئے واجب قرار نہیں دی کہ تم خود کو مشقت میں ڈالو۔١٤۔آپ ۖ کی فصاحت کو دیکھا تو فرمایا:(خلق الانسان علمہ البیان)(٤)یعنی خدا وند عالم نے انسان کو خلق کیا پھر اسے واضح طور پر تعلیم دی، یعنی ایسی تعلیم دی جس میںپیچیدگی کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا۔١٥۔آپ ۖ کی سخاوت کو دیکھا تو فرمایا:(لاتبسطھا کل البسط)(٥)یعنی آپ ۖ کا ہاتھ اتنا زیادہ کھلا ہوا کہ دنیا بھر کے کتنے بھی ہاتھ کھل جائیں آپ ۖ کی برابری نہیں کر سکتے۔١٦۔آپ ۖ کے علم پر نظر پڑی تو فرمایا:(علمک مالم تکن تعلم)(٦)اشارہ ہے کہ اے رسول! ہم نے آپ ۖ کو ایسی تعلیم دی کہ کسی کو بھی ایسی تعلیم نہیں دی گئی اور نہ ہی تا قیام قیامت دی جائے گی۔……………………………………(١)سورۂ ابراہیم/٢٤(٢)سورۂ یٰس/١(٣)سورۂ طٰہ/١(٤)سورۂ رحمن/٣،٤(٥)سورۂ اسراء/٢٩(٦)سورۂ نساء/١١٣١٧۔آپ ۖ کے حلم کو دیکھا تو فرمایا:(ویعفو عن کثیر)(١)یعنی میرا رسول اتنا حلیم وبرد بار ہے کہ اکثر اوقات اس کے اندر انتقام کا جذبہ نہیں رہتا بلکہ جہاں تک ممکن ہوتا ہے معاف کرنے کی کوشش کرتا ہے۔١٨۔آپ ۖ کے نور کو دیکھا تو فرمایا:(مثل نورہ کمشکاة فیھا مصباح)(٢)یعنی میرے رسول کا نور، اس نور کی طرح ہے کہ جیسے چراغ قندیل میں رکھا ہو اور دھیمی دھیمی روشنی باہر آرہی ہو جو انسان کے دل کو لبھاتی ہے۔١٩۔آپ ۖ کے حسین چہرۂ مبارک کو دیکھا تو فرمایا:(والشمس وضحا ھا)(٣)آپ ۖ کے تابناک چہرہ (سورج) اور اسکی روشنی کی قسم۔٢٠۔آپ ۖ کی زلفوں کو دیکھا تو فرمایا:(واللیل اذا یغشاھا)(٤)آپ کی زلف(رات) کی قسم جو زمانہ پر تاریکی پھیلا دیتی ہے۔٢١۔آپ ۖ کے دست مبارک کو دیکھا تو فرمایا:(وما رمیت اذ رمیت ولٰکن اللہ رمیٰ)(٥)اللہ اکبر….اے میرے رسول! یہ کنکریاں جو تم نے پھینکی ہیں یہ تم نے نہیں پھینکیں بلکہ ہم نے پھینکی ہیں ، یہ فعل تمھارے ہاتھوں سے انجام پایا لیکن یہ کام ہمارا ہے، تم میری صفات کے مظہر ہو، اس لئے میں نے یہ کام تمھارے ہاتھوں سے انجام دلوایا۔……………………………………(١)سورۂ مائدہ/١٥(٢)سورۂ نور/٣٥(٣)سورۂ شمس/١(٤) سورۂ شمس/٤(٥)سورۂ انفال/١٧٢٢۔آپ ۖ کے قدم مبارک کو دیکھا تو فرمایا:(دنیٰ فتدلیٰ فکان قاب قوسین او ادنیٰ)(١)اشارہ ہے واقعہ معراج کی جانب، جب رسول اسلام ۖ کو حکم ہوا تھا کہ اے میرے رسول چلے آئو چلے آئو بڑھتے رہو میری جانب بڑھتے رہو ‘میرے رسول آئیے اور قریب آئیے’ یہاں تک کہ حضور اکرم ۖ اتنے قریب ہوئے اتنے قریب ہوئے کہ جبرئیل نے بھی ساتھ چھوڑ دیا جوکہ خدا وند عالم کا مقرب ترین فرشتہ تھااور حضور ۖ اتنا نزدیک ہوئے کہ کوئی مقدار نہیں بتائی گئی کہ کتنے قریب ہوئے دوکمان یا اس سے بھی کم کا فاصلہ رہ گیا (میں آگے کچھ نہیں کہوں گا کہ کس شخص یا کس چیز سے قریب ہوئے ایسا نہ ہو کہ کوئی الزام لگ جائے)٢٣۔آپ ۖ کے سینہ مبارک کو دیکھا تو فرمایا:(ألم نشرح لک صدرک؟)(٢)اے میرے حبیب کیا ہم نے تمھارے سینہ کو کشادہ نہیں کیا؟ (شاید اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اگر ہم تمھارے سینہ کو کشادہ نہ کرتے تو تم آسمانی کتاب ‘قرآن کریم’کا وزن کس طرح اٹھاتے؟ چونکہ قرآن وہ عظیم کتاب ہے کہ اگر ہم اسے پہاڑوںپر نازل کردیتے تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتے۔٢٤۔آپ ۖ کی پشت مبارک کو دیکھا تو فرمایا:(ووضعنا عنک وزرک الذی انقض ظھرک)(٣)اور کیا ہم نے تمھاری اس پشت کا وزن (علی ـ کے ذریعہ) ہلکا نہیں کیا جو وزن سے ٹوٹی جارہی تھی؟٢٥۔آپ ۖ کے بیت الشرف پر نظر پڑی تو فرمایا:(فی بیوت اذن اللہ ان ترفع)(٤)گھروں میں سب سے اعلیٰ وارفع آپ ۖ کے بیت مبارک کوقرار دیا گیا۔٢٦۔آپ ۖ کے اہلبیت ٪ کو دیکھا تو فرمایا: (انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطھیرا)(٥)اے اہل بیت اللہ کا یہ ارادہ ہے کہ ہر نجاست وکثافت کوتم سے اسطرح دور رکھے جو دور رکھنے کا حق ہے۔……………………………………(١)سورۂ نجم/٨،٩(٢)سورۂ انشراح/١(٣)سورۂ انشراح/٢،٣(٤)سورۂ نور/٣٦(٥)سورۂ احزاب/٣٣
٨۔ سنت رسول اسلا م ۖ کی جگہ بدعتوں کا رواجمعاویہ علیھا الھاویہ نے سنت رسول ۖ کو نیست ونابوداور بدعتوں کے رائج کرنے کے لئے بھر پور کوششیں کی ہیں تاریخ نے ان میں سے چند کا تذکرہ کیا ہے جو یہاں بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں، معاویہ وہ شخص ہے جس نے سنت رسول ۖ کی جگہ بدعتوںکو رائج کیا……….١۔مسلمانوں میں زنا اور بد کاری کو عام کیا۔٢۔سود کو حلال قرار دیا۔٣۔سفر میں نماز قصر پڑھنے کی جگہ پوری نماز ادا کی۔٤۔نماز عیدین میں اذان کہی۔٥۔دو سگی بہنوں سے ایک وقت میںشادی کو حلال قرار دیا۔٦۔دیت میں تبدیلی کرکے اس میں سنت کے بر خلاف اضافہ کیا۔٧۔رکوع سے پہلے اور بعد میں تکبیر کہنی چھوڑدی۔٨۔نماز عیدین میں خطبوں کو نماز سے پہلے (نماز جمعہ کی طرح)پڑھا۔٩۔ناجائز اولاد کے حکم کو نقض کیا۔١٠۔انگھوٹھی بائیں ہاتھ میں پہنی۔١١۔حضرت علی ـ پر سب وشتم کا آغاز کیا اور اسے با قاعدہ رائج کیا۔١٢۔بیت المال کو تحریف قرآن میں خرچ کیا۔١٣۔پیغمبر ۖ کے عادل صحابہ کو قتل کیا۔١٤۔اہل بیت ٪ کی پیروکار خواتین کو قتل کیا۔١٥۔اسلامی خلافت کو بادشاہت میں تبدیل کیا۔١٦۔ریشمی لباس پہنا اور چاندی سونے کے برتن میں پانی پیا۔١٧۔حرام موسیقی سنی اور اس پر رقم خرچ کی(١)……………………………………(١)الغدیر:ج١١،ص٧٢۔ نوٹ:۔علامہ امینی مرحوم نے ٢٧ مقامات شمار کئے ہیں تفصیل کے لئے اسی حوالہ پر مراجعہ فرمائیں۔دور حاضر میں بھی سیرت رسول ۖ کی پامالی کے متعلق بہت زیادہ ناکام کوششیں کی جارہی ہیں لہٰذا:ہمارا فریضہ ہے کہ آنحضرت ۖ کی سیرت طیبہ کے احیاء میں ‘رات دن’ کوشاں رہیں تاکہ محشر میں حضور ۖ کے سامنے خجالت وشرمندگی سے محفوظ رہ سکیں اور فخر کے ساتھ حضرت سے کہیں کہ یا رسول اللہ ۖ ہم پر بھی ایک نظر کرم کیجئے، ہماری شفاعت فرمائیئے ہم آپ ۖ کی سنت کے احیاء میں زندگی بسر کرکے آئے ہیں ۔خدا وند عالم کے فرستادہ نمونہ اور آئیڈیل(Ideal )حضرت ختمی مرتبت ۖ نے اپنے اخلاق کے ذریعہ دنیائے انسانیت کو یہ درس دیا ہے کہ شمشیر ظلم سے سروں پر تو حکومت ہو سکتی ہے ،دلوں پر حکومت نہیں کی جا سکتی ۔اگر دلوں پر حکومت کرنی ہے تو اس کا صرف ایک ہی اسلحہ ہے اور وہ ہے’اخلاق’
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.