ذات رسول اسلام،درس عبرت
آپ ۖ نے فرمایا ‘کیا تمھیں یہ پسند نہیں کہ اونٹوں کی جگہ پر میں خود تمھارے ساتھ ہوں؟(١)یہ تھی حضور ۖ کی سیرت کہ کفار میں مال غنیمت تقسیم فرما رہے ہیں اور ادھر صحابہ کا امتحان بھی ہو رہا ہے کہ آخر یہ لوگ کتنے پانی میں ہیں، حضور ۖ کا سوال کرنا بتا رہا ہے کہ اصحاب کا تمام ہم وغم صرف وصرف دنیا کے لئے تھا اور بس……
٢۔ حضور اکرم ۖ کی سیرت میں عدالتسرکار رسالت مآب ۖ اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام میں رونق افروز منبر ہوئے اور فرمایا کہ جس شخص کا بھی حق میری گردن پر باقی ہو وہ بلا جھجک طلب کر سکتا ہے، تمام مجمع پر خاموشی حاکم تھی ،اسی اثناء میں ایک بدو عرب محفل سے کھڑا ہوا جس کا نام تاریخ نے ‘اسودہ بن قیس’ تحریر کیا ہے، کہتا ہے یا رسول اللہ ۖ! آپ کے اوپر میرا ایک حق ہے، سوال کیا کون سا حق؟جواب دیا کہ آپ جنگ طائف میں تشریف لے جا رہے تھے تو آپ نے ایک تازیانہ میری پشت پر ماردیا تھا، آپ ۖ نے فرمایا ‘آئو قصاص لے لو’……………………………………(١)صحیفۂ امام خمینی: ج٣،ص٢٤٨اس نے کہا نہیں جس وقت آپ نے تازیانہ مار اتھا تو میں اس وقت برہنہ تن تھا، حضور ۖ نے لباس ہٹایا اور اس نے فوراََ آگے بڑھ کر مھر نبوت کا بوسہ لے لیا۔ہماری بحث اس سے نہیں ہے کہ اس نے یہ کام غلط کیا یا صحیح؟ ایک بوسہ کی خاطر کتنے جھوٹ بولے؟ رسول اسلام ۖ پر کتنی تہمتیں لگائیں؟کس راستے سے منزل مقصود تک پہونچنے میں کامیاب ہوا؟ہماری بحث یہ ہے کہ حضور اکرم ۖ کی سیرت دیکھئے، خود اپنی ذات کے متعلق اتنی عدالت ہے کہ پیرہن ہٹادیا آئو قصاص لے لو(١)
٣۔ پیغمبر اسلام ۖ کا عہدو پیما نعمّار کہتے ہیں: بعثت سے پہلے میں اور پیغمبر اکرم ۖ، ایک ساتھ بکریاں چَرایا کرتے تھے، ایک روز میں نے حضور ۖ سے کہا کہ یا رسول اللہ ۖ! فلاں جگہ بہت ہریالی ہے، کل بکریوں کولے کر وہیں چلتے ہیں، حضور ۖ نے قبول کر لیا، میں معین وقت پر اس جگہ پہونچا تو میں نے دیکھا کہ حضور ۖ مجھ سے پہلے وہاں پہونچ چکے ہیں لیکن بکریوں کو چَرنے نہیں دے رہے ہیں میں نے سوال کیا کہ آخر آپ بکریوں کو چرنے کیوں نہیں دیتے؟ تو آپ ۖ نے جواب دیا ‘میں نے تم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم دونوں اپنی اپنی بکریوں کو ساتھ چَرائیں گے تو تمھاری بکریوں سے پہلے میں اپنی بکریوں کو کیسے اجازت دیتا؟ (٢)اللہ اکبر، ایک معمولی سا کام ہے ، بکریوں کو چَرانا ہے لیکن اس میں بھی عہدو پیمان کی وفا کا اتنا زیادہ خیال؟ (لیکن کیا کہا جائے ان حضرات کو کہ جن کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم سنت رسول ۖ پر عمل کرتے ہیں لیکن غدیر خم کے وعدے کو بھلا بیٹھے)……………………………………(١)سیرۂ رسول اللہ و آرمان انبیاء الٰہی ،از دید گاہ امام خمینی: ص٨٩(٢)سیرۂ پیامبر اکرم ۖ:ص٢٨٤۔ رسول اسلام ۖ کی تبلیغی سیرتجس وقت یہ آیت نازل ہوئی(أنذر عشیرتک الاقربین)(١)یعنی اے میرے رسول آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو عذاب الٰہی سے خوف دلائیئے، تو آپ ۖ نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوت دی(آیت کالہجہ اور حضور ۖ کا عمل، بتا رہا ہے کہ سب سے پہلے تبلیغ کے حقدار اعزاء واقارب ہیں،سب سے پہلے اپنے اہلبیت کو تبلیغ کرو تاکہ دوسرے لوگوں کو انگشت نمائی کا موقع نہ مل سکے)تاریخ نے دعوت ذوالعشیرہ کے مہمانوںکی تعداد، ٤٥افراد بتائی ہے، کھانا کھلانے کے بعد جیسے ہی رسول اسلام ۖ پیغام سنانے کے لئے کھڑے ہوئے تو ابو لہب (جو آپ ۖ ہی کا چچا تھا) نے فوراََ لوگوں کو بھڑکانا اوراکساناشروع کیا، جس کے نتیجہ میں تمام لوگ اٹھ کر چلے گئے اور آپ ۖ لوگوںتک پیغام نہیںپہونچا سکے، دوسرے دن پھر دعوت دی لیکن پھر وہی نتیجہ ملا، تیسرے دن دعوت کی تو پھر ابو لہب کھڑا ہوا لیکن اب ولایت ورسالت کے حامی ومحامی جناب ابو طالب ـ کا پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا فوراََ کھڑے ہوگئے اور ابو لہب کو ڈانٹا ‘اسکت یا اعور’ اے کانے خاموش…………. پورے مجمع پر ایسی خاموشی حاکم ہوگئی کہ سوئی بھی گر جائے تو با قاعدہ آواز سنائی دے، تمام لوگوں کے سر اس طرح جھکے تھے کہ گویا تمام سروں پر طائر بیٹھے ہوں کہ اگر ذرا سا بھی سر ہلا یا تو سروں پر بیٹھے ہوئے پرندے اڑ جائیں گے، تمام لوگ انتہائی دریائے حیرت میں غرق، انگشت بدنداں تھے، جناب ابو طالب ـ نے ادھر تو ابو لہب کو ڈانٹا اور ادھر بھتیجے سے فرمایا ‘قم یا سیدی ومولای’ اے میرے سید وسردار آپ کھڑے ہوں اور جو کچھ بھی کہنا ہو کہیں، آپ ۖ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تم میں سے کون ایسا ہے جو میرا وصی وخلیفہ اور جانشین ہو؟ سکوت کے علاوہ کوئی جواب حاصل نہیں ہوا لیکن اسی سکوت کو ایک تیرہ سالہ بچے نے یہ کہکر توڑ ڈالا ‘انا یا رسول اللہ’ یا رسول اللہ ۖ علی آپ کی نصرت کے لئے آمادہ ہے، آپ ۖ نے تمام مجمع سے خطاب کیا کہ علی میرا بھائی ، میرا وصی، میرا خلیفہ، میرا وزیر ہے تم پر لازم ہے کہ اس کی بات کو سنو اور اس کی اطاعت کرو(٢)……………………………………(١)سورۂ شعراء/٢١٤(٢)آمالی ،شیخ طوسی:ص٥٨١آپ ۖ نے تین سال تک پوشیدہ طور پر تبلیغ کی یہاں تک کہ حکم خدا وندی نازل ہوا (فاصدع بما تؤمر واعرض عن المشرکین)(١)یعنی اے رسول! جن کاموں پر تمھیں مامور کیا گیا ہے انھیں آشکار کردو اور مشرکین سے پرہیز کرو(ان پر بھروسہ نہ کرو) ہم تمھیں ان کے شر سے محفوظ رکھیں گے۔حضور ۖ کوہ صفا کے دامن میں خانۂ کعبہ کے کنارے تشریف لائے اور اعلان عام کردیا اور فرمایا کہ اگر تم میری دعوت کو قبول کرلوگے تو دنیاوی حکومت و عزت اور آخرت، سب تمھارا ہے لیکن لوگوں نے آپ ۖ کا مذاق اڑایااور جناب ابوطالب ـ کے پاس آکر کہنے لگے کہ آپ کا بھتیجا ہمارے نو جوانوں کو گمراہ کر رہا ہے، اس سے پو چھئے کہ وہ کیاچاہتا ہے؟ اگر اسے دولت چاہیئے تو ہم دولت دینے کو تیار ہیں، اگر عورت درکار ہے تو ہم عورت دینے کو تیار ہیں، اگر منزلت کا خواہاںہے تو منزلت بھی دیدیں گے، جناب ابوطالبـ نے یہ بات رسول اسلام ۖکو بتائی، رسول اسلام ۖ نے جواب دیا کہ اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر آفتاب اور دوسرے ہاتھ پر ماہتاب رکھ دیں تو بھی میں اپنے کام سے باز نہیں آسکتا، کفار نے جناب ابو طالبـ سے چاہا کہ محمد ۖ کو ان کے حوالے کردیں لیکن جناب ابوطالب ـنے قبول نہیں کیا(٢)آپ ۖ نے تبلیغ کا طریقۂ کار بتایا ہے کہ چاند اور سورج ملنے کے بعد بھی ، میں تبلیغ سے باز نہیں آسکتا(لیکن افسوس! سیرت رسول ۖ کی پیروی کا دم بھرنے والے، عصر حاضر کے مبلغین کو کیا ہو گیا ؟ آخر عقل کو کون سے چوربازار میں بیچ آئے؟ کہ ان کی زبانوں میں چند ڈالر ہی تالا ڈال دیتے ہیں اور وہ بھی ایسا تالا کہ کوئی سی چابھی اسے نہ کھول پائے یا دوسری طرف سے اسلام کے خلاف وہی چند ڈالر، زبان کے دریا کو ایسے بہائو پر لے آتے ہیں کہ محکم سے محکم باندھ بھی اسے نہیں روک پاتا)……………………………………(١)سورۂ حجر/٩٤(٢)شرح نھج البلاغہ:ج١٤،ص٥٤