ابوسفیا ن وابوجھل چھپ کر قرآن سنتے ھیں
اتفاق سے سب نے واپسی کے لیے ایک ھی راستے کا انتخاب کیا اور ان کی اچانک ایک دوسرے سے ملاقات هوگئی اور ان کا بھانڈا وھیں پر پھوٹ گیا انھوں نے ایک دوسرے کوملامت کی اور اس بات پر زوردیا کہ آئندہ ایسا کام نھیں کریں گے ، اگر نا سمجھ لوگوں کو پتہ چل گیا تو وہ شک وشبہ میں پڑجائیں گے ۔دوسری اور تیسری رات بھی ایسا ھی اتفاق هوا اور پھروھی باتیں دھرائی گئیں اور آخری رات تو انھوں نے کھا جب تک اس بات پر پختہ عہد نہ کرلیں اپنی جگہ سے ھلیں نھیں چنانچہ ایسا ھی کیا گیا اور پھر ھر ایک نے اپنی راہ لی ۔اسی رات کی صبح اخنس بن شریق نامی ایک مشرک اپنا عصالے کر سیدھا ابوسفیان کے گھر پہنچا اور اسے کھا : تم نے جو کچھ محمدسے سناھے اس کے بارے میں تمھاری کیا رائے ھے ؟اس نے کھا:خدا قسم : کچھ مطالب ایسے سنے ھیں جن کا معنی ٰبخوبی سمجھ سکاهوں اور کچھ مسائل کی مراد اور معنیٰ کو نھیں سمجھ سکا ۔ اخنس وھاں سے سیدھا ابوجھل کے پاس پہنچا اس سے بھی وھی سوال کیا : تم نے جو کچھ محمد سے سنا ھے اس کے بارے میں کیا کہتے هو ؟ابوجھل نے کھا :سناکیاھے، حقیقت یہ ھے کہ ھماری اور اولاد عبدمناف کی قدیم زمانے سے رقابت چلی آرھی ھے انھوں نے بھوکوں کو کھانا کھلایا، ھم نے بھی کھلایا ، انھوں نے پیدل لوگوں کو سواریاں دیں ھم نے بھی دیں ، انھوں نے لوگوں پر خرچ کیا، سوھم نے بھی کیا گویا ھم دوش بدوش آگے بڑھتے رھے۔جب انھوں نے دعویٰ کیا ھے کہ ان کے پاس وحی آسمانی بھی آتی ھے تو اس بارے میں ھم ان کے ساتھ کس طرح برابری کرسکتے ھیں ؟ اب جب کہ صورت حال یہ ھے تو خداکی قسم !ھم نہ تو کبھی اس پر ایمان لائیں گے اور نہ ھی اس کی تصدیق کریں گے ۔اخنس نے جب یہ بات سنی تو وھاں سے اٹھ کر چلاگیا [26]جی ھاں: قرآن کی کشش نے ان پر اس قدرا ثرکردیا کہ وہ سپیدہٴ صبح تک اس الٰھی کشش میں گم رھے لیکن خود خواھی ، تعصب اور مادی فوائدان پر اس قدر غالب آچکے تھے کہ انھوں نے حق قبول کرنے سے انکار کردیا ۔اس میں شک نھیں کہ اس نورالٰھی میں اس قدر طاقت ھے کہ ھر آمادہ دل کو وہ جھاں بھی هو، اپنی طرف جذب کرلیتا ھے یھی وجہ ھے کہ اس (قرآن)کا ان آیات میں “جھاد کبیر” کہہ کر تعارف کروایا گیا ھے۔[27]ایک اور روایت میں ھے کہ ایک دن “اخنس بن شریق” کا ابوجھل سے آمناسامنا هوگیا جب کہ وھاں پر اور کوئی دوسرا آدمی موجود نھیںتھا۔تو اخنس نے اس سے کھا :سچ بتاؤ محمد سچاھے ،یاجھوٹا ؟قریش میں سے کوئی شخص سوامیرے اور تیرے یھاں موجود نھیں ھے جو ھماری باتوں کو سنے ۔ابوجھل نے کھا: وائے هو تجھ پر خداکی قسم !وہ میرے عقیدے میں سچ کہتا ھے اور اس نے کبھی جھوٹ نھیں بولا لیکن اگر یہ اس بات کی بناهو جائے کہ محمد کا خاندان سب چیزوں کو اپنے قبضہ میں کرلے، حج کا پرچم ، حاجیوں کو پانی پلانا،کعبہ کی پردہ داری اور مقام نبوت تو باقی قریش کے لئے کیا باقی رہ جائےگا۔ [28]
[26] سیرت ابن ہشام جلداول ص۳۳۷ ، اور تفسیر فی ظلال القرآن جلد۶ ص ۱۷۳۔[27] تفسیر نمونہ ج ۸ ص ۱۴۴[28] مندرجہ بالاروایات تفسیر المنار اور مجمع البیان سے سورہٴ انعام آیت ۳۳کے ذیل میں بیان کردہ تفسیر سے لی گئی ھیں ۔