اہلبیت (ع) پر پیغمبر اکرم کا سلام
اہلبیت (ع) پر پیغمبر اکرم کا سلام اور ان کے لئے مخصوص حکم نماز
69 ۔ ابوالحمراء خادم پیغمبر اسلام کا بیان ہے کہ حضور طلوع فجر کے وقت خانہٴ علی (ع) و فاطمہ (ع) کے پاس سے گذرتے تھے اور فرماتے تھے۔
”السلام علیکم اہل البیت“الصلوة الصلوة اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے ہیں۔( اسد الغابہ 6/74/27 58)
اسی کتاب کے صفحہ 66 پر اس روایت میں یہ اضافہ ہے کہ میں نے مدینہ میں قیام کے دوران چھ ماہ تک یہ منظر دیکھاہے۔
70۔ ابوالحمراء خادم پیغمبر اکرم کا بیان ہے کہ حضور ہر نماز صبح کے وقت دروازہ زہر ا پر آکر فرماتے تھے” السلام علیکم یا اہل البیت (ع) و رحمة اللہ و برکاتہ“ اور وہ حضرات اندر سے جوواب دیتے تھے” وعلیکم السلام و رحمة اللہ و برکاتہ“ اس کے بعد آپ فرماتے تھے الصلوة رحمکم اللہ اور یہ کہہ کر آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے۔
راوی کہتاہے کہ میں نے ابوالحمراء سے پوچھا کہ اس گھر میں کون کون تھا تو بتایا کہ علی (ع) ۔ فاطمہ (ع) ۔ حسن (ع) ۔ حسین (ع)۔(شواہد التنزیل 2/74 / 694)۔
71 ۔ امام علی (ع) کا بیان ہے کہ رسول اکرم ہر صبح ہمارے دروازہ پر آکر فرماتے تھے ” نماز ۔ خدا رحمت نازل کرے۔ نماز اور اس کے بعد آیہ تطہیر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔( امالی مفید (ر) 4/318 ، امالی طوسی (ر) 89 / 138 بشارة المصطفیٰ ص 264 بروایت حارث )۔
72۔ امام صادق (ع) نے اپنے والد اور جد بزرگوار کے واسطہ سے امام حسن (ع) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے معاویہ سے صلح کے موقع پر حالات سے بحث کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ رسول اکرم آیہٴ تطہیر کے نزول کے بعد تمام زندگی نماز صبح کے وقت ہمارے دروازہ پر آکر فرمایا کرتے تھے ” نماز ۔ خدا تم پر رحمت نازل کرے ۔ انما یرید اللہ … ( امالی طوسی (ر)565 / 1174 از عبدالرحمٰن بن کثیر ۔ ینابیع المودة 3 ص 386)۔
ینابیع المودة میں یہ تذکرہ بھی ہے کہ یہ کام آیت ” و امرا ھلک بالصلوة“ کے نزول کے بعد ہوا کرتا تھا۔
73 ۔ امام صادق (ع)نے اپنے آباء و اجداد کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم ہر صبح کے وقت درواز ہ علی (ع) و فاطمہ (ع) پر کھڑے ہوکر فرماتے تھے کہ ” تمام تعریفیں احسان کرنے والے ۔ کرم کرنے والے ۔ نعمتیں نازل کرنے والے اور فضل و افضال کرنے والے پروردگار کے لئے ہیں جس کی نعمتوں ہی سے نیکیاں درجہٴ کمال تک پہنچتی ہیں۔ وہ ہر ایک کی آواز سننے والا ہے اور سارا کام اس کی نعمتوں سے انجام پاتاہے، اس کے احسانات ہمارے پاس بہت ہیں، ہم جہنم سے اس کی پناہ چاہتے ہیں اور صبح و شام یہی پناہ چاہتے ہیں، نماز اے اہلبیت (ع) خدا تم سے ہر رجس کو دور رکھنا چاہتاہے اور تمھیں کمال طہارت کی منزل پر رکھنا چاہتاہے ۔ (امالی صدوق 124 / 14 از اسماعیل بن ابی زیاد السکونی)۔
74۔ تفسیر علی بن ابراہیم میں آیت کریمہ ” و امر اھلک بالصلوة“ کے بار ے میں نقل کیا گیا ہے کہ پروردگار نے خصوصیت کے ساتھ اپنے اہل کو نماز کا حکم دینے کے لئے فرمایاہے تا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ آل محمد کی ایک مخصوص حیثیت ہے جو دوسرے افراد کو حاصل نہیں ہے۔
اس کے بعد جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضور ہر نماز صبح کے وقت دروازہ علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) پر آکر فرماتے تھے” السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ“ اور اندر سے جواب آتا تھا ” و علیک السلام یا رسول اللہ و رحمة اللہ و برکاتہ۔
اس کے بعد آپ دروازہ کا باز و تھام کر فرمایا کرتے تھے” الصلوة الصلوة یرحمکم اللہ “ اور یہ کہہ کر آیت تطہیر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے اور یہ کام مدینہ کی زندگی میں تاحیات انجام دیتے رہے۔ اور ابوالحمراء خادم پیغمبر کا بیان ہے کہ میں اس عمل کا مستقل شاہد ہوں ۔( تفسیر طبری 22/ص7، درمنثور 6 ص 403 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) ص 60 ، مختصر تاریخ دمشق 7/ 119 ، کنز العمال 13 ص 645 ، شواہد التنزیل 2 ص 18 ، ینابیع المودة 1 ص 229 ، مناقب خوارزمی 60 فصل پنجم، تفسیر فرات کوفی ص 331 ، کشف الغمہ 1 ص 40 فصل تفسیر آل و اہل ، احقاق الحق 2 ص 501 ، 562 ، 3 ص 513 ، 531 ص 1 / 69، 14 ص 40 ، 105 ، 18 ص 359 ، 382 ، بحار الانوار 35 ص 206)۔
تحقیق احادیث سلام پیغمبر اسلام
کھلی ہوئی بات ہے کہ اس واقعہ کو اکا بر محدثین نے مختلف شخصیات کے حوالہ سے نقل کیا ہے اور اس طرح یہ واقعہ تاریخی مسلمات میں شامل ہے جس میں کسی شک اور شبہہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں جن شخصیات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان میں خود اہلبیت علیہم السلام شامل ہیں ( امالی صدوق (ر) 1 ص 429 ، عیون اخبار الرضا 1 ص 240 ، ینابیع المودة 2 ص 59 ، مقتل خوارزمی 1 ص 67 ، تفسیر فرات کوفی ص 339۔
صحابہ کرام میں ابوسعید خدری ہیں۔(درمنثور 6 ص 606 ، المعجمع الکبیر 3 ص 56 / 2671 ، 2674 ، مناقب خوارزمی 60 ص 280 ، شواہد التنزیل 2 ص 46 ، مجمع البیان 7 ص 59)۔
انس بن مالک ہیں اور عبداللہ بن عباس ہیں ۔( درمنثور 6 ص 606 ، احقاق الحق 9 ص 56)۔
اس کے بعد یہ مسئلہ کہ یہ واقعہ کتنی مرتبہ پیش آیاہے۔؟ اس سلسلہ میں تین طرح کی روایات ہیں۔
قسم اول! وہ روایات جن میں روزانہ سرکار دو عالم کا یہ طرز عمل نقل کیا گیا ہے کہ جب نماز صبح کے لئے مسجد کی طرف تشریف لے جاتے تھے تو علی (ع) و فاطمہ (ع) کے دروازہ پر کھڑی ہوکر سلام کرکے ، آیت تطہیر کی تلاوت فرماکر انھیں قیام نماز کی دعوت دیا کرتے تھے۔
قسم دوم ! وہ روایات ہیں جن میں راوی نے متعدد بار اس عمل کے مشاہدہ کا ذکر کیا ہے ۔( در منثور 6 ص 606 ، تفسیر طبری 22 / 6 ، تاریخ کبیر 8 ص 725 امالی طوسی 251 ، 447 ، شواہد التنزیل 2 ص 81 / 700۔
قسم سوم ! وہ روایات ہیں جن میں روزانہ کے معمول کا ذکر نہیں ہے بلکہ معینہ ایام کا ذکر ہے اور یہ بات قسم اول سے مختلف ہے، معینہ ایام کے بارے میں بھی بعض روایات میں 40 دن کا ذکر ہے۔( در منثور 6 ص 606 ، مناقب خوارزمی ص 60 / 28 ، مالی صدوق (ر) 1 ص 429 )۔
بعض روایات میں ایک ماہ کا ذکر ہے۔( اسدالغابہ 5 ص 381 / 5390 مسند ابوداؤد طیالسی ص 274)۔
بعض روایات میں چھ ما ہ کا ذکر ہے۔( تفسیر طبری 22 ص6، درمنثور 6 ص 606 ینابیع المودة 2 ص119 ، ذخائر العقبيٰ ص 24 ، العمدہ ص 45 ۔
بعض روایات میں آٹھ ماہ کا ذکر ہے۔( درمنثور 6 ص 606 کفایة الطالب ص 377)۔
بعض روایات میں 9 ماہ کا ذکر ہے۔( مناقب خوارزمی 60 / 29 مشکل الآثار 1 ص 337 ، العمدة 41 /27 ، ذخائر العقبيٰ ص25 ، کفایة الطالب ص 376۔
کھلی ہوئی بات ہے کہ پہلی اور دوسری قسم میں کسی طرح کا تضاد نہیں ہے اور انھیں دونوں قسموں سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ قسم سوم کی تمام روایات اگر اپنی اصلی حالت پر باقی ہیں اور ان میں کسی طرح کی تحریف نہیں ہوئی ہے تو ان کا مقصد بھی افراد کے مشاہدہ کا تذکرہ ہے۔اعداد کا محدود کردینا نہیں ہے جو بات عقل و منطق کے مطابق ہے کہ ہر شخص کا مشاہدہ الگ الگ ہوسکتاہے۔
جس کا مقصد یہ ہے کہ رسول اکرم لفظ اہل البیت (ع) اور لفظ اہل کی وضاحت کے لئے ایک مدت تک روزانہ نماز صبح کے وقت در علی (ع) وفاطمہ (ع) پر آکر انھیں اہل البیت (ع) کہہ کر سلام کیا کرتے تھے اور آیت تطہیر کی تلاوت کرکے نماز کی دعوت دیا کرتے تھے اور دنوں کا اختلاف صرف رایوں کے مشاہدہ کا فرق ہے، اس سے اصل عدد کے انحصار کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
البتہ بعض روایات سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ اس عمل کا آیت تطہیر سے نہیں بلکہ آیت ” و امرا ھلک بالصلوة“ سے تعلق تھا جیسا کہ ابوسعید خدری سے نقل کیا گیا ہے کہ حضور آیت نماز کے نزول کے بعد آٹھ ماہ تک در فاطمہ (ع) پر آکر فرمایا کرتے تھے” الصلٰوة رحمکم اللہ اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔( در منثورہ ص 613 ، اخراج ابن مردویہ ، ابن عساکر، ابن النجار)۔
جس کے بارے میں علامہ طباطبائی نے فرمایا ہے کہ اس روایات سے ظاہر ہوتاہے کہ آیت ” و امر اھلک بالصلٰوة “ مدینہ میں نازل ہوئی ہے ، حالانکہ یہ کہنے والا کوئی نہیں ہے لہذا واقعہ کا تعلق آیت تطہیر سے ہے آیت نماز سے نہیں ہے… مگر یہ کہ اس واقعہ کی اس طرح تاویل کی جائے کہ آیت مکہ میں نازل ہوئی تھی لیکن حضور نے عمل مدینہ میں کیا ہے جو بات الفاظ روایات سے کسی طرح بھی ہم آہنگ نہیں ہے۔ (تفسیر المیزان 14 ص 242)۔