عقل کامل کے فوائداور اثرات

143

١۔حق کے اوپر استقامتحضرت علی :(ثمرة العقل الاستقامة)(٢)’عقل کا پھل استقامت (ثابت قدمی )ہے'(ثمرةالعقل لزوم الحق)(٣)’عقل کا پھل حق کے ساتھ دائمی وابستگی ہے ‘
٢۔دنیا سے دشمنی رکھناکامل عقل کا ثمر ہےحضرت علی :…………..(٢)غررالحکم ج١ص٣٢٠۔(٣)گذشتہ حوالہ۔(ثمرة العقل مقت الدنیا،وقمع الھویٰ)(١)’عقل کا پھل دنیا کو نا پسندرکھنااور خواہشات کو اکھاڑ پھینکنا ہے’
٣۔خواہشات پر مکمل تسلطحضرت علی :(اذاکمل العقل نقصت الشھوة)(٢)’جب عقل کامل ہوجاتی ہے تو خواہشیں مختصر ہوجاتی ہیں ‘(من کمل عقلہ استھان بالشہوات )(٣)’جسکی عقل مکمل ہوجاتی ہے وہ خواہشوں کو حقیر بنادیتا ہے ‘(العقل الکامل قاہرللطبع السوئ)(٤)’عقل کامل بری طبیعتوں پر کنٹرول رکھتی ہے ‘٤۔حسن عمل اورسلامتی کردار(من کمل عقلہ حسن عملہ)(٥)’جسکی عقل مکمل ہوگئی اسکا عمل حسین ہوگیا’
عصمتیںروایات کے ذیل میں عقل کے صفات (لشکروں)کی وضاحت کے بعد اب ہم خواہشات
…………..(١)غررالحکم ج١ص٣٢٣۔(٢)غررالحکم ج١ص٢٧٩۔(٣)غررالحکم ج١ص١٨٠۔(٤)بحارالانوار ج٧٨ص٩۔(٥)گذشتہ حوالہ۔کا مقابلہ کرنے کے طریقہ کے علاوہ ان کے علاج کا طریقہ بھی بیان کرینگے ۔جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ عقل کے اندر اتنی قوت اور صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے کہ وہ تن تنہاخواہشات کا مقابلہ کرسکے۔اور اگر کبھی ایسا موقع آجائے تو عقل کو ان کے سامنے بہر حال گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑیگا۔لیکن چونکہ خداوند عالم نے خواہشات کا مقابلہ کرنے کے لئے عقل کو اسکے معاون ومددگار صفات (اور لشکروں)سے نوازا ہے لہٰذا عقل کو ان کا مقابلہ کرنے یا انہیں کنٹرول کرنے میں کسی قسم کی زحمت کا سامنا نہیں ہوتا ہے اور یہ لشکر خود بخود بڑھ کر خواہشات کا راستہ روک لیتے ہیں اور ان کو بے راہ روی سے بچائے رکھتے ہیں ۔جن صفات اور لشکروں کی امداد کے سہارے عقل خواہشات پر کنٹرول کرکے انہیں اپنے قابو میں رکھتی ہے انھیں اخلاقی دنیا میں عصم (محافظین عقل) کہا جاتا ہے ۔ لہٰذا عقل کے ان صفات کی صحیح تعلیم وتربیت اور پرورش اور نفس کے اندر ان کی بقاء و دوام ہی خواہشات نفس کے مقابلہ اور علاج کا سب سے بہترین اسلامی ،اخلاقی اورتربیتی طریقۂ کار ہے ۔کیونکہ ان عصمتوں (محافظوں)کا فریضہ یہ ہے کہ وہ انسان کو گناہوں میں آلودہ نہ ہونے دیں اور اسے حتی الامکان خواہشات کے چنگل سے محفوظ رکھیں۔ چنانچہ اگر نفس کے اندر خداوند عالم کے عطا کردہ یہ محافظ (عصمتیں)نہ ہوتے تو عقل تن تنہا کبھی بھی خواہشات کے حملوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی،لیکن اب چونکہ اسکے ساتھ ان محافظین کی کمک اورپشت پناہی موجود ہے لہٰذا وہ آسانی کے ساتھ انسانی خواہشات کے اوپر ہر لحاظ سے قابو پالیتی ہے اور ان کو اپنے کنٹرول میں رکھتی ہے ۔یہ عصمتیں (محافظین عقل) مختلف حالات سے گذرتی رہتی ہیں یعنی کبھی یہ قوی ہوجاتی ہیں اور کبھی بالکل کمزور پڑجاتی ہیں ۔چنانچہ جب یہ بالکل طاقتور ہوتی ہیں تو انسان کو ہر قسم کی برائی سے بچائے رکھتی ہیں اور اسے گناہ نہیں کرنے دیتیں لیکن اگر خدا نخواستہ یہ کمزور ہوجائیں تو پھر انسان کی ہوس اور خواہشات نفسانی اس پر غالب آجاتے ہیں اور وہ انھیں کا ہوکر رہ جاتا ہے ۔یہ عصمتیں تقویٰ کے ذریعہ مضبوط ہوتی ہیں اور گناہوں اور برائیوں کی وجہ سے کمزور پڑجاتی ہیں بلکہ گناہوں کا اثر ان کے اوپر اس حدتک ہوتا ہے کہ یہ بالکل چاک چاک اور پارہ پارہ ہوکر رہ جاتی ہیں جسکے بعدانسانی خواہشات اسکے اوپر اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں کہ وہ بالکل بے یارومددگار ہوجاتاہے اور کوئی اسکا بچانے والا محافظ اور نگہبان باقی نہیں رہ جاتا ۔جیساکہ دعائے کمیل کے اس جملہ میں اسکی طرف اشارہ موجودہے :(اللّھم اغفر لی الذنوب التی تھتک العصم)’بارالٰہا میرے ان گناہوں کو بخش دے جو عصمتوں کو چاک چاک کردیتے ہیں ‘دوسری بات یہ کہ تقویٰ اور عصمتوں کے درمیان جو آپسی رابطہ ہے وہ طرفینی (دوطرفہ رابطہ)ہے یعنی اگر تقویٰ سے ان عصمتوں کو مدد ملتی ہے تو دوسری جانب یہ عصمتیں تقویٰ کی تقویت میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔اس طرح گناہوں اور عصمتوں کے درمیان بھی دو طرفہ اثرات پائے جاتے ہیں یعنی جس طرح گناہ ،عصمتوں کوکمزور یا پارہ پارہ کردیتے ہیں اسی طرح اگر عصمت باقی نہ رہ جائے تو انسان بڑی آسانی کے ساتھ خواہشات کے چنگل میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔یہ عصمتیں نفس کے اندر ہی پیدا ہوتی ہیں اور ان کی بنیادیں اور جڑیں فطرت کی تہوں میں اتری ہوتی ہیں اور خداوند عالم نے انسان کے نفس اور اسکی فطرت کے اندر ان (عصمتوں)کے خزانے جمع کر رکھے ہیں جو خداوند عالم کی طرف سے معین کردہ فریضہ کی ادائیگی میں عقل کو سہارا دیتے ہیں ۔جبکہ کچھ ماہرین سماجیات کا یہ خیال ہے کہ یہ عصمتیں نفس کے اندر پہلے سے موجود نہیں تھیں بلکہ جس سماج اور معاشرے میں انسان زندگی بسر کرتا ہے وہ انہیں سے یہ عصمتیں بھی سیکھتا ہے اور درحقیقت یہ سماج ہی کے ذریعہ اسکے نفس کے اندر منتقل ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ مختلف قسم کے سماج اور معاشروں کے اعتبار سے انکی قوت وطاقت اورمقدار کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے ۔اس نظریہ میں اتنی کمزوریاں پائی جاتی ہیں جن کا کوئی بھی جواب ممکن نہیں ہے ۔کیونکہ ذاتی خصلتوں ( اور اعمال)کا تعلق فطرت کی گہرائیوں سے ہوتا ہے البتہ ان کے اوپرمعا شرتی اور سماجی ماحول اثر انداز ضرور ہوتا ہے ا ور ان کو معاشرہ یا سماج سے جدا کردینا ممکن نہیں ہے ۔مگریہ سوچنا بالکل غلط ہے کہ ذاتی عادات و اطوار سماجیات سے بالکل الگ ہوتے ہیںیعنی ہم دوسری قسم کو سماج پر اثر انداز ہونے والے کے عنوان سے قبول کرلیں اور انھیں کے لئے پہلی خصلت کو چھوڑدیں کیونکہ ذاتی خصوصیات کو بالکل کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی کسی بھی اچھے یا برے معاشرے سے ان کو جدا کیا جاسکتا ہے ۔ان دونوںصلاحتیوں اور صفات (اور طرز تفکر)کے درمیان یہ فرق ہے کہ ذاتی صلاحتیں ہر دوراورہر تمدن میں تمام انسانوں کے درمیان بالکل یکساں طورپر دکھائی دینگی جبکہ سماجی رسم ورواج ہرروز پیدا ہوتے رہتے ہیں اورمختلف اسباب کی بنا پر کچھ دن کے بعد ختم ہوجاتے ہیں حتی کہ بعض علاقوںیاملکوں میں کچھ ایسے رسم ورواج پائے جاتے ہیں جن کو دوسرے ممالک میں کوئی جانتا بھی نہیں ہے ۔مثال کے طورپر خداوند عالم پر ایمان رکھناہر انسان کے اندر ایک ذاتی اور فطری چیز ہے جبکہ کفر والحاد ایک سماجی پیداوار ہے جو فطرت ایمان اور حتی خداوند عالم کے خلاف سرکشی اور بغاوت کے بعدپیدا ہوتاہے ۔اگر چہ ایما ن اور کفر دونوں ہی کا وجود تقریباتاریخ انسانیت کے ساتھ ساتھ پایا جاتا ہے۔لیکن اسکے باوجود ان کے درمیان بے حد فرق ہے کیونکہ ایمان خدا کا وجود تو انسانی تمدن ،تاریخ اور زندگی میں ہر جگہ مل جائے گااور کوئی بشری تاریخ بھی اس سے ہرگز خالی نہیں ہے ۔حتی کے سورج،چاند ،اور بتوںکی عبادت کا سرچشمہ بھی در اصل یہی ایمان ہے ۔یہ اور بات ہے کہ ان کا رخ صحیح فطرت کی طرف ہونے کے بجائے کسی دوسری طرف ہوگیا ہے ۔لیکن الحاد کاوجود کسی تہذیب یافتہ سماج کے اندر نہیں دکھائی دیتا چنانچہ نہ جانے انسان کے اوپر ایسے کتنے دور گذرے ہیں جن میںالحا دکا باقاعدہ کہیں کوئی وجود اورسراغ نہیںپایا جاتا جس کو کسی تہذیب و تمدن اور عقل و منطق کی پشت پناہی بھی حاصل رہی ہو۔لیکن ایمان کا وجود آپ کو پوری کائنات میں ہر جگہ نظر آئے گا مگرالحاد کبھی کبھی کچھ عرصہ تک ادھر ادھر اپنا سر ابھارتا ہے اور ایک دن خود بخود نابود ہوجاتا ہے ۔جیسا کہ سیاست اور تہذیب و تمدن نیز فکر انسانی کی تاریخ میں اس کا سب سے زیادہ عروج مارکسیسم کے دور میں ہوا جب باقاعدہ ایک سپر پاور حکومت کی پشت پناہی نے اس نظریہ کو عام کرنے کی کوشش کی مگر دنیا نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اچانک اس کے غبارے کی ہوانکل گئی اور اب کوئی شخص مارکس کا نام لینے والا بھی نہیں ہے ۔لیکن خداوند عالم پر ایمان کی صورتحال ایسی نہیں ہے ۔لہٰذا جو شخص خداوند عالم پر ایمان اور الحاد(اسکے انکار)کے درمیان فرق محسوس نہ کرسکے اس نے خود اپنے نفس کو دھوکہ میں ڈال رکھا ہے ۔
عصمتوں کے بارے میں مزید گفتگوکچھ عرصہ پہلے میں نے عصمت کے بارے میں چند صفحات قلمبند کئے تھے جو ہماری اس بحث سے مربوط ہیں لہٰذا مناسب سمجھا کہ اسکے کچھ مفید اقتباسات اس مقام پر شامل کردئے جائیں تاکہ گذشتہ گفتگو تشنہ ٔ تشریح نہ رہ جائے ۔ہم نے عرض کیا تھا کہ انسان کے اوپر اسکی خواہشات کی حکومت بہت مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے جسکی وجہ سے اسکے نقصانات بھی بیحد خطرناک ہوتے ہیں لہٰذا جب تک انسان اپنی خواہشات کو اچھی طرح اپنے قابو میں کرکے متعادل اور محدود نہ بنادے وہ زندگی میں خواہشات کے خطرات سے کبھی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا ہے چنانچہ ہر انسان کے سرپر یہ خطرات ہمیشہ منڈلاتے رہتے ہیں لہٰذا کوئی نہ کوئی ایسا اخلاقی اور تربیتی نظام درکار ہے جو انسان کو اسکی انفرادی اور سماجی زندگی میں ہر جگہ خواہشات کے طوفان کا مقابلہ کرنے اور انہیں قابو میں رکھنے نیزاسکے نقصانات سے بچنے کی صلاحیت عطا کردے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ نظام تربیت کیا ہے ؟جسکی پابندی کے بعد انسان اپنے خواہشات کے فریب سے محفوظ رہ سکتا ہے؟اہل دنیا کے درمیان اس بارے میں چند نظریات پائے جاتے ہیں :پہلا نظریہ رہبانیت کا ہے جس میں خواہشات کے مقابلہ کا یہ طریقہ بتایا گیا ہے کہ خواہشات کو نفس کے اندر اس طرح کچل دیا جائے کہ وہ اس میں گھٹ کر رہ جائیں اور اسکے ساتھ ساتھ حقیقی زندگی کے حصول کی خاطر فتنہ انگیز اور بھڑکانے والی باتوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی جائے ۔ رہبانیت میں یہ نظریہ بالکل عام ہے اور اسکی جڑیں ان کی قدیم تاریخ کے اندر دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں ۔اس مکتب فکر (نظریہ)کا خلاصہ یہ ہے کہ خواہشات کوہر قسم کے فتنہ سے دور رکھاجائے اور دنیاوی لذت وآرام سے پرہیز کرکے ان سے دوری اختیار کی جائے ۔کیونکہ انسان کاخاصہ یہ ہے کہ وہ برائی پر اصرارکرتاہے اورچونکہ خواہشات اور فتنوں کے درمیان رابطہ پایا جاتاہے اور انسان کی سلامتی اسی میں ہے کہ اسے فتنوں سے دور کردیا جائے ۔لہٰذا خواہشات سے دوری اور دنیاکے فریبوں اور لذتوں سے کنارہ کشی میں ہی انسانیت کی بھلائی ہے اور اس نظام کا ماحصل یہ ہے کہ خواہشات اور لذتوں کو بالکل ترک کرکے دنیا سے ایک دم کنارہ کشی اختیار کرلی جائے اور اسے ترک کئے بغیر اس مقصدتک رسائی ممکن نہیں ہے ۔تہذیب و تمدن کے افکار کے درمیان یہ ایک مشہور و معروف نظریہ ہے جس کے اثرات موجودہ دور کی باقی ماندہ مسیحیت میں بھی پائے جاتے ہیں ۔لیکن اسلام نے اس طرز تفکر کی بہت سختی سے مخالفت کی ہے کیونکہ اسکی نگاہ میں خواہشات کو کچل دینا یا دنیا کی لذتوں سے کنارہ کشی اختیارکرلیناانسانی مشکلات کا حل نہیں ہے ۔بلکہ خداوند عالم نے اسکی خلقت کے وقت اسکی جو فطرت بنادی ہے وہ اسی کے مطابق آگے قدم بڑھاتا ہے جس کی مزید وضاحت کے لئے قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں :(یابنی آدمَ خذوازینتکم عندکل مسجدٍ،وکلواواشربواولاتُسرفواانّہ لا یُحبّ المسرفین)(١)’اے اولاد آدم ہر نماز کے وقت اور ہر مسجد کے پاس زینت ساتھ رکھو اور کھائو پیو مگر اسرافنہ کرو کہ خدا اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے ‘
دوسری آیۂ کریمہ :(قل من حرّم زینةَ اﷲ التی أخرج لعبادہ والطیبات من الرزق قل ھی للذین آمنوافی الحیاةالدنیاخالصةً یومَ القیامةِکذلک نفصّل الآیات لقوم یعلمون٭قل نّما حرّم ربّیَ الفواحشَ ماظہرَمنھا ومابطنَ وال ثمَ والبغیَ بغیرالحقِّ وأن تشرکوا باللّہِ مالم یُنزّل بہ سلطاناً وأن تقولواعلیٰ اﷲِ مالا تعلمون)(٢)’پیغمبر آپ پوچھئے کہ کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ۔اور بتائیے کہ یہ چیزیں روز قیامت صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جو زندگانی دنیا میں ایمان لائے ہیں ہم اسی طرح صاحبان علم کے لئے مفصل آیات بیان کرتے ہیں۔کہہ دیجئے کہ ہمارے پروردگار نے صرف بدکاریوں کو حرام کیا ہے چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی اور گناہ اور ناحق ظلم اور بلا دلیل کسی چیز کو خدا کا شریک بنانے اور بلاجانے بوجھے کسی بات کو خدا کی طرف منسوب کرنے کو حرام قرار دیا ہے ‘مختصر یہ کہ یہ آیۂ کریمہ:(یابنی آدم خذوا زینتکم عندکل مسجد وکلوا واشربوا ولا تسرفوا)ہر انسان کو یہ دعوت دے رہی ہے کہ وہ دنیاوی لذتوں سے خوب فائدہ اٹھائے بس شرط یہ۔۔۔۔…………..(١)سورئہ اعراف آیت ٣١۔(٢)سورئہ اعراف آیت ٣٢۔٣٣۔ہے کہ اسراف نہ کرے۔ اسکے بعد دوسری آیت میں ان لوگوں کی مذمت ہے جنھوں نے خداوند عالم کی حلا ل کردہ پا ک و پاکیزہ چیزوں کو حرام (ممنوع)کردیا ہے جیسا کہ ارشاد ہے :(قل من حرّم زینة اﷲِ التی أخرج لعبادہ والطیباتِ من الرزق)آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ دنیا اور اسکی تمام نعمتیں اور سہولتیں در اصل مومنین کے لئے ہیں لیکن غیر مومنین کو بھی ان سے استفادہ کی اجازت دیدی گئی ہے لیکن آخرت کی تمام نعمتیں صرف اور صرف مومنین کے لئے ہیں ۔جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :(قل ہی للذین آمنوا فی الحیاة الدنیا خالصةً یوم القیامة)آیت نے یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ خداوند عالم نے صرف اس دنیا کی پوشیدہ اور آشکار تمام برائیوںاور گناہوں سے منع کیا ہے اور اسکے علاوہ ہر چیز جائزقراردی ہے ۔لہٰذاا سلام ،دنیا سے قطع تعلق کرنے والے نظریات کوٹھکراکر خداکی حلال اور پاکیزہ نعمتوں سے لطف اندور ہونے کا حکم دیتا ہے اور جن لوگوں نے دنیا سے اپنا ناطہ توڑکر خدا کی حلال کردہ اور پاکیزہ روزی کو حرام کررکھا ہے ان کے اس عمل کی سخت مذمت کرتا ہے۔ اﷲکی انہیں پاک وپاکیزہ نعمتوں میں سے ایک نعمت امتحان و آزمائش بھی ہے ۔جس کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کو آزماتا رہتا ہے ۔اسکے باوجود خداوند عالم کی طرف سے یہ اجازت ہرگز نہیں ہے کہ ہم ان چیزوں سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلیں اور یا ان سے بالکل دور ہوجائیں بلکہ حکم الٰہی تو یہ ہے کہ صرف برائیوں سے محفوظ رہیں اور حدودالٰہی سے آگے قدم نہ بڑھائیں۔چنانچہ روایت میں ہے کہ ایک بار ایک آدمی یہ کہہ رہا تھا:(أللھم انّی أعوذ بک من الفتنة )’بارالٰہا میں فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں’اس جگہ حضرت علی بھی موجود تھے جب آپ نے اس کی زبان سے یہ کلمات سنے تو فرمایا مجھے محسوس ہورہا ہے کہ تم اپنی اولاداور مال سے بھی خدا کی پناہ مانگ رہے ہو کیونکہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :(نما أموالکم وأولادکم فتنة)’بیشک تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں’لہٰذا یہ نہ کہو کہ میں فتنوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں بلکہ اس طرح کہا کرو۔(أللھم انّی أعوذبک من مضلاّت الفتن)(١)’بارالٰہامیں گمراہ کن فتنوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں’مولائے کائنات کا یہ ارشاد گرامی ہے :(لایقولَنَّ أحدکم:اللھم انّی أعوذبک من الفتنة،لأنہ لیس أحد الاّٰ و ھو مشتمل علیٰ فتنة،ولکن من استعاذ فلیستعذ من مضلات الفتن،فان اﷲ سبحانہ یقول:(واعلموا أنّما أموالکم وأولادکم فتنة)(٢)’ تم یہ ہرگز نہ کہو ! بارالٰہا میں فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں کیونکہ تمہارے درمیان کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جسکا دار ومدار فتنہ پرنہ ہو لہٰذا جس کو خدا سے پناہ چاہئے وہ گمراہ کن فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے ‘کیونکہ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ہے :’یاد رکھو!بیشک تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں’اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواہشات کو قابو میں رکھنے اور کنٹرول کرنے کے بارے میںاسلام نے جو حکم دیا ہے اس کا نتیجہ کیا ہے ؟اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام نے اس کے ذریعہ خواہشات کو کنٹرول کرنے کے لئے ایک جدیدنظریہ اور نظام تربیت پیش کیا ہے اور اس نظریہ کو عصمتوں کا نظام کہا جاتا ہے ۔…………..(١)بحار الانوار ج٩٣ص٢٣٥۔(٢)سورئہ انفال آیت ٢٨۔کیونکہ عصمتوں (بچانے والی خصلتوں)کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بجلی یا آگ کا کام کرتے وقت ہم دستانے یا واٹرپروف کپڑے پہن لیتے ہیں اور کسی خطرے کے بغیر بڑی آسانی سے اسکا ہر کام کرلیتے ہیں اسی طرح اگر انسان چاہے توعصمتوں کے سہارے دنیا کی رنگینیوں اور فتنوں کے درمیان بڑی آسانی سے زندگی گذار سکتا ہے اور ان کی موجودگی میں اسے کوئی نقصان بھی نہیں پہنچے گا ۔ لہٰذا جس طرح صرف آگ کی حرارت یا بجلی کے کرنٹ کے خطرات کی بناء پر ان کا استعمال ترک کردینا صحیح نہیں ہے اور دوسروں کو اس سے منع کرنا بھی غلط ہے کیونکہ دستانے اور واٹر پروف لباس وغیرہ کے سہارے ان سے ہر کام لیا جاسکتا ہے ۔اسی طرح لوگوں کو دنیا کی آزمائشوں سے دور رکھنا صحیح نہیں ہے کیونکہ ان کے مال واولاد بھی ایک قسم کی آزمائش اور فتنہ ہیں لہٰذا ہر شخص کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ان گمراہ کن اور آزمائش طلب مقامات پر ان عصمتوںسے اچھی طرح استفادہ کرے جو اسے ان سے محفوظ رکھیں ۔کیونکہ اگر یہ عصمتیں کسی کی ذاتی یا سماجی زندگی میں تکامل کی منزل تک پہنچ جائیں تو پھر انسان اپنی خواہشات اور ہوی وہوس کا مختار کل بن جاتا ہے جس کی طرف روایت میں صریحاً اشارہ موجود ہے کہ دنیا میں دو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں کچھ وہ ہیں جن کی خواہش اور ہوی وہوس ان پر غالب ہے اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی خواہشات پر ان کا مکمل کنٹرول ہے لہٰذا کیونکہ خواہشات پر کنٹرول کرنا ممکن ہے اسی لئے اسلام میںدنیا کے راحت و آرام سے منع نہیں کیا گیا ہے البتہ اتنا ضروری ہے کہ جسے دنیا سے دل چسپی ہے وہ خواہشات اور ہوی و ہوس پر مکمل کنٹرول کرلے اسکے بعد چاہے جس نعمت دنیا کو استعمال کرے ،ہدایت اور ہوائے نفس کے درمیان یہی معیار اور حد فاصل ہے ۔امام جعفر صادق :(منملک نفسہ اذا غضب،واذا رھب،واذا اشتھیٰ،حرّم اﷲجسدہ علیٰ النار)(١)’جو شخص غصہ،خوف اور خواہشات ابھر نے کی حالت میں اپنے نفس کو…………..(١)بحارالانوارج٧٨ص٢٤٣۔قابو میں رکھے گاخداوندعالم اسکے جسم کو جہنم پر حرام کردیگا'(منملک نفسہ اذا رغب،واذا رھب،واذا اشتھیٰ،واذا غضب،واذا رضی حرّم اﷲجسدہ علیٰ النار)(١)’جو شخص رغبت،خوف اور خواہشات ابھرنے اورغصہ یا خوشی کی حالت میں اپنے نفس کو قابو میں رکھے خداوندعالم اسکے جسم کو جہنم پر حرام کردیگا’
عصمتوں کی قسمیںہر انسان کے اندر تین طرح کی عصمتیں پائی جاتی ہیں:١۔کچھ عصمتیں ایسی ہیں جن کو خداوند عالم نے انسانی فطرت کی تکوینی خلقت اور تربیت کی گہرائیوں میں ودیعت فرمایا ہے جیسے حیا، عفت اوررحم دلی وغیرہ۔۔۔یہی وجہ ہے کہ انسان اور حیوان دونوں کے اندریکساں طور پر جنسی خواہشات موجود ہیں البتہ ان کے درمیان اتنا فرق ضرورہے کہ حیوانوں میں یہ جذبہ بالکل ہی واضح اورظاہرہے جبکہ انسان کے اس جذبہ کے اوپر حیاء وعفت کے پردے پڑے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ حیوانوں کو اسکی تسکین میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی لیکن انسان کو اسکی تسکین سے بہت ساری جگہوں پرپرہیز کر ناپڑتاہے ۔ظاہرہے کہ یہ انسان کی جنسی کمزوری کی بناء پر نہیںہے ۔ بلکہ حیاء وشرم وعفت جیسی عصمتیں اسکے لئے مانع ہوجاتی ہیں کیونکہ یہ جنسی خواہش کو متعادل،لطیف اور کمزوربنادیتی ہیں اور اس پر روک لگاکر اسے مختلف طریقوں سے ابھرنے نہیں دیتیں۔اسی طرح جذبۂ رحمت(رحم دلی)سے کافی حد تک انسان کا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے یہی وجہ…………..(١)بحارالانوار ج٧١ص٣٥٨ہے کہ اگرچہ انسان اور حیوان دونوں کے اندر ہی غصہ کا مادہ پایا جاتا ہے مگر حیوان کے اندر اسکے آگے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی لیکن انسان کے یہاں اسکے اوپر رحمت (رحم دلی)کا سائبان ہے جس سے وہ بآسانی معتدل ہوجاتا ہے۔٢۔کچھ عصمتیں وہ ہیں جن کو انسان اپنی ذاتی صلاحیت اور محنت سے حاصل کرتا ہے اور ہر انسان کی زندگی میں اسکی تربیت ان عصمتوں کے حصول میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔جیسے ذکر الٰہی ، نماز ،روزہ ،تقویٰ وغیرہ ۔۔۔کیونکہ نماز برائی سے روکتی ہے ،ذکر الٰہی سے شیطان دور ہوجاتا ہے روزہ جہنم کی سپر ہے۔اور تقویٰ ایسا لباس ہے جو انسان کو گناہوں اور برائیوں کے مہلک ڈنک سے محفوظ رکھتا ہے۔اسی لئے قرآن مجید میں ارشاد ہے:(ولباس التقوی ذٰلک خیر)(١)’لیکن تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ہے ‘٣۔عصمتوں کی تیسری قسم وہ ہے جسے خداوند عالم نے انسان کی معاشرتی زندگی میں ودیعت کیا ہے جیسے دیندار سماج اور معاشرہ یاشادی بیاہ وغیرہ ۔۔۔کیونکہ دیندار سماج اور معاشرہ بھی انسان کو برائیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔اور شادی (شوہر اور زوجہ )دونوں کو بے شمار برائیوں سے بچالیتی ہے۔فی الحال ہم آپ کے سامنے نفس کے اندر اللہ کی ودیعت کردہ ان عصمتوں کے دو نمونوں (خوف وحیا)کی وضاحت پیش کر رہے ہیں۔
خوف الٰہیخداوند عالم نے انسان کے اندر جو عصمتیں ودیعت فرمائی ہیں ان کے درمیان خوف الٰہی…………..(١)سورئہ اعراف آیت ٢٦۔سب سے اہم اور بڑی عصمت ہے جس کو حدیث میں عقل کاایک لشکر قرار دیا گیا ہے اوریہ خواہشات کو کنٹرول کرنے کاسب سے بہترین ذریعہ ہے ۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:(وأ مّا من خاف مقام ربّہ ونھیٰ النفس عن الھویٰ فانّ الجنة ھی المأویٰ ) (١)’اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکاجنت اسکا ٹھکانا اور مرکز ہے’اس آیۂ کریمہ سے بالکل صاف روشن ہے کہ خوف الٰہی اورنفس کو خواہشات سے روکنے کے درمیان ایک قریبی رابطہ پایا جاتا ہے۔اسی آیت کے بارے میں امام صادق سے روایت ہے کہ:(من علم أن اﷲ یراہ ویسمع مایقول،ویعلم مایعملہ من خیر أو شر، فیحجزہ ذ لک عن القبیح،فذلک الذی خاف مقام ربّہ،ونھیٰ النفس عن الھویٰ )(٢)’یعنی جسے یہ علم ہوجائے کہ خداوند عالم اسے دیکھ رہا ہے اور اسکی ہر بات سنتا ہے اور اسکے ہر اچھے یا برے عمل پر اسکی نظر ہے تو یہی خیال اسکو برائی سے روک دیگا اور اسی انسان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے رب سے خوفزدہ ہوگیا اور اس نے اپنے نفس کو اپنی ہوس(خواہشات ) سے باز رکھا’
امیر المومنین :(الخوف سجن النفس من الذنوب،ورادعھا عن المعاصی)(٣)۔۔۔۔۔…………..(١)سورئہ نازعات آیت٤٠،٤١۔(٢)اصول کافی ج٢ص٧١۔(٣)میزان الحکمت ج٣ص١٨٣۔’خوف الٰہی انسان کے نفس کو گناہوں اور برائیوں سے بچانے والا حصار ہے’
رسول اکرم ۖ :(سبعةیظلّھم اللہ یو م لاظل الاظلہ،الامام العادل،وشاب نشأ بعبادةاللّٰہعزوجل،ورجل قلبہ معلّق فی المساجد ،ورجلان تحابّا فی اللّٰہ عزوجل اجتمعا علیہ وتفرقاعلیہ،ورجل تصدّق بصدقة فأخفاھا حتی لاتعلم شمالہ ماتنفق یمینہ، ورجل ذکر اللہ خالیاً ففاضت عیناہ،ورجل دعتہ امرأة ذات منصب وجمال فقال انّی أخاف اﷲعزّوجل)(١)’ سات افرادکے اوپر اس دن رحمت الٰہی سایہ فگن ہوگی جس دن اسکے علاوہ اور کوئی سایہ موجود نہ رہے گا:١۔امام عادل۔٢۔وہ جوان جسکی نشو و نماعبادت الٰہی میں ہوئی ہو۔٣۔جسکا دل مسجدوں سے وابستہ ہو۔ ٤۔خداوند عالم کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے جو اسی کے نام پر جمع ہوں اور اسکی وجہ سے ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں(یعنی ان کی ہر محبت اور دشمنی خدا کے لئے ہو) ۔٥۔جوشخص اس طرح چھپا کر صدقہ دے کہ اگر ایک ہاتھ سے دے تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔٦۔جو گوشۂ تنہائی میں ذکر الٰہی کرے اور اسکی آنکھ سے آنسو نکل آئیں۔٧۔وہ مرد جسے کوئی حسین وجمیل اور صاحب منصب عورت اپنی طرف دعوت دے اور وہ اس سے یہ کہدے کہ مجھے خدا سے ڈرلگتا ہے’۔گویا خوف الٰہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو اسکی سب سے خطرناک خواہش اور ہوس یعنی جنسی جذبہ سے بھی روک دیتی ہے اور انسان گناہوں اور برائیوں سے بچ جاتا ہے
حضرت علی :(العجب ممن یخاف العقاب فلم یکف،ورجیٰ الثواب…………..(١)صحیح بخاری بحث وجوب نماز جماعت باب ٨،بحث وجوب زکات باب ١٨کتاب رقاق باب ٢٣کتاب محاربین باب ٤ ،صحیح مسلم در کتاب زکات باب ٣٠ اور ابوالفرج نے بھی اپنی کتاب ذم الہوی میں ص٢٤٣پر اس روایت کو نقل کیا ہے۔ 
فلم یتب ویعمل)(١)’اس شخص پر حیرت ہے جسے سزا کا خوف ہومگر پھر بھی برائی سے نہ رکے اور ثواب کی امید رکھتا ہو اوراسکے باوجودتوبہ کرکے نیک عمل انجام نہ دے ‘
امام محمد باقر :(لاخوف کخوف حاجز ولارجاء کرجاء معین) (٢)’برائیوں سے روکنے والے خوف سے بہتر کوئی خوف نہیں اور نیکیوں میں معاون ثابت ہونے والی امید سے بہتر کوئی امید نہیں ہے ‘
مولائے کائنات :(نعم الحاجزمن المعاصی الخوف)(٣)’برائیوں سے روکنے والی سب سے بہترین چیز کانا م خوف ہے’
خوف ایک پناہ گاہیہ کتنی عجیب بات ہے کہ جو خوف اورڈر،اضطراب سے پیدا ہوتا ہے اسی خوف سے اضطراب پیدا ہوجاتا ہے اوراگرچہ یہ امن وامان کے مقابل میں بولا جاتا ہے مگراس کو اسلام نے انسان کے لئے امان اور ڈھال بنادیا ہے ۔کیونکہ خوف ،انسان کو گناہوں اور برائیوں سے نہیں روکتا بلکہ در حقیقت یہ اسے ہلاکت اور بربادی سے بچانے والی ڈھال کا نام ہے۔یہی وجہ ہے کہ جس خوف…………..(١)بحارالانوارج٧٧ص٢٣٧۔(٢)بحارالانوار ج ٧٨ص١٦٤۔(٣)میزان الحکمت ج٣ص١٨٣۔کوانسان پہلی نظر میں خطرناک محسوس کرتا ہے وہی خوف انسان کی زندگی کو امن وامان عطا کرنے والی ایک نعمت ہے ۔اسی بارے میں حضرت علی کا ارشاد ہے :١۔(الخوف امان )(١)’خوف ایک امان ہے’٢۔(ثمرة الخوف الامان)(٢)’خوف کا پھل امان ہے’٣۔(خف ربک وارج رحمتہ، یؤ منک مماتخاف،وینلک مارجوت)(٣)’خدا سے ڈرتے رہو اور اسکی رحمت کی امید رکھو تو جس سے بھی تم خوفزدہ ہو گے وہ تمہیں اس سے بچائے رکھے گا اور جس کی امید ہے وہ تمہیں حاصل ہوجائے گا'(لاینبغی للعاقل ان یقیم علی الخوف اذا وجد الی الأمن سبیلا)(٤)’کسی صاحب عقل وخرد کے لئے یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ امن وامان کا راستہ مل جانے کے بعد خوف کی منزل میں پڑا رہے’روایا ت میں جس خوف کا تذکرہ ہے اس سے مرادعذاب الٰہی سے امان ہے،اور امان سے مراد ،عذاب خداکا خوف ہے اور یہ اسلامی تہذیب و تمدن کے ایک متقابل اور حسین معنی ہیں ۔جس کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(١)میزان الحکمت ج٣ص١٨٦۔(٢)گذشتہ حوالہ۔(٣)گذشتہ حوالہ۔(٤)گذشتہ حوالہ۔مطلب یہ ہے کہ دنیا کا خوف آخرت کے لئے امن وامان ہے اور دنیا کا امن وامان اور بے فکری آخرت میں خوف بن جائے گا۔امیر المومنین نے یہ مفہوم پیغمبر اسلام کے کبھی خشک نہ رہنے والے چشمۂ فیاض سے اخذفرمایا ہے جیسا کہ رسول اکرم ۖ سے روایت ہے کہ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ہے :(وعزتی وجلالی لاأجمع علی عبدی خوفین ولاأجمع لہ امنین،فاذاامننیفی الدنیااخفتہ یوم القیامة،واذاخافنی فی الدنیاآمنتہ یوم القیامة)(١)’میری عزت وجلالت کی قسم میںاپنے کسی بندے کو دو خوف یا دو امان (ایک ساتھ)نہ دونگا پس اگر وہ دنیا میں مجھ سے امان میں رہا تو قیامت میں اسے خوف میں مبتلا کردونگا اور اگر وہ دنیا میں مجھ سے خوفزدہ رہا تو آخرت میں اسے امن وامان عطا کردونگا’…………..(١)کنز العمال ،متقی ھندی حدیث ٥٨٧٨۔
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.