عقل کے لشکر

215

اور یہ خواہشات اور ہوس کو روکنے اور ان پر قابو پانے اور خاص طور سے ہوی وہوس کو کچلنے کے لئے عقل کی معاون ثابت ہوتی ہیں۔کیونکہ(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیںکہ) عقل تو فہم وادراک اور علم ومعرفت کا ایک آلہ ہے۔ جو انسان کو چیزوں کی صحیح تشخیص اور افہام وتفہیم کی قوت عطا کرتا ہے اور تنہااسکے اندر خواہشات کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔لہٰذا ایسے مواقع پر عقل خواہشات کو کنٹرول کرنے اور ان پر قابو پانے کے لئے ان اسباب اور ذرائع کا سہارا لیتی ہے جوخداوند عالم نے انسان کے نفس کے اندر ودیعت کئے ہیںاور اس طرح عقل کیلئے خواہشات کا مقابلہ اورانکا دفاع کرنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے لہٰذاان اسباب کے پورے مجموعہ کو اسلامی اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کی زبان میں عقل کے لشکروں کا نام دیا گیا ہے۔جو ہر اعتبار سے ایک اسم بامسمّیٰ ہے۔نمونہ کے طور پر اسکی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:کبھی کبھی انسان مال و دولت کی محبت کے جذبہ کے دبائو میں آکر غلط اور نا جا ئز راستوں سے دولت اکٹھا کرنے لگتا ہے ۔کیونکہ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی حد تک مال و دولت کی محبت پائی جاتی ہے مگر بسا اوقات وہ اس میں افراط سے کام لیتا ہے ۔ایسے مواقع پر انسانی عقل ہر نفس کے اندر موجود ‘عزت نفس ‘کے ذخیرہ سے امداد حا صل کرتی ہے چنا نچہ جہاں تو ہین اور ذلت کا اندیشہ ہو تا ہے عزت نفس اسے وہاں سے دولت حاصل کرنے سے روک دیتی ہے اگر چہ اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جس جگہ بھی تو ہین اور ذلت کا خطرہ ہو تا ہے عقل اسکو اس سے اچھی طرح آگاہ کر دیتی ہے لیکن پھر بھی ایسے مو اقع پر مال و دو لت سمیٹنے سے روکنے کے لئے عقل کی رہنما ئی تنہا کا فی نہیں ہے بلکہ اسے عزت نفس کا تعا ون درکارہوتاہے جسکو حاصل کرکے وہ حب مال کی ہوس اور جذبہ کا مقابلہ کرتی ہے ۔٢۔جنسی خو ا ہشات انسان کے اندر سب سے زیادہ قوی خو ا ہشات ہو تی ہیں اوران کے دبائو کے بعد انسان اپنی جنسی جذبات کی تسلی کے لئے طرح طرح کے غلط اور حرام راستوں پردوڑتا چلا جاتا ہے اور اس میں بھی کو ئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ ایسے اکثر حالات میں عقل جنسی بے راہ روی کے غلط مقامات کا بخوبی مقابلہ نہیں کر پاتی اور اسے صحیح الفطرت انسان کے نفس کے اندر مو جود ایک اور فطری طاقت یعنی عفت نفس (پاک دامنی )کی مدد حا صل کرنا پڑتی ہے ۔چنانچہ جب انسان کے سامنے اس کی عفت اور پاکدا منی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس بری حرکت سے رک جاتا ہے ۔٣۔کبھی کبھی انسان کے اندرسربلندی ،انانیت اور غرور وتکبر کا اتنا مادہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو بالکل ذلیل اور پست سمجھنے لگتا ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جس کو عقل ہر اعتبار سے برا سمجھتی ہے اسکے باوجود جب تک عقل، نفس کے اندر خداوند عالم کی ودیعت کردہ قوت تواضع سے امداد حاصل نہ کرے وہ اس غرور و تکبر کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔٤۔کبھی کبھی انسان اپنے نفس کے اندر موجود ایک طاقت یعنی غیظ وغضب اور غصہ کا شکار ہوجاتا ہے جسکے نتیجہ میں وہ دوسروں کی توہین اور بے عزتی کرنے لگتا ہے۔چنانچہ یہ کام عقل کی نگاہ با بصیرت میں کتنا ہی قبیح اور براکیوں نہ ہواسکے باوجود عقل صرف اورصرف اپنے بل بوتے پر انسان کے ہوش وحواس چھین لینے والی اس طاقت کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے لہٰذا ایسے مواقع پر عقل، عام طور سے انسان کے اندر موجود ،رحم وکرم کی فطری قوت وطاقت کو سہارا بناتی ہے۔کیونکہ اس صفت (رحم وکرم)میں غصہ کے برابر یا بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی قوت اور صلاحیت پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان غصہ کی بنا پر کوئی جرم کرنا چاہتا ہے تو رحم وکرم کی مضبوط زنجیر یں اسکے ہاتھوں کو جکڑلیتی ہیں۔٥۔اسی طرح انسان اپنی کسی اور خواہش کے اشارہ پر چلتا ہواخداوند عالم کی معصیت اور گناہ کے راستوں پر چلنے لگتا ہے تب عقل اسکو’خوف الٰہی’کے سہارے اس گناہ سے بچالیتی ہے۔اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں سے مذکورہ مثالیں ہم نے صرف وضاحت کے لئے بطور نمونہ پیش کردی ہیں ان کے علاوہ کسی وضاحت کے بغیر کچھ اورمثالیں ملاحظہ فرمالیں۔جیسے نمک حرامی کے مقابلہ میں شکر نعمت، بغض و حسد کے مقابلہ کے لئے پیار ومحبت اورمایوسی کے مقابلہ میں رجاء وامید کی مدد حاصل کرتی ہے۔
لشکر عقل سے متعلق روایاتمعصومین کی احادیث میںنفس کے اندر موجود پچھتّر صفات کو عقل کا لشکر کہا گیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ یہ ان دوسری پچھتّر صفات کا مقابلہ کرتی ہیں جنہیں خواہشات اور ہوس یاحدیث کے مطابق جہل کا لشکر کہا جاتا ہے ۔چنانچہ نفس کے اندر یہ دونوں متضاد صفتیں درحقیقت نفس کے دو اندرونی جنگی محاذوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں جن میں ایک محاذ پر عقل کی فوجوںاور دوسری جانب جہل یا خواہشات کے لشکروں کے درمیان مسلسل جنگ کے شعلے بھرکتے رہتے ہیں۔علامہ مجلسی (رح)نے اپنی کتاب بحارالانوار کی پہلی جلدمیں اس سے متعلق امام جعفرصادق اور امام موسی کاظم سے بعض روایات نقل کی ہیںجن کو ہم ان کی سند کے ساتھ ذکر کررہے ہیں تاکہ آئندہ ان کی وضاحت میں آسانی رہے۔
پہلی روایتسعد اور حمیری دونوں نے برقی سے انھوں نے علی بن حدید سے انھوں نے سماعہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ :میں امام جعفر صادق کی خدمت موجود تھا اور اس وقت آپ کی خدمت میں کچھ آپ کے چاہنے والے بھی حاضر تھے عقل اور جہل کا تذکرہ درمیان میں آگیا تو امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایاکہ: عقل اور اسکے لشکر کواور جہل اور اسکے لشکر کو پہچان لو تو ہدایت پاجائوگے۔ سماعہ کہتے ہیں کہ:میںنے عرض کی میں آپ پر قربان، جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں تو امام جعفر صادق نے فرمایا کہ خداوند عالم نے اپنی روحانی مخلوقات میں اپنے نور کے عرش کے دائیں حصہ سے جس مخلوق کو سب سے پہلے پیدا کیا ہے وہ عقل ہے۔پھر اس سے فرمایا سامنے آ:تو وہ سامنے حاضر ہوگئی پھر ارشاد فرمایا:واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ،تو ارشاد الٰہی ہوا، میں نے تجھے عظیم خلقت سے نوازا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر شرف بخشا ہے پھر آپ نے فرمایا:کہ پھر خداوند عالم نے جہل کو ظلمتوں کے کھار ی سمندرسے پیدا کیا اور اس سے فرمایا کہ پلٹ جا تو وہ پلٹ گیا پھر فرمایا : سامنے آ:تو اس نے اطاعت نہیں کی تو خداوند عالم نے اس سے فرمایا : تو نے غرور وتکبر سے کام لیا ہے؟پھر(خدانے) اس پر لعنت فرمائی ۔اسکے بعد عقل کے پچھتّر لشکر قرار دئے جب جہل نے عقل کے لئے یہ عزت و تکریم اور عطا دیکھی تو اسکے اندر عقل کی دشمنی پیدا ہوگئی تو اس نے عرض کی اے میرے پروردگار، یہ بھی میری طرح ایک مخلوق ہے جسے تو نے پیدا کرکے عزت اور طاقت سے نوازا ہے۔اور میں اسکی ضد ہوں جبکہ میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے لہٰذا جیسی فوج تو نے اسے دی ہے مجھے بھی ایسی ہی زبردست فوج عنایت فرما۔تو ارشاد الٰہی ہوا :بالکل ( عطاکرونگا)لیکن اگر اسکے بعد تونے میری نا فرمانی کی تومیں تجھے تیرے لشکر سمیت اپنی رحمت سے باہر نکال دونگا اس نے کہا مجھے منظور ہے تو خداوند عالم نے اسے بھی پچھتّر لشکر عنایت فرما ئے ۔چنانچہ عقل اورجہل کو جو الگ الگ پچھتّر لشکر عنایت کئے گئے انکی تفصیل یہ ہے:خیر، عقل کا وزیرہے اور اسکی ضد شر کو قرار دیا جو جہل کا وزیر ہے ۔ایمان کی ضد کفرتصدیق کی ضد انکاررجاء (امید)کی ضد مایوسیعدل کی ضد ظلم وجوررضا(خشنودی )کی ضد ناراضگیشکرکی ضد کفران(ناشکری)لالچ کی ضد یاستوکل کی ضدحرصرافت کی ضدغلظت؟رحمت کی ضد غضبعلم کی ضد جہلفہم کی ضد حماقتعفت کی ضد بے غیرتیزہد کی ضد رغبت(دلچسپی)قرابت کی ضدجدائیخوف کی ضد جرائتتواضع کی ضد تکبرمحبت کی ضدتسرع (جلد بازی)؟علم کی ضد سفاہتخاموشی کی ضد بکواسسر سپردگی کی ضد استکبارتسلیم(کسی کے سامنے تسلیم ہونا)کی ضدسرکشیعفوکی ضد کینہنرمی کی ضد سختییقین کی ضد شکصبر کی ضدجزع فزع (بے صبری کا اظہار کرنا)خطا پر چشم پوشی (صفح)کی ضد انتقامغنیٰ کی ضد فقرتفکر کی ضد سہوحافظہ کی ضد نسیانعطوفت کی ضد قطع(تعلق)قناعت کی ضد حرصمواسات کی ضد محروم کرنا (کسی کا حق روکنا)مودت کی ضد عداوتوفا کی ضد غداریاطاعت کی ضد معصیتخضوع کی ضد اظہارسر بلندیسلامتی کا ضد بلائحب کی ضد بغضصدق کی ضد کذبحق کی ضد باطلامانت کی ضد خیانتاخلاص کی ضد ملاوٹذکاوت کی ضد کند ذہنیفہم کی ضد ناسمجھیمعرفت کی ضد انکارمدارات کی ضد رسوا کرناسلامت کی ضد غیبکتمان کی ضد افشا(ظاہر کر دینا)نماز کی ضد اسے ضائع کرناروزہ کی ضد افطارجہاد کی ضد بزدلی(دشمن سے پیچھے ہٹ جانا)حج کی ضد عہد شکنیراز داری کی ضدفاش کرناوالدین کے ساتھ نیکی کی ضد عاق والدینحقیقت کی ضد ریامعروف کی ضد منکرستر(پوشش)کی ضد برہنگیتقیہ کی ضد ظاہر کرناانصاف کی ضدحمیتہوشیاری کی ضد بغاوتصفائی کی ضدگندگیحیاء کی ضد بے حیائیقصد (استقامت )کی ضد عدوانراحت کی ضدتعب(تھکن)آسانی کی ضد مشکلبرکت کی ضدبے برکتیعافیت کی ضد بلااعتدال کی ضد کثرت طلبیحکمت کی ضد خواہش نفسوقار کی ضد ہلکا پنسعادت کی ضد شقاوتتوبہ کی ضد اصرار (برگناہ)استغفار کی ضداغترار(دھوکہ میں مبتلارہنا)احساس ذمہ داری کی ضد لاپرواہیدعا کی ضدیعنی غرور وتکبر کا اظہارنشاط کی ضد سستیفرح(خوشی)کی ضد حزنالفت کی ضد فرقت(جدائی)سخاوت کی ضد بخلپس عقل کے لشکروں کی یہ ساری صفتیں صرف نبی یا نبی کے وصی یا اسی بندئہ مومن میں ہی جمع ہوسکتی ہیں جس کے قلب کا اللہ نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو!البتہ ہمارے بقیہ چاہنے والوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جسمیںان لشکروں کی بعض صفتیںنہ پائی جائیں یہاں تک کہ جب وہ انہیں اپنے اندر کامل کرلے اور جہل کے لشکر سے چھٹکارا پا لے تو وہ بھی انبیاء اوراوصیاء کے اعلیٰ درجہ میں پہونچ جائے گا ۔بلا شبہ کامیابی عقل اور اسکے لشکر کی معرفت اور جہل نیز اس کے لشکر سے دوری کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔خداوند عالم ہمیں اور خصوصیت سے تم لوگوں کو اپنی اطاعت اور رضا کی توفیق عطا فرمائے ۔(١)
دوسری روایتہشام بن حکم نے یہ روایت امام موسیٰ کاظم سے نقل کی ہے اور شیخ کلینی (رہ)نے اسے اصول کافی میں تحریر کیا ہے اور اسی سے علامہ مجلسی (رہ)نے اپنی کتاب بحارالانوار میں نقل کیاہے۔(٢)یہ روایت چونکہ کچھ طویل ہے لہٰذا ہم صرف بقدر ضرورت اسکااقتباس پیش کر رہے ہیں:امام موسی کاظم نے فرمایا :اے ہشام عقل اور اسکے لشکروں کو اور جہل اور اسکے لشکروں کو پہچان لو اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوجائو:ہشام نے عرض کی ہمیں تو صرف وہی معلوم ہے جوآپ نے سکھادیا ہے تو آپ نے فرمایا :اے ہشام بیشک خداوند عالم نے عقل کو پیدا کیا ہے اور اﷲ کی سب سے پہلی مخلوق ہے۔۔۔پھر عقل کے لئے پچھتّر لشکر قرار دئے چنانچہ عقل کو جو پچھتّر لشکر دئے گئے وہ یہ ہیں:خیر ،عقل کا وزیر اور شر، جہل کا وزیر ہےایمان، کفرتصدیق، تکذیباخلاص ،نفاقرجا ئ،ناامیدیعدل،جورخوشی ،ناراضگی…………..(١)بحار الانوار ج١ ص١٠٩۔١١١ کتاب العقل والجہل۔(٢)اصول کافی جلد١ص١٣۔٢٣،بحارالانوار جلد١ص١٥٩۔شکر، کفران(ناشکری)طمع رحمت ،رحمت سے مایوسیتوکل،حرصنرم دلی،قساوت قلبعلم، جہلعفت ،بے حیائیزہد،دنیا پرستیخوش اخلاقی،بد اخلاقیخوف ،جرائتتواضع ،کبرصبر،جلدبازیہوشیاری ،بے وقوفیخاموشی،حذرسرسپردگی، استکبارتسلیم،اظہار سربلندیعفو، کینہرحمت، سختییقین ،شکصبر،بے صبری (جزع)عفو،انتقاماستغنا(مالداری) ، فقرتفکر،سہوحفظ،نسیانصلہ رحم، قطع تعلققناعت ،بے انتہالالچمواسات ،نہ دینا (منع)مودت ،عداوتوفاداری ،غداریاطاعت، معصیتخضوع ،اظہار سربلندیصحت ،(سلامتی )بلائفہم ،غبی ہونا(کم سمجھی)معرفت، انکارمدارات،رسواکرناسلامة الغیب ،حیلہ وفریبکتمان (حفظ راز)،افشائوالدین کے ساتھ حسن سلوک ،عاق ہوناحقیقت،ریامعروف ،منکرتقیہ،ظاہر کرناانصاف ،ظلمخود سے دور کرنا،حسدصفائی، گندگیحیاء ،وقاحتمیانہ روی، اسرافراحت وآسانی،زحمت(تھکن)سہولت ،مشکلعافیت ،بلااعتدال، کثرت طلبیحکمت ،ہویٰوقار ،ہلکا پنسعادت ،شقاوتتوبہ،اصراربرگناہاصرار ،خوفدعا،غروروتکبر کی بناپر (دعاسے)دور رہنانشاط ،سستیخوشی، حزنالفت ،جدائیسخاوت ،بخلخشوع ،عجبسچائی ،چغلخوریاستغفار،اغترار(دھوکہ میں مبتلارہنا)زیرکی ،حماقتاے ہشام! یہ خصلتیں صرف اور صرف کسی نبی یا وصی اور یا اس بندئہ مومن کے دل میں ہی جمع ہوسکتی ہیں جس کے قلب کو خداوند عالم نے ایمان کے لئے آز ما لیا ہولیکن دوسرے تمام مومنین میں کوئی ایسا نہیں ہے جس میں عقل کے لشکروں کے بعض صفات نہ پائے جاتے ہو ں اوراگر وہ اپنی عقل کوکامل کرلے اور جہل کے لشکروں سے چھٹکارا حاصل کرلے تو پھر وہ بھی انبیاء اور اوصیا ئے الٰہی کے درجہ میں پہونچ جائے گا اﷲ ہم اور تم کو بھی اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرمائے۔
روایت کی مختصر وضاحت:عقل وجہل کی مذکورہ روایات میں متعدد غورطلب نکات پائے جاتے ہیں جن میں سے بعض نکات کی وضاحت کی جا رہی ہے۔١۔ان روایات کو دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن واحادیث کی طرح ان روایات میں بھی کنایہ دار اور رمزیہ زبان استعمال ہوئی ہے خاص طور سے انسان کی خلقت کے بارے میں کنایات واشارات کا پہلو بہت ہی زیادہ روشن ہے لہٰذا روایات اور ان کے معانی ومفاہیم کو سمجھنے کے لئے حدیث فہمی کے ذوق سلیم کی ضرورت ہے۔٢۔دونوں روایات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب خداوند عالم نے واپس پلٹنے (ادبار) کا حکم دیا تو عقل و جہل دونوں نے اسکی اطاعت کرلی ۔لیکن جب خداوند عالم نے سامنے آنے کا حکم دیا تواس موقع پر صرف اور صرف عقل نے اطاعت کی اور جہل نے حکم خدا سے سرپیچی کرتے ہوئے سامنے آنے سے انکار کردیا۔اِن روایات میںجہل سے مراد خواہشات نفس ہیں جیسا کہ ان دونوںروایات سے یہی اندازہ ہوتا ہے کیونکہ ان دونوں میں ہی جہل کو عقل کی ضد قرار دیا گیا ہے۔میرا خیال تو یہ ہے(اگر چہ خدا بہتر جانتا ہے)کہ یہاں(ادبار)واپس جانے کے حکم سے مراد حکم تکوینی ہے جس کی طرف اس آیۂ کریمہ میں اشارہ موجود ہے:(واذا قضیٰ أمراً فانما یقول لہ کن فیکون)(١)’اور جب کسی امر کا فیصلہ کرلیتا ہے تو صرف ‘ کن’ کہتا ہے اور وہ چیز ہوجاتی ہے ‘اس حکم الٰہی کی پیروی اور پابندی میں عقل اور خواہشات حتی کہ پوری کائنات سبھی اساعتبار سے مشترک ہیںکہ جب خداوند عالم کوئی حکم دیتا ہے تو وہ سبھی اسکی اطاعت کرتے ہیں۔(نما قولنا لشیء ذا أردناہ أن نقول لہ کن فیکون)(٢)’ہم جس چیز کا ارادہ کرلیتے ہیں اس سے فقط اتنا کہتے ہیں کہ ہوجا اوروہ ہوجاتی ہے ‘(سبحانہ ذا قضیٰ أمراً فنّما یقول لہ کن فیکون)(٣)’دہ پاک وبے نیاز ہے جب کسی بات کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ ہوجا اور وہ چیز ہوجاتی ہے ‘چنانچہ جس طرح عقل اوراسکے لشکر خداوند عالم کے حکم تکوینی کی اطاعت کرتے ہیں اسی طرح خواہشات نفس نے بھی اسکے حکم کے مطابق عمل کیا ہے۔لیکن سامنے آنے کا حکم اوراسکے مقابلہ میں ادبار (واپس جانے)کا حکم اور ہوائے نفس کا اس معاملہ میں عقل کی مخالفت کرنا یہ دونوں اس بات کا قرینہ ہیں کہ اس حکم سے احکام(اوامر)تشریعی مراد ہیں اور یہی وہ احکام شرعی ہیںجن میں عقل…………..(١)سورئہ بقرہ آیت ١١٧۔(٢)سورئہ نحل آیت٤٠۔(٣)سورئہ مریم آیت٣٥۔اطاعت کرتی ہے اور ہوائے نفس انکی مخالفت کرتی ہے۔٣۔ان دونوں روایا ت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عقل اور خواہشات کو دو الگ الگ مادوں سے بنایا گیا ہے ۔جیسا کہ روایات میں بھی ہے کہ عقل خدا کی روحانی مخلوق ہے جس کو خداوند عالم نے اپنے نور اور عرش کے دائیں حصہ سے خلق کیا ہے جبکہ جہل (خواہشوں)کو خداوند عالم نے تاریکیوں کے کھاری سمندر سے پیدا کیاہے اگر چہ حتمی طور پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیںکہ عقل اور خواہشات کا پہلا مادہ (عنصراولیہ) کیا ہے۔کیونکہ اسکا علم تو صرف انھیں ہستیوں کے پاس ہے جنھیںخداوند عالم نے تاویل احادیث کا علم ودیعت فرمایا ہے۔لیکن پھر بھی ان دونوں روایات کے مطابق اس بات میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ عقل کا اصل مواد اور عنصر (پہلا میٹیریل) فہم وادراک اور معرفت سے مشتق ہے جو کہ اﷲتعالی کا ہی ایک نو ر ہے خواہشات کا اصل مواد اور عنصر اس فہم وادراک اور معرفت سے خالی ہے۔بلکہ خواہشات تو حاجتوں اور مطالبات کی تاریکیوں کا ایک ایسا مجموعہ ہیں جن کے درمیان سے فہم وادراک کا گذر نہیں ہوپاتا جبکہ عقل تہ درتہ فہم اور فراستوں کے مجموعہ کا نام ہے اور یہ دونوں خداوند عالم کی طرف سے انسان کی شخصیت کے بنیادی محور قرار دئے گئے ہیں؟٤۔روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ جب عقل نے دونوں احکام کی اطاعت کرلی تو خداوند عالم نے اسکا احترام کیا اور اسے عزت بخشی لیکن جہل نے کیونکہ خدا کے حکم کی مخالفت کی تھی لہٰذا اللہ تعالی نے اس پر لعنت فرمائی اور لعنت یعنی رحمت خدا سے دور ہوجانا اور اسکی بارگاہ سے جھڑک دیا جانا ،گویا روایت یہ بتارہی ہے کہ انسان کی شخصیت کے دو بنیادی محور اور مرکز ہیں انمیں سے ایک اسے خداوند عالم سے قریب کرتا ہے تو دوسرا محور اسکو خدا سے دور کردیتا ہے اور یہ دونوں محور اور مرکز یعنی عقل اور خواہشات انسان کو بالکل دو متضاد زاویوں (راستوں اورمقاصد )کی طرف کھینچتے ہیں کیونکہ خدا نے انکو اسی طرح پیداکیا ہے ۔چنانچہ عقل انسان کو خدا کی طرف لیجاتی ہے ۔اور خواہشات اسے خداوند عالم سے دور کرتے رہتے ہیں ۔٥۔دونوں روایات میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ جب خداوند عالم نے عقل کو ٧٥لشکر عنایت فرمائے اور جہل نے بارگاہ الٰہی میں اپنی کمزور ی کی فریاد کی تو خداوند عالم نے اسے بھی اتنے ہی لشکر عنایت فرمادئے لیکن اس کے بعد اس سے یہ فرمایا :(فانْ عصیت بعدذلک أخرجتک وجندک من رحمتی)’اب اگر اسکے بعد تو نے میری نافرمانی کی تو میں تجھے تیرے لشکر سمیت اپنی رحمت کے دائرہ سے باہر نکال دونگا’ہم اپنے قارئین کو ایک بار پھر یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ان روایات میں اشارہ اور کنایہ کی زبان استعمال ہوئی ہے ۔لہٰذا ضروری نہیں ہے کہ یہ گفتگو واقعاً خداوند عالم اور عقل وجہل کے درمیان ہوئی ہو بلکہ ہم تو صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ روایت اسلامی نظریہ کے مطابق خواہشات کی قدروقیمت اور اہمیت پر عمیق روشنی ڈالتی ہے ۔یعنی روایت میں جہاں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ عقل کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خداوند عالم سے قریب کرتی ہے اور خواہشات خدا سے دور کرتے ہیں۔۔۔وہیں روایت میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ اگر خواہشات، خدا کی معصیت نہ کریں تو وہ خدا کی رحمت کے مستحق رہتے ہیں لیکن جب یہ انسان کو خدا کی نافرمانی اور معصیت پر لگادیتے ہیں تو رحمت خدا سے محروم ہوجاتے ہیں ۔لہٰذا اسلام تمام خواہشات کو برا نہیں سمجھتا ہے ۔اور نہ ان کو انسان کے اوپر عذاب الٰہی قرار دتیا ہے بلکہ جب تک انسان خداوند عالم کی نافرمانی اور گناہ نہ کرلے یہ بھی عقل کی طرح انسان کے لئے ایک رحمت الٰہی ہے ۔البتہ جب یہ انسان کو خداوند عالم کی اطاعت کے حدود سے باہر نکال دیں اوراسے اسکی معصیت پر لگادیں تو پھر یہی رحمت اسکے لئے عذاب زندگی میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔چنانچہ دین کی طرف جو یہ نسبت دی جاتی ہے کہ وہ خواہشات ،لذتوں اور شہوتوں کا مخالف ہے ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کے بالکل برعکس اسلام نے ہویٰ(خواہشات ) اور اسکے لشکر کو اس عظمت اور شرف سے نوازا کہ انہیں رحمت الٰہی کا مستحق قرار دیدیا ہے اور جب تک انسان گناہ کا مرتکب نہ ہو اسکے لئے اپنے خواہشات کی تسلی اور ان کی تکمیل جائز ہے اور یہ کوئی قبیح چیز نہیں ہے ۔بلکہ اسلامی نظریہ تو یہ ہے کہ اگر شرافت کے دائرے کے اندراور قاعدہ و قانون کے تحت رہ کران شہوتوں اور خواہشات کو پورا کیا جاتارہے تو یہی انسانی زندگی کی ترقی اور کمال کا بہترین ذریعہ بن جاتے ہیں ۔٦۔روایات میں اس بات کی طرف بھی اشارہ موجو د ہے کہ عقل کے دورخ (مرحلے )ہیں۔پہلے مرحلے میں وہ کسی چیز کا ادراک کرتی ہے ۔اور دوسرے مرحلے میں اس کو عملی جامہ پہناتی ہے لہٰذا جتنی زیادہ مقدار میں عقل کے ساتھ اسکے لشکر اور صفات جمع ہوتے رہتے ہیں اسکی عملی شکل میں اضافہ ہوتارہتا ہے لیکن جو ں جوںاسکے خصائل اور لشکروں کی تعداد گھٹتی رہتی ہے اسکے عمل کی رفتار بھی اسی طرح کم ہوجاتی ہے ۔اور خواہشات پر اسکا کنٹرول بھی ڈھیلا پڑجاتا ہے ۔روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ‘یہ تمام صفات ایک ساتھ صرف کسی نبی ،وصیِ نبی یا اس مومن کے اندر جمع ہو سکتے ہیں جس کے دل کا امتحان خدا لے چکا ہے ۔لیکن دوسرے تمام مومنین کرام کے اندر انمیں سے کچھ نہ کچھ صفات ضرور پائے جاتے ہیں مگر ان بعض صفات سے کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ جب تک وہ اپنے کو ان تمام صفات کا حامل نہ بنالیں اور جہل کے لشکر وںسے مکمل نجات حاصل نہ کرلیں تب تک وہ مومن کا مل نہیں ہو سکتے ہیں اور جس دن وہ اسمیں کامیاب ہوجائیں گے توانھیں بھی انبیاء واولیاء کے ساتھ جنت کے ا علی درجات میں سکونت نصیب ہوگی ‘اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ عقل کے تنفیذ ی ر خ کی تکمیل کا اثر اسکے دوسرے رخ پر پڑتا ہے اور اسکی فہم وفراست اور بصارت وبصیرت کی تکمیل ہو جاتی ہے۔اس طرح اس سلسلہ کی تینوں کڑیاں مکمل ہو جا ئینگی کہ:جب انسان اپنے اندر عقل کے تمام لشکر اور صفات جمع کر لے تو پھر عقل عملی منزل میں قدم رکھنے اور خواہشات کا مقابلہ کر نے کی قوت پیدا کرلیتی ہے اور اسی سے اسکی فہم وفراست اور بصارت وبصیرت بھی کامل ہوجاتی ہے ۔اور نتیجہ ً انسان انبیاء اور اولیاء کے درجہ میں پہونچ جاتا ہے( جسکی طرف روایت نے اشارہ کیا ہے )اور یہی راستہ اور طریقہ جسکو روایت نے محدود اور مشخص کر دیا ہے یہی اسلام کی نگاہ میں تربیت کی بہترین اساس اوربنیاد نیز کردارو عمل کی تقویت کا باعث ہے ۔کیونکہ عقل،بصیرت اور تنفیذ کا نام ہے اور بصیرت کی کمزوری عقل کی تنفیذی قوت کی بنا پر پیدا ہوتی ہے اور یہ (قوت تنفیذ) عقل کی خصلتوں کی کمزوری کی وجہ سے کمزور رہتی ہے لہٰذا جب انسان اپنے نفس کے اندر ان تمام خصلتوں کو مکمل کر لیتا ہے تو بصیرت اور تنفیذ دونوں ہی لحاظ سے اسکی شخصیت مکمل ہوجاتی ہے۔٧۔ان روایات نے بشری کرداروں کو دو مشخص اور معین حصوں میں تقسیم کردیا ہے :١۔تقوی(باعمل)٢۔فسق وفجور(بے عملی)تقویٰ اسے کہتے ہیں جس میں عقل کی پیروی کی جائے اور ہر قدم اسی کی مرضی کے مطابق اٹھے،اور فسق وفجور کا مطلب یہ ہے کہ خواہشات اور جہل کے لشکروں کے اشاروں پر ہر عمل انجام پائے اور اسکے اوپر انہیں کا قبضہ ہو ،لہٰذا قرب خداکی منزل تک پہنچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان جہالت کے لشکروں سے نجات حاصل کرلے اور خواہشات کی سرحدوں کو روند کر عقل کی حکومت میں داخل ہوجائے اور اسکے ہر طرز عمل اور رفتار وکردار پر عقل کی حکمرانی ہو۔٨۔مذکورہ فہرست میں بشری طرز عمل اور کردار کے طورطریقہ کے پچھترجوڑوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں سے ہر جوڑا دو متضاد اعمال سے مل کر بناہے ۔یعنی ان میں سے ایک عقل کے طرز عمل کی فہرست میں شامل ہے اور دوسرا شہوت کے طریقۂ کار کی فہرست کے دائرہ میں آتا ہے ۔لہٰذا اس فہرست میں پچھتر عقل کے طریقۂ کار اور پچھتر شہوت کے کرتوت ذکر ہیں جن میں پہلے باترتیب عقل کے لشکر کے صفات ذکر ہوئے ہیں اور اسکی ہر صفت کے بعد اسی کی مخالف ،جہل کی صفت کا تذکرہ ہے٩۔بشریت کے طرز عمل اور آداب وکردار کے صفات کی ان دونوں فہرستوں کو دیکھنے کے بعدیہ اندازہ ہوتا ہے کہ خداوند عالم نے انسان کے نفس میںہر آرزو کو پورا کرنے کے لئے اور اسے ہویٰ و ہوس سے بچانے کے لئے ایک دفاعی طاقت بھی رکھی ہے ۔اور کیونکہ انسان کے تکامل اور تحرک کے لئے اسکے نفس میں خواہشات کا وجود ضروری ہے اسی لئے خداوندعالم نے ہر خواہش کو روکنے اور اسکا مقابلہ کرنے کے لئے اسمیںایک صفت (قوت مدافعت) ودیعت فرمائی ہے تاکہ ان کا تعادل ہمیشہ برقرار رہ سکے۔١٠۔ایسا نہیں ہے کہ بشری طرز عمل کے جویہ ایک سو پچاس صفات ہیں یہ ایک عام اور معمولی صفت یا سر سری خصوصیات ہوں جو کبھی کبھی اسکے نفس پرطاری ہوجاتے ہوں بلکہ انسان کے تمام اعمال کی بنیادیں بہت گہری اور انکی جڑیں بہت وسیع حد تک پھیلی ہوئی ہیں لہٰذا انسان جو اچھائی یا برائی کر تا ہے اسکا تعلق نفس کے باطن سے ضرورہوتا ہے ۔جس کی طرف قرآن مجید کی اس آیت میں اشارہ موجود ہے :(فا ٔلہمھا فجورھا وتقواھا)(١)’اور پھر اسے بدی اور تقوی کی ہدایت کردی’لہٰذا تقوی اور بدی میں سے ہر ایک کا سر چشمہ نفس ہی ہے اور یہ انسان کے طرز عمل میں کہیں باہر سے نہیں آتا ہے١١ ۔ عقل کے لشکر (صفات )کی فہرست میں غورو فکرسے کام لینے والا شخص بآسانی ان کی دو قسمیں کر سکتا ہے :…………..(١)سورئہ شمس آیت٨۔١۔اکسا نے اور مہمیز کرنے والی صفات ۔٢۔روکنے والے قواعد(ضوابط )اکسانے والے صفات ،نفس کو نیک اعمال پر ابھارنے اور مہمیز کر نے والے صفات کوکہا جاتا ہے ۔جیسے ایمان ،معرفت ،رحمت اورصداقت ۔ضوابط وہ اسباب ہیں جن کے ذریعہ نفس کے اندر رکنے اور بازر ہنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ۔ جیسے عفت ،زہد ،صبر ،قناعت اورحیاء ۔اکسانے والے صفات ان تمام عادات وصفات کا مجموعہ ہیںجو انسان کی شخصیت میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور کسی بھی کارخیریا رحمت ومعرفت میں اسے جو ضرورت ہوتی ہے وہ اس کوپورا کرتے ہیںلیکن ضوابط (قواعد )انسان کی شخصیت کو پستی میں گر نے سے محفوظ رکھتے ہیں اسطرح یہ مہمیز کرنے اور بچانے والے صفات ایک ساتھ مل کر ہی انسان کی شخصیت کی تعمیر اوراسکی حفاظت کا کام انجام دیتے ہیں اور اس سلسلہ میں عقل کے مدد گار ثابت ہوتے ہیں ۔اب اسکی مزید تفصیل ملاحظہ فرمائیں :انسانی زندگی میں عقل دوقسم کے عمل انجام دیتی ہے ۔١۔انسان کو ان مقاصد اور منزلوں کی طرف تحریک اور مہمیز کرنا جو اس کی ترقی اورتکامل کے لئے ضروری ہیں ۔٢۔پرخطر جگہوں پر انسان کو لغزشوں سے محفوظ رکھنا ۔مثال کے طور پر انسان خدا وندعالم کی طرف سیر وسلوک کی منزلیں طے کرتاہوامنزل سعادت وکمال تک پہونچتا ہے ایسے مرحلہ میں عقل کا اہم کردار یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کو ذکرو عبادت الٰہی اور اسکی محبت کی دعوت دیتی ہے اور اپنی انا نیت سے خدا وندعالم کی طرف یہ سفر اور حرکت انسانی زندگی کی ایک اہم بنیادی ضرورت ہے۔اس طرح مو منین کی آپسی محبت اور اخوت وبرادر ی کے ذریعہ انسان کی شخصیت کو چار چاند لگ جاتے ہیں جس کو اسلام نے ولاء ،اخوت و برادری اورپیار ومحبت کا نا م دیاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی معاشر ے میں تمام مومنین ایک دوسرے سے میل محبت رکھیں اور ایک دوسرے کا تعاون کریں اور ہر شہروالے دوسرے شہروالوںکے کام آئیں تنہائی اور انفرادیت سے سما جیات اور معاشرہ کی طرف قدم اٹھا نا بھی انسان کی ایک اہم ضرورت ہے ۔یہ دونوں مثالیں تو عقل کے مثبت کاموں کے بارے میں تھیں مگر انسان ان دونوں راستوں میں خطا ولغزش کا شکار ہوتا رہتا ہے ۔چنا نچہ وہ انانیت (ذاتیات )سے خدا کی طرف بلند پر وا زی کے دوران اچانک اوپر سے نیچے کی طرف یعنی (خدا سے ذاتیات )کی طرف گرنا شروع کردیتا ہے اور یہ سب گناہ کرنے نیزخواہشات اور شیطانی وسوسو ں اور ہوس کے جال میں پھنسنے کی وجہ سے ہوتا ہےاسی طرح کبھی کبھی انسان اپنے ذاتی مفادجیسے خود پسند ی یادوسروں سے بغض وحسد یا کسی چیز کی لالچ کی بنا پر سماج اورمعاشر ے پر فدا رہنے اورا سکے لئے بے شمار قربانیاں پیش کرنے کے باوجودقوم اور معاشرے پر اپنی ذات کو فوقیت دینے لگتا ہے ،ایسے مواقع پر عقل بہت موثر کردارکرتی ہے یعنی:١۔ ذاتیات اورانانیت سے اللہ کی طرف اور انفرادیت (تنہائی)سے سماج اور معاشرے کی طرف انسانی حرکت اور سفر میں ۔٢۔اللہ سے انانیت کی طرف اور امت اورقوم میں غرق رہنے کے بجائے ذاتیات (شخصی فوائد )کی جانب اسی طرح ایثار سے استیثارو خود پسندی کی طرف واپسی کے تمام مراحل میں بھی عقل انسان کو خواہشات کی پیروی اور ان کے ساتھ پھسل جانے اور گمراہ ہونے سے روکتی رہتی ہے ۔جب انسان آزاد انہ طورپر خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے ان کے دھارے میں بہہ کر خدا کی طرف جانے کے بجائے انانیت کی طرف جاتاہے،قوم کے لئے قربانی پیش کرنے کے بجائے ذاتی مفادات اور ایثار کے بجائے اپنی ذات کی طرف واپس پلٹنے لگتا ہے تبھی عقل اسکا راستہ روک لیتی ہے اگرچہ یہ دوسری بات ہے کہ تنہا عقل کے اندر اتنی صلاحیت اور طاقت نہیں ہے کہ وہ خدا اور قوم وملت کی طرف انسانی حرکت یا انانیت اورذاتیات کی وجہ سے گمراہ ہوتے وقت اپنے بل بوتے پر تنہا ان دونوں مرحلوں کو سر کرلے لہٰذاوہ مجبوراً ان صفات اور عادات کا سہارا لیتی ہے جن کو خداوند عالم نے انسان کی عقل کی پشت پناہی اور امداد کے لئے نفس کے اندر ودیعت فرمایا ہے ۔ان صفتوں اور عادتوں کی دو قسمیں:ہیں کچھ صفات وہ ہیں جو انانیت سے خدا کی طرف اور ذاتی مفادات سے قوم وملت پر فدا ہونے تک انسانی سفراور حرکت کے دوران اس کی شخصیت کی معاون ومددگار ہوتی ہیں اوربعض دوسرے صفات اس کو خواہشات نفس کا مقابلہ کرنے اور ان پر قابو پانے کی قوت وطاقت عطا کرتے ہیں ۔ جیسے خدا سے فطری لگائو اسی طرح محبت خدا اور ذکرو عبادت الٰہی سے فطری لگائو اوریہ جذبہ انسان کو خدا کی طرف اسی طرح کھینچتا ہے جس طرح سماجیات اور قوم وملت سے دلچسپی اور ان کی محبت اور بھائی چارگی کاجذبہ انسان کو قوم وملت کی طرف لیجاتا ہے ۔عقل کی ان عادتوں کوکسی کام پر ‘ابھارنے یااکسا نے اور مہمیز کرنے والی طاقت ‘کہا جاتا ہے جبکہ ان کے علاوہ کچھ ایسی صفات بھی ہیں جو انسان کی عقل کو ان معاملات میں کنٹرول کرنے اور اسے باز رکھنے والی طاقتیں کہی جاتی ہیں۔جیسے حیاء انسان کو بد کرداری سے روکتی ہے یا علم و برد باری اسے غصہ سے باز رکھتا ہے تو عفت اور پاکدامنی ،جنسی بے راہ روی کا سد باب کرتی ہے ۔اور قناعت ، حرص اور لالچ سے محفوظ رکھتی ہے ۔وغیرہ غیرہ ۔۔۔انہیں صفات کے مجموعہ کو انسانی حیات کے آداب (رفتار وگفتار اورکردار)میں ضوابط کانام دیا جاتا ہے ۔یہی ضوابط ،عصم (بچا نے اور محفوظ کرنے والے ) صفات بھی کہے جاتے ہیں کیونکہ یہ انسان کو گمراہی وغیرہ سے محفوظ رکھتے ہیں اور اگر یہ عصمتیں (بچا نے والی قوتیں )انسان کے اندر نہ ہوتیں تو عقل کسی طرح بھی اپنے بل بوتے پر خواہشات نفس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی اور ان عصم (بچانے والی صفات )کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ان کی قوتیں اور صلاحتیں مختلف ہیں جن کے متعدد اسباب ہیں اسکی تفصیل ہم انشاء اﷲآئندہ بیان کر ینگے ۔١٢۔جن صفات اور خصوصیات کو ہم نے عقل کا لشکر قرار دیا ہے اور وہ عقل کی پشت پناہی کا کردار کرتے ہیں ان کاصحیح فائدہ اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب یہ عقل اور دین کے تابع ہوں لیکن اگر خدا نخواستہ یہ عقل اور دین کی حکومت سے باہر نکل جائیں تو پھر یہ انسان کے لئے مفید ہونے کے جائے نقصان دہ ہوجاتے ہیں جیسے رحم دلی انسان کے لئے ایک اچھی اور بہترین صفت ہے لیکن جب یہی صفت عقل اور دین کے دائرہ سے باہر نکل جائے تو یہی نقصان دہ ہوجاتی ہے جیسے مجرمین کے ساتھ رحم دلی سے پیش آنے کو عقل اور دین دونوں نے منع کیا ہے جیسا کہ ارشا دالٰہی ہے :(ولا تأخذکم بھما رأفة)(١)’ اور تمہیں ان کے اوپر ہر گز ترس نہ آئے ‘اسی طرح ا نفاق ایک اچھی صفت ہے مگرجب یہ عقل اور دین کے راستے سے منحرف ہوجا تی ہے تو تعمیر کے بجائے تخریب کرنے لگتی ہے اسی لئے دین اور عقل دونوں نے ہی ایسے مواقع پر اس سے منع کیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :(ولا تبسطھاکل البسط فتقعد ملوماً محسوراً)(٢)’اور نہ اپنے ہا تھوں کو بالکل کھلا ہواچھوڑدوکہ آخر میںملول اور خالی ہاتھ بیٹھے رہ جائو’١٣۔جہل کے لشکر چاہے جتنے قوی کیو ں نہ ہوں مگر اسکے باوجود وہ انسان کے اراد ہ کے او پر…………..(١)سورہ نورآیت٢۔(٢)سورہ اسراء آیت ٢٩۔غلبہ حاصل نہیں کرسکتے ہیں اورا س سے اسکی قوت اراد ی نہیں چھین سکتے ہیں اور بالآ خر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے فیصلہ کا اختیار اسکے ارادہ کے ہی اختیار میں رہتا ہے البتہ کل ملا کرجہل کی فوجیںاتنا کر سکتی ہیںکہ وہ انسان کے ارادہ کے اوپر کسی طرح کا دبائو ڈال دیں اور وہ دبائو اتنا زیادہ ہوجو اس اراد ہ کو عمل کے لئے تحریک کردے ، لیکن پھر بھی یہ انسان سے اس کی قوت ارادہ اوراسکی آزاد ی واختیارکو سلب نہیں کرسکتے ہیں ۔۔۔اگر چہ اس میں بھی کوئی شک وشبہہ نہیں ہے کہ عقل یا جہل کے صفات سے ارادہ کسی حدتک متاثر ضرور ہوتا ہے ۔١٤۔یہ ایک بنیاد ی مسئلہ ہے کہ عقل کے لشکر وں کی قوت وطاقت یا کمزوری کا تعلق انسان کی اچھی یا بری تربیت سے ہوتا ہے اگر واقعاً کسی کی اچھی تربیت ہو اور وہ متقی انسان ہوجائے تو عقل کی یہ خصلتیں قوی ہوجاتی ہیں اور خواہش نفس اورشہوتیں خود بخود کمزور پڑجاتی ہیں ۔اسی طرح اسکے برعکس یہ بھی ممکن ہے کہ خواہشات کی اندھی پیر و ی اور غلط تربیت یا سماج کی وجہ سے جب انسان بگڑ جاتاہے توشہوتوںمیںمزیداضافہ ہوتا ہے اور عقل کے لشکر(صفات) کمزور پڑجاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بعض حلال خواہشات کی تکمیل سے بھی اکثر منع کیا ہے تا کہ انسان ان لذ تو ں (اور خواہشات)کے بہائو کے ساتھ غلط راستوں پر نہ بہنے پائے جیسا کہ رسول اکرمۖ نے اسی بارے میں یہ ارشادفرما یا ہے:(من أکل مایشتھی لم ینظراﷲ الیہ حتیٰ ینزع أویترک ) (١)’جو شخص اپنی دل پسندچیز کھاتا رہے تو جب تک اسے ترک نہ کر دے یا اس سے دور نہ ہو جائے خداوند عالم اسکی طرف نظر بھی نہیںکرتا ہے’اسکی وجہ یہ ہے کہ اگر انسان کھانے پینے میں اپنی ہر خواہش پوری کرتا رہے اور اپنے پیٹ…………..(١)بحارالانوارج ٧٠ ،ص ٧٨۔ ح ١٠۔کے اوپر کنڑ ول نہ رکھے تو حلال کھاتے کھاتے ایک نہ ایک دن وہ حرام کھانا شروع کر دیگا۔(کیونکہ وہ اپنی پسند کا بندہ ہے )اور حرام خوری کرنے والے انسان پر رحمت الٰہی نازل نہیں ہوتی اور خدا اس کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا ہے ۔علما ء اخلاق نے خواہشات کو لطیف اور سبک بنانے کے لئے کچھ طریقے بیان کئے ہیں جیسا کہ ابراھیم خو اص نے کہا ہے کہ دل کی پانچ دوائیں ہیں :ا۔ قرآت قرآن ۔ ٢۔خالی پیٹ (رہنا ) ٣۔نماز شب ۔٤۔سحرکے ہنگام گریہ وبکا (تضرع ) ٥۔صالحین کی ہم نشینی ۔کسی اور کا یہ قول ہے کہ خداوندعالم نے دلوں کو اپنے ذکر کا مسکن (گھر )بنا یاتھا ۔مگر وہ شہوتوںکا اڈہ بن گئے اور دلوں کے اندر سے یہ خواہشات انسان کوہلاکر رکھ دینے والے خوف یا تڑپادینے والے شوق کے بغیر نہیں نکل سکتی ہیں۔(١)خواہشات کو نرم ولطیف اور کمزور کرنے اور عقل کے لشکر وں کی امداد کرنے والی اس صفت کی طرف امیر المو منین نے خطبہ ٔ متقین میں یہ ارشاد فرمایا ہے:(قدأحیا عقلہ وأمات نفسہ )’اس نے اپنی عقل کوزندہ کر دیا اور اپنے نفس کومردہ بنا دیا’اسلام میں تربیت وہی ہے جس کی طرف مولائے کائنات نے اشارہ فرمایا ہے کہ: اس کے ذریعہ خواہشات کی بڑی سے بڑی خصلتیں مختصراور لطیف ہوجاتی ہیں جن کی تعداد روایات میں ٧٥ بیان کی گئی ہے ۔ اسکے علاوہ اس کا فائدہ یہ ہے کہ وقت ضرورت یہ عقل کی ٧٥ صفتوں اور خصلتوں کی امداد اور پشت پناہی بھی کرتی رہتی ہے ۔١٥۔جب عقل کو اپنی خصلتوں کی جانب سے مکمل پشت پناہی حاصل ہوجاتی ہے تو پھر…………..(١)ذم الہویٰ لابن الجوزی ص٧٠ ۔خواہشات کے اوپر عقل کا کنٹرول اور حکومت قائم ہوجاتی ہے اور وہ ان کے اوپر اچھی طرح تسلط قائم کرلیتی ہے اور انسان کو محفوظ کر کے خواہشات کی طاقت کو بالکل ناکارہ بنادیتی ہے جیسا کہ حضرت علی نے فرمایا ہے :(العقل الکامل قاھرللطبع السوئ)(١)’عقل کامل بری طبیعتوں پر غالب رہتی ہے’اس طرح عام لوگوں کے خیالات کے بر خلاف انسان در حقیقت صرف اپنی خواہشوں پر کنٹرول کر کے ہی قوی اور طاقتور ہوتا ہے جبکہ عام لوگ تو خواہشات اور ہویٰ و ہوس کی حکومت اور غلبہ کو طاقت اور قوت سمجھتے ہیںمگر اسلام کی نگاہ میںخواہشات کو اپنے ماتحت رکھنے کا نام غلبہ اورقوت و طاقت ہے اور خواہشات کی حکومت اور اسکی ماتحتی میں چلے جانے کو طاقت اور غلبہ نہیں کہا جاتا۔رسول اکرم ۖ :(لیس الشدید من غلب الناس،ولکن الشدید من غلب نفسہ) (٢)’طاقتور وہ نہیں ہے جو لوگوں کے اوپر غلبہ حاصل کرلے بلکہ طاقتور وہ ہے جو نفس کو اپنے قابو میں رکھے’آپۖ ہی کا یہ ارشاد گرامی ہے :(لیس الشدید بالصرعة،انما الذی یملک نفسہ عندالغضب)(٣)’کشتی اور پہلوانی کے ذریعہ انسان طاقتور نہیںبنتا ہے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر اختیار رکھے’…………..(١)بحارالانوارج٧٨ص٩۔(٢)ذم الہوی ٣٩۔(٣)مسنداحمد وبیہقی۔آپ ہی کا یہ ارشاد گرامی ہے :(أشجع الناس من غلب ہواہ)(١)’سب سے زیادہ بہادر وہ ہے جو اپنی خواہشات پر غلبہ حاصل کرلے’…………..(١)بحار الانوار ج٧٠ ص ٧٦ ح٥۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.