عقل کے تین مراحل
عقل کے تین مراحلانسانی زندگی میں عقل کے تین اہم کردار ہوتے ہیں :
١۔ معرفت الٰہی۔٢۔خداوندعالم نے جو کچھ اپنے بندوں پر واجب کیا ہے اسکی اطاعت کرنا کیونکہ اﷲتعالیٰ کی صحیح معرفت کا نتیجہ اسکی اطاعت اور بندگی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔٣۔تقوائے ا لٰہی: یہ خداوندعالم کی اطاعت وبندگی کا دوسرا رخ ہے کیونکہ خداوندعالم کی اطاعت وبندگی کی بھی دوقسمیں ہیں ۔١۔واجبات کو بجالانا اور محرمات سے پر ہیز کرنا اور تقویٰ درحقیقت نفس کو محرمات سے بازرکھنے کا نام ہے ۔اور شاید مندرجہ ذیل روایت میں بھی عقل کے مذکورہ تینوں مرحلوں کی وضاحت موجود ہے:رسول اکرم ۖ:(قُسّم العقل علیٰ ثلاثة أجزائ،فمن کانت فیہ کمل عقلہ،ومن لم تکن فیہ فلا عقل لہ:حسن المعرفة باﷲعزوجل،و حسن الطاعة ﷲ،وحسن الصبرعلیٰ أمرہ)(١)’عقل کے تین حصے کئے گئے ہیں لہٰذا جسکے اندر یہ تینوں حصے موجود ہوں اسکی عقل کامل ہے اور جسکے اندر یہ موجود نہ ہوں تواسکے پاس عقل بھی نہیں ہے !١۔حسن معرفت الٰہی (خداوندعالم کی بہتر ین شناخت ومعرفت اور حجت آوری)۔٢۔اﷲکی بہترین اطاعت وبندگی ۔٣۔اسکے احکامات پر اچھی طرح صبر کرنا ‘خدا کے احکام پر صبر کرنے کا دوسرا نام خواہشات پر قابو پانا ہے اور اس کو تقویٰ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ خواہشات پر قابو پانا اور انھیں اپنے کنڑول میں رکھنے کیلئے جتنا زیادہ صبر درکار ہے اتنا صبر کسی اور کام کیلئے درکار نہیں ہوتا ہے ۔اب ان تینوں مراحل کی تفصیل ملا حظہ فرمائیں :١۔معر فت اور حجت آوریعقل کی پہلی ذمہ داری معرفت اور شناخت ہے ۔کیونکہ اس دنیا کے حقائق اور اسرار سے پر دہ اٹھا نے کا ذریعہ(آلہ )عقل ہی ہے اگرچہ اہل تصوف اسکے مخالف ہیں اور وہ عقل کی معرفت اور…………..(١)بحارالانوارج١ص١٠٦۔شناخت کے قائل ہی نہیں ہیں انکا کہنا ہے کہ اس دنیا کے حقائق اور خداوندعالم اور اسی طرح غیب کی معرفت کے بارے میں عقل کا کوئی دخل نہیں ہوتاہے ۔جبکہ اسلام عقل کی قوت تشخیص کا قائل ہے اور وہ اسے علم ومعرفت کا ایک آلہ قراردیتا ہے اور دنیا کے مادی یا غیر مادی تمام مقامات پریا اس دنیا کے خالق یا واجبات اور محرمات جیسے تمام مسائل میں اس کی مز ید تا ئید کرتا ہے ۔رسول اکرم ۖنے اس سلسلہ میں یہ ارشاد فرمایا ہے :(نمایدرک الخیرکلہ فی العقل )(١)’ ہرخیر کو عقل میں تلاش کیا جاسکتا ہے ‘آپ ہی کا یہ ارشاد بھی ہے :(استرشدوا العقل ترشدوا ولا تعصوہ فتندموا)(٢)’عقل سے رہنمائی حاصل کرو تو راستہ مل جائے گا اوراسکی نافرمانی نہ کرنا ورنہ شرمندگی اٹھانا پڑے گی ‘حضرت علی :(العقل أصل العلم وداعیة الفہم)(٣)’عقل ،علم کی بنیاد اور فہم (غوروفکر)کی طرف دعوت دینے والی ہے’امام جعفر صادق :(العقل دلیل المؤمن)(٤)…………..(١)تحف العقول ص٥٤ ۔ بحارالانوا ر ج ٧٧ ص١٥٨۔(٢)اصول کافی ج١ص٢٥۔(٣)غررالحکم ج١ص١٠٢۔(٤)اصول کافی ج١ص٢٥۔’عقل مومن کی رہنما ہے’دنیا کے حقائق اور اسرار ورموز کی معرفت کیلئے عقل کی قدروقیمت اور اہمیت کیا ہے؟ اسکو روایات میں یوں بیان کیا گیا ہے:’خداوند عالم اپنے بندوں پر عقل کے ذریعہ ہی احتجاج (دلیل) پیش کریگا اور اسی کے مطابق ان کو جزا یا سزا دی جائیگی ‘اس مختصر سے جملہ کے ذریعہ انسانی زندگی میں عقل کی قدروقیمت اور دین خدا میں اسکی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔امام موسی کاظم :(أن ﷲ علیٰ الناس حجتین حجة ظاھرة وحجة باطنة،فأماالظاھرة فالرسل والانبیاء والائمة(ع)،وأما الباطنة فالعقول) (١)’بندوں پر خداوند عالم کی دوحجتیں (دلیلیں)ہیں ایک کھلی ہوئی اور ظاہر ہے اور دوسری پوشیدہ ہے ظاہری حجت اسکے رسول، انبیاء اور ائمہ ہیں اور پوشیدہ حجت کا نام عقل ہے’آپ ہی کا یہ ارشاد گرامی ہے:(ان اﷲ عزوجل أکمل للناس الحجج بالعقول،وأفضیٰ لیھم بالبیان،ودلّہم علیٰ ربوبیتہ بالادلة)(٢)’خداوند عالم نے عقلوں کے ذریعہ لوگوں پر اپنی سب حجتیں تمام کردی ہیں اوربیان سے ان کی وضاحت فرمادی اور دلیلوں کے ذریعہ اپنی ربوبیت کی طرف ان کی رہنمائی کردی ہے’لہٰذاعقل ،انسان کے اوپر خداوند عالم کی حجت اور دلیل ہے جسکے ذریعہ وہ اپنے بندوں کا فیصلہ کرتا ہے اوراگر فہم وادراک کی اسی صلاحیت کی بناء پر اسلام نے عقل کو اس اہمیت اور عظمت سے…………..(١)بحارالانوار ج١ ص ١٣٧۔(٢)بحارالانوار ج١ص١٣٢۔نہنوازا ہوتا تو وہ کبھی بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی تھی اور اسکے مطابق فیصلہ ممکن نہیں تھا۔یہی وجہ ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوند عالم عقل کے مطابق ہی جزا یا سزا دیگا۔
٢۔اطاعت خداجب فہم وادراک اورنظری معرفت کے میدان میں عقل کی اس قدر اہمیت ہے۔۔۔تو اسی نظری معرفت کے نتیجہ میں عملی معرفت پیدا ہوتی ہے جسکی بنا پر انسان کیلئے کچھ واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے پرہیز واجب ہوجاتا ہے ۔چنانچہ جس نظری معرفت کے نتیجہ میںعملی معرفت پیدا ہوتی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کے مقام ربوبیت والوہیت کو پہچان لے اور اس طرح اسکی عبودیت اور بندگی کے مقام کی معرفت بھی پیدا کرلے اورجب انسان یہ معرفت حاصل کرلیتاہے تو اس پر خداوند عالم کے احکام کی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہوجاتی ہے۔یہ معرفت ،عقل کے خصوصیات میں سے ایک ہے اور یہی وہ معرفت ہے جو انسان کو خدا کے اوامر کی اطاعت اور نواہی سے پرہیز (واجبات و محرمات )کا ذمہ دار اور انکی ادائیگی یا مخالفت کی صورت میں جزاوسزا کا مستحق قرار دیتی ہے اور اگر معرفت نظری کے بعد یہ معرفت عملی نہ پائی جائے تو پھر انسان کے اوپر اوامر اور نواہی الٰہیہ نافذ(لاگو)نہیں ہوسکتے یعنی نہ اسکے اوپر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ ہی اسکو جزااور سزا کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔اسی بیان کی طرف مندرجہ ذیل روایات میں اشارہ موجود ہے:امام محمد باقر نے فرمایا ہے:(لماخلق اﷲ العقل استنطقہ ثم قال لہ أقبل فأقبل،ثم قال لہ أدبرفأدبر،ثم قال لہ:وعزّتی وجلا لی ماخلقت خلقاً ھوأحب لیّ منک،ولااکملک الافیمن احب۔أمانی یّاک آمرو یّاکأنھیٰ ویّاک اُعاقب ویّاک أثیب)(١)’یعنی جب پروردگار عالم نے عقل کو خلق فرمایا تو اسے گویا ہونے کاحکم دیا پھر اس سے فرمایا سامنے آ،تو وہ سامنے آگئی اسکے بعد فرمایا پیچھے ہٹ جا تو وہ پیچھے ہٹ گئی تو پروردگار نے اس سے فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ اپنی محبوب کوئی اور مخلوق پیدا نہیں کی ہے اور میں تجھے اسکے اندر کامل کرونگا جس سے مجھے محبت ہوگی۔یاد رکھ کہ میں صرف اور صرف تیرے ہی مطابق کوئی حکم دونگا اور تیرے ہی مطابق کسی چیز سے منع کرونگا اور صرف تیرے مطابق عذا ب کرونگا اور تیرے ہی اعتبار سے ثواب دونگا’امام جعفر صادق نے فرمایا:(لماخلق اﷲ عزوجل العقل قال لہ ادبرفادبر،ثم قال اقبل فاقبل،فقال وعزتی وجلالی ماخلقت خلقاً احسن منک،یّاک آمرویّاک انھی،یّاک اُثیب ویّاکاُعاقب)(٢)’جب اﷲ تعالی نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی اسکے بعد فرمایا سامنے آ ،تو وہ آگئی تو ارشاد فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم : میں نے تجھ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے لہٰذا صرف اور صرف تیرے ہی مطابق امرونہی کرونگا اور صرف اورصرف تیرے ہی مطابق ثواب یا عذاب دونگا’بعینہ یہی مضمون دوسری روایات میںبھی موجود ہے ۔(٣)ان روایات میں اس بات کی طرف کنایہ واشارہ پایا جاتا ہے کہ عقل، خداوند عالم کی مطیع…………..(١)اصول کافی ج١ص١٠۔(٢)بحارالانوارج١ص٩٦۔(٣)بحارالانوار ج١ ص ٩٧ ۔وفرمانبردار مخلوق ہے کہ جب اسے حکم دیا گیا کہ سامنے آ، تو سامنے آگئی اور جب کہا گیا کہ واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ۔روایات میں اس طرح کے اشارے اورکنائے ایک عام بات ہے۔علم وعمل کے درمیان رابطہ کے بارے میں حضرت علی کا یہ ارشاد ہے:(العاقل اذا علم عمل،واذا عمل اخلص)(١)’ عاقل جب کوئی چیز جان لیتا ہے تو اس پر عمل کرتا ہے اور جب عمل کرتا ہے تو اسکی نیت خالص رہتی ہے’اﷲ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری میں عقل کیا کردار ادا کرتی ہے اسکے بارے میں اسلامی کتابو ں میں روایات موجود ہیں جنمیں سے ہم نمونے کے طورپر صرف چند روایات ذکر کر رہے ہیں۔رسول اکرم ۖ:(العاقل من أطاع اﷲ )(٢)’عاقل وہ ہے جو خدا کا فرمانبردار ہو’روایت ہے کہ نبی اکرم ۖ سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟قال :(العمل بطاعة اللہ،ان العمال بطاعة اللہ ھم العقلاء )’فرمایا :حکم خدا کے مطابق عمل کرنا، بیشک اطاعت خدا کے مطابق چلنے والے ہی صاحبان عقل ہیں'(٣)…………..(١)غررالحکم ج١ص١٠١۔(٢)بحارالانوارج١ص١٦٠۔(٣)بحارالانوار ج١ص١٣١۔امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا :’جس سے خداوند عالم (رحمن)کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے’راوی کہتا ہے کہ میںنے عرض کیا کہ پھر معاویہ کے اندر کیا تھا؟فرمایا:وہ چال بازی اور شیطنت تھی’ (١)حضرت علی :(اعقلکم اطوعکم)(٢)’سب سے بڑا عاقل وہ ہے جو سب سے زیادہ اطاعت گذار ہو’امام جعفر صادق :(العاقل من کان ذلولاً عند اجابة الحق)(٣)’عاقل وہ ہے جو دعوت حق کو لبیک کہتے وقت اپنے کو سب سے زیادہ ذلیل سمجھے’
٣۔خواہشات کے مقابلہ کے لئے صبروتحمل(خواہشات کا دفاع)یہ وہ تیسری فضیلت ہے جس سے خداوند عالم نے انسانی عقل کو نوازا ہے ۔اور یہ عقل کی ایک بنیادی اور دشوار گذار نیزاہم ذمہ داری ہے جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اسکی یہ ذمہ داری اطاعت الٰہی کا ہی ایک دوسرا رخ تصور کی جاتی ہے بلکہ در حقیقت(واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز)ہی اطاعت خدا کے مصداق ہیں اور ان کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی صورت میں واجبات پر عمل کرکے اسکی اطاعت کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں اسکی حرام کردہ چیزوں سے پر ہیز کرکے خواہشات سے اپنے نفس کو روک کر اوران پر صبرکر کے اسکی فرمانبرداری کیجاتی ہے اس بنا پر عقل کی یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے کہ وہ خواہشات نفس کواپنے قابو میں رکھے اورانھیں اس طرح اپنے ماتحت رکھے کہ وہ کبھی اپنا سر نہ اٹھا سکیں۔…………..(١)بحارالانوارج١ص١١٦۔(٢)غررالحکم ج١ص١٧٩۔(٣)بحارالانوار ج١ص١٣٠۔خواہشات نفس کوکنڑول کرنے کے بارے میں عقل کی اس ڈیوٹی کے سلسلہ میں بیحد تاکید کی گئی ہے۔نمونہ کے طور پر حضرت علی کے مندرجہ ذیل اقوال حاضر خدمت ہیں:٭(العقل حسام قاطع)(١)’عقل (خواہشات کو)کاٹ دینے والی تیز شمشیر ہے’٭ (قاتل ھواک بعقلک)(٢)’اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو’٭ (للنفوس خواطرللھویٰ،والعقول تزجر وتنھیٰ)(٣)’نفس کے اندر ہویٰ وہوس کی بنا پر مختلف حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور عقل ان سے منع کرتی ہے’٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجرمنہا)(٤)’دلوں پر برے خیالات کا گذر ہوتا ہے تو عقل ان سے روکتی ہے’٭ (العاقل من غلب ہواہ،ولم یبع آخرتہ بدنیاہ)(٥)’عاقل وہ ہے جو اپنی خواہش کا مالک ہو اور اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے عوض فروخت نہ کرے’٭ (العاقل من ہجرشہوتہ،وباع دنیاہ بآخرتہ )(٦)’عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت سے بالکل دور ہوجائے اور اپنی دنیا کو اپنی آخرت کے عوض…………..(١)نہج البلاغہ ۔(٢)گذشتہ حوالہ۔(٣)تحف العقول ص٩٦۔(٤)غررالحکم ج٢ص١٢١۔(٥)غررالحکم ج١ ص ٠٤ ١ ۔(٦)غررالحکم ج١ص٨٦۔فروخت کرڈالے’٭ (العاقل عدولذ تہ والجاہل عبد شہوتہ)(١)’عاقل اپنی لذتوں کا دشمن ہوتا ہے اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے’٭ (العاقل من عصیٰ ھواہ فی طاعة ربہ)(٢)’عاقل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کے لئے اپنی خواہش نفس (ہوس)کی مخالفت کرے’٭ (العاقل من غلب نوازع أھویتہ)(٣)’عاقل وہ ہے جو اپنے خواہشات کی لغزشوں پر غلبہ رکھے’٭ (العاقل من أمات شہوتہ،والقوی من قمع لذتہ)(٤)’عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت کو مردہ بنادے اور قوی وہ ہے جو اپنی لذتوں کا قلع قمع کردے’لہٰذا عقل کے تین مرحلے ہیں:١۔معرفت خدا٢۔واجبات میں اسکی اطاعت٣۔جن خواہشات نفس اور محرمات سے اﷲ تعالی نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرنا۔اس باب (بحث)میںہماری منظور نظر عقل کا یہی تیسراکردارہے یعنی اس میں ہم خواہشات کے مقابلہ کا طریقہ ان پر قابو حاصل کرنے نیز انھیں کنٹرول کرنے کے طریقے بیان کرینگے ۔لہٰذا اب آپ نفس کے اندر عقل اور خواہشات کے درمیان موجود خلفشار اور کشمکش کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:…………..(١)غررالحکم ج١ص٢٨۔(٢)غررالحکم ج٢ص٨٧۔(٣)غررالحکم ج٢ص١٢٠۔(٤)غررالحکم ج٢ص٥٨۔
عقل اور خواہشات کی کشمکش اور انسان کی آخری منزل کی نشاندہیعقل اور خواہشات کے درمیان جو جنگ بھڑکتی ہے اس سے انسان کے آخری انجام کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ وہ سعادت مند ہونے والا ہے یا بد بخت ؟یعنی نفس کی اندرونی جنگ دنیاکے تمام لوگوں کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کردیتی ہے :١۔متقی٢۔فاسق وفاجراس طرح بشری عادات و کردار کی بھی دوقسمیں ہیں:١۔تقویٰ وپرہیزگاری(نیک کردار)٢۔فسق وفجور ( بد کردار)تقویٰ یعنی خواہشات کے اوپر عقل کی حکومت اورفسق وفجور اور بد کرداری یعنی عقل کے اوپر خواہشات کا اندھا راج ،لہٰذا اسی دوراہے سے ہر انسان کی سعادت یا بدبختی کے راستے شمال و جنوب کے راستوں کی طرح ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوجاتے ہیںاور اصحاب یمین (نیک افراد) اور اصحاب شمال (یعنی برے لوگوں)کے درمیان یہ جدائی بالکل حقیقی اور جوہری جدائی ہے جس میں کسی طرح کا اتصال ممکن نہیں ہے۔اور یہ جدائی اسی دو راہے سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ کچھ لوگ اپنی خواہشات پر اپنی عقل کو حاکم رکھتے ہیں لہٰذا وہ متقی،صالح اور نیک کردار بن جاتے ہیں اور کچھ اپنی عقل کی باگ ڈوراپنی خواہشات کے حوالہ کردیتے ہیں لہٰذا وہ فاسق وفاجر بن جاتے ہیں اس طرح اہل دنیا دوحصوں میں بٹے ہوئے ہیں کچھ کا راستہ خدا تک پہنچتا ہے اور کچھ جہنم کی آگ کی تہوں میں پہونچ جاتے ہیں۔امیر المومنین نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے:(من غلب عقلہ ھواہ افلح،ومن غلب ھواہ عقلہ افتضح)(١)’جس کی عقل اسکی خواہشات پر غالب ہے وہ کامیاب وکامران ہے اور جسکی عقل کے اوپر اسکے خواہشات غلبہ پیدا کرلیں وہ رسواو ذلیل ہوگیا’آپ نے ہی یہ ارشاد فرمایا ہے:(العقل صاحب جیش الرحمٰن،والھویٰ قائد جیش الشیطان والنفس متجاذبة بینھما،فأیھمایغلب کانت فی حیّزہ)(٢)’عقل لشکر رحمن کی سپہ سالارہے اور خواہشات شیطان کے لشکر کی سردار ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان کشمکش اور کھنچائو کا شکاررہتا ہے چنانچہ ان میں جو غالب آجاتا ہے نفس اسکے ماتحت رہتا ہے’اس طرح نفس کے اندر یہ جنگ جاری رہتی ہے اور نفس ان دونوں کے درمیان معلق رہتا ہے جب انمیں سے کوئی ایک اس جنگ کو جیت لیتا ہے تو انسان کا نفس بھی اسکی حکومت کے ماتحت چلاجاتا ہے اب چاہے عقل کامیاب ہوجائے یا خواہشات۔حضرت علی :(العقل والشھوة ضدان، مؤید العقل العلم،مزین الشھوة الھویٰ،والنفس متنازعة بینھما،فأیھما قھرکانت فی جانبہ)(٣)’عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں عقل کا مددگار علم ہے اور شہوت کو زینت بخشنے والی چیز…………..(١)غررالحکم ج٢ص١٨٧۔(٢)غررالحکم ج١ص١١٣۔(٣)گذشتہ حوالہ ۔ہوس اور خواہشات ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان متذبذب رہتا ہے چنانچہ انمیں سے جوغالبآجاتا ہے نفس بھی اسی کی طرف ہوجاتا ہے’یعنی نفس کے بارے میں عقل اور خواہشات کے درمیان ہمیشہ جھگڑا رہتا ہے ۔چنانچہ انمیں سے جوغالب آجاتا ہے انسان کا نفس بھی اسی کا ساتھ دیتا ہے۔
ضعف عقل اورقوت ہوسشہوت(خواہشات)اور عقل کی وہ بنیادی لڑائی جسکے بعد انسان کی آخری منزل (سعادت وشقاوت) معین ہوتی ہے اس میں خواہشات کا پلڑاعقل کے مقابلہ میں کافی بھاری رہتا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ عقل فہم وادراک کا ایک آلہ ہے جبکہ خواہشات جسم کے اندر انسان کو متحرک بنانے والی ایک مضبوط طاقت ہے۔اور یہ طے شدہ بات ہے کہ عقل ہرقدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسکو نفس کی قوت محرکہ نہیں کہاجاتا ہے۔جبکہ خواہشات کے اندر انسان کو کسی کام پر اکسانے بلکہ بھڑکانے کے لئے اعلیٰ درجہ کی قدرت وطاقت وافرمقدار میں پائی جاتی ہے۔حضرت علی نے فرمایا:(کم من عقل اسیرعند ہویٰ امیر)(١)’کتنی عقلیں خواہشات کے آمرانہ پنجوںمیں گرفتار ہیں’خواہشات انسان کو لالچ اور دھوکہ کے ذریعہ پستیوں کی طرف لیجاتی ہیں اور انسان بھی ان کے ساتھ پھسلتا چلا جاتا ہے ۔جبکہ عقل انسان کو ان چیزوںکی طرف دعوت دیتی ہے جن سے اسے نفرت ہے اور وہ انھیں پسند نہیں کرتا ہے۔…………..(١)نہج البلاغہ حکمت٢١١امیر المومنین فرماتے ہیں:(اکرھ نفسک علی الفضائل،فان الرذائل انت مطبوع علیھا)(١)’نیک کام کرنے کے لئے اپنے نفس کے اوپر زور ڈالو،کیونکہ برائیوں کی طرف تو تم خود بخودجاتے ہو’کیونکہ خواہشات کے مطابق چلتے وقت راستہ بالکل مزاج کے مطابق گویاڈھلان دار ہوتا ہے لہٰذاوہ اسکے اوپر بآسانی پستی کی طرف اتر تا چلاجاتا ہے لیکن کمالات اور اچھائیوں میں کیونکہ انسان کا رخ بلند یو ںکی طرف ہوتا ہے لہٰذا اس صورت میںہر ایک کو زحمت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عقل اور شہوت کے درمیان جو بھی جنگ چھڑتی ہے اس میں شہوتیں اپنے تمام لائو لشکر اور بھر پور قدرت وطاقت اور اثرات کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں اوراسکے سامنے عقل کمزور پڑجاتی ہے۔اور اکثر اوقات جب عقل اور خواہشات کے درمیان مقابلہ کی نوبت آتی ہے تو عقل کو ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں کیونکہ وہ اسکے اوپر اس طرح حاوی ہوجاتی ہیں کہ اسکو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہیں اور اسکا پورا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیکر اسے بالکل لاچار بنادیتی ہیں۔…………..(١)مستدرک وسائل الشیعہ ج ٢ ص٣١٠۔