فاطمہ(س) خواتین عالم کیلئے نمونہ
فاطمہ(س) خواتین عالم کیلئے نمونہبغیر کسی تردید کے دیندار خواتین چاہتی ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو اسلامی قوانین کے مطابق ادا کریں اور چونکہ حضرت زہرا (س) ان کیلئے ایک بہترین نمونہ عمل ہے، اس لئے آپ کی سیرت اور کردار کو ان کیلئے بیان کرنا ضروری ہے۔رسول اسلام (ص)نے فرمایا: عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ لَوْ لَا أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ ع لَمْ يَكُنْ لِفَاطِمَةَ ع كُفْوٌ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ آدَمُ فَمَنْ دُونَهُ۔5۔ اور فرمایا: لو لا علیّ لم یکن لفاطمة کفو-6 میری نظر میں فاطمہ(س) کا مقام اس قدر بلند وبالا ہے کہ اگر علی (ع) نہ ہوتے تو اس روئے زمین پرحضرت آدم(ع) کے زمانے سے قیامت تک فاطمہ(س) کے قابل کوئی ہمسر نہ ملتا۔
فاطمہ(س) کاگھر میں کام کرناان تمام عظمتوں کے باوجودفاطمہ (س)گھر کا سارا کام خود کرتی تھیں۔ جیسا کہ امامصادق (ع)فرماتے ہیں :میرے جدّ گرامی علی (ع) نے رسولخدا (ص)کے فرمان کے مطابق گھریلو کام کو فاطمہ کیساتھ تقسیم کیا کہ آپ باہر کا کام کریں گے اور فاطمہ(س) چاردیواری کے اندر کا کام کریں گیكَانَ عَلِيٌّ ع يَسْتَقِي وَ يَحْتَطِبُ وَ كَانَتْ فَاطِمَةُ ع تَطْحَنُ وَ تَعْجِنُ وَ تَخْبِزُ وَ تَرْقَع ۔ یعنی امیر المؤمنین پانی اور لکڑی کا بندوبست کرتے تھے اور میری جدّہ گرامی آٹا پیستی،خمیر بناتی ، روٹی پکاتی اور کپڑے دھوتی تھیں7
پیامبر (ص) کا اپنی بیٹی کا دیدار کرناایک دن جب رسول گرامی اسلام (ص)فاطمہ (س)کے گھر آپ کے دیدار کیلئے تشریف لائے،فاطمہ(س) کو دیکھ کر آپ کی آنکھیں پرنم ہوگئیں کہفاطمہ (س)اونی لباس میں ملبو س علی (ع)کے گھر میں چکّی بھی پیس رہی ہیں اور ساتھ ہی امام حسین (ع)کو دودھ بھی پلارہی ہیں ۔جب اتنی مشقت کی حالت میں دیکھا تو اشکبار آنکھوں کے ساتھ فرمایا: میری جان فاطمہ(س)! دنیا میں ایسی سختیاں جھیل لیں تاکہ قیامت کے دن اجر وثواب کے زیادہ مستحق ہوجاؤ۔اور اس راہ میں صبر و تحمّل کو ہاتھ سے جانے نہ دو۔فاطمہ(س) نے عرض کیا بابا جان! میں خدا کا ہر حال میں شکر ادا کرتی ہوں اور کسی وقت بھی خدا کی ذات کو فراموش نہیں کرونگی۔اس وقت وحی نازل ہوئی : ولسوف یعطیک ربّک فترضی -8۔یعنی اے رسول! کیااپنی بیٹی کو اتنی سختیوں میں دیکھ کر زیادہ مغموم ہوگئے اورآپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے؟ ہم انہیں اس کا بدلہ ضرور دینگے۔اور شفاعت کا پرچم آپ اور آپ کی بیٹیفاطمہ (س)کو عطا کریں گے اور ان کی عظمت اور مقام کو اتنا بلند کرینگے کہ آپ راضی ہوجائیں گے۔ شیبہ نے اس واقعے کو کچھ اضافات کیساتھ حضرت سلمان سے یوں نقل کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ جب میں علی کے دولت سرا میں داخل ہواتو فاطمہ(س) کو دیکھا کہ چکّی پیسنے کی وجہ سے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے ہیں۔ میں نے کہا:اے بنت رسول! کیوں فضّہ سے مدد نہیں لیتیں؟ تو فرمایا : ایک دن فضّہ کام کرتی ہے اور ایک دن میں۔ اور آج میری باری ہے اور ان کی استراحت کا دن ہے۔ یہ واقعہ میں نے علی (ع)کو سنایاتو بہت روئے اورفاطمہ (س)کی خدمت میں تشریف لے گئے۔ پھر کچھ لمحہ کے بعد مسکراتے ہوئے باہر آئے ۔ پیامبر اسلام (ص) نے خوشی کی وجہ پوچھی تو علی (ع)نے فرمایا: جب میں گھر میں گیا تو دیکھا کہ فاطمہ سورہی ہے اور حسین (ع) ان کے سینہ پر سورہا ہے اور چکّی خود بخود چل رہی ہے۔ پیامبر (ص)نے مسکرا کے کہا: اے علی!فرشتے محمد وآل محمد 7سے محبت رکھتے ہیں جو چکّی چلارہے ہیں -9فاطمہ علی (ع) کے گھر میں بہت کام کرتی تھیں بچوں کی پرورش کرتی مشکلات کو برداشت کرتی بیشتر اوقات بھوکی رہتی لیکن کبھی بھی علی (ع)سے شکایت نہیں کی۔ ایک دن امام حسن و حسین (ع) اپنے نانا سے کہنے لگے نانا جان ہم بھوکے ہیں آئیں اور ماں زہرا -10سے کہیں کہ ہمیں کھانا دیں۔: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص مَا لِي أَرَى وَجْهَكِ أَصْفَرَ قَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ الْجُوعُ فَقَالَ ص اللَّهُمَّ مُشْبِعَ الْجَوْعَةِ وَ دَافِعَ الضَّيْعَةِ أَشْبِعْ فَاطِمَةَ بِنْتَ!پیامبر اسلام (ص)نے جب اپنی بیٹی کو دیکھا توفرمایا کیوں چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا ہے؟ عرض کیا: اے رسولخدا (ص) بھوک کی وجہ سے۔ اس وقت آپ (ص)نے فاطمہ(س) کے حق میں دعا کی ،خدایا ان کی بھوک اور پیاس کو رفع فرما۔عزیزو یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ علی (ع) کی آمدنی اتنی کم نہ تھی کہ گھر میں اتنی پریشانی اٹھانی پڑتی تھی، بلکہ یہ لوگ ہمیشہ مال دولت کو راہ خدا میں ایثارکرتے تھے۔چنانچہ مولا نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں:میں چاہتا ہوں کہ میں غریب ترین شخص کی طرح زندگی گزاروں۔
فاطمہ(س) اور خاندانی حقوق کا دفاعجہاں فاطمہ(س) اپنا سارا مال راہ خدا میں دیتی ہیں وہاں اپنا حق دوسروں سے لینے میں بھی کوتاہی نہیں کیں۔جب بعض اصحاب رسول نے فدک غصب کیا تو آپ نے خطبہ دیا ، جس میں دنیا کی تمام خواتیں کیلئے اپنے حقوق کا دفاع اور حفاظت کرنے کا درس موجود ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا تم نے یہ گمان کیا ہے کہ مجھے اپنے بابا کی وراثت نہیں ملے گی؟کیا دور جاہلیّت کا حکم دوبارہ جاری کرنے لگے ہو کہ اس دور میں خواتین کو کچھ نہیں ملتا تھا؟ کیا تم نہیں جانتے کہ میں رسولخدا (ص)کی بیٹی ہوں ؟ اے مسلمانو! یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مجھے اپنے بابا کی وراثت سے محروم کیا جائے؟! اے ابی قحافہ کے بیٹے! کیا اللہ کی کتاب میں لکھا ہے کہ تو اپنے باپ کا ارث لے اور میں اپنے باپ کا ارث نہ لوں؟! تو نے خدا پر بہت بڑی تہمت لگائی ہے اور ایک نئی چیز لے آئے ہو۔کیوں قرآن کے خلاف عمل کرتے ہو اور اسے پس پشت ڈالتے ہو؟!قرآن تو کہہ رہا ہے: وورث سلیمان داوداً (نمل ١٦) سلیمان داودکے وارث بنے۔اور زکریا A نے فرمایا: يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّرَضِيًّا -11 پروردگارا! مجھے اپنی طرفسے بیٹا عطا کر جو میرا اور آل یعقوب کا وارث بنے۔ وَالَّذِينَ آمَنُواْ مِن بَعْدُ وَهَاجَرُواْ وَجَاهَدُواْ مَعَكُمْ فَأُوْلَئِكَ مِنكُمْ وَأُوْلُواْ الأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ-12 اور جو لوگ بعد میں ایمان لے آئے اور ہجرت کی اور آپ کے ساتھ جہاد کیا وہ بھی تمھیں میں سے ہیں اور قرابت دا ر کتاب خدا میں سب آپس میں ایک دوسرےسے زیادہ اوّلیت اور قربت رکھتے ہیں بیشک اللہ ہر شے کا بہترین جاننے والا ہے۔اورجو لوگ بعد میں ایمان لے آئے اللہ کی کتاب میں خونی رشتہ دارایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔ يُوصِيكُمُ اللّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاء فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلأُمِّهِ السُّدُسُ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَآؤُكُمْ وَأَبناؤُكُمْ لاَ تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعاً فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيما حَكِيمًا. 13اللہ تمہاری اولادکے بارے میں تمہیں ہدایت فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔اب اگر لڑکیاں دو سے زیادہ ہیں تو انہین تمام ترکہ کا دو تہائی حصہ ملے گا اور اگر ایک ہی ہے تو اسے آدھا اور مرنے والے کے ماں باپ میں سے ہر ایک کیلئے چھٹا حصہ ہے۔ ان وصیتوں کے بعد جو کہ مرنے والے نے کی ہیں یا ان قرضوں کے بعد جو اس کے ذمہ ہیں ، یہ تمھارے ہی ماں باپ اور اولاد ہیں مگرتمھیں نہیں معلوم کہ تمھارے حق میں زیادہ منفعت رساں کون ہے ۔ یہ اللہکی طرف سے فریضہ ہے اور اللہ صاحب علم بھی ہے اور صاحب حکمت بھی۔كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالأقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ -14اگر موت کے وقت کچھ مال چھوڑ ے جارہے ہوتو اسے چاہئے کہ والدین اور رشتہ داروں کیلئے مناسب طور پر وصیت کرے۔متقی لوگوں پر یہ ایک حق ہے ۔اور تم یہ گمان کرتے ہو کہ مجھے میرے بابا کا کوئی ارث نہیں ملے گا اور میرے بابا کیساتھ میرا کوئی تعلّق نہیں ؟ کیاخدا نے تجھ پر کوئی خاص آیة نازل کی ہے جسے میرے بابا اور میرے شوہر نہیں جانتے؟!کیا تم ان سے زیادہ قرآن کے خاص وعام سے واقف تر ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو تم غارت گر ہو، یہ اونٹ اور تم، لے جاؤ اپنے ساتھ ، میں خدا وند حکیم کی بارگاہ میں قیامت کے دن ملاقات کروں گی۔وہ دن کتنا اچھا وعدہ گاہ ہے اور محمد7کتنے عظیم عدالت خواہ ہیں۔اس دن باطل راستے پر چلنے والے نقصان ، پریشانیاں اور ندامت اٹھائیں گے،ہر وعدہ کیلئے ایک وعدہ گاہ ہے اور ہر اچھائی کیلئے اپنی جگہ معیّن ہے اور بہت جلد تم جان لوگے کہ ذلّت آمیز عذاب کسکے اوپر نازل ہوگا،جو ہمیشہ کیلئے عذاب سرا ہوگا۔
کلام فاطمہ(س) میں خاندانی رفتارآپ فرماتی ہیں: خیارکم ألینکم مناکبہ واکرمھم لنسائھم-15یعنی تم میں بہترین شخص وہ ہے جو لوگوں کیساتھ سب سے زیادہ نرم مزاج اور خوش خلق ہو، اور سب سے زیادہ ارزشمند وہ لوگ ہیں جو اپنی شریک حیات پر زیادہمہربان اور بخشنے والا ہو۔
بیوی کیساتھ اچھا برتاؤقَالَ النَّبِيُّ ص: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَلْقَى اللَّهَ طَاهِراً مُطَهَّراً فَلْيَلْقَهُ بِزَوْجَةٍ وَ مَنْ تَرَكَ التَّزْوِيجَ مَخَافَةَ الْعَيْلَةِ فَقَدْ أَسَاءَ الظَّنَّ بِاللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ -16رسول اسلام (ص)نے فرمایا: جو بھی تنگ دستی کے خوف سے بیوی کی سرپرستی چھوڑدے تو حقیقت میں وہ خدا تعالی پر بدظن اور بد گمان ہوا۔ واضح ہے کہ بیوی جیسی نعمت کا ہونا انسانی زندگی میں انحرافات سے دوری اور طہارت معنوی ایجاد کرتا ہے۔ وہ شخص جو مرنے کے بعد ابدی سعادت اور حیات جاودانی کا خواہان ہے تو جان لے کہ ایک اچھی اور پاک دامن بیوی اسے یہ مقام دلاسکتی ہے۔
————5 ۔ آثارالصادقین،ج١٦،ص٤١٩۔6 ۔ سفینة،ج٢،ص١٩٥، الکافی ج۸،ص ۱۶۵۔7 ۔ سورہ ضحی ۵۔8 ۔ جلاء العیون،ج١ ،ص١٣٧۔9 ۔ الکافی،ج۵، ص۵۲۸۔10 ۔ مریم ٦ ۔11 ۔ انفال٧٥۔12 ۔ نسآء ١١۔13 ۔ بقرہ١٨٠۔14 . ملکہ اسلام فاطمہ،چ٢،ص٣٦ ۔15 ۔ فاطمہ نور الہی،چ١،ص١٥٣، دلائل الامامہ،ص۱۔16 ۔ من لایحضرہ الفقیہ،ج٣،ص ۳۸۵۔