عقلانی قوت کی تربیت
عقلانی قوت کی تربیت(اقدار اور موعظہ کی دعوت)گذشتہ روش کے برعکس کہ عام طور پر انسان کے عاطفی پہلو پر تاکیدکرتی ہے، اس روش میں بنیادی تاکید انسان کے شناختی، معرفتی اور ادراکی پہلو پر ہے، جس طرح عاطفی محرّک رفتار کے اصول ومبادی میںشمار ہوتا ہے، فائدہ کا تصور وتصدیق بھی شناخت کیاصول ںومبادی میں سے ہے کہ یہ روش اس کی ضرورت پوری کرنے کی ذمہ دار ہے۔قرآن کریم اور معصومین علیہم السلام کے ارشادات وتعلیمات اس روش اور طریقے پرتاکید کرتے ہیں، اور اس کے حدود، موانع اور مقتضیات کو بیان کرتے ہیں۔قرآن نے تعقل، تفقہ، تدبر، لبّ، حجر، نہیٰ، حکمت، علم وفہم جیسے الفاظ کا استعمال (ان ظریف تفاوت کے لحاظ سے بھی جو ان کے درمیان پائے جاتے ہیں) کا اس روش سے استفادہ کے لئے کیا ہے۔ قرآنی آیات مندرجہ باتوں کے ذریعہ اپنے مخاطبین کی معرفت اور عقثلانی قوت کی پرورش کرتی ہے:استفہام تقریری یا تاکیدی کے ذریعہ سے (١) گذشتہ افراد یا اکثریت کی اندھی تقلیداورپیروی کرنے کی ممانعت ہے، (٢) ان لوگوں کی مذمت جوتعقل نہیں رکھتے، (٣) ان لوگوں کی مذمت جوبغیر دلیل کے کسی چیز کو قبول کرلیتے ہیں، (٤) تعقل وتدبرکی دعوت، (٥) موازنہ اور تنظیر، (٦) احسن انتخاب پرترغیب وبشارت (٧) وغیرہ۔…………………………………١۔ سورہ ٔبقرہ، آیت٤٤۔سورہ ٔقیامت، آیت٢۔٢۔ سورہ ٔزخرف، آیت٢٢۔٢٣۔٢٤ اور سورہ ٔانعام، آیت١١٦۔٣۔ سورہ ٔانفال، آیت٢٢۔٤۔ سورہ ٔانعام، آیت١١٦۔ سورہ ٔزخرف، آیت٢٠۔٥۔ سورہ ٔیوسف، آیت ١٠٥۔٦۔ سورہ ٔزمر، آیت٩، سورہ ٔرعد، آیت ١٦ اور سورہ ٔنحل، آیت٧٦۔٧۔ سورہ ٔزمر، آیت ١٨۔روایات بالخصوص اصول کافی کی کتاب عقل وجہل اور دیگرروائی ماخذمیں بھی عقل وتعقل کو عظیم مرتبہ کا حامل قرار دیا گیاہے اورانسان کے اخلاقی تربیت سے متعلق خاص طورپر اس کے نقش وکردارکو موردتوجہ قراردیا گیا ہے۔ (١)علمائے اخلاق کی تربیتی روش میں بھی ان کی اصلاحی تدبیروں راہنمائیوں کا ایک قابل توجہ حصہ انسان کی شناختی پہلوسے متعلق ہے ،جیسے انسان کے ذہنی تصورات کی ایجاد یا تصحیح خود عمل یا اخلاقی صفت سے، اعمال کے دنیوی اور اخروی عواقب و نتائج کی ترسیم، اخلاقی امور کے بُرے یا اچھے لوازم اور ملزومات ان کے اخلاقی نظریہ میں بھی، غضب اور شہوت کی قوتوں پر عقلانی قوت کے غلبہ کواخلاقی رذائل سے انسان کی نجات اور اخلاقی فضائل کی طرف حرکت کا سبب ہے، اس لئے کہ قوۂ عقل کے غلبہ سے تمام قوتوں کے درمیان اعتدال پیدا ہوتا ہے اور فضیلت کا معیار بھی اعتدال۔ تفکر وتعقل کے وہ موارد جو اخلاقی تربیت میںموثر ہوسکتے ہیں، آیات وروایات میں ان کا تعارف کرایاگیا ہے:
١۔ طبیعت:’زمین وآسمان میں کتنی زیادہ علامتیں اور نشانیاں ہیں کہ جن پر سے لوگ گذرتے ہیںاس حال میں کہ اُن سے روگرداں ہوتے ہیں’۔(٢)
٢۔تاریخ:حضرت علی ـ فرماتے ہیں:’حضرت اسماعیل کے فرزندوں، اسحاق کے فرزندوںاور یعقوب کے فرزندوں سے عبرت حاصل کرو، کس قدر ملتوں کے حالات آپس میں مشابہ اور ان کے افعال وصفات ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ اُن کے پراگندہ اور متفرق ہونے کے بارے میں غور کرو، جس وقت روم وفارس کے بادشاہ اُن کے ارباب بن گئے تھے (٣) … میرے بیٹے! یہ سچ ہے کہ میں نے اپنے گذشتہ افراد کی عمر کے برابر زندگی نہیں پائی ہے، لیکن اُن کے کردار میں غور وفکر کیا ہے، ان کے اخبار کے بارے میں تفکر کیا ہے اور ان کے آثار میں سیر وسیاحت کی ہے کہ ان میں سے ایک کے مانند ہوگیا، بلکہ گویا جو کچھ ان کی تاریخ سے مجھ تک پہنچا ہے ان سب کے ساتھ میں اول سے آخر تک ہمراہ تھا’۔(٤)…………………………………١۔ اصول کافی، ج١، باب جنود عقل وجنود جہل۔٢۔ سورہ ٔیوسف، آیت١٠٥۔٣۔ نہج البلاغہ، خطبہ قاصعہ، ١٩٢۔٤۔ نہج البلاغہ، مکتوب ٣١۔
٣۔قرآن:’آیا قرآنی آیات میں غور وفکر نہیں کرتے؟ یا (یہ کہ) ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں’۔ (١)
٤۔انسان:حضرت امام حسین ـ کی دعائے عرفہ کے پہلے فقرات سے اور توحید مفضل(بحار، ج٣) سے مفید اور کار آمد نکات معلوم ہوتے ہیں:اخلاقی قواعد کا اثبات اور تزکیہ باطن عام طور پر بغیر عقلانی قوت کی تربیت کے ممکن نہیں ہے، یہ روش خود سازی اور دوسروں کی تربیت سے وجود میں آسکتی ہے شناخت و معرفت کے ماہرین نفسیات بالخصوص ‘پیاژہ’ اس روش کی بہت زیادہ تاکید کرتا ہے وہ اخلاقی نمونوں تک رسائی کو ‘قابل تعمیر’ اور فعّال وخود سازی روش جانتا ہے نیز معتقد ہے کہ اخلاقی تحول وانقلاب شناخت کے رشد وتحول کے بغیرممکن نہیں ہے:یہاں پر ایک قسم کی عجیب وحیرت انگیز ہماہنگی، اخلاقی وعقلانی تربیت میں پائی جاتی ہے جسے یوں ذکر کیاجاتا ہے کہ آیا جو کچھ تربیت خارج سے انسان کو دیتی ہے تاکہ اس کے اکتسابی یا فردی ادراک کو بے نیازاور مکمل کرے، سادہ قواعد اور حاضر آمادہ معراف میں محدود منحصر ہوسکتا ہے ؟ ایسی صورت میں آیا مراد یہ نہیں ہے کہ (صرف) کچھ تکالیف ایک طرح کی اور حس اطاعت انسان پر لازم کی جائے… یایہ کہ اخلاقی تربیت سے استفادہ کا حق عقلی تربیت حق کے مانند یہ ہے کہ انسان حق رکھتا ہو کہ عقل واخلاق کو اپنے اندر واقعاً جگہ دے یا کم ازکم ان کے فراہم کرنے اور ان کی تعمیر میں شریک اور سہیم ہو، تاکہ اس مشارکت کے نتیجہ میں وہ تمام افراد جو ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ہیں، ان کی تعمیر پر مجبور ہوجائیں۔ لہٰذا اخلاقی تربیت کی راہ میں، ‘خود رہبری’ کا مسئلہ عقلی خود سازی کے مقابلہ میں ان افراد کے درمیان جو اس کی تلاش میں ہیں ذکرکیا جاتا ہے۔(٢)جو طریقے اس روش کے تحقق میں استعمال کئے جاسکتے ہیں درج ذیل ہیں:
الف ۔افکار کی عطا اور اصلاح:اخلاقی اعمال فکر کی دوقسموں سے وجود میں آتے ہیں:پہلی قسم :انسان کا اپنی ھستی کے بارے میں آگاہ ہونا، دنیا، نظام عالم، مبدأ اور معادکی نسبت وہ کلی یقین ومعتقدات ہیں کہ انھیں خداشناسی اور فلسفہ حیات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ واضح ہے کہ انسان کی نگاہ اپنے اطراف کے عالم پر اُس کی اخلاقی رفتار میںموثر ہے۔ اعتقادات جیسے خدا کی قدرت کااحاطہ اور حضور عالم کا توحیدی انسجام یا نظام تقدیر، خدا پر توکل، تمام امور کا اس کے حوالہ کرنا، تسلیم ورضا وغیرہ سارے کے سارے ہمارے اخلاقی رفتار میں ظاہر ہوتے ہیں۔…………………………………١۔ (اَفَلَا یَتَدَبَّرُونَ الْقُرآنَ اَمْ عَلیٰ قُلُوبٍ اَقْفَالُہَا۔)(سورہ ٔمحمد، آیت٢٤)٢۔ پیاژہ: تربیت رہ بہ کجا می سپرد، ص٥٣۔آج کل سلامتی کے ماہرین نفسیات اس نکتہ کی طرف توجہ رکھتے ہیں کہ خدا شناسی اور انسجام عالم کی حس کی نسبت، انسان کی مقاومت کے لئے ایک ایسا مرکز فراہم کرتی ہے کہ جو اخلاقی متانت کہ انسان کی سلامتی کے لئے عالم کو دبائو میں ڈالنے والے حوادث کے مقابل تاثیر گذار ہے۔انسجام کی حس ایک مقابلہ کا مأخذ ہے، حس انسجام (دنیا کے نظم وضبط میں تنظیم ویگانگی کا احساس کرنا) ایک قسم کی خداشناسی ہے کہ جس سے مراد مندرجہ امور کی نسبت دائمی اور مستمرّ اطمینان کے احساس ہے:١۔ ایسے محرک جو انسان کی پوری زندگی میں باطنی اور بیرونی ماحول سے پیدا ہوتے ہیں، تشکیل شدہ منظم، پیشین گوئی کے قابل اور قابل توجیہ ہیں۔٢۔انسان ان ضرورتوں سے روبرو ہونے کے لئے کہ جن کو ان محرکات نے ایجاد کیا ہے، کچھ وسائل ماخذ رکھتا ہے؟٣۔یہ ضرورتیں، ایسی کوششیں ہیں جو سرمایہ گذاری اور وقت صرف کے لائق ہیں۔ یہ لوگ دنیا کو قابل درک اور قابو میں کرنے کے لائق جانتے ہیں اور زندگی کے واقعات وحوادث کو بامعنی محسوس کرتے ہیں۔(١)
دوسری قسم :ایسے افکار ہیں کہ جو عمل کی اصلاح اورصحت سے متعلق ہیں اور یہ کہ یہ خاص رفتار عمل کرنے والے کے ہدف سے یگانگت رکھتی ہے۔اور حقیقت میں اطلاعات دینے کے ایک طریقہ سے مربوط ہے۔البرٹ الیس شناخت سے متعلق ماہرنفسیات ہے کہ جو اپنی نجاتی روش کے سلسلہ میں عقلی اور عاطفی علاج سے استفادہ کرتا ہے اُس نے غیر عقلی تفکر کے نمونے پیش کرنے کے شاتھ اُس کا علاج جدید آمادگی اور جدید افکار ومعتقدات کو اُن کا جاگزین کیا جانا ہے کبھی غیر اخلاقی رفتار یانامطلوب صفات غلط نظریہ اور خیال کا نتیجہ ہوتے ہیں کہ جو دھیرے دھیرے انسان کے فکری نمونے بن جاتے ہیں اورایسے نظریوں کا تبدیل ہونا اخلاقی تربیت کے لئے ضروری ہے، غیر عقلی (غیر معقول) تفکر کے بعض نمونے ہر طرح کی اخلاقی رفتار کی تبدیلی سے مانع ہوسکتے ہیں، الیس ان موارد کو اس طرح بیان کرتا ہے:١۔انسان اس طرح فرض کرے کہ اُن افراد کی جانب سے جو اس سے متعلق اور اُس کے لئے اہم ہیں مورد تائید، اور لائق محبت و احترام واقع ہو۔…………………………………١۔ Psyhology Health/.p327٢۔جب بھی انسان سے کوئی لغزش ہوجائے تو اس کے لئے صرف اتنا اہم ہے کہ وہ مقصّر کا سراغ لگائے اور اسے سزا دے۔٣۔اگر مسائل اس کی مراد کے مطابق نہ ہوں تو اُس کے لئے حادثہ آمیز چیز ہوگی۔٤۔سب سے زیادہ آسان یہ ہے کہ انسان مشکلات اور ذمہ داریوں سے فرار کرے، نہ کہ اُن کا سامنا کرے۔
ب۔ ا خلاقی استدلال:پیاژہ اور کلبرگ نے اس روش سے استفادہ کیا ہے اس طرح سے کہ داستانوں کو بچوں کے شناختی تحوّل وانقلاب کی میزان کے مطابق اس طرح بیان کرتے تھے کہ ان کے ضمن میں داستان کا ہیرو اخلاقی دوراہہ پر کھڑا ہے اوریہاں پر داستان کے مخاطب کو چاہئے کہ جو استدلات وہ بیان کرتا ہے ان سے اپنی اخلاقی قضاوت کااستخراج کرے مربی جزئی دخالتوں سے اس اخلاقی بحران کی بحث چھیڑے ( البتہ ان سے آگے قدم نہ بڑھائے یا کوئی استدلال پیش نہ کرے) اور صرف بالواسطہ ہدایت کرے اور ان کے استدلات کو صاف وشفاف کرے۔ یہ استدلات تربیت پانے والے کے ذہن میں نقش چھوڑتے ہیں اور اُسے انجانے طریقہ سے اس کی اخلاقی رفتار میں ہدایت کرتے ہیں۔اخلاقی استدلال بلاواسطہ اورخود عمل پر بھی ناظر ہوسکتے ہیں؛ یعنی انسان کا روبرو ہونا اپنے اعمال کے نتائج کے ساتھ۔ علمائے اخلاق کی روش میں بھی اس طرح کے اقدامات پائے جاتے ہیں: عمل کے نتائج و آثار روش سے واضح انداز میں انسان کے لئے مجسّم ہوتے ہیں اور مخاطب کو یقین حاصل ہوتا ہے کہ یہ عمل اس طرح کے نتائج وآثار کا حامل ہے، درحقیقت ہم اس کے لئے موقعیت کی توصیف کرتے ہیں ( بغیر اس کے کہ اُس میں امرو نہی درکار ہو) اوریہ خود انسان ہے کہ جو ان نتائج کو درک کرکے انتخاب کرتا ہے اور اس کے عمل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے قرآنی آیات کبھی عمل کے ملکوتی کو مجسّم کرکے اس روش اور اسلوب سے استفادہ کرتی ہیں:’اے صاحبان ایمان !… تم میں سے بعض بعض کی غیبت نہ کرے آیا تم میں سے کوئی چاہتاہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ یقیناً اُسے ناپسند کروگے (لہٰذا) بے شک خدا سے ڈرو کہ خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے’۔(١)…………………………………١۔ سورہ ٔحجرات، آیت ١٢۔کبھی اعمال کے دنیوی یا اخروی نتائج کی منظر کشی کرکے افراد کو ان کے عواقب سے آشنا کرتا ہے:’ایک دوسرے سے مجرموں کے بارے میں سوال کریں گے : ‘کس چیز نے تمہیں سقر (کی آگ) میں جھونک دیا ہے؟ ‘ وہ کہیں گے : ‘ہم نمازگذاروں میں سے نہیں تھے، اور مسکینوں اور بے نوائوں کو ہم کھانا نہیں دیتے تھے…'(١)
ج۔ مطالعہ اور اطلاعات کی تصحیح:مطالعہ لغت میںان معانی میں استعمال ہوتا ہے: کسی چیز کے معلوم کرنے کے لئے اُس کو دیکھنا ، کسی کتاب یا کسی نوشتہ کا پڑھنا اور اس کا سمجھنا…….۔آخری سالوں میں اطلاعات فراہم کرنے والوں کے اقدام نے بہت سے ماہرین نفسیات کی توجہ اپنی طرف جلب کرلی ہے(٢) کیونکہ جو اطلاعات انسان کے ذہنی سسٹم میں وارد ہوتی ہیں، وہ انسانی رفتار کو جہت دینے میں ایک اہم اور قابل تعیین کردار ادا کرتی ہیں۔ البتہ اطلاع کی فراہمی کا اندازبھی اہم ہوتا ہے کہ افکار کی عطا کی بحث میں ان کی طرف اشارہ ہواہے۔ بِک ]Beck[منجملہ ان کے ماہریں نفسیات میں سے ہے کہ جو اسی طریقۂ عمل سے افسردگی کی بیماریوں کا علاج کرتا ہے۔ اخلاقی بیماریوں کا علاج کرنے یا کلی طور پر صحیح اخلاقی تربیت یا فضائل اخلاقی کی ر اہ پیدا کرنے میں اسی طرز واسلوب سے مدد لے سکتے ہیں، یعنی اخلاقی مشکلات کے سلسلہ میں علم اخلاق کی مناسب کتابوں کا مطالعہ اور جدید اطلاعات کے حصول سے انسان اپنے عمل کے اسباب وعوامل کو پہچان لیتا ہے اور اس میں تبدیلی یااصلاح انجام دیتا ہے اور بالواسطہ طور پر اخلاقی تربیت کا باعث ہوتاہے۔ کبھی اس کی سابق اطلاعات سے متعارض اطلاعات اُسے غور وفکر اور فیصلہ کرنے نیز تجدید نظر کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔
د ۔مشورت ومشاورہ:اس سے مراد مربی اور تربیت دیئے جانے والے یاوالدین اور فرزندوں کے درمیان ایک طرح کا معاملاتی رابطہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی مدد اور حمایت سے مسئلہ کا تجزیہ وتحلیل کریں اور اخلاقی مسائل میں ایک مشترک راہ حل تک رسائی حاصل کریں۔ یہ طرز تربیت پانے والی شخصیت کے احترام واکرام…………………………………١۔ سورہ ٔمدثر، آیت ٤٠تا ٤٤۔٢۔ روان شناسی رشد بانگرش بہ منابع اسلامی، ج٢، ص٦٢٦۔کے علاوہ اخلاقی تربیت کے اعتبار سے رشد عقلی کا باعث ہوتا ہے:’مَنْ شَاوَرَ ذَوِی الْعُقُوْل اسْتَضَاء بانوار العقول ‘(١)’جو انسان صاحبان عقل وہوش سے مشورہ کرے، وہ ان کے نور عقل وخرد سے استفادہ کرتا ہے’۔اسلامی روایات، مشورہ کو رشد وہدایت کا ذریعہ سمجھتی ہیں اور شایستہ افراد سے مشورہ کرنے کی زیادہ سے زیادہ تاکید کرتی ہیں:’دوسروں سے مشورہ کرنا ہدایت کا چشمہ ہے اور جوکوئی خود کو دوسروں کے مشورہ سے بے نیاز تصور کرے تو اُس نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال دیا ہے’۔(٢)
اس روش میں تربیت پانے والے کا مقصد عقلانی توانائی کا حصول اور اخلاقی مسائل میں فیصلہ کرنا ہے، یعنی مشورت کے ذریعہ اسے آمادہ کریں کہ ‘خود رہبری’ اور ‘فعّال’ کی روش کو ہدایت کے ساکنین کو اخلاقی تربیت کی راہ میں لے آئے اور اپنی اخلاقی مشکل کو حل کرسکے، مشورہ میں پہلا قدم مراجع (تربیت دیا جانے والا) نہیں اٹھاتا؛ بلکہ مربی کو اس سے نزدیک ہونا چاہئے اور رابطہ ایجاد کرکے یا کبھی مسائل میں اُس سے راہ حل طلب کرکے، اُسے اپنے آپ سے مشورت سے کرنے کی تشویق کرنی چاہئے۔(٣)…………………………………١۔ غرر الحکم ودرر الکلمج٥ص٣٣٦ش ٨٦٣٤۔٢۔ الاستشارة عین الہدایة وقد خاطر من استغنی برایہ نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج١٩ص٣١۔٣۔ اسلامی تعلیمات مختلف جہات سے مشورت کے مسئلہ پر تاکید کرتی ہیں؛ مزید معلومات کے لئے سید مہدی حسینی کی کتاب ‘مشاورہ وراہنمائی درتعلیم وتربیت ‘ ملاحظہ ہو۔