ھوی وھوس
١۔ہوی وہوس کے معنی٢۔اسکے خصائل اور صفات٣۔اسکا طریقہ ٔ علاجحدیث شریف کے پہلے فقرے کی وضاحت کے بعد اب ہم آپ کے سامنے اس حدیث کے دوسرے اور تیسرے جملے ‘جو شخص خداوند عالم کی مرضی پر اپنی خواہش اور ہوس کو مقدم کرتا ہے’ اور اسکے برخلاف ‘جو انسان مرضی خدا کو اپنی مرضی اوراپنی خوشی پرفوقیت اور ترجیح دیتا ہے ‘ کی وضاحت پیش کر رہے ہیں۔جو شخص اپنی ہوس کو خداوند عالم کی مرضی پر فوقیت دیتا ہے۔ اس (دوسرے)جملہ کی وضاحت متعلقہ حدیث قدسی میں کچھ اس طرح کی گئی ہے۔عن رسول اﷲ یقو ل اﷲ تعالیٰ :(وعزّتی وجلا لی،وعظمتی،وکبریائی،ونوری،وعلوّی،وارتفاع مکانی لایؤثرعبد ھواہ علیٰ ھوای لّا شتّت أمرہ،ولبّست علیہ دنیاہ،وشغلت قلبہ بھا،ولم اُوتہ منھا لاماقدّرت لہ)(١)…………..(ا)عدةالداعی ص٧٩۔اصول کافی ج٢ص٢٣٥۔ان دونوںسے علامہ مجلسی (رح)نے بحارالانوار ج٧٠ص٧٨حدیث١٤ اور ج٧٠ص٨٥نیزص٨٦پر اس حدیث کو نقل کیاہے۔اس سے پہلے بھی ہم نے کتاب کے مقدمہ میں اس حدیث کے بعض حوالے نقل کئے ہیں۔’میری عزت وجلالت ،عظمت وکبریائی ،نور ورفعت اور میرے مقام ومنزلت کی بلندی کی قسم ،کوئی بندہ بھی اپنی ہویٰ وہوس کو میری مرضی اور خواہش پر ترجیح نہیں دیگا مگر یہ کہ میں اسکے معاملات کودرہم برہم کردونگا اسکے لئے دنیا کو بنا سنوار دونگا اور اسکے دل کو اسی کا دلدادہ بنا دونگا اور اسکو صر ف اسی مقدار میں عطا کرونگاجتنا پہلے سے اسکے مقدر میں لکھ دیا ہے’حدیث قدسی کے اس فقرہ میں تین اہم نکات پائے جاتے ہیں:١۔جو لوگ اپنی خواہش کو مرضی خدا پر ترجیح دینگے انہیں خداوند عالم تین قسم کی سزائیں دیگا:الف۔ان کے معاملات مشتبہ اوردرہم برہم ہوجائیں گے۔ب۔ دنیاان کی نگاہ میں آراستہ ہوجائے گی۔ج۔ان کادل، دنیا کا دیوانہ ہوکر رہ جائے گا۔٢۔مذکورہ سزائوںکے تذکرہ سے پہلے اس حدیث شریف میں متعدد طرح کی عظیم قسمیں کھائی گئی ہیں(جیسے میری عزت،جلالت،عظمت،کبریائی، نوراور میرے مقام و منزلت کی رفعت کی قسم) جن سے اُس بات کی اہمیت کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جسکا تذکرہ ان کے بعد کیا گیا ہے۔٣۔حدیث شریف میں جس طرز کلام کا انتخاب کیا گیا ہے اس سے دائرہ کلام بالکل محصور اور محدودہوجاتا ہے کیونکہ پہلے جملہ یعنی (لایؤثرعبدھواہ۔۔۔الاشتت أمرہ) میں نفی اور دوسرے جملہ(الاشتت أمرہ) میں اثبات کا لہجہ موجود ہے لہٰذا اس حصر کے معنی یہ ہیں کہ جب کبھی بھی انسان اپنی ہوس کو خداوند عالم کی مرضی پر ترجیح دیگا تو وہ کسی بھی طرح خداوند عالم کی ان سزائوں سے نہیں بچ سکتا ہے اب آپ حدیث قدسی میں مذکور، ان تینوں سزائوں کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
١۔اسکے امور کو درہم برہم کردوںگاجو لوگ خوداپنی مرضی کے مطابق چلتے ہیں اور خداوند عالم کی مرضی کاکوئی خیال نہیں کرتے ہیں ان کو خداوند عالم سب سے پہلی سزا یہ دیتا ہے کہ ان کے معاملات درہم برہم کردیتا ہے اور ان کے ہر کام میں بے ثباتی ،تزلزل اور بے ترتیبی آجاتی ہے کیونکہ وہ ان سے طریقۂ کار، راہ وروش، مقصد اور وسیلہ کی یکسانیت اور یکسوئی کو سلب کرلیتا ہے۔جسکے نتیجہ میں وہ ہوا میں کٹی پتنگ یا کسی تنکے کی طرح ہر طر ف اڑتے رہتے ہیں اور ہوا کا ہر جھونکا انکو ایک نئی سمت کی طرف ڈھکیل دیتا ہے۔کیونکہ لوگ عام طور سے دو طرح کے ہوتے ہیں:١۔منظم اور ٹھوس شخصیت کے مالک۔٢۔بے نظم اوربے ترتیب
ٹھوس شخصیتٹھوس اور مستحکم شخصیت ایسی شخصیتوں کو کہا جاتا ہے جو کسی ایک حاکم کے ماتحت رہتی ہیں جب کہ متزلزل ،مضطرب اور بد حواس قسم کے افراد متعدد اسباب وعوامل کے آلۂ کار بنے رہتے ہیں۔چنانچہ پہلے طریقۂ کار کو توحیدی طریقہ اور دوسرے طریقہ کوشرک کا نتیجہ کہا جاتاہے کیونکہ جو شخص توحید الٰہی کا نمونہ ہوتا ہے۔وہ ہر اعتبار سے خداوند عالم کے ارادہ ،حکمت اور اسکے احکام کا تابع ہوتا ہے اور ہر لحاظ سے اسی کی مشیت اور مرضی کے سامنے سرتسلیم خم کئے رہتا ہے۔اسی طرح ہرخوشی اور مصیبت میں وہ حکم الٰہی کا پابند رہتا ہے اور خداوند عالم کی خو شنودی ہی اسکا اصل مقصد ہے اور اسکے علاوہ اسے کسی دوسری چیز کی خواہش نہیں ہوتی اور وہ ہرطرح سے اس کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کئے رہتا ہے اوراسکی نظر صرف اپنے اس پاک مقصد پر مرکوز رہتی ہے اور وہ اسکی طرف رواں دواں رہتا ہے ۔اور کیونکہ احکام الٰہی کا نظام صرف ایک ہی مرکز سے متصل ہے اور اس میں مکمل طور سے یکسانیت پائی جاتی ہے لہٰذا اس پر عمل کر نے کے بعد ہر انسان کی شخصیت مقدس ہو جا تی ہے اور اس میں یکسوئی پیدا ہو جا تی ہے یعنی کبھی مختلف قسم کی سیاسی یا سما جی ردو بدل اور اتھل پتھل کی وجہ سے جنگ اور لڑائی کی نوبت آجاتی ہے جسکی بناپرانہیں اسلحہ اٹھا نا پڑ تاہے ۔اور کبھی صورتحال یہ ہوجاتی ہے کہ اسلحہ کو زمین پر رکھنا پڑتا ہے مگرحالات کے اس پورے اتار چڑھائو کے باوجود انسان کی شخصیت کے اندر کسی طرح کا اختلاف یا ردو بدل پیدا نہیں ہوتی اور اسکی شخصیت کی یکسا نیت اور توحید کے سرچشمہ سے پیدا ہو نے والی ترتیب ویگانگت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اور اسی کو (توحید عملی ) کہا جاتا ہے جو توحید نظری کے مقابلہ میں بولی جاتی ہے کیونکہ یہ صورت حال دراصل انسان کی زندگی میں توحید نظری کے پر توکاہی نتیجہ ہے ۔توحید عملی کی اس منزل پر پہنچنے کے بعد انسان اپنے نفس کے اندر اور باہر موجودتمام حاکمو ں جیسے ہوی وہو س اور طاغوت وغیرہ کی ماتحتی سے خارج ہو جاتا ہے اور احکام الٰہی کے دائر ہ حکومت میں داخل ہوجاتا ہے اس طرح تنہا حکم الٰہی ہی اسکے ہر عمل کا حاکم ومختار ہوتا ہے اور اسکی رفتار وگفتار اور کردار وعمل میں ہر جگہ توحید ی رنگ نظر آتا ہے اور وہ پیغمبر ۖکی اس حدیث شریف کا مصداق بن جاتا ہے :(لایؤمن أحدکم حتیٰ یکون ھواہ تبعاً لما جئت بہ) (١)’تم میں سے کو ئی شخص بھی اس وقت تک مو من نہیں ہو سکتا جب تک اس کی ہر خو ا ہش اس دین کی تا بع نہ بن جا ئے جو میں لیکر آیا ہوں ‘جبکہ شر ک کی صورتحال اس کے برخلاف ہو تی ہے کیونکہ شرک آجا نے کے بعد انسان سوفیصد خدا وند عالم کے احکام کا پا بند نہیں رہتا بلکہ وہ خدا کے ساتھ ساتھ خوا ہش نفس اور طاغوت وغیرہ کی پیروی بھی شروع کر دیتا ہے اور جب انسان تو حید کے قلعہ کی چار دیواری سے با ہر نکل جاتا ہے توپھر ہوس اور طا غوت اس کے سر پر سوار ہو جا تے ہیں اس کی بنیا دوںکو ہلا کر رکھ دیتے ہیں اور گویااسے با لکل تباہ و بر باد کر ڈالتے ہیں اس با رے میں قرآنی تعبیرات ملاحظہ فر ما ئیے :(اﷲ ولی الذین آمنوا۔۔۔والذین کفرواأولیاؤھم الطاغوت)(٢)…………..(١)جا مع الکبیرطبری ۔(٢)سورئہ بقرہ آیت ٢٥٧۔’اﷲ صاحبان ایمان کا سرپرست ہے ۔۔۔اور جو لوگ کافر ہیں ان کے سرپرست طاغوت ہیں’جسکا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مومن ہیں ان کا صرف ایک ولی وسرپرست ہے ایک ذریعہ اور ایک ہی سرچشمہ ہے اور صرف اسی سے ان کو نسبت ہے لیکن مشرکین مختلف لیڈروں اور حاکموں کے آلہ کار اور تابع ہوتے ہیں انہیںجو ذریعہ اور وسیلہ بھی نظر آجاتا ہے وہ اسی کے پیچھے لگ لیتے ہیں اسی لئے ان کے واسطے جمع کا صیغہ استعمال کیاگیا ہے :(والذین کفروا أولیاؤھم الطاغوت)’اورجو لوگ کافر ہیں ان کے سرپرست طاغوت ہیں ‘(اس میں لفظ اولیاء جمع ہے )یہاں تک یہ بالکل واضح ہوگیا کہ جو شخص ،ٹھوس شخصیت کا مالک ہوتا ہے اس پر صرف شرعی قانون کی حکومت چلتی ہے اور وہ مرضی خدا کا پابند ہوتا ہے ایسے افراد کسی غوروفکر ،شرم وحیا اور خوف وہراس کے بغیر اپنی شرعی ذمہ داریوںپر عمل کرتے ہیں کیونکہ یہ خوف وہراس ،شرمندگی اور اضطرابی حالت انسان کی اندرونی کشمکش اور تذبذب کی دلیل ہے جو نفس کے اندرونی یا بیرونی اسباب کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے لہٰذا جب انسان کسی ایک طاقت کا پابنداور پیرو ہوتا ہے اور اسکی نظر ہمیشہ ایک ہی مرکز پر رہتی ہے تو اس پر ان چیزوں کا اثرنہیں پڑتا ہے ۔ایسے افراد کی پہچان یہ ہے کہ وہ ثقہ، قابل اطمینان، ثابت قدم ،ٹھوس رائے ،پاکیزہ نفس صاف وشفاف ضمیر کے مالک ،شجاع اورتنہائی یا چاہنے والوں اور مددگاروں کی قلت اور دشمنوں کی کثرت کے باوجود اپنے موقف پر اٹل رہتے ہیں ۔امیر المومنین نے فرمایا ہے :(لایزیدنی کثرة الناس عزّة،ولاتفرُّقھم عنی وحشة)(١)…………..(١)نہج البلاغہ مکتوب٣٦۔’لوگوں کی کثرت سے نہ میری عزت اوراستحکام میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ان کے متفرق ہوجانے سے مجھے کوئی وحشت ہوتی ہے ‘دوسرے یہ کہ ان لوگوں کے ان خصائل اور صفات پر وقتی سکون واطمینان ،زحمت ومشکلات رزم وبزم ،فتح ونصرت یا ناکامی اورشکست کا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اور وہ پرچم توحید کے سایہ میں سدا بہار رہتے ہیں ۔
عماربن یاسرخداوند عالم جناب عمار یاسر پر رحمتیں نازل فرمائے وہ ایک مثالی ،ٹھوس اور عظیم شخصیت کے مالک تھے ۔جنگ صفین میں آپ نے حضرت علی کی رکاب میں اس وقت معاویہ سے جنگ کی تھی جب آپ کی عمر ،نوے برس سے زیادہ تھی آپ نڈر،بہادر،ثابت قدم، جنگ کے شعلوں میں کودجانے والے اورامام کے ایسے جانثار ساتھی تھے جن کے دل میں حضرت علی کی حقانیت اور معاویہ کے ناحق اور باطل ہونے کے بارے میں ایک لمحہ کے لئے بھی شک پیدا نہیں ہوا۔یہی وجہ ہے کہ صفین کی جنگ کے دوران ہی حضرت علی کے سامنے آپ نے پروردگار عالم سے یہ دعا کی:(اللّٰھم انکتعلم أنی لوأعلم أن رضاک فی أن اقذف بنفسی فی ھذاالبحرلفعلت،اللّٰھم انک تعلم أنی لوأعلم انّ رضاک أن أضع ضُبّةسیفی فی بطنی ثم أنحنی علیھا حتیٰ یخرج من ظھری لفعلت،اللّٰھم وانی أعلم مماعلّمتنی أنی لاأعمل الیوم عملاًھو أرضیلک من جھاد ھؤلاء الفاسقین،ولوأعلم الیوم عملاً أرضیٰلک منہ لفعلت)(١)…………..(١)صفین:نصربن مزاحم ٣١٩۔٣٢٠تحقیق ڈاکٹر عبدالسلام ہارون۔’بارالٰہاتوجانتاہے کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ اس سمندر میں کودجانے میں تیری خوشنودی ہے تو میں یقینا کودجائوں گا۔بارالٰہا تو جانتا ہے کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ تیری خوشی اس میں ہے کہ میں اپنی تلوار اپنے پیٹ پر رکھکر اس کے اوپر اتنا جھک جائوں کہ وہ میری کمر کے پار نکل جائے تو میں یہ کرنے کے لئے تیار ہوں ۔۔۔بارالٰہا تونے مجھے جو علم دیا ہے اسکی بنا پر مجھے معلوم ہے کہ آج تجھے ان فاسقین سے جہاد کرنے سے زیادہ میرا کوئی عمل پسند نہیں ہے (لہٰذا میں ان سے جہاد کررہا ہوں)اور اگر مجھے اس سے زیادہ تیراپسندیدہ عمل معلوم ہوجائے تو میں اسکو ضرورانجام دونگا’اسماء بن حکم فزاری کا بیان ہے کہ ہم صفین کے میدان میں حضرت علی کے لشکر میں جنابعمار یاسر کی سپہ سالاری میں دو پہر کے وقت سرخ چادر کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے ۔اس وقت ایک شخص(جو سب کے چہرے غورسے دیکھ رہاتھا)آیا اور اس نے کہا کیا تمہارے درمیان عمار یاسر ہیں ؟جناب عمار نے کہا :میں عمار ہوں ۔اس نے کہا! ابوالیقظان؟جواب دیا :جی ہاں۔پھر اس نے کہا :کہ مجھے آپ سے کچھ کام ہے ،فرمائیے یہیں سب کے سامنے عرض کروں یا تنہائی میں،جناب عمار بولے جو تم چاہو۔اس نے کہا ٹھیک ہے سب کے سامنے ہی عرض کئے دیتا ہوںجناب عمار نے کہا بتائو کیا کام ہے ؟کہا! میں جب اپنے گھر سے نکلا تھا تو مجھے اپنی حقانیت اور اس قوم(لشکر معاویہ)کی گمراہی کے بارے میں کوئی شک و شبہہ نہیں تھااور مسلسل میری یہی کیفیت تھی مگر آج رات عجیب اتفاق ہوا کہ جب صبح ہوئی تو ہمارے مؤذن نے( اشہد أن لاالٰہَ الااﷲ وأن محمداًرسول اﷲ)کی صدا بلند کی اور ان کے موذن نے بھی اسی طرح اذان دی جب نماز شروع ہوئی تو ہم سب نے ایک ہی طرح نماز پڑھی ایک ہی طرح دعا کی،ایک ہی کتاب (قرآن مجید )کی تلاوت کی اور ہمارے رسول ۖ بھی ایک ہیں، یہیں سے میرے دل میں کچھ شک پیدا ہوا ۔چنانچہ خداہی بہتر جانتا ہے کہ میں نے بقیہ وقت کیسے گذارا ہے، صبح ہوئی تو میں امیر المومنین کے پاس گیا اور ان کی خدمت میں پورا ماجرا بیان کردیا تو انھوں نے فرمایا :کیا تم عمار بن یاسر سے ملے ہو؟میں نے عرض کی نہیں، فرمایا جائو ان سے ملاقات کرو اور جو کچھ وہ کہیں اس پر عمل کرنا ۔لہٰذا اسی کام کے لئے میں آپ کی خدمت حاضر ہوا ہوں تو جناب عمار یاسر(رح) نے اس سے کہا: کیا تم ہمارے مقابلہ میں موجود اس سیاہ پرچم والے لشکر کے سپہ سالار کوجانتے ہو؟وہ عمروبن عاص ہے، رسول اﷲ ۖکے ساتھ رہ کر میں نے اس سے تین بارجنگ کی ہے اور آج اس سے یہ میری چوتھی جنگ ہے ۔اور یہ جنگ ان جنگوں سے کچھ بہتر نہیں ہے بلکہ بدتر ہی ہے بلکہ اس کا شروفساد ان سب سے زیادہ ہے ،کیا تم بدر واحد اور حنین میں تھے یا تمہارے والد ان میں موجود تھے کہ انھوں نے تم سے ان جنگوں کے کچھ حالات بتائے ہوں؟اس نے کہا نہیں آپ نے کہا کے بدرواحد وحنین کے دن ہم سب رسول اﷲکے پرچم تلے جمع تھے اور وہ لوگ، مشرکین کے جھنڈے کے نیچے اکٹھا تھے۔کیا تم اس لشکر اوراہل لشکرکو دیکھ رہے؟خدا کی قسم ! معاویہ کے ساتھ یہ جتنے لوگ حضرت علی کے مقابلہ میںہم سے لڑنے آئے ہیں ۔ یہ سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں اور میرادل تویہ چاہتا ہے کہ ان سب کو ایک ساتھ ٹکڑے ٹکڑے کرڈالوں۔خدا کی قسم ان سب کا خون ایک چڑیا کے خون سے زیادہ حلال ہے ۔کیا تم چڑیا کا خون بہانا حرام سمجھتے ہو؟اس نے کہا :نہیں بلکہ حلال ہے تو جناب عمار نے کہا بس سمجھ لو کہ ان کا خون بھی اسی طرح حلال ہے ۔کیا میری بات تمہارے لئے واضح ہوگئی؟اس نے کہا :جی ہاں آپ نے درست وضاحت فرمائی جناب عمار نے کہا: لہٰذا اب جسے چاہومنتخب کرسکتے ہوپھرجب وہ شخص واپس چلنے لگا تو جناب عمار نے اسے واپس بلایا اور اس سے یہ کہا کہ ان لوگوں نے ہم پر اپنی تلوارکا وارکیا تو تم میں سے بعض افراد شک وشبہ کا شکار ہوگئے اور یہ کہنے لگے کہ اگر یہ لوگ حق پر نہ ہوتے تو ہمارے خلاف جنگ کے لئے نہ نکلتے ،خدا کی قسم ان کے پاس مکھی کے ایک آنسوکے برابر بھی حق موجود نہیں ہے ۔ اﷲ کی قسم اگر وہ ہم پر اپنی تلوار وں سے حملہ کریں یہاں تک کہ وہ ہمیںسعفات ہجر (ایک مقام کانام)تک پہونچادیںتب بھی مجھے یہی معلوم ہوگا کہ میں حق پر ہوں اور وہ باطل پر ہیں اور خدا کی قسم اس وقت تک امن وامان قائم نہیں ہوسکتا ہے جب تک فریقین میں سے کوئی ایک فریق اپنے حق ہونے کا منکر نہ ہواور وہ یہ گواہی نہ دے کہ اسکا مخالف فریق بر حق ہے ا ور ان کے مقتولین اور مردے جنّتی ہیں اور دنیا کے دن اس وقت تک پورے نہیں ہوسکتے جب تک وہ یہ اقرار نہ کرلیں کہ ان کے مردے اور مقتولین جہنمی اور زندہ رہنے والے اہل باطل ہیں۔(١)
کھوکھلااوربے ہنگم انسان(شخصیت )کھوکھلے اور بے ہنگم لوگوں کے نفس میں اندرونی کشمکش اور بیقراری کا آغاز سب سے پہلے عقل اور خواہشوں کی خانہ جنگی سے ہوتا ہے کیونکہ خواہشیں انسان کے نفس کو اسکی عقل کی ماتحتی اور کنٹرول سے باہر نکالنے کی در پے رہتی ہیں جس سے آدمی کا نفس دو متصادم دھڑوں میں تقسیم ہوجاتا ہے ۔اس داخلی جنگ کے نتیجہ میں انسان کی مشکلات اور زحمتیں بہت زیادہ ہوجاتی ہیں کیونکہ انسان کے اوپراسکے ضمیر، فطرت اور عقل کی حکومت بہت مستحکم ہوتی ہے اور یہ اسباب اسکے اندر ہوس کے نفوذ(داخلے)کاسختی سے مقابلہ کرتے ہیں اور انکی مسلسل یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ انسان کی شخصیت کوتقویت دیکراسے اسکی پہلی حالت اور فطرت کی طرف لوٹا دیں اس مرحلہ میں انسانی نفس کے اندر ایک خلفشار اور خانہ جنگی کی صورت حال رہتی ہے جسکی بنا پر اسے سخت زحمتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہےجب انسا ن کی عقل اس کی رفتار وکردار کو کنڑول کرنے اور اسے استقامت عطا کرنے سے عاجز ہوجاتی ہے اور انسان کے لئے اسکے نفس کااندرونی خلفشار اور خانہ جنگی بھی ناقابل برداشت…………..(١)صفین،نصربن مزاحم ص٣٢٢٣٢١ہوجاتے ہیں تو پھر وہ اپنی فطرت سے فرار کی کوشش کرنے لگتا ہے جو ان مشکلات کا منفی اور غلط راہ حل ہے بلکہ اسکا صحیح راہ حل تویہ ہے کہ اپنی عقل وفطرت کو پھر سے زندہ کرکے اسے استحکام بخشے اور اسکے احکامات کے مطابق عمل کرے۔لیکن اسکے بجائے صورتحال یہ ہوجاتی ہے کہ انسان خواہشات کی سلطنت کے سامنے سپر ڈال دیتا ہے اور ان مشکلات سے نجات پانے کے لئے اپنی فطرت سے فرار کی کوشش کرتا ہے ؟اور نشہ،جو ا،جرائم یا جنسیات کے دامن میں پناہ تلاش کرتا ہے ۔مزید تعجب کی بات تویہ ہے کہ انسان اپنی ہوس سے اپنی ہوس ہی کی طرف فرار کرتا ہے اور ایک جرم سے دوسرے جرم کی طرف بھاگتا ہے ورنہ اگر وہ اپنی ہوس کے برخلاف قدم اٹھائے اور خواہش نفس اور ہوس سے خدا کی طرف آگے بڑھے توبآسانی ان سے نجات پاکرسکون حاصل کرسکتا ہے جسکی طرف قرآن مجید نے ان الفاظ میںمتوجہ کیا ہے :(ففرّوا الیٰ اﷲ انی لکم منہ نذیرمبین)(١)’لہٰذا اب خدا کی طرف دوڑپڑو کہ میں کھلا ہوا ڈرا نے والا ہوں’لہٰذا جب تک انسان خداوند عالم کی پناہ حاصل نہ کرلے وہ اپنی ہوس کے سامنے لاچار اور مجبور ہی رہتا ہے اسی لئے وہ مشکلات اور زحمتوں نیز اپنی زندگی کے دردسر سے نجات پانے کے لئے نشے اور جنسیات کارخ کرتا ہے جنکے بارے میں قرآن کریم کی یہ تعبیر کتنی صحیح ہے کہ :(نسوا اﷲ فأنساھم أنفسہم)(٢)’انھوں نے خدا کو بھلاڈالاتو خدا نے خود ان کو بھی نظر انداز کردیا’کیونکہ جو لوگ اپنی فطرت اور ضمیر سے فرار کرکے شراب یا جوئے وغیرہ کی طرف بھاگتے…………..(١)سورئہ ذاریات آیت ٥٠۔(٢)سورئہ حشر آیت ١٩۔ہیں در اصل وہ اپنے کو بھلادینا چاہتے ہیں اور انسان کا یہ فرار ذکر(یاد)سے نسیان (بھول)کی طرف ہے جو خود فرار سے بدترہے ۔بالآخرانسان کے نفس اور اسکی شخصیت کے اندر ہوی وہوس کا مقابلہ کرنے والی آخری طاقت کا نام ضمیر ہے جو حتی الامکان اپنی کوشش بھر انسان کواسکی ہوس اور شیطان کے خونخوار پنجوں سےبچانے کی کوشش کرتا ہے چنانچہ جب ضمیر بھی خواہشات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے تو پھر انسانی وجود کے اندر اسکے خواہشات کا مقابلہ کرنے والا آخری قلعہ بھی منہدم ہوجاتا ہے اور یہی اس جنگ کا پہلا مرحلہ ہے جسکے بعد انسان دائمی دردسر اور تشنج کا شکار ہوجاتا ہے ۔جب خواہشات ہر اعتبار سے فتح یاب ہوجاتے ہیں اور انسان کے اوپر ان کی سلطنت کا نفوذ ہوجاتا ہے اور وہ پورے طورپر ان کے دائرہ اختیار کے اندرآجاتا ہے ۔۔۔تب بھی اسے اپنے خیالات کے برخلاف اس اندرونی خلفشاراور خانہ جنگی سے نجات نہیں مل پاتی بلکہ نفس کے اندرہی خود ان خواہشات کے درمیان ایک اور خانہ جنگی اور خلفشار شروع ہوجاتا ہے بلکہ اس بار اسکا انداز اورزیادہ خطرناک اور سخت ہوتا ہے کیونکہ انسان اس مرحلہ میں مختلف قسم کے خواہشات نفس (اور ہوس)کے درمیان تذبذب کاشکاررہتاہے لہٰذا اسکا خلفشار پہلے مرحلہ کی بہ نسبت کہیں زیادہ ہوجاتا ہے اور اگر اسکی دردسر ی اورذہنی پریشانی گذشتہ مرحلہ سے زیادہ نہ ہو تو بہر حال اس سے کم ہرگز نہیں ہوتی ہے کیونکہ اس مرحلہ میں بھی گذشتہ مرحلہ کی طرح اسکے معاملات بالکل متفرق اوردرہم برہم ہوجاتے ہیں البتہ ان دونوں کے درمیان یہ فرق ضرورہوتا ہے کہ پہلے مرحلہ میں انسان کی مشکلات کے دوران اسکی عقل اور خواہشات کے درمیان ٹکرائو ہواتھا لیکن اس مرحلہ میں خوداسکی خواہشات اور ہوس کے درمیان ٹکرائورہتا ہے کیونکہ اسکی ہر خواہش (ہوس)دوسری خواہشات کے مقابلہ میںآگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے اسی لئے ان کے درمیان یہ جنگ جاری رہتی ہے ۔اس سلسلہ میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں :١۔جب کبھی انسان جذبۂ انتقام اورغصہ یا محبت دنیا اور عہدہ کی محبت کے درمیان تذبذب کا شکار ہوتا ہے تو حکومت ،عہدہ اور پوسٹ کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ دشمنوں کے ساتھ نرم رویہ سے پیش آئے مگر جذبۂ انتقام یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے مقابلہ میں آنے والے ہردشمن کا قلع قمع کردے ۔۔۔اور ہمیں بخوبی یہ معلوم ہے کہ یہ نرمی اور مدارات ،حلم کی قسم نہیں ہے (جو عقل کے لشکروں میں سے ہے)بلکہ یہ درحقیقت ایک ہوس کودوسری ہوس پر ترجیح دینے کا نتیجہ ہے ۔٢۔کبھی عہدہ یا حکومت کی لالچ اور سماجی مقام یاعظمت ووقار جیسے دو جذبات اور خواہشات کے درمیان ٹکرائو پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ انسان کی سماجی عزت ووقار اس سے کچھ خاص اقدار وآداب کی پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ دوسرے خواہشات ان سے کنارہ کشی کے خواہاں ہوتے ہیں جیسے جنسی خواہش،لہٰذا ان سیاسی یا سماجی عہدوں اور کرسیوں تک پہونچنے کے لئے اپنے جنسیات پر کنٹرول کرنا، یہ کسی عفت کی بنا پر نہیں ہے ۔بلکہ یہ ایک خواہش(ہوس) کو دوسری ہوس پر ترجیح دی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جنسی ہوس دوسرے خواہشات (عہدہ کی لالچ)پر غالب آجاتی ہے جسکے نتیجہ میں ارباب حکومت کے یہاںبھی جنسی اسکینڈل رونما ہوجاتے ہیں اور انہیں بد نام کرکے رکھ دیتے ہیں ۔٣۔کبھی انسان کسی عہدے کی محبت اوراپنی جان کے خوف کا نوالہ بن کر رہ جاتا ہے کیونکہ عہدہ کی تمنا اس سے دوسروں پر حملہ کرنے انہیں قتل وغارت کرنے اور خطرات میں کو د پڑنے کا مطالبہ کرتی ہے لیکن جان کا خطرہ اس کو حفاظتی انتظامات اور احتیاطی تدابیر اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانے پر اکساتا ہے ۔دومختلف قسم کی خواہشات کی بناء پر انسانی نفس کے اندرونی خلفشار اور خانہ جنگی کی یہ تین مثالیں آپکے سامنے حاضرہیںان کے علاوہ بھی مختلف خواہشات کے درمیان نہ جانے ایسے کتنے حادثات ہر روز رو نما ہوتے رہتے ہیں جوانسانی زندگی کے لئے ایک عام بات ہیں اور اس میں متعدد خواہشات اور جذبات ایک دوسرے سے ٹکراکر اسے اپنی سمت کھینچنا چاہتے ہیں اور انسان خوف اور لالچ ، حب جاہ ،بخل وحسد ،جنسیات اور غصہ و انتقام نیز حب مال جیسے خواہشات کے کھنچائو کی بناپر،تتر بتر ہو کر رہ جاتا ہے جسکے بعد وہ اپنے ذہنی بوجھ اور مشکلات کے دلدل میں اور زیادہ دردسری کاشکار ہوجاتا ہے جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے :(انّما یریداﷲ لیعذبھم بہافی الحیاة الدنیاوتزھق أنفسہم وھم کافرون)(١)’بس اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت کفر ہی میں ان کی جان نکل جائے ‘یہی معاملات کادرہم برہم ہوناہے جس کی طرف حدیث قدسی میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ہوس کے عذابجب انسان اپنی ہوس کا شکار ہو جاتا ہے تو اسکے خواہشات کا ٹکرائو بھی اسکے لئے وبال جان بن جاتا ہے جبکہ اس کے پنجوں میں پھنسے کے بعد انسان جس دوسرے دردسر اور زحمت میں مبتلا ہو تا ہے وہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہ عذاب خود اس ہوس سے مربوط ہوتا ہے لہٰذا انسان کی ہوس اور خواہش جیسی ہوگی اسکا ویسا ہی عذاب اور دردسر سامنے آئے گاجیسے حرص ،لالچ اورحسد جیسے خواہشات اگر ہمارے نفس کے اندر جگہ بنالیں تو ان کی خواہش ہمیں ایک الگ مصیبت میں مبتلا کردے گی اوریہ طے شدہ بات ہے کہ جو شخص اپنے معاملات کو ان خواہشات کے حوالے کردیگا وہ ان مصائب سے نجات نہیں پاسکتا ہے ۔خواہشات کے چنگل میں رہ کر انسان جس عذاب اور وبال جان میں مبتلا ہوتا ہے اسکی طرف اس روایت میں اشارہ موجود ہے جسے شیخ مفید علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب الارشاد(١) میں امیرالمو منین سے نقل کیا ہے :…………..(١)سورئہ توبہ آیت ٥٥۔(٢)ارشاد مفیدص ١٥٩ ۔(ماأعجب أمرالانسان،ان سنح لہ الرجاء أذلّہ الطمع،وان ھاج بہ الطمع ھلکہ الحرص،وان ملکہ الیأس قتلہ الأسف،وان سعد نسی التحفظ،وان نالہ خوف حیّرہ الحذر،وان اتسع لہ الامن أسلمتہ الغرّة’الغفلة’وان أصابتہ۔۔۔)’اس انسان کے معاملات کتنے تعجب آور ہیں کہ اگر اسے امید کی کرن نظر آنے لگے تو طمع اسکو ذلیل کر دیتی ہے اور اگر اسکی لا لچ بھڑک اٹھے توحرص اسے ہلاک کر ڈا لتی ہے اور اگر اس پر نا امیدی کا غلبہ ہوجائے تو افسوس اسے قتل کردیتا ہے اور اگر وہ کامیاب اورخوشحال ہوجائے تو پھر (دین کی)پابندی کو بھول جاتا ہے ،اگر اسے خوف لاحق ہوجائے تو دہشت متحیر وسرگردان کردیتی ہے اور اگر ہر طرف امن وسکو ن رہے تو غفلت (دھوکہ)میں گرفتارہوجاتاہے اگر کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائے تو بے صبری اور آہ وفریاد ذلیل کردیتی ہے اگر کہیں سے مال مل جائے تودولت اسے باغی بنادیتی ہے اگر وہ فاقہ کے چنگل میں پھنس جائے توبلائیں اسکے شامل حال ہوجاتی ہیں اور اگر بھوک لاغر بنادے تو کمزوری نڈھال کردیتی ہے اور اگر کھانے پینے میں افراط کر بیٹھے تو پرخوری سے اس کا سانس رک جاتا ہے ۔مختصر یہ کہ اسکے لئے ہر تقصیر مضر ہے اور ہر زیادہ روی (افراط)مفسد ہے اور اس (افراط)کے بعد ہر خیر شر بن جاتا ہے اور ہر شر اسکے لئے ایک آفت ہے ‘مختصر یہ کہ دنیا کے بارے میں پرامیدہونا ہر انسان کو طمع کی ذلت کے حوالہ کردیتا ہے اور طمع (لالچ)ہلاکتوں کے سپردکردیتی ہے کسی چیز سے مایوسی کے بعد وہ کف افسوس ہی ملتا رہتا ہے اور کوئی خوف پیدا ہوجائے تو وہ دہشت کے منھ میں جھونک دیتا ہے اس طرح ہرخواہش اور ہوس ایک نئی خواہش اور ہوس کے حوالے کردیتی ہے اور آخر کار وہ ہلاکت کے منھ میں پہونچ جاتا ہے ۔