رسولۖ کے بارے میں بنی ہاشم کا موقف

215

ابو طالب رسولۖ اور رسالت کا دفاع کرتے ہیں
رسولۖ تبلیغ رسالت سے دست بردار نہیں ہوئے بلکہ آپ کی فعالیت وکا رکردگی میں وسعت پیدا ہو گئی، آپ کا اتباع کرنے والے مومنوں کی فعالیت میں بھی اضافہ ہوا، لوگوں کی نظر میں یہ نیا دین پر کشش بن گیا، اس سے قریش چراغ پا ہو گئے اور اسلام کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لئے شازشیں کرنے لگے وہ پھر ابو طالب کی خدمت میں آئے اور ایک بار پھر انہوں نے لالچ دی کہ وہ رسولۖ کو تبلیغ رسالت سے دست بردار ہو جانے اور اپنا دین چھوڑ نے پر راضی کریں، جب اس سے کام نہ چلا تو انہوں نے آپ کو دھمکیاں دیں اور کہنے لگے: اے ابو طالب! ہمارے درمیان آپ کا بڑا مرتبہ ہے عظیم قدر و منزلت ہے ہم نے آپ سے یہ گزارش کی تھی کہ اپنے بھتیجے کو روکئے لیکن آپ نے انہیں نہیں روکا ، خدا کی قسم! اب ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمارے آباء و اجداد کو برا کہا جائے، ہمیں بے وقوف کہا جائے اور ہمارے خدائوں کو برا کہا جائے، آپ انہیں ان باتوں سے منع کریں یا ہمیں اور انہیں چھوڑ دیں یاوہ نہیں یاہم نہیں۔بنی ہاشم کے سید و سردارجناب ابو طالب قریش کے محکم ارادہ کو سمجھ گئے اور یہ محسوس کیا کہ وہ میرے بھتیجے اور ان کی رسالت کو مٹا دینا چاہتے ہیں لہذا انہوں نے ایک یہ کوشش کی کہ رسولۖ نرم رویہ اختیار کریں تاکہ قریش کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے لیکن رسولۖ نے فرمایا: میں حکمِ خدا پر عمل کرتے ہوئے تبلیغ رسالت کرتا رہوںگا خواہ حالات کتنے ہی سنگین ہو جائیں خواہ انجام کچھ بھی ہو۔’یا عم واللّٰہ لو وضعوا الشَّمس فی یمینی و القمر فی شمالی علیٰ ان اترک ھذا الامر حتی یظھرہ اللّٰہ او اھلک فیہ ما ترکتہ’اے چچا خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں اور چاہیں کہ میں تبلیغ رسالت چھوڑ دوں تو میں اسے نہیں چھوڑونگا یہاں تک کہ خدا اسے کا میابی سے ہمکنار کرے یا اس میں میری جان ہی چلی جائے۔پھر آپۖ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے آپۖ چلنے کے لئے کھڑے ہوئے اس صورت حال سے ابو طالب کا دل بھر آیا ، کیونکہ وہ اپنے بھتیجے کی صداقت و سچائی کو جانتے تھے ان پر ایمان رکھتے تھے، لہذا بھتیجے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ‘اذھب یابن اخی فقل ما احببت فواللّٰہ لا اسلمک لشیء ابدا’بیٹے جائو! اور جیسے تمہارا دل چاہے تبلیغ کرو خدا کی قسم! میں کسی بھی چیز کے عوض تمہیں ان کے حوالے نہیں کروںگا۔قریش اپنی سرکشی و گمراہی سے باز نہیں آئے پھر ابو طالب کے پاس گئے اور انہیں رسولۖ کو چھوڑ نے پر اکسانا چاہا کہنے لگے: اے ابو طالب!یہ عمارہ بن ولید قریش کا حسین و جمیل جوان ہے اسے آپ لے لیجئے یہ آپ کی مدد کرے گا۔ اسے آپ اپنا بیٹا سمجھئے اور اپنے بھتیجے کو ہمارے سپرد کر دیجئے کہ جس نے آپ کی قوم میں تفرقہ پیدا کر دیا ہے ، اور انہیں بیوقوف بتاتا ہے ہم اسے قتل کر دیں گے۔ اس طرح آپ کو مرد کے بدلے مرد مل جائیگا ابو طالب نے ان کی اس ظالمانہ پیشکش کوٹھکرا دیا۔ فرمایا: تم نے بہت بری پیشکش کی ہے تم مجھے اپنا فرزند دے رہے ہو تاکہ میں تمہارے لئے اس کی پرورش کروں اور اس کے عوض میں اپنا بیٹا تمہیں دیدوں تاکہ تم اسے قتل کردو، خدا کی قسم !یہ کبھی نہ ہوگا-ابو طالب کا یہ جواب سن کرمطعم کہنے لگا:ابو طالب ! خدا کی قسم آپ کی قوم نے انصاف کی بات کہی ہے اور ان مکروہ باتوں سے بچنا چاہا ہے جسے آپ دیکھ رہے ہیں، اصل خطرہ یہ ہے کہ وہ آپ کے خلاف کوئی اقدام نہ کر بیٹھیں، ابو طالبۖ نے مطعم کوجو اب دیا خدا کی قسم! تم لوگوں نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے بلکہ تم نے مجھے چھوڑ نے اور مجھ پر کامیاب ہونے کا راستہ اختیار کیا ہے ۔ اس پر ان لوگوں نے کہا: اب آپ جو چاہیں سو کریں۔(١)ابو طالب کی ان باتوں سے قریش کو یہ یقین ہو گیا کہ وہ ابو طالب کو اس بات پر راضی نہیں کرپائیں گے کہ وہ رسولۖ کو چھوڑ کر الگ ہو جائیں، دوسری طرف جب ابو طالب نے قریش کی نیت خراب دیکھی تو انہوں نے ان سے بچنے کی تدبیر سوچی تاکہ بھتیجے پر آنچ نہ آئے اور ان کی رسالت کی تبلیغ متاثر نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے بنی ہاشم اور اولادِ عبد المطلب سے فرمایا کہ محمدۖ سے خبردار رہنا دیکھو ان پرآنچ نہ آئے ، ابو طالب کی اس بات پر ابولہب کے علاوہ سب نے لبیک کہا ابو طالب نے بنی ہاشم کے اس موقف کو بہت سراہا، بنیۖ کی حفاظت و حمایت کرنے کے سلسلہ میں انہیں شجاعت دلائی۔(٢)
قریش کا موقفبعثت کے چار سال پورے ہو گئے کہ اس عرصہ میں قرآن مجید کی بہت سی آیتیں نازل ہو چکی تھیں ان میں عظمتِ توحید اور خدا کی وحدانیت کی طرف دعوت، اعجاز بلاغت اور مخالفوں کے لئے دھمکیاںتھیں یہ آیتیںمومنوںکے دلوں میں راسخ اور ان کی زبان پر جاری تھیں، دور و نزدیک سے لوگ انہیں سننے کے لئے آتے تھے۔تبلیغ ِ رسالت کو روکنے کے لئے قریش نے ابھی تک جتنے حربے استعمال کئے تھے وہ سب ناکام ہو چکے تھے، انہوں نے رسولۖ کو سلطنت و بادشاہت کی لالچ دینے، بے پناہ مال سے نوازنے ، اپنا سردار بنانے کی پیش کش کی لیکن وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوئے تو انہوں نے تبلیغِ رسالت کو روکنے کے لئے متعدد حربے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔ چونکہ فصیح و بلیغ کلام کا دلوں پر گہر ا اثر ہوتا ہے اس لئے قریش نے پہلا قدم تویہ اٹھایا کہ رسولۖ کو عام لوگوں سے نہ ملنے دیا جائے، اس طرح وہ ان کے سامنے اسلام پیش نہیں کر سکیں گے ۔ اور جو لوگ مکہ میں آتے ہیں انہیں قرآن کی آیتیں نہ سننے دی جائیں، اس کے علاوہ انہوںنے آپۖ…………..١۔ تاریخ طبری ج٢ ص ٤٠٩، سیرت نبویہ ج١ ص ٢٨٦۔٢۔ تاریخ طبری ج٢ ص ٤١٠، سیرت حلبیہ ج١ ص ٢٦٩۔کے دعوائے نبوت کے صحیح ہونے میں شک پیدا کرنے کی کوشش کی، وہ یہ سمجھے تھے کہ رسولۖ پر یہ حالت مرض کی بنا پر طاری ہوتی ہے لہذا اس کا علاج کرایا جائے، رسولۖ نے انہیں ایسا جواب دیا جس میں ان کے لئے سراسر بھلائی، عزت و شرف اور نجات تھی۔ فرمایا: ‘کلمة واحدة تقولونھا تدین لکمبھا العرب و تؤدی الیکم بھا العجم الجزیة…’ وہ ایک بات کہہ دو جس کے ذریعہ عرب تمہارے قریب آجائیں گے اور اسی سبب غیر عرب تمہیں جزیہ دیں گے…آپ کی اس بات سے وہ ہکا بکا رہ گئے انہوں نے یہ سمجھا یہی آخری حربہ ہے ، کہنے لگے: ہاں خدا آپ کا بھلا کرے۔آپۖ نے فرمایاکہہ دو: ‘لاالٰہ الا اللّہ…’اس دو ٹوک جواب نے انہیں رسوا کر دیا چنانچہ وہ ناک بھوں چڑھاکر اٹھ گئے۔ اور کہنے لگے: ‘اجعل الالٰھة الٰھاً واحداً ان ھذا لشیء عجاب ‘ کیا انہوں نے سارے خدائوں کو ایک خدا قرار دیدیا ہے یہ تو عجیب بات ہے ۔(١)اب قریش نے یہ طے کیا کہ وہ رسولۖ اور ان کا اتباع کرنے والوں کی اہانت کریں گے، جن کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے ، وہ ان کی دعوت کو اپنے اندر راسخ کر رہے ہیں، چنانچہ ابولہب اور اس کی بیوی ام جمیل آپۖ کے دروازہ پر کانٹے ڈالدیتی تھی کیونکہ آپکا گھر اس کے گھر کے پاس ہی تھا(٢) ابوجہل آپۖ کو پریشان کرتا تھا، آپۖ کو برا کہتا تھا۔ لیکن خدا ظالموںکی گھات میں ہے جب آنحضرتۖ کے چچا جناب حمزہ کو یہ معلوم ہوا کہ ابو جہل نے رسولۖ کی شان میں گستاخی کی ہے تو انہوں نے قریش کے سربرآوردہ لوگوں کے سامنے ابو جہل کو اس کی گستاخی کا جواب دیا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اوران کے مجمع کو دھمکی دی کہ اب تم رسولۖ کو پریشان کر کے دکھانا۔(٣)…………..١۔ سیرت حلبیہ ج١ ص ٣٠٣، تاریخ، طبری ج٢ ص ٤٠٩۔٢۔سیرت نبویہ ج١ ص ٣٨٠۔٣۔سیرت نبویہ ج١ ص ٣١٣، تاریخ طبری ج٢ ص ٤١٦۔کفر عقل کی بات نہیں سنتقریش نے یہ سوچا کہ ہم چالاکیوں کے باوجود محمدۖ کو تبلیغ رسالت سے باز نہیں رکھ سکے، اور وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ لوگ اسلام کی طرف آپۖ کی دعوت کو قبول کر رہے ہیں تو اس وقت قریش کے سربرآوردہ افراد کے سامنے عتبہ بن ربیعہ نے یہ بات رکھی کہ میں محمدۖ کے پاس جاتا ہوں اور انہیں دعوت اسلام سے باز رکھنے کے سلسلہ میں گفتگو کرتا ہوں۔ عتبہ آنحضرت ۖ کے پاس گیا ۔اس وقت آپ مسجد الحرام میں تنہا بیٹھے تھے، عتبہ نے پہلے تو آپۖ کی تعریف کی اور قریش میں جو آپۖ کی قدر و منزلت تھی اسے سراہا پھر آپۖ کے سامنے اپنا مدعابیان کیا نبیۖ خاموشی سے اس کی بات سنتے رہے۔ عتبہ نے کہا: بھتیجے اگر تم اس طرح (نئے دین کی تبلیغ کے ذریعہ) مال جمع کرنا چاہتے ہو تو ہم تمہارے لئے اتنا مال جمع کر دیں گے کہ ہم میں سے اتنا مال کسی کے پاس نہ ہوگا اور اگر اس سے تمہارا مقصد عزت و شرف حاصل کرنا ہے تو ہم تمہیں اپنا سردار بنا لیتے ہیں اور تمہارے کسی حکم کی مخالفت نہیں کریں گے اور اگرتمہیں بادشاہت چاہئے تو ہم تم کو اپنا بادشاہ تسلیم کرتے ہیں اور اگرتم کوئی ایسی چیز دکھائی دیتی ہے کہ جس سے خودکو نہیں بچا سکتے تو ہم اپنا مال خرچ کرکے تمہاراعلاج کرادیں یہاں تک کہ تم اس سے شفاپا جائو۔ جب عتبہ کی بات ختم ہو گئی تو رسولۖ نے فرمایا: اے ابو ولید! کیاتمہاری بات پوری ہو گئی؟ اس نے کہا: ہاں! آپۖ نے فرمایا تو اب میری سنو! پھر آپۖ نے خدا وند عالم کے اس قول کی تلاوت کی:(حم تنزیل من الرحمن الرحیم ، کتاب فصّلت آیاتہ قراناً عربیاً لقوم یعلمون،بشیراً و نذیراً فاعرض اکثرھم فھم لا یسمعون، قالوا قلوبنا فی اکنّة مما تدعوننا الیہ )(١)حم۔ یہ رحمن رحیم خدا کی نازل کی ہوئی ہے ۔ اس کتاب کی آیتیں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں یہ سمجھنے والی قوم کے لئے عربی کا قرآن ہے ۔ اس قرآن کو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر نازل کیا گیا ہے لیکن اکثریت نے اس سے رو گردانی کی ہے۔ کیا وہ کچھ سنتے ہی نہیں ہیں اور کہتے ہیںکہ ہمارے دل ان…………..١۔ فصلت ٤١ آیت ١ تا ٥۔باتوں سے پردے میں ہیں جن کی تم دعوت دے رہے ہو۔رسولۖ آیتیں پڑھتے رہے عتبہ سنتا رہا اس نے اپنے ہاتھ پشت کی طرف کئے اور ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا، سجدہ کی آیت آئی تو رسول ۖ نے سجدہ کیا پھر فرمایا: اے ابو ولید جو تم نے سنا سو سنا اب تم جانو۔عتبہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ اپنی قوم کے پاس جاکر بیٹھ گیا اور کہنے لگا: خدا کی قسم !میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ آج تک ایسا کلام نہیں سنا تھا۔ خدا کی قسم! نہ وہ کلام نہ شعر ہے ۔ نہ سحر ہے اور نہ کہانت ہے ۔ اے قریش والو! میری پیروی کرو اور اسے میرے اوپر چھوڑ دو اور اس کی تبلیغ رسالت اور اس شخص کو درگذر کرو۔لیکن یہ مردہ دل لوگ اس بات کو کہاں قبول کرنے والے تھے۔ کہنے لگے اے ابو ولید خدا کی قسم! محمدۖ نے تم پر اپنی زبان سے جادو کر دیا ہے ۔ عتبہ نے کہا: ان کے بارے میں یہ میری رائے ہے اب تم جو چاہو کرو۔(١)
سحر کی تہمتقریش نے اپنے اتحاد کو برقرار رکھنے اور تبلیغ رسالت سے ٹکرانے والے اپنے محاذ کو محفوظ رکھنے اور لوگوں میں رسولۖ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو روکنے کا منصوبہ اس وقت بنایا جبکہ حج کا زمانہ قریب تھا۔ قریش نے ایسا حربہ استعمال کرنے کے بارے میں غور کیا کہ جس سے ان کی بت پرستی بھی متاثر نہ ہو اور رسولۖ کے کردار کو – معاذ اللہ-داغدار بنا دیا جائے لہذا وہ سن رسیدہ و جہاں دیدہ ولید بن مغیرہ کے پاس جمع ہوئے لیکن ان کے درمیان اس سلسلہ میں اختلاف ہو گیا کہ رسولۖ پر کیا تہمت لگائی جائے کسی نے کہا: کاہن کہا جائے ، کسی نے کہا: مجنون کہا جائے کسی نے کہا: شاعرکہا جائے کسی نے کہا جادوگر کسی نے کہا: وسوسہ کا مریض کہا جائے جب کسی نتیجہ پر نہ پہنچے تو انہوں نے ولید سے مشورہ کیا اس نے کہا:خدا کی قسم! ان کے کلام میں چاشنی و شیرینی ہے ۔ ان کے کلام کی اصل مٹھاس اور اس کی فرع چنے ہوئے پھل کی مانند ہے اور ان چیزوں کو تم بھی تسلیم کرتے ہو تہمتوں سے بہتر ہے کہ تم یہ کہو کہ وہ ساحر و جادوگرہیں،…………..١۔ سیرت نبویہ ج١ ص ٢٩٣۔ان کے پاس ایسا جادو ہے کہ جس سے یہ باپ بیٹے میں، بھای بھائی اور میاں بیوی میں جدائی ڈال دیتے ہیں ۔ ولید کی یہ بات سن کر قریش وہاں سے چلے گئے اور لوگوں کے درمیان اس ناروا تہمت کا پروپیگنڈہ کرنے لگے۔(١)
اذیت و آزاررسولۖ اور حق کے طرف داروں کوتبلیغ رسالت سے روکنے میں کفار و مشرکین اسی طرح ناکام رہے جیسے ان کی عقلیں توحید اور ایمان کو سمجھنے میں ناکام رہی تھیں، تبلیغ رسالت کو روکنے میں انہوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی لیکن انہیں اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آیا کہ وہ خدا کی وحدانیت اور محمد ۖ کی رسالت پر عقیدہ رکھنے والوں کو اذیت و آزار پہنچائیں اور سنگدلانہ موقف اختیار کریں چنانچہ ہر قبیلہ نے ان لوگوں کو دل کھول کر ستانا شروع کر دیا جولوگ مسلمان ہو گئے تھے۔ انہیں قید کر دیا، زد و کوب کیا، نہ کھانا دیا نہ پانی ، ان کی یہ کوشش اس لئے تھی تاکہ مسلمان اپنے دین اور خدا کی رسالت کا انکار کر دیں۔امیہ بن خلف ٹھیک دو پہر کے وقت جناب بلال کو مکہ کی تپتی ہوئی زمین پر لٹا دیتا ہے تاکہ انہیں عبرت آموز سزادے سکے۔ عمر بن خطاب نے اپنی کنیز کو اس لئے زد و کوب کیا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اسے مارتے مارتے عاجز ہو گئے تو کہنے لگے میں نے تجھے اس لئے چھوڑ دیا کیونکہ میں تھک گیا ہوں۔ قبیلہ مخزوم عمار یاسر اور ان کے ماں، باپ کو مکہ کی شدید گرمی میں کھینچ لائے، ادھر سے رسولۖ کا گزر ہوا تو فرمایا: صبراً آل یاسر موعدکم الجنة۔ یاسر کے خاندان والو! صبر سے کام لو تمہاری وعدہ گاہ جنت ہے ان لوگوں نے ان مظلوموں کو اتنی سخت سزا دی کہ جناب عمار کی والدہ سمیہ شہید ہو گئیں(٢)، عالم اسلام میں یہ پہلی شہید عورت تھیں ۔اگر ہم رسولۖ، رسالت اور پیروانِ رسولۖ سے قریش کے ٹکرانے کے عام طریقوں کو بیان کرناچاہیں تو خلاصہ کے طور پر انہیں اس طرح بیان کر سکتے ہیں۔…………..١۔ سیرت نبویہ ج١ ص ٣١٧و ص ٣٢٠۔٢۔ سیرت نبویہ ج١ ص ٣١٧ تا ص ٣٢٠ ۔١۔ نبیۖ کا مضحکہ اڑانا اور لوگوں کی نظر میں آپۖ کی شان گھٹانا ان کے لئے آسان طریقہ تھا اس کام میں ولید بن مغیرہ-خالد کا باپ-عقبہ بن ابی معیط، حکم بن عاص بن امیہ اور ابو جہل پیش پیش تھے لیکن خدا ئی طاقت نے ان کے سارے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔ قرآن کہتا ہے:(انا کفیناک المستھزئین(١) ولقد استھزیٔ برسل من قبلک فحاق بالذین سخروا منھم ما کانوا بہ یستھزئون)(٢)
آپۖ کا مذاق اڑانے والوں کے لئے ہم کافی ہیں۔ آپۖ سے پہلے بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا گیا ہے ، نتیجہ میں وہ مذاق، مذاق اڑانے والوں ہی کے گلے پڑ گیا۔٢۔ نبیۖ کی اہانت، تاکہ آپۖ کمزور ہو جائیں، روایت ہے کہ مشرکین نے ایک مرتبہ آپ پر گندگی اور کوڑا ڈالدیا اس پر آپۖ کے چچا جناب ابوطالب کو بہت غصہ آیا اور قریش کو ان کی اس حرکت کا جواب دیا اور ابو جہل کی حرکت کا جواب جناب حمزہ بن عبد المطلب نے دیا۔٣۔ آپۖ کو اپنا بادشاہ وہ سردار بنانے اور آپۖ کو کافی مال و دولت دینے کی پیشکش کی۔٤۔ جھوٹی تہمتیں لگائیں:جھوٹا، جادوگر مجنون اور شاعر و کاہن کہا۔ ان تمام باتوں کو قرآن نے بیان کیا ہے ۔٥۔ قرآن مجید میں شک کیا، رسولۖ پر یہ تہمت لگائی کہ آپۖ خدا پر بہتان باندھتے ہیںکہ یہ قرآن خدا کا کلام ہے تو قرآن نے انہیں چیلنج کیا کہ اس کا جواب لے آئو۔ واضح رہے کہ رسولۖ نے اپنی عمر کا بڑا حصہ انہیں کے درمیان گزارا تھا۔ قریش نے جن چیزوں کی نسبت آپ کی طرف دی تھی وہ آپۖ میں دیکھنے میں نہیں آئی تھیں۔٦۔ آپ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے والے مومنوں کو ستانا اور قتل کرنا۔٧۔ اقتصادی و سماجی بائیکاٹ۔…………..١۔ حجر: ٩٥۔٢۔حجر: ٩٤ و ٩٥۔٨۔ رسالتمآبۖ کے قتل کا منصوبہ (١)نبی ۖ نے وہ طریقہ اختیار فرمایا جس سے رسالت اور اس کے مقاصد کی تکمیل ہوتی تھی۔
حبشہ کی طرف ہجرتعلیٰ الاعلان تبلیغ رسالت کے دو سال بعد رسولۖ نے یہ محسوس فرمایا کہ آپۖ مسلمانوں کو ان مصائب و آلام سے نہیں بچا سکتے جو قریش کے سرکش اور بت پرستوں کے سرداروں کی طرف سے ڈھائے جاتے ہیں۔مستضعف و کمزور مسلمانوں کے حق میں مشرکین اور ان کے سرداروںکا رویہ بہت سخت ہو گیا تھا لہذا رسولۖ نے ظلم کا نشانہ بننے والے مسلمانوں سے فرمایا کہ تم لوگ حبشہ چلے جائو۔ظلم سے کچلے ہوئے مسلمانوں کو آپ سکون و آرام حاصل کرنے کی غرض سے حبشہ بھیجنا چاہتے تھے تاکہ واپس آنے کے بعد وہ اسلامی رسالت و تبلیغ میں سرگرم ہو جائیں یا جزیرہ نما عرب سے باہر قریش پردبائو ڈالیں اور ان سے جنگ کرنے کے لئے ایک نیا محاذ قائم کریں ، اور ممکن ہے اس زمانہ میںخدا کوئی دوسری صورت پیدا کر دے۔ رسولۖ نے ہجرت کرنے والوں کو یہ خبر دی تھی حبشہ کا بادشاہ عادل ہے اس کے یہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنا قبول کر لیا چنانچہ ان میں سے بعض لوگ خفیہ طریقہ سے ساحل کی طرف روانہ ہو گئے قریش نے ان کا تعاقب کیا لیکن وہ سمندر پا رجا چکے تھے؛ اس کے بعد بھی مسلمان تنہا یا اپنے خاندان کے ساتھ حبشہ جاتے رہے یہاں تک کہ حبشہ میں ان کی تعداد بچوں سے قطع نظر اسّی سے زیادہ ہو گئی، لہذا رسولۖ نے جعفر بن ابی طالب کو ان کا امیر مقرر کر دیا۔(٢)حبشہ کو ہجرت کے لئے منتخب کرنا یقینا رسولۖ کے قائدانہ اقدامات میں سے بہترین اقدام تھا۔ رسولۖ سے ایک حدیث مروی ہے جس میں آپۖ نے حبشہ کے بادشاہ کی تعریف کی ہے ۔ پھر وہاں کا سفر کشتیوں کے ذریعہ ہو گیا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نصرانیت سے اچھے مذہبی روابط استوارکرنا چاہتا ہے۔…………..١۔ انفال:٣٠۔٢۔ سیرت نبویہ ج١ ص ٣٢١، تاریخ یعقوبی ج ٢ ص ٢٩، بحار الانوار ج١٨ ص ٤١٢۔مسلمانوں کے حبشہ ہجرت کرنے سے قریش کو بہت دکھ ہوا، ہجرت کے نتیجہ سے انہیں خوف لاحق ہوا انہوں نے یہ خیال کیا کہ اسلامی تبلیغ کرنے والوں کو کہیں وہاں امان نہ مل جائے لہذا قریش نے عمرو بن العاص اور عمارہ بن ولید کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس بھیجا اور نجاشی کے لئے ان کے ہاتھ تحفے بھیجے، اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ نجاشی انہیں اپنے ملک سے نکال دے اور ان کے سپرد کر دے قریش کے ان دونوں نمائندوں نے نجاشی کے بعض سپہ سالاروں سے بھی ملاقات کی اور ان سے رسم و راہ پیدا کی اور ان سے یہ گزارش کی کہ مسلمانوں کو واپس لو ٹانے میں آپ لوگ ہماری مدد کر یں چنانچہ انہوں نے بھی ان کی سفارش کی مگر نجاشی نے ان کے مطالبہ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ جب تک میں تمہاری اس تہمت کے بارے میں خود مسلمانوںسے یہ معلوم نہیں کرلونگاگا کہ انہوں نے کیسا نیا دین بنا لیا ہے اس وقت تک انہیں واپس نہیں لوٹا ئوںگا۔مسلمانوں کی بادشاہ سے اس ملاقات میں خدا کی رحمت ان کے شامل حال رہی جعفر بن ابی طالب نے ایسے دلچسپ انداز میں دین کے بارے میں گفتگو کی کہ جو نجاشی کے دل میں اتر گئی اس کے نتیجہ میں وہ مسلمانوں کی اور زیادہ حمایت کرنے لگا۔ جعفر بن ابی طالب کی یہ گفتگو قریش کے نمائندوں کے سروں پر بجلی بن کر گری۔ ان کے تحفے بھی ان کے کسی کام نہ آ سکے اپنے موقف میں نجاشی کے سامنے ذلیل ہو گئے اور مسلمان اپنے مسلک و موقف میں سرخ رو اور سربلند ہو گئے ان کی حجّت مضبوط تھی جس سے اس تربیت کی عظمت کا پتہ چلتا تھا جو رسولۖ نے انسان کو فکر و اعتقاد اور کردار کے لحاظ سے بلند کرنے کے لئے کی تھی چنانچہ جب قریش کے وفد نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں قرآن کا نظر یہ بیان کرکے فتنہ بھڑکانے کی کوشش کی تو اس کا مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ بلکہ جب نجاشی نے جعفر بن ابی طالب سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں قرآن کا نظریہ معلوم کیا تو انہوں نے حضرت عیسیٰ کے متعلق قرآن کی آیتوں کی تلاوت کی نجاشی نے ان آیتوں کو سن کر کہا: جائو تم لوگ امان میں ہو۔ (١)…………..١۔ سیرت نبویہ ج١ ص ٣٣٥، تاریخ یعقوبی ج٢ ص ٢٩۔جب قریش کا وفدناکام حبشہ سے واپس لوٹ آیا تو انہیں اپنی کوششوں کے رائیگاں جانے کا یقین ہو گیا اب انہوں نے یہ طے کیا کہ وہ مکہ کے مسلمانوں کا کھانا پانی بند کر دیں گے اور اجتماعی امور میں ان کا بائیکاٹ کریں گے اس سے ابو طالب اور بنی ہاشم نبی ۖ کی امداد سے دست بردار ہو جائیںگے۔
مقاطعہ اور بنی ہاشمجب ابو طالب نے قریش کی ہر پیشکش کو مسترد کر دیا اور یہ اعلان کر دیا کہ میں رسولۖ کی حمایت کر ونگا چاہے انجام کچھ بھی ہو تو قریش نے ایک دستاویز لکھی جس میں بنی ہاشم کے ساتھ خرید و فروخت، نشست و برخاست اور بیاہ شادی نہ کی جانے کی بات تھی۔یہ دستاویز قریش کے چالیس سرداروں کی طرف سے تحریر کی گئی تھی۔جناب ابو طالب اپنے بھتیجے، بنی ہاشم اور اولادِ مطلب کو لے کر غار میں جانے پر تیار ہو گئے اور فرمایا: جب تک ہم میں سے ایک بھی زندہ ہے اس وقت تک رسولۖ پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ ابو لہب قریش کے پاس چلا گیا اور اولاد مطلب کے خلاف ان کی مدد کی ان لوگوں میں سے ہر ایک غار میں داخل ہو گیا خواہ وہ مومن تھا یا کافر۔(١)اس زمانہ میں اگر کوئی شخص ترس کھا کر عصبیت کی بنا پر بنی ہاشم کی مدد کرنا چاہتا تھا تو وہ قریش سے چھپا کر ہی کوئی چیز ان تک پہنچا تا تھا۔ اس زمانہ میں بنی ہاشم اور رسولۖ نے بہت سختی برداشت کی ، بھوک ، تنہائی اور نفسیاتی جنگ جیسی تکلیف دہ سختیاں تھیں خدا نے قریش کی اس دستاویز پرجس کو انہوں نے خانہ کعبہ میں لٹکا رکھا تھا دیمک کو مسلط کر دیا چنانچہ دیمک نے باسمک اللھم کو چھوڑ کر ساری عبارت کو کھا لیا۔خدا نے اپنے نبی ۖ کو خبر دی کہ دستاویز کو دیمک نے کھا لیا، رسولۖ نے اپنے چچا ابو طالب سے بتایا۔ جناب ابو طالب رسولۖ کو لیکر مسجد الحرام میں آئے قریش نے انہیں دیکھ کر یہ خیال کیا کہ ابو طالب اب…………..١۔سیرت نبویہ ج١ ص ٣٥٠، اعیان الشیعہ ج١ ص ٢٣٥۔رسالت کے بارے میں اپنے موقف سے ہٹ گئے ہیں لہذا اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالے کرنے کے لئے آ رہے ہیں، لیکن ابو طالب نے ان سے فرمایا: میرے اس بھتیجے نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ خدا نے تمہاری دستاویز پر دیمک کو مسلط کر دیا ہے اور اس نے اللہ کے نام کے علاوہ ساری دستاویز کو کھا لیا ہے اگر یہ قول سچا ہے تو تم اپنے غلط فیصلہ سے دست بردار ہو جائو اور اگر یہ (معاذ اللہ) جھوٹا ہے تو میں اسے تمہارے سپرد کر دونگا….انہوں نے کہا: تم نے ہمارے ساتھ انصاف کیا۔ انہوں نے دستاویز کو کھولا تو اسے ویسا ہی پایا جیسا کہ رسولۖ نے خبر دی تھی شرم و حیا سے ان کے سر جھک گئے۔(١)یہ بھی روایت ہے کہ قریش میں سے کچھ بزرگوں اور نوجوانوں نے بنی ہاشم سے اس قطع تعلقی پر ان کی مذمت کی اور غارمیں ان پر گزرنے والی مصیبتوں کو دیکھ کر انہوں نے اس دستاویز کو پھاڑ کر پھینک دینے اور بائیکاٹ کو ختم کرنے کا عہد کیا انہوںنے اس دستاویز کو کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اسے دیمک نے کھا لیا ہے۔(٢)
عام الحزنبعثت کے دسویں سال قریش شعب ابی طالب سے باہر آئے اب وہ اور زیادہ سخت ، تجربہ سے مالا مال اور اپنے اس مقصد کی طرف بڑھنے میں اور زیادہ سخت ہو گئے تھے کہ جس کو انہوں نے جان سے عزیز سمجھ رکھا تھا اور یہ طے کر رکھا تھا کہ ہر مشکل سے گزر جائیں گے لیکن اس مقصد کو نہیں چھوڑ یں گے۔ اس اقتصادی پابندی کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کو بہت شہرت ملی، اسلام جزیرہ نما عرب کے گوشہ گوشہ میں مشہور ہو گیا، رسولۖ کے سامنے بہت سی دشواریاں تھیں ان میں سے ایک یہ بھی دشواری تھی کہ مکہ سے باہر دوسرے علاقوں میں اپنے مقاصد کو سمجھایا جائے ،اور دوسرے علاقوں میں محفوظ مراکز قائم کئے جائیں تاکہ وہاںسے اسلام کی تحریک آگے بڑھ سکے۔…………..١۔تاریخ یعقوبی ج٢ ص٢١، طبقات ابن سعد ج١ ص ١٧٣، سیرت نبویہ ج١ ص ٣٧٧۔٢۔سیرت نبویہ ج١ ص٣٧٥ تاریخ طبری ج٢ ص ٤٢٣۔جب ابو طالب کا انتقال ہو گیا تومکہ میں اسلام کی تبلیغ کی راہ میں بہت زیادہ دشوار یاں پیش آئیں کیونکہ رسولۖ اور رسالت کا طاقتور محافظ اور رسالت کا وہ نگہبان اٹھ گیا تھا جس کی اجتماعی حیثیت تھی ان کے بعد رسولۖ کا سہارا ام المومنین جناب خدیجہ تھیں ان کابھی انتقال ہوگیا چونکہ ان دونوں حوادث کی وجہ سے تبلیغ کی راہ شدید طور پر متاثر ہوئی تھی لہذا رسولۖ نے اس سال کا نام’عام الحزن’ یعنی غم کا سال رکھا۔’مازالت قریش کاعة منی حتی مات ابو طالب'(١)جب تک ابو طالب زندہ تھے قریش میرے قریب نہیں آتے تھے۔رسولۖ کے خلاف قریش کی جرأت اس وقت سے زیادہ بڑھ گئی تھی جب قریش میں سے کسی نے رسولۖ کے سر پر اثنائے راہ میں خاک ڈال دی تھی۔ جناب فاطمہۖ نے روتے ہوئے اس مٹی کو صاف کیا۔ آنحضرت ۖنے فرمایا:’یا بنیة لا تبکی فان اللہ مانع اباک’ (١)بیٹی رؤئو نہیں بیشک خدا تمہارے باپ کی حفاظت کرے گا۔
معراجاسی عہد میں رسولۖ کو معراج ہوئی تاکہ رسولۖ مقاومت کے طویل راستہ کو طے کر سکیں اور آپۖ کی گذشتہ محنت و ثابت قدمی کی قدر کی جاسکے اور شرک و ضلالت کی طاقتوں کی طرف سے جو آپۖ نے تکلیفیں اٹھائی تھیں ان کا بھی مداویٰ ہو جائے۔ لہذا خدا آپۖ کو آسمانوں کی بلندیوں پر لے گیا تاکہ آپۖ کو وسیع کائنات میں اپنے ملک کی عظمت دکھائے اور اپنی خلقت کے اسرار سے آگاہ کرے اور نیک و بد انسان کی سر گذشت سے مطلع کرے۔یہ رسولۖ کے اصحاب کا امتحان بھی تھا کہ وہ اس تصور و نظریہ کو کس حد تک برداشت کر سکتے ہیں کہ جس کے…………..١۔ کشف الغمہ ج١ ص ٦١، مستدرک حاکم ج٢ ص ٦٢٢۔تحت و اپنے رسولۖ وقائد کے دوش بدوش ہو کر اس لئے لڑ رہے ہیں تاکہ پیغامِ خدا لوگوں تک پہنچ جائے اور صالح و نیک انسان وجود میں آجائے یقینا یہ آپۖ کے ان اصحاب کے لئے سخت امتحان تھا جن کے نفس کمزور تھے۔قریش معراج کے بلند معنی و مفہوم کو نہیں سمجھ سکے چنانچہ جب رسولۖ نے انہیں معراج کا واقعہ بتایا تو وہ معراج کی مادی صورت ، اس کے ممکن ہونے اور اس کی دلیلوں کے بارے میں سوال کرنے لگے کسی نے کہا: قافلہ ایک مہینے میں شام سے لو ٹتا ہے اور ایک مہینہ میں شام جاتا ہے ۔ اور محمد ایک رات میں گئے بھی اور لوٹ بھی آئے؟! رسولۖ نے ان کے سامنے مسجد اقصی کی تعریف و توصیف بیان کی اور یہ بتایا کہ آپۖ کا گزر ایک قافلہ والوں کی طرف سے ہوا جو اپنے گمشدہ اونٹ کو ڈھونڈ رہے تھے ان کے سامان سفر میں پانی کا ظرف تھا جو کھلا تھا آپۖ نے اسے ڈھانک دیا۔انہوں نے دوسرے قافلہ کے بارے میں سوال کیا تو آپۖ نے فرمایا: میں اس کے پاس سے تنعیم میں گذرا تھا، آپۖ نے انہیں اس قافلہ کے اسباب اور ہیئت کے بارے میں بھی بتایا، نیز فرمایا: تمہاری طرف ایک قافلہ آ رہا ہے جو صبح تک پہنچ جائے گا۔ چنانچہ جس چیز کی آپۖ نے خبر دی تھی وہ حرف بحرف پوری ہوئی۔(٢)…………..١۔سیرت نبویہ ج١ ص ٤١٦، تاریخ طبری ج٢ ص ٤٢٦۔٢۔ سیرت نبویہ ج١ ص ٣٩٦۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.