مکہ کی زندگی میں تحریک رسالت کے مراحل

234

١۔ ایمانی خلیوں کی ساختپہلی وحی کے نازل ہونے کے بعد، قرآنی آیتیں بتدریج آ پ پر نازل ہونے لگیں، شروع میںسورۂ مزمل کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں تو رسولۖ نے اسلامی رسالت کی نشر و اشاعت اور اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لئے درج ذیل اقدامات کا ارادہ کیا، آپۖ کے لئے ضروری تھا کہ پیش آنے والی مشکلوں اور دشواریوں سے نمٹنے کے لئے خود کو آمادہ کر یں اور عزم بالجزم کے ساتھ کام کریں۔سب سے پہلے آپ نے اپنے گھر والوں کو اسلام کی دعوت دی۔ جناب خدیجہ کا رسولۖ کی تائید کرنا تو فطری بات تھی کیونکہ انہوں نے آپۖ کے ساتھ ایک طویل عمر گزاری تھی اور آپۖ کے اندر اخلاق کی بلندیوں اور روح کی پاکیزگی و بلند پروازی کا مشاہدہ کیا تھا۔اپنے چچا زاد بھای علی بن ابی طالب کو دعوت اسلام دینے میں بھی آپۖ کو زحمت نہیں کرنی پڑی کیونکہ ان کے سینہ میں طیب و طاہر دل تھا۔ علی نے کبھی بتوں کی پرستش نہیں کی تھی چنانچہ انہوں نے فوراً نبیۖ کی تصدیق کی اس طرح آپ مسلم ِ اول قرار پائے۔(١)پھر رسولۖ کے لئے حضرت علی کاا نتخاب بالکل صحیح تھا کیونکہ ان میں طاعت و فرمانبرداری کا جو ہر بھی تھا اور…………..١۔ السیرة النبویہ، ابن ہشام ج١ص ٢٤٥، باب علی بن ابی طالب۔وہ قوی و شجاع بھی تھے اور رسولۖ کو ایک مددگار و پشت پناہ کی شدید ضرورت تھی، حضرت علی تبلیغِ رسالت میں شروع ہی سے ایک پشت پناہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ رسالت کی چشم بینااور تبلیغ کی زبان گو یا تھے۔سب سے پہلے آپ ہی نے اسلام ظاہر کیا کہ آپ رسولۖ کے ساتھ غار حراء کی تنہائی میںبھی رہتے تھے، آپ کے بعد جناب خدیجہ ایمان لائیں اور سب سے پہلے انہیں دونوں نے خدا کی وحدانیت کا اقرار کرکے رسولۖ کے ساتھ نماز پڑھی یہ دونوں بھی رسولۖ کے مانند، شرک و ضلالت کی طاقتوں کیلئے(١) رکاوٹ تھے ان کے بعد زید بن حارثہ مسلمان ہوئے یہ نیک لوگوں کی جماعت تھی اور یہ وہ افراد تھے جن سے اسلامی معاشرہ وجود میں آیا۔

٢۔ مکی عہد کے ادواررسولۖ کی تبلیغ کم سے کم تین ادوار سے گزری ہے تب جاکے پہلی اسلامی حکومت کی تشکیل کے حالات فراہم ہوئے وہ ادوار درج ذیل ہیں:١۔ پہلے دور میں اسلامی رسالت کا مرکز و پائے تخت بنایا بعض لوگوں نے اس دور کو مخفیانہ تبلیغ، یا دعوتِ خاص کے عنوان سے بھی یاد کیا ہے ۔٢۔ دوسرے دور میں آپۖ نے محدود پیمانہ پر قرابتداروں کو اسلام کی دعوت دی اور محدود طریقہ سے بت پرستوں سے مقابلہ کیا۔٣۔ اس دور میں آپۖ نے عام طریقہ سے جنگ کی۔

٣۔اوّلین مرکز کی فراہمی کا دورجب خداوند عالم نے اپنے نبیۖ کو یہ حکم دیا کہ قیام کریں اور لوگوں کو ڈرائیں (٢)تو آپۖ نے لوگوں کو اسلام…………..١۔ اسد الغابہ ج٤ ص ١٨، حلیة الاولیائ، ج١ ص٦٦، شرح بن ابی الحدید ج٣ ص ٢٥٦، مستدرک الحاکم ج٣ ص ١١٢۔٢۔سورۂ مدثر کی ابتدائی آیتیں۔قبول کرنے کی دعوت دیتے ہوئے ایک ایسی با ایمان جماعت بنانے کی کوشش کی جو معاشرہ کی ہدایت کے لئے مشعل بن جائے۔ اس طرح تقریباً تین سال گذر گئے۔ رسالی و پیغامی تحریک، خطرات و مشکلات میںلپٹی ہوئی تھی لیکن رو بہ استحکام و تکامل پذیر تھی۔ اس مرحلہ میں رسولۖ کا طرز تبلیغ یہ تھا کہ آپ نے اپنے پیرئوں کو ان کے پہلے رجحان جغرافائی اعتبار سے مختلف قسم کے اختیارات ان کے سپرد کئے تاکہ آپ کی رسالت وسعت پذیر ہو اور جہاں تک ممکن ہو سکے معاشرہ میں اس کو فروغ دیا جائے۔بعثت کے ابتدائی زمانہ میں کچلے ہوئے افراد اور ناداروں نے آپ کی دعوت اسلام کو قبول کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام اعلیٰ زندگی اور امن و امان کا پیغام لایا تھا۔ شرفاء میں ان لوگوں نے آپ کی دعوت کو قبول کیا کہ جو پاکیزہ سرشت اور عقل سلیم کے حامل تھے۔جابر و سرکش قریش اس پیغام کی ہمہ گیری اور وسعت پذیری کا اندازہ نہیں کر سکے بلکہ انہوں نے یہ خیال کیاکہ یہ تحریک دیرپا نہیں ہے، چند دنوں کے بعد مٹ جائے گی لہذا انہوں نے اس تحریک کو اس کے ابتدائی زمانے ہی میںمٹانے کے سلسلہ میں کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا۔رسولۖ نے اسی مختصر وقت میں اپنے اوپر ایمان لانے والوں میں کچھ کو فعال بنایا اور اس پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری ان کے سپرد کی تاکہ یہ پیغام دوسرے لوگوں تک پہنچ جائے، یہ لوگ اپنے اسلام کے بارے میں بڑے حساس اور اپنے ایمان پر یقین رکھنے والے تھے انہوں نے شرک کے اس من گھڑت عقیدہ و طریقہ کو ٹھکرا دیا تھا جس پر ان کے آباء و اجداد تھے اور ان کے اندر ایسی صلاحیت و طاقت پیدا ہو گئی تھی کہ یہ رسالت کے آثار کوعلیٰ الاعلان اپنا سکتے تھے۔روایت ہے کہ اس عہد میں نماز عصر کے وقت رسولۖ اور ان کے اصحاب مختلف گروہوں میں چلے جاتے تھے اکیلے اور دو، دو کرکے نماز پڑھتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ دو مسلمان مکہ کے ایک خاندان کے درمیان نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کے دوا فراد نے انہیں اس سلسلہ میںطعن و تشنیع کی ، نتیجہ میں مار پیٹ ہوئی اور یہ دونوںواپس لوٹ آئے۔(١)اس کے بعد آئے دن مشرکوں سے ایسے ٹکرائو ہونے لگے تو سلسلہ عبادت کو جاری رکھنے کے لئے رسولۖ چھپ کر اور قریش کی نظر سے بچ کر عبادت کرنے لگے اس زمانہ میں زید بن ارقم کا گھر مسلمانوں کے لئے بہترین پناہ گاہ تھا۔(٢)

٤۔ پہلا مقابلہ اور قرابتداروں کو ڈرانجب جزیرہ نما عرب کے اطراف میں اسلام کی خبر عام ہوگئی اور جب ایک مومن گروہ روحی استقلال کا مالک و حامل ہو گیااور اپنے روحی استحکام کے لحاظ سے معرکہ میں اترنے کا اہل بن گیا تو اسلام کی دعوت کو مرحلۂ اعلان میں داخل ہونے کی منزل تھی اور اس مرحلہ کا پہلا قدم اپنے قرابتداروںکو ڈرانا تھا کیونکہ اس معاشرہ پر قبائلی رسم و رواج کی چھاپ تھی لہٰذا بہتر یہی تھا کہ دوسروں کو ڈرانے سے پہلے اپنے قبیلے والوں کو ڈرائیں پس خدا کا حکم نازل ہوا۔(وانذر عشیرتک الاقربین )(٣) اے رسولۖ!اپنے قرابتداروںکو ڈرائو، اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت ۖ نے اپنے خاندان والوں کو بلایا اور ان کے سامنے رسالت اور مقصد نیز مستقبل میں رسالت کی وضاحت فرمائی ان لوگوں میں وہ بھی شامل تھا جس سے خیر کی امید اور ایمان کی پوری توقع تھی، جب ابو لہب نے کھڑے ہو کر کھلم کھلا اپنی دشمنی کا اظہار کیا تو ابو طالب نبیۖ کی پشت پناہی اور ان کی رسالت کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔روایت ہے کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو رسولۖ نے حضرت علی سے فرمایا کہ کھانے کا بند و بست کرو، کھانا تیار ہو گیا تو آپۖ نے اپنے خاندان والوں کو دعوت دی، یہ چالیس اشخاص تھے۔ رسولۖ نے ابھی اپنی…………..١۔ انساب الاشراف ج١ ص١١٧، سیرت حلبیہ ج١ ص ٤٥٦۔٢۔ سیرت حلبیہ ج١ ، اسد الغابہج٤ ص ٤٤۔٣۔شعرائ: ٢١٤۔گفتگو شروع ہی کی تھی کہ آپۖ کے چچا عبد العزیٰ-ابولہب-نے آپ کی گفتگو کا سلسلہ منقطع کر دیا اور آپ ۖ کو تبلیغ کرنے اور ڈرانے سے روکا۔ رسولۖ کا مقصد پورا نہ ہو سکا دعوت میں آنے والے چلے گئے دوسرے دن رسولۖ نے پھر حضرت علی کو کھانا تیار کرنے کا حکم دیا اور اپنے خاندان والوں کو دعوت دی، جب وہ کھانا کھا چکے تو آپۖ نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا:’یا بنی عبد المطلب انی وا اللہِ ما اعلم شاباًفی العرب جاء قومہ بافضل مما جئتکم بہ انی جئتکم بخیر الدنیا والأخرة و قد امرنی اللّہ عزّ و جلّ ان ادعوکم الیہ فایکم یؤمن بی و یؤازرنی علیٰ ھذا الامر علیٰ ان یکون اخی و وصی و خلیفتی فیکم؟’اے عبد المطلب کے بیٹو! خدا کی قسم مجھے عرب میں کوئی ایسا جوان نظر نہیں آتا جو اپنی قوم کے لئے اس سے بہتر پیغام لایا ہو جو میںتمہارے لئے لایا ہوں، میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی نیکیاں لایا ہوں خدا نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اس کی طرف بلائوں اب یہ بتائو کہ اس سلسلہ میں تم میں سے میری مدد کون کرے گا؟ تاکہ وہ تمہارے درمیان میرا بھائی، میرا وصی اور میرا خلیفہ بن جائے۔آپۖ کی بات کا کسی نے کوئی جواب نہ دیا صرف علی ابن ابی طالب یہ کہتے ہوئے اٹھے: ‘انا یا رسول اللّہ اکون وزیرک علیٰ ما بعثک اللّہ’ اے اللہ کے رسولۖ جس چیز پر خدانے آپ کو مبعوث کیا ہے میںاس میں آپ کا وزیر ہوں۔ رسولۖ نے فرمایا: بیٹھ جائو! اور پھر آنحضرت ۖ نے وہی جملہ دہرایا اس بار بھی کسی نے کوئی جواب نہیں دیا علی نے آپ کی آواز پر لبیک کہا اور آپ کی مدد و پشت پناہی کا اعلان کیا تو رسولۖ نے اپنے خاندان کے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا:’ان ھذا اخی و وصی و خلیفتی فیکم ( او علیکم) فاسمعوا لہ و اطیعوا’بے شک یہ میر ابھائی ہے اور تمہارے درمیان یہ میرا وصی و خلیفہ ہے اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، اس کے بعد سارے حاضرین اٹھ گئے اورمذاق اڑاتے ہوئے ابو طالب کو مخاطب کرکے کہنے لگے: تمہیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔(١)

٥۔ دعوت عامپہلے مرحلہ میں رسولۖ نے بہت احتیاط سے کام لیا اور براہ راست مشرکوں اور بت پرستوں کے مقابلہ میں آنے سے پرہیز کرتے رہے اسی طرح مسلمانوںنے بھی احتیاط سے کام لیا کیونکہ اس سے خود آپ کے لئے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے خطرہ بڑھ جاتا۔جب آپ ۖ نے بنی ہاشم کو نئے دین کی طرف بلایا تو عرب قبائل میں اس کو بہت اہمیت دی گئی، اس سے ان پر یہ بات آشکار ہو گئی کہ محمدۖ نے جس نبوت کا اعلان کیا ہے اور جس پر بعض لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ بر حق و سچی ہے ۔بعثت کے پانچ یا تین سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد خدا کی طرف سے آپ کو یہ حکم ہواکہ رسالت الٰہیہ کا کھل کے اعلان کریںاور تمام لوگوں کو خدا سے ڈرائیںتاکہ دعوت اسلام عام ہو جائے اور چند افراد میں محدود نہ رہے ، ابھی تک خفیہ طریقہ سے دعوت دی جاتی تھی اب علیٰ الاعلان دعوت دی جائے۔ لہذا آپۖ نے تمام لوگوں کو اسلام قبول کرنے اور ایک اکیلے خدا پر ایمان لانے کی دعوت دی ۔ خدا نے درج ذیل آیت میں اپنے نبیۖ سے یہ وعدہ کیا کہ دشمنوں اور مذاق اڑانے والوں کے مقابلہ میں ہم تمہیں استوار و ثابت قدم رکھیں گے چنانچہ ارشاد ہے :(فاصدع بما تؤمروا عرض عن المشرکین، انا کفیناک المستھزئین)(٢)جس چیز کا آپ کو حکم دیا جا رہا ے اسے کھل کے بیان کیجئے اور مشرکین کی قطعاًپروانہ کیجئے آپ کامذاق اڑانے والوں کے لئے ہم کافی ہیں۔…………..١۔ یہ حدیث بہت سی کتابوں میں مرقوم ہے سب کی عبارتیں ملتی جلتی ہیں، تاریخ طبری ج٢ ص ٤٠٤، سیرة حلبیہ ج١ ص ٤٦٠ شرح نہج البلاغہ ج١٣ ص٢١٠، حیات محمد ص ١٠٤، مولفہ محمد حسین ہیکل طبع اول۔٢۔ حجر: ٩٤ و ٩٥۔رسولۖ نے حکم خدا کے تحت اور عزم بالجزم کے ساتھ علیٰ الاعلان تبلیغ شروع کی ، شرک و شر پسند طاقتوں کو چیلنج کیا، کوہِ صفا پر تشریف لے گئے اور قریش کو آواز دی وہ آپۖ کے پاس آئے تو فرمایا:’ارائیتکم ان اخبرتک ان العدو مصبحکم او ممسیکم ما کنتم تصدقوننی'(١)اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے تمہارے دشمن نے پڑائو ڈال رکھا ہے جو صبح ہوتے ہی تم پر ٹوٹ پڑے گا تو کیا تم میری تصدیق کروگے؟انہوں نے کہا: ہاں! تو آپۖ نے فرمایا: فانی نذیر لکم بین ید عذاب شدید، آگاہ ہو جائو میں تمہیں شدید عذاب سے ڈراتاہوں۔ یہ سن کر ابو لہب کھڑا ہوا تاکہ آنحضرتۖ کی باتوں کی تردید کرے کہنے لگا: وائے ہوتم پر کیا تم نے ہمیں یہی کہنے کے لئے بلایا ہے؟ اس وقت خدا کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی:(تبت یدا ابی لھب وتب) (٢)ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہو جائے۔یہ بہت بڑا خطرہ تھا جس نے قریش کو پریشان کر دیا تھا، کیونکہ یہ ان کے تمام معتقدات کے خلاف کھلا چیلنج تھا اور انہیں رسولۖ کے حکم کی مخالفت سے ہوشیار کر دیا گیا تھا۔ نئے دین کا معاملہ اہل مکہ کے لئے واضح ہو گیا بلکہ پورے خطۂ عرب میں آشکار ہو گیا اور انہیں یہ محسوس ہوا کہ اب انسانیت کی ڈگر میں حقیقی انقلاب رونما ہونے والا ہے اب آسمانی دستورات کے مطابق انسانیت کے اقدار، معیار اور اجتماعی حیثیت بلند ہو گی۔ شر اور برائی کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائیگا، شرک و تمرد اور سرکشی کے پیشوائوں سے مقابلہ، حقیقی مقابلہ تھا، اس میں اتفاق و اشتراک کے پہلو نہیں تھے۔اسی عہد میں کچھ عرب اور کچھ غیر عرب لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تھا، اس طرح مسلمانوں کی تعداد چالیس ہو گئی تھی اور قریش اس نو خیز تحریک کو محدود نہیں کر پارہے تھے کیونکہ مومنوں کا تعلق مختلف قبائل سے تھا، اس لئے قریش نے ابتداء میں صلح آمیز رویہ اپنایا، ابو طالب نے انہیں شائستہ طریقہ سے سمجھایا اور وہ واپس لوٹ گئے۔(٣)…………..١۔ المناقب ج١ ص ٤٦، تاریخ طبری ج٢ ص ٤٠٣۔ ٢۔ السد ،١٣۔سیرة ابن ہشام ج١ ص ٢٦٤ و ٢٦٥، تاریخ طبری ج٢ ص ٤٠٦۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.