خاندانی خوش بختی کے کچھ اصو ل

223

نظم و ضبطکہ یہ اتنا اہم ہے کہ امیرالمؤمنین (ع)نے اپنی آخری وصیّت میں اپنے بیٹے حسن اور حسین کو نزدیک بلا کر فرمایا: اوصیکم بتقوی اللہ و نظم امرکم۔(نہج البلاغہ) یعنی تقوی الہی اختیار کرو اور اپنے معاملات میں نظم و ضبط قائم کرو۔ روایات میں جسے تقدیر المعیشہ سے تعبیر کیا ہے کہ جس کی زندگی میں نظم وضبط موجود ہو بہت ساری مشکلات سے دور ہوگی اور جس کی زندگی میں نظم وضبط نہ ہو تو اپنی توانائی کو ضائع کردینے کے برابر ہے۔ بعض اوقات تو لوگوں کے گھروں میں کئی کئی نوکر اور خدمت گذار اور دیگر بہت سارے وسائل زندگی ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے گھر کا نظام نہیں چلاسکتے اور اوضاع خراب ہونے کی شکایت کرنے لگتے ہیں۔ خواتین کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیّت معاشی فکر کا حامل ہونا ہے ، کہ وہ جان لے کہ زندگی کی ضروریات کیا ہیں اور خاندانی امور اور اپنے اوقات کو کیسے منظم کیا جاتا ہے۔اگر ایسی گھر والی نہ ہو تو آپ کتنا ہی کیوں نہ کمائیں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بہت سے گھر والوں کی مشکل درآمد کی نہیں بلکہ استعمال میں بے نظمی ہے۔ جس طرح بڑی تعداد میں فوج موجود ہوں لیکن بد نظم ہوں تو ایک مختصر مگر منظم گروہ کے مقابلے میں اس کی شکست یقینی ہے۔امام صادق(ع) فرماتے ہیں: مسلمانوں کو تین چیزوں کے سوا کوئی اور اصلاح نہیں کرسکتی :• دین سے آگاہی۔• مصیبت اور سختیوں کے وقت استقامت و برد باری۔• زندگی میں نظم و ترتیب ۔ان کلمات سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ ہماری زندگی کے ہر شعبے خواہ معاشی زندگی ہویامعاشرتی،سیاسی ہو یا سماجی ،میں نظم وضبط بہت ضروری ہے۔
اعتماد کرو تہمت سے بچو۔اجتماعی زندگی اعتماد اور خوش گمانی کا محتاج ہے اگرچہ مسلمانوں کے بارے میں خوش گمان ہونا ضروری ہے کہ قرآن کا فرمان ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ 1یعنی اے ایمان والو!بہت سی بدگمانیوں سے بچوبعض بدگمانیاں یقیناً گناہ ہیں اورایک دوسرے کے عیب تلاش نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت بھی نہ کرو کہ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے یقیناً تم اسے برا سمجھو گے تو اللہ سے ڈرو کہ بیشک اللہ بہت بڑا توبہ کا قبول کرنے والا اور مہربان ہے ۔ایک مشترک اور خاندانی زندگی میں مرد اور عورت کوایک دوسرے پر اعتماد کرنا اور حسن ظن رکھنا چاہئے۔ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص مَنْ قَذَفَ امْرَأَتَهُ بِالزِّنَا خَرَجَ مِنْ حَسَنَاتِهِ كَمَا تَخْرُجُ الْحَيَّةُ مِنْ جِلْدِهَا وَ كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ شَعْرَةٍ عَلَى بَدَنِهِ أَلْفُ‏ خَطِيئَةٍ -2۔ پیامبر اسلام (ص) فرماتے ہیں: جو شخص اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے تو اس کے سارے نیک اعمال اس سے جدا ہونگے جس طرح سانپ اپنے خول سے الگ ہوتا ہے اور اس کے بدن پر موجود ہر بال کے بدلے میں ایک ہزار گناہ لکھا جائے گا۔وَ قَالَ ع: مَنْ قَذَفَ امْرَأَتَهُ بِالزِّنَا نَزَلَتْ عَلَيْهِ اللَّعْنَةُ وَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَ لَا عَدْلٌ -3 فرماتے ہیں: جوشخص اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگاتا ہے ، اس پر خدا کی لعنت پڑتی ہے اور اس سے نہ ایک درہم اور نہ ایک حسنہ قبول ہوتی ہے۔
پاکیزگی اور خوبصورتیاسلام پاکیزگی اور زیبائی کا دین ہے اس لئے نظافت اور پاکیزگی کی بہت زیادہ تاکید کرتا ہے۔امامصادق (ع)نے فرمایا: قَالَ مِنْ أَخْلَاقِ الْأَنْبِيَاءِ التَّنَظُّفُ وَ التَّطَيُّب -4 اس حدیث میں انبیاءالہی کی چارخصوصیات بیان ہوئی ہیں ان میں سے دو یہ ہیں: پاکیزگی اور خوشبو کا استعمال کرنا۔نظافت اور پاکیزگی پیامبروں کے اخلاق میں سے ہے۔ اپنے بدن اور لباس سے بدبو کو پانی کے ذریعے دورکرلو ، کیونکہ خداوند گندھے لوگوں سے بیزار ہے-5پیامبر (ص)نے فرمایا: جو بھی لباس پہن لے تو اسے پاک اور صاف رکھے -6 پاکیزگی کو اہمیت دینا اسلام کی معجزات میں سے شمار ہوتی ہے۔ اسلام نے اپنے اہم ترین احکام جیسے نماز وغیرہ پاکیزگی اور طہارت سے مشروط قرار دیا ہے۔ اسی لئے واجب غسل اور واجب وضو کے علاوہ مستحب وضو اور مستحب غسل کا بھی مختلف اوقات میں بڑی تاکید اور تشویق کیساتھ حکم دیا ہے۔اس کے علاوہ ہفتے میں ایک بار ناخن کا تراشنا داڑھی کا اصلاح کرنا روزانہ کئی بار کلّی کرنا ،ناک میں پانی ڈالنا اور مسواک کرنا وغیرہ کو بہت اہمیّت دیتا ہے۔امام موسی کاظمA ارشاد فرماتے ہیں: کھانے کے بعد اخلال کریں تاکہ کھانے کے زرّات دانتوں کے درمیا ن باقی نہ رہے۔اخلال ایک قسم کی صفائی ہے اور صفائی ایمان کا جز ہے اور جو صاحب ایمان ہو اسے بہشت میں داخل کردیتا ہے -7اسی طرح عورتیں بھی اپنے شوہر کو اسی طرح صاف ستھرا دیکھنا چاہتی ہیں جس طرح شوہر اسے دیکھنا چاہتا ہے۔
ایک دوسرے کا خیالاگر کوئی گھر میں اکیلا زندگی گزارتا ہوتووہ آزاد ہے گھر میں جہاں بھی جس طرح بھی سوئے، کھائے، پڑھے، لباس پہنے یا نہ پہنے خاموش رہے یا شور مچائے۔ لیکن اس گھر میں اس کے علاوہ کوئی اور بھی رہنے لگے تو اسی قدر اس کی آزادی بھی محدود ہوتی جائے گی۔ اس کے بعد وہ پہلے کی طرح شور نہیں مچاسکتا، بلکہ اس پر لازم ہے دوسرے کا خیال رکھے ۔ خواہ وہ دوسرا شخص اس کی بیوی یا بچہ ہو یا کوئی اور۔ شوہر اپنے آپ کو بیوی بچوں کا مالک نہ سمجھے بلکہ ہر ایک کے جزبات کا خیال رکھنا چاہئے ۔
اچھی گفتگوہر کسی کیساتھ خصوصاً اہل خانہ کیساتھ اچھی اور پیاری گفتگو کرنی چاہئے۔ پیامبراکرم (ص)نے فرمایا : بدترین شخص وہ ہے جس کی بد کلامی اور گالی گلوچ کی وجہ سے اس کے قریب کوئی نہ آئے-8۔امام سجاAد فرماتے ہیں: اچھی اور بھلی گفتگو رزق وروزی اور عزّت بڑھاتی ہے اوردوسروں کے نزدیک محبوب بناتی ہے اور بہشت میں داخل ہونے کا سبب بنتی ہے ۔ 9
انسان لالچی نہ ہومیاں بیوی کے درمیان کدورت اور دشمنی پیدا ہونے کا ایک خطرناک ذریعہ اپنے آپ کو دوسروں کیساتھ مقایسہ کرنا ہے،جب دوسروں کی زندگی کی ظاہری کیفیت اپنے سے بالاتر دیکھتی ہے تو اپنے شوہر کو پست اور دوسروں کو اپنے شوہر سے بہتر تصوّر کرنے لگتی ہے۔اور شوہر بے چارہ بھی اسے اپنی بات نہیں منوا سکتا۔ایسے موقع پر بیوی کو چاہئے کہ جلدی فیصلہ نہ کرے۔ہر کسی میں بہت ساری خوبیوں کیساتھ خامیاں بھی ضرور پائی جاتی ہیں۔اور کوئی بھی ہرعیب و نقص سے خالی نہیں ہوتا ۔اور یہ بھی سمجھ لے کہ شیطان آپ کو اسطرح ورغلارہا ہے۔پس اپنی قسمت اور تقدیر پر راضی رہیں ۔چنانچہ پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں اگر کوئی انہیں اپنے اندر جمع کرلیں تو دنیا اور آخرت کی بھلائی اسے مل گئی :• اپنی قسمت پر راضی اور خوش رہنا .• مصیبت اوربلا کے موقع پر صبر کرنا۔• آرام اور سختی کے دوران دعا کرنا۔ 10ایسے مواقع پر اپنے سے کمتر لوگوں پر نظر رکھنا چاہئے تاکہ امیدوار اور خوش رہے۔ اور خدا کی نعمتوں پر شکر کرتے رہے۔اگر خدا نے سلامتی دی ہے،دین دیا ہے ۔اچھا اخلاق دیا ہے اور اچھی بیوی دی ہے تو پھر ان پر شکر کرنا اور افتخار کرنا چاہئے۔چنانچہ حضرت سلمان فارسیS فرماتے ہیں کہ رسولخدا (ص) نے مجھے نصیحت کی :• اپنے سے کمتر پر نظر رکھو۔• فقیروں اور مسکینوں سے محبت کرو۔• حق بات کہو اگرچہ تلخ ہی کیوں نہ ہو۔• اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھو ۔• کبھی بھی دوسروں سے کوئی چیز نہ مانگو۔• لاحول ولا قوّة الّا باللہ کو زیاد ہ پڑھا کروجو بہشتی خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ 11
احساس بیداریعقل اور احساس انسان کے اندر مسائل کے سمجھنے اور درک کرنے کے دو اہم ذریعے ہیں ۔ لیکن اکثر لوگوں میں عقل کی نسبت احساسات کی تأثیر زیادہ ہے ۔ اس احساس کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے جس سے خاندان میں صلاح مشورے ،باہمی تفاہم اور محبت زیادبڑھ جاتی ہے۔بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بیوی سے ایسی باتیں کر بیٹھتا ہے کہ وہ احساس کمتری یا حقارت کا شکار ہوجاتی ہے۔ ایسے موقع پر شوہر کو احتیاط سے کام لینا چاہئے۔
احساس غمخواریمیاں بیوی دونوں ازدواج کی حقیقت اور سعادت و خوش بختی سے آگاہ ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کی بنیاد ایک دوسرے کے ساتھ عشق و محبت کرنے پر استوار ہے۔ اور عشق و محبت پیدا کرنے کا اہم ترین عامل ایک دوسرے کے ساتھ غمخواری اور ہمدردی کا احساس دلانا ہے ۔ زندگی کی تلخیوں اور سختیوں میں بھی اسی طرح ایک دوسرے کو شریک سمجھیں جس طرح خوشیوں میں سمجھتے ہیں۔ اس وقت احساس ہوگا کہ زندگی کس قدر شیرین اور ہم آہنگ ہے۔ ایک دوسرے کی مدد کریں اور شوہریہ نہ کہیں کہ یہ تیرا کام ہے وہ میرا کام ۔ میرے ذمے صرف گھر سے باہر کا کام ہے ۔ لیکن دوسری طرف سے ایسا بھی نہ ہو کہ اگر شوہر گھریلو کاموں میں بیوی کی مدد کرنا شروع کرے تو وہ اس کی محبت کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے دوسرے دن اس سے جھاڑو لگوانا شروع کرے۔
ہرگز ناامید نہ ہونااگر خدانخواستہ خاندان میں کوئی مشکل پیش آئے خواہ بیوی کی طرفسے ہو یا شوہر کی طرف سے۔ دونوں کو حوصلے سے اس کا مقابلہ کرکے مشکل کو حل کرنا چاہئے۔اور کسی بھی وقت مایوس اور ناامید نہیں ہونا چاہئے۔اور نہ یہ سوچنے لگے کہ ہماری خوشبختی اور سعادتیں ختم ہوگئیں۔ نہیں ایسا نہیں۔ مشکلات اور سختیاں ابتدائی دنوں میں سنگین محسوس کرنے لگیں گے لیکن زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ سنگینیاں بھی ختم ہوجائیں گی۔ اگر بیوی بداخلاق ہو یا اس میں اور کوئی عیب موجود ہو تو شور وشرابہ کرنے کے بجائے وسعت فکر و نظر سے اس کا حل تلاش کرے۔ اور صبر سے کام لے جو انسان کی راہ سعادت میں بہت ہی مؤثر ہے۔ لہذا خداتعالی نے صبر کرنے والوں کو خوش خبری سناتے ہوئے فرمایا: وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ-12اور ہم تمہیں کچھ خوف ، بھوک اور مال و جان اور ثمرات (کے نقصانات)سے ضرور آزمائیں گے۔ اوران صبر کرنے والوں کو خوش خبری دیجئے۔جو مصیبت میں مبتلا ہونے کی صورت میں کہتے ہیں کہ ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ الصَّبْرُ مِنَ الْإِيمَانِ بِمَنْزِلَةِ الرَّأْسِمِنَ الْجَسَدِ فَإِذَا ذَهَبَ الرَّأْسُ ذَهَبَ الْجَسَدُ كَذَلِكَ إِذَا ذَهَبَ الصَّبْرُ ذَهَبَ الْإِيمَانُ 13امامصادق (ع)نے فرمایا: صبر کا ایمان کے ساتھ وہی رابطہ ہے جس طرح سر کابدن سے۔ جس طرح سرکے بغیر بدن باقی اور سلامت نہیں رہ سکتااسی طرح صبر کے بغیر ایمان بھی بے معنی ہے۔ جی ہاں صبر کا پھل میٹھاہوتاہے۔ اور اپنے آپ کو صبر کی تلقین کرے تاکہ اس کا ثواب پالے۔ سورۂ العصر میں تو تاکید کیساتھ فرمایا: کہ صبر کی تلقین کرنے والے کے سوا سب خسارے میں ہیں۔
خوش اخلاق ہی خوش قسمتپیامبر اسلام (ص)نے فرمایا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص أَحْسَنُ النَّاسِ إِيمَاناً أَحْسَنُهُمْ خُلُقاً وَ أَلْطَفُهُمْ بِأَهْلِهِ وَ أَنَا أَلْطَفُكُمْ بِأَهْلِي -14 بہترین ایمان والا وہ ہے جس کا اخلاق بہترین ہواور اپنے گھر والوں کیساتھ زیادہ مہربان تر ہو اور میں تم میں سے سب سے زیادہ اپنے اہل وعیال کیساتھ زیادہ مہربان تر ہوں ۔ پھر فرمایا : قیامت کے دن اعمال کے محاسبہ کے وقت ترازو کے پلڑے میں اخلاق سے بہتر کوئی شئی نہیں ڈالی جا سکتی۔
خاندان میں بد اخلاقی کا نتیجہإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص خَرَجَ فِي جِنَازَةِ سَعْدٍ وَ قَدْ شَيَّعَهُ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ ص رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ قَالَ مِثْلُ سَعْدٍ يُضَمُّ قَالَ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنَّا نُحَدِّثُ أَنَّهُ كَانَ يَسْتَخِفُّ بِالْبَوْلِ فَقَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّمَا كَانَ مِنْ زَعَارَّةٍ فِي خُلُقِهِ عَلَى أَهْلِهِ ۔سعد بن معاذ جو رسول7کا خاص صحابی تھا ۔جب ان کا انتقال ہوا تو رسولخدا (ص)کے حکم سے اسے غسل و کفن دیا۔ اور خود بھی ان کی تشییع جنازے میں ننگے سرننگے پیر اور بغیر عبا کے شریک ہوئے کبھی دائیں طرف کندھا دیتے تو کبھی بائیں طرف۔ اور اپنے ہی دست مبارک سے اسے قبر میں اتارا اور قبر کو محکم طور پر تیار کیا اور برابر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں جانتا ہوں کچھ دنوں کے بعد سعد کا بدن سڑ جائے گا لیکن بندہ جو کام بھی کرے محکم کرے۔ فَقَالَتْ أُمُّ سَعْدٍ هَنِيئاً لَكَ يَا سَعْدُ قَالَ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ص يَا أُمَّ سَعْدٍ لَا تَحْتِمِي عَلَى اللَّهِ-15 اس وقت سعد کی ماں نے آواز دی :اے سعد! تمھیں جنّت مبارک ہو۔ پیامبر اسلام (ص)نے سختی سے فرمایا:اے سعد کی ماں خاموش رہو اور خدا پر اتنی جرأت نہ کر۔ ابھی سعد فشار قبر میں مبتلا ہے۔ قبرستان سے واپس آتے وقت اصحاب نے سوال کیا : یا رسول اللہ(ص) : آج سعد کے جنازے کیساتھ بالکل انوکھا کام کیا جو کبھی کسی کے جنازے کیساتھ نہیں کیا تھا۔ تو فرمایا: میں سر پیر برہنہ اسلئے تھا کہ ملائکہ بھی سر اور پا برہنہ اس کے جنازے میں شریک تھے۔ جبریل امینA ستّر ہزار فرشتے کیساتھ شریک تھے ۔ تو میں نے بھی ان کی اقتدا کرتے ہوئے نعلین اور ردا اتاری ۔اصحاب نے کہا آپ کبھی دائیں طرف اور کبھی بائیں طرف سے کاندھا دیتے تھے،تو آپ نے فرمایا: میرا ہاتھ جبریل Aکے ہاتھ میں تھا، جس طرف وہ جاتا تھا اس طرف میں بھی جاتا تھا۔اصحاب نے کہا : آپ نے نماز جنازہ پڑھائی اور میت کو خود قبر میں اتارا اس کے بعد آپ نے فرمایا : سعد فشار قبر میں مبتلا ہے! تو پیامبر اکرم7نے فرمایا: ہاں ، یہ اپنے خاندان کیساتھ بدخلقی سے پیش آتا تھا۔اس سے معلوم ہو ا کہ بداخلاقی فشار قبر کا باعث ہے۔سعد بن معاذ کو یہ شرف کیسے ملا؟ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّ النَّبِيَّ ص صَلَّى عَلَى سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَقَالَ لَقَدْ وَافَى مِنَ الْمَلَائِكَةِ سَبْعُونَ أَلْفاً وَ فِيهِمْ جَبْرَئِيلُ ع يُصَلُّونَ عَلَيْهِ فَقُلْتُ لَهُ يَا جَبْرَئِيلُ بِمَا يَسْتَحِقُّ صَلَاتَكُمْ عَلَيْهِ فَقَالَ بِقِرَاءَتِهِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ قَائِماً وَ قَاعِداً وَ رَاكِباً وَ مَاشِياً وَ ذَاهِباً وَ جَائِياً-16رسول خدا فرماتے ہیں کہ میں نے جبرئیل سے سوال کیا کہ اس میں کیا خوبی تھی کہ جس کی وجہ سے ملائکہ نے اس کے جنازے پر نماز پڑھائی ؟ تو جبرئیل نے فرمایا وہ ہمیشہ اور ہر حال میں خواہ وہ کھڑے ہوں یا بیٹھے ہوں ،پیدل ہو یا سوار ، آرہے ہوں یا جا رہے ہوں ؛ سورہ اخلاص کی تلاوت کیاکرتےتھے ۔
اچھے اخلاق کا مالک بنوجو شخص اپنے بیوی بچوں کے بارے میں سخت غصّہ دکھانے کو اپنی مردانگی سمجھتاہے تو وہ سخت غلط فہمی میں ہے۔پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا : بدترین شخص وہ ہے جس کی بد اخلاقی کی وجہ سے لوگ ڈر کے مارے اس کا احترام کرنے لگیں۔ خاندان کوئی جیل خانہ تو نہیں کہ جہاں غصّہ دکھائے اور گھر کے افراد کو ڈرائے اوردھمکائے بلکہ خاندان صلح و صفا عشق و وفا اور فداکاری کا گہوارہ ہے جہاں انسا ن کے جسم و روح کی پرورش ہوتی ہے۔
————1 ۔ حجرات ۱۲۔2 ۔ بحارالانوار، ج١٠٠، ص٢٤٩۔3 ۔ بحارالانوار، ج١٠٠، ص٢٤٩۔4 ۔ وسائل الشیعہ،ج۲۰، ص۲۴۶۔5 ۔ لئالی الاخبار،ج٤، ص١٨.6. مکارم الاخلاق، ص٤١.7 ۔ لئا لی الاخبار،ج٢،ص٣٢٢.8 ۔ بحار،ج ١٦،ص٢٨١۔9 ۔ دارالسلامِ،ج٣،ص٤٢٦۔10 ۔ اصل کافی۔ج٤،ص٣٥٢۔11 ۔ وسائل الشیعہ۔ج٦،ص٣٠٩۔12 ۔ بقرہ ۱۵۵۔۱۵۶۔13 ۔ الکافی،ج۲، ص۸۹۔14 ۔ وسائل الشیعہ،ج۱۲، ص۱۵۳۔15 ۔ الکافی،ج۲، ص۲۳۶۔16 ۔ الکافی ج۲، ص۶۲۲۔

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.