حب دنیا کے نفسیا تی اور عملی آثار

154

حب دنیا سے انسان کے کردار وعمل پر بے شمار اثرات پڑتے ہیں جن میں سے ہم بعض آثار کی وضاحت پیش کررہے ہیں ۔

١۔طولانی آرزواسمیں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ لمبی آرزوئیں بھی حب دنیا کا ایک اثر ہیں ۔ کیونکہ جب انسان دنیا کا دلدادہ ہوجاتا ہے اور اس سے وابستہ ہوکر رہ جاتا ہے تو اسکی آرزو ئیں بھی بہت طولانی ہوجاتی ہیں یہ ہے تصویر کا پہلا رخ ۔تصویرکا دوسرا رخ !یہ ہے کہ جسکی آرزوئیں زیادہ ہو جاتی ہیں وہ موت کو بہت کم یاد رکھتا ہے اور آخرت کیلئے اسکی تیاری اور اسکا عمل کم ہوجاتا ہے جسکی طرف روایات میں با قاعدہ متوجہ کیا گیا ہے حضرت علی کے مندرجہ ذیل ارشادات ملاحظہ فرمائیں :(ما أطاٰل عبد الأمل،الا أساء العمل )(١)’کسی شخص نے اپنی آرزوئیں طولانی نہیںکیں مگر یہ کہ اس نے اپنا عمل خراب کرلیا’آپ ہی سے یہ بھی مروی ہے :(أکثرالناس أملاً،أقلّھم للموت ذکراً)(٢)’لمبی آرزو رکھنے والے لوگ موت کوسب سے کم یاد کرتے ہیں ‘آپ نے یہ بھی فرمایا ہے :(أطول الناس أملاً،أسوؤھم عملاً)(٣)’جسکی آرزوئیںسب سے زیادہ ہوتی ہیں اسکا عمل سب سے بدتر ہوتا ہے ‘تیسرارخ یہ ہے !کہ جسکی آرزوئیںلمبی ہوتی ہیں وہ انہیں کو اپنے لئے سکون واطمینان کا سبب سمجھ لیتا ہے جبکہ اس دنیا کو خود ہی قرار نہیں ہے ۔مگر وہ اس سے وابستہ ہوکر اسی سے مطمئن ہوجاتا ہے ۔جسکی تفصیل آپ مندرجہ ذیل سطروں میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں ۔

٢۔دنیا پر اعتماد اور اطمینانجیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ دنیا کے بارے میں لمبی لمبی آرزوئیں اسکی محبت اور اس سے خوش وخرم رہنے سے دنیا پر اطمینان و اعتمادپیدا ہوتا ہے جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے :(ان الذین لا یرجون لقاء نا ورضوا بالحیاة الدنیاواطمأنّوا بھا والذین ھم عن آیا تنا غافلون٭ اُولٰئک مأواھم النار بماکانوا یکسبون)(٤)…………..(١)بحار الا نوار ج٧٣ص١٦٦۔(٢)غررالحکم ج١ ص١٩٠۔(٣)گذشتہ حوالہ۔(٤)سورئہ یونس آیت ٧۔٨۔’یقینا جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے ہیں اور زندگانی دنیا پر راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں اور جو لوگ ہماری آیات سے غافل ہیں یہ سب وہ ہیں جنکے اعمال کی بناء پر انکا ٹھکانا جہنم ہے ‘دنیا کے اوپر اس جھوٹے بھروسہ کی وجہ سے انسان یہ سمجھتا ہے کہ ہمیشہ اسی دار دنیا میں رہنا ہے جبکہ یہ باقی رہنے والی نہیں ہے بلکہ یہ تو وہ پونجی ہے جو بہت جلد فنا کے گھاٹ اتر جائیگی۔درحقیقت دار قرار وبقاء تو جنت ہے ۔جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:(وفرحوا بالحیاة الدنیا وماالحیاةالدنیا فی الآخرة الامتاع)(١)’یہ لوگ صرف زندگانی دنیا پر خوش ہو گئے ہیں حالانکہ آخرت کے مقابلہ میں زندگانی دنیا صرف ایک وقتی لذ ت کا درجہ رکھتی ہے۔’یا دوسرے مقام پر ارشاد ہے :(یاقوم انما ھذہ الحیاة الدنیا متاع وان الآخرة ھی دارالقرار)(٢)’قوم والو! یاد رکھوکہ یہ حیا ت دنیا صرف چند روزہ لذت ہے اور ہمیشہ رہنے کا گھر صرف آخرت کا گھر ہے ‘مختصر یہ کہ دنیا ختم ہوجانے والی پونجی ہے مگر آخرت ہمیشہ باقی رہنے والاسرمایہ ہے جبکہ اسکے برخلاف جو لوگ دنیا پر بھروسہ کئے بیٹھے ہیں اور اس کی محبت ان کے دلوں میں بسی ہوئی ہے اور وہ اسی پر خوش ہیں وہ در حقیقت دنیا کی ابدیت اور بقاء کی خام خیالی کے دھوکہ میں مبتلا ہیں۔حضرت علی سے اس حدیث قدسی کی روایت کی گئی ہے کہ خداوند عالم نے ارشاد فرمایا ہے :(عجبت لمن یریٰ الدنیا وتصرّف أھلھا حالاً بعد حال،کیف یطمئن الیھا) (٣)…………..(١)سورئہ رعد آیت ٢٦۔(٢)سورئہ غافر آیت ٣٩۔(٣)بحارالانوار ج٧٣ص٩٧۔’مجھے اس شخص کے اوپر تعجب ہے جو دنیا اور اسکے الٹ پھیر کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا رہتا ہے پھر بھی وہ اس کے اوپر کیسے بھروسہ کرلیتا ہے ؟’یا خداوند عالم نے جناب موسی کی طرف یہ وحی نازل فرمائی تھی :(یاموسیٰ لا ترکن الیٰ الدنیا رکون الظالمین،ورکون من اتخذھا أُماً وأباً، واترک من الدنیامابک الغنیٰ عنہ)(١)’اے موسی دنیا سے اس طرح دل نہ لگائو جس طرح ظالمین دنیا کے دلدادہ ہیں یا جن لوگوں نے اس کو اپنی ماں یا اپناباپ سمجھ رکھا ہے اور دنیاکو ایسے ترک کردو جیسے تمہیں اسکی ضرورت ہی نہیں ہے ‘در حقیقت یہ ایک صاف اور شفاف تعبیر ہے کہ جس طرح ایک بچہ اپنے ماں باپ کے اوپر بھروسہ کرتا ہے اسی طرح بہت سارے لوگ دنیا پر بھروسہ رکھتے ہیں جبکہ انھیں اسکے تغیّرات کا بخوبی علم ہے ۔جبکہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو دنیا کے کھیل تماشے یا اسکی رنگینیوںاور اسباب راحت جیسے فضولیات کی اوقات کو بخوبی سمجھتے ہیں اور اس سے دھوکہ نہیں کھاتے اور یہ حضرات اسکی طرف نگاہ اٹھاکر دیکھنے کے بجائے حقیقی زندگی کی تلاش میں صراط مستقیم پر چلتے رہتے ہیں کیونکہ واقعی اور حقیقی زندگی در اصل آخرت کی زندگی ہے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :(وما ھذہ الحیاة الد نیا الا لھوولعب وان ا لدار الآخرة لہی الحیوان ۔۔۔)(٢)’اور یہ دنیاوی زندگی تو کھیل تماشے کے سوا کچھ نہیں اور آخرت کا گھر ہمیشہ کی زندگی کا مرکز ہے۔۔۔ ‘

٣۔دنیاوی زندگی کو آخرت پر مقدم کرنایہ بھی حب دنیا کا ہی ایک نتیجہ ہے کیونکہ جب انسان حد سے زیادہ محبت دنیا کا دلدادہ ہوجاتا…………..(١)بحارالانوارج١٣ص٣٥٤وج٧٣ص٧٣۔(٢)سورئہ عنکبوت آیت ٦٤۔ہے تو وہ اسکو آخرت پر ترجیح دینے لگتا جسکی طرف خداوند عالم نے قرآن مجید میں یوں اشارہ کیا ہے :(فأمّا من طغیٰ وآثرالحیاة الدنیا فانّ الجحیم ھی المأویٰ)(١)’پھرجس نے سرکشی کی ہے اور زندگانی دنیا کو اختیار کیا ہے جہنم اسکاٹھکاناہوگا'(بل تؤثرون الحیاة الدنیا والآخرةخیروأبقیٰ)(٢)’لیکن تم لوگ زندگانی دنیا کو مقدم رکھتے ہو جبکہ آخرت مقدم اور ہمیشہ رہنے والی ہے ‘در حقیقت ان لوگوں کو صرف دنیا چاہئیے اور دنیا کو آخرت پر اسی وقت ترجیح دی جاسکتی ہے کہ جب ان دونوں کے درمیان ٹکرائو پیدا ہوجائے کیونکہ یہ طے شدہ ہے کہ جب ان دونوں کے درمیان ٹکرائو پیدا ہوگا تو ان میں سے کسی ایک کو اختیارکرنا پڑیگا یعنی یا صرف دنیا کو لے لیا جائے اور یا صرف آخرت کو؟اور کیونکہ ان لوگوں نے آخرت کو چھوڑکر دنیا کو اپنا لیا ہے لہٰذا اب انہیں دنیاوی زندگی کے علاوہ کسی اور چیز کی خواہش نہیں ہے ۔جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے :(فأعرض عمن تولّیٰ عن ذکرنا ولم یرد الا الحیاة الدنیا)(٣)’لہٰذا جو شخص بھی ہمارے ذکر سے منھ پھیرے اور زندگانی دنیا کے علاوہ کچھ نہ چاہے، آپ بھی اس سے کنارہ کش ہوجائیں’بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوںنے دنیا کے بدلے اپنی آخرت کو بیچ ڈالا ہے جیسا کہ ارشاد ہے :(اُولٰئک الذین اشتروا الحیاة الدنیا بالآخرة )(٤)’یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے آخرت کو دے کردنیا خریدی ہے’…………..(١)سورئہ نازعات آیت ٣٧،٣٨،٣٩۔(٢)سورئہ اعلیٰ آیت١٦،١٧۔(٣)سورئہ نجم آیت ٢٩۔(٤)سورئہ بقرہ آیت ٨٦۔اسی بارے میں پیغمبر اکرم ۖسے یہ روایت ہے :(من عرضت لہ دنیاوآخرة،فاختارالدنیاعلیٰ الآخرة،لقی اللّٰہ عزّوجلّ ولیست لہ حسنة یتّقی بھاالنار،ومن أخذالآخرةوترک الدنیالقی اللّٰہ یوم القیامة وھو راضٍ عنہ)(١)’جس کے سامنے دنیا اور آخرت دونوں کو پیش کیا جائے اور وہ آخرت کو چھوڑ کردنیا کو اپنا لے تو جب وہ خداوند عالم کی بارگاہ میں پہونچے گا تو اسکے نامۂ عمل میں کوئی ایسی نیکی نہ ہوگی جو اسے جہنم سے بچاسکے اور جو شخص دنیا کو چھوڑکر آخرت کو اپنا لے جب وہ روز قیامت خداوند عالم سے ملاقات کریگا تو وہ اس سے راضی رہے گا ‘
حضرت علی :(من عبدالدنیا وآثرھا علیٰ الآخرة استوخم العاقبة)(٢)’جو دنیا کا پجاری ہوگیا اور اس نے اسے (دنیا کو) آخرت پر ترجیح دی ہے اس نے اپنی عاقبت بگاڑلی’
حضرت علی :(لا یترک الناس شیئاً من أمردینھم لاستصلاح دنیاھم الا فتح اللّٰہ علیہم ما ھوأضرّ منہ)(٣)’لوگ اپنی دنیا کی بھلائی کے لئے اپنے دین کا کوئی کام ترک نہیں کرتے مگر یہ کہ خداوند عالم ان کے سامنے اس سے زیادہ مضردروازہ کھول دتیا ہے ‘…………..(١)بحارالانوار ج٧٦ص٢٦٤وج٧٣ص١٠٣۔(٢)بحارالانوار ج٧٣ص١٠٤۔(٣)بحارالانوار ج٧٠ص١٠٧۔آپ ہی سے یہ بھی مروی ہے :(من لم یبال مارزء من آخرتہ اذا سلمت لہ دنیاہ فھوھالک)(١)’اگر کسی کی دنیاسالم ہو اور اسے یہ فکر نہ ہو کہ اس نے اپنی آخرت کے لئے کیا حاصل کیا تو وہ ہلاک ہونے والا ہے ‘
آخرت کی نعمتوں کے لئے دنیا ہی میں عجلت پسندیحب دنیا کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ انسان آخرت کی نعمتوں کو دنیا میں ہی حاصل کرنے کے لئے عجلت سے کام لیتا ہے کیونکہ خداوند عالم نے انسان کو در حقیقت جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے پیدا کیا ہے لہٰذا جب انسان دنیا کا دلدادہ ہوجاتا ہے اور اسکی لذتوں اور نعمتوں پراکتفاء کر بیٹھتا ہے تو گویا اسے دنیا میں ہی آخرت کی تمام نعمتیں حاصل کرلینے کی جلدی ہے جیسے کوئی کسان جلدی غلہ یا پھل توڑنے کی فکر میں اسے خام اور کچاہی توڑلیتا ہے یا وہ بچہ جو بزرگی اور بڑھاپے کے دور کی راحت وآرام کوپہلے ہی حاصل کرنے کے لئے کھیل کود میں وقت گذار دیتا ہے اور اپنی تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیںدیتا یعنی اسکے اوپر مستقبل (بڑھاپے اور ادھیڑپن )کے راحت وآرام کو قربان کرڈالتا ہے جس کی تصویر کشی اس آیۂ کریمہ نے کتنے حسین انداز میں کی ہے :(٢)…………..(١)بحار الانوار ج٧٧ ص٢٧٧۔(٢) اس تحقیق کا موضوع در حقیقت دنیا اور آخرت کے ٹکرائو کے وقت ہے یعنی ‘حدود الٰہی ‘اور دنیاکاٹکرائو! چنانچہ حدوداور احکام الٰہی کی پابندی کا لازمہ دنیا کی بعض اچھی چیزوںسے محرومی ہے اور دنیا سے لگائو کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان بعض حدود الٰہیہ سے تجاوز کر جائے اس مرحلہ پر انسان دنیا اور آخرت کے دوراہے پر کھڑاہوتا ہے اور یہ درحقیقت محرومی نہیں ہے چونکہ جب انسان حدود الٰہیہ کا پابند ہوجاتا ہے تو پروردگار اسکو آخرت کی نعمتیں جو کامل ودائم ،تروتازہ اور باقی رہنے والی ہیںدیناچاہتاہے لیکن انسان ان کو دنیا ہی میں پانے کے لئے جلدی کرتاہے اور ان کو اچانک حاصل کرلیتا ہے جو ناپختہ ہوتی ہیں اور یہ بہت جلدزائل ہوجانے والی پونجی ہے اور اس میں بے شمار مشکلات اور خطرات پائے جاتے ہیں ۔جب ہم اسلامی نصوص میں غوروفکر کرتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قاعدہ کسی حد تک دنیا کی حلال چیزوں پر بھی منطبق ہوتا ہے لیکن مطلق طورپر نہیں لہذاجب کوئی انسان دنیا کی بعض حلال چیزوں میں زہد اختیار کرتا ہے(بقیہ آئندہ صفحے پر)(ویوم یعرض الذین کفروا علیٰ النارأذھبتم طیبا تکم فی حیاتکم الدنیا واستمتعتم بھا فالیوم تجزون عذاب الھون بماکنتم تستکبرون فی الارض بغیر الحق وبماکنتم تفسقون)(١)’اور جس دن کفار جہنم کے سامنے لائے جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ تم تو اپنی دنیا کی زندگی میں اپنے مزے اڑاچکے اور اس میں خوب چین کرچکے تو آج تم پر ذلت کا عذاب کیا جائے گا اس لئے کہ تم زمین میں اکڑاکرتے تھے اور اس لئے کہ تم بد کاریاں کرتے تھے ‘اس قول الٰہی کے بارے میں توجہ فرمائیں :(أذھبتم طیبا تکم فی حیاتکم الدنیا) (٢)’تم تو اپنی دنیا کی زندگی میں اپنے مزے اڑاچکے ‘جبکہ خداوند عالم نے انسان کیلئے ان بہترین نعمتوں کو آخرت میں ذخیرہ کرکے رکھا ہے اور وہی دارالقرارہے لیکن انسان اسکو اچھی طرح پختہ ہونے بلکہ ان پرپھل آنے سے پہلے ہی دنیا میں ان کی فصل کانٹے کے لئے جلدبازی کرنے لگتا ہے جبکہ وہ بہت جلد تمام ہوکر گذر جانے والی ہیں۔
زود گذرقرآن مجید نے دنیا کو اسی وجہ سے’زودگذر ‘کہا ہے کیونکہ انسان اس دنیا میں آخرت کی نعمتوں کوان کے وقت سے پہلے ہی حاصل کرلینا چاہتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے :…………..(گذشتہ صفحے کا بقیہ)تو خداوند عالم اسکے لئےآخرت کی نعمتیںذخیرہ کردیتا ہے ۔۔۔اور شاید اسکی وجہ یہ ہو کہ اسکوحاصل کر لینے کے بعد اسکے دل میں دنیا سے لگائو اور اسکی محبت پیدا ہو سکتی ہے… یایہ حکم مومنین کے غریب طبقہ سے برابری کی بنا پرہو۔۔۔ بہرحال اسکی وجہ چاہے جو بھی ہو اس قاعدہ اور خداوند عالم کے اس قول 🙁 قل من حرّم زینة اﷲ التی أخرج لعبادہ والطیبات من الرزق)کے درمیان ہر لحاظ سے مطابقت پائی جاتی ہے ۔(١ ٢ )سورئہ احقاف آیت٢٠۔(من کان یرید العاجلة عجّلنا لہ فیھا ما نشاء لمن نرید)(١)’اور جو شخص دنیا کا خواہاں ہوتو ہم جسے چاہتے اور جو چاہتے ہیں اسی دنیا میں سردست عطا کردیتے ہیں ‘آیت کے آخری حصہ (ما نشاء لمن نرید) ‘ ہم جسے چاہتے اور جو چاہتے ہیں’کے معنی پر توجہ کے بعد یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ دنیا میں ہی آخرت کی نعمتوں کو پانے کے لئے جلد بازی کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انسان اس دنیا میں اپنی عجلت پسندی اوربے تابی کی وجہ سے جو چاہے حاصل کرلے بلکہ اسکے معنی یہ ہیں کہ اسکی جلد بازی کے بعد بھی خداوند عالم ہی اسے جیسے چاہتا ہے اپنے اعتبار سے کم یا زیادہ رزق عطا کرتا ہے گویا رزق پھر بھی خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے اور اس پر وہی حکم فرماہے اور اس میں جلد بازی دکھانے سے انسان کا کچھ بس چلنے والا نہیں ہے ۔۔۔مگر اسکے باوجود بھی وہ آخرت کی نعمتوں سے محروم ہوجاتا ہے اور جن نعمتوں کیلئے اس نے ناجائز طورپر جلد بازی کی تھی وہ کم ہوجاتی ہیں۔اس بارے میں خداوند عالم کا یہ ارشاد بھی ہے :(قالواربّناعجل لناقِطّناقبل یوم الحساب)(٢)’انہوں نے کہا پروردگار روز حساب سے پہلے ہی دنیا میں ہمارا حصہ ہمیں دیدے ‘یا خداوند عالم کا یہ بھی ارشاد ہے : (کلا بل تُحبّون العاجلة)(٣)’مگر( لوگو )حق تو یہ ہے کہ تم لوگ(زود گذر) دنیا کو دوست رکھتے ہو’دوسرے مقام پر ارشاد ہے :…………..(١)سورئہ اسراء آیت ١٨۔(٢)سورئہ ص آیت١٦۔(٣)سورئہ قیامت آیت ٢٠۔(ان ھؤلاء یُحبّون العاجلة ویذرون وراء ھم یوماً ثقیلاً)(١)’یہ لوگ صرف دنیا کی نعمتوں کو پسند کرتے ہیں اور بڑے بھاری دن کو اپنے پس پشت چھوڑبیٹھے ہیں ‘ہم جب روایات کے اندر غوروفکر کرتے ہیں تویہ اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا وآخرت کے درمیان ٹکرائو ہمیشہ محرمات کے میدان ہی میں نہیں ہوتا بلکہ یہ ٹکرائو کبھی کبھی ‘حلال’ معاملات کے درمیان بھی پیدا ہوسکتا ہے یہ نکتہ اسلامی افکار کے انوکھے نظریات میں سے ایک ہے ۔جیسا کہ روایات میں ہمیں ملتا ہے کہ پیغمبر اکرم ۖاور آپ کے اہلبیت طاہرین اور خداوند عالم کے دوسرے نیک اور صالح بندے دنیا کی نعمتوں کے استعمال میں افراط کو پسند نہیںکرتے تھے جسکا سبب شاید یہ ہوکہ دنیا کی نعمتوں سے زیادہ لطف اندوز ہونے سے اس کی محبت میں اضافہ ہوجاتا ہے اورانسان دنیا سے مزید وابستہ ہوجاتا ہے کیونکہ دنیا کی محبت اور اس کی نعمتوں کے لئے جلد بازی کرنے کے درمیان دو طرفہ (طرفینی)رابطہ ہے یعنی جب انسان دنیا سے محبت کریگا تو اسکی نعمتوں کو حاصل کرنے کیلئے بے تابی دکھا ئے گا اور جب نعمتوں کو حاصل کرنے کیلئے جلد بازی سے کام لینے لگے گا تو اسکے دل میں دنیا کی محبت رچ بس جائے گی ۔بہر حال اس تحقیق کا نتیجہ چاہے جو کچھ بھی ہو لیکن ہمیں اس بات میں کوئی شک وشبہہ نہیں ہے کہ دنیا اور آخرت کی نعمتوں کے درمیان ٹکرائو حلال چیزوں میں بھی پایا جاتا ہے البتہ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ خداوند عالم نے اپنے بندوں کے لئے جن آرائشوں یا نعمتوں کو حلال قرار دیا ہے انہیں حرام قرار دیدیاجائے بلکہ اسکا معاملہ حلال و حرام کے ٹکرائوکے معاملات سے بالکل الگ ہے جیسا کہ ہم نے ابھی بیان کیا ہے کہ یہ اسلامی افکارکے مختلف انوکھے نظریات میں سے ایک نظریہ ہے ۔…………..(١)سورئہ انسان آیت ٢٧۔آئندہ سطروں میں ہم اس بارے میں موجود روایات ذکر کرینگے اور اسکے بعد انکی وضاحتاور تفسیر بھی پیش کریںگے۔
روایاتحضرتعمر کا بیان ہے کہ میں نے پیغمبر اکرم ۖکی خدمت میںعرض کی کہ اے اﷲ کے رسول ،خدا سے دعا کیجئے کہ وہ آپ کی امت کو بھی فراوانیاں عطا کرے ۔ اللہ نے فار س و روم کو تو خوب نواز رکھا ہے حالانکہ وہ قومیں خدا کی عبادت بھی نہیں کرتی ہیں۔پیغمبر اسلام ۖ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا:(أفیشک أنت یابن الخطاب۔اُو قوم عُجّلت لھم طیبا تھم فی الحیاةالدنیا)(١)’اے ابن خطاب تم کس شک میں مبتلا ہو ؟ان قوموں نے اپنے طیبات کو اسی زندگانی دنیا میں پالیا ہے ‘پیغمبر اکرم کی خدمت میں ‘خبیص'(ایک قسم کا حلوہ )پیش کیا گیا تو آپ نے کھانے سے انکار فرمادیا حاضرین نے پوچھا۔کیا آپ اس کو حرام سمجھتے ہیں ؟آپ نے فرمایا: ایسا نہیں ہے لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ میرا نفس اسکاشوقین ہوجائے :پھر آپ نے اس آیۂ کریمہ کی تلاوت فرمائی:(أذھبتم طیبا تکم فی الحیاةالدنیا)(٢)’تم تو اپنی دنیا کی زندگی میں اپنے مزے اڑاچکے ‘…………..(١)کنز العمال :ح٤٦٦٤۔(٢)نورالثقلین ج٥ص ١٥۔عمر بن خطاب کابیان ہے کہ میںنے حضور سے باریابی کی اجازت طلب کی اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوگیا آپ مشربۂ ام ابراہیم (ایک جگہ کا نام)میںاس طرح لیٹے ہوئے تھے کہ آپ کے جسم مبارک کے بعض حصے خاک پر تھے آپ کے سر کے نیچے کھجور کی پتیوں کا تکیہ تھا، میں سلام کرکے بیٹھ گیا اور عرض کی :اے رسول خدا آپ اﷲ کے نبی،اسکے منتخب بندے اور بہترین خلق خدا ہیں۔قیصر وکسری سونے کے تخت اور حریر و دیباکے فرش پر آرام کرتے ہیں(اور آپ کا یہ عالم ہے ؟)رسول خدا نے فرمایا:(اُولٰئک قوم عُجّلت طیباتھم وھی وشیکة الانقطاع،وانما اُخّرت لناطیبا تنا)(١)’ان اقوام کے طیبات یہیں عطا کردئے گئے ہیںجوبہت جلد منقطع ہوجائیں گے۔ اورہمارے طیبات کو آخرت پر اٹھارکھا گیا ہے ‘روایت ہے کہ پیغمبر اکرم ۖاصحاب صفہ کے پاس پہونچے تو وہ اپنے کپڑوں میں چمڑے کا پیوند لگارہے تھے اور ان کے پاس پیوند لگانے کے لئے کپڑے کا ٹکڑا نہیں تھا تو آپ نے فرمایا ہے کہ یہ دن تمہارے لئے بہتر ہے یا وہ دن جب صبح کو تم بہترین حلے پہنے ہوگے اور شام کے وقت دوسرا پہن لو گے اور صبح کو ایک پیالا اور شام کو دوسرا پیالا استعمال کروگے اور اپنے گھر پر اس طرح غلاف چڑھائے ر کھوگے جس طرح کعبہ پر غلاف چڑھارہتا ہے ؟تو انھوں نے جواب دیا کہ ہمارے لئے وہی دن بہتر ہے تو آپ نے فرمایا :نہیں بلکہ تم آج ہی بہتر ہو۔(٢)پیغمبر اسلام ۖنے جناب فاطمہۖ کو دیکھا کہ آپ اونٹ کے بالوںسے بنی ہوئی چادر اوڑھے ہوئے ہیں اوراپنے ہاتھوں سے چکی چلارہی ہیں اوراپنے بچے کودودھ پلارہی ہیں تو پیغمبر اکرم ۖکی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ نے فرمایا:…………..(١)نورالثقلین ج٥ص١٥۔(٢)نورالثقلین ج٥ص١٧۔(یابنتاہ تعجّلی مرارة الدنیا بحلاوة الآخرة)’اے بیٹی آج تلخی دنیا کے بدلے آخرت کی حلاوت خرید لو’جناب فاطمہ ۖنے فرمایا:(یارسول اﷲ الحمدﷲ علیٰ نعمائہ،والشکرﷲ علیٰ آلائہ)’اے رسول خدا ،تمام تعریفیں اﷲ کے لئے ہیں اسکی نعمتوں پر ،اور اسکی عنایات پراس کا شکر ہےتو خدا نے یہ آیت نازل فرمائی:(ولسوف یعطیک ربک فترضیٰ)(١)’عنقریب آپ کا رب آپ کو اس قدر عطا کرے گاکہ آپ خوش ہوجائیں گے’امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :(انّا لنحبّ الدنیا،وأن لانؤتاھا خیرمن أن نؤتاھا،وما أوتی ابن آدم منھا شیئاً الا نقص حَظّہ من الآخرة)(٢)’ہمیںدنیا سے محبت ہے اور ہماری نگاہ میں دنیا کا نہ ملنا اس کے ملنے سے بہتر ہے کیونکہ فرزند آدم کو جس مقدار میں دنیا ملتی ہے آخرت سے اسکا اتنا ہی حصہ کم ہوجاتا ہے ‘امام جعفر صادق سے منقول ہے :(آخرنبی یدخل الجنة سلیمان بن داؤد(ع)وذلک لما اُعطی فی الدنیا)(٣)’جنت میں داخل ہونے والے آخری نبی سلیمان بن دائود ہوں گے کیونکہ دنیامیںانہیں…………..(١)نورالثقلین ج٥ص٥٩٤ومیزان الحکمت ج٣:ص٣٢٦۔٣٢٧۔(٢)بحارالانوار ج٧١ ص٨١ ومیزان الحکمت ج٢:ص٣٢٦۔(٣) بحارالانوار ج١٤ص ٧٤۔بہت کچھ عطا کردیا گیا تھا ‘امیر المومنین حضرت علی کا ارشا د ہے:(کلمافاتک من الدنیا شی ئ فھوغنیمة)(١)’دنیا میں جو چیز بھی تم سے فوت ہوجائے وہ غنیمت ہے ‘آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:(مرارة الدنیاحلاوةالآخرة،وحلاوةالدنیامرارةالآخرةوسوء العقبیٰ)(٢)’دنیا کی تلخی آخرت کی حلاوت و شیرینی ہے اور دنیا کی حلاوت آخرت کی تلخی اور بری عاقبت ہے ‘آپ نے ارشاد فرمایا :(من طلب من الدنیاشیئاً فاتہ من الآخرة أکثرمما طلب)(٣)’جو دنیا میں کسی شے کو طلب کرتا ہے اس سے زیادہ اسکا آخرت میں گھاٹاہوجاتا ہے ‘آپ ہی سے منقول ہے :(مازادفی الدنیا نقص فی الآخرة،ومانقص من الدنیا زاد فی الآخرة)(٤)’دنیا کی زیادتی آخرت کا نقصان اور دنیا کا نقصان آخرت کی زیادتی ہے ‘امام جعفر صادق نے حضرت امام زین العابدین کا یہ قول نقل کیا ہے :(ماعرض لی قط أمران،أحدھما للدنیا،والآخر للآخرة،فآثرت…………..(١)غررالحکم ج٢ص١١١۔(٢)نہج البلاغہ حکمت ٢٤٣۔(٣)غررالحکم ج٢ص٢٢١۔(٤)غررالحکم ج٢ص٢٦٨۔الدنیا الا رأیت ما أکرہ قبل أن اُمسی)’میرے سامنے جب بھی کبھی دو کام آتے ہیں ایک دنیا سے متعلق اور دوسرا آخرت سے متعلق ،اگر میں نے ان میںدنیا وی کام کو ترجیح دیدی تو شام ہونے سے قبل ناپسندیدہ اور مکروہ شے کا مشاہدہ کرلیتا ہوں ‘پھر امام جعفر صادق نے فرمایا:( لبَنی اُمیة أنھم یؤثرون الدنیا علیٰ الآخرة منذ ثمانین سنة ولیس یرون شیئاً یکرھونہ )(١)’اور یہ بنی امیہ اسّی سال سے دنیا کو آخرت پر ترجیح دے رہے ہیں اور انہیں کسی بھی چیز سے کراہت محسوس نہیں ہوتی ہے ‘اس مسئلہ کی وضاحت امیر المومنین کے اس قول سے ہوجاتی ہے :(واعملوا أن مانقص من الدنیا،وزاد فی الآخرة خیرمما نقص من الآخرة وزاد فی الدنیا،فکم من منقوص۔۔۔فا تقوااﷲحق تقا تہ ولا تموتن الا وأنتم مسلمون)(٢)’یاد رکھو کہ دنیا میں کسی شے کا کم ہونا اورآخرت میں زیادہ ہونا اس سے بہتر ہے کہ دنیا میں زیادہ ہو اور آخرت میں کم ہو جائے کہ کتنے ہی کمی والے فائدہ میں رہتے ہیں اور کتنے ہی زیادتی والے گھاٹے میں رہ جاتے ہیں ۔بیشک جن چیزوں کا تمہیں حکم دیا گیا ہے ان میں زیادہ وسعت ہے بہ نسبت ان چیزوں کے جن سے روکا گیا ہے اور جنہیں حلال کیا گیا ہے وہ ان سے کہیں زیادہ ہیں…………..(١)بحارالانوار ج٧٣ص١٢٧۔(٢)نہج البلاغہ خطبہ ١١٣۔جنہیں حرام قرار دیا گیا ہے لہٰذا قلیل کو کثیر کے لئے اور تنگی کو وسعت کی خاطر چھوڑدو ۔پروردگار نے تمہارے رزق کی ذمہ داری لی ہے اور عمل کرنے کا حکم دیا ہے لہٰذا ایسا نہ ہو کہ جس کی ضمانت لی گئی ہے اسکی طلب اس سے زیادہ ہوجائے جس کو فرض کیا گیا ہے ۔خدا گواہ ہے کہ تمہارے حالات کو دیکھ کر شبہ ہونے لگتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ شائد جس کی ضمانت لی گئی ہے وہ تم پر واجب کیا گیا ہے اور جس کا حکم دیا گیا ہے اسے ساقط کردیاگیا ہے ۔خدا را عمل کی طرف سبقت کرو اورموت کے اچانک وارد ہوجانے سے ڈرو اس لئے کہ موت کے واپس ہونے کی وہ امید نہیںہے جس قدر رزق کے پلٹ کر آجانے کی ہے ۔جو رزق آج ہاتھ سے نکل گیا ہے اس میں کل اضافہ کا امکان ہے لیکن جو عمر آج نکل گئی ہے اسکے کل واپس آنے کا بھی امکان نہیں ہے ۔امید آنے والے کی ہوسکتی ہے جانے والے کی نہیں اس سے تو مایوسی ہی ہوسکتی ہے ‘اﷲسے اس طرح ڈرو جو ڈرنے کا حق ہے اور خبر دار اس وقت تک دنیا سے نہ جانا جب تک واقعی مسلمان نہ ہوجائو’
روایات کا تجزیہمذکورہ روایات میں سند یا متن کے لحاظ سے شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے یہ تعدادکے اعتبار سے بہت زیادہ اورسند کے لحاظ سے مستفیضہ ہیںلہٰذاان سب کے بارے میں شک کا امکان نہیں ہے یہ روایا ت فقط حرام امور سے مخصوص نہیں ہیں بلکہ حرام وحلال دونوں قسم کی لذتوں کو بیان کرتی ہیں ان روایات کے مطابق دنیا و آخرت کا ٹکرائو صرف حرام اشیاء میں ہی نہیں بلکہ اس ٹکرائو میں حلال لذتیں بھی شامل ہیں ان کے معانی و مطالب واضح اور ظاہر ہیں اور ان کے بارے میں یہ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ صرف حرام لذتوں سے منع کر رہی ہیں جس کی بناپر خداوند عالم کایہ قول :(یاأیھاالنّاس کلواممافی الارض حلالاً طیّباولا تتبعواخطوات الشیطان انہ لکم عدومبین) (١)’اے انسانو:زمین میں جوکچھ بھی حلال وطیب ہے اسے استعمال کرو اور شیطانی اقدامات کا اتباع نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ‘یا دوسرے مقام پر ارشاد ہے :(قل من حرّم زینة اﷲ التی أخرج لعبادہ والطیبات من الرزق،قل ھی للذین آمنوا فی الحیاة الدنیاخالصة یوم القیامة )(٢)’پیغمبر آپ پوچھئے کہ کس نے اس زینت کوجسے خدا نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ہے اور بتائیے کہ یہ چیزیں روز قیامت صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جو زندگانی دنیا میں ایمان لائے ہیں ‘مذکورہ دونوںاقوال صرف خداوند عالم کی حلال کردہ طیبات سے مخصوص ہوجائیں جبکہ یہ روایات حرام چیزوں کے علاوہ زندگانی دنیا کی آسائشوں (متاع)سے استفادہ کرنے سے بھی منع کررہی ہیں۔تو ہم ان روایات سے کیا نتیجہ اخذ کریں؟ایک جانب یہ روایات ہیں اور دوسری طرف قرآن مجید کی آیات ہیں کہ جن میں خداوند عالم اپنے بندوں کو طیب وطاہر رزق سے استفادہ کی دعوت دے رہا ہے اور طیبات الٰہی کو حرام قرار دینے والوں کو ٹوک رہا ہے ؟ذیل میں ہم چند نکات کے ذریعہ اس سوال کا جواب پیش کرنے کی کوشش کریںگے امید ہے کہ ان نکات کے ساتھ ہمیںبہ ترتیب اسکاصحیح جواب مل جائے گا :١ ۔ذرادیر پہلے ہم نے جو روایات پیش کی ہیں ان کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اسلام نعمات…………..(١)سورئہ بقرہ آیت ١٦٨۔(٢)سورئہ اعراف آیت ٣٢۔الٰہیہ اور طیب وطاہر رزق کو مسلمانوں کے لئے ممنوع قرار دیتا ہے ۔ اﷲ نے اپنے بندوں کے لئے جو اسباب زینت اور طیبات خلق کئے وہ بندوں کے لئے جائز اور مباح ہیں مگر یہ کہ خود پروردگار منع کردے خداوند عالم فرماتاہے:(قل من حرّم زینة اﷲ التی أخرج لعبادہ والطیبات من الرزق قل ھی للذین آمنوا فی الحیاة الد نیاخالصة یوم القیامة وکذ الک نفصل الآیات لقوم یعلمون) (١)’کہو کہ کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ہے ۔اور بتائیے کہ یہ چیزیں روز قیامت صرف ان لوگوں کے لئے ہیںجو زندگانی دنیا میں ایمان لائے ہیں ‘ان روایات کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ انسان روئے زمین پر سعی و کوشش ہی نہ کرے بلکہ اس سلسلہ میں خدا کا حکم تو یہ ہے کہ :(فاذاقُضیت الصلوٰة فانتشروا فی الارض وابتغوامن فضل اﷲ)(٢)’پھر جب نماز تمام ہوجائے تو زمین میں منتشر ہوجائو اور فضل خدا کو تلاش کرو’لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان دنیا کا ہی ہوکر رہ جائے اور اسکی تمام تر کوششوں کا ماحصل صرف دنیا ہو بلکہ انسان کا اصل مقصد سلو ک الی اﷲ ہونا چاہئیے اور اسی کے ضمن میں دنیا کے لئے بھی کوشش کرتا رہے ۔(وابتغِ فیماآتاک اﷲ الدارالآخرة ولاتنسنصیبک من الدنیا)(٣)…………..(١)سورئہ اعراف آیت ٣٢۔(٢)سورئہ جمعہ آیت ١٠۔(٣)سورئہ قصص آیت ٧٧۔’اور جو کچھ خدا نے دیا ہے اس سے آخرت کے گھر کا انتظام کرو اور دنیا میں اپنا حصہ بھول نہ جائو’لہٰذا بنیادی طورپر انسان کی حرکت خدا اور آخرت کے جانب ہونا چاہئیے مگر دنیا میں اپنے حصہ کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے۔٢۔اس وضاحت کے باوجود مسئلہ مکمل طورپر حل نہیں ہوجاتا کیونکہ دنیا اور آخرت کا ٹکرائو صرف محرمات کی حد تک نہیں ہے بلکہ حلال چیزوں میں بھی یہ ٹکڑائوپایا جاتا ہے ۔امیر المومنین حضرت علی فرماتے ہیں :(ان الدنیاوالآخرةعدوّان متفاوتان،وسبیلان مختلفان،فمن أحبّ الدنیا وتولّاھا أبغض الآخرةوعاداھا،وھمابمنزلةالمشرق والمغرب،وماشٍ بینھماکلما قرب من واحد بَعُدَ من الآخر،وھمابعدضرّتان!)(١)’یاد رکھو دنیا و آخرت آپس میں دو ناسازگار دشمن ہیں اور دو مختلف راستے ۔لہٰذا جو دنیا سے محبت اور تعلق خاطررکھتا ہے وہ آخرت کا دشمن ہوجاتا ہے اور یہ دونوں مشرق ومغرب کی طرح ہیں کہ جو راہرو ایک سے قریب تر ہوتا ہے وہ دوسرے سے دورتر ہوجاتا ہے پھریہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کی سوت جیسی ہیں ‘انسان اس دنیا کی نعمتوں اور حلال لذتوں سے چاہے جتنااستفادہ کرلے خدا اسے سزا نہیں دے سکتا کیونکہ یہ چیزیں حرام نہیں ہیںالبتہ جتنا دنیا میں نعمتوں سے استفادہ کرتا جائے گا اسی مقدار میں جنت کی نعمتوں سے محروم ہوتاجائے گاکیونکہ لذائذ دنیا سے استفادہ کرنے کی وجہ سے آخرت کو پانے کے مواقع کم ہوتے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حلال لذتوں کے اعتبار سے بھی دنیا وآخرت میں ٹکرائو پایاجاتا ہے مندرجہ ذیل چند مثالوں کے ذریعہ اس بات کی وضاحت ہوجائے گی ۔…………..(١)نہج البلاغہ حکمت ١٠٠۔١۔اﷲ نے بندوں کوجو معین عمرعطا فرمائی ہے اس میں انسان مسلسل روزے رکھ سکتا ہے روزہ اگر چہ صرف ماہ رمضان میں ہی واجب ہے لیکن سال کے بقیہ دنوں میں مستحب ہی نہیں بلکہ’مستحب مؤکد ‘ہے ۔امام محمد باقر نے پیغمبر اکرم ۖ کے حوالہ سے خداوند عالم کا یہ قول نقل کیا ہے ۔(الصوم لی وأنا اجزی بہ )(١)’روزہ میرے لئے ہے اورمیں ہی اسکی جزادوں گا ‘اس طرح سال کے دوران روزہ چھوڑدینے سے انسان کتنے عظیم ثواب سے محروم ہوتا ہے ؟ اسے خدا کے علاوہ کوئی نہیںجانتا ۔اب انسان جس دن بھی روزہ نہ رکھکراﷲکی جائزاور حلال نعمتیں استعمال کرتا ہے اس کی وجہ سے وہ جنت کی کتنی نعمتوںسے محروم ہواہے ؟اسکا علم خدا کے علاوہ کسی کو نہیں ہے اگر چہ یہ طے ہے کہ جو کچھ اس نے کھایا وہ رزق حلال ہی تھا لیکن اس تھوڑے سے رزق کے باعث بہر حال آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کا موقع اسکے ہاتھ سے جاتا رہا ۔حلال لذتوں کے باعث دنیا و آخرت کے درمیان ٹکرائو کی یہ ایک مثال ہے ۔٢۔جب انسان رات میں نیند کی لذت سے لطف اندوز ہوتا ہے تو بلا شبہ یہ زندگانی دنیا کی حلال اور بہترین لذت ہے لیکن جب انسان پوری رات سوتے ہوئے گذاردیتا ہے تو اس رات نمازشب اور تہجد کے ثواب سے محروم رہتا ہے ۔فرض کیجئے خدا نے کسی کو ستر برس کی حیات عطا کی ہو تو اس کے لئے ستر سال تک یہ ثواب ممکن ہے لیکن جس رات بھی نماز شب قضا ہوجاتی ہے آخرت کی نعمتوں میں سے ایک حصہ کم ہوجاتاہے اگر (خدا نخواستہ )پورے ستر سال اسی طرح غفلت میں بسر ہوجائیں تو نعمات اخروی…………..(١)بحارالانوار ج٩٦ص ٢٥٤ ،٢٥٥، ٢٤٩ ۔حاصل کرنے کا موقع بھی ختم ہوجائے گا اور پھر انسان افسوس کرے گا کہ ‘اے کاش میں نے اپنی پوری عمر عبادت الٰہی میں بسر کی ہوتی ‘٣۔اگر خداوند عالم کسی انسان کومال عطا کرے تو اس مال کو راہ خدا میں خرچ کرکے کافی مقدار میں اخروی نعمتیں حاصل کرنے کاامکان ہے انسان جس مقدار میںدنیاوی لذتوں کی خاطرمال خرچ کرتا ہے اتنی ہی مقدار میںآخرت کی نعمتوں سے محروم ہوسکتا ہے کہ اسی مال کو راہ خدا میں خرچ کرکے دنیا کے بجائے آخرت کی لذتیں اور نعمتیں حاصل کرسکتا تھا لہٰذا اگر انسان اپنا پورا مال دنیاوی کاموں کے لئے خرچ کردے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس مال سے اخروی نعمتیں حاصل کرنے کا موقع گنوادیا ۔چاہے اس نے یہ مال حرام لذتوں میں خرچ نہ کیا ہو ۔اسی طرح انسان کے پاس آخرت کی لذتیں اورنعمتیں حاصل کرنے کے بے شمار مواقع ہوتے ہیں ۔مال ،دولت، عمر، شباب، صحت ،ذہانت ،سماجی حیثیت اور علم جیسی خداداد نعمتوں کے ذریعہ انسان آخرت کی طیب وطاہر نعمتیں کما سکتا ہے لیکن جیسے ہی اس سلسلہ میں کو تاہی کرتا ہے اپنا گھاٹا کر لیتا ہے خدا وندعالم نے ارشاد فرما یا ہے :(والعصرِ٭انّ الا نسان لفی خسر)(١)’قسم ہے عصر کی بیشک انسان خسارہ میں ہے ‘آیۂ کر یمہ نے جس گھا ٹے کا اعلان کیا ہے وہ اس اعتبار سے ہے کہ آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کے لئے جن چیز وں کی ضرورت ہے خداوندعالم نے وہ تمام چیزیں اپنے بندوں کو (مفت ) عطا کردی ہیں اور انھیں خدا داد نعمتوں سے آخرت کی نعمتیں حاصل کرنے کا بھی انتظام کردیا ہے اس کے باوجود انسان کوتاہی کرتا ہے اور ان نعمتوں کو خواہشات دنیا کے لئے صرف کر کے آخرت کما نے کا…………..(١)سورئہ عصر آیت١۔٢۔موقعکھودیتا ہے تو یقیناگھاٹے میں ہے ۔اس صور ت حال کی منظر کشی امیر المو منین حضرت علی نے بہت ہی بلیغ انداز میں فرمائی ہے آپ کا ارشاد ہے :(واعلم أن الد نیاداربلیّة،لم یفرغ صاحبھا فیھا قط ساعة لاکانت فرغتہ علیہ حسرة یوم القیامة)(١)’آگاہ ہو جا ئو یہ دنیا دار ابتلاہے اس میںا گر کوئی ایک ساعت بے کار رہتا ہے تو یہ ایک ساعت کی بے کاری روز قیامت حسرت کا باعث ہوگی’یہاں بے کاری کا مطلب یہ ہے کہ انسان ذکر خدا نہ کرے اور اسکی خوشنودی کے لئے کوئی عمل نہ بجالا ئے اور اسکے اعضاء وجوارح بھی قربت خدا کے لئے کوئی کام نہ کر رہے ہوں یا یاد خدا میں مشغول نہ ہوں ۔اب اگر ایک گھنٹہ بھی اس طرح خالی اوربے کار رہے چاہے اس دوران کوئی گنا ہ بھی نہ کرے تواسکی بناپر قیامت کے دن اسے حسرت کا سامناکرنا ہوگا اس لئے کہ اس نے عمر ،شعور اور قلب جیسی نعمتوں کو معطل رکھا اورانہیں ذکرو اطاعت خدا میں مشغول نہ رکھ کر اس نے رضا ئے خدا اور نعمات اخروی حاصل کرنے کا وہ موقع گنوادیا ہے جسکا تدارک قطعا ممکن نہیں ہے بعد میں چاہے وہ جتنی اخروی نعمتیں حاصل کرلے لیکن یہ ضائع ہوجانے والا موقع بہر حال نصیب نہ ہوگا ۔٣۔سنت الٰہی یہ ہے کہ انسان ترقی وتکامل اور قرب الٰہی کی منزلیں سختیوں اورمصائب کے ذریعہ طے کر تا ہے ۔ارشاد الٰہی ہے :(أحَسِبَ الناس أن یُترکوا أن یقولواآمنّا وھم لایُفتنون)(٢)…………..(١) نہج البلاغہ مکتوب ٥٩۔(٢)سورئہ عنکبوت آیت٢۔’کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ و ہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ہوگا’دوسرے مقام پرارشاد ہوتا ہے :(ولنبلونّکم بشیٔ من الخوف والجوع ونقصٍ من الأموال والأنفس والثمرات۔۔۔)(١)’اور ہم یقیناتمہیں تھوڑاخوف تھوڑی بھوک اور اموال ونفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے ۔۔۔’نیزارشاد خداوندی ہے :(۔۔۔فأخذناھم بالبأساء والضرّاء لعلھم یتضرّعون)(٢)’۔۔۔اسکے بعد ہم نے انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑگڑائیں’یہ آخری آیت واضح الفاظ میں ہمارے لئے خدا کی طرف انسانی قافلہ کی حرکت اور ابتلاء وآز مائش ،خوف، بھوک اور جان ومال کی کمی کے درمیان موجود رابطہ کی تفسیر کر رہی ہے کیونکہ تضرع وزاری قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ ہے اور تضرع کی کیفیت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان جان ومال کی کمی، بھوک ،خوف اور شدائد ومصائب میں گرفتار ہوتاہے اس طرح انسان کے پاس دنیاوی نعمتیں جتنی زیادہ ہو ں گی اسی مقدار میںاسے تضرع سے محرومی کاخسارہ اٹھانا پڑے گا اور نتیجتاً وہ قرب الٰہی کی سعادتوں اور اخروی نعمتوں سے محروم ہوجا ئے گا ۔زندگانی دنیا کے مصائب ومشکلات کبھی تو خدا اپنے صالح بندوں کو مرحمت فرماتا ہے تا کہ وہ تضرع وزاری کیلئے آمادہ ہوسکیں اور کبھی اولیائے الٰہی اوربند گان صالح خود ہی ایسی سخت زندگی…………..(١)سورئہ بقرہ آیت١٥٥۔(٢)سورئہ انعام آیت ٤٢۔کواختیار کر لیتے ہیں ۔٤۔لذائذ دنیا سے کنار کشی کا ایک سبب یہ ہو تا ہے کہ انسان کبھی یہ خوف محسوس کرتا ہے کہ کہیں لذائذ دنیا کا عادی ہوکر وہ بتدریج حب دنیا میں مبتلا نہ ہو جا ئے اوریہ حب دنیاا سے خدا اور نعمات اخروی سے دور نہ کردے ۔اس لئے کہ لذائذ دنیا اورحب دنیا میں دوطرفہ رابطہ پایا جاتا ہے یہ لذ تین انسان میںحب دنیا کا جذبہ پیدا کر تی ہیں یااس میں شدت پیدا کر دیتی ہیں اس کے بر عکس حب دنیا انسان کودنیاوی لذتوں کو آخرت پر ترجیح دینے اوران سے بھر پور استفادہ کرنے بلکہ اسکی لذتوں میںبالکل ڈوب جانے کی دعوت دیتی ہے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان لا شعوری طور پر حب دنیا کا شکار ہو جائے لہٰذا لذائذ دنیاسے ہو شیار رہنا چاہئے کیونکہ عین ممکن ہے کہ یہ لذتین اسے اسکے مقصد سے دور کردیں ۔٥۔کبھی ہمیں روایات میں ایسی بات بھی نظر آتی ہے کہ جو مذ کور ہ وضاحتوں سے الگ ہے جیسا کہ مولا ئے کائنات حضرت علی نے جناب محمدبن ابی بکر کو مصر کا حاکم مقرر کرتے وقت (عہد نامہ میں)ان کے لئے یہ تحریر فرما یاتھا:(واعلموا۔عباداﷲ۔أن المتّقین ذہبوا بعاجل الدنیا وآجل الآخرة،۔۔۔)(١)’بندگان خدا !یا د رکھو کہ پرہیزگار افراد دنیا اور آخرت کے فوائد لے کرآگے بڑھ گئے ۔وہ اہل دنیا کے ساتھ ان کی دنیا میں شریک رہے لیکن اہل دنیا ان کی آخرت میں شریک نہ ہوسکے۔وہ دنیا میں بہترین انداز سے زندگی گذار تے رہے جو سب نے کھایا اس سے اچھاپاکیزہ کھانا کھایااور وہ تمام لذتیںحاصل کرلیں جو عیش پرست حاصل کرتے ہیں اور وہ سب کچھ پالیا جو جابراور متکبر افراد کے حصہ میں آتا ہے ۔اسکے بعد وہ زادراہ لے کر گئے جو منزل تک پہونچادے اور وہ تجارت کرکے گئے…………..(١)نہج البلا غہ مکتوب ٢٧۔جس میں فائدہ ہو۔دنیا میں رہ کر دنیا کی لذت حاصل کی اور یقین رکھے رہے کہ آخرت میں پروردگار کے جوار رحمت میں ہوںگے۔جہاں نہ ان کی آواز ٹھکرائی جائے گی اور نہ کسی لذت میں ان کے حصہ میں کوئی کمی ہوگی’ان جملات میں متقین اور غیر متقین کا مواز نہ کیا گیا ہے جبکہ جن روایات کا ہم تجز یہ پیش کررہے تھے انمیں درجات متقین کا مو از نہ ہے،نہ کہ متقین اور غیر متقین کا!ظا ہر ہے کہ یہ دو نوں الگ ا لگ چیزیں ہیں لہٰذا ان دو نوں کا حکم بھی الگ ہو گا ۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.