دنیا کاظاہری رخ(روپ)
۔جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :(وما الحیاة الدنیا الا لعب ولھو)(١)’اور یہ زندگانی دنیا صرف کھیل تماشہ ہے ‘(ما ھذہ الحیاة الدنیا الا لھوولعب)(٢)…………..(١)سورئہ انعام آیت ٣٢۔(٢)سورئہ عنکبوت آیت ٦٤۔’اور یہ زندگانی دنیا ایک کھیل تماشے کے سوا اور کچھ نہیں ہے ‘(انماالحیاة الدنیالعب ولھووزینة وتفاخر بینکم)(١)’یاد رکھو کہ زندگانی دنیا صرف ایک کھیل تماشہ ،آرائش باہمی فخرومباہات اور اموال واولاد کی کثرت کا مقابلہ ہے ‘خداوند عالم نے دنیا کے جس رخ کو لہو ولعب قرار دیا ہے وہ اسکا ظاہری رخ ہے ۔اور لہو ولعب سنجیدگی اور متانت کے مقابلہ میں بولاجاتا ہے ۔۔۔البتہ انسان اسی وقت لہو ولعب میں گرفتار ہوتا ہے کہ جب وہ دنیا کے ظاہری روپ پر نظر رکھے اور سنجیدگی و متانت سے دو ر رہے چنانچہ اگر وہ دنیا کے ظاہرکے بجائے اسکے باطن پر توجہ رکھے تو لہو ولعب (کھیل کود)سے بالکل دور ہوکر زاہد وپارسا بن جائیگا اور دنیا کے دوسرے معاملات میں الجھنے کے بجائے اسے صرف اپنے نفس کی فکر لاحق رہے گی۔کیونکہ دنیا’لُماظة’ہے ۔مولائے کائنات فرماتے ہیں :(ألا مَن یدع ھذہ اللُّماظة)(٢)’کون ہے جو اس لماظہ کو چھوڑ دے ‘لماظہ منھ کے اندر بچی ہوئی غذا کو کہا جاتا ہے
حضرت علی :(اُحذّرکم الدنیا فانھاحلوة خضرة،حُفّت بالشھوات)(٣)’میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں کیونکہ یہ ایسی شیرین وسرسبز ہے جوشہوتوں سے گھری ہوئی ہے ‘…………..(١)سورئہ حدید آیت ٢٠۔(٢)بحارالانوار ج٧٣ص ١٣٣۔(٣)بحارالانوار ج ٧٣ص٩٦۔
دنیاوی زندگی کے ظاہر اور باطن کا موازنہقرآن کریم میں دنیاوی زندگی کے دونوں رخ (ظاہر وباطن )کا بہت ہی حسین موازنہ پیش کیا گیا ہے نمونہ کے طورپر چند آیات ملاحظہ فرمائیں :١۔(انّمامثل الحیاةالدنیاکمائٍ أنزلناہ من السماء فاختلط بہ نبات الارض ممایأکل الناس والانعام حتیٰ اذا أخذت الارض زُخرفھا وازّیّنت وظنّ أھلھا أنّھم قادرون علیھا أتاھا أمرنا لیلاً أونھاراً فجعلناھا حصیداً کأن لم تغن بالامس کذٰلک نفصّل الآیات لقومٍ یتفکّرون)(١)’زندگانی دنیا کی مثال صرف اس بارش کی ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا پھر اس سے مل کر زمین سے نباتات برآمد ہوئیں جن کو انسان اور جانور کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے سبز ہ زارسے اپنے کو آراستہ کرلیا اور مالکوں نے خیال کرنا شروع کردیا کہ اب ہم اس زمین کے صاحب اختیار ہیں تو اچانک ہمارا حکم رات یا دن کے وقت آگیا اور ہم نے اسے بالکل کٹا ہواکھیت بناد یا گویا اس میں کل کچھ تھا ہی نہیں ہم اس طرح اپنی آیتوں کو مفصل طریقہ سے بیان کرتے ہیں اس قوم کے لئے جو صاحب فکر ونظر ہے ‘اس آیۂ کریمہ میں زندگانی دنیا ،اسکی زینت اور آرائشوں اور اسکی تباہی و بربادی اور اس میں اچانک رو نما ہو نے والی تبدیلیوں کی عکاسی مو جود ہے ۔چنانچہ دنیا کو اس بارش کے پانی سے تشبیہ دی گئی ہے جو آسمان سے زمین پر برستا ہے اور اس سے زمین کے نباتات ملتے ہیں تو ان نباتات میں نمو پیدا ہوتا ہے اور وہ انسانوں اور حیوانوں کی غذانیززمین کی زینت بنتے ہیں ۔یہاں تک کہ جب زمین اپنی آرائشوں اور زینتوں سے آراستہ…………..(١)سورئہ یونس آیت ٢٤۔ہوجاتی ہے۔۔۔تو اچانک یہ حکم الٰہی کسی بجلی، آندھی(ہوا)وغیرہ کی شکل میں اسکی طرف نازل ہوجاتا ہے اور اسے بالکل ویرانے اور خرابے میں تبدیل کردیتا ہے جیسے کل تک وہ آباد ،سرسبز و شاداب ہی نہ تھی یہ دنیا کے ظاہری اور باطنی دونوں چہروںکی بہترین عکاسی ہے کہ وہ اگر چہ سر سبزو شاداب ، پُرفریب ، برانگیختہ کرنے والی،پرکشش (جالب نظر)دلوں کے اندر خواہشات کو بھڑکانے والی ہے لیکن جب دل اس کی طرف سے مطمئن ہو جاتے ہیں تواچانک حکم الٰہی نازل ہوجاتا ہے اور اسے کھنڈر اور بنجر بناڈالتا ہے جس سے لوگوں کو کراہیت محسوس ہو تی ہے ۔اس سورہ کا پہلا حصہ دنیا کے ظاہری چہرہ کی وضاحت کر رہا ہے جو انسان کو دھوکہ اور فریب میں مبتلا کردیتا ہے جبکہ دوسرا حصہ وعظ و نصیحت اور عبرت حاصل کرنے کا سرچشمہ ہے ۔جو کہ دنیا کا باطنی رخ ہے ۔٢۔:(انّاجعلنا ماعلیٰ الارض زینةً لھالنبلوھم أیّھم أحسن عملاً)(١)’بیشک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زینت قرار دیدیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے ‘دنیا یقینا ایک زینت ہے جس میں کسی قسم کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہی زینت و آرائش انسانی خواہشات کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے مگر ان آرائشوں کی کوکھ میں مختلف قسم کے امتحانات بلائیں اور آزما ئشیںپو شیدہ رہتی ہیں جن کے اندر انسان کی تنزلی کے خطرات چھپے رہتے ہیں اور یہ بالکل اسی طرح ہیں جیسے کسی شکار کو پکڑنے کے لئے چارا ڈالا جاتا ہے ۔٣۔(اعلموا أنماالحیاةالدنیا لعب ولہووزینة وتفاخربینکم وتکاثرفی الاموال والاولادکمثل غیث أعجب الکفّارنبا تہ ثم یھیج فتراہ…………..(١)سورئہ کہف آیت ٧۔مصفرّا ثم یکونحطاماً وفی الآخرةعذاب شدیدومغفرةمن اﷲ ورضوان وماالحیاة الدنیاالامتاع الغرور)(١)’یاد رکھو کہ زندگانی دنیا صرف ایک کھیل تماشہ ،آرائش ،باہمی فخرومباہات،اور اموال واولاد کی کثرت کا مقابلہ ہے اور بس ۔جیسے کوئی بارش ہو جسکی قوت نامیہ کسان کو خوش کردے اور اسکے بعد وہ کھیتی خشک ہوجائے پھر تم اسے زرد دیکھو اور آخر میں وہ ریزہ ریزہ ہوجائے اور آخرت میں شدید عذاب بھی ہے اور مغفرت اور رضائے الٰہی بھی ہے اور زندگانی دنیا تو بس ایک دھوکہ کا سرمایہ ہے اور کچھ نہیں ہے ‘
دنیا کے بارے میں نگاہوں کے مختلف زاوئےدر حقیقت دنیا کو متعدد زاویوںسے دیکھنے کی وجہ سے ہی دنیا کے مختلف رخ دکھائی دیتے ہیں اسی لئے زاویہ نگاہ تبدیل ہوتے ہی دنیا کا رخ بھی تبدیل ہوجاتا ہے ورنہ دنیا تو ایک ہی حقیقت کا نام ہے مگر لوگ اسکی طرف دو رخ سے نظر کرتے ہیں ۔کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو دنیا کو پر غرور اور پرفریب نگاہوں سے دیکھتے ہیں جبکہ بعض حضرات اسے عبرت کی نگاہوں سے دیکھاکرتے ہیں ان دونوں نگاہوںکے زاویوںمیں ایک انداز نگا ہ سطحی ہے جو دنیا کی ظاہری سطح پر رکا رہتا ہے اور انسان کو شہوت وغرور (فریب)میں مبتلا کردیتا ہے جبکہ دوسرا انداز نظر اتنا گہرا ہے کہ وہ دنیا کے باطن کو بھی دیکھ لیتا ہے لہٰذا یہ اندازنظر رکھنے والے حضرات اس دنیا سے دوری اور زہد اختیار کرتے ہیں مختصر یہ کہ اس مسئلہ کا دارو مدار دنیا کے بارے میں ہمارے زاویہ نگاہ اور انداز فکر پر منحصر ہے ۔لہٰذا دنیا کے معاملات کو صحیح کرنے کے لئے سب سے پہلے اسکے بارے میں انسان کا انداز فکر صحیح ہوناچاہئیے جس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ دنیا کے بارے میں اپنا زاویۂ…………..(١)سورئہ حدیدآیت ٢٠۔نگاہ صحیح کرے اسکے بعد وہ اسکو جس نگاہ سے دیکھے گا اسی اعتبار سے اسکے ساتھ پیش آئے گا ۔لہٰذا جو حضرات دنیا کو پر فریب نگاہوں سے دیکھتے ہیں انہیں دنیا دھوکہ میں ڈال دیتی ہے اور خواہشات میں مبتلا کردیتی ہے اور ان کے لئے یہ زندگانی ایک کھیل تماشہ بن کر رہ جاتی ہے جسکی طرف قرآن مجید نے متوجہ کیا ہے ۔اور جو لوگ دنیا کو عبرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو وہ اپنے اعمال میں صداقت اور سنجیدگی کا خیال رکھتے ہیں اور آخرت کا واقعی احساس انہیں دنیا کے کھیل تماشہ سے دور کردیتا ہے ۔مولائے کائنات کے کلمات میں دنیا کے بارے میں موجود مختلف نگاہوں کی طرف واضح اشارے موجود ہیںجن میں سے ہم یہاں بعض کا تذکرہ کر رہے ہیں:(کا ن لی فیما مضیٰ أخ فی اﷲ،وکان یعظّمہ فی عینی صغرالدنیا فی عینہ)(١)’گذشتہ زمانہ میں میرا ایک بھائی تھا جس کی عظمت میری نگاہوں میں اس لئے تھی کہ دنیا اسکی نگاہ میں حقیر تھی ‘دنیا کی توصیف میں آپ فرماتے ہیں :(ما أصف من دارأوّلھاعنائ،وآخرھا فنائ، فی حلالھاحساب،وفی حرامھاعقاب،من استغنیٰ فیھا فُتن،ومن افتقرفیھاحزن)(٢)’میں اس دنیا کے بارے میں کیا کہوں جسکی ابتدا رنج وغم اور انتہا فناونیستی ہے اسکے حلال میں حساب اور حرام میں عقاب ہے۔جو اس میںغنی ہوجاتاہے وہ آزمائشوں میں مبتلا ہوجاتاہے اور جو فقیر ہوجاتاہے وہ رنجیدہ و افسردہ ہوجاتاہے ‘…………..(١)نہج البلاغہ حکمت٢٨٩۔(٢)نہج البلاغہ خطبہ٨٢۔یہی رخ دنیا کا باطنی رخ اور وہ دقت نظر ہے جو دنیا کے باطن میں جھانک کردیکھ لیتی ہے ۔پھر آپ فرماتے ہیں :(من ساعاھافا تتہ،ومن قعدعنھاواتتہ)(١)’جو اسکی طرف دوڑلگاتاہے اسکے ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور جو منھ پھیر کر بیٹھ رہے اسکے پاس حاضر ہوجاتی ہے ‘دنیا سے انسانی لگائو کے بارے میں خداوند عالم کی یہ ایک سنت ہے جس میں کبھی بھی خلل یا تغیر پیدا نہیں ہوسکتا ہے چنانچہ جو شخص دنیا کی طرف دوڑلگائے گا اور اسکے لئے سعی کریگا اور اسکی قربت اختیار کریگا تو وہ اسے تھکاڈالے گی۔اور اسکی طمع کی وجہ سے اسکی نگاہیں مسلسل اسکی طرف اٹھتی رہیں گی۔چنانچہ اسے جب بھی کوئی رزق نصیب ہوگا تو اسے اس سے آگے کی فکر لاحق ہوجائیگی۔اور وہ اسکے لئے کوشش شروع کردیگا مختصر یہ کہ وہ دنیا کا ساتھی ہے اور اسکے پیچھے دوڑلگاتا رہے گا مگر اسے دنیا میں اسکا مقصد ملنے والا نہیں ہے ۔البتہ جو دنیا کی تلاش اور طلب میں صبروحوصلہ سے کام لیکر میانہ روی اختیار کریگا تو دنیا خود اسکے قدموں میں آکر اسکی اطاعت کرے گی اور وہ بآسانی اپنی آرزو تک پہونچ جائے گا۔پھر آپ ارشاد فرماتے ہیں:(من أبصربھابصّرتہ،ومن أبصرالیھا أعمتہ )(٢)’جو اسکو ذریعہ بنا کر آگے دیکھتارہے اسے بینابنادیتی ہے اور جو اسکو منظور نظر بنالیتاہے اسے اندھا کردیتی ہے ‘…………..(١)نہج البلاغہ خطبہ٨٢۔(٢)گذشتہ حوالہ۔سید رضی علیہ الرحمہ نے اس حدیث کی یہ تشریح فرمائی ہے: کہ اگر کوئی شخص حضرت کے اس ارشاد گرامی (من ابصربھا بصرتہ)میں غور وفکر کرے تو عجیب و غریب معانی اور دور رس حقائق کا ادراک کرلے گا جن کی بلندیوں اور گہرائیوں کا ادراک ممکن نہیں ہے ۔مولائے کائنات نے دنیا کے بارے میں نگاہ کے ان دونوں زاویوں کا تذکرہ فرمایا ہے جس میں سے ایک یہ ہے ‘کہ دنیا کو ذریعہ بناکر آگے دیکھا جائے ‘اس نگاہ میں عبرت پائی جاتی ہے اور دوسرا زاویہ نظر یہ ہے کہ انسان دنیا کو اپنا منظور نظر اور اصل مقصد بنالے اس نگاہ کا نتیجہ دھوکہ اور فریب ہے جسکی وضاحت کچھ اس طرح ہے :یہ دنیا کبھی انسان کے لئے ایک ایسا آئینہ بن جاتی ہے جس میں وہ مختلف تصویریں دیکھتا ہے اور کبھی اسکی نظر خود اسی دنیا پر لگی رہتی ہے ۔چنانچہ جب دنیا انسان کے لئے ایک آئینہ کی مانند ہوتی ہے جس میں جاہلیت کے تمدن اور زمین پر فساد برپا کرنے والے ان متکبرین کا چہرہ بخوبی دیکھ لیتا ہے جن کو خدا نے اپنے عذاب کا مزہ اچھی طرح چکھادیا ۔۔۔تو یہ نگاہ ،عبرت ونصیحت کی نگاہ بن جاتی ہے ۔لیکن جب دنیا انسان کے لئے کل مقصد حیات کی شکل اختیار کرلے اور وہ ہمیشہ اسی نگاہ سے اسے دیکھتا رہے تو دنیا اسے ہویٰ وہوس اور فتنوں میں مبتلا کرکے اندھا کردیتی ہے اور وہ اسے بہت ہی سر سبز و شیرین دکھائی دیتی ہے۔اس طرح پہلی نگاہ میں عبرت کا مادہ پایا جاتا ہے اور دوسری نظر میں فتنہ وفریب کا مادہ ہوتا ہے ۔پہلی نگاہ میں فقط بصیرت پائی جاتی ہے جبکہ دوسری نگاہ میںعیاری اور دھوکہ ہے ۔انہیں جملوں کی شرح کے بارے میں ابن الحدید کا بیان ہے کہ جب میں نے حضرت کے یہ جملات پڑھے تو اسکی تشریح میں یہ دو اشعار کہے :
دنیاک مثل الشمس تدنی الیک الضوء لکن دعوةَ المہلکِ
ان أنت أبصرت الیٰ نو ر ھاتَعْشُ و ان تُبصر بہ تد ر ک
تمہاری دنیا کی مثال اس سورج جیسی ہے جس کی ضیاء تمہارے سامنے ہے لیکن ایک مہلک انداز میں کہ اگر تم اس (نور)کی طرف دیکھو گے تو تمہاری نگاہ میں خیرگی پیدا ہوجائیگی اور اگر اسکے ذریعہ کسی چیز کو دیکھنا چاہو گے تو اسے دیکھ لو گے ۔اسی زاویہ نگاہ کی بنیاد پر مولائے کائنات نے یہ ارشاد فرمایا ہے :(۔۔۔جعل لکم أسماعاً لتعی ماعناھا،أبصاراً لتجلوعن عشاھا۔۔۔وکأن الرشدَ فی احرازدنیا ھا۔۔۔)(١)’اس نے تمہیں کان عطا کئے ہیں تاکہ ضروری باتوں کو سنیں اور آنکھیں دی ہیں تاکہ بے بصری میں روشنی عطا کریں ۔۔۔اور تمہارے لئے ماضی میں گذر جانے والوں کے آثار میں عبرتیں فراہم کردی ہیں ۔۔۔لیکن موت نے انہیں امیدوں کی تکمیل سے پہلے ہی گرفتار کرلیا۔۔۔انہوں نے بدن کی سلامتی کے وقت کوئی تیاری نہیں کی تھی اور ابتدائی اوقات میں کوئی عبرت حاصل نہیں کی تھی ۔۔۔ تو کیا آجتک کبھی اقرباء نے موت کودفع کیا ہے یا فریاد کسی کے کام آئی ہے (ہرگز نہیں )مرنے والے کو قبرستان میں گرفتار کردیا گیا ہے اور تنگی قبر میں تنہاچھوڑدیا گیا ہے اس عالم میں کہ کیڑے مکوڑے اسکی جلد کو پارہ پارہ کررہے ہیں۔۔۔اور آندھیوں نے اسکے آثار کو مٹادیاہے اور روز گار کے حادثات نے نشانات کو محو کردیا ہے ۔۔۔تو کیا تم لوگ انہیں آباء واجداد کی اولاد نہیں ہو اور کیا انہیں کے بھائی بندے نہیں ہو کہ پھر انہیں کے نقش قدم پر چلے جارہے ہو اور انہیں کے طریقے کو اپنائے ہوئے ہو اور انہیں کے راستے پر گامزن ہو؟حقیقت یہ ہے کہ دل اپنا حصہ حاصل کرنے میں سخت ہوگئے ہیں اور راہ ہدایت سے غافل ہوگئے ہیں غلط میدانوں میں قدم جمائے ہوئے ہیں ایسا معلوم…………..(١)نہج البلاغہ خطبہ٨٣۔ہوتا ہے کہ اللہ کامخاطب ان کے علاوہ کوئی او ر ہے اور شاید ساری عقلمندی دنیا ہی کے جمع کرلینے میں ہے ‘اس بارے میں آپ نے یہ بھی فرمایا ہے :(وانما الدنیا منتھیٰ بصرالاعمیٰ،لا یبصرمماوراء ھا شیئاً،والبصیر ینفذھا بصرہ،ویعلم أن الدار ورائھا،فالبصیرمنھا شاخص،والأعمیٰ الیھا شاخص،والبصیر منھا متزود،والأعمیٰ لھامتزود)(١)’یہ دنیا اندھے کی بصارت کی آخری منزل ہے جو اسکے ماوراء کچھ نہیں دیکھتا ہے جبکہ صاحب بصیرت اس سے کوچ کرنے والا ہے اور اندھا اسکی طرف کوچ کرنے والا ہے بصیر اس سے زادراہ فراہم کرنے والا ہے اور اندھا اسکے لئے زاد راہ اکٹھاکرنے والاہے’واقعاً اندھا وہی ہے جس کی نگاہیں دنیا سے آگے نہ دیکھ سکیں اور وہ اس سے وابستہ ہوکر رہ جائے (اس طرح دنیا اندھے کی نگاہ کی آخری منزل ہے )لیکن صاحب بصیرت وہ ہے جسکی نگاہیں ماوراء دنیا کا نظارہ کرلیتی ہیں اور اس کی عاقبت کو دیکھ لیتی ہیں آخرت اسکی نظروں کے سامنے ہے لہٰذا (اسکی نگا ہیں )اور اسکے قدم اس دنیا پر نہیںٹھہرتے بلکہ وہ اس سے عبرت حاصل کرکے آ گے کی طرف کوچ کرجاتا ہے ۔ابن ابی الحدید نے اس جملہ کی مذکورہ شرح کے علاوہ ایک اور حسین تشریح کی ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں ۔دنیا اور مابعد دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے اندھا کسی خیالی تاریکی کا تصور کرتا ہے اور یہ تصور کرتا ہے کہ وہ اس تاریکی،کو محسوس کررہا ہے جبکہ وہ واقعاً اسکاا حساس نہیں کرپاتا بلکہ وہ عدم ضیاء ہے (وہاں نور کا وجود نہیں ہے )بالکل اس طرح جیسے کوئی شخص کسی تنگ و تاریک گڑھے میں گھس…………..(١)نہج البلاغہ خطبہ ١٣٣۔جائے اور تا ریکی کا خیال کرے مگر اسے کچھ نہ دکھائی دے اور اسکی نگاہیںکسی چیز کا مشاہدہ کرتے وقت کام نہیں کرپاتیں مگر وہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ تاریکی وظلمت کو دیکھ رہا ہے ۔لیکن جو شخص روشنی میں کسی چیز کو دیکھتا ہے اسکی بصارت (نگاہ)کام کرتی ہے اور وہ واقعاًمحسوسات کو دیکھتا ہے ۔چنانچہ دنیا اور آخرت کی بھی بالکل یہی حالت ہے :کیونکہ اہل دنیا کی نگاہوں کی آخری منزل اور ان کی پہنچ صرف ان کی دنیا تک ہے ۔او ر ان کا خیال یہ ہے کہ وہ کچھ دیکھ رہے ہیں جبکہ واقعاً انہیں کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا ہے اور نہ ان کے حواس کسی چیز کے اوپر کام کرتے ہیں ۔ لیکن اہل آخرت کی نگاہیں بہت کارگر ہیں اور انہوں نے آخرت کو باقاعدہ دیکھ لیا ہے لہٰذا دنیا پر ان کی نگاہیں نہیں ٹھہرتی ہیں ،تو در حقیقت یہی حضرات صاحبان بصارت ہیں ‘(١)
طرز نگاہ کا صحیح طریقہ کارجس طرح انسان کے تمام اعمال وحرکات میں کچھ صحیح ہوتے ہیںاور کچھ غلط ۔ اسی طرح کسی چیزکے بارے میں اسکا طرز نگاہ بھی صحیح یا غلط ہوسکتا ہے ۔جیسا کہ قرآن کریم نے رفتار وکردار کے صحیح طریقوں کی تعلیم دیتے ہوئے صحیح طرز نگاہ کی تعلیم ان الفاظ میں دی ہے :(ولا تمدّنَّ عینیک الیٰ ما متّعنابہ أزواجاً منھم زھرة الحیاة الدنیا لنفتنھم فیہ ورزق ربک خیروأبقیٰ)(٢)’اور خبر دار ہم نے ان میں سے بعض لوگوں کو جو زندگانی دنیا کی رونق سے مالامال کردیا ہے اسکی طرف آپ نظر اٹھاکر بھی نہ دیکھیں کہ یہ ان کی آزمائش کا ذریعہ ہے اور آپ کے پروردگار کا رزقاس سے کہیں زیادہ بہتر اور پائیدار ہے ‘…………..(١)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج٨ص٢٧٦۔(٢)سورئہ طہ آیت ١٣١۔نظر اٹھاکر دیکھنا بھی کسی چیز کو دیکھنے کا ایک طریقہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی نگاہ اس مال ودولت اور رزق کے اوپر پڑتی رہے جو خداوند عالم نے دوسروں کو عنایت فرمائی ہے اس مد نظر (نگاہیں اٹھاکر دیکھنے)میں اپنی حد سے تجاوز کرنے کے معنی پائے جاتے ہیں ۔گویا انسان کی نگاہیں اپنے پاس موجود خداوند عالم کی عطا کردہ نعمتوں سے تجاوز کرکے دوسروں کے دنیاوی راحت وآرام اور نعمتوں کی سمت اٹھتی رہیں اور مسلسل انہیں پر جمی رہیں ۔حد سے یہ تجاوزہی انسانی مشکلات اور عذاب کا سرچشمہ ہے ۔۔۔کیونکہ جب تک خداوند عالم اسے مال نہ دیگا اسے مسلسل اسکی تمنا رہے گی اور وہ اسکے لئے کوشش کرتا رہے گا۔اور جب خداوند عالم اسے اس نعمت سے نواز دیگا تو پھر وہ ان دوسری نعمتوں کی خواہش اور تمنا شروع کردیگا جو دوسروں کے پاس ہیں اور اسکے پاس نہیں ہیں ۔۔۔اور اس طرح دنیا سے اسکی وابستگی اور اسکے لئے سعی وکوشش میں دوام پیدا ہوجاتا ہے۔( جیسا کہ مولائے کائنات نے ارشادفرمایا ہے )نیزاسکے پیچھے دوڑنے سے عذاب مزید طولانی ہوجاتا ہے اور وہ اپنے آخری مقصد تک نہیں پہونچ پاتا ہے، دنیا کے بارے میں اس طرز نگاہ سے انسا ن کو یاس وحسرت کے علاوہ اور کچھ ہاتھ آ نے والا نہیں ہے ۔واضح رہے کہ لوگوں کے پاس موجود نعمتوںپر نگاہیں نہ جمانے اور ان کی طرف توجہ نہ کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان سعی وکوشش اور محنت و مشقت کرنا ہی چھوڑدے کیونکہ ایک مسلمان ہمیشہ متحرک رہتا ہے ۔مگر لوگوں کے پاس موجود نعمتوں کو دیکھ کر حسرت اورغصہ کے گھونٹ پینے کی وجہ سے نہیں ۔مختصر یہ کہ: کسی بھی چیز کے بارے میں انسان کی طرز نگاہ اسکے نفس کی سلامتی یا بربادی میں اہم کردار اداکرتاہے ۔کیونکہ کبھی کبھی ایک نظر انسان کی روح کو آلودہ اور گندھلا بنادیتی ہے اور اسے ایک طولانی مصیبت اور عذاب میں مبتلا کردیتی ہے ۔جیسا کہ روایت میں ہے :(رُبَّ نظرة تورث حسرة) (١)’کتنی نگاہوں سے حسرت ہی ہاتھ آتی ہے ‘جبکہ کبھی کبھی یہی نگاہ انسان کی استقامت اور استحکام عمل کا سرچشمہ قرار پاتی ہے بیشک اسلام ہمیں’نگاہ ونظر’سے منع نہیں کرتا ہے بلکہ ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ کسی بھی چیز کے بارے میں ہمارا زاویہ نگاہ کیا ہونا چاہئے!…………..(١) وسائل الشیعہ ج١٤ص١٣٨۔فروع کافی ج٥ص٥٥٩۔میزان الحکمت ج١٠۔