عصر جاہلیت میں عورت کی حیثیت

466

دختر کشی عرب میں عام رواج بن گیا تھا ۔ بعض لوگ بچیوں کے پیدا ہوتے ہی سر قلم کرتے تھے تو بعض لوگ پہاڑی کے اوپر سے پھینک دیتے تھے۔ تو بعض لوگ پانی میں پھینک دیتے تھے تو بعض لوگ زندہ درگور کرتے تھے۔ جب بھی عورت بچے کو جنم دیتی تو ایک طرف گڑھا کھود کر رکھتے تھے اور دوسری طرف بچے کا لباس ۔ اوردیکھتے کہ بچی ہے تو گڑھے میں ڈال دیتے لیکن اگربچّہ ہو تو لباس فاخرانہ اسے پہناتے تھے۔داستان قیس قساوت اور سنگدلی کامنہ بولتا ثبوت ہے۔یہ شخص پیامبر اسلام (ص) پر ایمان لانے کے بعد رو رہا تھا ۔ پیامبر اسلام (ص)نے وجہ دریافت کی تو کہا : یا رسول اللہ(ص) اس بات پر افسوس کر رہا ہوں کہ دعوت اسلام کچھ سال پہلے ہم تک پہنچ جاتی تو میں اپنی بچیوں کو زندہ درگور نہ کرتا۔! یا رسول اللہ (ص) میں اپنی ہاتھوں سے تیرہ بچیوں کو زندہ درگور کرچکا ہوں۔ تیرہویں ۔ بچی جو میرے کہیں سفر کے دوران پیدا ہوئی تھی میری بیوی نے مجھ سے چھپا کر اپنے کسی عزیز کے ہاں رکھ دی تھی اور مجھ سے کہنے لگی بچہ جو دنیا میں آیا تھا وہ سقط ہوا اور مر گیا ۔ میں بھی اسی بات پر اطمنان کر کے بیٹھا۔ کچھ سال گذرنے کے بعد میں کسی سفر سے جب واپس گھر پہنچا تو دیکھا گھر میں بہت ہی لاڈلی اور خوبصورت لڑکی آئی ہوئی ہے۔ اپنی بیوی سے کہا یہ لڑکی کون ہے؟ اس نے تردد کے ساتھ جواب دیا یہ تمھاری بیٹی ہے ۔ تو میں اسے فوراً گھسیٹ گھسیٹ کر محلے سے دور لے جارہاتھا اور میری بیٹی زار زار رورہی تھی اور کہہ رہی تھی بابا میں کبھی آپ سے کچھ نہیں مانگوں گی اور نہ آپ کے دسترخوان پر بیٹھوں گی اور نہ کبھی آپ سے لباس مانگوں گی ۔ لیکن مجھے رحم نہ آیا اور اسے بھی درگور کردیا۔ جب رسول گرامی7نے یہ ماجرا سنا تو آنکھوں میں آنسو آئے اور فرمانے لگے من لا یرحم لا یرحم ۔ جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا ۔ اور فرمایا: اے قیس ! تمھارے لئے برا دن آنے والا ہے۔ قیس نے کہا مولا ابھی میں اس گناہ کی سنگینی کو کم کرنے کیلئے کیا کرسکتا ہوں ؟ اس وقت رسول اللہ(ص)نے فرمایا: اعتق عن کلّ مولودةٍ نسمةً۔ یعنی اسی تعداد میں کہ تم نے زندہ درگور کیا ہے ، کنیزوں کو آزاد کرو-1
جزیرة العرب میں ناجائز شادیاں

مساعاتبیگناہ بچیوں کی دردمندانہ موت اور قتل کے نتیجے میں عورتوں کی تعداد کم ہوتیگئی۔ اور لوگوں کا بغیر بیوی کے زندگی گذارنا ناممکن تھا ،جس کا لازمہ یہ تھا کہ عورتوں کو کرایہ پر مہیّا کیا جاتا تھا ۔ یہ عورت کی بیچارگی کی انتہا تھی کہ چوپائیوں کی طرح کرائے پر دی جاتی تھی۔! عبداللہ بن جدعان اور عبداللہ بن ابی مکہ اور یثرب میں اپنی کنیزوں کو کرایہ پر دیکر بہت بڑا مال دار بن گئے ۔ اور یہ بھی رسم تھا اگر مقروض قرض نہ چکا سکا تو قرض دینے والا اس کی بیٹی یا بیوی کو لیکر زنا پر مجبور کرتے اور زنا کے پیسے سے اپنا قرض واپس لیتے تھے۔یہ رسوائی (مساعات ) کے نام سے مشہور تھی۔اس کے علاوہ بھی قسم قسم کے نامشروع اور ذلّت آمیز نکاح رائج تھے۔ جن میں سے کچھ یہ ہیں:
نکاح الاستیضاعیہ نکاح شرم آور ترین نکاح ہے۔ اگر کوئی شخص کسی شجاع ،دلیر،خوبصورت اورنامور شخص کا ہمشکل فرزند کا خواہاں ہو تو بغیر کسی شرم و حیا کے اپنی بیوی کو اسی صفت کا مالک فرد کے پاس بھیج دیتا تھا۔ اور جب حاملہ ہو اور زنا زادہ پیدا ہو جائے تورسم ورواج کے مطابق اسی شوہر کا سمجھا جاتا تھا۔!
نکاح الرھطیہ نکاح اجتماعی اور گروہی نکاح کہلاتا ہے ۔ تقریباً دس افراد پر مشتمل ایک گروہ ایک دوسرے کی رضایت کے ساتھ ایک عورت کیساتھ ہمبستری کرتے رہتے۔ اگر بچہ پیدا ہوجائے تو ہو عورت اپنی مرضی سے کسی ایسے شخص کی طرف نسبت دیتی جو زیادہ خرچہ دیتا رہا ہو۔ لیکن اگر کوئی بچی پیدا ہوجائے تو اعلان نہیں کرتی۔ کیونکہ کوئی راضی نہیں ہوتے۔عمرو عاص جس نے جنگ صفین میں حکمیت ایجاد کرکے خلافت کو علی (ع)سے لیکر معاویہ کیلئے برقراررکھا۔ اسی دست جمعی نکاح سے پیدا ہوا تھا، اس کی ماں لیلی نے اسے عاص بن وائل کی طرف منسوب کیا۔ جبکہ ابو سفیان اپنی آخری دم تک یہ ادعا کرتا رہا کہ عمرو میرے ہی نطفے سے پیدا ہوا تھا لیکن عاص بن وائل لیلی کو زیادہ پیسہ دیتا تھا اس وجہ سے اسے بعنوان باپ انتخاب کیا۔
نکاح البدلیعنی اپنی بیوی کو دوسرے کو دینا اور اس کی بیوی کو اپنے پاس لانا۔جو ایک خاصجملے کیساتھ مبادلہ ہوتا تھا۔ انزل الیّ عن امرائتک و انزل لک عن امرائتی۔
نکاح المقتیہ بھی رائج تھا کہ اگر کوئی شخص مر جائے تو اس کی بیوی کو بھی ار ث کے ساتھ بڑا بیٹا اپنے تحویل میں لیتا تھا۔ اگر سوتیلا ماں ہو اور جوان و خوبصورت ہوتو استمتاع بھی کرلیتا تھا۔ یا کسی اور کو دیدیتا اور اس کا مہریہ لے لیتا تھا۔ یہاں بے چاری عورت سوائے تسلیم کرنے کے اور کچھ نہ کر سکتی تھی ۔اسلام نے اس قسم کے نکاح کرنے سے سختی کیساتھ منع کرتے ہوئے فرمایا:وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاء سَبِيلاً -2 اور ان کیساتھ تم نکاح نہ کریں جن سے تمہارے آباء و اجداد نے کیا ہےبیشک کھلی ہوئی برائی اور پروردگار کا غضب اور بدترین راستہ ہے
نکاح الجمععرب کے ثروتمند لوگ اپنے مال و ثروت کو بڑھانے کیلئے کنیزوں کو خریدتے یا بے بندو بار عورتوں کو ایک قرارداد کے ساتھ جمع کرتے اور انہیں اہل فن وادب، موسیقار اور عشوہ گرکے ہاں بھیجتے تاکہ بیشتر کما سکے اور ان میں سے ہر ایک کیلئے الگ گھر مہیا کرکے اس کے دروازے پر ایک خاص قسم کا جہنڈا کھڑا کرتے جو اس بات کی حکایت کرتا تھا کی ہر کوئی وارد ہوسکتا ہے اور اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرسکتا ہے۔ ایسی عورتیں قینات کے نام سے مشہور تھیں۔
نکاح الخدنخندن لغت میں دوست یا معشوقہ کو کہا جاتا ہے کہ مرد اپنی معشوقہ کیساتھ محرمانہ رابطہ پیدا کرتا ہے ۔ عرف جاہلی میں اسے رسمی اور قانونی قرار دیا گیا تھا۔جبکہ قرآن مجید نے اس قسم کے روابط سے منع کرتے ہو ئے فرمایا: مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ-3 یعنی ان کنیزوں کے ساتھ شادی کرو جوپاکدامن ہوں نہ کہ کھلم کھلا زنا کار ہوں اور نہ چوری چھپے دوستی کرنے والی ہوں۔
نکاح الشغاریہ نکاح مبادلی ہے یعنی اپنی بیوی کے مہریے میں اپنی بیٹی دوسرے کو دینا۔ یہ معاملہ بھی دو مردوں کے درمیان ہوتا تھا ، یہاں بھی بے چاری عورت فاقد رضایت اور ارادہ تہی4۔————1 ۔ حقوق زن در اسلام،ص١٥۔2 ۔ نساء ۲۲۔3 ۔ نساء ۲۵۔4 ۔ حقوق زن در اسلام و جہان، ص٣٧

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.