منکرین مہدی (عج) کی ضعیف دلیلیں اور انکا رد

188

منکرین مہدی (عج) کی ضعیف دلیلیں اور انکا رد

اہل مطالعہ و تحقیق جانتے ہیں کہ کتب اہل سنت میں احادیث ظہور حضرت مہدی(عج) اتنی زیادہ ہیں کہ جو بھی غیر جانب دارانہ اورانصاف کے ساتھ ان کی طرف رجوع کرے گا اسے اس بات کا یقین حاصل ہوجائے گا کہ ان سب کی دلالت اس بات پر ہے کہ وجود مہدی(عج) اسلام ومسلمین کے ان مسلم عقاید وموضوعات میں ہے کہ جن کا بیچ خود حضور پاک(ص) نے بویا، اورآئمہ علیہم السلام اور اصحاب کرام نے ان کی آبیاری کی ہے ، لہذا یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ وجود ظہور حضرت امام مہدی(عج) کے بارے میں متون اسلامی میں جتنی حدیثیں وارد ہوئیں ہیں اتنی احادیث کسی اورموضوع کے بارے میں وارد نہیں ہوئیں ہیں ، واضح رہے ابتداءبعثت سے حجة الوادع تک پیغمبر اکرم(ص) نے سینکڑوں مرتبہ حضرت مہدی (عج) کے بارے میں گفتگو کی ہے ، اورعہد رسول اکرم(عج) سے ہی لوگ ان کے انتظار میں دن گنتے تھے یہاں تک کہ کبھی تو بعض لوگ کسی کو اس کا حقیقی مصداق سمجھ بیٹھے تھے، ان سے متعلق شیعہ وسنی دونوں راویوں نے احادیث نقل کی ہے، ان کے رایوں میں عرب، عجم ، مکی ومدنی ،کوفی بغدادی، بصری، قمی ، کرخی، بلخی ، خراسانی ، وغیرہم شامل ہیں ، کیا ان ہزاروں سے زائد احادیث کے باوجود کوئی مسلمان وجود مہدی(عج) کے بارے میں شک کرے گا اوریہ کہے گا کہ یہ احادیث متعصب شیعوں نے جعل کر کے پیغمبراکرم(عج) کی طرف منسوب کردیں ہیں ؟؟

ان واضح حقائق کے مقابلے میںحضرت مہدی(عج) کی شخصیت کے بارے میں شکوک وشبہات ایجاد کرنا اور آپ کی شخصیت کو کسی ایک فرقے سے منسوب کرنے کی کوشش واقعیت پر پردہ ڈالنا ہے، اسلام کے ایک بنیادی عقیدہ کو دبانا اوراسلام کو ضعیف کرنا ہے ، اورآج کی حالت کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے ، یہ منفی پڑوپیگینڈہ یقینا ، جہل کی بنیاد پر نہیں علم کی بنیاد پر کیا جارہا ہے ، اس مذموم پروپیگینڈے کا اصل مرکز دنیا کے کسی اورگوشے میں ہے، جسے برصغیر بالخصوص وطنِ عزیز پاکستان میں بھی پھلانا چاہتے ہیں جس سے غافل نہیں رہا جاسکتا، اس سلسلے میں کچھ توضیحات دیں گے تاکہ جوانان اسلام زیادہ سے زیادہ اسلام دشمن عناصر کی حقیقت اوران کے ناپاک عزائم سے آشنا ہوسکیں ۔

ہم یہا ں امام مہدی (عج) کے منکرین کی کچھ ضعیف دلیلوں کو بیان کرتے ہیں تاکہ قارءین پر واضح ہو کہ امام زمانہ کے منکر کیسی ناپاک سازشوں میں مصروف ہیں:

منکرین عقیدہ مہدویت کی دلیل :

پہلا سبب عبداللہ بن سبا

کچھ اہل سنت کے نام نہاد لوگوں نے اپنی معتبر حدیثوں کی کتب میں امام مہدی (عج) پر سینکڑوں احا دیث اور باب المہدی یا کتاب المہدی جیسے عناوین کو نظر انداز کرتے ہویے ڈھٹایی سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ عقیدہ مہدویت صرف شیعہ عقاید میں سے ہے اور انہوں نے اس عقیدے کو دوسرے مذاہب خصوصاً یہودیوں سے لیا ہے، یعنی صدر اسلام میں مادی فوائد کے حصول اوراسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی غرض سے یہودیوں کی ایک جماعت نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اپنے مخصوص مکر وفریب سے مسلمانوں کے درمیان مقام بنالیا تھا، جس کا مقصد مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی اپنے عقاید کی اشاعت اورمسلمانوں کے استحصال کے علاوہ کچھ اورنہ تھا ، ان ہی میں سے ایک ” عبداللہ بن سبا“ ہے جس کوان کا نمایاں فرد تصور کرنا چاہے ،پس اس عقیدے کی ترقی کے دو سبب ہیں ۔ ۱۔ بیرونی سبب ۲۔ اندرونی سبب ۔ چنانچہ المہدی فی الاسلام کے مصنف لکھتے ہیں :

” کانت الشیعہ الفرق الاسلامیہ الی التعلیق بہٰذہ الاسطورة الّتی ترتکز فی وجود ہا عاملین ، خارجیّ یہودی وقد دخل ہذا العامل الیہودی البیئة الاسلامیہ علی ید عبداللہ بن سبا“( المہدیہ فی الاسلام سعد حسن ، ص ۴۸۔ ۶۰ الشیعہ والتشیع احسان ظہیر الہی، ص ۳۷۸ کے بعد)

ہمارا جواب

ان کے اس دعوی کی صرف ایک ہی دلیل ہے اوروہ ایک ضعیف تاریخی روایت ہے جس کو

جناب” طبری “نے سب سے پہلے اپنی تاریخ میں نقل کیا اوران کے بعد آنے والے تمام مورخین نے اس بے بنیاد مجعول شدہ روایت کو جناب طبری پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی کتب تاریخی میں نقل کیا ہے ۔

اورشیعہ دشمن عناصر نے متعدد مقامات پر اس سے استفادہ کرتے ہوئے ان کوشیعہ مذہب کا بانی اورموجد قرار دیتے ہوئے بہت سے اسلامی عقاید کو مخدوش بنانے کی کوشش کی ہے ، ان میں سے ایک ” عقیدة مہدویت“ ہے ، تمام مغرضین اورمنحرفین نے اسی روایت سے تمسک کیا ہے اورعبداللہ بن سبا کے یہودی ہونے کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔

لہذا اس تاریخی روایت کو قارئیں کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے اہل سنت کی کتب ” رجالی“کی روشنی میں اس روایت میں موجود افراد ، یعنی رجال کے بارے میں مختصر سی گفتگو کرتے ہیں ، تاکہ عبداللہ بن سبا کی حقیقت اور اس کی حیثیت سے قارئین محترم کاملاً آشنا ہوسکیں روایت یہ ہے :

” کتب الی السّری عن شیعب عن سیف عن عطیّہ ، عن یزید الفقسعی کان عبداللہ بن سبا یہودیاً من اہل صنعا امہ سوداء، فاسلم زمان عثمان ثم تنتقل فی بلدان المسلمین یحاول ضلالتہم ۔“ (۔تاریخ طبری ، ج۲، ص ۶۲۲، باب ذکر حوادث ۳۵ھ ۔)

سری نے شعیب سے انہوں ے سیف سے انہوں نے عطیہ سے انہوں نے یزید فقسعی سے روایت نقل کی ہے کہ عبداللہ بن سباءیہودی تھا صنعا کا رہنے والا تھا، حضرت عثمان کے زمانے میں مسلمان ہوا اورمسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا تھا۔

سند روایت کی تحقیق

اب ہم خود اہل سنت کی رجالی کتب سے بالترتیب ان راویوں کا جایزہ لیتے ہیں:

۱۔ السری ، چاہے اس سے مراد ” سری بن اسماعیل کوفی “ ہو ں یا سری بن عاصم دونوں رجال اہلسنت والجماعت کے نزدیک جھوٹا اوروضاع تاریخ وحدیث ہے ۔۱

۲۔ شعیب سے مراد ، شعیب بن ابراہیم کوفی ہیں اور وہ مجہول الحال اور گمنام ہیں ۔۲

(۱۔۲۔تہذیب التہذیب ، ج۳، ص ۴۰۱” عن احمد ترک الناس حدیثہ ، وقال نسائی ، لیس شیعہ کان یغلب الاسانیدو ؛ میزان الاعتدال ، ج۱،ص ۳۷، تاریخ الخطیب ( تاریخ بغدادی) ج۹، ص ۱۹۳ ، لسان المیزان ، ج۳، ص ۱۳۔)

۳۔یزید الفقسعی مجہول الحال اورگمنام ہے۔

(تہذیب التہذیب ، ج۴، ص ۲۶۲؛میزان الاعتدال ، ج۱،ص ۴۳۸)

۴۔ سیف بن عمر ، جھوٹا آدمی تھا۔ انہ کان یضع الحدیث ، واتّہم بالذندقہ۔

(تہذیب التہذیب ، ج۴، ص ۲۶۲؛میزان الاعتدال ، ج۱،ص ۴۳۸۔)

(ذہبی ، میزان الاعتدال ، ج۳، ص ۷۹۔)

یہ تھی اس حدیث کے راویوں کی حقیقت کہ سب کے سب غیر معتبرہیں، جس کی وجہ سے خود حدیث بھی اپنا اعتبار کھودیتی ہے لہذا اس حدیث کو سندبنا کر پیش کرنا غیر معقول اور غیر قابل قبول ہے، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنے کو اہل قلم سمجھتے ہوئے اسلام کے ٹھکیدارہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن صحیح تحقیق کرنے اور حقیقت پسندی سے کام لینے کے بجائے خواہشات تعصبات کی آندہھیوں میں بہہ گئے ،اسی لئے غیر منطقی اوربے بنیاد باتوں کو لکھ کر مسلمانوں کے درمیان انتشار پھیلا کراسلام ومسلمین کی جڑیں کاٹنے میں استکباری طاقتوں خصوصاً یہودیوں کی مدد کرتے ہیں ۔

یہ مختصر سی تنقید ہم نے اس لئے پیش کی ہے تاکہ نوجوانا ن اسلام ان گمراہ کن بیانات اور غیر منطقی کتابوں کے مطالعہ سے پریشان نہ ہوں ، اورایسے مصنفین اپنی آنکھیں کھولیں اور مبانی اسلام سے زیادہ سے زیادہ آشنائی حاصل کریں ، اورتقلید اور تعصب کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں قدم رکھتے ہوئے اپنی بساط کے مطابق قدم اٹھائیں تاکہ اپنی اور دوسرے مستضعفین کی عاقبت خراب نہ کریں ، مختصریہ کہ ” عبداللہ بن سبا“ کا وجود تاریخ کے مسلمات میں سے نہیں ہے اور اس کے وجود کو ، مسلمانوں خصوصاً شیعہ مسلمانوں کے دشمنوں نے گڑھ لیا ہے اوراگر واقعاً کوئی ایسا شخص موجود تھا تو ان باتوں کا کوئی ثبوت کیوں نہیں ہے ؟جن کو ان کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ، کیونکہ کوئی عقلمند شخص اس بات کو قبول نہیں کرسکتا کہ ایک نومسلم یہودی نے ایسی غیر معمولی قوت وطاقت پیدا کرلی تھی کہ وہ اس ایک گھٹن سے بھرے ہوئے ( استبدادی) ماحول میں بھی ، جب کہ کوئی بھی اہل بیت عصمت وطہارت کے سلسلے میں ایک بات بھی کہنے کی جرات نہیں کرتاتھا اس نے اس وقت ایسے بنیادی اقدامات کئے اور مستقل تبلیغات اور وسایل کی فراہمی سے لوگوں کو اہل بیت کی طرف دعوت دیتے ہوئے خلیفہ وقت کے خلاف ایساہنگامہ برپا کیا کہ لوگ قتل خلیفہ کے درپے ہوگئے مگر خلیفہ کے جاسوسوں کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی !!! یعنی ان لوگوں کے مطابق ایک نومسلم یہودی نے ان کے عقاید کی بنیادیں متزلزل کردیں اور کسی شخص میں کچھ کہنے کی ہمت بھی ہوئی ۔ ایسے کارناموں کے حامل انسان کا وجود صرف تصورات کی دنیا میں ہی ممکن ہے۔

( علی وفرزندان علی ، ڈاکٹر طٓہ حسین مصری ، بحوالہ آفتاب عدالت۔)

مختصریہ کہ یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ” عقیدہمہدویت“ کو” عبداللہ بن سبا“مفروض الوجود یہودی نے مسلمانوں کے درمیان فروغ دیا ہو، اس لئے کہ ہم پہلے ثابت کرچکے ہیں کہ مصلح عالم حضرت مہدی(عج) کی آمد کی بشارت دینے والے خود پیغمبر اکرم (ص) ہیں ۔ ثانیاً داستان ”عبداللہ بن سبا“ایک افسانہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ۔

دوسرا سبب

منکرین ” عقیدہ مہدویت“ کا کہنا ہے کہ اس عقیدے کی ترقی کاایک اندرونی سبب بھی ہے چنانچہ ” المہدیہ فی الاسلام“ کے مصنف لکھتے ہیں ” وامّا العامل الثانی فی خلق ہذاالمعتقد فی البیئة الاسلامفہو اسلامی منتزع من بیئة الاسلام ، اذ عند ما افلت زمام الامر الشیعة۔ ۔ ۔ “۱۔(المہدیہ فی الاسلام، ص ۴۸۔ ۶۰)۔

مصنف مذکور کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اکرم (ص) کی وفات کے بعدآپ کے اہل بیت اور رشتہ دار منجملہ علی بن ابی طالب(ع) خود کو زیادہ خلافت کا حقدار سمجھتے تھے ،چند اصحاب بھی ان کے ہم خیال تھے ، لیکن ان کی توقع کے برخلاف حکومت خاندان رسالت سے چھن گئی جس سے انہیں بہت صدمہ ہوا یہاں تک کہ جب حضرت علی(ع) کے ہاتھوں زمام خلافت آئی تو وہ مسرور ہوگئے !! اوریہ سمجھنے لگے اب خلافت اس خاندان سے باہر نہیں جائے گی ، لیکن علی(ع) داخلی جنگوں کی وجہ سے اسے کوئی ترقی نہ دے سکے !! نتیجہ میں آپ کو ابن ملجم نے شہید کیا پھر ان کے فرزند حسن (ع) بھی کامیاب نہ ہوسکے آخر کار خلافت بنی امیہ کے پاس چلی گئی ۔

رسول اللہ کے دو فرزند امام حسن (ع) وحسین (ع) خانہ نشینی کی زندگی گزار رہے تھے اور اسلامی حکومت اور اقتدار دوسروں کے ہاتھو میں تھا ، رسول خدا کے اہل بیت اوران کے چاہنے والے فقر وتنگدستی میں زندگی بسر کرتے رہے اورمال غنیمت مسلمانوں کا بیت المال بنی امیہ اوربنی عباس کی ہوس رانی پر خرچ ہوتا تھا، ان تمام چیزوں کی وجہ سے روز بہ روز اہل بیت کے طرفداروں میں اضافہ ہوتا گیا اور گوشہ وکنار سے اعترض ہونے لگے ، دوسری طرف حکومت کے عہدہ داروں نے دل جوئی اور مصالحت کے بجائے سختی سے کام لیا اورانہیں دار پر چڑھایا ، کسی کوقید کسی کو جلاوطن کیا۔

مختصریہ کہ رسول خدا کی وفات کے بعد آپ کے اہل بیت اوران کے طرفداروں کو مصیبتیں اٹھانا پڑیں ،فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو باپ کی میراث سے محروم کردیا ۔ علی ابن طالب (ع) کو خلافت سے دور رکھا گیا ، حسن ابن علی (ع) کو زہر دے کر شہید کردیا گیا حسین ابن علی (ع) کو اولاد واصحاب سمیت کربلا میں شہید کیا گیا اور ان کی مخدرات کو قیدی بنالیا گیا، مسلم بن عقیل اورہانی ابن عروہ کوامان دینے کے بعد قتل کرڈالا گیا، ابوذر غفاری کو ” ربذہ “ میں جلاوطن کردیا گیا ، ہجر بن عدی : عمر وبن حمق، میثم تمّار ، سعید بن جیر کمیل بن زیاد اورایسے سیکڑوں اصحاب خاندان اہل بیت کو تہ تیغ کردیا، یزید بن معاویہ کے حکم سے مدینہ النبی کو تاراج کیا گیا ایسے ہی اور بہت سے واقعات رونما ہوئے کہ جن سے تاریخ بھری پڑھی ہے ، ایسے تلخ زمانے کو بھی شیعیان علی نے استقامت کے ساتھ گزارا ، اورمہدی کے منتظر رہے ، کبھی علویوں میں سے کسی نے قیام کیا لیکن کامیابی نہ مل سکی اور قتل کردیا گیا ، ان ناگوار حوادث سے اہل بیت کے قلیل ہمنوا ہر طرف سے مایوس ہوگئے اور اپنی کامیابی کا انہیں کوئی راستہ نظر نہ آیا، تو وہ ایک امید دلانے والا منصوبہ بنانے کے لئے تیار ہوئے ، ظاہر ہے مذکورہ حالات اور حوادث نے ایک غیبی نجات دینے والے اور ” مہدویت“ کے عقیدے کو قبول کرنے کے لئے مکمل طور پر زمین ہموار کردی تھی ، اس موقع پر نومسلم یہودی نے فائدہ اٹھایا اور اپنے عقاید کی ترویح کی ، یعنی غیبی نجات دینے والے کے معتقد ہوگئے !

ہرجگہ سے مایوس شیعوں نے اسے اپنے درد دل کی تسکیں اور ظاہری شکست کی تلافی کے لئے مناسب سمجھا اوردل وجان سے قبول کر لیا، لیکن اس میں کچھ رد وبدل کرکے کہنے لگے ، وہ عالمی مصلح یقینا اہل بیت میں سے ہوگا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ، ساتھ لوگ اس کی طرف مایل ہوگئے اور اس عقیدے نے موجودہ صورت اختیار کرلی ۔(المہدیہ فی الاسلام، ص ۶۹۔)

ہمار ا جواب

اہل بیت اوران کے ماننے والوں سے متعلق جس مشکلات اور مصیبتوں کا ذکر فاضل مصنف نے کیا ہے وہ باالکل صحیح ہیں، لیکن ” عقیدہ مہدویت “ کے اثبات کے لئے توجیہ کی ضرورت نہیں ہے ، اس لئے کہ تحلیل وتوجیہ کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے ، جب ہمیں ” عقیدہ مہدویت “ کے اصل سرچشمہ کا علم نہ ہوتا۔ لیکن ہم اہل سنت کے صحاح وسنن ومسانید اور دوسری کتابوں سے پہلے یہ ثابت کرچکے ہیں کہ خود پیغمبر اکرم (ص)نے اس عقیدے کو مسلمانوں میں رواج دیا اور ایسے مصلح کی پیدائش کی بشارت دی ہے ۔

اس کے علاوہ آج کے زمانے میں جو دنیا بھر میں غیر مسلمان انسانوں پر مختلف صورتوں میں ظلم وستم ہورہا ہے یاخود اسلامی ممالک کے حکمران فقط اسلامی جمہوریت یا حکومت کے نام پر مسلمان عوام کا ہر وسیلہ سے خون چوس رہے ہیں ، خونریزی ، بے جاغصب اموال ،بے انصافی وغیرہ کا بازار گرم ہے، اسے بھی شیعوں کے اماموں پر ظلم وزیادتی اوران کے جائز حقوق سے محرومی کا نتیجہ تصور کیا جاسکتا ہے ؟ زرا غور فرمائیں اورپھر جواب دیں ، کیا حکیم مطلق خدائے رحیم کی عدالت کا تقاضا یہی ہے کہ دنیا روز بروز مظلوموں کی زیادتیوں سے پرہوتی جائے ظالم وجابر پوری آزادی سے ان پر ستم کرتے رہیں مگر یہ دنیا بغیر کسی عالمی مصلح کے اپنی زندگی تمام کردے اور قصہ تمام ہوجائے؟ نہیں بلکہ ایک پرسکون ذہن اورانسانی عقل ، دنیا کی بگڑتی حالت دیکھ کر بڑی سادگی اورآسانی سے اس نتیجہ پر پہنچ کر سکون واطمنان کا سانس لیتی ہے کہ کڑوڑوں مظلوموں اور ستم دیدہ انسانون کی امید کا مرکز کسی نہ کسی کو ضرور ہونا چاہئےے اوروہی مرکز سکون ، ” عقیدہ مہدویت “ ہے جس کا ثبوت نقل سے پہلے عقل ہے ، یعنی یہ وہ عقیدہ ہے جس پر قرآن ، سنت ، عقل اورتجربہ تاریخ ، (جو کہ خون وآہ ونالہ وشیون سے بھری ہوئی ہے ) مستحکم دلیل ہیں۔ اب ذرا اس عقیدہ کا اجمالی جائزہ قرآن میںلیتے ہیں تاکہ نادرست تجزئےے اور بے جا تصورات ذہنون سے خارج ہوسکیں ۔

مہدی قرآن کی نظر میں

بعض مصنفین لکھتے ہیں ” اگر عقیدہ مہدویت “ صحیح ہوتا تو قرآن میں بھی اس کاذکر آیا ہوتا، جب کہ اس آسمانی کتاب میں لفظ مہدی کہیں نظر نہیں آتا اوربعض مصنفین نے لکھا ہے ، کہ شیعوں نے اپنے اس غلط عقیدے کی تائید کے لئے جان بوجھ کر آیات قرآنی سے تمسک کرتے ہوئے غلط تاویلات وتوجیہات کی ہیں ، لیکن واقعیت یہ ہے کہ شیعوں کی یہ تفسیر نہ تو قرآن کریم کے مضمون آیات سے موافق ہے اورنہ موافق عقیدہ اہل سنت ہے اورنہ اہل لغت(المہدیہ فی الاسلام، ص۸۲)

ہمارا جواب

بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ لفظ علی وحسن وحسین ومہدی(ع) ، متن قرآن میں ہونا چاہئے تاکہ ہم ان کے امامت وخلافت کے قایل ہوجائیں باالفاظ دیگر ، اگر علی(ع) واولاد علی(ع) کو خداوند متعال نے امام وخلیفہ مسلمین بنایا ہے تو قرآن کریم میں کیوں ان کا ذکر نہیں ہے ؟ جب کہ آپ جانتے ہیں یہ ایک غلط سوچ ہے کیوں کہ۔

۱۔ آپ بتائےے کہ جن کی خلافت کے آپ معتقد ہیں اوراس پر زور دیتے ہیں ان کے اسماءکہاں قرآن مجید میں آئے ہیں ؟ پس کیوں ان کی خلافت کو تسلیم کرتے ہیں ؟؟

۲۔آپ حضرت علی(ع) اور اولاد علی(ع) کے نام قرآن مجید میں نہ ہونے کی وجہ سے ان کی امامت وخلافت کو قبول نہیں رکھتے جب کہ ایسے کئی موضوعات اور مسائل ہیں جن کا نام قرآن مجید میں نہیں آیا ہے لیکن آپ اسے قبول کرتے ہیں اوران کے بارے میں زرا سے بھی شکوک وشبہات کا اظہار نہیں کرتے ، مثال کے طور پر قرآن کریم میں کئی مقامات پر نماز کا حکم دیا گیا ہے لیکن قرآن مجید کے کئی سورہ میں یہ نہیں لکھا ہے کہ صبح کی نماز ۲ دو رکعت پڑھیں مغرب کی تین ظہر وعصر وعشاءچار۴ چار۴رکعتیں

اسی طرح قرآن مجید میں متعدد مقامات پر زکواة کا حکم دیا گیا ہے لیکن متن قرآن کریم سے یہ استفادہ نہیں ہوتا کہ ہر چالیس درہم پرایک درہم زکوٰة فرض ہے ۔

قرآن کریم نے حج کو افراد مستطیع پر واجب وفرض قرار دیا ہے ، لیکن یہ مشخص نہیں کیا کہ خانہ خدا کے طواف کے وقت سات ۷ مرتبہ چکر لگایا جائے ۔

سارے مسلمان چاہے شیعہ ہوں یا سنی ایسے تمام مسایل جن کے بارے میں قرآن کریم میں صراحتاً ذکر نہیں ہے، کو پیغمبر اکرم کے کہنے پر قبول کرتے ہیں ، اور ان پر عمل کبھی کرتے ہیں ، اور کوئی بھی جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے ان مسائل کے بارے میں زرا سابھی شک وشبہ نہیں رکھتا اورنہ ہی رکھنا چاہئےے۔

میں فیصلے کو قارئین پر چھوڑتا ہوں : آپ خود ہی فیصلہ کریں مذکورہ موضوعات اور ” عقیدہ امامت ومہدویت“ جس کے بارے میں احادیث متواتر کتب صحاح وسنن ، ومسانید وغیرہم میں اہل سنت سے نقل ہوچکی ہیں اور مسلمانوں کا اجماع بھی ہے اورعقل بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے ، میں کیافرق ہے؟

ایک روایت نہیں دس نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں احادیث اس سلسلے میں رسول اکرم سے شیعہ وسنی معتبر کتب میں نقل ہوئی ہیں جو کہ وجود اور ظہور حضرت امام مہدی(عج) کو اثبات کرتیں ہیں دوسری جانب کسی بھی فرد مسلم کو اس میں بھی شک نہیں کہ حضور کے کلام اور آیات قرآنی میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ آنحضرت کے بارے میں خود قرآن مجید کا ارشاد ہے : ”وماینطق عن الہویٰ ان ھو الّا وحی یوحیٰ۔“

اس کے علاوہ یہ کہنا بھی غلط ہے کہ امام مہدی(عج) کا ذکر قرآن مجید میں نہیں آیا ہے اگرچہ صریحاً آپ کا نام نہیں آیا ہے اور ضروری بھی نہیں کہ آپ یادیگر ائمہ معصومین کا نام قرآن مجید میں صریحاً موجود ہو پھر بھی بعض محققین کے خیال میں ۳۵۰ آیات قرآنی میں حضرت بقیة اللہ الاعظم امام مہدی (عج) کے وجود اور ظہور کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔(معجم احادیث المہدی ، ج۵۔)

ذیل میں ان آیات میں چند نمونے جن کی بزرگ سنی علماءنے تصریح وتفسیر کی ہے کہ یہ آیات امام مہدی(عج) کے بارے میں نازل ہوئی ہیں : قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔

قرانی آیات مہدویت

۱۔ ابن ابی الحدید معتزلی جو کہ اہل سنت کے مقتدر اور بزرگ علماءمیں سے ایک ہیں ، اپنی کتاب ” شرح نہج البلاغہ “ میں سورہ مبارکہ قصص کی چوتھی آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :” علماءاہل سنت کہتے ہیں یہ آیت [ ونرید ان نّمنّ علی الذین استضعفوا ونجعلہم الوارثین] اشارہ ہے اس امام کی طرف جس کا تمام روی زمین اور حکومتوں پر غلبہ ہوگا۔( شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید معتزلی، ج۴، ص ۳۳۶۔)

۲۔ شیخ جمال الدین یوسف بن علی بن عبدالعزیر مقدسی شافعی جو قرن ہفتم کے بزرگ علماءمیں سے ایک ہیں ” عقدالدرفی اخبار المنتظر“ میں تفسیر ثعلبی سے نقل کرتے ہوئے ” حٓمٓعٓسٓقٓ “کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

(حٓ)سے مراد ایک جنگ ہے جو قریش اور موالید کے درمیان پیش آئے گی اور قریش کو فتح حاصل ہوگی ۔

(مٓ) سے مراد سلطنت بنی امیہ ہے (عٓ) سے مراد برتری بنی عباس ہے

(سٓ)سے مراد نور اوررفعت وبلندی حضرت امام مہدی(ع) ہے

(قٓ) سے مراد نزول عیسیٰ ہے ۔ البتہ یہ ان کی اورصاحب ثعلبی کی تفسیر ہے !

۳۔ محدث بزرگ شیخ علی بن محمدا بن احمد ، مالکی ( ابن صباغ) ” الفصول المہمّہ فی معرفة احوال الائمہ “میں آیہ ۲۳سورہ مبارکہ توبہ کی آیت( لیُظہرہُ علی الدّین کلہ) کی تفسیر میں سعید ابن جیر سے روایت نقل کی ہے کہ وہ حضرت امام مہدی(ع) ہیں جن کے ذریعے دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہوگا، اورحضرت مہدی ، حضرت فاطمہ الزہراءسلام اللہ علیہا کی اولاد میں سے ہیں ۔( الفصول المہمہ ، باب الثانی والتسعون ، ص۹۲۔)

۴۔ علامہ زید بن احمد بن سھیل بلخی ” البدءوالتاریخ “ میں لکھتے ہیں ، اور ایک گروہ کا کہنا ہے کہ ان کی [ امام مہدی]جائے پیدائش مدینہ منورہ اور قیام فرمانے کی جگہ مکہ ہے لوگ ان سے صفا ومروہ کے درمیان بیعت کریں گے اورانہیں میں سے بعض کا کہنا ہے کہ وہ روی زمین سے ظلم وستم کا خاتمہ کردیں گے اور عدل انصاف قائم کریں گے ، کمزور اور طاقتوروں کے درمیان ، عدل وانصاف ہوگا اوریہ کہ زمین کے مشرق اور مغرب میں پہنچ جائے گا، قسطنطنیہ فتح ہوجائے گا اورروی زمین کے تمام علاقے یاتو اسلام میں داخل ہوچکے ہوں گے یاپھر جزیہ ادا کرنے والے ممالک ہوں گے اوریہی وہ موقع ہوگا جب اللہ تعالیٰ کایہ وعدہ ( لیُظہرہُ علی الدّین کلہ)کہ اسلام تمام ادیان پر غالب ہوجائے پورا ہوگا۔

( البداءوالتاریخ ، ص ۱۷۸، ایضاً مشکاة المصابح عبداللہ بن خطیب عمری ذیل تفسیر آیہ ۴ سورہ شعراء” ان نشاءتنزل علیہم من السماءآیة مطلت فی اعناقہم لہا خاصعین )۔“

۵۔ بزرگ سنی مفسر امام فخررازی نے مفاتیح الغیب میں ” قرطبی “ نے جامع الاحکام القرآن الکریم مین ” سُدی“ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا غلبہ دین حضرت امام مہدی(ع) کے ظہور کے وقت ہوگا۔(تفسیر کبیر، مفاتح الغیب ، ج۱۶ ، ص ۴۲۔)

۶۔ جناب سیوطی ” درالمنثور “ میں ” انّ الساعة آتیة لاریب فیہا“ کی تفسیر میں ابی سعید خدری کے ان دو روایتوں سے ” لاتقوم السّاعة حتّی یملک رجل میں اہل بیتی ، اور ” ابشرکم بالمہدی لیظہر باختلاف والزلازل ۔“ سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ آیت حضرت امام مہدی (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ اولین علامت قیامت، ظہور حضرت مہدی(ع)ہے ۔(درالمنثور، سیوطی ، ج۵، ص ۲۳۰۔)

۷۔”علامہ حسکانی “سورہ مبارکہ (نسائ) کی آیت ۶۹ ”وحسن اولٰٓئک رفیقاً “ کے ذیل میں پیغمبراکرم (ص) سے روایت نقل کرتے ہیں کہ اس سے مراد قائم آل محمد ہے ۔

( شواہد التنزیل ، ج۱،ص ۱۵۴۔)

مصنف مذکورہ سورہ (نسائ) کی آیت ۸۳ ” اطیعوا اللہ واطیعواالرّسول واولی الامرمنکم“ کے ذیل میں لکھتے ہیں ، اس سے مردا علی (ع) اور اولاد علی(ع) ہیں کہ ان میں سے آخری مہدی(ع) ہیں ( شواہد التنزیل ، ج۱،ص ۱۵۰؛ ینابیع المودة، ص ۱۱۶۔)

(ینابیع المودة ، الباب الثامن ، والسبعون ، ص ۵۰۶۔)

۹۔ حافظ ابن صباغ مالکی آیہ ” بقیة اللّہ خیر لکم ان کنتم مومنین۔“ کے ذیل میں لکھتے ہیں ، اس سے مراد حضرت مہدی (ع)ہیں ۔

(الفصول المہمہ ، باب الثانی الستعون ، ص ۹۲۔)

۱۰۔شیخ محمد بن احمد سفارینی اثری حنبلی لکھتے ہیں ” قال مقاتل ابن سلیمان ومن تبعہ من المفسرین فی قولہ تعالیٰ ” وانّہ لعلم للسّاعة “ انہا نزلت فی المہدی مقاتل ابن سلیمان اوران کے اتباع کرنے والے مفسرین نے لکھا ہے کہ آیت” البتہ وہ قیامت کی علامت ہے “حضرت امام مہدی کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔

( زخرف ؛ آیت ۶۱ ، لوائع انوار البہیة وسواطع الاسرار الاثریہ ، ج۲ص ۲۲۔سورہ زخرف آیت ۶۱۔) ۵۔ وعطیّہ ضعیف ، مجہول الحال اورگمنام شخص تھا ۔ ۸۔حافظ ابرہیم بن محمدحنفی قندوزی سورہ بقرہ کی تیسری آیت ” الذین یومنون بالغیب“ کی تفسیر میں لکھتے ہیں ” غیب “ سے مراد حضرت مہدی (ع) ہیں ، اور آیہ ۱۴۸ سورہ بقرہ ” فااستبقو الخیرات“ کی ذیل میں امام جعفر بن محمدجعفر الصادق (ع) سے روایت نقل کی ہے کہ ان سے مراد حضرت امام مہدی(ع) کے اصحاب خاص تینسو تیرہ (۳۱۳)ا فراد مراد ہیں جو بادل کی طرح دنیا کے کونے کونے سے مکے میں جمع ہوں گے ،حافظ مذکور سورہ آل عمران کی آیت ۱۴۱ ” ویمحّص مافی قلوبکم “ کے ذیل میں ابن عباس سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا نے فرمایا اس سے مراد میرے اوصیاءہیں ان میں علی اور میرے فرزند مہدی ہے کہ زمین کو اس طرح عدل وانصاف سے بھر دیں گے جس طرح ظلم وجور سے بھر چکی ہوگ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.