مرضی خداوند عالم کو اپنی خواہشات پر ترجیح
شیخ صدوق(رح)نے اپنی کتاب’خصال’میں اپنی سند کے ساتھ امام محمد باقر سے روایت نقل کی ہے آپ نے فرمایا کہ :(ان اﷲعزوجل یقول:بجلالی وجمالی وبھائی وعلا ئی وارتفاعی لایؤثر عبد ھوای علیٰ ھواہ الاجعلت غناہ فی نفسہ،وھمّہ فی آخرتہ،وکففت عنہ ضیعتہ،وضمنت السموات والارض رزقہ،وکنت لہ من وراء تجارةکل تاجر)(١)خداوند عالم کا ارشاد ہے :’میرے جلال وجمال،حسن ،ارتفاع اوربلندی کی قسم کوئی بندہ اپنی خواہش پر میری مرضی کو ترجیح نہیں دیگامگر یہ کہ میں اسکے نفس کے اندر استغناپیدا کردوںگا اور اسکی پونجی کا ذمہ دار رہوں گا۔زمین وآسمان اسکے رزق کے ضامن ہیں اور میں اسکے لئے ہر تاجر کی تجارت سے بہتر ہوں’شیخ صدوق نے ‘ثواب الاعمال’میںامام زین العابدین سے یہ روایت مع سند نقل کی ہے…………..(١)بحار الانوار ج٧٠ ص٧٥ ۔(انّ اﷲعزّوجل یقول:وعزّتی وعظمتی وجلالی و بھائی وعلوّی وارتفاع مکانی لایؤثرعبد ھوای علیٰ ھواہ الاجعلت ھمہ فی آخرتہ،وغناہ فی قلبہ،وکففت علیہ ضیعتہ،وضمنت السمٰوات والارض رزقہ،وأتتہ الدنیا وھی راغمة)(١)’آپ نے فرمایا کہ خداوند عزوجل ارشاد فرماتا ہے: میری عزت،عظمت،جلالت،جمال، رفعت اور میرے مکان کی بلندی اور ارتفاع کی قسم کوئی بندہ میری مرضی کو اپنی خواہش پر ترجیح نہیں دیگامگر یہ کہ میں اس کی کل فکر اس کی آخرت کے لئے قرار دیدونگااوراسکے قلب میںاستغنا پیدا کر دونگااور اس کی پونجی کا ذمہ دار رہونگا ۔ آسمان و زمین اسکے رزق کے ضامن ہیں اور اسکے سامنے جب دنیا آئے گی تو اسکی ناک رگڑی ہوئی ہوگی’ابن فہد حلی(رح)نے اپنی کتاب ‘عدةالداعی’میں رسول اﷲ ۖسے یہ روایت نقل کی ہے :کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :(وعزّتی وجلالی وعظمتی وکبریائی ونوری وعلوّی وارتفاع مکانی لایؤثرعبد ھوای علیٰ ھواہ،الا استحفظتہ ملا ئکتی وکفّلت السمٰوات والارض رزقة،وکنت لہ من وراء تجارةکل تاجر،وأتتہ الدنیا وھی راغمة)(٢)’میری عزت ،جلالت،عظمت،کبریائی،نور،بلندی اور رفیع مقام کی قسم کوئی بندہ میری (خواہش )مرضی کو اپنی خواہش پر ترجیح نہیں دیگامگر یہ کہ ملائکہ اسکی حفاظت کرینگے ۔آسمان اور زمین اسکے رزق کے ذمہ دار ہیں اور ہر تاجر کی تجارت کے پس پشت میں اسکے ساتھ موجود ہوں اور دنیا اسکے سامنے ذلت و رسوائی کے ساتھ حاضر ہوگی’…………..(١) بحارالانوار ج٧٠ص٧٧از ثواب الاعمال۔(٢)بحارالانوار ج٧٠ص٧٨۔شیخ کلینی نے اصول کافی میں سند کے ساتھ یہ روایت امام محمد باقر سے یوںنقل کی ہے :(۔۔۔الاکففت علیہ ضیعتہ وضمنت السموات والارض رزقہ،وکنت لہ وراء تجارةکل تاجر)(١)’مگر یہ کہ میں اسکے ضروریات زندگی (پونجی)کا ذمہ دارہوں اور آسمان و زمین اسکے رزق کے ضامن ہیں اور میںہر تاجر کی تجارت کے پس پشت اسکے ساتھ ہوں ‘
مرضی خدا کو اپنی خواہش پر ترجیح دینااس ترجیح دینے کے معنی یہ ہیں کہ انسان خداوند عالم کے ارادہ کو اپنی خواہشات کے اوپر حاکم بنالے اور احکام الٰہیہ کے مطابق اپنے نفس کو اسکی خواہش سے روکتا رہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :(وأما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھویٰ فان الجنة ھی الماویٰ)(٢)’اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا، جنت اسکا ٹھکانہ اور مرکز ہے ‘تقویٰ اور فسق وفجور (برائیوں)کے راستے جس نقطہ سے ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں وہ نقطہ وہی ہے جہاں خداوند عالم کی خواہش (اسکا حکم اور قول)اور انسان کی خواہش (ہوس)کے درمیان ٹکرائو پیدا ہوتا ہے ۔چنانچہ جب انسان خدا کی خواہش (مرضی )کو اپنی خواہش کے اوپر ترجیح دیتا ہے تو وہ تقوے کے راستہ پر چلنے لگتاہے اور جب اپنی خواہشوں کو خداکی مرضی کے اوپر ترجیح دینے لگتا ہے تو فجور(برائیوں)کے راستے پر لگ لیتا ہے ۔…………..(١)بحار الانوار ج٧٠ص٧٩۔(٢)سورئہ نازعات آیت ٤٠۔٤١۔١۔جعلت غناہ فی نفسہ’اسکے نفس میں استغنا پیدا کردوں گا’لوگوں کے درمیان عام تاثر یہ ہے کہ فقر وغنی ٰکا تعلق سونے اور چاندی اور زروجواہرات سے ہے اور نفس و قلب سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اسلام میں فقرو غنیٰ کا مفہوم اسکے برعکس ہے اسلام کی نگاہ میں فقر اور غنیٰ کا تعلق نفس سے ہے نہ کہ مال ودولت سے، لہٰذا ہوسکتاہے کہ ایک ایساانسان غنی ہوجومالی اعتبار سے فقیر ہو اور ہوسکتا ہے کوئی انسان فقیر ہوچاہے وہ مالی اعتبار سے ثروتمند ہی کیوں نہ ہو ۔امام حسین کی دعائے عرفہ میں وارد ہواہے:(اللّٰھم اجعل غنای فی نفسی،والیقین فی قلبی،والاخلاص فی عملی، والنور فی بصری،والبصیرة فی دینی)’پروردگار میرے نفس کو غنی بنادے ،میرے قلب کو یقین،عمل میں اخلاص ،آنکھوں میں نور اور دین میں بصیرت عطافرما’آخر فقر و غنی کا مفہوم مال ودولت کے بجائے نفس سے متعلق کیسے ہوتاہے؟اسکاراز کیا ہے ؟ در حقیقت تبدیلی کا یہ راز دین اسلام کے پراسرار عجائبات میں شامل ہے۔ہمیں گاہے بگاہے اسکے بارے میں غوروخوض کرنا چاہئے۔
افکار کی تبدیلی میں اسلامی اصطلاحات کا کردار’فقر’اور’استغنا’دواسلامی اصطلاحیں ہیں اور اسلام اپنی اصطلاحات کے لئے بہت اہمیت کا قائل ہے اسی لئے اسلام نے دور جاہلیت کی کچھ اصطلاحوں کو کا لعدم قرار دیا ہے اور انکی جگہ پر بہت سی نئی اصطلاحات پیش کی ہیں اور انھیں اصطلاحات کے ذریعہ فکروخیال میں تبدیلی کی ہے اور قدروقیمت کا نیا نظام پیش کیاہے۔دورجاہلیت میں اقدار کے اصول جدا تھے جبکہ اسلام کے اصول الگ ہیں۔کبھی اسلام دور جاہلیت کی قدروں کو مکمل طریقہ سے ختم کرتا ہے اور ان کی جگہ پر سماجی زندگی کے جدید اقدار کوروشناس کراتاہے ۔زمانہ جاہلیت میں جس چیز کو سیاسی،اخلاقی اورسماجی زندگی میں بے قیمت سمجھاجاتاتھا اسلام نے اسی چیز کو سیاسی،سماجی اور اخلاقی طور پر بیش قیمت بناکر پیش کیاہے۔مثلاً دور جاہلیت میں عورت کی کوئی حیثیت اور قدروقیمت نہیں تھی لوگ لڑکیوں کے وجودکو ننگ وعار سمجھتے تھے لیکن اسلام نے اسی بے قیمت سمجھی جانے والی چیز کو عظیم ترین بلندی عطا کی۔قدروقیمت کا اختلاف در اصل قدروقیمت کے نظام میں اختلاف کی بنیاد پر سامنے آتاہے کیونکہ تمام اقدار حقیقتاًکسی نہ کسی اصول اورنظام کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں جن کی معرفت کے بغیر اقدار کی معرفت ممکن نہیں ہے ۔دین اسلام نے اپنی اصطلاحات کے ذریعہ اقدار کے اصول ونظام کو تبدیل کیا ہے جسکے نتیجہ میں اقدار خودبخود تبدیل ہوجاتے ہیں اورسماج میں تبدیلی آجاتی ہے بطور نمونہ فقط اس تبدیلی کی جانب اشارہ کردینا کافی ہے جو اسلام نے فقروغنی کے معیار میں کی ہے جس کے نتیجہ میں ان کے مفہوم میں بھی تبدیلی پیدا ہوگئی ہے۔
فقرواستغنا اور اقدار کے اسلامی اصولعام طورسے لوگوں کے درمیان فقر وغنی کا مطلب مال ودولت کی قلت وکثرت ہے۔یعنی جسکے پاس زیادہ سونا چاندی نہ ہو وہ فقیرہے اور جس کے پاس سونا چاندی و افر مقدار میں ہوا سے غنی کہاجاتاہے اور مالداری کے درجات بھی مال کی مقدارسے طے ہوتے ہیں۔یعنی جس شخص کی قوت خرید جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اتنا ہی بڑا مالدار شمار کیا جاتا ہے اسکے برخلاف جس کے پاس روپے پیسوں کی قلت ہووہ اتناہی غریب سمجھاجاتاہے۔اس طرح عام لوگوں کے خیال میں فقر واستغنا کا تعلق کمیّت’مال کی مقدار’ سے ہے۔
دور جاہلیت کا نظام قدروقیمتفقرواستغناکے ان معنی میں بذات خود کوئی خرابی نہیں ہے اور اگر بات یہیں تمام ہوجاتی تو اسلام اسکی مخالفت نہ کرتا لیکن حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ جاہلیت کے نظام کے تحت ثروتمندی سے سماجی اور سیاسی اقدار بھی جڑجاتے ہیں اور ثروتمندانسان معززو محترم کہلاتاہے اسکی سماجی حیثیت اوراسکے سیاسی نفوذ میں اضافہ ہوجاتاہے وہ لوگوں کا معتمدبن جاتاہے وغیرہ۔۔۔اس طرح نظام جاہلیت میں واضح طور پر کمیت(Quantity)کیفیت( Quality)میں تبدیلی ہوجاتی ہے۔جب بھی ہم غور کریں گے تو ہمیں صاف محسوس ہوگاکہ یہاں زروجواہر کی مقدارو کمیت (Quantity)سماجی اور سیاسی کیفیت میں تبدیلی ہوگئی ہے بلاشبہ اجتماعی اور سماجی زندگی میں مقداروکمیت(Quantity )اور کیفیت میں براہ راست تعلق پایاجاتا ہے اور اس تعلق اور رابطہ کو ختم کرنایا اسکا انکار ناممکن ہے اور اسلام بھی اس تعلق اور رابطہ کو ختم کرنا نہیں چاہتابلکہ اس رابطہ کو الٹ دینا چاہتا ہے یعنی کمیت اور مقدار کو کیفیت کا تابع قرار دیتا ہے نہ کہ کیفیت کو کمیت کا۔مثلاًاقتصادی اور کاروباری معاملات کی بنیاد صداقت اور تقویٰ ہوناچاہئے اور اسی بنیاد پر کاروبار کو وسعت دینا چاہیے یا سیاسی میدان میں بھی ہرچیزکی بنیاد صداقت اور تقویٰ ہوناچاہئیے اوراسی بنیاد پرووٹ حاصل کرنا چاہیے کہ یہی چیزیںصحتمند معاشرے کی پہچان ہیں۔لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو اور سماجی یا سیاسی زندگی میں کمیت ومقدار معیار بن جائے تو سماج میں پائے جانے والے اقدار و اصول کا وجود خطرہ میں پڑجاتاہے۔دور جاہلیت میں بعینہ یہی صورت حال موجود تھی کہ مادیت پرروحانیت کی حکومت ہونے کے بجائے مادیت،روحانیت پر حاکم ہوگئی تھی اور قدروقیمت کا تعیّن مادیت سے ہوتاتھا نہ کہ معنویت سے۔اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ یہی صورت حال مسلمانوں کے سامنے بھی آئی اسلام نے قدروقیمت کا ایسا نظام پیش کیا تھا کہ جو دور جاہلیت کے پروردہ لوگوں کے لئے نامانوس تھا۔ اس نظام میںاسلام نے قدروقیمت اورمنزلت کا معیار روحانیت کو قرار دیا تھا اور مادیت کو روحانیت کا تابع بنایاتھا۔لیکن جب فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا اور قیصر و کسریٰ کے خزانے مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور سرحدوں کی وسعت کے ساتھ دولت میں بھی بے پناہ اضافہ ہواتو مادیت غالب آگئی اور قدروقیمت کا نظام پس پشت چلاگیا۔اور دوبارہ زروجواہر ہی تمام اقدار کا معیار بن گئے اور انکی حالت اس عہد کی سی ہوگئی جس میں خداوند عالم نے رسول اسلام ۖ کو مبعوث کیا تھا اور آپ کو قائدوپیشوا اور رسول بنا کر بھیجاتھا۔عثمان بن عفان کے بعد امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب جب حاکم مسلمین ہوئے تو آپ نے محسوس کیا کہ اسلامی معاشرہ اس طرح منقلب ہوچکا ہے کہ جیسے کوئی اس طرح الٹا لباس پہن لے جسکا اندرونی حصہ باہر،اور ظاہری حصہ اندر ،اوپری حصہ نیچے اور نچلا حصہ اوپر ہوگیا ہو۔ چنانچہ امیر المومنین بنی امیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:(ولُبس الاسلام لُبسَ الفرومقلوباً )(١)…………..(١)نہج البلاغہ خطبہ ١٠٨۔’اسلام یوں الٹ دیا جائے گا جیسے کوئی الٹی پوستین پہن لے’جیسا کہ آپ نے ان الفاظ میں اسکی عکاسی کی ہے :(ألا وان بلیّتکم قدعادت کھیئتھا یوم بعث اللّٰہ نبیکم،والّذی بعثہ بالحقّ لتبلبلنّ بلبلةً ولتغربلنّ غربلةً،ولَتساطُنّ سَوطَ القدرحتّی یعود اسفلکم أعلاکم )(١)’یاد رکھو! تمہارا امتحان بالکل اسی طرح ہے جس طرح پیغمبر کی بعثت کے دن تھا اس ذات کی قسم جس نے رسول کو حق کے ساتھ بھیجا تم بری طرح تہ وبالا کئے جائو گے اور اس طرح چھانے جائو گے جس طرح چھنّی سے کسی چیز کو چھانا جاتا ہے اور اس طرح خلط ملط کئے جائو گے جس طرح پتیلی کے کھانے کو پلٹاجاتا ہے یہاں تک کہ تمہارے ادنیٰ اعلیٰ اور اعلیٰ ادنیٰ ہوجائیںگے ‘۔امیر المومنین فرماتے ہیں کہ عنقریب یہ قوم اسلامی اقدار ومفاہیم اور اصول کو چھوڑ کر ایک عظیم فتنہ میں مبتلا ہونے والی ہے اور اسکی وہ حالت ہوجائے گی جو کھولتے ہوئے شوربہ کی ہوتی ہے کہ اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر ہوجاتاہے۔فتوحات کی وسعت اور خدا کی جانب سے رزق میں فراوانی کے باعث امت اسلامیہ کی یہی حالت ہوگئی تھی جیسا کہ مال و نعمت کی زیادتی کے باعث عہد جاہلیت کی بھی یہی افسوسناک حالت تھی۔دور جاہلیت کے نظام قدروقیمت کو تبدیل کرنے اور اس سے مقابلہ کرنے کے لئے اسلام نے فقر اوراستغنا کی نئی اصطلاحیں ایجاد کیں اور انہیں نئی اصطلاحوں اور نئے مفاہیم کے ذریعہ دور جاہلیت کے نظام قدروقیمت کو تبدیل کردیا۔
قدروقیمت کا اسلامی نظاملفظ غنی یا استغنا کے معنی کو دو طرح سے بیان کیا جاتا ہے ۔ایک بیان کے مطابق استغنا کا…………..(١)نہج البلاغہ خطبہ ١٦۔مطلب ہے ‘انسان کے پاس زر وجواہر کا بکثرت موجود ہونا’اس طرح غنی کے معنی کا تعلق عالم محسوسات سے ہے اور یہ مطلب لفظ ‘ثروتمند’کے مترادف ہے۔دوسرے بیان کے مطابق حقیقتاً استغنا سے مراد’دل کا مستغنی ہونا’ ہے جو کہ اﷲ تعالیٰ پر ایمان اور توکل سے حاصل ہوتا ہے اور اس معنی کا مال کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور عین ممکن ہے کہ انسان کے پاس بے پناہ مال ودولت ہو مگر پھر بھی وہ فقیر ہو اور ہوسکتا ہے کہ مال ودولت بالکل نہ ہو پھر بھی انسان غنی ہو۔فقر واستغنا کے یہ معنی،لغوی اور رائج معنی سے بالکل مختلف ہیں۔اور ان معنی کے لحاظ سے استغنا کا تعلق نفس انسانی سے ہے نہ کہ مال ودولت اور خزانہ سے۔دین اسلام لفظ فقر واستغنا کو نئے معنی و مفاہیم دے کر در اصل دور جاہلیت کے نظام قدروقیمت کو تبدیل کرکے اسکے مقابلہ میں جدید نظام پیش کرنا چاہتا ہے۔اسکی مزید وضاحت کے لئے ہم استغنا اور فقر کے بارے میں اسلامی روایات کی روشنی میں پہلے لفظ استغنا کا مطلب بیان کریں گے اور پھر اس جدید نظام کی وضاحت کریں گے جو اسلام نے قدروقیمت کے سلسلہ میں پیش کیا ہے۔