دل کو دنیا سے وابستہ کردوں گا
جرم اور سزا کے درمیان تبادلہ’اور اسکے دل کو دنیا سے وابستہ کردوں گا’ یہ ان لوگوں کی تیسری سزا ہے جو خدا سے منھ موڑ کر اپنی خواہشات کی جانب دوڑتے ہیں یہاں سزا اور جرم ایک ہی طرح کے ہیں ۔اور جب جرم وسزا کی نوعیت ایک ہوتی ہے تو وہ کوئی قانونی سزا نہیں بلکہ’تکوینی’سزا ہوتی ہے اور تکوینی سزا زیادہ منصفانہ ہوتی ہے اور اس سے بچنے کا امکان بھی نہیں ہوتا ۔ جرم یہ ہے کہ انسان خدا کو چھوڑکر خواہشات سے دل لگارہاہے اور سزا بھی ایسی ہی ہے یعنی خدا بندہ کو دنیا میں ہی مشغول کردیتا ہے ‘واشغلت قلبہ بھا ‘اس طرح جرم و سزا میںدو طرفہ رابطہ ہے اور دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں خدا کو چھوڑکر’خواہشات میں الجھنے’کی سزا ‘دنیا میں الجھنا ‘ہے اس سزا سے جرم میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے اور جرم میں اضافہ ،مزید سزا کا مطالبہ کرتا ہے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے اس طرح نہ صرف یہ کہ سزا وہی ملتی ہے جو جرم کیا ہے بلکہ خود سزا جرم کو بڑھاتی ہے اور اسے شدید کردیتی ہے نتیجتاً انسان کچھ اورشدید سزا کا مستحق ہوجاتا ہے ۔انسان جب پہلی مرتبہ جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس وقت اسکے پاس گناہوں سے اجتناب اور سقو ط وانحراف سے بچانے والی خدا داد قوت مدافعت کا مکمل اختیارہوتا ہے لیکن جب گناہوں کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے اور انسان اپنے نفس کو نہیں روکتا تو خدا بھی سزا کے طورپراسے اسی جرم کے حوالہ کردیتا ہے اوراس سے گناہوں سے اجتناب کرنے اور نفس پر تسلط قائم رکھنے کی فطری اور خدا داد صلاحیت کوسلب کرلیتا ہے ۔اور سزا کا درجہ جتنا بڑھتا جاتا ہے انسان اتنا ہی جرم کے دلدل میں پھنستا رہتا ہے ،اپنے نفس پر اسکی گرفت کمزور ہوتی رہتی ہے اور گناہوں سے پرہیز کی صلاحیت دم توڑتی جاتی ہے یہاں تک کہ خداوند عالم اس سے گناہوں سے اجتناب کی فطری صلاحیت اور نفس پر تسلط و اختیار کو مکمل طریقہ سے سلب کرلیتا ہے ۔اس مقام پر یہ تصور ذہن میں نہیں آنا چاہئیے کہ جب مجرم کے پاس نفس پر تسلط اور گناہوں سے اجتناب کی صلاحیت بالکل ختم ہوگئی اور گویا اسکا اختیار ہی ختم ہوگیا تو اب سزا کیسی ؟یہ خیال ناروا ہے اس لئے کہ ابتداء میں مجرم نے جب جرم کا ارتکاب کیا تھا اس وقت تواسکے پاس یہ صلاحیت اور نفس کے اوپر تسلط بھرپور طریقہ سے موجودتھا اور وہ مکمل اختیار کا مالک تھا جو شخص اپنے ہاتھوں دولت اختیار ضائع کردے اسے بے اختیار نہیں کہاجاتا جیسے بلندی سے کود نے والا گرنے کے بعد یقینابے اختیار ہوجاتا ہے لیکن اگر کوئی شخص خود جان بوجھ کربلندی سے چھلانگ لگائے تو اسکے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بے اختیار ہے اوراسکے پاس بچنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔
دنیاداری کے دورخ یہ بھی!جب انسان دنیا داری میں مشغول ہوجاتا ہے تو اس کا پہلا اثر اور ایک رخ یہ ہوتا ہے کہ انسان کا سارا ہم وغم اسکی دنیا ہی ہوتی ہے اور یہ کیفیت ایک خطرناک بیماری کی شکل اختیار کرکے قلب انسانی کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔پیغمبر اکرم ۖسے ایک دعا میں منقول ہے :(اللّھم أقسم لنامن خشیتک مایحول بیننا وبین معاصیک،ولاتجعل الدنیا أکبرھمنا،ولامبلغ علمنا)(١)’پروردگارا! ہمیںوہ خوف وخشیت عطا فرما جو ہمارے اور گناہوں کے درمیان حائل…………..(١)بحارالانوارج٩٥ص٣٦١۔ہوجائے اور ہمارے لئے دنیا کو سب سے بڑا ہم وغم اور ہمارے علم کی انتہا قرار مت دینا ‘اگرانسان دنیاوی معاملات کو اہمیت دے تواس میں کوئی قباحت نہیں لیکن دنیا کو اپناسب کچھ قرار دینااور اسکو اپنے قلب کا حاکم اور زندگی کا مالک تسلیم کرلینا غلط ہے کیونکہ ایسی صورت میں وہ اپنے اشاروں پر انسان کو نچاتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ صورت حال قلب کے لئے بیمار ی کا درجہ رکھتی ہے ۔امیر المومنین حضرت علی نے اپنے فرزند امام حسن مجتبیٰ کے نا م اپنی وصیت میں فرمایاہے :(ولا تکن الدنیا أکبرہمک)(١)’دنیا تمہارا سب سے بڑا ہم وغم نہ ہونے پائے ‘دنیا داری میں مشغول ہونے کامنفی رخ یہ ہے کہ خدا سے انسان کا تعلق ختم ہوجاتا ہے ۔ معاملات دنیا میں کھوجانے کا مطلب خدا سے قطع تعلق کرلینا ہے اورفطری بات ہے کہ جب انسان کا ہم وغم اسکی دنیا ہوگئی تو پھر انسان کے ہر اقدام کا مقصد دنیا ہوگی نہ کہ رضائے الٰہی ،اس طرح انسانی قلب پر دنیا کے دریچے جس مقدار میں کھلتے جائیں گے اسی مقدار میں الٰہی دریچے بند ہوتے جائیں گے لہٰذا اگر انسان کی نگاہ میںدنیاوی کاموں کی سب سے زیادہ اہمیت ہوگی تو خدا کی جانب تو جہ کمترین درجہ تک پہونچ جائے گی ۔اور جب سب ہم وغم اور فکر وخیال دنیا کے لئے ہوجائے گا تو یہ کیفیت در حقیقت گذشتہ صورت حال کا نتیجہ اور قلب انسانی کی بدترین بیماری ہے ۔قرآن کریم نے اس خطرناک بیماری کو متعدد مقامات پر مختلف عناوین کے ذریعہ بیان کیا ہے ۔ہم یہاں پر آیات قرآن کے ذیل میں چند عناوین کا تذکرہ کررہے ہیں :…………..(١)بحارالانوار ج٤٢ص٢٠٢۔دل کے اوپر خدائی راستوں کی بندش کے بعض نمونے١۔غبار اور زنگ(کلا بل ران علیٰ قلوبھم ماکانوا یکسبون )(١)’نہیں نہیں بلکہ انکے دلو ں پر انکے (برے )اعمال کا زنگ لگ گیا ہے ‘راغب اصفہانی نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ‘ان کے دلوں کی چمک دمک زنگ آلودہوگئی لہٰذا وہ خیروشرکی پہچان کرنے سے بھی معذورہوگئے ہیں۔
٢۔الٹ،پلٹیہ ایک طرح کا عذاب ہے جس میں خدا، غافل دلوں کو اپنی یاد سے دور کردیتا ہے جیسا کہ اﷲتعالی کا ارشاد ہے :(صرف اﷲ قلو بھم بأنھم قوم لایفقھون )(٢)’تو خدا نے بھی انکے قلوب کو پلٹ دیا ہے کہ وہ سمجھنے والے لوگ نہیں ہیں ‘
٣۔زنگ یامُہرخداوند عالم کا ارشاد ہے :(ونطبعُ علیٰ قلوبھم فھم لایسمعون )(٣)’ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں اور پھر انھیں کچھ سنائی نہیں دیتا ‘…………..(١)سورئہ مطففین آیت١٤۔(٢)سورئہ توبہ آیت ١٢٧۔(٣)سورئہ اعراف آیت ١٠٠۔یعنی ان کو غیر خدائی ر نگ میںرنگ دیاہے اور وہ ہویٰ وہوس اور دنیا کا رنگ ہے ۔
٤۔مہُرخداوند عالم کا ارشاد ہے :(ختم اﷲ علیٰ قلوبھم وعلیٰ سمعھم وعلیٰ أبصارھم غشاوة)(١)’خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور انکی آنکھوں پر بھی پر دے پڑگئے ہیں ‘ختم(مہر)طبع (چھاپ لگنے)سے زیادہ محکم ہوتی ہے کیونکہ کسی چیز کومُہر کے ذریعہ سیل بند کردینے کو ‘ختم’کہتے ہیں ۔
٥۔قفلخداوند عالم کا ارشاد ہے :(أفلا یتد بّرون القرآن أم علیٰ قلوب أقفالھا)(٢)’تو کیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے ہیں یا ان کے دلوں پرقفل پڑے ہوئے ہیں ‘
٦۔غلافخداوند عالم کا ارشاد ہے :(وقالوا قلوبنا غُلْف بل لعنھم اﷲ بکفرھم)(٣)’اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں بیشک ان کے کفر کی بنا…………..(١)سورئہ بقرہ آیت٧۔(٢) سورئہ محمدآیت ٢٤۔(٣)سورئہ بقرہ آیت ٨٨۔پر، ان پر اﷲکی مار ہے ‘دوسرے مقام پر ارشاد ہے :(وقولہم قلوبناغلف بل طبع اﷲ علیھابکفرھم)(١)’اور یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دلو ں پر فطرتا غلاف چڑھے ہوئے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ خدانے ان کے کفر کی بنا پر ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے ‘
٧۔پردہاﷲتعالی کا ارشاد ہے :(وقالوا قلوبنافی أکنّة مماتدعونا الیہ وفی آذاننا وقر)(٢)’اور وہ کہتے ہیں کہ تم جن باتوں کی طرف دعوت دے رہے ہو ہمارے دل ان کی طرف سے پردہ میں ہیں اور ہمارے کانوں میں بہرا پن ہے ‘دوسری جگہ ارشاد ہے :(وجعلناعلیٰ قلوبہم أکنّة أن یفقھوہ وفی آذانھم وقراً)(٣)’لیکن ہم نے ان کے دلوں پر پرد ے ڈال دئے ہیں ۔وہ سمجھ نہیں سکتے ۔اور ان کے کانوں میں بھی بہراپن ہے ‘
٨۔سختیخداوند عالم کا ارشاد ہے :…………..(١)سورئہ نساء آیت ١٥٥۔(٢)سورئہ فصلت آیت ٥۔(٣)سورئہ انعام آیت ٢٥۔(ربنا اطمس علیٰ أموالہم واشد د علیٰ قلوبہم)(١)’خدا یا ان کے اموال کو برباد کردے اوران کے دلوں پر سختی فرما’
٩۔قساوت( فویل للقاسیة قلوبہم من ذکراﷲ )(٢)’افسوس ان لوگوں کے حال پر جن کے دل ذکر خدا ( کینہ کرنے )سے سخت ہوگئے ہیں ‘خداوند عالم کا ارشاد ہے 🙁 فطالعلیہم الأمد فقست قلوبہم )(٣)’تو ایک عرصہ گذرنے کے بعد ان کے دل سخت ہوگئے ‘یہ انسانی دل کے اتار،چڑھائو،اور بند ہونے یا ذکر خدا سے روگرداںہونے کی وہ صورت حال ہے جس کو قرآن مجید نے مختلف انداز سے ذکر کیا ہے ۔
دنیا قید خانہ کیسے بنتی ہے ؟جب قلب انسانی پر الٰہی راستہ مکمل طریقہ سے بند ہوجائے تو یہی دنیا انسان کے لئے قید خانہ بن جاتی ہے انسان پر ہوس اس طرح غالب آجاتی ہے کہ اس کے لئے رہائی حاصل کرنا ممکن نہیں رہ جاتا ۔کیونکہ قیدخانہ کا مطلب یہ ہے کہ اس سے نکلنا ممکن نہیںہوتا اور اسکی حرکتیں محدود ہو جاتی ہیں یہی حالت اس وقت ہوتی ہے کہ جب دنیا انسان کے لئے قید خانہ بن جاتی ہے کہ انسان اسی میں مقید ہوکررہ جاتا ہے حرکتیں محدود ہو جاتی ہیں اور اس سے ہرطرح کی آزادی سلب ہوجاتی ہے اور وہ اسکے…………..(١)سورئہ یونس آیت ٨٨۔(٢)سورئہ زمر آیت ٢٢۔(٣)سورئہ حدیدآیت١٦۔لئے اہتمام اوراسکی حرص ولالچ کی بناپر خداوند عالم سے بالکل الگ ہوجاتا ہے ۔یہی تفصیلات روایات میں بھی وارد ہو ئی ہیں۔حضرت امام محمد باقر کی دعا کا فقرہ ہے:(ولاتجعل الدنیا علیّ سجناً)(١)’ دنیا کو میرے لئے قید خانہ قرارمت دینا ‘حضرت امام جعفر صادق کی دعا ہے :(ولاتجعل الدنیاعلیّ سجناً،ولا تجعل فراقھا لی حزناً)(٢)’دنیا کو میرے لئے قید خانہ اور اس کے فراق کو میرے لئے حزن و ملال کا باعث مت قرار دینا ‘یہ بالکل عجیب و غریب بات ہے کہ قیدی پر قیدخانہ کا فراق گراں گذر رہا ہے اور وہ رہائی پانے کے بعد حزن و ملال میں مبتلا ہے ؟اس کا راز یہ ہے کہ یہ قید خانہ دو سرے قید خانوں کے مانند نہیں ہے بلکہ یہ دنیا ایسا قید خانہ ہے کہ انسان اس سے انس و الفت کی وجہ سے خود اپنے آپ کوقیدی بناتا ہے چونکہ خود قید کو اختیار کرتا ہے لہٰذا وہ اس سے جدائی گوارا نہیں کرتا اور اگر اسے قید سے جدا کردیا جائے تواس رہا ئی سے اسے حزن وملال ہوتا ہے اور قید کا فراق اس کیلئے دشوار اور باعث زحمت ہو تا ہے ۔جب انسان اپنا اختیار دنیا کے حوالے کر دیتا ہے تو دنیا اسے کیکڑے کے مانند اپنے چنگل میں د بوچ کر اس کے ہاتھ اور پیر وںکوجکڑ دیتی ہے اور اس کی حرکتوں کو مقید و محدود کرکے اسے اپنا اسیر بنا لیتی ہے ۔امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد گرا می ہے :(ان الدنیا کالشبکة تلتفّ علیٰ من رغب فیھا)’دنیا جال کے مانند ہے جو اس کی طرف راغب ہو گا اسی میںالجھتا جا ئے گا ‘…………..(١)بحارالانوارج ٩٧ص٣٧٩۔(٢)بحارالانوار ج٩٧ص٣٣٨۔(٣)غررالحکم۔آپ کا یہ قول ہمارے سامنے ایک بار پھر قید خانہ اور قیدی کے تعلق اور رابطہ کو اجا گر کرتا ہے ‘تلتف علیٰ من رغب فیھا ‘جو اسکی طرف راغب ہوا وہ اسی پر لپٹتا چلاجائے گا۔آپ ہی کا ارشاد ہے :(من أحبّ الدینار والدرھم فھوعبد الدنیا)(١)’جو درہم و دینار سے محبت کرتا ہے وہ دنیا کا غلام ہے ‘
اہل دنیاکچھ افراد دنیا دارہو تے ہیں اور کچھ ‘ اہل آخرت ‘دنیا داروہ لوگ ہیں جو دنیاوی زندگی کو دائمی زندگی سمجھ کراسی کے دلداہ ہو تے ہیںاور دنیا کی فرقت انھیں اسی طرح نا گوار ہو تی ہے جیسے انسان کو اپنے اہل و عیال کی جدائی برداشت نہیں ہو تی ہے ۔اہل آخرت ،دنیا میں اسی طرح رہتے ہیں جیسے دوسرے رہتے ہیں ۔اوردنیا کی حلال لذتوں سے ایسے ہی لطف اندوز ہو تے ہیں جیسے دوسرے ان سے مستفیدہو تے ہیں بس فرق یہ ہے کہ وہ دنیا کی زندگی کو دا ئمی زند گی مان کر اس سے دلبستگی کا شکار نہیں ہو تے ۔ایسے افراد درحقیقت ‘ اہل اﷲ ‘ ہو تے ہیں ۔اہل آخرت اوردنیا داروںکے صفات ایک دوسرے سے الگ ہیں ۔چنانچہ حدیث معراج میں دنیا داروںکے صفات یوں نظر آتے ہیں جیسا کہ پیغمبر اکرم ۖ سے مروی ہے :(أھل الدنیا من کثر أ کلہ وضحکہ ونومہ وغضبہ،قلیل الرضا،لایعتذر الیٰ من أساء الیہ،ولایقبل معذرة من اعتذرالیہ،کسلان عند الطاعة۔۔۔)(٢)’ دنیاداروں کی غذا ،ہنسی ، نیند ،اور غصہ زیادہ ہو تا ہے ۔یہ لوگ بہت کم راضی ہو تے ہیں،…………..(١)بحارالانوار ج١٠٣ ص٢٢٥ ۔(٢)بحارالانوارج ٧٧ص ٢٤۔جس کے ساتھ ناروابرتائو کرتے ہیں اس سے معذرت نہیں کرتے ۔کو ئی ان سے معذرت کاخواہاں ہو تو اس کی معذرت کو قبول نہیں کرتے، اطاعت کے مو قع پر سست اور معصیت کے مقام پر بہادر ہو تے ہیں ان کے یہاں امن مفقود اور موت نزدیک ہو تی ہے ۔کبھی اپنے نفس کا محاسبہ نہیں کرتے ، ان کے یہاں منفعت برائے نام ،باتیں زیادہ اور خوف کم ہو تا ہے یقینادنیا دارنہ آسا ئشوں میں شکر خدا کرتے ہیں اور نہ ہی مصیبت کی گھڑی میں صبر ۔جو کام انجام نہیں دیتے اس پر اپنی تعریف کرتے ہیں ، جو صفا ت ان میں نہیں پائے جاتے ان کے بھی مد عی ہوتے ہیں،جو دل میں آتا ہے بول دیتے ہیں لوگوں کے عیوب تو ذکر کرتے ہیں مگر ان کی خوبیاںبیان نہیں کرتے ‘دنیادار دنیا سے سکون حاصل کرتے ہیں اسی سے مانوس ہو تے ہیں اور اسی کو اپنا دائمی مستقر سمجھتے ہیں حالانکہ دنیا ‘دارالقرار ‘نہیں ہے ۔چنانچہ جب کوئی انسان اس سے مانوس ہوکر تسکین قلب حاصل کرلے تو وہ فریب دنیا کے شرک میں مبتلاہوجاتا ہے کیونکہ وہ اسے دارالقرار سمجھتے ہیں جبکہ وہ ایسی نہیں ہے ۔امیر المو منین حضرت علی فر ماتے ہیں :(۔۔۔واعلم انک انماخُلقت للآخرة لا للدنیا،وللفناء لاللبقائ،وللموت لاللحیاة،وأنک فی منزل قلعة وداربلغة،وطریق الیٰ الآخرة۔۔۔وایاک أن تغترّبما تریٰ من اخلادأھل الدنیاالیھا،وتکالبھم علیھا،فقدنبّأک اﷲعنھا،ونَعَتْلک نفسھا،وتکشّفت لک عن مساویھا۔۔۔)(١)’۔۔۔اوربیٹا!یادرکھو کہ تمہیں آخرت کے لئے پیدا کیا گیا ہے دنیا کے لئے نہیں اور فنا کے لئے بنایاگیا ہے دنیا میں باقی رہنے کے لئے نہیں ،تمہاری تخلیق موت کے لئے ہوئی ہے زندگی کے…………..(١)نہج البلاغہ مکتوب ٣١۔لئے نہیں تم اس گھر میں ہوجہاں سے بہر حال اکھڑنا ہے اور صرف بقدر ضرورت سامان فراہم کرنا ہے اور تم آخرت کے راستہ پر ہو ۔۔۔اور خبر داردنیاداروں کو دنیا کی طرف جھکتے اور اس پر مرتے دیکھ کر تم دھوکے میں نہ آجاناکہ پروردگار تمہیں اسکے بارے میں بتاچکا ہے اور وہ خود بھی اپنے مصائب سناچکی ہے اور اپنی برائیوں کو واضح کرچکی ہے ۔۔۔’
دنیا کابہروپیہ ایک بہروپ ہی ہے کہ انسان دنیا کو دارالقرار سمجھ کر اس سے مانوس ہو جاتا ہے اور اس سے دل لگا بیٹھتا ہے حالانکہ دنیا صرف ایک گذر گاہ ہے ۔نہ خوددنیا کو قرار ہے اورنہ ہی دنیا میںکسی کیلئے قرار ممکن ہے ۔یہاں انسان کی حیثیت مسافر کی سی ہے کہ جہاں چند دن گذار کر آخرت کے لئے روانہ ہوجاتا ہے تعجب ہے کہ اس کے باوجودبھی انسان اسی کو سب کچھ سمجھ لیتا ہے اور اسے دائمی قیام گاہ مان لیتا ہے ۔پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا :(کن فی الدنیاکانک غریب،أوکأنک عابرسبیل)(١)’دنیا میںایک مسافر کی طرح رہو جیسے کہ راستہ طے کر رہے ہو ‘امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے:(أیھاالناس انّماالدنیادارمجاز،والآخرةدارقرار،فخذوامن ممرّکم لمقرّکم)(٢)’ اے لوگو !یہ دنیا ایک گذرگاہ ہے قرار کی منزل آخرت ہی ہے لہٰذا اسی گذرگاہ سے وہاں کا…………..(١)بحارالانوار ج٧٣ ص٩٩۔(٢)نہج البلاغہ خطبہ ٢٠٣۔سامان لے کر آگے بڑھو جو تمہارا دار قرار ہے ‘اس مسئلہ پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ۔جو انسان راستہ سے گذر تار ہے وہ کبھی راستہ کا ہو کر نہیں رہ جاتا اسکے برخلاف گھر میں رہنے والے انسان کو گھر سے محبت ہو تی ہے اور آدمی گھر کا ہوتا ہے اس سلسلہ میں حضرت عیسیٰ بن مریم کا ایک معرکة ا لآرا جملہ نقل کیا جاتا ہے حضرت عیسیٰ نے فر مایا ہے :(من ذا الذی یبنی علیٰ موج البحرداراً،تلکم الدنیا فلا تتخذوھا قراراً)(١)’سمندر کی لہروں پر کون گھر بناتا ہے ؟دنیا کا بھی یہی حال ہے لہٰذا دنیا کو قرار گاہ مت بنائو ‘جیسے سمند ر کی لہروں کو قرار و بقا نہیں ہے ایسے ہی دنیا بھی ہے۔توپھر نفس اس سے کیسے سکون حاصل کر سکتا ہے اوراسے کیسے دائمی تسلیم کر سکتا ہے کیا واقعا کو ئی انسان سمندر کی لہروں کے اوپراپنا گھر بنا سکتا ہے ؟روایت ہے کہ جناب جبرئیل نے حضرت نوح سے سوال کیا :(یا أطول الانبیاء عمراً،کیف وجدت الدنیا؟قال:کدار لھا بابان،دخلت من أحدھما،وخرجت من الآخر)(٢)’اے طویل ترین عمر پانے والے نبی خدا، آپ نے دنیا کو کیسا پایا ؟حضرت نوح نے جواب دیا ‘ایک ایسے گھر کی مانند جس میں دو دروازے ہوں کہ میں ایک سے داخل ہوا اور دوسرے سے باہر نکل آیا ‘عمر کے آخری حصہ میں شیخ الانبیائ(حضرت نوح ) کا دنیا کے بارے میں یہ احساس در اصل اس شخص کا صادقانہ احساس ہے کہ جو فریب دنیا سے محفوظ رہا ہو ۔…………..(١)بحارالانوار ج١٤ص٣٢٦۔(٢)میزان الحکمت ج٣ ص٣٣٩۔لیکن اگر انسان دنیا سے مانوس ہو جا ئے اور دنیا اس کے لئے وجہ سکون بن جائے تو پھر یہ احساس تبدیل ہو جاتا ہے اور دنیا اس کو اپنے جال میں الجھا لیتی ہے انسان فریب دنیا کا شکار ہو کر شرک دنیا میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔یہ ‘ ان دنیا داروں’کا حال ہو تا ہے جن کے خیال خام میں دنیا دارالقرار اور وجہ سکون ہے۔