اسلام میں بیوی کا مقام
جس قدر قدیم دور میں حتی موجودہ دور میں بھی زیادہ تر ظلم وستم بیویوں پر ہوتا تھا اور ہوتا ہے اسی قدر اسلام نے بھی ان سے متعلق شدید ترین دستورات اور مجازات بھی وضع کیا ہے۔ جو دین مقدس اسلام کی طرفسے بیویوں پر خاص عنایت ہے۔چنانچہ قرآن مجید نے حکم دیا: وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ -1 ، هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ-2۔ یعنی عورتوں کیساتھ نیکی او مہربانی کیا کرو ، وہ تمھارے لئے لباس ہیں اور تم ان کیلئے لباس ہوں۔پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا: اقربکم منّی مجلساً یوم القیامة.۔.خیرکم لاھلہ-3۔قیامت کے دن میرے نزدیک تم میں سے سب سے قریب وہ ہو گا جو اپنی عیال پر زیادہ مہربان ہوگا۔اور فرمایا: من اخلاق الانبیاء حبّ النساء-4 یعنی عورت سے محبت اخلاق انبیا میں سے ہے۔ احسن الناس ایماناً …الطفھم باھلہ وانا الطفکم باھلی۔یعنی ایمان کے لحاظ سے بہترین شخص وہی ہے جو اپنی اہلیہ کی نسبت زیادہ مہربان ہو۔ امام صادق(ع)-5بیوی سے محبت کرنے کو ایمان میں اضافے کا سبب قرار دیتے ہیں : العبد کلما ازداد للنسا ء حبّا ازداد فی الایمان فضلاًمیمونہ ہمسر پیامبر اسلام (ص) فرماتی ہیں : میں نے رسولخدا (ص)سے سنا کہ آپفرماتے تھے میری امّت میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کیساتھ بہترین سلوک کرے اور بہترین عورت وہ ہے جو اپنے شوہر کیساتھ بہترین گفتار و کردار ادا کرے اور جب بھی کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے تو اسے ہر دن اور رات ہزار شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔ اور جو شخص اپنی بیوی کیساتھ نیک سلوک کرے تو اسے بھی ہر دن سو شہیدوں کا ثواب ملتاہے۔عمر نے سوال کیا : یا رسول اللہ (ص)مرد اور عورت میں اتنا فرق کیوں؟ تو آپنے فرمایا: جان لو خدا کے نزدیک عورتوں کا اجر مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ خدا کی قسم شوہر کا اپنی بیوی پر ستم کرنا گناہ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔ اے لوگو! دو ضعیفوں کی نسبت خدا کا خوف کرو: ایک یتیم دوسرا بیوی۔خدا تعالی روز قیامت تم سے پوچھے گا۔ جو بھی ان دونوں کیساتھ نیکی کریگا رحمت الہی اسے نصیب ہوگی اور جو بھی ان دونوں کیساتھ برائی کریگا خدا کا خشم و غضب اس پر نازل ہوگا-6آگے فرماتے ہیں : ما اکرم النساء الاّ کریم وما اھانھنّ الّالئیم ۔ یعنی کریم النفس ہے وہ انسان جو عورت کا احترام کرے اور پست فطرت ہے وہ انسان جو ان کی اہانت کرے۔پیامبر اسلام (ص)بستر احتضار پر آرام کررہے ہیں اور اہم ترین اور حساس ترین مطالب کو مختصر اور سلیس الفاظ میں اپنی امت کیلئے بیان کررہے ہیں: من جملہ عورتوں کے بارے میں ان کے شوہروں سے مخاطب ہوکر فرما رہے ہیں:اللہ اللہ فی النساء انّھن عوان بین ایدیکم اخذتموھن بامانة اللہ قال ھا حتی تلجلج لسانہ وانقطع کلامہ-7عورتوں کے بارے میں خدا کو فراموش نہیں کرنا ان کیساتھ نیکی کرو ،ان کے حقوق کو ادا کرو ،ظلم نہ کرو یہ لوگ تمھارے گھروں میں زندگی کررہی ہیں اور تمھاری ہی کفالت میں ہیں ۔اور خدا کیساتھ تو نے وعدہ کیا ہے کہ ان کیساتھ نیکی ،عدالت ، مہرومحبت سے پیش آئیں گے ۔ کیونکہ فرمان خداوندی بھی ہے کہ ان وعدوں کو نہ بھلاؤ۔ یہ کلمات زبان مبارک پر جاری رکھتے ہوئے آپ کی روح مبارک بدن عنصری سے پرواز کر گئی اور ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔امیر المؤمنین (ع)نے بھی پیامبر اسلام کی پیروی کرتے ہوئے اپنی آخری وصیت میں عورت کے بارے میں سفارش کرتے ہوئے فرمایا: ْ قَالَ ع اللَّهَ اللَّهَ فِي النِّسَاءِ وَ فِيمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَإِنَّ آخِرَ مَا تَكَلَّمَ بِهِ نَبِيُّكُمْ أَنْ قَالَ أُوصِيكُمْ بِالضَّعِيفَيْنِ النِّسَاءِ وَ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ -8 فرمایا: اللہ اللہ عورتوں اور کنیزوں اور غلاموں کے بارے میں خدا کو فراموش نہ کرو۔ان کے ساتھ نیکی کرنا ۔ کیونکہ تمھارے نبی پاک نے اپنی آخری وصیت میں یہی تاکید کی تھی کہ دوضعیفوں (عورت اور غلام ) کا خیال رکھا جائے ۔ آپ ہی دوسری جگہ فرماتے ہیں: المرأة ریحانة لیست بقھرمانة-9۔عورت پھول کی مانند ہے نہ پہلوان،بس اس کیساتھ پھولوں کی سی رفتار کیا کرو۔
جہاں خواتین کیلئے کام کرنا مناسب نہیںاگرچہ اسلام نے عورت کو مکمل آزادی دی ہے وہ کمانا چاہے تو کما سکتی ہے،یا تجارت کرنا چاہے تو تجارت کر سکتی ہے ۔ لیکن انہی کی مصلحت کے پیش نظر خواتین کو چند موارد میں کام کرنے سے منع کیا گیا ہے:o جہاں کام اور اشتغال کی وجہ سے خواتین کی شرافت اور کرامت زیر سؤال چلاجائے۔o جہاں کام اور اشتغال کی وجہ سے خواتین کی سرپرستی اور سب سے بڑی مسؤلیت مادری پر آنچ پڑے۔o شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا جائز نہیں ۔o کام اور اشتغال کا ماحول اور محیط خواتین کیلئے صالح اور مفید نہ ہو۔o ایسا بھاری کام جو ان کی جسمانی سلامتی کیلئے خطرہ ہو۔o اگر خود عورت کیلئے مالی ضرورت نہ ہو تو ایسی جہگوں پر کام کرنا مناسب نہیں۔امام خمینی Rنے فرمایا: البتہ دفتروں میں کام کرنا ممنوع نہیں اس شرط کیساتھ کہ حجاب اسلامی کی رعایت کی جائے۔
اجتماعی روابط کے حدوددین مقدس اسلام نے مرد اور عورت کے درمیان اجتماعی روابط کیلئے شرط قرار دیا ہے کہ کسی قسم کی ہیجان انگیزی پیدا نہ ہو۔ اگر وہ ہر قسم کی جنسی میلانات سے دور ہو کر اپنی عفت و کرامت اور تقوی کی حفاظت کرتے ہوئے اجتماع میں فعالیت کرسکتی ہے تو دین اسلام مانع نہیں بن سکتا۔
جہاں مرد و عورت پر رعایت واجبo روابط اجتماعی میں حجاب کی رعایت واجب ہے۔o نامحرموں پر نگاہ کرنا حرام ہے۔ قرآن مجید نے بھی سختی سے منع کرتےہوئے فرمایا: قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ-10۔آپ مؤمنین سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچا کر رکھیں یہ ان کیلئے پاکیزگی کا باعث ہے اللہ کو ان کے اعمال کا یقیناً خوب علم ہے اور مؤمنہ عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچائے رکھیں ۔پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا: النّظرة سھم مسموم من سھام ابلیس 11حرام نگاہ شیطانی تیروں میں سے زہر آلود تیر ہے۔کیونکہ یہی نگاہ جنسی غریزہ کو بیدار کرنے کا سبب بنتی ہے۔ چنانچہ اس کی مثال سورہ یوسف میں ملتی ہے:فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلّهِ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلاَّ مَلَكٌكَرِيمٌ. -12جب زلیخا نے مصر کی عورتوں کی ملامت اور مذمت سنی تو انہیں دعوت دی اور ایک عظیم محفل سجھائی ، ہر ایک کیلئے ایک ایک تکیہ گاہ بھی فراہم کیا ۔ ساتھ ہی ہر ایک کے ہاتھوں میں چھری بھی تھما دی اور پھل بھی۔ اس کے بعد حضرت یوسف کو سجھا کر اس مجلس میں آنے کا حکم دیا ۔جب مصری عورتوں نے یوسف Aکو دیکھا تو آپ کاحسن وجمال دیکھ کر حیرانگی کے عالم میں تکبیر کہنے لگیں اور ترنج (پھل) کے بجائے اپنے ہاتھوں کو زخمی کردئے اور کہنے لگیں : تبارک اللہ ! یہ انسان نہیں بلکہ یہ حسین وجمیل فرشتہ ہے۔جو چیز اس آیہ شریفہ میں حیران کن ہے وہ مصری عورتوں کا حضرت یوسف Aکو دیکھ کر اپنے ہاتھوں کو زخمی کرناہے۔غنی روز سیاہ پیر کنعان را تماشا کن کہ نو رو دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را گرش بہ بینی ودست از ترنج بشناسی روا بود کہ ملامت کنی زلیخا را ؟!!اور ایک ہی نظر سے اپنے کنٹرول سے باہر ہوکر انسانی روح وروانی سلامت سے ہاتھ دھو بیٹھیں ۔ اس وقت زلیخا بھی فاتحانہ انداز میں مصری خواتین سے کہنے لگی: فذالکن الّذی لمتننی فیہ… یہ ہے وہ غلام جس کی محبت میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں۔o خواتین اپنی زینتوں کو روابط اجتماعی میں نامحرموں سے چھپائے رکھیں: ولاتبدین زینتھن الّا ما ظھر منھا-13 کیونکہ یہ زینتیں اور زیورات بھی نامحرموں کو عورت کی طرف جلب کرنے کا سبب بنتی ہیں ۔ اور تلذذ ایجاد کرتی ہیں ۔ اس لئے حرام قراردیا گیا۔ اسی لئے فقہاء و مجتہدین کا فتوی ہے کہ عورت کا چہرہ اور ہتھیلیوں کے علاوہ سارا بدن زینت ہے جس کا نامحرموں کے سامنے ظاہر کرنا حرام ہے۔o بات کرنے کا آہنگ ہیجان انگیز نہ ہو چنانچہ قرآن کا حکم ہے: فلاتخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض-14آگاہ ہوجاؤ مردوں کے ساتھ نرم اور نازک لہجے میں بات نہ کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بیمار دل والے تیری طمع میں نہ پڑجائے۔o نامحرموں کیساتھ ہنسی مذاق نہ کرو ۔پیامبر اسلام (ص)نے فرمایا؛ من فاکہ امرأة لایملکھا حبسہ اللہ بکل کلمة کلّمھا فی الدنیا الف عام۔جس نے نامحرم عورت کیساتھ مذاق کیا خداوند اسے ہر ایک کلمے کے مقابلے میں ہزار سال جہنم میں قید کریگا۔o عورتیں تنگ اور نازک لباس نہ پہنیں ، اور مغربی تہذیب کی یلغار کیلئے زمینہ فراہم نہ کریں۔ اور حق یہ ہے کہ ایک مسلمان خاتون اپنی حقیقی اور خدائی حیثیت اور شخصیت کو ان محرمات سے دور رہ کر برقرار رکھیں ۔ اور اجتماعی و خاندانی بقا کی تلاش کرتے رہیں ۔اب ہمیں خود مطالعہ کرنا چاہئے کہ کون سی عورت جو حجاب اسلامی کی پابند ہے، بے عفتی اور ہتک عزت کا شکار ہوتی ہے یا بے پردہ عورت؟ کون سی عورت فساد جنسی میں مبتلا اور غیروں کے ہوا وہوس کا شکار ہوتی ہے؟ یقینا بے پردہ عورت ہی ان مصیبتوں میں مبتلا ہوتی ہے۔ اسی لئے اسلام نے حجاب پر زور دیکر عورتوں کی شخصیت ،حرمت اور عزت بچانے کا اہتمام کیا ہے۔
اسلام میں ضرب الامثالگذشتہ مباحث اور آنے والے مباحث سے کلی طور پر جو نتیجہ نکالا گیاہے، ان کو ضرب الامثال کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے ۔ اور آخر میں نتیجہ نکالیں گے کہ اسلام نے جو مقام اور منزلت عورت کو دی ہے وہ کسی اور معاشرہ یا مکتب اور مذہب نے نہیں دی ہے:o عورت شوہر کے ہاتھوں خدا کی امانت ہے۔o عورت میاں کے لئے اور شوہر بیوی کے لئے لباس ہے۔o عورت ریحان ہے نہ پہلوان ۔o عورت وہ بچھو ہے جس کے کاٹنے میں بھی لذت ملتی ہے۔o عورت ایک ایسی بلا ہے جس سے فرار بھی ممکن نہیں۔o عورت ٹیڑی ہڈی کی طرح ہے جسے سیدھی کرنا چاہے تو وہ ٹوٹ جاتی ہے۔o عورت وہ اچھی ہے جومغرور، بخیل اور ڈرپوک ہو۔o فقط عقل مند عورتوں سے مشورہ کرو۔مرد کا بیجا غیرت دکھانے سے عورت برائی کی طرف جاتی ہے۔
چند نکتہ:Ø ان ضرب المثالوں میں سے بعض حقائق پر مشتمل ہیں لیکن بعج بے ہودہ ہیں۔Ø ان ضربالمثال میں سے بعض قابل تخصیص ہیں۔Ø بعض مثالوں جیسے عورت منفور ترین مخلوق و۔۔۔ کو اس وقت کے یورپی ممالک قبول نہیں کرتے ہیں ، بلکہ یہ یورپی انقلاب سے پہلے کی بات ہے۔Ø ان مثالوں میں اکثر تناقض پایا جاتا ہے۔Ø اکثر مثالوں کو دین مبین اسلام قبول نہیں کرتا۔Ø کوئی بھی ضرب المثل اسلامی ضرب المثل (امانت الہی) کی عظمت کو نہیں پہنچتا۔Ø یہ مثالیں اس لئے نقل کی گئی ہیں تا کہ ان سے عبرت حاصل کریں۔ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ-15————1 ۔ نساء،۱۹2 ۔ نساء ۱۸۷۔3 ۔ فروع کافی،ج ٥،ص٣٢٠4 ۔ فروع کافی،ج٥،ص٣٢٠۔5 ۔ بحار،ج١٠٣، ص٢٢٨۔6 ۔ سیری در زندگانی حضرت زہرا،٣٧۔7 ۔ تحف العقول،ص٣۰۔8 ۔ مستدرک الوسائل ،ج۱۴، ص ۲۵۴۔9 ۔ نہج البلاغہ نامہ ٣١۔10 ۔ نور ۳۰۔۳۱۔11 ۔ نہج الفصاحہ٣١١٥۔12 ۔ یوسف ۳۱۔13 ۔ نور ۳۱۔14 ۔ احزاب ۳۲۔15 ۔ سورہ حشر، ۲۱۔