مجبوری و سختی کے بغیر کسی کا حق روکنا
مجبوری و سختی کے بغیر کسی کا حق روکنا
حقوق کا ادا نہ کرنا
وہ گناہ جن کے بارے میں نص ہے ان میں چھبیسواں گناہ حقوق کا ادا نہ کرنا ہے۔ جبکہ حق ادا کرنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔ یعنی اگر کوئی آدمی کسی آدمی پر کوئی حق رکھتا ہو اور وہ اپنے حق کی ادائیگی کا مطالبہ کرے لیکن وہ شخص کہ جس پر حق ادا کرنے کی ذمہ داری ہے۔ حق ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوئے حق ادا نہ کرے تو وہ گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہوا۔ چنانچہ اعمش نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اور فضل بن شاذان نے امام علی رضا علیہ السلام سے جو روایت نقل کی ہے اس میں امام علی رضا علیہ السلام نے بغیر کسی تکلیف کے حقوق کے ادا نہ کرنے کو بھی گناہِ کبیرہ میں شمار کیا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔
من حبس حق المومن اقامہ الله یوم القیمة خمسماة عا م علی رجلیہ حتی تسیل عرقہ او دمہ و ینادی مناد من عند الله ہذا الظالم الذی حبس عن الله حقہ قال (ع) فیوبخ اربعین یوماثم یومر بہ الی النار (کافی ج ۲ ص ۳۶۷)
جوکوئی کسی مومن کا حق ادا نہ کرے (اور اس کے ذمے جو چیز ہے اس تک نہ پہنچائے) تو خداوند عا لم قیامت کے دن سے اسے پانچ سو سال تک اس طرح کھڑا رکھے گا کہ اس سے پسینہ یا خون بہنا شروع ہوجائے گا اور ایک منادی خداوند عالم کی طرف سے ندا دے گا کہ یہ وہ ستمگر ہے جس نے خدا کا حق ادا نہ کیا پس چالیس دن تک وہ تنبیہ کرنے کے بعد حکم دیا جائے گا کہ اسے آگ میں ڈال دیا جائے (یہ تنبیہ کرنے والے مومنین ہوں گے یا انبیاء)
علامہ مجلسی نے اس حدیث کی تشریح یہ کی ہے کہ اگر ظلم کم ہو تو اس کا پسینہ جاری ہوگا اور اگر ظلم زیادہ ہو تو اس سے خون جاری ہوجائے گا (مرآت العقول ص ۳۶۱)۔ اس کے علاوہ مجلسی فرماتے ہیں کہ یہ جملہ دلالت کرتا ہے مومن کا حق خدا کا حق ہے۔ مومن کے قرب خداوند کی وجہ سے یا یہ کہ خداوند عالم نے مومن کا حق ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا حکم نہ بجا لانا ایسا ہی ہے جیسے الله کا حق نہ ادا کرنا۔ اور فرمایا۔
اذا کان یوم القیامة نادی مناد این الموذون لا ولیائی فیقوم قوم لیس علی وجو ھھم لحم فیقال ہولاء الذین اذوا المومنین و نصبوالھم و اند وھم و عنقوھم فی دینھم ثم یومر بھم الی جھنم ثم قال (ع) کانو ا والله الذین یقولون بقولھم ولکنھم حبسوا حقوقھم واذا عوا علیھم سرھم۔
(کتاب حج باب ۱۴۵)
روزِ قیامت منادی ندا کرے گا کہ الله کے دوستوں کو اذیت دینے والے کہاں ہیں۔ پس کچھ لوگ کھڑے ہوجائیں گے جن کے چہروں پر گوشت نہیں ہوگا۔ پس کہا جائے گایہ وہ لوگ ہیں جو مومنین کو اذیت دیتے ان سے دشمنی رکھتے اور ان سے دین کے بارے میں سختی سے پیش آتے تھے اس لئے حکم دیا جائے گا کہ انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے۔ اس کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام نے خداوند ذوالجلال کی قسم کھاکر فرمایا کہ وہ لوگ مومنین ہی کے عقیدے کے حامل تھے لیکن ان کے حقوق ادا نہیں کرتے تھے اور ان کے راز فاش کرتے تھے۔
اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا۔
ایما مومن حبس مومنا عن مالہ وھو یحتاج الیہ لم یذق والله من طعام الجنة ولا یشرب من الرحیق المختوم (بحارالانوار ج ۱۵)
ہر وہ مومن کہ جس کے مال کی کسی دوسرے مومن کو احتیاج ہو اور وہ مومن اس کی ضرورت کو پورا نہ کرے تو وہ جنت کی غذا کا ذائقہ بھی نہ چکھ سکے گا اور رحیق مختوم (جو کہ بہشت کے مشروبات میں سے ایک مشروب ہے) سے محروم رہے گا۔
روزِ قیامت حقوق کا مطالبہ
حضرت سید سجاد علیہ السلام نے فرمایا:
یوخذ بیدالعبد یوم القیمة علی روس الاشھاد الامن کان لہ قبل ہذا حق فلیا خذہ ولا شی اشد علی اھل القیامة من ان یروامن یعرفھم مخفة ان یدعی علیہ شیئا
(لئالی الاخبار ج ۵ ص۸۵)
قیامت کے عن ایک شخص کے ہاتھ کو پکڑ کر اہل محشر کو دکھایا جائے گا اور کہا جائے گا جو کوئی اس شخص پر کوئی حق رکھتا ہے اور اس سے اپنا حق لے لے۔ قیامت کے دن اہل محشر کے لئے سب سے زیادہ دشوار یہی بات ہوگی کہ جب وہ کسی اپنے جاننے والے کو دیکھیں گے تو ان پر اس بات کا خوف طاری ہوجائے گا کہ کہیں یہ بھی اپنے کسی حق کا دعوی نہ کردے۔ اور شاید اسی بات کی طرف قرآن کی اس آیت میں اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے۔
یوم یفرالمرء من اخیہ و امہ و ابیہ و صاحبتہ و بنیہ
اس دن ہر شخص اپنے بھائی، ماں، باپ اپنے بیوی بچوں سے راہِ فرار اختیار کرے گا۔ (سورئہ عبس آیت ۳۴ تا ۳۶) یعنی اس خوف کی بناء پر کہ کہیں ان میں سے کوئی اپنے حق کا مطالبہ نہ کردے۔
مفلس حقیقی
قال النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) لا صحابہ اتدرون من المفلس قالو المفلس فینامن لادرھم ولا مال ولا متاع لہ۔ قال (ص) ان المفلس من امتی من الی یوم القیامة بصلاة وصیام وزکوة وحج ویاتی قدشتم ھذا واکل مال ھذا وھتک دم ھزا وضرب ھذا فیوتی ذامن حسنا فان فنیت حسناتہ قبل ان یقضی ما علیہ اخذ من خطا یاہ فطرحت علیہ ثم یطرح فی النار (بحارالانوار ج۳)
حضرت رسول خدا نے اپنے اصحاب سے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟اصحا ب نے کہا ہمارے نزدیک مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم نہ جائیداد نہ سرمایہ ہو آنحضرت نے فرمایا میری امت میں کوئی مفلس نہیں سوائے اس شخص کے جس نے نماز پڑھی ہو، روزے رکھے ہوں،زکوة دی ہو، حج ادا کئے ہوں مگر قیامت کے دن ایک شخص آئے گا جسے اس نے گالی دی ہو ایک اورآئے گا جس کا اس نے مال کھایا ہو ایک اور آئے گا جس کا اس نے خون بہایاہو ایک اور آئے گا جس کی اس نے پٹائی کی ہو، پس اس شخص کی نیکیاں ہر صاحب حق کو اس کے حق کے مطابق دی جائیں گی۔ اگر صاحبان حق کے حقوق ادا ہونے سے پہلے اس شخص کی نیکیاں ختم ہوجائیں تو صاحبان حق کے گناہ اس شخص کے گناہوں میں شامل کردئیے جائیں گے تو پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
قرض اورحقوق نہ ادا کرنے کے مقامات
قرض میں بطور کلی ہر وہ چیز شامل ہے۔ جو کسی شخص کے ذمے کسی شخص کے ذمے کسی سبب سے ثابت ہو۔ مثلاً قرض، قرض لینے والے پر جتنی رقم اس نے لی ہے اس کے ذمے ہے۔ اور طے شدہ طریقے کے مطابق رقم قرض خواہ کو ادا اور وہ چیز کہ جس کا معاملہ بیچنے سے پہلے ہوگیا ہو۔ بیچنے والا ذمہ دار ہے کہ وہ چیز خریدار کو وعدے کے مطابق وقت پر ادا کرے اسی طرح وہ چیز جو ادھار لی ہے اس کی قیمت بیچنے والے کو ادا کرے اور وہ چیز جو کرائے پر لی ہے کرائے پر لینے والا صاحب مال کا مقروض ہوگا۔ اور شورہر عورت کے مہر کاذمہ دار ہے۔ اسی طرح شوہر زوجہ دائمی کے نام ونفقہ کا ذمہ دار ہے۔ اور ضمانت کی وہ مختلف اقسام کے جس کا ذکر فقہی مسائل کی کتابوں میں ذکر کیا گیا ہے ان کے فروعی مسائل بہت زیادہ ہیں۔ بحث کی مناسبت سے کچھ اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔مدت معین اورغیر معین کا قرض دو قسم کا ہوتا ہے۔ حالی یعنی وہ قرض جس کی کوئی مدت معین نہ ہو۔ اگر مدت ہو تو ختم ہوچکی ہو۔ اور موجل یعنی وہ قرض جس کی مدت معین ہو اس میں قرض خواہ مدت ختم ہونے سے پہلے پانے حق کا مطالبہ نہیں کرسکتا اور جب بھی مقروض مرجائے تو اس کی معینہ مدت ختم ہو کر قرض حالی میں تبدیل ہوجائے گا۔ مثلاً اگر کسی شخص کا کسی دوسرے شخص پر قرض ہو اور مقروض کو ایک سال میں قرض ادا کرنا ہو لیکن مدت پوری ہونے سے پہلے مقروض مرجائے توضروری ہے کہ جو مال اس نے ورثہ میں چھوڑا ہے تو ورثاء سب سے پہلے اس کا قرض ادا کریں۔ اور وہ یہ حق نہیں رکھتے کہ یہ کہیں کے ابھی قرض کی مدت ختم نہیں ہوئی لیکن اگر قرض خواہ مرجائے اور اسکے قرض کی مدت باقی ہو تو اس کے ورثا کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مدت ختم ہونے سے پہلے قرض کی واپسی کا مطالبہ کریں۔
قرض کو لازمی طور پر ادا کرناچاہیئے
ایسی صورت میں جبکہ قرض معینہ مدت کے لئے نہ ہو یا اس کی مدت ختم ہوچکی ہو اور قرض خواہ مطالبہ کرے تو واجب ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو فوراً اپنا قرض ادا کرے ۔ خواہ وہ اشیاء جو اس کی ضرورت سے زائد ہوں انہیں بیچنا ہی کیوں نہ پڑے۔ اگرچہ وہ اشیاء لوگ کم قیمت پر ہی خریدیں جس قیمت پر خریدیں اسے چاہے وہ فروخت کردے اور اپنے قرض کو ادا کرے لیکن اگر کوئی کوڑیوں کے مول خریدنا چاہئے اور عرف عام میں اسے معاملہ کو ان اشیاء کا ضائع کرنا اور تلف کرنا کہ جائے تو ایسی صورت میں بعید نہیں کہ مقروض پر ان چیزوں کا بیچنا واجب نہ ہو اور اگر ضروریات زندگی کی چیزیں مثلاً قالین، لباس، گھر کا سامان، دوکان وغیرہ نہ رکھتا ہوکہ اسے بیچ کر قرض ادا کرے تو وہ کام کاج کر کے اپنا قرض ادا کرے مثلاً اگر قرض خواہ کا قرض ادا کرنے کے لئے اسے نوکری کرنا پڑے یا کوئی ایسا کام کرے جو اس کی شان کے مطابق ہو اور اس کے لئے باعث مشقت نہ ہو تو اس ذریعے سے قرض ادا کرے بطور کلی مقروض پر قرض ادا کرنا واجب ہے۔ قرض کی ادائیگی میں سستی غفلت برتنا ہر حال میں حرام، حق کا ادا نہ کرنا گناہ کبیرہ ہے ۔ لیکن اگر ضروریات زندگی کی چیزوں میں سے مثلاً وہ گھر کہ جس میں وہ زندگی گزارتا ہے اس کی حالت اور شان سے اونچے درجے کانہ ہو اور اسی طرح کپڑے، قالین، برتن اور اس جیسی دوسری چیزیں جو اس کے لئے ضروری ہیں اگر وہ ان چیزوں کو بیچ دے تو اسے مشکلات کا سامنا کرنا اور نقصان اٹھانا پڑے تو ان چیزوں کا بیچنا ضروری نہیں اور قرض خواہ مقروض کو ان چیزوں کے فروخت کرنے پرمجبور نہیں کرسکتا لیکن مقروض کے لئے جائز ہے کہ وہ مشکلات کو برداشت کرے اور ان اشیاء کو بیچ کر اپناقرض ادا کرے ایسی صورت میں جبکہ مقروض نے خود ہی اپنے گھر کا سامان بیچا ہو قرض خواہ اپنی مطلوبہ رقم لے سکتا ہے ۔ لیکن مناسب یہ ہے کہ قرض خواہ مقروض کے گھر کا سامان بیچ کر زحمت ومشقت میں مبتلا ہونے پر راضی نہ ہو اگرچہ خود مقروض راضی ہوبلکہ بہتر تو یہ ہے کہ قرض خواہ مقروض کو اس حد تک مہلت دے کہ خدا اسے کشادگی عطا کرے ۔ عثمان بن زیاد سے مروی ہے۔
قلت لا ابی عبد اللّٰہ علیہ السلام ان لی علی رجل دینا وقد اراد ان یبیع دارہ فیقضینی فقال ابو عبد اللّٰہ (ع) اعیذک با اللّٰہ ان تخرجہ من ظل راسہ
(وسائل کتاب التجارہ ب ۱۱)
میں نے حضر ت امام جعفر صادق -سے عرض کیا کہ میرا کسی شخص پر قرض ہے اور ہو شخص اپنے گھر کوبیچ کر میر ا قرض ادا کرنا چاہتا ہے حضرت نے تین مرتبہ فرمایا اس بات میں تمہیں خدا کی پناہ میں دیتا ہوں کہ تم اس شخص کو گھر سے بے گھر کردوجس میں وہ زندگی گزارتاہے۔ کچھ دوسری احادیث بھی اس موضوع سے متعلق نقل کی گئی ہیں اور اس کے علاوہ مروی ہے کہ جناب محمدبن ابی عمیر جو کہ امام موسیٰ بن جعفر امام علی رضا اور امام محمد تقی علیہم السلام کے خاص صحابیوں میں سے تھے اور کپڑا بیچنے کا کام کیا کرتے تھے ان کا تمام مال ان کے ہاتھوں سے جاتا رہا اور وہ فقیر ہوگئے کسی آدمی پر ان کا دس ہزار درہم قرض تھا پس اس مقرو ض شخص نے اپنے گھر کو فوخت کردیا اور دس ہزار درہم محمد بن ابی عمیر کے گھر لے کر آیا اور کہا یہ آپ کا قرض ہے۔ اسے لے لیجئے آپ نے فرمایا آیا یہ مال تمہیں ورثے میں ملا ہے۔ اس نے کہا نہیں ۔ آپ نے پوچھا کسی نے تمہیں بخشا ہے؟ کہا نہیں ۔ آپ نے فرمایا کیا تمہارے پاس کوئی ملکیت تھی جسے تم نے بیچا؟کہا نہیں بلکہ وہ مکان جس میں ، میں رہتاتھا اسے بیچ دیا تاکہ اپناقرض ادا کرسکوں ۔
اس وقت محمد ابن ابی عمیر نے امام جعفر صاد ق علیہ السلام کی ایک روایت نقل کی کہ قرض واپس لینے کے لئے مقرض کو اس کے گھر سے بے گھر نہیں کرچاہئے اور اس کے بعد آپ نے فرمایا اس رقم کو واپس لے جاوٴ خدا کی قسم اس وقت میں ایک ایک درہم کا محتاج ہوں اس کے باوجود میں اس میں سے ایک درہم لیکر خرچ نہیں کروں گا۔ ان کی غربت کا سبب(حالانکہ پانچ لاکھ درہم کے مالک تھے) حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے وہ قربت و وابستگی تھی جس کی بنا پر انہیں گرفتار کرکے بے انتہا تازیانے مارے اور چار سال تک قید خانہ میں رکھا ۔ اور جو کچھ مال واسباب تھا چھین لیا خدا وند عالم کی بے پناہ رحمتیں ہوں ان کی روح پر اگر کوئی بھی شخص صاحب حق تک اس کا حق پہنچانے میں غفلت سے کام لے اور تاخیر کرے حالانکہ وہ استطاعت رکھتا ہو تو ہر گذرنے والے دن میں گناہ اعشاری کا مرتکب ہوتا ہے (اعشارہ وہ ہے جو ظالم کے حکم پر لوگوں سے (دسواں حصہ )۱۰/الے
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :
کل ذنب یکفرہ القتل فی سبیل اللّٰہ الا الدین لاکفارة لہ الا ادا ئہ او یعفو الذی لہ الحق (وسائل الشیعةب ۴ ج ۱۳ ص ۸۳)
راہ خدا میں شہید ہونے والاہر گناہ سے پاک ہوجاتا ہے۔ سوائے قرض کے جس کا کوئی کفارہ نہیں ہوتا۔ ضروری ہے کہ قرض ادا کیا جائے یا پھر قرض خواہ اسے بخش دے (نہیں تو شہید سے بھی قرض کے لئے پوچھ گیچھ ہوگی )۔ اس کے علاوہ آپ فرماتے ہیں ۔
اول قطرة من دم الشھید کفارة لذنوبہ الا الدین فان کفارتہ قضائہ
(وسائل الشیعةب ۴ ج ۱۳ ص ۸۵)
شہید کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کے تمام گناہوں کی تلافی ہو جاتی ہے سوائے قرض کے جو معاف نہیں ہوتا اور جس کے معاف ہونے کا انحصار فقط قرض کی ادائیگی پر ہے۔
اس بات کی اہمیت کا اندازہ صرف اسی واقعے سے لگایا جاسکتاہے کہ انصار میں ایک شخص کا انتقال ہو جاتا ہے۔ جو دودینار کا مقروض تھا پس حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ)نے اس وقت تک اس کی نماز جناز نہیں پڑھائی جب تک کہ ان کے کچھ رشتہ داروں نے قرض کی ادائیگی کی ضمانت نہیں دی اس کے بعد آنحضرت نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔
مروی ہے کہ معاویہ بن وہب نے اس حدیث کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے دریافت کیا توآپ نے فرمایا۔
ان رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) لما فعل ذلک لیعظو اولیر دبعضھم علی بعض ولئلا یستخفو ا بالدین۔(وسائل ابواب دین باب ۲)
یہ حدیث ضحیح ہے اور حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) کے اس فرمان کا صرف یہی مطلب ہے کہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں، قرض کی اہمیت کو سمجھیں اسے کمتر شمارنہ کریں اور قرض اس کے مالک کو لوٹا دیں وگرنہ حضرت رسول خدا کے اس فرمان کا صرف یہی مطلب ہے کہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں ، قرض کی اہمیت کو سمجھیں اسے کمتر شمارنہ کریں اور قرض اس کے مالک کو لوٹا دیں وگرنہ حضر ت رسول خدا صلی (صلی اللہ علیہ و آلہ)۔ حضرت علی – ، امام حسن -،امام حسین – میں سے جو کوئی اس دنیا سے رخصت ہوا مقروض تھا اور انہوں نے اپنا قرض ادا کرنے کے بارے میں وصیت فرمائی اور ان حضرات میں سے ہر ایک کے وصی نے ان کے انتقال کے بعد قرض کی ادائیگی کی یعنی اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ مقروض ہونا قابلِ مذمت نہیں بلکہ جائز ہے البتہ قرض کی ادائیگی میں سستی و غفلت کرنا یقینا حرام ہے اور قرض ادا کئے بغیر مکہ اور مدینہ جانا بھی مناسب نہیں اس سلسلے میں ابو ثمامہ نے امام محمد تقی علیہ السلام سے عرض کیا
انی ارید ان الزم مکة و المدینة و علی عین فقال (ع) ارجع الی مودی دینک و انظر ان تلقی الله تعالی و لیس علیک دین فان المومن لا یخون
(کافی ج ۵ ص ۹۴ باب الدین)
میں مکہ اور مدینہ میں زندگی گزارنا چاہتا ہوں لیکن مقروض ہوں امام نے فرمایا اپنے گھر جاؤ اور قرض ادا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا سے چلے جاؤ اور اس حالت میں خدا سے ملاقات کرو کہ تم مقروض ہو اور (جان لو) کہ مومن کبھی خیانت نہیں کرتا۔
قرض کا ادا نہ کرنا سب کے ساتھ خیانت ہے
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حق کا ادا نہ کرنا اور قرض ادا کرنے میں غفلت سے کام لینا خیانت ہے۔ اس بناء پر جو کچھ باب خیانت میں گذرچکا ہے۔ یہاں بھی آئے گا اور حدیثِ نبوی میں اس کو ظلم قرار دیا گیا ہے۔
حضرت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا فرمان ہے۔
مطل المسلم الموسر ظلم للمسلمین(وسائل باب الدین ۱۳ ص ۹۷)
وہ مسلمان جو استطاعت رکھتے ہوئے قرض کی ادائیگی میں غفلت سے کام لے تو اس نے تمام مسلمانوں کے ساتھ ظلم کیا۔
قرض کا ادا نہ کرنا ظاہر ہے کہ قرض خواہ پر ظلم ہے۔ لیکن دوسرے مسلمانوں پر اس لئے ظلم ہے کہ لوگ دوسروں کو اس خوف کی بناء پر قرض نہیں دیں گے کہ کہیں یہ بھی قرض کی ادائیگی میں سستی سے کام نہ لے اور اس طرح ہمارا مال ضائع ہو جائے دوسرے یہ کہ صاحبِ استطاعت ہوتے ہوئے بھی قرض کی ادائیگی میں غفلت سے کام لینے والا نیکی کے دروازے کو بند کر دیتا ہے۔ کیونکہ اس کے بعد کوئی بھی کسی کو قرض دینے کی جرات نہیں کرے گا حالانکہ قرض دینا بہت بڑی نیکی ہے۔ اور اس نیکی کو ترک کرنے کا سبب وہی شخص ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
لعن الله قاطعی سبیل المعروف وھو الرجل یصنع الیہ المعروف فیکفرہ فیمنع صاحبہ من ان یصنع ذلک الی غیرہ (بحار الانوار۔ وسائل ج ۱۱ کتاب امر بالمعروف۔ ب ۸ ص ۵۳۹)
خدا اس شخص پر لعنت کرے جو نیکی کا راستہ بند کر دیتا ہے اور یہ وہ شخص ہے جس کو اگر کوئی شخص فائدہ پہنچانے کے لئے احسان کرے تو وہ اس احسان کو نہیں مانتا اور یہ چیز اس بات کا سبب بنتی ہے کہ احسان کرنے والا آئندہ کسی پر احسان نہ کرے ۔ اور یقینا کسی کو قرض دینا احسان ہے۔ اور اس ادائیگی میں لا پرواہی سے کام لینا قرض خواہ کے احسان کو نہ ماننا ہے۔ یہ چیز سبب بنتی ہے کہ وہ شخص آئندہ کسی پر اس طرح کا احسان نہ کرے۔
قرض د ینے اور لینے کے احکام
معتبر روایات میں قرض دینے والوں کے لئے بہت زیادہ ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اور قرض نہ دینے والوں کے لئے شدید عذاب کا ذکر کیا گیا ہے۔ بعض مواقع پر قرض کا دینا واجب اور نہ دینا حرام ہے۔ اور بعض جگہوں پر قرض دینا مستجب اور نہ دینا مکروہ ہے۔ لیکن اس وقت جب قرض کی ضرورت نہ ہو قرض کا لینا مکروہ ہے۔ لیکن وقت ضرورت قرض لینے سے اس کی کراہت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ کراہت کے کم یا زیادہ ہونے کا تعلق دراصل ضرورت کے کم اور زیادہ ہونے پر ہے۔ پس اگر کم ضروررت کے وقت قرض لیا جائے تو کراہت زیادہ ہوگی۔ اور اگر ضرورت کے وقت قرض لیا جائے تو کراہت کم ہوگی یہاں تک کہ بعض مواقع پر کراہت بالکل ختم ہوجاتی ہے اور قرض لینا واجب ہو جاتا ہے۔ مثلاً جان اور ناموس کی حفاظت قرض لینے پر موقوف ہو تو قرض لینا واجب ہو جاتا ہے۔ اگر کسی شخص کو معلوم ہے کہ قرض ادا نہ کر سکے گا تو احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ وہ قرض نہ لے مگر یہ کہ وہ ضرورت مند ہو۔
قرض دینے کا ثواب اور نہ دینے کا عذاب
حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) فرماتے ہیں:
من اقرض مومنا قرضا ینظر بہ میسورہ کان مالہ فی یدہ زکوة و کان ھو فی صلوة من الملائکة حتی یوٴدیہ۔ (وسائل الشیعةب ۶ ج ۱۳ ص ۸۶)
اگر کوئی شخص کسی مومن کو قرض دے اور اسے استطاعت پیدا ہونے تک کی مہلت دے تو وہ قرض میں دیا ہو ا مال اس کے لئے زکوة کی مانند ہوگا اور ملائکہ اس مال کے واپس ملنے تک اس کے حق میں دعا اور طلب رحمت کرتے رہیں گے اس کے علاوہ آنحضرت نے فرمایا
من اقرض اخاہ المسلم کان لہ بکل درھم اقرضہ وزن جبل احد من جبال رضوی و طور سیناء حسنات و ان رفق بہ فی طلبہ تعدی بہ علی الصراط کا البرق الخاطف اللامع بغیر حساب ولا عذاب ومن شکی الیہ اخوہ المسلم فلم یقرضہ حرم الله علیہ الجنة یوم یجزی المحسنین
(وسائل الشیعہ ب ۶ ج ۱۳ ص ۸۸)
اگر کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو قرض دے تو وہ خود اس کے اپنے لئے ہے۔ ہر وہ درہم جو وہ قرض میں دیتا ہے۔ اس کے عوض کوہ احد (جو مکہ معظمہ کی پہاڑیوں میں سے ایک پہاڑ ہے) اور طور سینا کے برابر نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھی جائیں گی اور قرض کا مطالبہ کرنے میں مقروض سے نرمی کا برتاؤ کرے تو وہ بغیر حساب و عذاب کے ایک لپکتی ہوئی بجلی کی مانند پل صراط پر سے گذر جائے گا اور اگر کسی شخص کے سامنے اس کا مسلمان بھائی اپنی پریشانی اور دکھ درد بیان کرے اور وہ اسے قرض نہ دے تو خداوند عالم بہشت اس پر حرام کر دے گا اس روز جبکہ نیک لوگوں کو ان کی جزا دی جائے گی۔
لازمی طور پر قرض کی ادائیگی کا ارادہ رکھنا چاہیئے
وہ مقروض جو قرض لوٹانے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ یہ ارادہ رکھے کہ جب بھی صاحب استطاعت ہوگا سب سے پہلے قرض ادا کرے گا اور قرض کی ادائیگی میں غفلت سے کام نہیں لے گابلکہ قرض لیتے وقت بھی یہی نیت ہونی چاہیئے اگر قرض لیتے وقت اس کی نیت ادا نہ کرنے کی ہو تو اس مال میں تصرف حرام ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
من استدان دینا فلم ینو قضائہ کان بمنزلة السارق(تجارت وسائل باب ۵ ج ۱۳ ص ۸۶)
اگر مقروض قرض لیکر دینے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو وہ چور کی مانند ہے۔
اس کے علاوہ آپ نے فرمایا:
السراق ثلثة مانع الزکوة و مستحل مھور النساء و کذالک من استدان دینا ولم ینوقضائہ (خصال ص ۱۵۳)
چوروں کے تین گروہ ہیں ایک وہ ہے جو اپنے مال کی زکوة نہ دے۔ دوسرا وہ ہے جو اپنی بیوی کے مہر کو قرض واجب نہ سمجھے اور تیسرا وہ جو قرض لیکر اس کی ادائیگی کا ارادہ نہ رکھتا ہو اس کے علاوہ آپ نے فرمایا کہ
من کان علیہ دین ینوی قضائہ کان معہ من الله حافظان یعینانہ علی الا داء عن امانتہ فان قصرت نیتہ عن الاداء قصر عنہ من المعونة بقدر ما قصر نیتہ۔
(تجارت وسائل ابواب دین باب ۵ ج ۱۳ ص ۸)
اگر مقروض قرض ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو خداوند عالم اس کے قرض کی ادائیگی تک اس کی مدد کے لئے فرشتوں کو مقرر کرتا ہے۔ لیکن جب وہ اپنے ارادے سے غفلت برتتا ہے تو اسی مقدار سے وہ رحمتِ خداوندی سے محروم ہو جاتا ہے۔
مجبور و مقروض کو مہلت دینا چاہئیے
اور ایسی صورت میں جبکہ مقروض گھر کی غیرضروری اشیاء کو بیچ کر بھی آسانی سے اپنا قرض ادا نہ کر سکے تو قرض خواہ پر واجب ہے کہ وہ مقروض کو قرض کی ادائیگی کی مہلت دے کیونکہ مقروض کو مشکلات سے دوچار کرنا حرام ہے ۔ جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:
وان کان ذو عسرة فنظرة الی میمسرة وان تصدقوا خیر لکم ان کنتم تعلمون
(سورہ بقرہ ۲۸۰)
اگر کوئی تنگ دست (تمہارا قرض دار) ہو تو اسے خوش حالی تک کی مہلت دو اور اگر تم سمجھو تو تمہارے حق میں یہ زیادہ بہتر ہے۔ کہ (جو قرض اس نے لیا ہے ) بخش دو۔
کیونکہ اگر تم اپنا قرض واپس لے لو تو دوسری چیزوں کی طرح وہ بھی وقت آنے پر ختم ہوجائے گا لیکن اگر بخش دو تو یہ ایسا صدقہ ہے جو خدا کے نزدیک امانت ہے اور اس سے ہمیشہ فائدہ ملتا رہے گا۔
اس آیت سے دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں ایک یہ کہ ایسے مقروض کو جو قرض دینے سے عاجز ہو مہلت دینا واجب ہے۔ اور دوسرے یہ کہ قرض خواہ کا قرض کو بخش دینا زیادہ بہتر ہے۔ اور بہت سی روایات میں ان دونوں باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
حضرت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:
و کما لا یحل لغر یمک ان یمطلک و ھو مو سر فکذلک لا یحل لک ان تعسرہ اذا علمت انہ معسر
(تجارت و سائل الشیعة ابواب دین ب ۲۵ ج ۱۳ ص ۱۱۳)
تمہارے مقروض کے لئے جائز نہیں کہ وہ قدرت رکھتے ہوئے قرض کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لے اور اسی طرح تمہارے لئے بھی جائز نہیں کہ تم اسے تنگ دستی کی حالت میں مجبور کرو جبکہ تم جانتے ہو کہ وہ قرض دینے سے معذور ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تم اپنے کسی مسلمان بھائی کو قرض کی ادائیگی کے سلسلے میں تنگ کرنے سے پرہیز کرو جبکہ تم جانتے ہو کہ وہ قرض نہیں دے سکتا اس لئے کہ ہمارے جد حضرت رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا ہے کہ کسی مسلمان کا کسی مسلمان کو تنگ کرنا جائز نہیں اور اگر کوئی قرض خواہ مقروض کو مہلت دے تو الله تعالیٰ اسے اس روز اپنے سایہ میں پناہ دے گا کہ جب خدا کے سائے کے سوا دوسرا سایہ نہ ہوگا۔ (وسائل الشیعہ ابواب ب ۲۵ جلد ۱۳ صفحہ ۱۱۳) یعنی قیامت کے دن الله اس پر اپنا خصوصی لطف و کرم کرے گا اور اس کے علاوہ آپ فرماتے ہیں ۔
من اراد ان یظلہ الله فی ظل عرشہ یوم لا ظل الا ظلہ فلینظر معسرا اولیدع لہ من حقہ
(وسائل ب ۲۵ ص ۱۱۳)
اگر کوئی چاہتا ہو کہ اسے اس روز عرش الہیٰ کے سائے میں پناہ دی جب خدا کے سائے کے سواء کوئی سایہ نہ ہوگا تو اسے چاہیئے کہ تنگدست مقروض کو مہلت دے اور اس سے قرض کا مطالبہ نہ کرے یا اسے قرض بخش دے
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
قال یبعث یوم القیامة قوم تحت ظل العرش وجو ہھم من نور و لباسہم من نور جلوس علی کراسی من نو ر الی ان قال فینادی مناد ھولاء قوم کانوا یبسرون علی المومنین و ینظرون المعسر حتیٰ ییسر
(تجارت وسائل ابواب دین ب ۲۵ ج ۱۳ ص ۱۱۳)
قیامت کے دین ایک ایسی جماعت عرش کے سائے میں ہوگی کہ ان کے چہروں ، لباس اور جن کرسیوں پر وہ جلوہ افروز ہوں گے ان سے نور ساطع ہو رہا ہوگا پس ایسے عالم میں منادی ندا دے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں مومنین پر مہربان تھے اور تنگدست مقروض کی ادائیگی کے لئے مستطیع ہونے تک مہلت دیتے تھے۔
ہر روز کی مہلت کے لئے صدقے کا ثواب
کلینی امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ)منبر پر تشریف لے گئے خدا کی حمد و ثنا اور ابنیاء پر درود بھیجنے کے بعد آپ نے فرمایا جو موجود ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ لوگ جو موجود نہیں ان تک یہ بات پہنچا دیں کہ۔
من انظر معسرا کان لہ علی الله فی کل یوم صدقہ بمثل مالہ علیہ حتیٰ یستوفی حقہ
(تجارت وسائل ابواب الدین ب ۲۵ ج ۱۳ ص ۱۱۴)
اگر کوئی شخص اپنے پریشان حال مقروض کو مہلت دے تو جب تک اس کا مال واپس نہ مل جائے اس کے نامہ اعمال میں صدقہ دینے کے برابر ثواب(لکھنے) کا ذمہ دار الله تعالیٰ ہے۔
یعنی ہر وہ دن جس میں اس نے مہلت دی بالکل اسی طرح ہے کہ اس نے ہر روز وہ مال راہِ خدا میں خرچ کیا ہو اس سلسلے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں لیکن جو کچھ گزرچکا ہے۔ وہی کافی ہے۔ ضمناً یہ بات جاننا چاہیئے کہ خمس و زکوة کا ادا نہ کرنا یہ ان کی ادائیگی میں غفلت برتنا بھی حقوق کے ادا نہ کرنے میں شمار ہوتا ہے۔ کیونکہ زکوة کا ادا نہ کرنا بھی گناہِ کبیرہ میں سے ہے جس کے لئے نص خاص ہے اس لئے اس کا علیحدہ سے ذکر کیا جائے گا۔
خد اوندِ عالم تلافی کرے گا
روایات کا ماحصل یہ ہے کہ اگر مقروض قرض کی ادائیگی سے پہلے مرجائے اور مرنے کے بعد اس کے مال سے قرض ادا نہ کیا جائے اور قرض خواہ اسے معاف نہ کرے اور یہ کہ قرض کی ادائیگی میں اس نے کوتاہی سے کام نہ لیا ہو اور نہ ہی قرض کسی حرام مقصد کے لئے لیا ہو اور قرض ادا کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو لیکن اس کے پاس کوئی مال نہ ہو جس کے بارے میں وہ وصیت کر سکے تو ایسی صورت میں خداوندِ عالم روزِ قیامت اپنے فضل سے اسکے قرض خواہ کو راضی کریگا۔
چنانچہ محمد بن بشرا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ میں شہاب کا ایک ہزار کا مقروض ہوں آپ شہاب سے کہیں کہ وہ مجھے ایام حج گزرنے تک کی مہلت دے آپ نے شہاب کو طلب کیا اور فرمایا تم محمد بن بشر کے بارے میں جانتے ہو کہ وہ ہمارے دوستوں میں سے ہے۔ تمہارا ہزار دینار کا قرض اس پر ہے۔ وہ رقم اس نے اپنے اوپر خرچ نہیں کی بلکہ وہ قرض چند لوگوں کے درمیان رہ گیا اور اسے نقصان اٹھانا پڑا اب میں چاہتا ہوں کہ وہ دینار تم اسے بخش دو اس کے بعد آپ نے فرمایا شاید تمہارا خیال یہ ہے کہ تمہارے قرض کے بدلے میں تمہیں اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی شہاب نے کہا اس سے قبل میرے علم میں یہی بات تھی امام نے فرمایا خداوند کریم اور عادل ہے۔ اگر کوئی شخص الله کاتقرب حاصل کرنے کے لئے سردیوں کی راتوں میں اس کی عبادت کرے ، گرمیوں میں روزہ رکھے اور خانہ کعبہ کو طواف کرے اور اس کے بعد کیا الله تعالیٰ اس کی نیکیاں لیکر تمہیں دے دے گاایسا نہیں اس کا فضل اس سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ اپنے فضل سے مومن کو اس کے نیک کاموں کا عوض دیتا ہے۔ امام کی یہ گفتگو سن کر شہاب نے کہا میں نے اسے اپنا قرض بخش دیا۔
وہ مقروض جس کی نیکیاں قرض خواہ کو دی جاتی ہیں
ایسی صورت میں جب کہ کوئی شخص قرض کی ادائیگی میں قصور وار ہو اور اس نے قرض کسی حرام مقصد کے لئے لیا ہو یا استطاعت رکھتے ہوئے قرض کی ادائیگی میں غفلت سے کام لے اور اس کے مرنے کے بعد اس کا قرض بھی ادا نہ کیا جائے اور قرض خواہ بھی اسے نہ بخشے تو قیامت کے دن قرض کے برابر اس کی نیکیاں لیکر قرض خواہ کو دے دی جائیں گی اگر اس کی نیکیاں نہ ہوں یا بہت کم ہوں تو قرض خواہ کے گناہ اس کے نامہ اعمال میں شامل کر دئیے جائیں گے کچھ احادیث میں اس بات کو صراحتاً بیان کیا گیا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق -فرماتے ہیں:
ان اشد ما یکون الناس حالا یوم القیامة ان یقوم اھل الخمس فیتعلقون بذالک الرجل فیقولون ربنا ان ہذا الرجل قدا کل خمسنا و تصرف فیہ ولم ید فعہ الینا فیدفع الله الیہم عوضہ عن حسنات ذلک الرجل و کذلک اھل الزکوة (لئالی الاخبار ص۵۴۹)
روز قیامت انسان کے لئے سخت ترین وہ وقت ہوگا جب خمس و زکوة کے مستحقین اٹھ کر اس سے چمٹ جائیں گے اور کہیں گے پروردگار اس شخص نے خمس و زکوة کا ہمار حق مارا اور ہمیں کچھ نہ دیا پس خداوندعالم ان لوگوں کی نیکیاں ان مستحقین کو دے دے گا اس کے علاوہ آپ نے فرمایا قیامت کے دن قرض خواہ اپنے مقروض کی شکایت کرے گا پس اگر مقروض کی نیکیاں ہوں گی تو وہ قرض خواہ کے لئے لے لی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں نہ ہوں تو قرض خواہ کے گناہ اس کے نامہ اعمال میں شامل کردئیے جائیں گے بہت سی روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر کسی شخص کے ذمے لوگوں کے حقوق ہوں تو اس کی نجات نہیں ہوگی مگر یہ کہ صاحبان حق اس سے راضی ہو جائیں یا صاحبان حق کے حقوق کے مساوی اس کی نیکیاں لیکر صاحبان حق کو دی جائیں گی یا ان کے گناہ اس کے نامہ اعمال میں شامل کر دیئے جائیں گے یا پھر اہلبیت٪ اس کی شفاعت کریں تو وہ نجات حاصل کرے گا۔
معاوضہ کتنا ہوگا
معاوضہ کس طرح دیا جائے گا یا یہ کہ حق کے مقابلے میں کتنی مقدار نیکی درکار ہوگی اس کو خدا اور رسول بہتر جانتے ہیں نہ ہمارے پاس سمجھنے کا کوئی ذریعہ ہے اور نہ ہی ہمارے لئے ان باتوں کا سمجھنا لازم ہے۔ البتہ بعض روایات میں ان درجات کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ جیسے آنحضرت نے فرمایا کہ ہر درہم کے عوض مقروض کی چھ سو نمازیں لے کر قرض خواہ کو دے دی جائیں گی (لئالی الا خبار ص ۵۴۹) اور اگر ۶/ ۱ درہم چاندی کے ہوں تو اس کی سات سو قبول شدہ نمازیں لے کر صاحب حق کو دی جائیں گی (ایک درہم چاندی کے ۱۸ چنے کے دانوں کے برابر ہوتا ہے) غرض کہ مقروض کا قرض ادائیگی کے بغیر دنیا سے جانا اس کے لئے بہت سخت ہوگا پس ہر انسان کو یہ کوشش کرنا چاہیئے کہ وہ موت کے وقت مقروض نہ ہو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو اسے چاہیئے کہ شدت سے اہلِ بیت ٪ سے توسل پیدا کرے تاکہ وہ اس کے دعویداروں کو راضی کریں۔
رسولِ خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا۔
لیس ذنب اعظم عند الله بعد الکبائر التی نھی عنھا من رجل یموت و علیہ دین لرجال و لیس لہ ما یقضی عنہ (مستدرک ص ۴۸۹)
وہ گناہانِ کبیرہ کہ جن سے خدا نے منع کیا ہے۔ ان گناہوں کے بعد کوئی اور گناہ اس قدر بڑا نہیں جتنا کہ کسی شخص کا اس حالت میں مرنا کہ وہ لوگوں کا مقروض ہو اور اس کے پاس کوئی چیز بھی نہ ہو کہ جس سے اس کا قرض ادا کیا جا سکے۔
اس کے علاوہ آپ نے ایک روز نماز کے بعد اپنے اصحاب سے فرمایا کہ فلاں شخص جو شہید ہوچکا ہے۔ ابھی تک بہشت کے باہر کھڑا ہے۔ اور اندر داخل نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ فلاں یہودی کا تین درہم کا مقروض ہے۔
قرض ادا کرنے میں جلدی کرنا مستحب ہے
چنانچہ حق اور قرض کا ادا نہ کرنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔ پس قرض خواہ کے مطالبہ کرنے اور مقروض کے مستطیع ہونے کی صورت میں قرض کی ادائیگی میں جلدی کرنا بہترین واجبات خدا میں سے ہے۔ اور اس بارے میں بہت زیادہ ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے۔
کتاب دارالسلام نوری میں صفحہ ۲۶۷ پر کتاب نورالعیون سے نقل کیا ہے کہ جناب سید ہاشم حائری جو کہ عالم و زاہد تھے بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک یہودی سے سو دینار بطور قرض لئے (جو کہ اس زمانے میں دس ایرانی سکوں کے برابر تھے) اور اس سے بیس روز میں واپس کرنے کا وعدہ کیا پس اس میں سے آدھے واپس کر دئیے اور اس کے بعد پھر میں نے اس یہودی کو نہیں دیکھا لوگوں سے سنا کہ وہ بغداد گیا ہوا ہے اس کے بعد ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ قیامت بپا ہے۔ مجھے اور دوسرے لوگوں کو حساب کے لئے حاضر کیا گیا اور خدا نے اپنے فضل و کرم سے مجھے بہشت میں داخل ہونے کی اجازت دے دی پس میں نے چاہا کہ پل صراط عبور کروں تو جہنم کی چیخ و پکار نے مجھے خوف زدہ کردیا جب میں پل صراط پر سے گزرنے لگا تو اچانک قرض خواہ یہودی آگ کے شعلے کی مانند جہنم سے باہر نکلا اور میرا راستہ روک کر مجھ سے کہنے لگا مجھے پچاس تومان دو اور گذر جاؤ میں نے منت کی اور کہا کہ میں تمہیں ہمیشہ تلاش کرتا رہتا تھا تاکہ تمہیں تمہارا قرض لوٹادوں اس نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو لیکن جب تک تم میرا قرض نہیں دو گے صراط کو عبور نہیں کر سکتے میں نے گریہ وزاری کی اور کہا یہاں پر میرے پاس کوئی چیز نہیں جو تمہیں دوں یہودی نے کہا اچھا تو پھر مجھے اجازت دو کہ میں اپنی انگلی تمہارے جسم کے کسی حصے پر رکھوں اس کے شر سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے میں اس کی اس بات پر راضی ہو گیا اور جب اس نے اپنی انگلی میرے سینے پر رکھی تو جلن کی شدت سے میں خواب سے بیدار ہوگیا اور میں نے دیکھا کہ میرا سینہ زخمی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا سینہ کھول کر دکھایا اور سننے والوں نے دیکھا کہ ان کے سینے پر شدید زخم ہے۔ اور انہوں نے کہا میں ابھی تک اس کا علاج کروارہا ہوں لیکن یہ زخم صحیح نہیں ہوا سننے والے سید ہاشم حائری کی یہ روئیداد سن کر بلند آواز سے گریہ کرنے لگے۔
نیز بحارالانوار کی جلد ۱۷ میں شہید اول سے نقل کیا گیا ہے کہ احمد بن ابی الجوزی کہتا ہے۔ میری آرزو تھی کہ میں ابو سلیمان دارانی کو کہ جن کا شمار عابدوں اور زاہدوں میں ہوتا تھا کو خواب میں دیکھوں چنانچہ ان کے انتقال کے ایک سال بعد میں نے انہیں خواب میں دیکھا میں نے اس سے سوال کیا کہ خدا نے آپ کے ساتھ کیا کیا؟ انہوں نے کہا اے احمد ایک دن میں جب کہ باب صغیر سے آرہا تھا تو میں نے گھاس پھوس سے لدے ہوئے ایک اونٹ کو دیکھا میں نے اس میں سے ایک تنکا لیا اس کے بعد مجھے نہیں معلوم کہ میں نے اس سے خلال کیا یا منہ میں رکھے بغیر اسے دور پھینک دیا لیکن ایک سال ہو رہا ہے ابھی تک اسی کے حساب میں مبتلا ہوں۔
اور یہ آیت بھی اس حکایت کی تصدیق کرتی ہے:
یا نبی انھا ان تک مثقال حبة من خر دل فتکن فی صخرة فی السمٰوات او فی الارض یات بھا الله(سورہ لقمان آیت ۱۶)
یعنی لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا "اے میرے بیٹے ذرا سا بھی (اچھا اور برا ) عمل چاہے وہ رائی کے دانے کے برابر ہو اور پھر وہ کسی بڑے پتھر میں ہو یا آسمانوں اور زمینوں کے درمیان ہو خدا اسے (قیامت کے دن) لیکر آئے گا اور اس کا حساب کرے گا۔ جس شخص نے زرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لئے گا امیرالمومنین علیہ السلام نے محمد بن ابی بکر کے نام جو خط بھیجا اس میں تحریر فرمایا۔
اے خدا کے بندوں جان لو کہ خداوند کریم تمہارے چھوٹے بڑے سب کاموں کے بارے میں سوال کرے گا اور اس بارے میں یہی آیت کافی ہے۔
فمن یعمل مثقال ذرة خیر یراہ ومن یعمل مثقال ذرة شریراہ
(سورئہ زلزال آیت ۷،۸)
جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہے تو اسے دیکھ لے گا۔ اس جس نے ذرہ برابر بدی کی ہے وہ اسے دیکھ لے گا۔
بحارالانورا صفحہ ۲۳۵ پر جناب سید حسن بن سید علی اصفہانی سے نقل کیا گیا ہے۔ کہ انہوں نے فرمایااپنے والد کے انتقال کے وقت میں نجف اشرف میں دین تعلیم حاصل کرنے میں مصروف تھا اور میرے والد کے کاموں کی ذمہ داری میرے بعض بھائیوں کے کاندھوں پر آپڑی تھی اورمجھے ان کے بارے کوئی اطلاع نہ تھی والد کے انتقال کے سات مہینے بعد میری والدہ کا بھی اصفہان میں انتقال ہوگیا اور ان کے جنازے کو نجف اشرف لایا گیا انہی دنوں ایک رات میں نے اپنے والد کو خواب دیکھا میں نے کہا آپ کا انتقال تو اصفہان میں ہوا اور آپ نجف اشرف میں ہیں انہوں نے کہا ہا ں انتقال کے بعد مجھے یہاں جگہ ملی ہے۔ میں نے پوچھا والدہ بھی آپ کے ساتھ ہیں انہوں نے کہا وہ نجف میں تو ہیں لیکن دوسرے مکان میں ہیں میں سمجھ گیا کہ وہ میرے والد کے برابر نہیں پس میں نے کہا آپ کاحال کیسا ہے۔ انہوں نے کہا میں سختی اور مشکل میں تھا اب خدا کا شکر ہے کہ آرام سے ہوں میں نے تعجب سے کہا آپ جیسا انسان مشکل میں مبتلا تھا انہوں نے کہا ہاں اس کی وجہ یہ ہے کہ آقا بابا جوکہ نعلبند کے نام سے معروف ہے اس کے بیٹے حاج رضا کا مجھ پر قرض تھا اور وہ مجھ سے مطالبہ بھی کررہا تھا لیکن میں اس کا قرض ادا نہ کرسکا تھا اور اسی قرض کی عدم ادائیگی کی بناء پر میں سختی میں مبتلا تھا۔ گھبراہٹ سے میری آنکھ کھل گئی ۔ اور پھر میں اپنے بھائی کو جو والد کا وصی تھا اپنے اس خواب کے بارے میں لکھا تاکہ وہ تحقیق کرے کہ آیا کسی ایسے شخص کا میرے والد پر قرض تھا میرے بھائی نے جواب میں لکھا میں نے تمام حساب کتاب کی چھان بین کی لیکن اس شخص کا نام قرض خواہوں میں نہیں ہے۔ میں نے اپنے بھائی کو دوبارہ لکھا کہ ایسے شخص کو تلاش کرواور خود اس سے پوچھو کہ آیا میرے والد تمہارے مقروض تھے اس نے جواب میں لکھا کہ میں نے اس شخص سے پوچھا تو اس نے کہ تمہارے والد میرے اٹھارہ تومان کے مقروض تھے اور اس بات کو خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا پس میں تمہارے پاس آیا اور تم سے پوچھا کہ کیا میرا نام مرحوم کے قرض خواہوں میں درج ہے۔ تم نے کہا نہیں ہے میرے پاس کوئی سندبھی نہ تھی اور نہ ہی کوئی ایسا ذریعہ تھا جس سے میں اپنے قرض کو ثابت کرتا لہذا میں بہت آزردہ ہوا کہ مرحوم نے میرے قرض کو اپنی کاپی میں کیوں درج نہیں کیا میرے بھائی نے تحریر کیا کیاکہ میں نے اس شخص کو قرض کی رقم دینا چاہا لیکن اس نے لینے سے انکا رکر دیا اور کہا کہ میں نے مرحوم کو بخش دیا ہے۔
امام محمد باقر – فرماتے ہیں:
الظلم ثلثة ظلم یغفرہ اللّٰہ وظلم لا یغفرہ اللّٰہ وظلم لا یدعہ اللّٰہ فاما الظلم الذی لا یغفرہ اللّٰہ فالشرک واما الظلم الذی یغفرہ اللّٰہ فظلم الرجل فیما بینہ و بین اللّٰہ واماالظلم الذی لا یدعہ فالمداھنة بین العباد
(وسا ئل الشیعہ کتاب جہاد باب ۷۷)
ظلم کی تین قسمیں ہیں ایک ظلم وہ کہ جسے خدا نہیں بخشے گا دوسرا وہ ظلم کہ جسے بخش دے گا اور تیسرا وہ ظلم کہ جس کا مواخذہ کرے گا۔
(۱) وہ ظلم کہ جسے خدا نہیں بخشے گا وہ شرک ہے۔
(۲) وہ ظلم کہ جسے خدا بخش دے گا وہ کسی شخص کا ان باتوں کے بارے میں جو خدااور اس کے درمیان ہے اپنے آپ پر ظلم کرناہے۔
(۳) اور وہ ظلم کہ جس کا خدا مواخذہ کرے گا اس سے مراد وہ ظلم ہے جو مقروض اپنے قرض خواہوں کا قرض ادا نہ کر کے ان پرکرتا ہے۔
حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ) وسلم فرماتے ہیں :
من ارضی الخمصاء من نفسہ وجبت لہ الجنة بغیر حساب ویکون فی الجنة رفیق اسمٰعیل بن ابراہیم (مستدرک ص ۳۴۳ بحوالہ جامع الاخبار)
جو کوئی اپنے قرض خواہوں کا راضی کرے لازمی طور پر وہ بہشت میں داخل ہوگا اور حساب میں تاخیر کے بغیرجنت میں جناب اسماعیل بن ابراہیم کا ساتھی ہوگا۔
اس کے علاوہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) وسلم نے فرمایا:
درہم یردہ العبد الی الخصماء خیر لہ من عبادة الف سنہ ومن عتق الف رقبة خیر لہ لہ من الف حجة وعمرة (جہاد مستدرک ب ۷۸)
وہ قرض جو مقروض اپنے قرض خواہ کو واپس کرتا ہے ایک ہزار سال کی عباد ت اور ایک ہزار غلاموں کو آزاد کرنے اور ایک ہزار مرتبہ حج وعمرہ بجالانے سے بہتر ہے۔
اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) وسلم نے فرمایا:
من رد درھما الی الخصماء اعتق اللّٰہ رقبتہ من النارو اعطاہ بکل دانق ثواب بنی وبکل دہم مدینة من درة حمراء
(جہاد مستدرک ب ۷۸)
اگر کوئی ایک درہم بھی صاحب حق کو لوٹائے خداوند عالم اسے آتش جہنم سے نجات دے گا اور ہر دانق(۶ /۱ ادرہم) اگر واپس کرے تو اس کے عوض ایک پیغمبر کے برابر ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھاجائے گا اورہر درہم جو اس نے واپس کیا اس کے بدلے بہشت میں اسے سرخ موتیوں کا شہر مرحمت فرمائے گا اور آپ نے فرمایا۔
فان درھما یرد العبد الی الخصماء خیرلہ من صیام النھاروقیام اللیل ومن رد ناداہ ملک من تحت العرش یا عبد اللّٰہ استانف العمل فقد غفلک ما تقدم من ذنبک
(جہاد ب ۷۸ ص ۳۴۳)
صاحب حق کو اس کا ایک درہم واپس کرنا بہترہے اس روزے سے جودن میں رکھا جائے اور اس نماز سے جو رات میں پڑھی جائے ۔ اگر کوئی قرض کو واپس کرتا ہے تو عرش کے نیچے سے ایک فرشتہ یہ ندا دیتا ہے۔ اے بندے تیرے عمل کے آغاز ہی سے خدا نے تیرے تمام پچھلے گناہ بخش دیئے۔
لوگوں کے حقوق کی اد ا ئیگی
وہ مال جوکسی شخص کے ذمے ہو اس کی دو قسمیں ہیں حق ایک مورد یہ ہے کہ اس کے پاس مال موجو دہو اور اسے یقین ہو کہ اس کے پاس موجودہ مال میں سے آدھا مال فلاں شخص کا ہے۔ یا اس کے پاس موجودہ مال میں سے سوتومان کے برابر مال فلاں شخص کاہے۔ قسم دوم یہ ہے کہ اس کے ذمے کسی کا حق ہو لیکن عین مال میں سے کسی کے حق کا ذمہ دار نہ ہو مثلًا وہ چیز جو بطور قرض لی تھی خرچ ہوچکی ہو لیکن مقروض قرض خواہ کے حق کا ذمہ دار ہے۔ اسی طرح مختلف قسم کے ضمانتیں اور نفقات واجبہ ہیں کہ جن کا خیال رکھنا ہرانسان پر واجب ہے۔قسم اول کی چار صورتیں ہیں۔
(الف) مال کی مقدار اور صاحب مال کا معلوم کرنا
جب مال کی مقدار اور جب حق دونوں معلوم ہوں کہ فلاں مال میں سے اتنی مقدار فلاں شخص کی ہے۔ تو اس صورت میں واجب ہے کہ وہی مقدار صاحب حق کو واپس کی جائے اور اگر وہ مرچکا ہو تو وہ مال قانون ارث کے مطابق اس کے ورثا کودیا جائے۔
(ب) مال کی مقدار کا معلوم ہونا اور صاحب مال کا معلوم نہ ہونا
اگر مال کی مقدار معلوم اور صاحب مال معلوم نہ ہو اور تردّد ہو تو یہ تردّد وشک ایک دفعہ افراد معین کے درمیان ہوتا ہے۔ مثلًا آدمی جا نتا ہو کہ اس مال میں سے فلاں مقدار تین یا پانچ افراد میں سے کسی ایک کی ہے۔ پس احتیاط یہ ہے کہ ان تمام کو جس طرح بھی ممکن ہواپنے سے راضی کرے اور اگر ان تمام کو راضی کرنے کا کوئی ذریعہ نہ ہوتو اس بارے میں تین قول ہیں:
(۱) قرعہ اندازی کے ذریعے ان میں سے ایک کا تعین کیا جائے اور مال اسے دے دیا جائے۔
(۲) دوسری صورت یہ ہے کہ اس مال کو تمام افراد میں مساوی تقسیم کیا جائے۔
(۳) تیسرے یہ کہ مالک معلوم نہ ہو تو (احتیاط کے طور پر )حاکم شرع (قاضی ) کی اجازت سے صدقہ دیا جائے(اس مسئلے میں ہر شخص اپنے مرجع تقلید کی طرف رجوع کرے)اور اگر افرادغیر معین کے درمیان تردّد ہو یعنی سو یا سو سے زیادہ کے درمیان اسے شک و تردّد ہو کہ شاید یہ مال فلاں کا ہے یا یہ کہ صاحب مال بالک معلوم نہ ہو ایسی صورت میں یہ مال مجہول المالک کے حکم میں آئے گا اور احتیاط کی بناء پر حاکم شرع کی اجازت سے اسے بطور صدقہ دیا جائے۔
(ج) مال کی مقدار کا معلوم نہ ہونا اورمالک کا معلوم ہونا
اور جب مال کی مقدار معلوم نہ ہو اور صاحب حق معلوم ہو مثلًاجانتا ہو کہ میرے فلاں مال میں کچھ مقدار فلاں شخص کی ہے۔لیکن یہ نہ جانتا ہو کہ آدھا مال یا مال کا تیسرا حصہ اس شخص کا ہے۔ تو اسی صورت میں واجب ہے کہ کم از کم مال کا تیسرا حصہ اس شخص کو دے اور احتیاطً کچھ زیادہ دے اور اسے راضی کرے اور اس سے صلح کرے۔
(د) مال کی مقدار اورمالک ہر دو کا معلوم نہ ہونا
مال کی مقدار اور صاحب حق دونوں معلوم نہ ہوں یعنی اجمالاً اسے یقین ہو کہ میرے فلاں مال میں دوسروں کا مال شامل ہے۔ اور اس کا استعمال حرام ہے۔ لیکن نہ حرام مال کی مقدار کو جانتا ہو اور نہ ان لوگوں کو جانتا ہوجن کا مال ہے۔ حتی کہ افراد معین ہونے کی صورت میں یہ بھی نہ جانتا ہو کہ ان افراد میں سے کس کا کتنا مال ہے۔ ایسی صورت میں واجب ہے کہ مال کا خمس (یعنی مال کا پانچواں حصہ) نکالا جائے اور خمس کا مال اہل خمس کو دیاجائے اس کے بعد تمام مال حلال ہوجائے گا(مزید تفصیل کے لئے خمس کی کتاب اور رسالہ عملیہ کی طرف رجوع کریں)۔
قسم دوم : یعنی کسی شخص کا حق کسی دوسرے کے ذمے ہے لیکن عین مال کی صورت میں نہیں اس کی بھی چار صورتیں ہیں۔
(۱) اگر مال کی مقدار اور صاحب حق دونوں معلوم ہوں تو کسی شک کے بغیر اتنی مقدار رقم صاحب ِحق کو ادا کرے۔
(۲) جو حق اس کے ذمے ہے وہ تو معلوم ہے۔ لیکن جس شخص کا حق ہے۔ اسے نہیں جانتا یعنی اگر کچھ معین افراد کے درمیان تردّد ہو تو ان تمام کو اپنے سے راضی کرے جس کی تفصیل قسم اول میں گزر چکی ہے۔ اور یہ کہ بہت سے غیر معین افراد کے درمیان تردّد ہو یا صاحبِ حق کو بالکل نہ جانتا ہو تو ایسی صورت میں جو مقدار اس کے ذمے ہے اتنی رقم حاکم شرع ( قاضی ) کو دے یا حاکم شرع کی اجازت سے اصل مالک کی طرف سے صدقہ دے۔
(۳) جس شخص کے ذمے حق ہو اسے حق کی مقدار معلوم نہ ہو لیکن صاحب حق معلوم ہو تو ایسی صورت میں جو مقدار کم از کم یقینی ہو اتنی مقدارکی رقم اس شخص کو ادا کرے اور جو مقدار زیادہ ہے اس کے بارے میں اس سے صلح کرے۔
(۴) وہ حق جو ذمے ہے وہ اور صاحب حق دونوں نامعلوم ہوں تو اس رقم میں سے کم اور زیادہ کے درمیان جو حدِ وَسط ہے۔ اس کے بارے میں حاکم شرع (قاضی ) سے صلح کرے اور اس رقم کو اصل مالک کی طرف سے صدقہ کردے۔