جنگ تبوک
“تبوک”[97]کا مقام ان تمام مقامات سے دور تھا جھاں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی جنگوں میں پیش قدمی کی ۔ “تبوک”اصل میںایک محکم اور بلند قلعہ کا نام تھا ۔ جو حجاز او رشام کی سرحد پر واقع تھا ۔ اسی وجہ سے اس علاقے کو سر زمین تبوک کہتے تھے ۔جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کے تیز رفتار نفوذ کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شھرت اطراف کے تمام ممالک میں گونجنے لگی باوجود یہ کہ وہ اس وقت حجازکی اھمیت کے قائل نھیں تھے لیکن طلوع اسلام اور لشکر اسلام کی طاقت کہ جس نے حجاز کو ایک پرچم تلے جمع کرلیا، نے انھیں اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش میں ڈال دیا ۔مشرقی روم کی سرحد حجاز سے ملتی تھی اس حکومت کو خیال هوا کہ کھیں اسلام کی تیز رفتار ترقی کی وہ پھلی قربانی نہ بن جائے لہٰذا اس نے چالیس ہزار کی زبردست مسلح فوج جو اس وقت کی روم جیسی طاقتور حکومت کے شایان شان تھی‘ اکھٹی کی اور اسے حجاز کی سرحد پر لاکھڑا کیا یہ خبر مسافروں کے ذریعے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کانوں تک پہنچی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روم اور دیگر ھمسایوں کودرس عبرت دینے کے لئے توقف کئے بغیر تیاری کا حکم صادر فرمایاآپ کے منادیوںنے مدینہ اور دوسرے علاقوں تک آپ کا پیغام پہنچایا تھوڑے ھی عرصہ میں تیس ہزار افراد رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے تیار هوگئے ان میں دس ہزار سوار اور بیس ہزار پیادہ تھے ۔موسم بہت گرم تھا، غلے کے گودام خالی تھے اس سال کی فصل ابھی اٹھائی نھیں گئی تھی ان حالات میں سفر کرنا مسلمانوں کے لئے بہت ھی مشکل تھا لیکن چونکہ خدا اور رسول کافرمان تھا لہٰذا ھر حالت میں سفر کرنا تھا اور مدینہ اور تبوک کے درمیان پرُ خطر طویل صحرا کو عبور کرنا تھا ۔
لشکر ی مشکلاتاس لشکر کو چونکہ اقتصادی طور پر بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا راستہ بھی طولانی تھا راستے میں جلانے والی زھریلی هوائیں چلتی تھیں سنگریزے اڑتے تھے اور جھکڑچلتے تھے سواریاں بھی کافی نہ تھیں اس لئے یہ “جیش العسرة” (یعنی سختیوں والا لشکر ) کے نام سے مشهور هوا ۔تاریخ اسلام نشاندھی کرتی ھے کہ مسلمان کبھی بھی جنگ تبوک کے موقع کی طرح مشکل صورت حال، دباؤ اور زحمت میں مبتلا نھیں هوئے تھے کیونکہ ایک تو سفر سخت گرمی کے عالم میں تھا دوسرا خشک سالی نے لوگوں کو تنگ اور ملول کررکھا تھا اور تیسرا اس وقت درختوں سے پھل اتارنے کے دن تھے اور اسی پر لوگوں کی سال بھر کی آمدنی کا انحصار تھا۔ان تمام چیزوں کے علاوہ مدینہ اور تبوک کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ تھا اور مشرقی روم کی سلطنت کا انھیں سامنا تھا جو اس وقت کی سپر پاور تھی۔مزید برآں سواریاں اور رسد مسلمانوں کے پاس اتنا کم تھا کہ بعض اوقات دوافراد مجبور هوتے تھے کہ ایک ھی سواری پرباری باری سفر کریں بعض پیدل چلنے والوں کے پاس جوتاتک نھیںتھا اور وہ مجبور تھے کہ وہ بیابان کی جلانے والی ریت پرپا برہنہ چلیں آب وغذا کی کمی کا یہ عالم تھا کہ بغض اوقات خرمہ کا ایک دانہ چند آدمی یکے بعد دیگرے منہ میں رکھ کر چوستے تھے یھاں تک کہ اس کی صرف گٹھلی رہ جاتی پانی کا ایک گھونٹ کبھی چند آدمیوں کو مل کر پینا پڑتا ۔یہ واقعہ نوہجری یعنی فتح مکہ سے تقریبا ایک سال بعد رونماهوا ۔مقابلہ چونکہ اس وقت کی ایک عالمی سوپر طاقت سے تھا نہ کہ عرب کے کسی چھوٹے بڑے گروہ سے لہٰذا بعض مسلمان اس جنگ میں شرکت سے خوف زدہ تھے اس صورت حال میں منافقین کے زھریلے پر وپیگنڈے اور وسوسوں کے لئے ماحول بالکل ساز گار تھا اور وہ بھی مومنین کے دلوں اور جذبات کوکمزور کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نھیں کررھے تھے ۔پھل اتارنے اور فصل کاٹنے کا موسم تھا جن لوگوں کی زندگی تھوڑی سی کھیتی باڑی اور کچھ جانور پالنے پر بسر هوتی تھی یہ ان کی قسمت کے اھم دن شمار هوتے تھے کیونکہ ان کی سال بھر کی گزر بسر انھیں چیزوں سے وابستہ تھےں۔جیسا کہ ھم کہہ چکے ھیں مسافت کی دوری اور موسم کی گرمی بھی روکنے والے عوامل کی مزید مدد کرتی تھی اس موقع پر آسمانی وحی لوگوں کی مدد کے لئے آپہنچی اور قرآنی آیات یکے بعد دیگر ے نازل هوئیں اور ان منفی عوامل کے سامنے آکھڑی هوئیں۔
تشویق ، سرزنش، اور دھمکی کی زبانقرآن جس قدر هوسکتی ھے اتنی سختی اور شدت سے جھاد کی دعوت دتیاھے ۔ کبھی تشویق کی زبان سے کبھی سرزنش کے لہجے میں اورکبھی دھمکی کی زبان میں ان سے بات کرتا ھے،اور انھیںآمادہ کرنے کے لئے ھر ممکن راستہ اختیار کرتا ھے۔ پھلے کہتا ھے:” کہ خدا کی راہ میں ،میدان جھاد کی طرف حرکت کرو تو تم سستی کا مظاھرہ کرتے هو اور بوجھل پن دکھاتے هو “۔[98]اس کے بعد ملامت آمیز لہجے میں قرآن کہتا ھے : “آخرت کی وسیع اور دائمی زندگی کی بجائے اس دنیاوی پست اور ناپائیدار زندگی پر راضی هوگئے هو حالانکہ دنیاوی زندگی کے فوائد اور مال ومتاع آخرت کی زندگی کے مقابلے میں کوئی حیثیت نھیں رکھتے اور بہت ھی کم ھیں “۔[99]ایک عقلمند انسان ایسے گھاٹے کے سودے پر کیسے تیار هوسکتا ھے اور کیونکہ وہ ایک نھایت گراں بھامتاع اور سرمایہ چھوڑکر ایک ناچیز اور بے وقعت متاع کی طرف جاسکتاھے ۔اس کے بعد ملامت کے بجائے ایک حقیقی تہدید کا اندازاختیار کرتے هوئے ارشاد فرمایا گیا ھے :” اگر تم میدان جنگ کی طرف حرکت نھیں کرو گے تو خدا دردناک عذاب کے ذریعے تمھیں سزادے گا”۔ [100]”اور اگر تم گمان کرتے هو کہ تمھارے کنارہ کش هونے اور میدان جھاد سے پشت پھیرنے سے اسلام کی پیش رفت رک جائے گی اور آئینہ الٰھی کی چمک ماند پڑجائے گی تو تم سخت اشتباہ میں هو ،کیونکہ خدا تمھارے بجائے ایسے صاحبان ایمان کو لے آئے گا جو عزم مصمم رکھتے هوں گے اور فرمان خدا کے مطیع هوں گے”۔ [101]وہ لوگ کہ جو ھر لحاظ سے تم سے مختلف ھیں نہ صرف ان کی شخصیت بلکہ انکا ایمان، ارادہ،دلیری اور فرماں برداری بھی تم سے مختلف ھے لہٰذا ” اس طرح تم خدا اور اس کے پاکیزہ دین کو کوئی نقصان نھیں پہنچا سکتے” ۔[102]
تنھاوہ جنگ جس میںحضرت علی نے شرکت نہ کیاس لشکر کو چونکہ اقتصادی طور پر بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس کا راستہ بھی طولانی تھا راستے میں جلانے والی زھریلی هوائیں چلتی تھیں سنگریزے اڑتے تھے اور جھکّڑچلتے تھے سواریاں بھی کافی نہ تھیں اس لئے یہ” جیش العسرة” (یعنی سختیوں والا لشکر )کے نام سے مشهور هوا اس نے تمام سختیوں کو جھیلا اور ماہ شعبان کی ابتداء میں ہجرت کے نویں سال سرزمین “تبوک” میں پہنچا جب کہ رسول اللہ حضرت علی کو اپنی جگہ پر مدینہ میں چھوڑآئے تھے یہ واحد غزوہ ھے جس میں حضرت علی علیہ السلام شریک نھیں هوئے ۔رسول اللہ کایہ اقدام بہت ھی مناسب اور ضروری تھا کیونکہ بہت احتمال تھا کہ بعض پیچھے رہنے والے مشرکین یامنا فقین جو حیلوں بھانوں سے میدان تبوک میں شریک نہ هوئے تھے، رسول اللہ اور ان کی فوج کی طویل غیبت سے فائدہ اٹھائیں اور مدینہ پر حملہ کردیں، عورتوں اور بچوں کو قتل کردیں اور مدینہ کو تاراج کردیں لیکن حضرت علی کا مدینہ میں رہ جانا ان کی سازشوں کے مقابلے میں ایک طاقتور رکاوٹ تھی ۔بھرحال جب رسول اللہ تبوک میں پہنچے تو وھاں آپ کو رومی فوج کا کوئی نام ونشان نظر نہ آیا عظیم سپاہ اسلام چونکہ کئی جنگوں میں اپنی عجیب وغریب جراٴت وشجاعت کا مظاھرہ کرچکی تھی، جب ان کے آنے کی کچھ خبر رومیوں کے کانوں تک پہنچی تو انھوں نے اسی کو بہتر سمجھا کہ اپنے ملک کے اندرچلے جائیں اور اس طرح سے ظاھر کریں کہ مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے لشکر روم کی سرحدوں پر جمع هونے کی خبر ایک بے بنیاد افواہ سے زیادہ کچھ نہ تھی کیونکہ وہ ایک ایسی خطرناک جنگ شروع کرنے سے ڈرتے تھے جس کا جواز بھی ان کے پاس کوئی نہ تھا لیکن لشکر اسلام کے اس طرح سے تیز رفتاری سے میدان تبوک میں پہنچنے نے دشمنانِ اسلام کو کئی درس سکھائے، مثلاً:۱۔یہ بات ثابت هوگئی کہ مجاہدین اسلام کا جذبہ جھاد اس قدر قوی ھے کہ وہ اس زمانے کی نھایت طاقت ور فوج سے بھی نھیں ڈرتے۔۲۔ بہت سے قبائل اور اطراف تبوک کے امراء پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آئے اور آپ سے تعرض اور جنگ نہ کرنے کے عہدوپیمان پر دستخط کیے اس طرح مسلمان ان کی طرف سے آسودہ خاطر هوگئے ۔۳۔ اسلام کی لھریں سلطنت روم کی سرحدوں کے اندر تک چلی گئیں اور اس وقت کے ایک اھم واقعہ کے طور پر اس کی آواز ھر جگہ گونجی اور رومیوں کے اسلام کی طرف متوجہ هونے کے لئے راستہ ھموار هوگیا ۔۴۔ یہ راستہ طے کرنے اور زحمتوں کو برداشت کرنے سے آئندہ شام کا علاقہ فتح کرنے کے لئے راہ ھموار هوگئی اور معلوم هوگیا کہ آخرکار یہ راستہ طے کرنا ھی ھے ۔یہ عظیم فوائد ایسے تھے کہ جن کے لئے لشکر کشی کی زحمت برداشت کی جاسکتی تھی ۔بھرحال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی سنت کے مطابق اپنی فوج سے مشورہ کیا کہ کیا پیش قدمی جاری رکھی جائے یاواپس پلٹ جایا جائے؟اکثریت کی رائے یہ تھی، کہ پلٹ جانا بہتر ھے اور یھی اسلامی اصولوں کی روح سے زیادہ مناسبت رکھتا تھا خصوصاً جبکہ اس وقت طاقت فرسا سفر اور راستے کی مشقت وزحمت کے باعث اسلامی فوج کے سپاھی تھکے هوئے تھے اور ان کی جسمانی قوت مزاحمت کمزور پڑچکی تھی، رسول اللہ نے اس رائے کو صحیح قرار دیا اور لشکر اسلام مدینہ کی طرف لوٹ آیا۔
ایک عظیم درس”ابو حثیمہ “[103] اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں سے تھا ،منافقین میں سے نہ تھا لیکن سستی کی وجہ سے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ میدان تبوک میںنہ گیا ۔اس واقعہ کو دس دن گذر گئے ،هوا گرم او رجلانے والی تھی،ایک دن اپنی بیویوں کے پاس آیا انھوں نے ایک سائبان تان رکھا تھا ، ٹھنڈا پانی مھیا کر رکھا تھا او ربہترین کھانا تیار کر رکھا تھا، وہ اچانک غم و فکر میں ڈوب گیا او راپنے پیشوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یاد اسے ستانے لگی ،اس نے کھا:رسول اللہ کہ جنھوںنے کبھی کوئی گناہ نھیں کیا او رخدا ان کے گذشتہ اور آئندہ کا ذمہ دار ھے ،بیابان کی جلا ڈالنے والی هواؤں میں کندھے پر ہتھیار اٹھائے اس دشوار گذار سفر کی مشکلات اٹھارھے ھیں او رابو حثیمہ کو دیکھو کہ ٹھنڈے سائے میں تیار کھانے اور خوبصورت بیویوں کے پاس بیٹھا ھے ،کیا یہ انصاف ھے ؟اس کے بعد اس نے اپنی بیویوں کی طرف رخ کیا او رکھا:خدا کی قسم تم میں سے کسی کے ساتھ میں بات نہ کروں گا او رسائبان کے نیچے نھیں بیٹھوں گا جب تک پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نہ جاملوں ۔یہ بات کہہ کر اس نے زادراہ لیا ،اپنے اونٹ پر سوار هوااور چل کھڑا هوا ،اس کی بیویوںنے بہت چاھا کہ اس سے بات کریں لیکن اس نے ایک لفظ نہ کھا او راسی طرح چلتا رھا یھاں تک کہ تبوک کے قریب جا پہنچا ۔مسلماان ایک دوسرے سے کہنے لگے :یہ کوئی سوار ھے جو سڑک سے گذررھا ھے، لیکن پیغمبر اکرم نے فرمایا:اے سوار تم ابو حثیمہ هو تو بہتر ھے۔جب وہ قریب پہنچا او رلوگوںنے اسے پہچان لیا تو کہنے لگے : جی ھاں ؛ ابو حثیمہ ھے ۔اس نے اپنا اونٹ زمین پر بٹھایا او رپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں سلام عرض کیا او راپنا ماجرابیان کیا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے خوش آمدید کھا اور اس کے حق میں دعا فرمائی ۔اس طرح وہ ایک ایسا شخص تھا جس کا دل باطل کی طرف مائل هوگیا تھا لیکن اس کی روحانی آمادگی کی بنا ء پر خدا نے اسے حق کی طرف متوجہ کیا اور ثبات قدم بھی عطا کیا ۔
جنگ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین لوگمسلمانوں میں سے تین افراد کعب بن مالک ،مرارہ بن ربیع او ربلال بن امیہ نے جنگ تبوک میںشرکت نہ کی او رانھوںنے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ھمراہ سفر نہ کیا وہ منافقین میں شامل نھیں هو نا چاہتے تھے بلکہ ایسا انھوںنے سستی اور کاھلی کی بنا پر کیا تھا،تھوڑا ھی عرصہ گذرا تھا کہ وہ اپنے کئے پر نادم اور پشیمان هوگئے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میدان تبوک سے مدینہ لوٹے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر هوئے اور معذرت کی لیکن رسول اللہ نے ان سے ایک لفظ تک نہ کھا اور مسلمانوں کو بھی حکم دیا کہ کوئی شخص ان سے بات چیت نہ کرے وہ ایک عجیب معاشرتی دباؤ کا شکار هوگئے یھاں تک کہ ان کے چھوٹے بچے او رعورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئیں او راجازت چاھی کہ ان سے الگ هو جائیں ،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انھیں علیحدگی کی اجازت تو نہ دی لیکن حکم دیا کہ ان کے قریب نہ جائیں،مدینہ کی فضااپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ هو گئی ،وہ مجبور هوگئے کہ اتنی بڑی ذلت اوررسوائی سے نجات حاصل کرنے کے لئے شھر چھوڑدیں اوراطراف مدینہ کے پھاڑوں کی چوٹی پر جاکر پناہ لیں۔جن باتوںنے ان کے جذبات پر شدید ضرب لگائی ان میں سے ایک یہ تھی کہ کعب بن مالک کہتا ھے :میںایک دن بازار مدینہ میں پریشانی کے عالم میں بیٹھا تھاکہ ایک شامی عیسائی مجھے تلاش کرتا هوا آیا، جب اس نے مجھے پہچان لیا تو بادشاہ غسان کی طرف سے ایک خط میرے ھاتھ میںدیا ، اس میں لکھاتھا کہ اگر تیرے ساتھی نے تجھے دھتکاردیا ھے تو ھماری طرف چلے آؤ، میری حالت منقلب اور غیر هوگئی ،اور میں نے کھا وائے هو مجھ پر میرا معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ھے کہ دشمن میرے بارے میں لالچ کرنے لگے ھیں، خلاصہ یہ کہ ان کے اعزا ء واقارب ان کے پاس کھانالے آتے مگر ان سے ایک لفظ بھی نہ کہتے ،کچھ مدت اسی صورت میں گزر گئی او روہ مسلسل انتظار میں تھے کہ اس کی توبہ قبول هو اورکوئی آیت نازل هو جو ان کی توبہ کی دلیل بنے ، مگر کوئی خبر نہ تھی ۔اس دوران ان میں سے ایک کے ذہن میںیہ بات آئی او راس نے دوسروں سے کھا اب جبکہ لوگوں نے ھم سے قطع تعلق کر لیا ھے ،کیا ھی بہتر ھے کہ ھم بھی ایک دوسرے سے قطع تعلق کرلیں (یہ ٹھیک ھے کہ ھم گنہ گار ھیں لیکن مناسب ھے کہ دوسرے گنہ گار سے خوش او رراضی نہ هوں)۔انھوں نے ایسا ھی کیا یھاں تک کہ ایک لفظ بھی ایک دوسرے سے نھیںکہتے تھے اوران میںسے کوئی ایک دوسرے کے ساتھ نھیں رہتا تھا،اس طرح پچاس دن انھوںنے توبہ وزاری کی او رآخر کار ان کی توبہ قبول هوگئی ۔[104]
مسجد ضرار[105]کچھ منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے او رعرض کیا، ھمیں اجازت دیجیئے کہ ھم قبیلہ “بنی سالم” کے درمیان”مسحد قبا”کے قریب ایک مسجد بنالیں تاکہ ناتواں بیمار اور بوڑھے جو کوئی کام نھیں کرسکتے اس میں نماز پڑھ لیا کریں۔ اسی طرح جن راتوں میں بارش هوتی ھے ان میں جو لوگ آپ کی مسجد میں نھیں آسکتے اپنے اسلامی فریضہ کو اس میں انجام دے لیا کریں۔یہ اس وقت کی بات ھے جب پیغمبر خد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنگ تبوک کا عزم کرچکے تھے آنحضرت نے انھیں اجازت دےدی۔انھوں نے مزید کھا: کیا یہ بھی ممکن ھے کہ آپ خود آکر اس میں نماز پڑھیں؟نبی اکرم نے فرمایا: اس وقت تو میں سفر کا ارادہ کر چکا هوں البتہ واپسی پر خدا نے چاھا تو اس مسجد میں آکر نماز پڑھوں گا۔جب آپ جنگ تبوک سے لوٹے تو یہ لوگ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے ھماری درخواست ھے کہ آپ ھماری مسجد میں آکر اس میں نماز پڑھائیں اورخدا سے دعا کریں کہ ھمیں برکت دے ۔یہ اس وقت کی بات ھے جب ابھی آنحضرت مدینہ کے دروازے میں داخل نھیںهوئے تھے اس وقت وحی خدا کا حامل فرشتہ نازل هوا اور خدا کی طرف سے پیغام لایا او ران کے کرتوت سے پردہ اٹھایا۔ان لوگوںکے ظاھراًکام کو دیکھا جائے تو ھمیں شروع میں تو اس حکم پر حیرت هوئی کہ کیا بیماروں اوربوڑھوں کی سهولت کے لئے اوراضطراری مواقع کے لئے مسجد بنانا برا کام ھے جبکہ یہ ایک دینی او رانسانی خدمت معلوم هوتی ھے کیا ایسے کام کے بارے میں یہ حکم صادر هوا ھے؟لیکن اگر ھم اس معاملہ کی حقیقت پر نظر کریں گے تو معلوم هوگا کہ یہ حکم کس قدر بر محل اور جچاتلا تھا۔اس کی وضاحت یہ ھے کہ” ابو عامر”نامی ایک شخص نے عیسائیت قبول کرلی تھی اور راھبوں کے مسلک سے منسلک هوگیا تھا ۔ اس کا شمار عابدوں میں هوتا تھا ، قبیلہ خزرج میں اس کا گھرا اثرورسوخ تھا ۔رسول اللہ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی او رمسلمان آپ کے گرد جمع هوگئے تو ابو عامر جو خودبھی پیغمبر کے ظهور کی خبر دینے والوں میں سے تھا،اس نے دیکھا کہ اس کے ارد گرد سے لوگ چھٹ گئے ھیں اس پر وہ اسلام کے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑا هوا ،وہ مدینہ سے نکلا اور کفار مکہ کے پاس پہنچا،اس نے ان سے پیغمبر اکرم کے خلاف جنگ کے لئے مدد چاھی اور قبائل عرب کو بھی تعاون کی دعوت دی ،وہ خود مسلمانوں کے خلاف جنگ احد کی منصوبہ بندی میںشریک رھا تھا،اور راہنمائی کرنے والوں میں سے تھا،اس نے حکم دیا کہ لشکر کی دو صفوں کے درمیان گڑھے کھوددے جائیں ۔اتفاقاً پیغمبر اسلامایک گڑھے میں گر پڑے ،آپ کی پیشانی پر زخم آئے اور دندان مبارک ٹوٹ گئے ۔جنگ احد ختم هوئی،مسلمانوں کو اس میدان میں آنے والی مشکلات کے باوجود اسلام کی آواز بلند تر هوئی او رھر طرف صدا ئے اسلام گونجنے لگی، تو وہ مدینہ سے بھاگ گیا او ربادشاہ روم ھرقل کے پاس پہنچا تاکہ اس سے مددچاھے اور مسلمانوں کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر مھیا کرے۔اس نکتے کا بھی ذکر ضروری ھے کہ اس کی ان کارستانیوں کی وجہ سے پیغمبر اسلام نے اسے “فاسق”کالقب دے رکھاتھا۔بعض کہتے ھیں کہ موت نے اسے مھلت نہ دی کہ وہ اپنی آرزو ھرقل سے کہتا لیکن بعض دوسری کتب میں ھے کہ وہ ھرقل سے جاکر ملا اور اس کے وعدوں سے مطمئن اورخوش هوا۔بھر حال اس نے مرنے سے پھلے مدینہ کے منافقین کو ایک خط لکھا اور انھیں خوشخبری دی کہ روم کے ایک لشکر کے ساتھ وہ ان کی مدد کوآئے گا۔اس نے انھیں خصوصی تاکید کی کہ مدینہ میں وہ اس کے لئے ایک مرکز بنائیں تاکہ اس کی آئندہ کی کارگذاریوں کے لئے وہ کام دے سکے لیکن ایسا مرکز چونکہ مدینہ میں اسلام دشمنوں کی طرف سے اپنے نام پر قائم کرنا عملی طور پر ممکن نہ تھا۔ لہٰذا منافقین نے مناسب یہ سمجھا کہ مسجد کے نام پر بیماروں اور معذوروں کی مدد کی صورت میں اپنے پروگرام کو عملی شکل دیں۔آخر کار مسجد تعمیر هوگئی یھاں تک کہ مسلمانوں میں سے “مجمع بن حارثہ” (یا مجمع بَن جاریہ)نامی ایک قرآن فھم نوجوان کو مسجد کی امامت کے لئے بھی چن لیا گیا لیکن وحی الٰھی نے ان کے کام سے پردہ اٹھادیا۔یہ جو پیغمبر اکرم نے جنگ تبوک کی طرف جانے سے قبل ان کے خلا ف سخت کاروائی کا حکم نھیں دیا اس کی وجہ شاید ایک تو ان کی حقیقت زیادہ واضح هوجائے او ردوسرا یہ کہ تبوک کے سفر میں اس طرف سے کوئی او رذہنی پریشانی نہ هو۔ بھر حال جو کچھ بھی تھا رسول اللہ نے نہ صرف یہ کہ مسجد میں نماز نھیں پڑھی بلکہ بعض مسلمانوں (مالک بن دخشم،معنی بن عدی اور عامر بن سکر یا عاصم بن عدی)کو حکم دیا کہ مسجدکو جلادیں او رپھر اس کی دیواروں کو مسمار کروادیا۔ او رآخر کار اسے کوڑاکرکٹ پھیکنے کی جگہ قرار دےدیا۔
مسجد قبا ءیہ بات قابل توجہ ھے کہ خدا وند عالم اس حیات بخش حکم کی مزید تاکید کے لئے خداوند متعال فرماتا ھے کہ اس مسجد میں ھرگز قیام نہ کرو اور اس میں نمازنہ پڑھو۔[106]”بلکہ اس مسجدکے بجائے زیادہ مناسب یہ ھے کہ اس مسجد میں عبادت قائم کرو جس کی بنیاد پھلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ھے” [107]نہ یہ کہ یہ مسجد جس کی بنیاد روز اول ھی سے کفر،نفاق،بے دینی اور تفرقہ پر رکھی گئی ھے۔”مفسرین نے کھا ھے کہ جس مسجد کے بارے میں مندرجہ بالا جملے میں کھا گیا ھے کہ زیادہ مناسب یہ ھے کہ پیغمبر اس میں نماز پڑھیں اس سے مراد” مسجد قبا “ھے کہ جس کے قریب منافقین نے مسجد ضرار بنائی تھی”۔اس کے بعد قرآن مزید کہتا ھے :”کہ علاوہ اس کے کہ اس مسجد کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ھے ،مردوں کا ایک گروہ اس میں مشغول عباد ت ھے جو پسند کرتا ھے کہ اپنے آپ کو پاک وپاکیزہ رکھے اور خدا پاکباز لوگوں کو دوست رکھتا ھے “۔[108]
سب سے پھلی نماز جمعہپھلا جمعہ جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب کے ساتھ پڑھا وہ اس وقت پڑھا گیا جب آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی ۔ جب آپ مدینہ میں وارد هوئے تو اس دن پیر کا دن بارہ ربیع الاول او رظھر کا وقت تھا۔ حضرت چار دن تک”قبا “میں رھے او رمسجد قبا کی بنیاد رکھی ، پھر جمعہ کے دن مدینہ کی طرف روانہ هوئے(قبااور مدینہ کے درمیان فاصلہ بہت ھی کم ھے اور موجودہ وقت میںقبا مدینہ کا ایک داخلی محلہ ھے)اور نماز جمعہ کے وقت آپ محلہ”بنی سالم”میں پہنچے وھاں نماز جمعہ ادا فرمائی اور یہ اسلام میں پھلا جمعہ تھا جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اداکیا۔ جمعہ کی نماز میں آپ نے خطبہ بھی پڑھا۔ جو مدینہ میں آنحضرت کا پھلا خطبہ تھا۔
—————————-[97] واقعہ جنگ تبوک سورہٴ توبہ آیت ۱۱۷ کے ذیل میں بیان هوا ھے ۔[98] سورہ توبہ آیت ۳۸۔[99] سورہ توبہ آیت ۳۸۔[100] سورہ توبہ آیت ۳۹۔[101] سورہ توبہ آیت ۳۹۔[102] سور ہ توبہ آیت ۳۹۔[103] یہ شخص انھیں افراد میں سے تھا جن کے بارے میں کھا جاتا ھے کہ سورہ توبہ آیت۱۱۷ نازل هوئی ۔[104] سورہ توبہ:آیت ۱۱۸۔ اس سلسلے میں نازل هوئی ھے ۔[105] مسجد ضرار کے سلسلے میں سورہٴ توبہ ۔۱۰۷ تا۱۱۰ میں بیان هوا ھے۔اس کے فوراً بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ مذکورہ مسجد کو جلا دیا جائے او راسکے باقی حصے کو مسمارکردیا جائے او راس کی جگہ کوڑاکرکٹ ڈالاجایا کرے۔[106] سورہٴ توبہ آیت ۱۰۸۔[107] سورہٴ توبہ آیت ۱۰۸۔[108] سورہٴ توبہ آیت ۱۰۸۔