شیعہ، امام حسن عسکری علیہ السلام کی نظر میں

257

امام حسن عسکری علیہ السلام کا زمانہ تشیع کی تنہائی اور غربت کا زمانہ تھا اور آپ (ع) نے اپنے بعد امام آخر الزمان کے زمانے کے لئے بھی ہدایات دی ہیں جو آج غیبت کے زمانے میں بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہوسکتی ہیں اور ہماری کئی غلط فہمیوں کو دور کرسکتی ہیں۔1۔ شیعہ کی پانچ نشانیاںشیخ طوسی کی روایت کے مطابق، امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا:”علامات المؤمن خمس: صلاة احدى وخمسين، وزيارة الاربعين، والتختم باليمين (او في اليمين) و تعفير الجبين، والجهر ببسم الله الرحمن الرحيم”۔شیعہ کی پانچ علامتیں ہیں: 1۔ روزانہ 51 رکعت نماز ادا کرتا ہے (17 واجب اور 34 مستحب)، 2۔ زیارت اربعین پڑھنا، 3۔ داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، 4۔ مٹی پر سجدہ کرنا، 5۔ نماز میں بسم اللہ کو بآواز بلند پڑھنا۔(سيدبن طاووس اقبال الاعمال ج 3 ص 100) علامه مجلسي بحارالانوار ج 85 ص 75 و ج 98 ص 348)۔

2۔ شیعہ شفقت، منکسرالمزاجی اور برادران کے حقوق کا لحاظامام حسن عسکري عليہ ‌السلام فرمایا:”أعْرَفُ النّاسِ بِحُقُوقِ إخْوانِهِ، وَأشَدُّهُمْ قَضاءً لَها، أعْظَمُهُمْ عِنْدَاللهِ شَأناً اللهِ و من تواضع في الدنيا لاخوانه فهو عندالله من الصديقين و من شيعة علي بن ابي طالب عليه السلام حقاً”.جو شخص اپنے بھائیوں کے حقوق کی سب سے زیادہ معرفت رکھتا ہے اور ان حقوق کو ادا کرنے میں سب سے زیادہ کوشاں ہے وہ شان و منزلت کے لحاظ سے اللہ کے نزدیک سب سے بڑا اور عظیم ہے اور اس کا درجہ اور رتبہ سب سے اونچا ہے؛ اور جو بھی دنیا میں اپنے بھائیوں کی نسبت سب سے زیادہ تواضع اور خاکساری کا مظاہرہ کرے گا وہ اللہ کی بارگاہ میں صدیقین میں سے ہے اور علی بن ابیطالب علیہ السلام کے حقیقی شیعوں میں سے ہے۔واضح رہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے حقیقی شیعہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حسن و حسین علیہما السلام اور سلمان، ابوذر، مقداد، عمار اور محمد بنی ابی بکر اور مالک اشتر تھے۔ جنھوں نے ولایت کی پیروی کا حق ادا کرتے ہوئے کبھی بھی اپنے ولی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے شک و تردد سے کام نہیں لیا اور کبھی بھی اپنی رائے ولی امر کی رائے پر مقدم نہیں رکھی بلکہ کبھی بھی ولی اللہ علیہ السلام کے سامنے اپنی رائے ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کی جبکہ ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ حتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم جاری ہونے کے باوجود اپنی رائے کا اظہار ہی نہیں بلکہ رسول اللہ (ص) کے حکم کی اعلانیہ مخالفت تک کیا کرتے تھے! اور یہ ولایت پذیری کے بالکل خلاف ہے حالانکہ رسول اللہ (ص) تمام مسلمانوں پر ولایت رکھتے تھے۔

3۔ شیعہ مہمان کا احترام کرتا ہےشیعیان محمد و آل محمد (ص) کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت مہمام کا اکرام و تعظیم ہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں: دو دینی برادران (باپ اور بیٹا) امیرالمؤمنین علیہ السلام کے گھر میں مہمان ہوئے۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اٹھ کر مہمانوں کا استقبال کاد اور ان کی تکریم فرمائی اور انہیں صدرِ مجلس میں بٹھایا اور خود بھی ان کے بیچ میں تشریف فرما ہوئے اور کھانا لانے کا حکم دیا اور ان دونوں نے کھانا کھالیا۔ قنبر ایک برتن میں پانی لائے اور ایک خالی برتن نیز تولیہ ساتھ لائے اور خالی برتن مہمان کے سامنے رکھا تا کہ مہمان ہاتھ بڑھا دیں اور قنبر ان کے ہاتھوں پر پانی ڈالیں۔ حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اٹھ کر پانی کا برتن قنبر سے لے لیا تا کہ مہمان کے ہاتھ خود دھلا دیں۔ مہمان نے اپنے آپ کو خاک پر گرادیا اور عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! خدا مجھے دیکھ رہا ہے کہ آپ مر ے ہاتھوں پر پانی ڈالنا چاہتے ہیں!امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: بیٹھ جاؤ اور اپنے ہاتھ دھولو، خداوند متعال تمہیں بھی دیکھتا ہے اور تمہارے بھائی کو بھی دیکھتا ہے جو بالکل تمہاری مانند ہے اور تم میں اور تمہارے بھائی میں کوئی فرق نہیں ہے اور تمہارا یہ بھائی اپنے آپ کو تم سے بہتر نہیں سمجھتا بلکہ تمہاری خدمت کرتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ جنت میں اس کے خدمتگذاروں کی تعداد دنیا کے لوگوں کی پوری تعداد سے بھی دس گنا زیادہ ہو۔ وہ آدمی بیٹھ گیا۔
[نکتہ: مہمان کی خدمت کرو گے تو پہلی بات تو یہ ہے کہ تم جنتی ہو اور دوسری بات یہ ہے کہ جنت میں اللہ تعالی اس کو لاکھوں خدمتگذاروں سے بہرہ مند فرمائے گا]۔
فرمایا: تجھے اس خدا کی قسم دیتا ہوں میرے اس حق عظیم کے صدقے، جس کو تم نے پہچان لیا ہے اور اس کی تکریم کی ہے، اور اللہ کے سامنے تیرے خضوع و انکسار کے صدقے، کہ اس نے مجھے خدمت مہمان کی دعوت دی ہے اور اس کے ذریعے تم کو شرف بخشا ہے کہ میں تمہاری خدمت کروں، اپنے ہاتھ پورے سکون و اطمینان کے ساتھ دھولو بالکل اسی طرح کہ اگر قنبر تمہارے ہاتھوں پر پانی ڈالتا، اور تم سکون کے ساتھ ہاتھ دھولیتے۔ چنانچہ مہمان نے ایسا ہی کیا۔امیرالمؤمنین (ع) مہمان کے ہاتھ دھلانے سے فارغ ہوئے تو بیٹے محمد بن حنفیہ کو بلایا اور فرمایا: بیٹا! اگر یہ لڑکا یہاں تنہا ہوتا اور اپنے والد کی معیت کے بغیر آیا ہوتا میں خود ہی اس کے ہاتھوں پر پانی ڈالتا لیکن خداوند متعال نہیں چاہتا کہ جب باپ بیٹا ساتھ ہوں تو دونوں یکسان ہوں اور ان کے ساتھ ایک ہی انداز سلوک اپنایا جائے۔ چنانچہ باپ نے باپ کے ہاتھ دھلائے اور بیٹے نے بیٹے کے ہاتھ دھلائے۔ یہ داستان سنانے کے بعد حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: “فمن اتبع عليا على ذلك فهو الشيعي حقا”۔ جس نے اس سنت میں علی علیہ السلام کی پیروی کی وہ حقیقتاً شیعہ ہے۔(أدب الضيافة تأليف جعفر البياتي ص160۔ بحار الأنوار ج 41 ص55 حدیث 5 بحوالہ المناقب ابن شہر آشوب ج1 ص310. ) تفسير الامام الحسن العسكري: 325 – 326۔ احتجاج طبرسي، ج 2، ص 517، ح 340)

4۔ شیعہ کسی کی ناموس پر نظر نہیں رکھتاامام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: ایک مرد نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: فلاں شخص اپنے پڑوسی کے حرم (زوجہ) کو گھورتا ہے اور اگر ناجائز فعل ممکن ہوسکے تو وہ دریغ نہیں کرے گا۔رسول اللہ (ص) نے فرمایا: اس شخص کو حاضر کرو۔اس شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص)! وہ آپ کے پیروکاروں میں سے ہے اور علی علیہ السلام کا شیدائی ہے اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کرتا ہے۔فرمایا: مت کہو کہ ایسا شخص ہمارے شیعوں میں سے ہے۔ وہ جھوٹا ہے کیونکہ ہمارے شیعہ وہ ہیں جو ہمارے راستے پر گامزن ہوں اور اعمال میں ہمارے پیروکار ہوں۔)لئالي الاخبار، ج ۵، ص ۱۵۷)

5۔ شیعہ اپنے بھائیوں کو اپنے آپ پر مقدم رکھتے ہیںدعوے کرنے کے لئے کسی زحمت و تکلیف کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن دعؤوں سے شیعہ بننا ممکن نہیں ہے بلکہ شیعہ بننے کے لئے اپنے آپ کو فنا کرنا پڑتا ہے، گناہوں اور نافرمانیوں سے دوری کرنی پڑتی ہے ایثار و قربانی دینی پڑتی ہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:قال الامام الحسن بن علي العسكري علیه السلام: ” شيعة علي عليه السلام هم الذين يؤثرون إخوانهم على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة، وهم الذين لا يراهم الله حيث نهاهم، ولا يفقدهم حيث أمرهم، وشيعة علي هم الذين يقتدون بعلي عليه السلام في إكرام إخوانهم المؤمنين.”۔(بحارالانوار ج65 ص363)امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: شیعیان علی (ع) وہ ہیں جو اپنے دینی برادران کو اپنے آپ پر مقدم رکھتے ہیں چاہے وہ خود محتاج ہی کیوں نہ ہوں،شیعیان علی (ع) وہ ہیں جو دوری کرتے ہیں ان اعمال سے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے اور انجام دیتے ہں ان اعمال کو جن کا اللہ نے حکم دیا ہے،شیعیان علی (ع) وہ ہیں جو اپنے مؤمن بھائیوں کی تکریم میں علی علیہ السلام کی پیروی کرتے ہیں۔

6۔ شیعہ فکر و نظر کے مالک ہیںقال الامام حسن بن علي العسكري (ع): “عليكم بالفكر فانه حياة قلب البصير و مفاتيح ابواب الحكمة”.تم پر لازم ہے سوچنا اور تفکر کرنا! کیونکہ یہ بصیرت و آگہی سے مالامال دلوں کی حیات اور ابواب حکمت کی چابی ہے۔(محمد باقر مجلسی، بحارالانوار، ج 8، ص 115 و الحکم الزاهرة، ج 1، ص 19).

7. شیعہ اہل بصیرت ہے / بے بصیرت آخرت میں اندھا ہےامام حسن عسکری علیہ السلام اسحاق بن اسماعیل کے خط کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: “فأتم الله عليك يا إسحاق وعلى من كان مثلك – ممن قد رحمه الله وبصره بصيرتك – نعمته… فاعلم يقينا يا إسحاق أنه من خرج من هذه الدنيا أعمى فهو في الآخرة أعمى وأضل سبيلا يا إسحاق ليس تعمى الابصار ولكن تعمى القلوب التي في الصدور، وذلك قول الله في محكم كتابه حكاية عن الظالم إذ يقول: قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا ٭ قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسَى”۔ ((سورہ طہ آیات 125 و 126) (علی بن شعبه الحرانی، تحف العقول، ص 484))اے اسحاق! خداوند متعال نے تم پر اور تم جیسوں پر، جو رحمت الہیہ اور خداداد بصیرت سے بہرہ مند ہوچکے ہیں، اپنی نعمت تمام فرمائی ہے … اے اسحاق! پس یقین کے ساتھ جان لو کہ جو شخص دنیا سے اندھا اور بے بصیرت ہوکر اٹھے گا اس کو آخرت میں بھی گمراہ اور نابینا اٹھایا جا‏ئے گا۔ یا اسحق! (اس موضوع میں) آنکھیں نہیں ہیں جو اندھی ہوتی ہیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں کے اندر ہیں۔ اور یہ در حقیقت کتاب محکم میں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے اس ظالم سے حکایت کرتے ہوئے جو “کہے گا پروردگار! کیوں تو نے مجھے حشر میں اندھا اٹھایا حالانکہ میں آنکھوں والا تھا؟ * ارشاد ہو گا اسی طرح ہماری نشانیاں تیرے پاس آئیں تو تو نے انہیں بھلاوے میں ڈالا اور اسی طرح اب آج تو بھلایا جا رہا ہے”.

8۔ کثرت نماز ہی نہیں بلکہ تفکر عبادت ہےامام حسن عسکری علیہ السلام کبھی اس خطرے سے خبردار فرماتے ہیں کہ عبادت کو صرف مستحب نمازوں اور روزوں میں منحصر قرار دیا جاتا ہے اور عبادات الہہح کے لئے مقررہ اوقات، عبادات کی کیفیت و کمیت اور زمان و مکان اور رمز و راز میں غور و تفکر نہیں کیا جاتا۔ فرماتے ہںہ: “ليست العبادة كثرة الصيام و الصلوة و انما العبادة كثرة التفكر في امر الله”.(بحارالانوار، ج 71، ص 322، وسائل الشیعه، ج 11، ص 153 ; اصول کافی، ج 2 ص 55 و تحف العقول، ص 518، حدیث 13)نماز و روزوں کی کثرت ہی عبادت نہیں ہے بلکہ عبادت اللہ کے امور میں غور و تفکر کرنے سے عبارت ہے۔بے شک عبادت تفکر ہی کی دعوت دیتی ہیں چنانچہ اگر عبادت فکر کے لئے راستہ ہموار نہ کرے یا فکر و تدبر کا پیش خیمہ ثابت ہو تو وہ عبادت بے روح کہلائے گی لیکن اگر عبادت تفکر کے ہمراہ ہو تو ممکن ہے کہ دنیا میں بھی انسانوں کی فلاح کا سبب بن جائے چنانچہ ایسی عبادت سے دنیا اور آخرت کی پاداش بھی ملے گی اور اس عبادت کو ای زندہ عبادت کہا جاسکے گا۔

9۔ شیعہ اہل ایمان ہے اور لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہےاور ہاں فکر اور تدبر بھی صرف اسی وقت مفید ہے کہ ایمان، عمل اور کردار و کوشش کی بنیاد فراہم کرے ورنہ جس فکر و تدبر کے بعد امیان عمل نہ ہو وہ پسندیدہ اور کارساز نہيں ہے۔ چنانچہ امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:”خصلتان ليس فوقهما شيئ الايمان بالله، و نفع الاخوان”.(بحار الانوار ج75 ص374)دو خصلتیں ہیں جن سے بہتر و برتر کوئی خصلت نہیں:1۔ اللہ تعالی پر ایمان2۔ دینی برادران کو فائدہ پہنچانا۔

10۔ شیعہ خدا، موت اور قیامت اور نبی (ص) پر درود نہیں بھولتاتفکر و تدبر اور ایمان و عمل بہت ضروری ہے اور جب انسان فکر و تدبر کے نتیجے میں امیان و عمل کے مرحلے پر پہنچتا ہے وہ عبادت بھی کرتا ہے اور اللہ کو بھی یاد کرتا رہتا ہے اور قیامت اور حساب و کتاب کو بھی نہيں بھولتا چنانچہ وہ آخرت کے لئے تیاری بھی کرتا ہے۔امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:”أكثروا ذكر الله وذكر الموت وتلاوة القرآن والصلاة على النبي صلى الله عليه وآله فإن الصلاة على رسول الله عشر حسنات. (*) “.٭ (تحف العقول،ص 488 .بحارالانوار ج75 ص372) -خدا کو زیادہ یاد کرو، اور موت کو زیادہ یاد کرو، قرآن کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرو اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بہت زیادہ درود و صلوات بھیجو، پس بتحقیق رسول اللہ (ص) پر صلوات کے لئے دس حسنات ہیں۔

11۔ شیعہ زیرک ہے اسی لئے نفس کا احتساب کرتا ہےقیامت اور حساب و کتاب اور میزان کے لئے تیاری ہوشیاری، کیاست اور زیرکی کی علامت ہے کیونکہ زیرک شخص وہی ہے جو اپنی قیامت کو سنوارے اور قیامت کو سنوارنے اور کیاست کے اثبات کے لئے کن اوصاف کی ضرورت ہے؟ دیکھتے ہیں کہ امام حسن عسکری، امیرالمؤمنین اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا فرماتے ہیں:عن الحسن بن علي العسكري عليهما السلام في تفسيره عن آبائه، عن على عليهم السلام عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: “أكيس الكيسين من حاسب نفسه، وعمل لما بعد الموت، فقال رجل: يا أمير المؤمنين كيف يحاسب نفسه ؟ قال: إذا أصبح ثم أمسى رجع إلى نفسه، وقال: يا نفسي إن هذا يوم مضى عليك لا يعود إليك أبدا، والله يسألك عنه بما أفنيته، فما الذى عملت فيه أذكرت الله أم حمدته، أقضيت حوائج مؤمن فيه أنفست عنه كربة أحفظته بظهر الغيب في أهله وولده أحفظته بعد الموت في مخلفيه أكففت عن غيبة أخ مؤمن أعنت مسلما، ما الذى صنعت فيه ؟ فيذكر ما كان منه، فان ذكر أنه جرى منه خير حمد الله وكبره على توفيقه، وإن ذكر معصية أو تقصيرا استغفر الله وعزم على ترك معاودته”.امام حسن عسکری علیہ السلام اپنی تفسیر میں اپنے آباء طاہرین علیہم السلام سے روایت کرکے کہ علی علیہ السلام نے علی علیہ السلام کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: “سب سے زیادہ کَيِّس اور سب سے زیادہ زیرک و ہوشیار فرد وہ ہے جو اپنے اعمال کا محاسبہ اور احتساب کرے اور موت کے بعد کی حیات کے لئے محنت و کوشش کرے۔کسی نے امیرالمؤمنین (ع) سے دریافت کیا: یا امیرالمؤمنین! ایک شخص کس طرح اپنے نفس کا محاسبہ کرے؟فرمایا: جب وہ صبح کرتا ہے اور رات تک کا دن گذار دیتا ہے تو وہ اپنے نفس کی طرف لوٹتا ہے (اپنے گریباں میں جھانک لیتا ہے) اور کہتا ہے: اے میرے نفس! بے شک یہ دن جو تجھ پر گذر گیا ہرگز لوٹ کر نہیں آئے گا جبکہ اللہ تعالی تجھ سے ان چیزوں کے بارے میں ضرور پوچھے گا جو تو اس دن کھو چکا ہے۔ پس تو نے اس دن کے دوران کیا کیا؟ کیا تو نے خدا کو یاد کیا یا اس کی حمد و ثناء میں مصروف ہوا؟ کیا اس دن تو نے کسی مؤمن کی حاجت روائی کا اہتمام کیا؟ کیا تو نے کسی مؤمن بھائی کا رنج و غم رفع کیا؟ کیا تو نے اس کی غیر موجودگی میں یا اس کی موت کے بعد اس کے خاندان اور اولاد میں اس کا تحفظ کیا [اور اس کے ساتھ دوستی اور بھائی چارے کا حق ادا کیا؟]، کیا تو نے موت کے بعد اس کے وارثوں اور پسماندگان کے حوالے سے اس کا حق ادا کیا؟ کیا تو نے اپنے مؤمن بھائی کی غیبت سے اجتناب کیا؟ کیا تو نے کسی مسلمان کی مدد کی؟ تو نے اس دن، کیا کیا؟ پس وہ یاد کرے گا ان تمام اعمال کو جو اس نے پورے دن میں انجام دیئے ہیں، اگر اس کو یاد آجائے کہ اس نے جو کیا ہے وہ سب خیر و نیکی ہے تو اس توفیق پر اللہ کی حمد و شکر کرے اور اس کی تکبیر و تسبیح کرے اور اگر اس کو یاد آجائے کہ اس سے کوئی نافرمانی یا تقصیر (یعنی ارادی طور پر معصیت) سرزد ہوئی ہے تو استغفار کرے اور عزم کرے کہ اس گناہ کو ترک کرے گا اور اس کو دہرانے سے اجتناب کرے گا۔(حر عاملی، وسائل الشیعه،(آل البيت) ج 16، ص 98 ۔ وسائل الشیعه،((الإسلامية)) ج 11، ص 389)

12۔ شیعہ تقوا، پاکیزگی اور امانتداری، مخالفین کے ساتھ رواداری کا پابندتقوی اور ورع (گناہ سے بچنا) شیعیان محمد و آل محمد (ص) کی بنیادی خصوصیت ہے جو انسان کو گناہ و جرم اور حق کی پامالی اور اللہ کی نافرمانی سے محفوظ کرتی ہے جیسا کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف الانصاری کے نام خط میں رقم فرماتے ہیں: ” أَلاَ وَ إِنَّكُمْ لاَ تَقْدِرُونَ عَلَى ذَلِكَ وَ لَكِنْ أَعِينُونِي بِوَرَعٍ وَ اِجْتِهَادٍ وَ عِفَّةٍ وَ سَدَادٍ” اور جان لو کہ تم میری طرح زہد و ترک دنیا کی قدرت نہیں رکھتے ہو لیکن تم ورع اور اجتہاد و کوشش، پاکدامنی اور سچے و محکم کلام کے ذریعے میری مدد کرو۔ (نہج البلاغہ خط نمبر46) چنانچہ تقوی اور ورع کے ساتھ ساتھ امانتداری اور صداقت یا راستگوئی دو ایسی صفات ہیں جو ہر معاشرے کو تقویت پہنچاتا اور معاشرتی سکون و اطمینان کو فروغ دیتی ہیں اور ان اوصاف کے ذریعے معاشرے کو اخلاقی استحکام پہنچایا جاسکتا ہے اور معاشرے کی سعادت کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔امام حسن عسکری علیہ السلام ان اوصاف پر تاکید کرتے ہوئے شیعیان اہل بیت (ع) سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: “أوصيكم بتقوى الله والورع في دينكم والاجتهاد لله وصدق الحديث وأداء الامانة إلى من ائتمنكم من بر أو فاجر وطول السجود وحسن الجوار، فبهذا جاء محمد صلى الله عليه وآله صلوا في عشائرهم واشهدوا جنائزهم وعودوا مرضاهم وأدوا حقوقهم (4)، فإن الرجل منكم إذا ورع في دينه وصدق في حديثه وأدى الامانة وحسن خلقه مع الناس قيل: هذا شيعي فيسرني ذلك”۔(شیخ حر عاملی وسائل الشیعة (الإسلامية) ج8، ص 398، حديث 2 و تحف العقول، ص 487، حديث 12).تمہیں اپنے دین میں ورع و تقوی اور اللہ کی راہ میں اجتہاد و کوشش اور راستگوئی اور جو لوگ اپنی امانتیں تمہارے سپرد کرتے ہیں انہیں ادائے امانت کی سفارش کرتا ہوں، چاہے وہ لوگ اچھے ہوں چاہے برے ہوں۔ اور تمہیں طولانی سجدے بجا لانے حسن مجاورت (ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک) کی سفارش کرتا ہوں، کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہی چیزیں لے کر تشریف لائے ہیں۔ تمہیں سفارش کرتا ہوں کہ جاکر (مخالفین) کی جماعتوں میں نماز ادا کرو (یعنی ان کی نماز جماعت میں شرکت کرو)۔ اور ان کے جنازوں میں شرکت کرو اور ان کے بیماروں کی عیادت کرو اور ان کے حقوق ادا کرو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی شخص اہل ورع اور پرہیزگار ہو اور سچا ہو اور امانت ادا کرے اور اس کا طرز سلوک اور رویہ اچھا ہو، تو کہا جاتا ہے کہ “یہ شیعہ ہے” پس میں یہ بات سن کر مسرور و شادماں ہوتا ہوں۔وسا‏ئل الشیعہ کی حدیث کا آخری حصہ تھوڑا سا مختلف ہے اور وہ یوں ہے کہ ” قيل هذا جعفري، فيسرني ذلك ويدخل علي منه السرور، وقيل هذا أدب جعفر۔ جب کوئی ان اوصاف سے متصف تو کہا جاتا ہے کہ یہ “جعفری” ہے پس لوگوں کا یہ قول مجھے شادماں کردیتا ہے اور اس سے مجھ پر سرور وارد ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جعفر (ع) کا ادب ہے۔

13۔ ہمارے لئے زینت بنو اور باعث شرم نہ بنوبعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں کیاکہ لوگ ہمارے بارے میں کیا کہتے ہیں لیکن ائمۂ طاہرین علیہم السلام کا خیال یہ نہیں ہے اور یہ حقیقت مذکورہ بالا حدیث میں بھی واضح ہے۔ یہ جو فرماتے ہیں کہ ہمارے لئے زینت بنو اس کا مطلب یہی ہے کہ ایسے اعمال انجام دو کہ لوگ آپ کی اچھائیوں کا اعتراف کریں اور یہ جو فرمایا جاتا ہے کہ ہمارے لئے باعث شرم نہ بنو، اس کا مطلب یہی ہے کہ دوسروں کی رائے اہم ہے اور اگر وہ آپ کےبارے میں کچھ کہتے ہیں تو اس کو اہمیت دینا لازمی ہے۔ ہمارے معاشروں میں بعض ایسے اعمال پائے جاتے ہیں ـ خاص طور پر عزاداری کے سلسلے میں ـ جو شیعہ مکتب سے کسی طور پر بھی جوڑ نہيں کھاتے اور تو اور وہابیت کے علمبردار، جن کو اگر کسی کی بات سمجھ میں نہ آئے تو اس کو کافر قرار دیتے اور اس کے قتل کا فتوی دیتے ہیں اور سربازار لوگوں کے گلے پر چھری پھیر دیتے ہیں اور اپنے ان اعمال کی سی ڈی تیار کرتے ہیں اور نہتے انسانوں کے گلے پر چھری پھیرتے ہوئے پس منظر میں قرآنی آیات کی تلاوت نشر کرتے ہيں جس کی وجہ سے وہ پوری دنیا میں اسلام کی بدنامی کا سبب بنے ہوئے ہیں، ہمارے ان اعمال کو دستاویز قرار دیتے ہیں اور شیعیان محمد و آل محمد (ص) پر وحشی پن کا الزام لگاتے ہیں۔امام حسن عسکری فرماتے ہیں:”اتقوا الله وكونوا زينا ولا تكونوا شينا، جروا إلينا كل مودة وادفعوا عنا كل قبيح”۔(تحف العقول، ص 488، حديث 12)۔تقوائے الہی اختیار کرو اورہمارے لئے زینت بنو اورہمارے لئے باعث شرم نہ بنو اورہر قسم کی مودت و محبت ہماری طرف کھینچ لاؤ اورہر قسم کی برائی اور قباحتیں ہم سے دفع کرو۔جس کا مطلب یہی ہے کہ “ہماری طرح بنو تا کہ ہمارے لئے زینت کا سبب بن سکو اور برائیوں سے دور رہو اور معاشرے میں ایسا رویہ اپناؤ کہ لوگ ہماری محبت و مودت دل میں بسائیں اور برے اعمال سے پرہیز کرو تا کہ ہم پر برائی کا الزام نہ لگایا جاسکے۔ جس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ تمہاری برائیاں دیکھ کر لوگ ہم اہل بیت طاہرین (ع) سے بدظن ہوجاتے ہیں!۔

14۔ شیعہ مؤمن کے لئے برکت اور کافر کے لئے حجتشیعہ وہ نہیں ہے جو شیعہ کا دشمن ہو اور شیعہ وہ بھی نہیں ہے جو کافر کے لئے سلامتی ہو۔ شیعہ وہ بھی نہیں ہے جو سیاسی یا جماعتی وابستگیوں کی بنا اپنے شیعہ بھائیوں کو لعنت کا لائق سمجھے بلکہ شیعہ اپنے بھائیوں کے لئے سرمایہ ہدایت اور موجب برکت ہے اور خود بھی اپنے بھائیوں سے مدد لے کر ہدایت پاتا ہے۔امام حسن العسکری علیہ السلام فرماتے ہیں:”المُومِنُ بَرَکَةٌ عَلی المُومِنِ وَ حُجَّةٌ عَلی الکافر”.مؤمن اپنے مؤمن کے لئے باعث برکت ہے اور اپنے نیک اعمال اور برہان و دلیل محکم کی وجہ سے کافروں کے لئے حجت و دلیل ہے۔(تحف العقول، ص 489).15- شیعہ بہترین ہوتا ہےامام حسن عسکری علیہ السلام کبھی بالواسطہ طور پر اپنے پیروکاروں سے اپنی توقعات اچھے اور برے لوگوں کی خصوصیات بیان کرکے، ظاہر کرتے ہیں اور ان سے سفارش کرتے ہیں کہ بہترین لوگوں میں سے ہوں اور بدترین افراد کے زمرے میں قرار پانے سے دور رہیں؛ فرماتے ہںن:”أَوْرَعُ النّاسِ مَنْ وَقَفَ عِنْدَ الشُّبْهَةِ، أَعْبَدُ النّاسِ مَنْ أَقامَ عَلَى الْفَرائِضِ أَزْهَدُ النّاسِ مَنْ تَرَكَ الْحَرامَ، أَشَدُّ النّاسِ اجْتَهادًا مَنْ تَرَكَ الذُّنُوبَ”۔امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ پرہیزگار ترین شخص وہ ہے جو شبہے کے موقع پر (جب وہ یہ تمیز کرنے سے قاصر ہو کہ وہ عمل حرام ہے یا حلال) رک جاتا ہے۔عابدترین یا عبادت گزار ترین شخص وہ ہے جو فرائض اور واجبات کو انجام دے،زاہد ترین اور پارسا ترین شخص وہ ہے جو حرام کو ترک کردے۔خدائے تعالی کی عبادات اور طاعات کی انجام دہی کے سلسلے میں سب سے زيادہ محنتی شخص وہ ہے جو گناہوں کو ترک کردے۔پس عابدترین شخص وہ ہے جو اپنے واجبات پر عمل کرے یعنی یہ کہ نوافل اور مستحب اگر انجام نہ بھی دے اور صرف واجبات کا باقاعدگی سے پابند رہے تو وہ عابدترین ہے۔امام علیہ السلام کے کلام میں زاہدترین شخص وہ ہے جو مال حرام اور فعل حرام سے اجتناب کرے۔ آپ (ع) نے یہ نہیں فرمایا کہ زاہد ترین شخص وہ ہے جو سوکھی روٹی پر گذارہ کرے یا بھوک اور پیاس برداشت کرے بلکہ اگر انسان مال حرام اور فعل حرام سے اجتناب کرے تو وہ زاہد ترین ہے۔رضائے الہی کے حصول کے لئے ترک دنیا کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اللہ کی طاعت و عبادت میں سب سے زیادہ کوشش و اجتہاد کرنے والا شخص امام معصوم علیہ السلام کی نظر میں وہی ہے جو ترک گناہ کا پابند بن جائے۔پس پرہیز کار ترین، زاہد ترین اور محنتی ترین شخص وہ ہے جو مشتبہ عمل ترک کردے، واجبات پر عمل کرے اور گناہ کو ترک کردے۔(بحارالانوارج75 ص373 – تحف العقول ص489)

16۔ شیعہ بدترین نہیں ہوتاامام حسن عسکری علیہ السلام بہترین افراد کے مقابلے میں بدترینوں کا بھی تعارف کراتے ہیں اور فرماتے ہیں:”بئس العبد عبد يكون ذا وجهين وذا لسانين، يطري أخاه شاهدا ويأكله غائبا، إن اعطي حسده، وإن ابتلي خانه (في بعض النسخ ” خذله)”۔بدترین بندہ وہ ہے جو دو چہروں اور دو زبانوں کا حامل ہو (یعنی قول و فعل میں منافقت سے دوچار ہے)، جب سامنے ہو تو اپنے بھائی کی تعریف و تمجید میں مبالغہ کرتا ہے اور پیٹھ پیچھے اس کو کھاتا ہے (یعنی اس کی غیبت کرتا اور عیب گنواتا ہے)، اگر اس کے دوست کو کچھ مل جائے تو یہ حسد کرتا ہے اور اگر وہ تنگدستی یا کسی اور مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو اس سے خیانت کرتا اور اس کو مصیبت میں تنہا چھوڑتا ہے۔(بحار الانوار ج75 (باب) * * ” (مواعظ أبى محمد العسكري عليهما السلام وكتبه إلى اصحابه) ص370 الی 380. تحف العقول ص 489)

17 – شیعہ عزت نفس رکھتا اور ذلت سے دوری کرتا ہےانسان کو خدا نے معزز بنا کر پیدا کیا ہے اور اس کو عزت نفس عطا کی ہے چنانچہ اس کو عزت نفس کی بہت ضرورت ہوتی ہے؛ وہ بھوک اور پیاس کو تو برداشت کرسکتا ہے، غربت اور ناداری سے ہماہنگ ہوسکتا ہے لیکن اس کی عزت نفس کی پامالی، اس کی شخصیت کی تذلیل و تحقیر اور اس کی روح و جان کی آزردگی، آسانی سے قابل تلافی نہیں ہے اور ممکن ہے کہ عمر کے آخری لمحات تک اس کے لئے سوہان روح بن جائے۔اللہ تعالی نے انسان کو عزیز پیدا کیا ہے اور اس کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دی ہے کہ وہ کسی کی تحقیر و تذلیل کرے یا تحقیر و تذلیل کو قبول کرے۔ جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: “إن الله عز وجل فوض إلى المؤمن أموره كلها، ولم يفوض إليه أن يذل نفسه، ألم تسمع لقول الله عز وجل: “ولله العزة ولرسوله وللمؤمنين”۔ (سورة المنافقون / 7).(الف الحديث في المؤمن تأليف الشيخ هادي النجفي ص 113 بحوالہ ثقة الاسلام محمد بن يعقوب كليني – الكافي ج3 ص317)۔خدائے عز و جل نے مؤمن کے تمام امور اسی کو واگذار کرلئے ہیں لیکن اس کو یہ اختیار نہیں دیا ہے کہ وہ ذلت قبول کرے کیا تم نے نہیں سنا ہے کہ اللہ تعالی نے فرما: تمام عزتیں اللہ کے لئے ہیں اور اس کے رسول (ص) کے لئے نیز مؤمنین کے لئے ہیں۔اسی بنا پر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں: “أقبح بالمؤمن أن تكون له رغبة تذله”۔(تحف العقول ص489)کتنی بری بات ہے کہ ایک شیعہ اور ایک مؤمن ایسی چیز کی طرف رغبت پیدا کرے جو اس کو خوار و ذلیل کرتی ہے۔یا فرماتے ہیں کہ: “قال عليه السلام: لا تمار فيذهب بهاؤك. ولا تمازح فيجترأ عليك”۔نزاع اور کشمکش مت کرو کیونکہ نزاع و کشمکش تمہاری وقعت کو ختم کردیتی ہے۔ (اور تمہاری ذلت و خواری کا سبب بنتی ہے) اور مزاح مت مت کرو تا کہ لوگ تمہارے سامنے جرأت و جسارت پیدا نہ کرسکیں۔(التحف ص 486۔ بحار الانوار ج75 (باب) * * ” (مواعظ أبى محمد العسكري عليهما السلام وكتبه إلى اصحابه) ص370)و گاه راهکارهای رسیدن به عزت و دوری از ذلت را به شیعیان ارائه می دهد و قاطعانه می فرماید:”ما ترك الحق عزيز الا ذل و لا اخذ به ذليل الا عزّ۔(تحف العقول ص 489).کسی بھی عزیز (صاحب عزت و آبرو) نے حق کو ترک نہیں کیا مگر یہ کہ ذلت سے دوچار ہوا اور کسی بھی خوار و ذلیل شخص نے حق پر عمل نہیں کیا مگر یہ ہے وہ صاحب عزت بن گیا۔

18. شیعہ ریاست طلب نہیں ہوتااس دنیا میں ایسے اوصاف کی کوئی کمی نہيں ہے جو انسان کے روحانی اور معنوی زوال کا سبب بنتے ہیں اور ریاست طلبی، شیخوخت پرستی اور دوسروں پر تسلط کی خواہش ان ہی اوصاف میں سے ایک ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ حکومت اور اقتدار کی خواہش نے اسلام کو کتنے نقصانات پہنچائے ہیں؛ یہی اقتدار طلبی تھی جس کی وجہ سے خلافت اللہ اور رسول (ص) کے مقرر کردہ راستے سے ہٹ گئی اور امت پر جو گذری سو گذری؛ سنئے سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ (ص) کی درد بھری فریاد جو تاریخ کے آفاق پر آج بھی سنائی دے رہی ہے؛ یہ فریاد ایک گروہ کی ریاست طلبی کا شکوہ ہے انسانیت کی عدالت میں جس کو ابھی تک کوئی جواب نہيں ملا، سیدہ کی فریادہ سنائی دے رہی ہے کہ امت کے کچھ افراد نے خدا اور رسول اللہ (ص) کے مقررہ راستے کو صرف اقتدار پسندی کی وجہ سے ترک کردیا اور خلافت کو غصب کیا اور مجھ سمیت رسول اللہ (ص) کے اقارب کا حق ہمیں قتل کرکے ادا کیا؛ سیدہ مظلومہ اور راہ ولایت کی اولین شہیدہ فرماتی ہیں:”أما والله لو تركوا الحق على أهله واتبعوا عترة نبيه لما اختلف في الله اثنان، ولورثها سلف عن سلف وخلف بعد خلف حتى يقوم قائمنا التاسع من ولد الحسين، ولكن قدموا من أخره الله وأخروا من قدمه الله: حتى إذا ألحدوا المبعوث و أودعوه الجدث المجدوث اختاروا بشهوتهم وعملوا بآرائهم، تبا لهم (4) أو لم يسمعوا الله يقول: “وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاء وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ”۔ (القصص۔ 68) ” بل سمعوا ولكنهم كما قال الله سبحانه: “فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ؛ (الحج۔46) هيهات بسطوا في الدنيا آمالهم ونسوا آجالهم، فَتَعْسًا لَّهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ”۔ (محمد (ص)۔ 8)۔(بحارالانوار ج36 ص353 – احقاق الحق ج 21، ص 26)۔لیکن اللہ کی قسم! اگر ان (اقتدار پسندوں) نے حق کو اہل حق کے پاس چھوڑ دیا ہوتا اور اللہ کے نبی (ص) کی عترت (خاندان) کی پیروی کرتے، کہیں بھی دو آدمی اللہ کی ذات و صفات کے حوالے سے آّپس میں جھگڑا نہ کرتے اور سلف سلف سے اور اور خلف کے بعد خلف ورثے کے طور پر اسلام اور امت کی خدمت اور تحفظ کا بیڑا اٹھاتا حتی کہ حسین (ع) کے نویں فرزند اور ہمارے قائم قیام کرتے لیکن انھوں نے ایسے شخص کو مقدم رکھا جس کو اللہ تعالی نے مؤخر کیا تھا؛ اور وہ اس سلسلے میں یہاں تک بھی پہنچے کہ مبعوث (محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اور آپ (ص) کی بعثت) کا انکار تک کیا اور مدفون (رسول اللہ (ص)) کے مدفن سے وداع کیا۔ انھوں نے اپنی شہوت اور نفسانی خواہش (اور اقتدار پرستی) کی بنیاد پر ، انتخاب کیا اور (قرآن و سنت رسول (ص) کو چھوڑ کر) اپنی آراء پر عمل کیا۔ ہلاکت اور نابودی ہو ان پر۔ کیا انھوں نے اللہ کا یہ کلام نہيں سنا کہ “اور آپ کا پروردگار پیدا کرتا ہے جو چاہتا ہے اور منتخب کرتا ہے۔ انہیں کوئی اختیار نہیں؟”، بلکہ انھوں نے یہ کلام الہی سن لیا ہے لیکن وہ اس ارشاد ربانی کا مصداق ہیں کہ کہ اصل اندھا پن آنکھوں کا نہیں ہے مگر اندھا پن تو دلوں کا ہے جو سینوں کے اندر ہوتے ہیں۔افسوس! ان (اہل سقیفہ) نے دنیا میں اپنی آرزؤوں کو جامۂ عمل پہنایا اور اپنی موت و اجل کو بھول گئے۔ پس ان کے لئے ہلاکت ہے اور اس نے ان کے اعمال کو برباد کر دیا ہے …(محمد باقر مجلسی، بحارالانوار (بیروت، داراحیاء التراث)، ج 36، ص 353 و ر – ک احقاق الحق ج 21، ص 26)اقتدار طلبی کی وجہ سے فرزندان رسول (ص) کا خون مباح کیا گیا اور انسانوں کو آل محمد (ص) کی قیادت و امامت اور ان کے علوم کی روشنی سے محروم کردیا۔یہ بیماری آج بھی پوری دنیا میں رائج ہے اور مسلسل فروغ پارہی اور ہر کوئی اپنی حد تک افتدار کے حصول کے لئے کوشاں ہے۔ کوئی اپنے خاندان کے اندر، کوئی گلی محلے اور شہر و صوبے کی سطح پر اور کوئی ملکی سطح پر اور دنیا کے بڑے شیاطین پوری دنیا کی سطح پر اقتدار کے حصول کے لئے اربوں کی رقوم خرچ کررہے ہیں اور قتل و غارت اور ملکوں پر قبضے تک سے باز نہیں آتے۔ پوری دنیا پر آج جو گھٹن کا ماحول کارفرما ہے اس کی وجہ بعض اقتدار پسندوں کی رسہ کشی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کسی بھی جرم و جبر و ستم سے دریغ نہيں کرتے۔

19۔ شیعہ ایمان و عمل صالح کا پابند اور اصحاب جنت میں سے ہےشیعہ وہ نہیں ہیں جو حب آل محمد (ص) کا دعوی کرتے ہیں۔ وہ محب تو ہوسکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ محب ہونے کے لئے بھی عمل کی ضرورت ہے اور محبت ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالی کی اطاعات کاملہ کی ضرورت ہے ورنہ تو بغیر عمل کے محبت بھی قبول نہیں ہے بلکہ بد عمل انسان اہل بیت رسول (ص) کے دشمن ہیں۔ امام محمد باقر علیہ السلام جابر جعفی سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: “يا جابر أيكتفي من ينتحل التشيع أن يقول بحبنا أهل البيت ؟ فوالله ماشيعتنا إلا من اتقى الله وأطاعه، وما كانوا يعرفون يا جابر إلا بالتواضع والتخشع والامانة، وكثرة ذكر الله، والصوم، والصلاة، والبر بالوالدين، والتعهد للجيران من الفقراء وأهل المسكنة، والغارمين، والايتام وصدق الحديث، وتلاوة القرآن، وكف الالسن عن الناس، إلا من خير، وكانوا امناء عشائرهم في الاشياء…. يا جابر فوالله ما يتقرب إلى الله تبارك وتعالى إلا بالطاعة، وما معنا براءة من النار، ولا على الله لاحد من حجة، من كان لله مطيعا فهو لنا ولي، ومن كان لله عاصيا فهو لنا عدو، ولا تنال ولايتنا إلا بالعمل والورع”۔(بحار الانوار ج67 ص97 – الكافي ج 2 ص 74)اے جابرکیا شیعہ کہلانے کے لئے یہی کافی ہے کہ ایک شخص ہم اہل بیت (ع) کی محبت کا اظہار کرے اور دعوی کرے؟ پس خدا کی قسم! ہمارا شیعہ نہیں ہے مگر وہ جو اللہ کا خوف اور پرہیزگاری اپنائے اور اللہ کی فرمانبرداری کرے۔ اے جابر ہمارے شیعہ صرف اور صرف تواضع اور منکسرالمزاجی، خشوع، امانتداری، اللہ کو بہت زیادہ ذکر کرنے، کثرت سے روزہ رکھنے، کثرت سے نماز بجالانے، والدین سے بہت نیکی کرنے، غریب اور مسکین اور مقروض اور یتیم پڑوسیوں کا لحاظ رکھنے [اور ان کے مسائل حل کرنے]، سچ بولنے اور صدق کلام، تلاوت قرآن، لوگوں کی بدگوئی اور غیبت سے اپنی زبان روکنے اور صرف ان کی بہتری میں زبان کھولنے، کے توسط سے پہچانے جاتے ہیں اور تمام اور تمام معاملات میں اپنے خاندانوں کے امین ہیں… اے جابر! پس اللہ کی قسم! اللہ کی قربت حاصل نہیں کی جاسکتی مگر اس کی اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعے، اور ہمارے پاس بھی اللہ کی اطاعت سے دوری کرنے والوں کے لئے دوزخ سے برائت نہیں ہے اور کسی کے پاس بھی خدا پر حجت نہیں ہے، “جو مطیع ہے اللہ کے لئے وہ ہمارا دوست ہے اور جو اللہ کا نافرمان ہے وہ ہمارا دشمن ہے”۔دعوے کرنے کے لئے کسی زحمت و تکلیف کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن دعؤوں سے شیعہ بننا ممکن نہیں ہے بلکہ شیعہ بننے کے لئے اپنے آپ کو فنا کرنا پڑتا ہے، گناہوں اور نافرمانیوں سے دوری کرنی پڑتی ہے ایثار و قربانی دینی پڑتی ہے۔ایک شخص متعدد نیک صفات کا مالک تھا اور اس سے کئی کرامات بھی ظاہر ہوئی تھیں لیکن امام علیہ السلام نے اس کے تشیع کے دعوے کو مسترد کیا اور فرمایا: “یا عبدالله لست من شیعه علی(ع)، انما انت من محبیه إنما شيعة علي عليه السلام الذين قال عزوجل فيهم: “وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُولَـئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ”. (بقره – 82) هم الذين آمنوا بالله ووصفوه بصفاته، ونزهوه عن خلاف صفاته، وصدقوا محمدا في أقواله، وصوبوه في كل أفعاله، ورأوا عليا بعده سيدا إماما، وقرما هماما لا يعدله من امة محمد أحد، ولا كلهم إذا اجتمعوا في كفة يوزنون بوزنه، بل يرجح عليهم كما ترجح السماء والارض على الذرة. وشيعة علي عليه السلام هم الذين لا يبالون في سبيل الله أوقع الموت عليهم، أو وقعوا على الموت. وشيعة علي عليه السلام هم الذين يؤثرون إخوانهم على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة”۔(تفسیر الامام الحسن العسکری علیہ السلام ص319)اے بندہ خدا! تم علی بن ابی طالب (ع) کے شیعوں میں سے نہیں ہو بلکہ آپ (ص) کے دوست ہو۔ [گویا اس شخص نے دوستی کی تمام شرطیں پوری کی تھیں جو امام باقر علیہ السلام کی مذکورہ بالا حدیث میں مذکور ہیں چنانچہ دوستوں کے زمرے میں قرار پایا]، بےشک شیعیان علی وہی ہیں جن کی شان میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے: اور جو ایمان لائیں اور اچھے اعمال بجا لائیں تو یہ لوگ بہشت والے ہیں جو کہ وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔شیعیان علی وہ ہیں جو خدا پر ایمان کامل رکھتے ہیں اور اس کو ایسے اوصاف سے موصوف کرتے ہیں جو اللہ تعالی نے خود بیان فرمائے ہیں اور اللہ تعالی کو ان اوصاف سے پاک و منزہ سمجھتے ہیں جو اللہ کے بیان کردہ اوصاف کے سوا ہیں؛ وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تمام ارشادات و فرامین کی تصدیق کرتے ہیں اور آپ (ص) کے تمام افعال و اعمال کو درست اور “صواب” سمجھتے ہیں اور ان کا عقیدہ یہ ہے کہ علی (ع) رسول اللہ (ص) کے بعد سب کے سید و امام و پیشوا ہیں اور ایسی ہستی ہیں جن کا امت محمد (ص) میں کوئی برابر و ہمتا نہیں ہے؛ بلکہ اگر پوری امت کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھیں اور علی (ع) کو دوسرے پلڑے میں قرار دیں علی (ع) والے پلڑے کو پوری امت پر بھاری سمجھتے ہیں؛ اور ترجیح دیتے ہیں ایک بے مقدار ذرے کے مقابلے میں پورے آسمان و زمین کے بھاری پن کی مانند۔ اور شیعیان علی علیہ السلام وہ ہیں جن کو اللہ کی راہ میں کوئی پروا نہیں ہے کہ موت ان پر آ پڑے یا وہ موت پر جا پڑیں۔ اور شیعیان علی علیہ السلام وہ ہیں جو اپنے بھائیوں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ وہ خود تنگ دست ہی کیوں نہ ہوں”۔

20 ۔ شیعہ شرک سے دوری کرتا ہے”شرک” کیا ہے؟ مشرک کون ہے؟ شرک یہ ہے کہ کوئی اللہ تعالی کی ذات یا صفات خاصہ میں کسی کو شریک قرار دے، قدیم، قادر، مطلق، حی، مرید، مدرک متکلم، عالم، خدا کی صفات ثبوتیہ ہیں جن میں کوئی بھی شریک نہیں ہے اور اگر اور خدا خالق و مالک ہے اب کسی اور کو ان صفات سے بلا قید، متصف سمجھا جائے تو یہ شرک ہے۔ اور اگر کوئی اللہ کے سوا کسی اور کے سامنے سجدہ ریز ہوجائے تو وہ شرک میں مبتلا ہے۔ شیعہ اعتقاد کے مطابق اللہ تعالی “لا مؤثر في الوجود إلا الله سبحانه”، عالم وجود میں اللہ سبحانہ و تعالی کے سوا کوئی بھی مؤثر نہیں ہے اور اللہ کے سوا جتنے بھی انبیاء اور اولیاء اور اقطاب و علماء و عرفاء یا عام انسان یا دیگر موجودات بھی ہیں وہ سب اللہ تعالی کی مخلوق ہیں چنانچہ ان کو وجود میں مؤثر سمجھنا شرک ہے اور کہیں کوئی نبی یا کوئی ولی کوئی معجزہ دکھاتا یا کائنات میں کوئی تصرف کرتا نظر آئے تو جان لینا چاہئے کہ اس کو تصرف کا یہ حق اور یہ اختیار اللہ تعالی نے عطا فرمایا ہے اور یہ تصرف ان کا ذاتی نہیں ہے۔ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کے تابعدار اسی لئے ہیں کہ وہ “اللہ تعالی کے خاص بندے ہیں” اور ان کا اعتبار اللہ تعالی کی ذات سے براہ راست وابستگی کی بنا پر ہے؛ اب اگر ہم ان کی مدح سرائی میں حد سے بڑھ جائیں متقی الہندی کنزالعمال کی ج11 ص326 پر علی علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ (ع) نے فرمایا: “عن علي قال : يهلك في رجلان : محب مفرط ، ومبغض مفرط”۔ دو آدمی میری وجہ سے نابود ہوجائیں گے: وہ جو میری محبت میں غُلُو کا ارتکاب کرے گا اور وہ جو میری دشمنی میں زیادہ روی کرے گا۔ اور نہج البلاغہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: هَلَكَ فِيَّ رَجُلَانِ مُحِبٌّ غَالٍ وَ مُبْغِضٌ قَالٍ (نہج البلاغہ کلمات قصار حکمت نمبر 117) میری وجہ سے دو لوگ نابود ہوجائیں گے وہ جو میری محبت میں غلو کریں گے (اور مجھے اپنے درجے سے بڑھا کر (معاذاللہ) الوہیت کے قائل ہوں گے) اور وہ جو میری مخالفت میں بغض اور دشمنی کی انتہا تک پہنچیں گے۔(الامالي الشيخ الصدوق ص 709 بحارالانوار ج25 ص میں مروی ہے کہ علی علیہ السلام نے فرمایا: “يهلك في اثنان ولا ذنب لي: محب غال، ومفرط قال. میری وجہ سے دو قسم کے لوگ ہلاک (نابود) ہوجائیں گے اور مجھ پر کوئی گناہ نہ ہوگا … ۔ ابن ابي جمهور الأحسائي عوالي اللئالي” ج 4 ص87۔ بحوالۂ المستدرك للحاكم، ج 3 / 123، كتاب معرفة الصحابة،روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اميرالمؤمنين علیہ السلام سے مخاطب ہوکر فرمایا: یا علي! يهلك فيك فئتان. محب غال ومبغض قال۔ اے علی! دو قسم کے لوگ آپ کی وجہ سے ہلاک اور نابود ہونگے ایک وہ جو آپ کی محبت میں زیادہ روی اور غُلُوْ کا ارتکاب کرتے ہیں اور وہ جو آپ کے ساتھ دشمنی کی انتہا کریں گے… اور فرائد السمطين، ج 1، باب 35 جدیث نمبر 133 میں ہے کہ دو قسم کے لوگ میری فجہ سے نابود ہونکے: زیادہ روی کرنے والے دوست اور بغض برتنے والے دشمن)۔ہلاکت اور نابودی کا خطرہ چودہ معصومین کے سلسلے میں ہی نہیں بلکہ ان سے منسوب دیگر شخصیات کے حوالے سے بھی پیش آسکتا ہے۔ بعض لوگ اس زمانے میں بعض سادات کے بارے میں اسی مسئلے میں مبتلا ہوچکے ہیں اور بعض دیگر امام حسین علیہ السلام کے بارے میں افراط اور زیادہ روی کے اس درجے پر پہنچے ہوئے ہیں کہ ان کا کہنا ہے کہ تلوار اور نیزے اور تیر کی جرأت ہی نہیں ہے کہ وہ امام اور خاندان بنی ہاشم کے قریب آئیں چنانچہ کو وہ جان کر یا پھر انجانے میں کربلا کی خاک پر رقم ہونے والے حق و باطل کے تاریخی معرکے کو جھٹلارہے ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی قربانی کو سامنے سوالیہ علامت ثبت کرنے کی طرف قدم اٹھا رہے ہیں یا بعض لوگ اہل بیت علیہم السلام کی شان میں افراط اور زیادہ روی میں اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ ان کا کہنا ہے کہ وہ (معاذاللہ) “لم یلد و لم یولد” ہیں! اور یوں وہ کئی غلطیوں کا ارتکاب کررہے ہیں کہ اولا چودہ معصومین کس طرح اس دنیا میں آئے اور دوسری بات یہ کہ جو سادات اس دنیا میں موجود ہیں وہ کون ہیں؟ کیا سادات اہل بیت علیہم السلام کی اولاد نہيں ہیں؟ اگر وہ لم یلد ہیں تو سادات کیونکر ان کی اولاد ہوسکتے ہیں اور اگر امام حسن اور امام حسن علیہما السلام امام علی علیہ السلام کے فرزند ہیں اور امام زین العابدین امام حسین کے اور امام محمد باقر امام زین العابدین کے فرزند اور ہر امام اپنے سے پہلے امام کے بھائی یا فرزند ہیں تو لم یولد ہونے کا ثبوت کیا ہے۔جو کچھ عرض ہوا وہ اس دعوے کے الفاظ سے متعلق تھا اور مذکورہ بالا حدیث کے حوالے سے یہ ہلاکت کا سبب بھی ہے اور پھر ان لوگوں کے عقائد دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ نسل پرستی کا شکار بھی ہیں اور ایک خاص نسل کو آگے رکھ کر در حقیقت اسلام اور اسلام کے تمام احکام کو بھی جھٹلاتے ہيں اور ان پرعمل کرنا ضروری نہيں سمجھتے ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دین اسلام کے پیغمبر بن کر شرافت کے اس درجے پر ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ “بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر” اور امام علی رسول اسلام کی جانشینی اور اسلام کے لئے قربانی اور شہادت کی وجہ سے رسول اللہ (ص) کے بعد امت میں سب پر بھاری ہیں اور 11 امام اور سیدہ سلام اللہ علیہا سب کی عظمت اسلام کے لئے شہادت کی سرحد جانے کی وجہ سے خدا اور خلق خدا کے عزیز ہیں اور رہیں گے۔ اور ایک بات یہ بھی ہے کہ اس طرح کے عقائد میں مبتلا حضرات کو لامحالہ تاریخ کے تمام حقائق اور مذہب شیعہ کے تمام علوم اور حصولیابیوں نیز مرجعیت اور عاشورا اور اصولی طور پر قرآن مجید اور فلسفۂ امامت اور اصولی طور پر امامت و مہدویت تک کو جھٹلانا پڑتا ہے چنانچہ ان افراد کو شیعہ مذہب و مکتب کے سینے پر ایک نیا زخم کہنا ہی بجا ہوگا یا اس کو ایک انتہا پسند فرقہ کہا جاسکتا ہے اور مکتب امامت ان کے عقائد و نظریات سے بری ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ شرک ذات باری تعالی کی نسبت شرک کا ادراک زیادہ آسان ہے لیکن اس کی صفات شرک کا ادراک بہت مشکل ہے کیونکہ بہت سے مواقع پر شرک برتنے والے کو خود معلوم و محسوس ہی نہیں ہوتا کہ وہ شرک میں مبتلا ہوچکا ہے۔ اپنے خیال کے مطابق وہ عبادت کررہا ہوتا ہے لکن درحقیقت شرک اس کے عمل میں چھپا ہوا ہوتا ہے۔

شرک کیا ہےشرک یعنی: غیر خدا پر اکبہ کرنا اور مخلوق خدا کو خدا کا درجہ دینا۔شرک یعنی: کوئی دوسری قدرت خدا کی فدرت کے سامنے لاکھڑا کرنا۔شرک یعنی: غیر خدا کی بلاچون و چرا اطاعت کرنا۔شرک یعنی: ایسی تنظیم یا جماعت کی طرف مائل ہونا جس کا مقصد غیر خدا ہو۔شرک یعنی: طاقتوں اور بڑی طاقتوں سے وابستہ ہوجانا۔شرك يعنى: گروه گرايى، كه در راه خدا نباشد.شرك يعنى: وابستگى به قدرت ها و ابرقدرت ها.
در لابلاى تمام داستان هاى قرآن دو مسأله زياد به چشم مى خورد:حضرت نوح نے بیٹے سے کہا: کفار سب غرق ہونگے بیٹے نے کہا: میں پہاڑ کی پناہ لوں گا۔ (سورہ ہود آیت 43) خدا سے بھاگ کر پہاڑ کی پناہ لینا اور یہ کہنا کہ پہاڑ مجھے ڈوبنے سے بچائے گا یعنی اس کی روح میں شرک رچ بس چکا تھا۔ اگر آج بھی ہم کسی کو خدا کے سامنے لاکھڑا کریں چاہے وہ پہاڑ ہو یا کوئی اور چیز، تو ہم بھی مشرک ہونگے۔
شرک کی تاریخانسان مادی موجود ہے اور مادیات کی طرف بہت زیادہ مائل ہے۔ قدیم زمانوں میں جب کوئی بڑا آدمی دنیا سے رخصت ہوجاتا لوگ اس سے اپنی محبت و عقیدت کے اظہار کے لئے اس کا مجسمہ بنایا کرتے تھے اور اس کی تعظیم و تکریم کیا کرتے تھے اور یہی تعظیم پرستش اور پوجا میں تبدیل ہوئی۔ طاغوتوں سے خوف، طمع و لالچ، دوستی اور رفاقت بھی شرک کے اسباب تھے۔
شرک کی گوناگونی اور تنوع (Variety)شرک ہر زمانے میں چہرہ بدلتا رہا ہے اور اگر کل شرک کی صورت کچھ تھی تو آج کچھ اور ہے۔ کل اگر خورشید پرستی (سورج کی پوجا)، ماہ پرستی (چاند کی پوجا)، بت پرستی وغیرہ تھی تو آج مقام پرستی و منصب پرستی، عنوان پرستی اورعہدہ پرستی، مال پرستی یا سند پرستی (سرٹیفیکیٹ یا ڈگری کی پوجا)؛ کل کا شرک قوم پرستی اور قبیلہ پرستی اور قومی و قبائلی تعصب سے عبارت تھا تو آج کا شرک نشینلزم یا زیادہ وسیع سطح پر وہی قوم پرستی وغیرہ، کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔شرک کے نمونےکوئی کہتا ہے کہ اب ہمیں بارش کی ضرورت نہیں ہے ایک کنواں کھود کر اپنی ضرورت پوری کرسکتے ہیں۔دوسرا کہتا ہے: اب وہ زمانہ نہیں ہے کہ خدا غضبناک ہوجائے اور لوگوں پر قحط مسلط کرے کیونکہ گندم باہر سے منگوئی جاسکتی ہے!تیسرا کہتا ہے: یہ درست ہے کہ شرعی قوانین کا اپنا حساب و کتاب ہے لیکن ہم سرکاری اور بین الاقوامی قوانین سے بھی انکار ممکن نہیں ہے؛ یا یہ درست ہے کہ خدا کا حکم یوں ہے لیکن عوام کی خوشنودی یا بیوی کا دوسروں کی رضا و خوشنودی کا بھی لحاظ رکھنا ضروری ہے۔یا کہا جاتا ہے: ہم کبھی خدا کے فرامین کی پیروی کرتے ہیں لیکن کبھی فلاں اور فلاں کی بات بھی مانتے ہيں۔اس طرح کے تصورات سب توحید اور یکتا پرستی کی روح سے متصادم ہیں۔ایک فقیہ معظم نے کہا: ہم انقلاب سے قبل امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ قم سے تہران جارہے تھے۔ راستے میں، میں نے عرض کیا: بہت اچھی بات ہے کہ عراقی حکومت ہمارے طلبہ کو نجف میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دے رہی کیونکہ اگر عراق انہیں اجازت دیتا تو حوزہ علمیہ قم طلبہ سے خالی ہوجاتا۔بات میرے خیال میں بہت معمولی سی تھی لیکن امام بہت ناراض ہوئے اور قم سے تہران تک گاڑی میں ہمارے لئے ایک درس کا اہتمام کیا کہ کوئی فکر اللہ کے بغیر کسی اور مقصد کے لئے ہو اور چاہے کہ کوئی شخص، کوئی ادارہ یا کوئی حوزہ اوپر رہے اور دوسرا نیچے، حوزہ علمیہ قم مںئ طلبہ کی تعداد زیادہ ہو اور حوزہ علمیہ نجف میں تعداد کم ہو یا بالعکس؛ خلاصہ یہ کہ خدا کی راہ اور اس کی رضا کی بجائے کسی مسئلے کے درپے ہو تو وہ توحید کے محور سے دور ہے جبکہ ہمارے تمام افکار و اعمال و افعال کا محور اللہ ہونا چاہئے اور تعلقات، روابط، جغرافیہ، پیشہ و روزگار، مقامی اور قبائلی و قومی تعصبات کو ہمارے افکار و اعمال و افعال کا محور نہيں ہونا چاہئے۔ (دیکھئے باریکیاں شرک کی! جن کا ادراک آسانی سے ممکن نہيں ہے)۔
شرک کی علامتیںشرک کا مفہوم قرآن میں 51 مرتبہ “دونہ” کا لفظ اور 74 مرتبہ “دون اللہ” کے ضمن میں بیان ہوا اور 166 مرتبہ لفظ شرک کا لفظ آیا ہے۔ شرک کی قرآنی اور صحیح علامتیں تو کئی ہیں لیکن ایک بہت آسان علامت یہ ہے کہ جو انسان غیراللہ کی طرف مائل ہوتا ہے، عزت و عظمت غیر اللہ سے مانگتا ہے، غیراللہ کے قوانین نافذ کرتا ہے، اس کے تمام اعمال کے محرکات غیراللہ ہیں اور وہ غیراللہ ہی سے ڈرتا ہے اور غیراللہ کے لئے کام کرتا ہے وہ مشرک ہے۔قرآن میں شرک کی متعدد علامتیں بیان ہوئی ہیں جن میں سے ایک علامت یہ ہے کہ مشرک خدا کے قانون کے سامنے بہانوں کا سہارا لیتا ہے۔خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: “أَ فَكُلَّما جاءَكُمْ رَسُولٌ بِما لا تَهْوى‏ أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ”۔ (البقرہ آیت 87)کیا جب بھی پیغمبر (ص) کوئی قانون لاتے ہیں جو تمہاری خواہشات سے ہماہنگ نہ ہو تو تم تکبر برتتے ہو؟جب بھی جہاد کا حکم نازل ہوتا “وہ کہتے: “لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتالَ”۔ (نساء آیت 77) اے خدا تو نے ہم پر جہاد کیوں واجب کیا ہے۔جب بھی رسول اللہ (ص) جنگ کا حکم دیتے وہ کہتے “آپ نے ہمیں جنگ و جہاد کا حکم کیوں دیا؟جب بنی اسرائیل کے لئے آسمانی غذا نازل کی گئي، کہنے لگے: “لَنْ نَصْبِرَ عَلى‏ طَعامٍ واحِدٍ”۔ (سورہ بقرہ آیت61) ہم اس غذا پر ہرگز صبر نہیں کریں گے بالفاظ دیگر “یہ غذا کیوں”۔جب خدا کا کلام آتا اور اس میں کسی چیز کوئی مثال دی ہوئی ہوتی، وہ کہتے: “ما ذا أَرادَ اللَّهُ بِهذا مَثَلًا” (سورہ بقرہ آیت 26) اس مثال سے خدا کی مراد کیا ہے؟ یا یہ مثال کس لئے دی گئی؟۔شرک کی ایک علامت خاندان، مال و دولت، دنیاوی وسائل، مکان اور سواری وغیرہ کو اللہ کے احکام پر فوقیت دینے سے عبارت ہے؛ سورہ توبہ کی آیت 24 ملاحظہ فرمائیں:”قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ”۔ (سورہ توبہ آيت 24)(اے میرے حبیب (ص))! کہہ دیں ان سے کہ اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔شرک کی ایک علامت تفرقہ اور اختلاف ہے کیونکہ معبود ایک سے زیادہ ہونگے تو روشیں متضاد ہونگی اور یہ لمبی جدائیوں اور گہری نفرتوں کا سبب ہے۔ جماعتیں بنانا اور جماعتوں کو اسلام اور مذہب کے مفادات اور مصلحتوں پر مقدم رکھنا اور اپنے آپ اور اپنی جماعتوں کو حق و حقیقت کا معیار قرار دینا، شرک کے زمرے میں آتا ہے جس کی وجہ سے تعصبات جنم لیتے ہیں یہاں تک کہ جماعت کی غلطیاں بھی درست نظر آنے لگتی ہیں یا اس جماعت کے سربراہ کی کام چوریوں اور فاش غلطیوں کو درست ثابت کرنے کے لئے دین و ایمان اور دولت اور وسا‏ئل کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور یہ شرک کی نشانیاں ہیں؛ اللہ تعالی کا فرمان ہے: “مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَ كانُوا شِيَعا كُلُّ حِزْبٍ بِما لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ”۔ (سورہ روم آیت 32)ان (لوگوں) میں سے (بھی نہ ہونا) جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور وہ گروہ در گروہ ہو گئے، ہر گروہ اسی (ٹکڑے) پر خوش ہے جس کو اس نے اپنے لئے منتخب کیا ہے۔یہ خود شرک کی علامت ہوئی اور پھر دین کے ایک ٹکڑے کو پورا دین سمجھنے کی بنا پر باقی دین ترک ہوجاتا ہے۔نفسیات کی دنیا کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص توحید کے مدار میں جگہ پاتا ہے اور اس کی فکر و حرکت خدائی ہوجاتی ہے اس کے نزدیک شکست بے معنی ہے چنانچہ وہ حادثات اور واقعات کے سامنے کبھی بھی دھماکہ خیز رد عمل ظاہر نہيں کرتا اور اس کے لئے نفسیاتی دھماکہ خیزی پیش ہی نہیں آتی۔سورہ توبہ کی آیت 111 میں ارشاد ہے: “إِنَّ اللّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم”۔ (بلاشبہ اللہ نے ایمان لانے والوں سے ان کے جان اور مال خرید لیے ہیں) یعنی توحید کے مدار میں داخل ہونے والے مؤمنین کے اعمال کا خریدار خدا ہے اور یہ بات اس مدار میں قرار پانے والوں کو معلوم ہے اسی لئے ان کو دنیا میں کسی خریدار کی تلاش بے بے معنی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کی بات سننے والا اور اس کے اعمال کو امتیاز اور نمبر و رتبہ دینے والا خدا ہے کیونکہ وہ سمیع و بصیر اور سمیع و علیم ہے۔ چنانچہ وہ چدا کے سوا کسی سے کچھ نہيں مانگتا اور کسی اور کو خدا کے سامنے اپنا معبود قرار نہيں دیتا۔سورہ انسان کی آیات 8، 9 اور 10 میں اللہ تعالی علی علیہ السلام اور سیدہ فاطمہ اور حسنین علیہم السلام کے انفاق و خیرات کا قصہ سناتا ہے جنھوں نے تین دن تک اپنی افطاری یتیم، مسکین اور اسیر کو پیش کی اور فرمایا کہ ہمیں تو بس اللہ کی رضا چاہئے۔ ارشاد ربانی ہے: “وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ٭ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاء وَلَا شُكُورًا ٭ إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا”. (اور وہ کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت کے ساتھ ساتھ غریب محتاج اور یتیم اور جنگ کے قیدی کو * ہم تمہیں صرف اللہ کی رضا کے لئے کھلاتے ہیں نہ تم سے جزاء چاہتے ہیں اور نہ شکریہ * ہم ڈرتے ہیں اپنے پروردگار کی طرف سے اس دن کے عذاب کے ڈر سے جو بہت ترش روا اور سخت ہو گا).امیرالمؤمنین اور خاندان رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ عمل توحید اور یکتا پرستی کی عظیم مثال ہے اور یہ ان لوگوں کے لئے بھی بہت سبق آموز ہے جو اللہ کے احکام سے بچنے کے لئے علی علیہ السلام کو معاذاللہ الوہیت کا درجہ دیتے جس کے بعد وہ قرآن اور رسالت اور اسلام کو جھٹلاتے ہوئے، تمام احکام الہیہ سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں اور پھر ہم نے ائمہ علیہم السلام کے زبانی مندرجہ بالا سطور میں ثابت کیا کہ محبت اہل بیت (ع) کے لئے اللہ کی اطاعت ضروری ہے ورنہ تو انسان اہل بیت علیہم السلام کا دشمن ہی سمجھا جاسکتا ہے اور مشرک بھی، کیونکہ اہل بیت (ع) کی اطاعت کا حکم رسول اللہ (ص) نے اللہ کے فرمان پر، دیا ہے اور ہم نے دیکھا کہ شرک کی ایک علامت یہ ہے کہ انسان اللہ کے احکامات کے سامنے حیلے بہانے لے کر آئے۔۔۔نفسیات کے ماہریں دل اور وسوسوں، روحانی اور قلبی پریشانیوں، احساس کمتری، احساس حقارت اور فکری بیماریوں کی بات کرتے ہيں جو ناکامیوں کے نتیجے میں لاحق ہوا کرتی ہیں لیکن اس بات کی تصدیق بھی کرتے ہیں کہ “توحید اور یکتا پرستی کے دائرے میں ان بیماریوں کا تصور تک نہیں کیا جاتا۔ کیونکہ دائرہ توحید میں بے سکونی نہیں ہے۔ رسول اللہ (ص) اپنی رضاعی ماں حضرت حلیمہ سعدیہ سلام اللہ علیہا کے ہاں تھے تو ان کی بھیڑیں اور بکریاں چراتے تھے، بعثت کے بعد ہزاروں صعوبتیں جھیل لیں، مکہ سے مدینہ ہجرت کرگئے، پہاڑوں میں پناہ لی، مدینہ میں حکومت تشکیل دی، تنہائیاں دیکھیں، مسجد و منبر کی تعمیر فرمائی، ہزاروں لوگ آپ (ص) کے گرد اکٹھے ہوئے لیکن آپ (ص) کے رویے میں کبھی کوئی فرق نہيں آیا، کبھی نا مطمئن نہيں ہوئے؛ علی علیہ السلام آپ (ص) کے بستر پر صبح تک موت کے گھیرے میں لیٹے رہے، جنگیں لڑیں، حکومت تشکیل دی لیکن گوشہ نشینی کے دور اور حکومت کے دور میں آپ (ع) کے لئے کوئی فرق محسوس نہيں ہوا اور جب محراب مسجد میں ماتھا زخمی ہوا تو فرمایا “فزت برب الکعبہ” (میں کامیاب ہوگیا رب کعبہ کی قسم)۔ امام حسن علیہ السلام کا یہی حال رہا اورامام حسین علیہ السلام نے شہادت سے چند ہی لمحے قبل فرمایا: بسم اللہ و باللہ و علی ملۃ رسول اللہ” (میته الامال، (علمیه اسلامیه)، ج 1، ص 286) الهي رضي برضاك و تسليما لامرك ، صبراً على قضائك، یا ربّ، لا معبود سواك یا غیاث المستغیثین؛ راضی ہوں تیری رضا پر، سراپا تسلیم ہوں تیرے امر کے سامنے، تیرے فیصلے پر صابر ہوں تیرے سوا کوئی معبود نہیں اے مدد مانگنے والی کی مدد کو پہنچنے والے۔ یا سیدہ ثانی زہراء بھائی کے جسم بے سر پر آتی ہیں تو اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتی ہیں کہ “اللّهم تقبل منّا هذا لقربان”۔ (مقرم مقتل الحسين، ص 307( خداوندا! ہم سے یہ قربانی قبول فرما یا جب یزیدی گورنر عبیداللہ بن مرجانہ کہتا ہے کہ : ” کیا دیکھا آپ نے کربلا میں؟” تو فرماتی ہیں: “ما رأيت الا جمیلاً”. (مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار، ج ۴۵، باب ۳۹، ص ۱۱۶، مؤسسة الوفاء، بیروت، لبنان، ۱۴۰۴ق.) میں نے خوبصورتی کے سوا کچھ بھی نہ دیکھا۔ یہ ہے قلب مطمئن جس کی بنیاد توحید ہے اور یکتا پرستی۔امام خمنیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: “الهي رضي برضاك و تسليما لامرك” شہید عاشورا کے شہادت طلبانہ جذبے کی تفسیر ہے جو بانوئے کربلا کی زبان پر “ما رأيت الا جميلاً” بن کر جلوہ گر ہوئی۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اپنا ذائقہ کچھ ایسا ذائقہ بنائیں کہ ہمارے لئے تمام دشواریوں میں حلاوت اور مٹھاس محسوس ہے۔ اللہ کی قضا پر راضی ہونے کا مطلب یہی ہے۔ کوئی فرق نہيں پڑتا کہ خدا سے ہمیں بلا اور آزمائش ملے یا پھر نعمت کے طور پر ایک عظیم ملت ملے جس کے تمام مرد اور عورتیں شہادت کے شیدائی ہیں۔ انسان پھر اس بات سے شکوہ شکایت نہیں کرتا کہ فلاں چیز کم ہے اور فلاں چیز زیادہ ہے۔ (خطاب امام خميني رحمۃ اللہ علیہ۔ خطاب مورخہ 21 مارچ 1985)
مشرکین کے اعداد و شمارشرک کے معنی بہت وسیع ہیں اور ان لوگوں کا تو کسی کو علم ہی نہيں ہے جو شرک خفی میں مبتلا ہیں اور بہت سوں کو یہ بھی معلوم کہ وہ خود شرک میں مبتلا ہیں چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ انسانوں کی اکثریت شرک میں مبتلا ہے اور مخلص یکتا پرستوں کی تعداد بہت کم ہے۔ مخلصین وہ ہیں جن کے تمام افکار، افعال اور اعمال کا دارومدار رضائے الہی پر ہو اور کسی عمل کے عوض جزا اور انعام کی توقع لگا کر نہیں بیٹھتے، ریا کار اور دکھاوے والے نہیں ہوتے۔ کیونکہ دکھاوا شرک ہے۔ خدا کے قوانین کے سامنے سراپا تسلیم ہوتے ہیں اور غیر الہی قوانین بنانے اور نافذ کرنے کی طرف مائل نہ ہوں۔سورہ یوسف کی آیات 105 و 106 میں غور کیجئے گا: “وَكَأَيِّن مِّن آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ ٭ وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللّهِ إِلاَّ وَهُم مُّشْرِكُونَ”۔ “اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر ان لوگوں کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان سے صرفِ نظر کئے ہوئے ہیں ٭ اور ان میں سے اکثر لوگ اﷲ پر ایمان نہیں رکھتے مگر یہ کہ وہ مشرک ہیں”۔ ان مؤخر الذکر آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صاحب ایمان نہیں ہیں اور اگر ہیں بھی تو ان کے ایمان کے ساتھ شرک بھی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ مشرکین کی آبادی دنیا کی اکثریتی آبادی ہے جن کے سہارے غیرالہی ہیں۔شرک کے آثارخدا کے ساتھ ہر قسم کا شرک برتنے کے آثار بہت خطرناک اور برے ہیں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:شرک اعمال تباہی اور محو ہونے کا سبب بنتا ہے اور قرآن کے مطابق انسان کے تمام اچھے اعمال شرک کی وجہ سے “حبط” ہوجاتے ہیں؛ کبھی انسان کا ایک چھوٹا سا شرک آمیز عمل اس کی پوری عمر کی عبادات و اعمال کو نیست و نابود کردیتا ہے۔ جس کی مثال یہ ہے: ایک شخص حفظان صحت کے تمام اصولوں کا لحاظ رکھتا ہے اور بالکل تندرست ہے لیکن ایک لمحہ بھر غفلت کرکے تھوڑا سا زہر کھا لیتا ہے؛ اور یہی لمحہ بھر کا چھوٹا سا عمل صحت و سلامتی کے لئے ہونے والی عمر بھر کی کوششوں پر پانی پھیر لیتا ہے:بے شک خدا کے ساتھ شرک زہر کھانے یا پھاڑ سے کھودنے یا پھر تیراکی جانے بغیر سمندر میں غوطہ زن ہونے کی مانند ہے جو انسان کی پوری زندگی کی زحمتوں کو نیست و نابود کردیتا ہے۔خداوند متعال کا ارشاد ہے: “وَلَوْ أَشْرَكُواْ لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ” (سورہ انعام آیت 88) اور اگر (بالفرض) یہ لوگ شرک کرتے تو ان سے وہ سارے اعمالِ (خیر) ضبط (یعنی نیست و نابود) ہو جاتے جو وہ انجام دیتے تھے۔ارشاد ہوتا ہے: “… لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ”۔ (زمر۔ آیت 65) (اے انسان!) اگر تُو نے شرک کیا تو یقیناً تیرا عمل برباد ہو جائے گا اور تُو ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔اب دیکھتے ہیں امام حسن عسکری علیہ السلام شرک کو کس انداز سے متعارف کراتے ہیں:اللہ تعالی ایک طرف سے ایمان والوں کو تمام گناہوں کی مغفرت کی بشارت دیتا ہے لیکن شرک سے خبردار کرتا ہے اور فرماتا ہے: “إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا”۔ (نساء آیت ۔ آیت 48) بیشک اللہ اس (بات) کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور جو (گناہ) اس سے نیچے ہے جس کے لئے چاہے معاف فرما دیتا ہے، اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے وہ واقعی دور کی گمراہی میں بھٹک گیا۔امام حسن عسکری شرک کا تعارف کراتے ہیں اور فرماتے ہیں:”الاشراك في الناس أخفى من دبيب النمل على المِسح الاسود في الليلة المظلمة۔لوگوں میں شرک کی رفتار اور طرز عمل اس چھوٹی سی چیونٹی سے بھی زيادہ مخفی اور اوجھل و نامحسوس ہے جو شب دیجور میں کالی چادر پر رینگ رہی ہو۔مسح سے مراد چادر یا کمبل ہے اور اس کو اسود سے مقید کیا گیا تا کہ اس کے خفیہ پن پر زور دیا جائے جس کو دیکھا نہیں جاسکتا کیونکہ اگر چادر یا کمبل سفید ہو تو شاید اس پر رینگنی والی چیونٹی دیکھی جاسکے۔(بحار الانوار ج75 (باب) * * ” (مواعظ أبى محمد العسكري عليهما السلام وكتبه إلى اصحابه) ص370 الی 380۔ تحف العقول، ص 361؛ کشف الغمّه، ص 420)۔بحث بہت طویل ہوگئی ہے چنانچہ اپنے قارئین و صارفین سے معذرت طلب کرتے ہوئے اس بحث کو امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ایک حدیث پر روک لیتے ہیں اگر زندگی رہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے لے کر امام عصر علہا السلام تک کی حدیثوں سے رجوع کرکے ان کی نظر میں شیعیان علی علیہ السلام کی خصوصیات اکٹھی کرنے کی کوشش کی جائے گے اور اللہ تعالی سے بحق محمد و آل محمد (ص)، توفیق طلب کرتے ہیں کہ دنیا کے مشاغل سے فرصت ملے اور ہم سب اپنے اعمال اور عقائد کو معصومین علیہم السلام کی زبان سے جاری ہونے والے قواعد الہی کی کسوٹی پر پرکھ لیں اور دیکھ لیں کہ ہم تشیع کے کس درجے پر ہیں؟ کیا ہم شیعیان علی (ع) ہیں؟ اگر نہیں تو کیا ہم محب اہل بیت (ع) ہیں، اگر محب بھی نہیں ہیں تو پھر کیا ہیں!؟اور ہاں بے ادبی21۔ شیعہ بے ادب بھی نہیں ہوتاشیعیان علی کہلانے والے امام علی علیہ السلام سے منسوب کئے جاتے ہیں اور علی علیہ السلام کا ادب دیکھ کر ہمارے لئے محاسبے کی ایک اور راستہ کھل جاتا ہے اور وہ یہ کہ امام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام شرک خدا کی بات خدا کے بغیر کسی اور سے کرنے کو بے ادبی قرار دیتے ہيں اور بے ادبی ایک نہایت ظریف قسم کی وضاحت بھی کرتے ہیں؛ حدیث دیکھئے:حضرت امیر علیہ السلام کے ایک صحابی “نوف البکالی” کہتے ہیں: “رَاَيْتُ أميرَ المُؤمِنينَ عليه‏السلام مُوَلِّيا مُبادِرا ، فَقُلْتُ : اَيْنَ تُريدُ يا مَولاىَ؟ فَقالَ : دَعنى يا نَوفُ ، اِنَّ آمالى تُقَدِّمُنى فِى المَحبوبِ. فَقُلتُ : يا مَولاىَ وَ ما آمالُكَ؟ قالَ : قَدْ عَلِمَهَا الْمَأمولُ وَ اسْتَغنَيتُ عَنْ تَبيينِها لِغَيْرِهِ ، وَكَفى بِالْعَبْدِ اَدَبا اَلاّ يُشْرِكَ فى نِعَمِهِ و اِرْبِهِ غَيْرَ رَبِّهِ”۔(بحار الانوار ج91 ص 94 – عبدالواحد بن محمد بن عبدالواحد الآمدی التمیمی ۔ غرر الحكم، ح 10599)۔میں نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کو تیز تیز قدم اٹھا کر چلتے ہوئے دیکھا اور عرض کیا: میرے مولا! کہاں جارہے ہیں؟فرمایا: میری آرزوئیں مجھے اپنے محبوب کی طرف لے جارہی ہیں۔میں نے عرض کیا: مولائے من! آپ کی آرزوئیں کیا ہیں؟جس کی آرزو ہے وہ خود جانتا ہے کہ میری آرزوئیں کیا ہیں۔ اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ میں وہ آرزوئیں اس کے سوا کسی اور کو بتاؤں۔ بندے کے لئے اتنا ہی ادب کافی ہے کہ وہ اپنی نعمتوں میں اور اپنی ضروریات و احتیاجات میں اپنے پروردگار کے سوا کسی اور کو شریک نہ کرے۔
نکتہ یہ ہے کہ میرے اور آپ کے امیر اور امام ادب کا اتنا لحاظ رکھتے ہیں چنانچہ سوال اٹھتا ہے کہ “اگر محبوب کی بات محبوب سے کرنا ادب ہے اور وہی بات غیر محبوب سے کرنا بے ادبی ہے تو ہمارے رویئے کیا ہیں؟ کیا ہم اخلاق و آداب اور اجتماعی رویوں اور خدا کی بندگی کے علوی کسوٹی پر اتر سکتے ہیں۔دعا یہی ہے کہ اللہ تعالی علی (ع) کے صدقے ہيں شیعیان علی (ع) کے زمرے میں قرار دے۔ آمین.
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.