معرفت عقل
قیقت عقل١۔ رسول خدا)ص(: عقل ایک نور ہے جسے خدا نے انسان کے لئے پیدا کیا ہے ، اور اسے دل کے لئے روشنی قرار دیا ہے تاکہ دکھائی دینے والی اور دکھائی نہ دینے والی چیزوں میں فرق محسوس کر سکے۔٢۔ رسول خدا)ص(: عقل دل میں ایک نور ہے جس سے دل حق و باطل میں فرق کرتا ہے ۔٣۔رسول خدا)ص(: عقل دل میں اس چراغ کی طرح ہے جو گھر کے اندر ہوتا ہے ۔٤۔ امام علی )ع(: سے منسوب کلمات قصار میں ہے روح بدن کی زندگی اور عقل روح کی حیات ہے ۔٥۔ امام صادق)ص(: خدا نے عقل کو چار چیزوں علم، قدرت، نور اورمشیت امر سے پیدا کیا ہے پس عقل کو علم سے قائم کیا ہے اور اسے ملکوت میں جاوداں قرار دیاہے ۔٦۔ امام صادق)ص(: انسان کی بنیاد و بقاء چار چیزوں آگ، نور، ہوا اور پانی سے ہے آگ سے کھاتااور پیتا ہے ، نور سے دیکھتا اور سوچتا ہے …، اگر انسان کی آنکھوں میں نور نہ ہوتا تو اس میں دیکھنے اور سوچنے کی صلاحیت نہ ہوتی۔٧۔ امام کاظم )ع(: عقل روح کا نورہے ۔١/٢عقل و جہل کی خلقت
قرآننفس اور اس ذات کی قسم جس نے اسے سنوارا، پھر اس پر فسق و فجور اور تقویٰ و پرہیزگاری کا الہام کیا۔اور برائیوں پر ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں۔اور میں اپنے نفس کو بری نہیں قرار دیتا کیوں کہ نفس یقینا برائیوں کا حکم دینے والا ہے مگر یہ کہ کسی پر میرا پروردگار رحم کرے کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے ۔
حدیث٨۔ رسول خدا)ص(: خدا ئے تبارک و تعالیٰ نے عقل کو اس ذخیرہئ نور سے پیدا کیا ہے جو اس کے علم سابق میں مخفی تھا کہ جس کی کسی نبی مرسل اور ملک مقرب کو اطلاع نہ تھی۔٩۔ رسول خدا)ص(: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے عقل کو خلق کیا ہے ۔١٠۔ رسول خدا)ص(: خدا نے عقل کو پیدا کیا پھر اس سے ہمکلام ہوا اس نے جواب دیا، تو خدا نے فرمایا: میری عزت و جال کی قسم میں نے ایسی کوئی مخلوق نہیں پیدا کی ہے جو میرے نزدیک تجھ سے زیادہ محبوب ہو، تیرے واسطے لیتا ہوں اور تیرے واسطے عطا کرتا ہوں۔ میری عزت کی قسم جسے میں دوست رکھتا ہوں اس میں تجھے کامل کر دیتا ہوں، اور جسے ناپسند کرتا ہوں اس میں تجھے ناقص قرار دیتا ہوں۔١١۔ امام علی )ع(: خدائے عز و جل نے فرشتوں میں عقل شہوت نہیں، جانوروں میں شہوت عقل نہیں اور انسانوں میں عقل و شہوت دونوں کو رکھا ہے ، لہذا جس کی عقل شہوت پر غالب آگئی وہ فرشتوں سے بہتر اور جس کی شہوت اسکی عقل پر غالب آگئی وہ چوپایوں سے بدتر ہے ۔١٢۔ امام صادق)ص(: خدا نے عقل کو پیدا کیا ہے اور یہ عرش کی دائیں جانب کی روحانی مخلوق میں سے پہلی مخلوق ہے جسے خدا نے اپنے نور سے پیدا کیا ہے ، پھر اس سے کہا: پیچھے ہٹو وہ پیچھے ہٹ گئی، پھر کہا آگے آؤ آگے آگئی، اس کے بعد خدائے تبارک و تعالیٰ نے کہا: میں نے تجھے عظیم مخلوق بنایا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوق پر عزت دی ہے ۔پھر خدا نے جہل کو کھارے اور تاریک دریا سے پیدا کیا۔ پھر اس سے کہا: پیچھے ہٹ، پیچھے ہٹ گیا، پھر کہا: آگے آ لیکن آگے نہیں آیا، اس سے کہا: تم نے غرور کیا، تو اس پر لعنت کی۔١٣۔ امام صادق)ص(: خدا نے’فألھمھا فجورھا و تقواھا’ کے ذریعہ نفس کی ہدایت کی ہے کہ نفس کس چیز کو انجام دے اور کس کو انجام نہ دے۔١٤۔ امام صادق)ص(: نے اس آیت ‘و نفس و ما سواھا’ کی تفسیر میں فرمایا: خدا نے نفس کو پیدا کیا اور سنوارا ہے اور آیت (فالھمھا فجورھا و تقواھا) کے سلسلہ میں فرمایا(خدا نے ) نفس کی برائیوں اور اچھائیوں کی طرف ہدایت کی ہے پھر اسے اختیار دے کر مختار بنادیا۔
خلقت عقل اور جہل پر ایک طائرانہ نظرخلقت عقل و جہل اور ان دو متضاد عناصر کے مرکب ہونے کی کیفیت اور انسان میں ان کے مرکب ہونے کا فلسفہ اسلامی نقطہ نظر سے انسان شناسی کے اساسی ترین مسائل اور الٰہی آئین کے اہم ترین تربیتی اسباب میں سے ہے ۔ لہذا اس باب کی احادیث کی روشنی میں ان مسائل کے سلسلہ میں مختصر توضیح ذیل میں پیش کی جا رتی ہے۔
١۔خلقت عقلاحادیث کی روشنی میں ذکر ہو چکا ہے لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ خلقت عقل کا مقصد پوشیدہ شعور کو بیدار کرنا ہے کہ جس کی حقیقت کو صرف خدا جانتا ہے ۔ لہذا یہ توقع نہیں رکھنا چاہئے کہ علمی تحقیقات عناصر عقل کی حقیقت کشف کر سکیں گے لیکن خصوصیات و آثار کے لحاظ سے عقل کی تعریف کی جاسکتی ہے ۔ اہم ترین خصوصیات حسب ذیل ہیں۔
الف۔پہلی مخلوقیہ خصوصیت متعدد حدیثوں میں قابل غور ہے ممکن ہے کہ اس چیز کی طرف بھی اشارہ کیا جائے کہ انسان کی حقیقی ماہیت صرف عقل ہے، وہ چیزجو صراحت کے ساتھ دوسری روایات میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ خلقت کے اعتبار سے انسان کی حقیقت و ماہیت عقل ہے بقیہ چیزیں اس میں عقل کی بدولت پیدا کی گئی ہیں۔
ب۔ نور سے خلقتعقل کا اساسی کام روشن کرنا، حقائق نمائی، مستقبل بینی اور انسان کو عقائد ، اخلاق اور نیک اعمال کے راستے پر لگانا ہے مختصر یہ کہ عقل کمال تک پہنچانے کا وسیلہ ہے ۔
ج۔صرف حق کی طرف میلاناگر عقل کے ساتھ جہل کی آمیزش نہ ہو تو عقل صرف حق کی پرستار ، اور صرف حق کی تابع ہوتی ہے اور حق کے سوا کسی اور چیز کو قبول نہیں کرتی ہے ۔خدا نے عقل سے کہا: پیچھے ہٹو وہ پیچھے ہٹی پھر فرمایا: آگے آؤ وہ آگے آگئی۔
٢۔ جہل کی خلقتبادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جہل کاپیدا کرنا بے معنی ہے ، چونکہ جہل کے معنیٰ عدم علم کے ہیں اور عدم کو خلق نہیں کیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے وہ احادیث جو جہل کی خلقت پر دلالت کرتی ہیں ان کی توجیہ بیان کی جائے۔ لیکن غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہل کی خلقت کا مقصد پوشیدہ شعور کو بیدار کرنا ہے جو عقل کے مقابل میں ناشائستہ کاموں کی طرف ابھارتا ہے جہالت و حماقت اسے برائیوں پر اکساتے ہیں نفس امارہ جو کہ برے کاموں کو خوبصورت و دلکش بنا کر پیش کرتا ہے اسے ، شہوت کہتے ہیں جس کے خصوصیات درج ذیل ہیں:
الف۔ عقل کے بعداس خصوصیت سے اس چیز کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جہل کا وجود عقل کی طرح اصلی نہیں ہے بلکہ عقل کے خاص فلسفہ و حکمت کی خلقت کے بعد انسان کے اندرپیدا ہو جاتا ہے ۔
ب۔ کدورت و ظلمتقوائے عقل نور سے اور قوائے جہل کدورت و ظلمت سے پیدا ہوئے ہیں اس سے اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ قوائے جہل کے تقاضوں کی بنا پر انسان اوہام ، برے اخلاق اورناشائستہ اعمال کا مرتکب ہوتا ہے جس کا نتیجہ ضلالت و گمراہی اور حسرت و ناکامی ہے ۔
ج۔محض باطل پرستیعقل کے بر خلاف جہل صرف باطل کے سامنے تسلیم ہوتا ہے اگرمحض جہل ہو تو کبھی حق کا تابع نہیں ہوگا۔خدا نے جہل سے کہا : پیچھے ہٹ، پیچھے ہٹ گیا پھر کہا آگے توآگے نہیں آیا۔
٣۔عقل و جہل کا امتزاجعقل و جہل کے اہم ترین قابل غور نکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ دونوں انسان میں یک جا ہو گئے حضرت علی )ع( نے اسکی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:خدا نے ملائکہ میں عقل شہوت نہیں، جانوروں میں شہوت عقل نہیں اور بنی آدم میں دونوں کو قرار دیا ہے ۔جہل کو امام ؑ نے شہوت سے تعبیر کیا ہے ، فرشتوں میں صرف عقل ہے اور چوپایوں میں فقط شہوت ہے ، فرشتے عقل محض، چوپائے جہل محض اور انسان میں عقل و جہل یا عقل و شہوت یا عقل و نفس امارہ دونوں کا اختلاط ہے ۔
٤۔ عقل و جہل سے مرکب ہونے کا فلسفہعقل و جہل کی خلقت میں اہم نکتہ ان د د متضاد چیزوںکا آپس میں مرکب ہونا ہے ، خدائے حکیم نے انسان میں نفس امارہ کیوں رکھا ہے؟ اسے شہوت کیوں دی ہے کہ وہ جہالت کی طرف بڑھے ؟ انسان کو فرشتوں کی طرح بغیر شہوت کے عقل کیوں نہیں عطاکی ہے کہ وہ برائیوں کی طرف نہ بڑھے؟!اس کا جواب یہ ہے کہ خدا ایک صاحب اختیار موجود کو خلق کرنا چاہتا تھااور انسان کے اندر عقل و جہل کے اس امتزاج کا فلسفہ بھی یہی ہے کہ وہ آزاد و مختار رہے۔فرشتوں میں چونکہ شہوت نہیںہوتی لہذا ناشائستہ اعمال انجام نہیں دے سکتے وہ صرف عقل کے تابع ہوتے ہیں کوئی دوسرا راستہ نہیں اختیار کر سکتے ، چوپائے چونکہ عقل نہیں رکھتے ہیں لہذا وہ صرف شہوت کے تابع ہوتے ہیں لیکن انسان میں عقل و شہوت دونوں ہیں اس لئے وہ صاحب اختیار ہے جس کو چاہے اختیار کرے۔لیکن چونکہ انسان عقل و شہوت سے مرکب ہے لہذا وہ آزاد ہے اور صاحب اختیار بھی ہے اور اسی چیز کے باعث وہ تمام مخلوقات سے افضل و برتر ہے ، شاید یہی وجہ ہے کہ خدا نے انسان کی خلقت کے وقت اپنی ذات پر فخرکیاہے ارشاد ہے’لقد خلقنا الانسان من سلالۃ من طین…الیٰ ۔فتبارک اللہ احسن الخالقین’ اور ہم نے انسان کو گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے….تو کس قدر با برکت ہے وہ خدا جو سب سے بہتر خلق کرنے والا ہے۔اور نیز پیغمبر اسلام)ص( کا ارشاد ہے:ما من شیء اکرم علٰی اﷲ من ابن آدم، قیل : یا رسول اﷲ! ولا الملائکۃ؟ قال: الملائکۃ مجبورون بمنزلۃ الشمس و القمر۔خدا کے نزدیک بنی آدم سے زیادہ محترم کوئی چیز نہیں ہے پوچھا گیا: حتی فرشتے بھی؟ فرمایا: فرشتے سورج اور چاند کی طرح مجبور ہیں ۔البتہ اس میں موجود یہ فضیلت اس وقت ظہور پذیر ہوگی جبکہ وہ اپنی اس آزادی سے صحیح طور پر فائدہ اٹھائے لیکن اگر اس آزادی سے غلط فائدہ اٹھایا تو اسکی عقل مغلوب اور اسکی نعمت آزادی عذاب میں تبدیل ہو جائیگی جیسا کہ امام علی -کا ارشاد ہے جو پہلے ذکر ہو چکا ہے ۔فمن غلب عقلہ شھوتہ ھو خیر من الملائکۃ و من غلب شہوتہ عقلہ فھو شر من البھائم۔جس کی عقل اسکی شہوت پر غالب آگئی وہ فرشتوں سے بہتر اور جس کی شہوت اسکی عقل پر غالب آگئی وہ چوپایوں سے بدتر ہے ۔
مرکز عقل١٥۔ اما م علی )ع(: عقل دل میں ہوتی ہے ۔١٦۔ امام علی )ع(: دل اعضاء و جوارح کا حاکم ہے جس سے وہ سوچتے و سمجھتے ہیں اور جس کے حکم کے مطابق حرکت میں آتے ہیں۔١٧۔ امام صادق(ع): عقل کا مرکزدل ہے ۔١٨۔ اما صادق ؑ:(طبیب ہندی سے مناظرہ) طبیب نے کہا: مجھے یہ بتائےے کہ آپ اپنے جس پروردگارکی قدرت و ربوبیت کی توصیف کرتے ہیں اس کی معرفت پر کس طرح استدلال کرتے ہیں حالانکہ دل تمام چیزوں کو حواس خمسہ کے ذریعہ جانتا ہے جس کو میں بیان کر چکا ہوں؟امام صادق ؑ نے فرمایا: میں خدا کی معرفت اس عقل سے حاصل کرتا ہوں جو میرے دل میں ہے اور اسی دلیل سے اسکی معرفت پر حجت قائم کرتا ہوں۔١٩۔ امام صادق)ص(: عقل کی جگہ دماغ ہے ،کیا تم نے یہ نہیں دیکھا کہ کم عقل انسان سے یہ کہا جاتا ہے کہ تم دماغ کے کتنے ہلکے ہو؟!٢٠۔ ابن عباس: خدائے تبارک و تعالیٰ نے جناب داؤدؐ پر وحی کی…اپنے بیٹے کو دیکھو اور اس سے چودہ چیزوں کے بارے میں سوال کرو، اگر جواب دے دیا تو علم و نبوت میں اسے وارث قرار دو…. لہذا جناب داؤدؑ نے جناب سلیمان ؑ سے کہا، بیٹا ! مجھے یہ بتاؤ عقل کی جگہ کہاں ہے ؟ جناب سلیمان نے کہا: دماغ…..٢١۔ وہب بن منبِّہ : جناب آدم کی پیدائش کے متعلق توریت میں اس طرح آیاہے …انکی عقل کو ان کے دماغ میں رکھا گیا۔
وضاحتآپ ملاحظہ کر چکے ہیں کہ اس باب کی بعض احادیث میں عقل و ادراک کا مرکز دل کوقرار دیا گیا ہے جبکہ اسی باب کی بعض دوسری احادیث میں دماغ کو قرار دیا گیا ہے ،توکیا یہ روایات آپس میں ٹکرا رہی ہیں؟ یا انسانی ادراکات کے دومرکزہیں یعنی دل اور دماغ جو عرضی مرکز شناخت ہیں؟ یا دونوں ترتیب وار مرکزِ شناخت ہیں؟اس کا جواب یہ ہے کہ ان روایات میںکوئی تعارض نہیں ہے بلکہ اسلامی نصوص و روایات میں قلب چار معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
١۔ خون کا تصفیہ کرنے والا٢۔ عقل٣۔ شہودی شناخت کا مرکز٤۔ روحقلب چوتھے معنی کے اعتبارسے انسانی تمام ادراکات کا اصلی سر چشمہ ہے اور وہ روایات جن میں عقل کا مرکز دل کوقرار دیا گیا ہے ان میں ان معنی کی طرف اشارہ موجود ہے کہ دماغ جس کا تعلق حواس خمسہ سے ہے ، قلب کے تحت ہوتا ہے مقابل میں نہیں ۔لہذا یہ کہا جا سکتا ہے عقل کا مرکزدماغ ہے کیونکہ انسانی ادراکات دماغ کے راستے سے روح تک پہنچتے ہیں اور عقل کی جگہ دل کو بھی بتا یا جا سکتا ہے کیوں کہ دل جب روح کے معنی میں ہوگا تو اس صورت میں تمام حسی ، عقلی اور شہودی ادراکات کا سر چشمہ قرار پائیگا۔
١/٤عقل کی اقسام٢٢۔ امام علی )ع(: عقل کی دو قسمیںہیںفطری اورتجربی اور یہ دونوں فائدہ مند ہیں۔٢٣۔ امام علی )ع(:عقل کی دوقسمیں ہیں فطری اور اکتسابی ،عقل اکتسابی بغیر عقل فطری کے مفید نہیں ہے ۔جیساکہ آنکھ کی بینائی کے بغیر سورج کی روشنی بے سود ہے ۔
١/٥ادوار حیات میں عقل کا کم وزیادہ ہونا٢٤۔ امام علی )ع(: جب عقلمند بوڑھا ہوتا ہے تو اسکی عقل جوا ن ہوتی ہے اور جب جاہل بوڑھا ہوتا ہے تو اسکی جہالت جوان ہوتی ہے۔٢٥۔ امام علی )ع(: انسان میں عقل اور نادانی کا غلبہ اٹھارہ برس تک ہوتا ہے جب پورے اٹھارہ سال کا ہو جاتا ہے تو ان دونوں میں جو چیز زیادہ ہوتی ہے وہی اس پر غالب رہتی ہے ۔٢٦۔ امام علی )ع(: بچے سات سال کی عمر میں کمسنی سے چھٹکارا پاتے ہیںنو سال کی عمر میں انہیں نماز کاحکم دیا جاتا ہے ، دس سال کی عمر میں ان کا سونے کا بستر جدا کر دیا جاتا ہے چودہ سال کی عمر میں بالغ ہوجاتے ہیںاور اکیس سال کی عمر تک قد بڑھتا ہے اور اٹھائیس سال کی عمر تک عقل بلا کسی تجربہ کے رشد کرتی ہے ۔٢٧۔ امام علی )ع(: بچے سات سال کی عمر میں بچپنے کی منزل سے نکلتے ہیں ، چودہ سال کی عمر میں بالغ ہوتے ہیں اور چوبیس سال کی عمر تک قد بڑھتا ہے اور اٹھائیس سال تک عقل کامل ہوتی ہے اورجو کمال و رشد اس کے بعد آتا ہے وہ تجربہ کی بدولت ہے ۔٢٨۔ امام علی )ع(: بچے سات سال میں پرورش پاتے ہیں، سات سال میں تربیت پاتے ہیں، سات سال میں ان سے کام لیا جاتاہے اورتیئیس سال تک قد بڑھتا ہے …، اور عقل کی رشد پینتیس سال تک ہوتی ہے اس کے بعد جو (عقلی رشد) ہوتا ہے وہ تجربات کی دین ہے ۔٢٩۔ امام باقر ؑ: جب انسان بڑا ہو جاتا ہے تو اس کے دونوں اطراف کا شر ختم ہو جاتا ہے جبکہ دونوںکی خوبی و نیکی باقی رہتی ہے ۔ اسکی عقل ثابت اور رائے پختہ ہو جاتی ہے اور جہالت کم ہوجاتی ہے۔٣٠۔ امام صادق)ص(: انسان کی عقل چالیس سال سے پچاس ساٹھ سال تک بڑھتی ہے پھر اس کے بعد گھٹنے لگتی ہے ۔
عقل کے گھٹنے اور بڑھنے کا زمانہتعلیم و تربیت کے اہم ترین مسائل میں سے ان دونوںکے اوقات کالحاظ رکھنا ہے چونکہ جو بے وقت تعلیم و تربیت شروع کرتا ہے وہ یقیناکامیاب نہیں ہوتا۔ لہذا یہ تحقیق کرنا ضروری ہے کہ انسان میں کس عمر تک عقل بڑھتی ہے اور کب متوقف ہوتی ہے تاکہ تربیت کے لئے مناسب وقت کاانتخاب کیا جاسکے، اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے متعلق احادیث پیش کی گئی ہیں۔اس باب کی احادیث میں یہ اہمیت دی گئی ہے کہ کس عمر میں انسان کی زندگی میں کامیابی اور کس عمر میں عقلی رشد متوقف ہو جاتا ہے اور کب سے عقل کی فرسودگی کا آغاز ہوتا ہے اور فکر کس طرح ہمیشہ زندہ و پائندہ رہ سکتی ہے ۔
الف۔ تقدیر ساز موڑپچیسویں حدیث میں انسان کی زندگی میںکامیابی اٹھارہ سال تک بیان کی گئی ہے ان اوقات میں تربیتی لحاظ سے اسکی ترقی کی سمتیں معلوم ہو جاتی ہیں یااسے عقلی قویٰ تسخیر کر لیتی ہیں۔یابوالھوسی و شہوت پرستی کا شکار ہو جاتا ہے پھر اس کے بعد انسان کے لئے اپنی راہ زندگی کا بدلنا دشوار ہو جاتا ہے ۔
ب۔رشد عقلی کا توقفچھبیسویں اور ستائیسویںاحادیث کے مطابق انسان کی فطری عقل کا رشد اٹھائیس سال کی عمر میں ٹھہر جاتا ہے اور اٹھائیسویں حدیث کے مطابق فطری عقل کا رشد پینتیس سال میں رک جاتا ہے پھر اس کے بعد عقلی قوی کا رشد تجربات کے ذریعہ ہوتا ہے ۔ج۔ عقلی فرسودگی کا آغازتیسویں حدیث کے مطابق انسان میں عقلی قوی کا رشد ساٹھ سال تک ممکن ہے پھر اس کے بعد عقل کی فرسودگی کا آغاز ہوتا ہے قرآن مجید نے بھی عقلی فرسودگی کے آغاز کے وقت کو دقیق طور پر ذکر کئے بغیر دو آیتوں میں بڑھاپے کے عالم میں انسانی قوائے ادراک کے مضمحل ہونے کا ذکر کیا ہے ۔
د۔ بڑھاپے میں عقل کا شبابانیسویں اور چوبیسویں حدیث میں بڑھاپے میں عقل کے قوی و جوان ہونے کو مد نظر رکھا گیا ہے عقلمند کی عقل بڑھاپے کی حالت میںگھٹنے اور فرسودہ ہونے کے بجائے مزیدقوی اور جوان ہوتی ہے لہذا دوسری روایت میں علی )ع( سے منقول ہے:رأی الشیخ أحبُّ الی ّ من جلد الغلام۔ایک بوڑھے کی رائے میرے نزدیک جوان کی ہمت سے زیادہ محبوب ہے ۔دوسری حدیث میں اس طرح نقل ہواہے :رأی الشیخ احب الیّ من حیلۃ الشاب۔بوڑھے کی رائے میرے لئے جوان کی تدبیر سے زیادہ محبوب ہے ۔لیکن جاہل کی نادانی بڑھاپے میںکم ہونے کے بجائے بڑھ جاتی ہے لہذا بڑھاپے میں ان کی عقل فرسودہ ہوتی ہے کہ جنہوں نے جوانی میں عقل کی تقویت کے اسباب مہیا نہیں کئےے تھے۔آخر میں اس موضوع کی ترتیب وار روایات کی وضاحت کے متعلق چند نکات اہمیت کے حامل ہیں:
١۔ مفہوم عقل کی طرف توجہان روایات میں غور خوض کرنے سے پتا چلتا ہے کہ ان تمام روایات میں عقل کا مقصد یکساں نہیںہے ۔ بلکہ ‘الف’اور ‘دال’میں عقل سے مراد عقل عملی اور ‘ب’ و ‘ج’ میں معانی عقل میں سے پہلے معنی یعنی معرفت و آگاہی کی استعداد مقصود ہے ۔
٢۔ روایات’ب’ کا اختلافعقل فطری کا رشد اکیسویں اور بائیسویں روایات میں اٹھائیس سال بعد اور تیئیسویں روایت میں پینتیس سال بعد موقوف ہوتا ہے ۔ ان روایات کے صحیح ہونے کی صورت میں اختلاف روایات کو راوی کے مختلف ہونے کی وجہ سے فرض کیا جائیگا۔
٣۔ تحقیق کی ضرورتاس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اس باب کی روایات کا سند کے لحاظ سے معتبر ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ معصوم سے ان کے صدور کے اثبات کے لئے قرائن و شواہد کے اعتبار سے تحقیق ضروری ہے تاکہ روایات کے اختلاف کو اشخاص کے اختلاف پر حمل کیا جا سکے، امید ہے کہ مرکز تحقیقات دار الحدیث اس تحقیق کے مقدمات کو فراہم کریگا۔
٤۔ عقلی رشد کی کمی و بیشی کے اسبابزندگی کے مختلف پہلووئں میں سے ایک عقل کی کمی و بیشی یا رشد عقلی ہے نیز اس سلسلہ کے دوسرے عوامل پانچویں فصل میں ‘تقویت عقل کے اسباب’ کے عنوان سے موجود ہیں اور چھٹی فصل میں ‘ عقل کے آفات’ کے عنوان سے ذکر کئے جائیں گے۔