رسول اکرم (ص) کی زندگانی وحدت اسلامی کا سبب

543

خداوند تعالی نے اپنے لطف و احسان کے ذریعے اپنے حبیب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نبی صادق و امین کو انسانیت کی رہنمائی کے لیے بھیجا۔ اس عظیم الشان و بابرکت ہستی  نے اپنی مختصر مدتِ رسالت میں عالم انسانیت کو وحی الہٰی اور عمل کے ذریعے بے مثال پیغام پہنچایا۔ اس عظیم پیغام کی بدولت امت اسلام پوری دنیا پر چھا گئی اور مسلمان سربلند اور باعزت ہوئے۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے  یہاں اپنی عقیدت کا اظہار ان لفظوں  میں کیا۔ اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی وحدت و الفت کے پیغام سے سرشار ہے۔  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو  ہمیشہ  وحدت و الفت  کی تاکید فرمائی۔  جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے؛” امت مسلمہ ایک جسم واحد کی مانند ہے کہ جب کسی ایک حصہ کو تکلیف  ہوتی ہے تو سارا جسم اس درد کو محسوس کرتا ہے۔ “مسلمان آج بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے عظیم اصولوں کو اپنے ساتھ رکھ کر اتحاد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اہل تشیع اور اہل تسنن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے موقع پر ہفتہ وحدت مناتے ہیں کیونکہ اکثر اہل تسنن علماء و مورخین  کے نزدیک آپ کی ولادت باسعادت 12 ربیع الاول ہے جبکہ اکثر اہل تشیع علماء کے نزدیک  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت  17 ربیع الاول کو ہوئی ہے۔ ان دونوں تاریخ کے حوالے سے  مختلف روایات موجود ہیں۔ ولادت باسعادت اور برکات: حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات موجود ہیں۔ اہل سنت کے نزدیک زیادہ روایات 12 ربیع الاول کی ہیں اگرچہ کچھ علماء 9 ربیع الاول کو درست مانتے ہیں۔ اہلِ تشیع 17 ربیع الاول کو درست مانتے ہیں لیکن اس بات پر متفق ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ولادت ایک عام الفیل سن 570ء میں ربیع الاول کے مبارک مہنیے میں بعثت سے چالیس سال پہلے مکہ میں ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت ایسی برکات و معجزات نمودار ہوئے جن کا تزکرہ قدیم آسمانی کتب میں ہے مثلاً آتشکدہ فارس جو ھزار سال سے بھی زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود روشن تھا، بجھ گیا۔ حدیث کی معروف کتاب مشکوٰۃ کی ایک حدیث کے مطابق حضوراکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ “میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔ ۔ ۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے”۔ جس سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھے مگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئیں، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا یہ نام اس سے پہلے کسی نے نہیں رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت مکہ کے علاقے شعب ابی طالب کے جس گھر میں ہوئی وہ بعد میں کافی عرصہ ایک مسجد رہی جسے آج کل ایک کتاب خانہ بنا دیا گیا ہے۔ بچپن اور آپ کی تربیت: آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بچپن عام بچوں کی طرح نہیں گذرا بلکہ آپ (ص) میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ آپ کے والد محترم حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے چھ ماہ قبل وفات پا چکے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کی۔ اس وقت عرب کا رواج تھا کہ جو بھی بچہ پیدا ہو اسے کسی اور قبیلے کے حوالہ کردیتے تاکہ وہ اس ماحول سے فصیح عربی سیکھے اور کھلی آب و ہوا میں صحت مند بن جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ مدت ایک قبیلہ کے ساتھ بسرکی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت حلیمہ سعدیہ اور حضرت ثوبیہ نے دودھ پلایا۔ چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ اور آٹھ سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا بھی وفات پا گئے۔ اس کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داری آپ کے چچا حضرت ابوطالب نے لے لی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابوطالب کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران ایک بحیرا نامی عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی گئی تھیں۔ اس نے حضرت ابو طالب کو بتایا گیا کہ اگر شام کے یہود و نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے تو حضرت ابوطالب نے سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔ کامیاب تجارت: آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حجاز سے شام کی جانب لوگوں کا مال تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تقریباً 25 سال کی عمر میں  شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے آپ کو ایک ایماندار اور کامیاب تاجر ثابت کیا۔ اس سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں۔ یہ باتیں سن کر حضرت خدیجہ بہت متاثر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو شادی کا پیغام دیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو طالب کے مشورے سے قبول کر لیا۔ بعثت اور وحی کا سلسلہ: حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پہلی وحی غار حرا میں نازل ہوئی۔ پہلی وحی  میں قرآن مجید کی سورہ علق کی پہلی پانچ آیات نازل ہوئیں۔  اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عمر مبارک تقریباً چالیس برس تھی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ظاہری طور پر بھی تبلیغ کا سلسلہ شروع کیا۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے قریبی ساتھیوں میں تبلیغ کی پھر تقریباً پہلی وحی کے تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت ذوالعشیرہ کے بعد سے اسلام کے پیغام کی کھلی تبلیغ شروع کی۔ اکثر لوگوں نے پہلے تو مخالفت کی مگر بعد میں کچھ لوگ آہستہ آہستہ اسلام کی دعوت قبول کرتے گئے۔ شعب ابی طالب اور عام الحزن: جیسے جیسے اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی مختلف قبائل نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے لئے خطرہ سمجھنا شروع کردیا، چونکہ ان کی دولت اور عزت کعبہ کی وجہ سے تھی۔ اگر وہ اپنے بت کعبے سے باہر پھینک کر ایک اللہ کی عبادت کرنے لگتے تو انہیں خوف تھا کہ تجارت کا مرکز ان کے ہاتھ سے نکل جاۓ گا اس خوف سے  قبائل نے ایک معاہدہ کے تحت مسلمانوں کا معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا یہاں تک کہ مسلمان تین سال شعبِ ابی طالب میں محصور رہے۔ یہ بائیکاٹ اس وقت ختم ہوا جب کعبہ پر لٹکے ہوئے معاہدے میں یہ دیکھا گیا کہ لفظ اللہ کے علاوہ تمام حروف دیمک کھائے گئے ہیں۔ جب مخالفت حد سے بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حبشہ طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ اس معاشرتی حصار بندی کے عالم میں 619ء کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ اور آپ کے پیارے چچا حضرت ابوطالب انتقال فرما گئے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سال کو عام الحزن یعنی دکھ کا سال قرار دیا۔ معراج: 27 رجب المرجب  620ء میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے اس سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مکہ سے مسجد اقصٰی تک لے جایا گیا۔ معراج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات کا عروج و کمال ہے۔ یہ وہ عظیم خارقِ عادت واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفّل دروازوں کو کھولنے کی اِبتداء کی۔ رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ ربّ العزّت حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجدِ اَقصیٰ تک بلکہ بلند مقاماتِ جلیلہ تک لے جایا گیا اور مدّتوں وہاں قیام کے بعد اُسی قلیل مدّتی زمینی ساعت میں اِس زمین پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ جلوہ اَفروز بھی ہو گئے۔ معراج کا عظیم سفر قرآن کریم کے سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں  یوں بیان ہوا ہے۔ “پاک ہے وہ ذات جو ایک رات اپنے بندے کو مسجدالحرام سے مسجد اقصیٰ  تک لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکتیں رکھی ہیں تاکہ ہم اسے اپنی (قدرت کی) بعض نشانیاں دکھائیں۔ بےشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے”۔ (سورۃ بنی اسرائیل آیت1)
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.