اسلامی رسالت کے بعض نقوش

166

رسول ۖ کس چیز کے ساتھ مبعوث کئے گئے؟(١)اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد مصطفی ۖ کو خاتم الانبیاء اور ان سے پہلے والے مرسلین کی شریعت کو منسوخ کرنے والا بنا کر اس وقت مبعوث کیا جب رسولوں کی آمد کا سلسلہ منقطع ہو چکا تھا اس وقت مشرق سے مغرب تک خرافات و احمقانہ باتوں کا رواج تھا۔ بدعتیں ، برائیاں اور بت پرستی کا دور تھا۔ اس وقت آپ ۖکو تمام کالے ، گورے عرب و عجم کے تمام لوگوں کی طرف نبی ۖ بنا کر بھیجا۔رسولۖ دنیا کے سامنے آئے دنیا والوں کو اس ایک خدا پر ایمان لانے کی دعوت دی جو خالق، رازق اور ہر امر کا مختار ہے ، نفع و ضرر اسی کے ہاتھ میں ہے، اور ملک میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں ہے اور نہ ہی کمزوری کی بنا پر کوئی اس کا سرپرست ہے اور نہ کوئی اس کی بیوی ہے ، نہ اس کی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے ، کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں ہے۔خدا نے آپۖ کو اس لئے بھیجا تاکہ آپۖ لوگوں کو اس خدا کی عبادت کا حکم دیں جو ایک ہے اوروحدہ لا شریک ہے اور بتوں کی پوجا کو باطل قرار دیں کہ جو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ فائدہ ، نہ کچھ سمجھتے ہیں نہ کچھ سنتے ہیں، نہ اپنا دفاع کر سکتے ہیں نہ اپنے غیر کا، مکارم اخلاق کی تکمیل اور صفات حسنہ پر ابھارنے کے لئے بھیجا، آپ ہر نیکی کا حکم دینے والے اور ہر برائی سے روکنے والے تھے۔…………..١۔ یہ بحث سید محسن الامین عاملی نے اپنی کتاب اعیان الشیعة میں سیرت نبی ۖ کے ذیل میں کی ہے۔
شریعت اسلامی کی عظمت و آسانیبعض لوگ ‘لاالٰہ الا اللّہ ، محمد رسول اللّہ’ کہنے، نماز پڑھنے، زکات دینے، ماہ رمضان کا روزہ رکھنے، خانۂ کعبہ کا حج کرنے اور اسلام کے احکام کی پابندی کو کافی سمجھتے ہیں۔ اور سوچتے ہیں کہ مسلمانوں کے نفع و ضرر میں شامل ہونے کے لئے ان دو کلموں ‘لاالٰہ الا اللّہ محمد رسول اللّہ’ کا کہنا کافی ہے ۔
اسلامی قوانین کا امتیازآپ کواس لئے مبعوث کیا گیا تاکہ آپۖ تمام مخلوقات کے درمیان مساوی طور پر حقوق تقسیم کریں اور یہ بتائیں کہ کوئی کسی سے بہتر نہیں ہے مگر یہ کہ پرہیزگار ہو،آپۖ کو مومنین کے درمیان اخوت قائم کرنے اور انہیں ایک دوسرے کے برابر قرار دینے کے لئے بھیجاگیا، ان سب کا خون برابر ہے اور اگر ان میں سے کسی چھوٹے نے کسی کو پناہ دیدی تو سب کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کریں اور اسلام میں داخل ہونے والے کے لئے عام معافی ہے ۔آپ نے واضح اور روشن شریعت، عدل پر مبنی قانون جو آپ کو خدا کی طرف سے ملا تھا، دنیا کے سامنے پیش کیا، یہ قانون ان کے عبادی اور تجارتی ومعاملات سے متعلق احکام کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے بلکہ دنیا و آخرت میں انسان کو جس چیز کی بھی ضرورت ہو سکتی ہے وہ سب اس میں موجود ہے ۔ یہ عبادی، اجتماعی، سیاسی اور اخلاقی قانون ہے ، اس نے ایسی کسی چیز کو نظرانداز نہیں کیا ہے جو بشر کی زندگی میں رونما ہو سکتی ہے یا جس کی انسان کو ضرورت ہو سکتی ہے ، پس جو واقعہ وقوع پذیر ہوتا ہے یا جو حادثہ رونما ہوتا ہے مسلمانوں کے پاس شریعت اسلامیہ میں اس کا ایک قانون و حکم موجود ہوتاہے ، جس سے رجوع کیا جا تا ہے ۔دین اسلام کی عبادتیں محض عبادت ہی نہیں ہے بلکہ ان کے جسمانی، اجتماعی اور سیاسی فوائد بھی ہیں، مثلاً طہارت سے پاکیزگی کا فائدہ ملتا ہے ، اور نماز ایک روحانی و معنوی جسمانی ورزش ہے ، نماز جماعت اور حج میں اجتماعی اور سیاسی فوائد ہیں، روزہ میں صحت و تندرستی کے ایسے فوائد ہیں جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ مختصر یہ کہ اسلامی احکام کے ظاہری فوائد کو بھی شمار کرنا دشوار ہے چہ جائیکہ اس کے مخفی فوائد کو بیان کیاجائے۔اس دین کی بہت سی خوبیاں ہیں، اس کے احکام عقل کے مطابق ہیں،یہ آسان ہے ، اس میں تنگی و سختی نہیں ہے اور چونکہ یہ اظہار شہادتین کو کافی سمجھتا ہے اور اس میں بلندی دور اندیشی اور جد و جہد کی تعلیم ہے اس لئے لوگ گروہ در گروہ اس میں داخل ہوتے ہیں اور دنیا کے اکثر ممالک پر اس کے ماننے والوں کی حکومت ہے اس کانور مشرق و مغرب میں چمک رہا ہے روئے زمین پر بسنے والے اکثر ممتاز ممالک اس کے پرچم کے نیچے آ گئے ہیں اور اکثر قومیں لسانی اور نسلی اختلاف کے باوجود اس کے قریب آ گئی ہیں۔زیادہ مدت نہیں گزری تھی کہ وہ شخص جو مکہ سے خفیہ طور پر نکلا، جس کے اصحاب کو سزا دی جاتی تھی، جنہیں ذلیل سمجھا جاتا تھا، جنہیں ان کے دین سے روکا جاتا تھا نتیجہ میں کبھی وہ مخفی طریقہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کرتے اور کبھی چپکے سے مدینہ چلے جاتے تھے، وہی اپنے انہیں اصحاب کے ساتھ عمرہ قضا یعنی مکہ میں علیٰ الاعلان داخل ہوتا ہے اور قریش نہ اسے پیچھے ڈھکیل سکتے ہیں اور نہ داخل ہونے سے روک سکتے ہیں پھر تھوڑے ہی دن بعد اہل مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوتا ہے اور بغیر کسی خونریزی کے اہل مکہ پر تسلط پاتا ہے، اس کے بعد وہ طوعاً و کرہاً، اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور عرب کے سردار اپنی زمام اطاعت آپۖ کے اختیار میں دینے کے لئے آپۖ کی خدمت میں وفد بھیجتے ہیں حالانکہ اس فتح سے پہلے اتنی طاقت ہو گئی تھی کہ آپۖ نے دنیا کے بادشاہوں ، قیصر و کسریٰ وغیرہ کے پاس اپنے سفیر روانہ کئے تھے اور انہیں اسلام کی دعوت دی تھی خصوصاً ملک قیصر کو جو کہ بہت دور تھا۔ الغرض تمام ادیان پر ان کا دین غالب آ گیا جیسا کہ ان کے رب نے وعدہ کیا تھا جس کا ذکر سورۂ نصر اور فتح و غیرہ میں موجود ہے اور تاریخ کی کتابوں سے بھی ہمیںیہی معلوم ہوتا ہے ۔تلوار اور طاقت سے یہ دین نہیں پھیلا ہے جیسا کہ بعض دشمنوںکا خیال ہے بلکہ حکمِ خدا (ادعُ الیٰ سبیل ربک بالحکمة و الموعظة الحسنة و جادلھم بالتی ھی احسن)۔ (١)حکمت اور بہترین نصیحتوں کے ذریعہ انہیں اپنے رب کے راستہ کی طرف بلایئے اور ان سے شائستہ طریقہ سے بحث کیجئے۔…………..١۔ النحل:١٢٥۔اہل مکہ اور تمام اعراب سے آپۖ نے جنگ نہیں کی بلکہ انہوں نے آپۖ سے جنگ کی تھی انہوں نے آپۖ کے قتل اور آپۖ کو وطن سے نکالنے کا منصوبہ بنایا تھا حالانکہ آپۖ نے اہل کتاب کو ان کے دین ہی پر باقی رکھااور اسلام قبول کرنے کے لئے ان پر جبر نہیں کیا۔
قرآن مجیدجس وقت خدا نے آپۖ کو نبوت سے سر فراز کیا اسی وقت آپۖ پر قرآن نازل کیا جو واضح ہے اور عربی میں ہے باطل اس میں کسی بھی طرف سے داخل نہیں ہو سکتا، اسی کے ذریعہ رسولۖ نے(عرب کے) بڑے بڑے فصحاء اور بلغاء کو عاجز کیا اور اسی کے ذریعہ انہیں چیلنج کیا لیکن وہ اس کا جواب نہیں لا سکے جبکہ وہ عرب کے سب سے بڑے فصیح تھے بلکہ فصاحت و بلاغت انہیں پر منتہی ہوتی تھی اس کتابِ عزیز میں، جو کہ حکمت اور علم والے (خدا) کی طرف سے نازل ہوئی ہے ، دین کے احکام، گذشتہ لوگوں کے حالات ، تہذیب و اخلاق، عدل کا حکم ، ظلم سے ممانعت اور ہر چیز کا واضح بیان ہے ۔ اور جو چیز اسے دوسری آسمانی کتابوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر دور اور ہر زمانہ میں اس کی تلاوت ہوتی رہے گی اور اس کی تازگی اپنی جگہ باقی رہے گی۔ اپنے بیان سے یہ لوگوں کو حیرت زدہ کرتی رہے گی اس کی تلاوت سے طبیعتیں نہیں تھکیں گی خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو اور اس کا زمانہ پر انا اور فرسودہ نہیں ہوگا۔یقینا قرآن معجزہ ہے ، اس کے ذریعہ آپۖ نے جاہلوں کی جاہلیت کے گھپ اندھرے میں علمی و ثقافتی انقلاب پیدا کیا ااور اپنی تحریک کی بنیاد مضبوط علمی پایوں پر استوار کی، لوگوں کو علم حاصل کرنے پر اکسایا اور اسے ، انسان کے شایان شان کمال کی طرف بڑھنے کا اوّلین سبب قرار دیا۔ انسان کوغور و فکر اور تجربہ کے حصول پر ابھارا ، طبیعت کے ظواہر کی تحقیق اور اس میں غور کرنے کی ترغیب دی تاکہ وہ اس کے قوانین اور اس کی سنتوں کو کشف کر سکے اور انسان کے لئے ہر اس علم کا حاصل کرنا واجب قرار دیا کہ جس پر انسان کی اجتماعی زندگی کا دار مدار ہو ، نظری علوم، کلام، فلسفہ، تاریخ اور فقہ و اخلاق، کو اہمیت دی، تقلید اورظن و گمان کی پیروی سے روکااور دلیل و برہان سے تمسک کرنے کا حکم دیا۔اسی طرح قرآن مجید نے کوشش، جدو جہد اور نیک کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت کرنے کی ترغیب دی، سستی اورکاہلی سے روکا، اتحاد کی دعوت دی اختلاف ، قومی فخرومباحات اور خاندانی تعصب سے منع کیا۔خلق، تکوین و تشریع، ذمہ داری و زمام داری اور جزاء و سزا میں اسلام نے عدل کو بنیاد قرار دیا ہے اور سب سے پہلے اسلام نے یہ آواز بلند کی کہ خدا کے قانون اور اس کی شریعت کے سامنے سارے انسان مساوی ہیں ۔ طبقہ بندی اور نسلی امتیاز کو لغو قرار دیا اور معنوی چیز تقوے اور نیکی میں سبقت کرنے کو خدا کے نزدیک فضیلت کا معیار مقرر کیا جبکہ انسانی معاشرہ میں اس فضیلت کو بھی طبقات کے امتیاز کا سبب نہیں گردانا۔امن و امان قائم رکھنے، جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے اسلام نے بہت زور دیا ہے اور عدل و امان کے لئے زمین ہموار کرنے کے بعد اگر کوئی امن شکنی کرے گا تو اس کیلئے، سخت سزا مقرر کی ہے ، اس اجتماعی مرض کے علاج کے لئے سزا کو آخری دوا قرار دیا ہے وہ بھی ایسی سزا جو انسان کی حریت سے ہم آہنگ ہو۔یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ کے قضا و فیصلہ کا دارمدار عدل و امن اور جائز حقوق کے اثبات پر ہے اور اس کے لئے پوری ضمانت لی ہے ۔اسلام نے بدن و نفس کی صحت کو محفوظ رکھنے پر بہت زور دیا ہے اور اپنے تمام قوانین کو اس اصل کے مطابق رکھا ہے کیونکہ حیات میں یہ اہمیت کی حامل ہے۔
شریعت اسلامیہ میں واجب اور حرامشریعت اسلامیہ میں واجب و حرام فطری بنیاد اور ایسے امور پر مرتکز ہے جو انسان کو جاہلیت کی تاریکی سے نکالنے اور اسے کمال و حق کے نور کی ہدایت کرنے کے لئے آیا ہے ، انسانیت کو اگر کسی ایسی چیز کی ضرورت ہے کہ جس پر بشری کمال موقوف ہو تو شریعت اسلامیہ میں اس چیز کو انسان پر واجب قرار دیا گیا ہے اور اس تک پہنچنے کے لئے راستے بتائے گئے ہیں اور ہر اس چیز کو حرام کیا گیا ہے جو انسان کوحقیقی سعادت سے دور کرتی ہے اور بد بختی کے غار میں گرانے والے ہر راستے کو بند کر دیا گیا ہے ۔اور جن چیزوں سے شریعت کے اصولوں میں رخنہ نہیں پڑتا ہے اور جو چیزیںبشری کمال کی راہ میں مانع نہیں ہیں اور دنیوی زندگی کی لذتوں اور زینتوں کا باعث ہیں انہیں مباح کیا گیا ہے ۔ اور جو چیز انسان کے لئے مضر ہوتی ہے اسے حرام کر دیا جاتا ہے جس کا امتثال انسان کے لئے ضروری ہوتا ہے اسے اس پر واجب کر دیا جاتا ہے ان تمام باتوں کے باوجود شریعت نے مکارم اخلاق کو بنیادی مقاصد سمجھا ہے جن کا ایک پاکیزہ سلسلہ ہے اور عقلمند انسان کے لئے اس دنیا کی زندگی میں جن کو حاصل کرنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اس دنیا میں سعادت اور نیک بختی تک پہنچ جائیں اور انہیں کے ذریعہ انسان آخرت کی ابدی، دنیا میں زندہ رہے۔عورت کا اسلام نے خاص خیال رکھا ہے اسے خاندان کا بنیادی رکن اور ازدواجی زندگی میں سعادت و نیک بختی کا سبب قرار دیا ہے اور اس کے لئے ایسے حقوق اور فرائض معین کئے ہیں جو اس کی عزت و کرامت اور اس کے بچوںکی کامیابی اور انسانی معاشرہ کی سعادت کی ضامن ہیں۔مختصر یہ کہ اسلام نے ایسی کسی بھی چیز کو بیان کئے بغیر نہیں چھوڑا ہے کہ جو انسانی معاشرہ کی ترقی میں کام آ سکتی تھی۔
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.