بصیرت اور عمل

285

(یزکّیھم ویعلّمھم الکتاب والحکمة)(١)’ان کے نفوس کو پاک کرے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے’مناسب ہوگا کہ چند لمحے ٹھہرکر ہم خود (تزکیہ )کے بارے میں بھی غور کریں اور دیکھیں کہ تزکیۂ نفس کیسے ہوتا ہے ؟رہبا نیت کے قائل مذاہب میں تزکیہ کا مطلب یہ ہے کہ گوشہ نشینی کی زندگی بسر کی جائے اور حیات دنیوی سے فرار اختیار کیا جائے اس طرح تزکیہ کا خواہشمند انسان جب اپنی ہویٰ وہوس اور خواہشات نفسانی اور فتنوں سے پرہیز کرے گا تو اسکا نفس پاکیزہ ہوجا ئے گا لیکن اسلامی طریقہ ٔ تربیت میں صور تحال اس کے بالکل برعکس ہے ۔اسلام تزکیہ کے خواہشمندکسی بھی مسلمان کو ہر گزیہ نصیحت نہیں کرتا کہ فتنوں سے فرار کرے خواہشات اور ہویٰ وہوس کو کچل دے بلکہ اسلام فرار کے بجائے فتنوں سے مقابلہ اور خواہشات کو کچل کر ختم کر نے کے بجائے انھیں حدا عتدال میں رکھنے کی دعوت دیتاہے ۔اسلام کا طریقۂ تربیت ،عمل کو تزکیہ کی بنیاد قرار دیتا ہے نہ کہ گوشہ نشینی ،رہبا نیت اور محرومی کو ۔اور یہی عمل بصیرت میں تبدیل ہوجاتا ہے جس طرح بصیرت عمل میں ظاہر ہوتی ہے لہٰذا…………..(١)سورئہ جمعہ آیت٢دیکھنا یہ ہوگا کہ عمل کیا ہے ؟بصیرت کسے کہتے ہیں ؟اور ان دونوں میں کیا رابطہ ہے ؟
بصیرت اور عمل کا رابطہبصیرت کے بارے میں اجمالی طور پرگفتگو ہوچکی ہے ۔۔یہاں عمل سے مراد ہروہ سعی و کو شش ہے جس کو انسان رضائے الہی کی خاطر انجام دیتا ہے اس کے دورخ ہوتے ہیں ایک مثبت ،یعنی اوا مرخدا کی اطاعت اور دوسرا سلبی یعنی اپنے نفس کو حرام کا موں سے محفوظ رکھنا ۔ اس طرح عمل سے مرادیہ ہے کہ خوشنودی پر وردگار کی خاطر کوئی کام کرے چاہے کسی کام کو بجا لا یا جائے اور چا ہے کسی کام سے پر ہیز کیا جائے ۔بصیرت اور عمل کے درمیان دوطرفہ رابطہ ہے ۔ بصیرت عمل کا سبب ہوتی ہے اور عمل ،بصیرت کا ۔۔۔اور دونوں کے آپسی اور طرفینی رابطے سے خود بخود بصیرت اور عمل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے عمل صالح سے بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے اور بصیرت میں زیادتی عمل صالح میں اضافہ کا سبب بنتی ہے اس طرح انمیں سے ہر ایک دوسرے کے اضافہ کا موجب ہوتا ہے یہاں تک کہ انسان انھیں کے سہارے بصیرت وعمل کی چوٹی پر پہونچ جاتا ہے ۔
١۔ عمل صالح کا سرچشمہ بصیرتبصیرت کا ثمر ہ عمل صالح ہے ۔اگر دل وجان کی گہرائیوں میں بصیرت ہے تو وہ لامحالہ عمل صالح پر آمادہ کر ے گی بصیرت کبھی عمل سے جدا نہیں ہوسکتی ہے روایات اس چیز کو صراحت سے بیان کرتی ہیں کہ انسان کے عمل میں نقص اورکوتاہی دراصل اس کی بصیرت میں نقص اورکوتاہی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔اس سلسلہ میں چند روایات ملا حظہ فرما ئیں ۔پیغمبر اکرم ۖنے جبرئیل امین سے نقل فرما یا ہے :(الموقن یعمل ﷲکأنہ یراہ،فان لم یکن یریٰ اﷲ فان اﷲ یراہ)(١)’درجۂ یقین پر فائز انسان اﷲ کیلئے اس طرح عمل انجام دیتا ہے جیسے وہ اﷲکو دیکھ رہا ہے اگر وہ اﷲکو نہیں دیکھ رہا ہے تو کم از کم اﷲ تو اس کو دیکھ رہا ہے ‘مولائے کائنات سے منقول ہے :(یُستدل علیٰ الیقین بقصرالامل،واخلاص العمل،والزھد فی الدنیا)(٢)’آرزووں کی قلت، اخلاص عمل اور زہد، یقین کی دلیلیں ہیں’آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :(التقویٰ ثمرةالدین،وأمارةالیقین)(٣)’تقویٰ دین کا ثمر ہ اور یقین کا سردار ہے’نیز آپ سے مروی ہے:(من یستیقن،یعملْ جاھداً)(٤)’صاحب یقین بھر پور جدوجہد کے ساتھ عمل انجام دیتا ‘امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :(ان العمل الدائم القلیل علیٰ الیقین،أفضل عنداﷲ من العمل الکثیرعلیٰ غیریقین)(٥)…………..(١)بحارالانوارج ٧٧ص٢١ ۔(٢)غرر الحکم ج ٢ص ٣٧٦۔(٣)غررالحکم ج١ص٨٥۔(٤)غررالحکم ج٢ص١٦٦۔(٥)اصول کافی ج٢ص٥٧۔’یقین کے ساتھ مسلسل تھوڑا عمل کرنااﷲکے نزدیک یقین کے بغیربہت زیادہ عمل سے افضل ہے ‘آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:(لاعمل الابیقین،ولایقین الابخشوع)(١)’یقین کے بغیر عمل اور خشوع کے بغیر یقین بے فا ئدہ ہے ‘آپ نے ارشاد فرمایا :(العامل علیٰ غیربصیرةکالسائر علیٰ سراب بقیعة لا یزیدہ سرعةالسیر الابعدا)(٢)’بصیرت کے بغیر عمل انجام دینے والا ایسا ہے جیسے سراب کے پیچھے دوڑنے والا کہ اسکی تیزی اسے منزل سے دور ہی کرتی جاتی ہے ‘صادق آل محمد کا ہی یہ بھی فرمان ہے :(انکم لا تکونون صالحین حتیٰ تعرفوا،ولا تعرفون حتیٰ تصدقوا ولاتصدقون حتیٰ تسلموا)(٣)’تم اس وقت تک صالح نہیں ہو سکتے جب تک معرفت حاصل نہ کرلو اور یقین کے بغیر معرفت اور تسلیم کے بغیر تصدیق حاصل نہ ہو گی ‘یعنی تصدیق معرفت اور معرفت، عمل صالح کاذریعہ ہےامام جعفر صادق سے مروی ہے :…………..(١)تحف العقول ص٢٣٣۔(٢)وسائل الشیعہ ج ١٨ ص ١٢٢ح٣٦۔(٣)بحارالانوار ج ٦٩ ص١٠۔(لایقبل عمل الا بمعرفة،ولامعرفة الا بعمل،فمن عرف دلّتہ المعرفة علیٰ العمل)(١)’معرفت کے بغیر کو ئی عمل قابل قبول نہیں ہے اور عمل کے بغیر معرفت بھی نہیں ہو سکتی جب معرفت حاصل ہو جاتی ہے تو معرفت خود عمل پر ابھارتی ہے ‘امام محمد باقر کا ارشاد ہے :(لایقبل عمل الابمعرفة،ولامعرفة الا بعمل،ومن عرف دلّتہ معرفتہ علیٰ العمل ،ومن لم یعرف فلا عمل لہ)(٢)’معرفت کے بغیر عمل قبول نہیں ہوتا اور عمل کے بغیر معرفت حاصل نہیں ہوتی جب معرفت حاصل ہوجاتی ہے تووہ خود انسان کو دعوت عمل دیتی ہے جس کے پاس معرفت نہیں ہے اس کے پاس عمل بھی نہیںہے’

٢۔بصیرت کی بنیاد عمل صالحابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ عمل صالح کی بنیاد بصیرت ہے اسی کے با لمقابل بصیرت کا سرچشمہ عمل صالح ہے ۔دوطرفہ متبادل رابطوں کے ایسے نمونے آپ کواسلامی علوم میں اکثر مقامات پر نظر آئیں گے ۔قرآن کریم عمل صالح اور بصیرت کے اس متبادل اور دوطرفہ رابطہ کا شدت سے قائل ہے اور بیان کرتا ہے کہ بصیرت سے عمل اور عمل صالح سے بصیرت حاصل ہوتی ہے اور عمل صالح کے ذریعہ ہی انسان خداوندعالم کی جانب سے بصیرت کا حقدار قرار پاتا ہے ۔(والذین جاھدوا فینا لنھدینّھم سُبُلَنا وان اﷲ لمع المحسنین )(٣)…………..(١)اصول کافی ج١ ص٤٤۔(٢)تحف العقول ص٢١٥۔(٣)سورئہ عنکبوت ٦٩۔’اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور یقینااﷲحسن عمل والوں کے ساتھ ہے ‘آیت واضح طورپر بیان کر رہی ہے کہ جہاد (جوخود عمل صالح کا بہترین مصداق ہے )کے ذریعہ انسان ہدایت الہی کو قبول کرنے اور حاصل کرنے کے لائق ہوتا ہے ۔(لنھدینّھم سبلنا)(١)’ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کرینگے ‘حدیث قدسی میں پیغمبر اکرم ۖسے مروی ہے :(لایزال عبدی یتنفّل لی حتیٰ اُحبّہ ، فاذا أحببتہ کنت سمعہ الذی بہ یسمع، وبصرہ الذی یبصر بہ،و یدہ التی بھا یبطش)(٢)’میرا بندہ مجھ سے نزدیک ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کر نے لگتا ہو ں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن کے ذریعہ وہ سنتا ہے اسکی…………..(١)خداوند عالم ہمارے شیخ جلیل مجاہد راہ خدا شیخ عباس علی اسلامی پر رحمت نازل کرے میں ان سے اکثر یہ سنا کرتا تھا :کہ انسان کو ہر حرکت کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہو تی ہے جن کا بدل ممکن نہیں ہے ایک تو وہ اس چیز کا محتاج ہوتا ہے جو تحرک میں اس کی مدد کر ے اور حرکت کی تکان کو ہلکا کردے اور اسے ایسی طاقت و قوت عطا کرے جس سے وہ اپنی حرکت کو جاری رکھ سکے اور دوسرے اس چیز کا محتاج ہوتا ہے جو اسے صحیح راستہ کی رہنمائی کرتی رہے تا کہ وہ راستہ سے بھٹکنے نہ پائے یعنی اسے ایسی قوت وطاقت کی ضرورت ہو تی ہے جو ہدایت اور بصیرت کے مطابق اس کی حرکت کا راستہ معین کرے تاکہ وہ صراط مستقیم پر چلتا رہے اور انہیں دونوں چیزوں کا وعدہ ہم سے پروردگار عالم نے سورئہ عنکبوت کی آخری آیت میں فر مایا ہے :(والذین جاھدوافینالنھدینھم سبلناوانّ اللّٰہ لمع المحسنین )پس جو لوگ خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہیں پروردگار عالم ان کو پہلے تو پشت پناہی اور قوت و طاقت عطا کرتا ہے اور یہی خدا کی معیت ہے ‘ انّ اللّٰہ لمع المحسنین) اور دوسرے ان کوبصیرت و ہدایت عطا کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے (لنھدینھم سبلنا)۔(٢)اصول کافی ج٢ص٣٥٢۔آنکھیں بن جاتا ہوں جنکے ذریعہ وہ دیکھتا ہے اسی کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن کے ذریعہ وہ چیزوں کو چھوتا ہے ‘یہ بہت ہی مشہور ومعروف حدیث ہے تمام محدثوں ،معتبرراویوں اور مشایخ حدیث نے اس حدیث قدسی کو نقل کیا ہے نقل مختلف ہے مگر الفاظ تقریباً ملتے جلتے ہیں اور روایت صحیح ہے اوروضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ عبادت ،معرفت ویقین کا دروازہ ہے اور بندہ قرب الٰہی کی منزلیں طے کرتارہتا ہے یہاں تک کہ اﷲ اسے بصیرت عطا کردیتا ہے پھر وہ اﷲ کے ذریعہ سنتا ہے دیکھتا ہے اور ادراک حاصل کرتا ہے ۔۔۔اور ظاہر ہے کہ جو اﷲ کے ذریعہ یہ کام انجام دے گا تو اسکی سماعت بصارت اور معرفت میں خطا کا کوئی امکان نہیں ہے ۔
 
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.