حجاز میں رسم الخط کا رائج ہونا
بلاذری اپنی کتاب “فتوح البلدان” میں حجاز کے عرب باشندوں میں رسم الخط کے رائج ہونے کے بارے میں رقمطرز ہے کہ”پہلی مرتبہ “طی” کے قبیلے کے تین افراد نے(جو شام کے نواح میں تھے) عربی رسم الخط کی ترویج کی‘ اسے متعارف کرایا اور عربی حروف تہجی کو سریانی حروف تہجی سے موازنہ کیا۔ ازاں بعد انبار کے کچھ لوگوں نے ان تین افراد سے یہ رسم الخط سیکھا‘ بعد میں حیرہ کے لوگوں نے انبار کے ان تین افراد سے اس رسم الخط کی تعلیم حاصل کی‘ پھر بشر بن عبدالملک جو “دومة الجندل” کے عیسائی مسلک امیر اکیور بن عبدالملک کا بھائی تھا‘ “حیرہ” میں آمد و رفت کے دوران “حیرہ” کے لوگوں سے اس رسم الخط کی تعلیم حاصل کی۔ بشر بن عبدالملک کندی بذات خود اپنے کسی کام سے مکہ مکرمہ گیا تو اسے سفیان بن امیہ (ابوسفیان کا چچا) اور ابوقیس بن عبدالمناف بن زہرہ نے دیکھا کہ وہ کچھ لکھ رہا ہے‘ انہوں نے اس سے کہا کہ انہیں بھی لکھنا سکھا دے اور اس نے انہیں لکھنے کی تعلیم دی۔ اس کے بعد “بشر” ان دو افراد کے ہمراہ کاروباری سلسلے میں طائف روانہ ہو گیا‘ اس طرح غیلان بن سلمہ ثقفی نے ان لوگوں سے لکھنا سیکھا‘ اس کے بعد بشر ان دونوں ساتھیوں سے جدا ہو کر مصر چلا گیا۔ عمرو بن زرارہ جو بعد میں عمرو کاتب کے نام سے مشہور ہوا‘ نے بھی اس شخص یعنی بشر سے لکھنے کا فن سیکھا۔ بعد میں بشر شام روانہ ہو گیا اور وہاں پر بے شمار افراد اس کے لکھنے کے فن سے فیضیاب ہوئے۔”ابن الندیم نے اپنی کتاب “الفہرست” میں جو ابتدائی خط کا پہلا مقالہ ہے‘ میں وہ بلاذری کی کتاب کے کچھ حصوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابن عباس سے روایت کرتا ہے کہ”پہلا عربی رسم الخط جس نے لکھا وہ قبیلہ بولان کے تین افراد تھے‘ جو کہ انبار میں رہائش پذیر ایک قبیلہ ہے اور حیرہ کے لوگوں نے انبار کے لوگوں سے خط کی تعلیم حاصل کی۔”ابن خلدون بھی اپنی مشہور کتاب “فی ان الخط و الکتابة من عداد الصنائع الانسانیة” میں بلاذری کی کچھ باتوں کی تائید اور ذکر کیا ہے۔ بلاذری اس کی صفت پیش کرتے ہوئے روایت کرتا ہے کہ”ظہور اسلام کے وقت مکہ مکرمہ میں کچھ افراد تھے جو پڑھے لکھے تھے۔”اور یہ بھی لکھتا ہے کہ”جب اسلام کا ظہور ہوا تو قریش کے صرف ۱۷ افراد لکھنا جانتے تھے‘ ان کے نام یہ ہیں:۱۔ عمرؓ بن الخطاب‘ ۲۔ علی(ع)بن ابی طالب(ع)‘ ۳۔ عثمانؓ بن عفان‘ ۴۔ ابوعبیدہ جراح‘ ۵۔ طلحہ ۶۔ یزید بن ابی سفیان‘ ۷۔ ابوحذیقة بن ربیعہ‘ ۸۔ حاطب بن عمرو عاری‘ ۹۔ ابو سلمہ محذومی‘ ۱۰۔ ابان بن سعید اموی‘ ۱۱۔ خالد بن سعید اموی‘ ۱۲۔ عبداللہ بن سعد بن ابی شرح‘ ۱۳۔ حویطب بن عبدالعزیٰ‘ ۱۴۔ ابوسفیان بن حرب‘ ۱۵۔ معاویہ بن ابی سفیان‘ ۱۶۔ جمہیم بن الصلت‘ ۱۱۔ علاء بن الحضرمی۔جن کا قبیلہ قریش کے ساتھ سمجھوتہ طے پایا ہوا تھا‘ مگر خود قبیلہ قریش سے نہ تھے۔”بلاذری صرف قبیلہ قریش کی ایک عورت کا نام بتالتا ہے جو زمانہ جاہلیت اور ظہور اسلام کے وقت لکھنا جانتی تھی۔ یہ عورت جس کا نام شفا دختر عبداللہ عذوی تھا‘ جو حلقہ بگوش اسلام ہوئیں‘ جس کا پہلی مہاجر عورتوں میں شمار ہوتا ہے۔ بلاذری کہتا ہے کہ یہ عورت وہی ہے جس نے آنحضور کی زوجہ محترمہ “حفصہ” کو لکھنا سکھایا اور ایک دن آپ نے اس سے فرمایا:الا تعلمین حفصہ رقیہ النملہ کما علمتھا الکتاب”جیسا کہ حفصہ کو لکھنا سکھایا‘ کیا اسے “رقیة النملہ” کی بھی تعلیم دے سکتی ہو اور اگر اس چیز کی تعلیم دے دو تو بہتر ہو گا۔”فتوح البلدان مطبوعہ چھاپ خانہ السعادہ‘ مصر ۱۹۵۹ء میں لفظ “رقنة النملة” لکھا گیا ہے جو کہ کتابتی غلطی ہے اور صحیح لفظ وہی ہے جیسا کہ ابن اثیر کی النہایہ میں آیا ہے یعنی “نمل” اور صحیح عبارت “رقیة النملة”۔رقیہ ان عبارتوں کو کہا جاتا تھا جن کا بلاؤں اور بیماریوں کو دور کرنے کے لئے ورد کرنا مفید سمجھا جاتا تھا۔ ابن اثیر لفظ “رقی” کے بارے میں کہتا ہے کہ آنحضور سے منقول بعض فرمودات میں “رقی” سے منع کیا گیا ہے اور بعض میں اس کی تجویز دی گئی ہے اور ابن اثیر دعویٰ کرتا ہے کہ جن احادیث میں غیر خدا سے پناہ طلب کی جائے ان سے واضح ہوتا ہے کہ انسان کا توکل خدا پر نہیں رہتا‘ لہٰذا ایسے تعویزات پر اعتماد نہ کیا جائے‘ جبکہ وہ احادیث جن میں تعویزات کی سفارش کی گئی ان میں اسماء الٰہی اور ان سے اثر حاصل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ابن اثیر لفظ “نمل” کے بارے میں کہتا ہے:”جو کچھ “رقیة النملة” میں مشہور ہے درحقیقت وہ “رقی” کی شکل نہیں ہے‘ بلکہ ایسی عبارتیں تھیں جو زبان زد خاص و عام تھیں اور سب کو معلوم تھا کہ ان کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ کوئی نقصان۔ آنحضور نے بطور مزاح اور اشارتاً شفا سے اپنی زوجہ محترمہ حفصہ کو اس عبارت کو سکھانے کی تلقین کی۔ عبارتیں یہ تھیں:العروس لحصل‘ و تحتضب‘ و تکتمل‘ وکل شئی نضتعل غیران لا تعصی الرجلدلہن سکھیوں کے درمیان بیٹھی ہے اور سولا سنگھار کرتی ہے‘ کاجل لگاتی ہے‘ غرض کہ ایسے ہی کام کرتی ہے‘ لیکن اپنے شوہر کی نافرمانی نہیں کرتی۔ان عبارتوں کو “رقیة النملة” کے نام سے یاد کیا تھا اور بظاہر ان عبارتوں میں طنز و مزاح کے پہلو کو اجاگر کیا گیا ہے۔”ابن اثیر کہتا ہے کہ”آنحضور نے ازراہ مزاح شفا نامی عورت سے فرمایا تھا جیسا کہ تم نے حفصہ کو لکھنا سکھایا‘ تو کتنا اچھا ہوتا کہ تم انہیں رقیة النملة بھی سکھا دیتی۔ یہ بات اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ ہماری زوجہ نے ہماری اطاعت نہیں کی اور اس راز کو جو میں نے اسے بتایا تھا۔”(یہ بات تاریخ میں مشہور ہے اور سورئہ تحریم کی پہلی آیت اس جانب اشارہ کرتی ہے‘ اسے بھی فاش کر دیا)بلاذری نے پھر چند ایسی مسلم خواتین کے نام بتائے کہ جو اسلامی دور میں بھی پڑھنا لکھنا جانتی تھیں یا صرف پڑھنا جانتی تھیں اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ”حضرت حفصہ جو کہ رسول خدا کی زوجہ تھیں‘ وہ بھی لکھنا جانتی تھیں‘ ام کلثوم دختر عتبہ بن ابی معیط (اولین مہاجر خواتین) بھی لکھنا جانتی تھیں۔ عائشہ دخترسعد کہتی ہیں میرے والد نے مجھے لکھنا سکھایا‘ اسی طرح کریمہ دختر مقداد بھی لکھنا جانتی تھیں۔ حضرت عائشہ زوجہ رسول پڑھنا جانتی تھیں لیکن لکھنا نہیں اور اسی طرح ام سلمہ بھی۔”بلاذری بھی ان لوگوں کا نام بتاتا ہے جو مدینہ میں آنحضور کے منشی تھے اور مزید کہتا ہے کہظہور اسلام کے نزدیک “اوس” اور “خزرج” (مدینے کے دو معروف قبیلے) میں صرف ۱۱ اشخاص لکھنے کے فن کو جانتے تھے(ان کے نام بھی بتاتا ہے)۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فن خط نویسی حجاز کے علاقے میں نیا نیا متعارف ہوا تھا‘ اس زمانے میں حجاز کے حالات اور ماحول کی صورت حال یہ تھی کہ اگر کوئی شخص لکھنا‘ پڑھنا جانتا تھا تو وہ مقبول خاص و عام ہو جاتا تھا۔ وہ افراد جو ظہور اسلام سے کچھ عرصہ قبل اس فن سے واقف تھے‘ چاہے وہ مکہ میں ہوں یا مدینہ میں‘ وہ مشہور اور انگلیوں پر شمار کئے جا سکتے تھے‘ لہٰذا ان کے نام تاریخ میں ثبت ہو گئے اور اگر رسول خدا کا شمار اس زمرہ میں ہوتا تو حتمی طور پر آپ اس صنعت کے حوالے سے پہچانے جاتے اور آپ کا نام اس فہرست میں شامل ہوتا‘ کیونکہ آنحضور کا نام نامی اس زمرہ میں نہیں ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ قطعی طور پر آپ کا پڑھنے‘ لکھنے سے کوئی سروکار نہیں تھا۔”
عہد رسالت… خصوصاً مدینے کا دورگزشتہ بحث سے مجموعی طور پر یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ رسول پاک نے عہد رسالت کے دوران نہ پڑھا‘ نہ لکھا‘ لیکن مسلم علماء چاہے وہ اہل سنت ہوں یا شیعہ‘ اس سلسلے میں ان کا نقطہ نگاہ ایک نہیں ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ وحی نے جو ہر چیز کی تعلیم دیتی تھی‘ انہیں پڑھنا‘ لکھنا نہ سکھایا ہو؟ کچھ شیعہ روایات میں کہا جاتا ہے کہ آپ دوران نبوت پڑھنا جانتے‘ لیکن لکھنا نہ جانتے تھے۔(بحار چاپ جدید‘ ج ۱۶‘ ص ۱۳۵)اس ضمن میں صدوق نے علل الشرایع میں ایک روایت نقل کی ہے:”خدا کی رحمت اپنے رسول پر یہ تھی کہ آپ پڑھ سکتے تھے‘ لکھ نہیں سکتے تھے اور جب ابوسفیان نے احد پر چڑھائی کی تو حضرت عباسؓ جو آپ کے چچا تھے‘ نے ایک خط آپ کو لکھا اور جب یہ خط آپ تک پہنچا تو اس وقت آپ مدینے کے نزدیک ایک باغ میں تشریف فرما تھے۔ آپ نے خط پڑھا‘ لیکن اپنے صحابیوں کو اس کے مضمون سے آگاہ نہ کیا۔ آپ نے حکم دیا‘ سب لوگ شہر مدینہ میں چلے جائیں اور جونہی سب لوگ شہر میں داخل ہو گئے تو آپ نے وہ خط پڑھ کر انہیں سنا دیا۔”لیکن سیرة زبینی دخلان میں حضرت عباسؓ کے خط کے واقعہ کو علل الشرایع کی روایت کے برخلاف بیان کیا گیا ہے‘ اس میں لکھا ہے کہ”جونہی حضرت عباسؓ کا خط آپ تک پہنچا تو آپ نے اسے کھولا اور ابی بن کعب کو دیا کہ اسے پڑھے۔ ابن کعب نے اسے پڑھا اور آپ نے حکم دیا کہ اس خط کو بند کر دے‘ اس کے بعد آپ سعد بی ربیعہ جو ایک مشہور صحابی تھے‘ ان کے پاس تشریف لائے اور حضرت عباسؓ کے خط کے متعلق بیان کیا اور ان سے درخواست کی کہ فی الحال اس موضوع کو پوشیدہ رکھیں۔”بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نبوت کے دوران لکھتے بھی تھے اور پڑھتے بھی تھے۔ سید مرتضیٰ “بحارالانوار” سے نقل کرتے ہیں کہ”اہل علم کے ایک گروہ کا عقیدہ ہے کہ آپ دنیا سے رحلت فرمانے سے پہلے لکھنا‘ پڑھنا جانتے تھے۔”معتبر تواریخ اور کتابوں کی رو سے آپ نے وقت رحلت ارشاد فرمایا تھا کہ”میری قلم اور دوات (یا دوات اور کنگھی) لاؤ تاکہ تمہیں کچھ ہدایات لکھ دوں‘ تاکہ تم میری رحلت کے بعد گمراہ نہ ہو جاؤ۔(بحارچاپ جدید‘ ج ۱۶‘ ص ۱۳۵۔ مجمع اللبیان آیت ۲۸‘ سورئہ عنکبوت کے ذیل میں‘ بحار چاپ جدید‘ ج ۱۶‘ ص ۱۳۵)یہاں پر دوات و قلم کی حدیث پر صحیح استناد نہیں ہے‘ کیونکہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں ملتی کہ آپ اپنے دست مبارک سے لکھنا چاہتے تھے‘ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ آپ مجمع کے درمیان لکھنا چاہتے تھے اور سب پر عیاں کرنا چاہتے تھے اور آپ گواہوں کے طور پر ان سے دستخط لینا چاہتے تھے‘ پھر یہ تعبیر کہ میں تمہارے لئے کچھ لکھنا چاہتا ہوں‘ تاکہ میرے بعد تم بھٹک نہ جاؤ درست ہے۔