اسلام میں آزادی (1)

309

حکومتی اور سیاسی مسائل، معرف اسلامی کا ایک حصہ ھیں اس سے قبل ھم نے اشارہ کیا کہ بعض لوگوں نے جامعہ میں انحراف اور کج روی پیدا کرنے کے لئے نیز لوگوں کے ذھنوں کو پراکندہ کرنے کے لئے اسلامی حکومت کے سلسلہ میں بھت سے اعتراضات کئیے ھیں جن میں سے ایک شبہ یہ تھا کہ دین کا دائرہ دنیا کے دائیرہ سے جدا ھے اور دین دنیاوی مسائل میں کوئی مداخلت نھیں کرتا اور یہ کہ دنیاوی امور میں دخالت کرنا دین کے شایان شان نھیں ھے دین کا کام صرف ان امور سے وابستہ ھے جو آخرت اور منویات سے مربوط ھیں اور انسان کا خدا سے رابطہ کا نام دین ھے ،خلاصہ یہ کہ دین سے کم سے کم امید رکھیں اس سے پھلے جلسہ میں ھم نے اس اعتراض کاجواب عرض کیا اور ھم نے “دین سے ھماری امیدیں”کی بحث کے سلسلہ میں اس مغالطہ (کہ دین سے ھماری امیدیں زیادہ ھوں یاکم سے کم )کا جواب مفصل طور پر عرض کیا تھا۔جواب کا خلاصہ یہ ھے کہ انسان کی زندگی اور اس سے متعلق دوسری واقفیتوں کے دو رخ ھیں :پھلا رخ یہ ھے کہ سببی اور مسببی علت اور معلول رابط موجود ھے جیسا کہ یہ رابطہ تمام چیزوں میں بھی پایاجاتا ھے ،مثلا کون کون سی چیزیں آپس میں مرکب ھوں تاکہ فلاں شیمیائی چیز وجود میں آسکے ،اور ایک زندہ چیز کن شرائط کے ساتھ رشد و نمو کرتی ھے، یہ انسان جو ایک زندہ چیز ھے کس طرح زندگی کرتا ھے اور کس طرح اپنی صحت و سلامتی کو محفوظ کرتا ھے، اور جب مریض ھوجائے تو کس طرح اپنا علاج کرائے ۔دوسرا رخ یہ ھے کہ اس دنیا کی تمام حقیقوں کا انسان کی روح اور معنوی کمالات سے رابطہ ھے ۔

2۔علم اور دین کے مخصوص دائرےالکحل کو کس طرح اور کن چیزوں کے ذریعہ بنایا جاتا ھے اورالکحل کتنے طریقوں کا ھوتا ھے یہ ایک علم ھے اور ایسی چیزوں کی تحقیق اور بررسی کرنا دین کی ذمہ داری نھیں ھے دین کی ذمہ داری یہ ھے کہ بیان کرے کہ الکحل کو پیا جائے یا نھیں؟ اور اس کا انسان کی روح اور معنوی پھلو کے لئے نقصان دہ ھے یا نھیں دوسرے الفاظ میں یوں کھا جائے کہ دین کی ذمہ داری یہ ھے کہ بیان کرنا ھے کہ الکحل کا استعمال کرنا حلال ھے یا حرام؟ اس طرح دین دوسری چیزوں کے احکام کو بیان کرتا ھے، نہ کہ اس علمی اور تحقیقی پھلو کو بیان کرتا ھے دین ان چیزوں کی ترکیبات سے بحث نھیں کرتا بلکہ وہ توان چیزوں اور انسانی روح اور اس کی صلاح و اچھائی کے رابطہ کو بیان کرتا ھے اور ان کی تحقیق و بررسی کرتا ھے ،کس کارخانہ یا تجارتی گروپ کا منیجر کس طرح صحیح طور پر کام کرسکتا ھے اور کس طرح کے پروگرام بنائے جائیں تاکہ اچھے نتائج برآمد ھوسکیں ان سوالوں کا جواب علم دے سکتا ھے لیکن ان کارخانوں میں کیا چیز بنائی جائے اور کون سی چیز بنانا جائز ھے اور کون سی چیز حرام ھے اور کون سی چیز انسانی روح سے مربوط ھے یہ دین کاکام ھے ۔

3۔دینی حاکمیت کا آزادی سے ٹکراؤ،ایک شبہلوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے ایک شبہ جو مختلف طریقوں سے بیان کیا جاتا ھے البتہ یہ شبہ صرف ایک مغالطہ ھے،وہ شبہ یہ ھے کہ اگر دین انسان کے سیاسی اور اجتماعی کاموں میں مداخلت کرے اور لوگوں کو کسی خاص طریقہ کو اپنانے پر زور دے یا کسی کی اطاعت کا حکم دے تو یہ انسان کی آزادی کے خلاف ھے اور انسان چونکہ آزاد اور صاحب اختیار ھے کہ جو چاھے کرے جو چاھے نہ کرے،اور اس کو کسی کام پر مجبور کرنے کا کسی کو کوئی حق نھیں ھے، اور چونکہ دین انسان کے لئے تکلیف معین کرتا ھے، اور اس کو کسی کی اطاعت کا حکم کرتا ھے اطاعت بھی اطاعت مطلق (یعنی چون و چرا)یہ سب کچھ آزادی سے میل نھیں کھاتا۔

4۔مذکورہ شبہ دینی انداز میںمذکورہ شبہ کو مختلف شکلوں میں بیان کیا جاتا ھے ان میں ایک یہ ھے کہ شبہ کرنے والا اپنی دینداری کا ڈنکا بجاتا ھے اور خود کو قرآن کا ماننے والا کھتاھے اور اپنے شبہ کو مومنین اور متدین افراد پر کارگر کرنے کے لئے اس کو قرآنی اور دینی محمل سے سجاتا ھے اور کھتا ھے کہ اسلام، انسان کی آزادی کا خاطر خواہ احترام کرتا ھے اور قرآن کریم دوسروں کے تسلط اور حکومت کی نفی کرتا ھے یھاں تک کہ خود پیغمبر اسلام کسی پر تسلط (حق حکومت) نھیں رکھتے تھے، اور کسی کو مجبور نھیں کیا گیا لھٰذا قرآن کے نظریہ کے مطابق انسان آزاد ھے اور کسی کی اطاعت پر مجبور نھیں ھے ۔ان تمام شبھات اور مغالطوں کا مقصد، ولایت فقیہ کے اصولوں کو ضعیف اور کمزور کرنا ھے، اسی مقصد کے لئے یہ شبہ ایجاد کیا گیا ھے تاکہ ولایت فقیہ کی اطاعت کو انسانی آزادی کے خلاف قرار دیا جاسکے،اور یہ اسلامی نظریہ کے سراسر مخالف ھے کیونکہ انسان اشرف المخلوقات اور زمین پر خدا کاخلیفہ ھے،ذیل میں ان آیات کی طرف اشارہ کرتے ھیں جن کو شبہ کرنے والوں نے اپنا مدرک بنایا ھے(1) خدا وند عالم پیغمبر اکرم سے خطاب فرما رھا ھے :(فَذَکِّرْإنَّمَااٴَنْتَ مُذَکِّرٌ لَسْتَ عَلَیْھمْ بِمُصَیْطِرْ ) (1)”تم تو بس نصیحت کرنے والے ھو، تم کچھ ان پر داروغہ تو ھو نھیں”اس آیت کے پیش نظر، پیغمبر اسلام سب سے بلند و بالا مقام رکھتے ھیں جب وہ تسلط نھیں رکھتے اور مسلمان آزاد ھیں ان پر پیغمبر کی اطاعت کرنا لازم نھیں ھے اور پیغمبر اکرم کو لوگوں کی زندگی کے بارے میں اظھار خیال کرنے کا حق بالکل نھیں ھے۔2۔(وَمَا جَعَلْنَاکَ عَلَیْھمْ حَفِیْظاً وَمَا اٴَنْتَ عَلَیْھمْ بِوَکِیْلٍ۔) (2)”اور ھم نے تم کو لوگوں کا نگھبان تو بنایا نھیں ھے اور نہ تم ان کے ذمہ دار ھو”3۔( وَمَا عَلَی الرَّسُولِ إلاَّ الْبَلاَغُ۔) (3)”(ھمارے )رسول پر پیغام پھونچادینے کے سوا (اور)کچھ(فرض) نھیں”4۔( إِنَّا ھدَیْنَا ہ السَّبِیْلَ إمَّا شَاکِراً وَإِمَّا کَفُوْراً۔) (4)”اور ھم نے (انسان) کو راستہ بھی دکھادیا (اب وہ) خواہ شکر گذار ھو خواہ ناشکرا”5۔( وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْیُوٴمِنُ وَ مَنْ شَاْءَ فَلْیَکْفُرْ۔)(5)”(اے رسول) تم کھہ دو کہ سچی بات (کلمہ توحید) تمھارے پروردگار کی طرف سے (نازل ھوچکی ھے) بس جو چاھے مانے اور جو چاھے نہ مانے”
مذکورہ اعتراض کا جواباس اعتراض کے جواب میں ھم یہ کھتے ھیں کہ معترض نے جن آیات کے ذریعہ رسول خدا کے تسلط نہ ھونے اور آنحضرت کی اطاعت کو واجت نہ ھونے پر تمسک کیا ھے، ان کے مقابلے میں دوسری ایسی آیات موبھی جود ھیں جو خود معترض کی غلط اور غیر صحیح برداشت کے منافی ھیں ذیل میں ھم ان آیات کو بیان کرتے ھیں:1-( َومَا کَانَ لِمُومِنٍ وَلَا مُوٴْمِنَََََةٍ ِاذَا قَضَی اللّٰہ وَرَسُولُہ اَمْراً اَنْ یَکُوْنَ لَھمُ الخِیَرَةُ مَنْاٴَمرِ ھِمْ ) (6)”اور نہ کسی ایماندار مرد کو یہ مناسب ھے اور نہ کسی ایماندار عورت کو کہ جب خدا اور اس کے رسول کسی کام کا حکم دیں تو ان کے اپنے اس کام (کے کرنے نہ کرنے) کا اختیار ھو “مذکورہ آیت واضح طور پر خدا و رسول کی اطاعت کو لازم اور ضروری ھونے کو بیان کررھی ھے کہ مومنین کو رسول خدا کی اطاعت سے سر پیچی کرنے کا کوئی حق نھیںھے۔(2 ِ انَّمَا وَلِیُکُمُ اللَّہ وَ رَسُولُہ وَلَّذِینَ یُقِیمونَ الصَّلاہ وَ یُوٴتُونَ الزَّکاةَ وَھمْ رَاکِعُونَ۔) (7)”(اے ایماندارو) تمھارے مالک سرپرست تو بس یھی ھیں خدا اور اس کا رسول اور وہ مومنین جو پابندی سے نماز ادا کرتے ھیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ھیں “3 )۔ النَِّبیُ اٴَوْلیٰ بِا لْمَوٴمِنِینَ مِنْ اٴَنْفُسِھمْ۔) (8)”نبی تو مومنین سے خود ان کی جانوں سے بھی بڑہ کر حق رکھتے ھیں”دونوں صورتوں میں لوگوں کے بارے میں پیغمبر اکرم کی رائے خود اپنے بارے میں ان کی رائے پر مقدم ھے اس آیت کے سلسلہ میں تمام مفسرین قرآن اس بات پر متفق ھیں، لھٰذا مسلمانوں کو چاھیئے کہ پیغمبر کی رائے کو اپنی رائے پر مقدم رکھیں اور پیغمبر کی رائے کی مخالفت کرنے کا حق نھیں رکھتے ، البتہ مذکورہ آیت رسول خدا کی اصل ولایت کو بیان کررھیھے، اور یہ بیان نھیں کررھی ھے کہ آنحضرت کی ولایت کھاں تک محدود ھے ،اور آنحضرت کی ولایت اور آپ کی رائے کا مقدم ھونا صرف احتمالی امور میں ھے یا اجتماعی امور کے علاوہ مشخص امور کو بھی شامل ھے، اس میں کوئی شک نھیں ھے کہ شبہ کرنے والے نے جن آیات سے تمسک کیا کہ رسول اور ان کے جانشینوں کی اطاعت کی نفی کی گئی ھے ان دو طرح کی آیات کے تناقض (ٹکراؤ) کا جواب بھی دے ھوسکتا ھے کہ معترض ان آیات سے بالکل غافل ھو، یا ان آیات کے مطلب کو قبول ھی نہ کرتا ھو لیکن چونکہ ھم قرآن کریم کی آیات میں تناقض اور تعارض کے منکر ھیں لھٰذا ھمیں چاھیے کہ ان آیات کے ظاھری تناقض کو حل کریں اس اھم امر کے لئے ضروری ھے کہ ھم ان دو طرح کی آیات کو پھلی اور بعد کی آیتوں نیز آیات کے لحن (طرز) اور ان کے مخاطبین کو ملاحظہ کریں تاکہ آیات کے حقیقی مطلب کو سمجھ سکیں ۔
5۔قرآن پر مختلف توجہ کی دلیلجس وقت ھم آیات کے پھلے اور دوسرے گروہ پر دقت کرتے ھیں تو نتیجہ یہ نکلتا ھے کہ آیات کا لحن ایک دوسرے سے مختلف ھے:آیات کا پھلا گروہ ان لوگوں کے بارے میںھے کہ جھنوں نے ابھی تک اسلام قبول نھیں کیا ھے اسی وجہ سے خدا وند عالم ان لوگوں کو حقیقت اسلام کی رھنمائی کرتا ھے اور اپنی اطاعت کے فوائد کو بیان کرتا ھے اور جب اپنے پیغمبر جو خدا کی رحمت و مھربانی کے مظھر ھیں مگر بعض لوگوں کے اسلام کو قبول نہ کرنے اور خدا کی اطاعت سے روگردانی کرنے کی وجہ سے پریشان دیکھتا ھے کہ جس کے نتیجہ میںیہ لوگ دو زخ کے راستہ کو اپنے لئے ھموار کرتے ھیں ایسے موقع پر خدا وندعالم اپنے رسول کو نگران و پریشان دیکہ کر ان کی دلجوئی کرتا ھے کہ اے میرے حبیب ان لوگوں کے ایمان نہ لانے سے کیوں غمگین ھوتے ھیں اور اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ھیں ھم نے اسلام کو اس لئے نازل کیا تاکہ لوگ اپنی مرضی اور اپنے اختیار سے اسے قبول کریں وگرنہ اگر ھم چاھتے تو تمام لوگوں کی ھدایت کردیتے اور اس کی قدرت بھی ھم میں ھے:(وَلَوْشَاءَ رَبُّکَ لَآ مَنَ فِیْ الاٴرْضِ کُلُّھمْ جَمِیْعاً اٴَفَاٴَنْتَ تُکْرِہ النَّاْسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُوٴْمِنِیْنَ۔)۔(9)”(اے پیغمبر) اگر آپ کا پروردگار چاھتا ھے تو جتنے لوگ روئے زمین پر ھیں سب کے سب ایمان لے آتے تو کیا تم لوگوں پر زبردستی کرنا چاھتے ھو تاکہ سب کے سب ایماندار ھوجائیں”خدا وند عالم کا انبیاء کو بھیجنے کا ھدف یہ ھے کہ لوگ حق کو پھچانتے ھوے اپنے لئے سعادت کا راستہ اپنائیں اور اپنے اختیارسے دین حق کو قبول کریں نہ یہ کہ خدا وند عالم ان کو ایمان لانے پر مجبور کرے وہ ایمان جو اکراہ اور اجبار سے حاصل ھو اس کی کوئی قیمت نھیں ھے اور ھمارے پیغام کو پھونچانا تھا لھٰذا آپ ان مشرکین کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے پریشان نہ ھوں، کیا آپ سوچتے ھیں کہ آپ نے اپنی رسالت کی ذمہ داری پر عمل نھیں کیا، آپ کی رسالت یہ نھیں ھے کہ لوگوں کو خوف اور اکراہ کے ذریعہ مسلمان کریں، کیونکہ ھم نے آپ کو کفار پر مسلط نھیں کیا ھے تاکہ طاقت کے زور پر ان کو مسلمان کرسکیں آیات کے پھلے گروہ کے مقابلے میں آیات کا دوسرا گروہ ان لوگوں کے بارے میں ھیں کہ جنھوں نے معرفت و شناخت کے ساتھ اپنے اختیار سے اسلام کو قبول کیا ھے ان آیات میں ان افراد کو پیغام دیا جارھاھے کہ اسلامی احکامات پر عمل کریں اور اس پیغمبر کی اطاعت کریں کہ جس کے بارے میں اعتماد رکھتے ھیں کہ یہ پیغمبر اور اس کے تمام احکامات خدا کی طرف سے ھیں اور اس پیغمبر کی رائے کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور آنحضرت کے فرمان پر حق انتخاب بھی نھیں رکھتے۔اسلام قبول کرنے سے پھلے انسان کو حق انتخاب ھے لیکن اسلام کو قبول کرنے کے بعد تمام شرعی احکامات کو تسلیم کرنا ھوگا اس بنا پر وہ لوگ جو خدا کے بعض احکام پر ایمان رکھتے ھیںخدا وند عالم ان کی سخت مذمت کرتا ھے :(اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُونَ باِللَّہ وَرُسلِہ وَیُرِیدُوْنَ اَنْْ یُفَرِّ قُُُوْا بَیْنَ اللّٰہ وَرَسُلِہ وَیَقُوْلُوْنَ نُوٴْمِنُ بِبَعْضٍ وَ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَ یُرِیْدُوْنَ اٴَنْ یَتَّخِذُوْا بَیْنَ ذَلِکَ سَبِیْلاً اٴَوْلٰئِکَ ھمُ الْکَافِرُوْنَ حَقّاً )(10)”بے شک جو لوگ خدا اور اس کے رسولوں سے انکار کرتے ھیں اورخدا اور اس کے رسولوں میں تفرقہ ڈالنا چاھتے ھیں او رکھتے ھیں کہ ھم بعض (پیغمبروں) پر ایمان لائے ھیں اور بعض کا نکار کرتے ھیں اور چاھتے ھیں کہ اس (کفر و ایمان) کے درمیان ایک دوسری راہ نکالیں یھی لوگ حقیقتاً کافر ھیں”بعض احکام کو قبول کرنا اور دوسرے احکام قبول نہ کرنا اسی طرح بعض قوانین کو قبول کرنا اور دوسرے قوانین سے سرپیچی کرنا گویا اص دین کا انکار کرناھے، کیونکہ اگر دین کو قبول کرنے کا ملاک و معیار خدا وند عالم کے احکامات ھوں تو احکامات الھی کے حساب سے عمل کیا جائے اور خدا کے احکامات تمام احکام و قوانین کو قبول کرنے کے لئے ھیں یھاںتک کہ اگر دین قبول کرنے کا معیار مصالح اور مفاسد ھوں کہ جن کو خدا جانتا ھے، اور اپنے احکامات میں ان کو ملاحظہ کیا ھے اور اس میں کوئی شک نھیں کہ خدا وند عالم تمام مصالح و مفاسد کو جانتا ھے، لھٰذا پھر کیوں بعض احکام کو قبول کیا جائے نتیجہ یہ نکلا کہ وہ شخص خدا پر ایمان رکھتا ھے جو پیغمبر کا بھی معتقد ھو اور آنحضرت کی قضاوت اور ان کے فرمان کو قبول کرے اور دل سے بھی اس پر راضی رھے حتی ناراحتی کا احساس بھی نہ کرے ۔(فلَاَ وَ رَبِّکَ لَایُوٴمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْ کَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا ِفیْ اٴَنْفُسِھمْ حَرَجاً مِمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْ تَسْلِیْماً )(11)”پس (اے رسول) تمھارے پروردگار کی قسم یہ لوگ سچے مومن نہ ھوں گے تاوقتیکہ اپنے باھمی جھگڑوں میں تم کو اپنا حاکم (نہ) بنائیں پھر (یھی نھیں بلکہ) جو کچھ تم فیصلہ کرو اس سے کسی طرح دل تنگ بھی نہ ھوں بلکہ خوش خوش اس کو مان لیں”حقیقی مومن، رسول خدا کی قضاوت اور فیصلہ کو دل سے قبول کرتاھے اور ناراحتی کا احساس نھیں کرتا اس کی وجہ یہ ھے کہ اس کو پورا یقین ھے کہ یہ رسول خدا کا بھیجا ھوا ھے ان کا حکم خدا کا حکم ھے یہ رسول اپنی طرف سے کچھ نھیں کھتا(إِنَّا اٴَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاْسِ بِمَا اٴَرَاکَ اللّٰہ ) (12)(اے رسول) ھم نے تم پر برحق کتاب اس لئے نازل کی ھے کہ جس طرح خدا نے تمھاری ھدایت کی ھے اسی طرح لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو “اگر کوئی اسلام کو قبول کرنے کے بعد کھے، میں اسلامی احکام میں عمل کرنے سے آزاد ھوں اگر چاھوں عمل کروں اگر چاھوں عمل نہ کروں یہ اس حکومت کی طرح ھے کہ جو ڈیموکراسک اور آزاد ھے وہ لوگ اپنی مرضی سے اس حکومت کے انتخاب میں شرکت کرتے ھیں اور اپنے ووٹوں کے ذریعہ وزیر اعظم، رئیس جمھور اور ممبر آف پارلیمینٹ کو منتخب کرتے ھیں لیکن جب یھی حکومت کوئی قانون بناتی ھے تو اس پر عمل کرنے سے ……؟اور جب یہ حکومت ٹیکس لگاتی ھے تو کیا کوئی کھہ سکتا ھے کہ میں نھیں دونگا اصل حکومت اور اس کے ووٹ دینے میں آزاد تھے لھٰذا اب بھی آزاد ھیں کہ اس کے قانون پر عمل کریں یا عمل نہ کریں ان باتوں کو کوئی بھی عقلمند قبول نھیں کرسکتا۔جی ھاں: اسلام کو قبول کرنے میں کسی کو مجبور نھیں کیا جاسکتا کیونکہ اسلام دلی اعتقاد کا نام ھے اور طاقت کے زور پر کسی نے اسلام قبول کرلیا تو اس وقت اس سے کھا جائےگا نماز پڑھو اور اگر کوئی کھے کہ میں نماز نھیں پڑھوں گا یا اگر اس سے کھا جائے کہ زکاة دو لیکن زکاة دینے سے انکار کرے، اےک تو کوئی بھی انسان اس کو قبول نھیں کرسکتا کیونکہ اگر کسی نے اسلام قبول کرلیا تو اس کے تمام احکام کو بھی قبول کرنا پڑے گا یہ نھیں ھوسکتا کہ اسلام تو قبول کرلے لیکن اس کے احکامات کو قبول نہ کرے، اور اپنی مرضی کے مطابق اعمال انجام دے کوئی بھی حکومت اس بات کو قبول نھیں کرسکتی کہ انسان اس کو ووٹ دے لیکن عملی میدان میں اس حکومت کے قوانین کو قبول نہ کرے، اجتماعی زندگی میں بنیادی ترین اصل وظائف اور تعھد و پیمان اور وعدہ پر وفا دار نہ ھو تو اجتماعی زندگی بالکل ھی وجود نھیں پاسکتی۔لھٰذا اگر کوئی یہ کھے کہ میں اسلام کو قبول کرتا ھوں اور پیغمبر پر ایمان رکھتا ھوں لیکن اسلام مے احکامات پر عمل نھیں کرتا اور اس کی حاکمیت اور ولایت کو قبول نھیں کرتا تو ایسے اسلام کا کوئی فائدہ نھیں ھے، کیونکہ اسلام اور پیغمبر کو قبول کرنا اور اطاعت و پیروی نہ کرنے میں ظاھری تناقض پوشیدہ ھے۔ھماری گفتگو سے یہ واضح و روشن ھوچکا ھے کہ اگر کوئی انصاف کی آنکہ سے آیات کو ملاحظہ کرے اور ان کی دلالت، لحن اور ما قبل و مابعد کو غور سے دیکھے تو قرآن کریم میں کوئی تناقض نھیں ملے گا اور مذکورہ شبہ کی اطاعت اور آزادی میں جو تناقض ھے وہ بالکل ختم ھوجائے گا جیسا کہ قرآن مجید نے بھی اسی کو صحیح کھا ھے )لیکن جن کے دل مریض ھیں وہ قرآن کریم کو صداقت اور انصاف سے نھیں دیکھتے اگریہ لوگ قرآن کا مطالعہ کرتے تو اس وجہ سے کہ اپنی کج فکری اور منحرف نظریات کی دلائل تلاش کریں، اور اس وجہ سے کہ قرآن کی آیات کے بعض حصوں کو انتحاب کرتے ھیں اور سیاق و سباق (پھلی اور بعد والی آیتوں کو ) نھیں دیکھتے اور قرآن کے مطابق محکمات قرآن کو چھوڑدیتے ھیں اور متشابھات کی پیروی کرتے ھوئے نظر آتے ھیں:(فَاٴَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِھمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا َتشَابَہ مِنْہ ابْتَغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتَغَاءَ تَاوِیْلِہ وَمَا یَعْلَمُ تَاٴوِیْلَہ إلاّٰ اللّٰہ وَالرَّاسِخُوْنَ فِیْ الْعِلْمِ )(13)”پس جن لوگوں کے دل میں کجی ھے وہ انھیں آیتوں کے پیچھے پڑے رھتے ھیں جو متشابہ ھیں تاکہ فساد برپا کریں اور اس خیال سے کہ انھیں اپنے مطلب پر ڈھال لیں حالانکہ خدا او ران لوگوں کے سوا جو علم میں بڑے پایہ پر فائز ھیں ان کا اصلی مطلب کوئی نھیں جانتا”متشابھات کی پیروی کے علاوہ آیات کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ھیں اور آیت کے ایکجملہ کو اخذ کرتے ھیں اور ماقبل و مابعد کو چھوڑ دیتے ھیں جس کے نتیجہ میں ان کو قرآن مجید میں تناقض نظر آتا ھے جیسا کہ مذکورہ شبہ میں ان لوگوں نے آیات کے ما قبل و ما بعد کو چھوڑ تے ھوے اعتراض کیا کہ پیغمبروں کی ولایت آزادی کے مخالف ھے ۔وہ آیات کہ جن میں رسول اسلام کے تسلط کا انکار کیا گیا ھے وہ کفار کے اسلام قبول کرنے سے پھلے نازل ھوئی تھیں جن میں کھا گیا ھے کہ رسول ان کو طاقت کے زور ںپر اسلام قبول نہ کروائیں یعنی آنحضرت کفار پر تسلط نھیں رکھتے، در حقیقت ان آیات کے مطابق احکام الھی میں عمل کی آزادی اسلام لانے سے پھلے ھے ورنہ تو اسلام قبول کرنے والے ھر مسلمان کے لئے ضروری ھے کہ وہ پیغمبر اور دوسرے اسلامی احکام کی پیروی کریں اور اس کا وظیفہ ھے کہ تمام اسلامی احکامات کی رعایت کریں،اسلامی اور الھی قوانین کی توھین نیز دین کی توھین یا تجاھر بہ فسق (کھلے عام گناھوں کا مرتکب ھونا ) کرنے والوں کا شدت سے مقابلہ کرتی ھے یہ در حقیقت جامعہ پر اسلامی حکام کی ولایت ھی تو ھے کہ جو ان کو موظف کرتی ھے کہ ایمان اور اسلام کے تمام لوازمات پر موٴید ھیں وہ اسلام ھے جو خود انھوں نے اپنی مرضی سے قبول کیا ھے ۔
6۔مذکورہ شبہ غیر مذھبی طریقہ سےاب تک اس شبہ کے جواب میں بحث کی گئی ھے جو قرآنی اور دینی لھجہ میں تھا، اور یہ شبہ اس شخص کی زبان سے تھا جو خود مسلمان اور دیندار کھلاتا ھے، اور آیات قران کو دلیل بناتا ھوا یہ نتیجہ اخذ کرتا تھا کہ اسلام کو الزام آور فرمان نھیں دینا چاھیے، یعنی اسلام کو لوگوں کی زندگی میں دخالت نھیں کرنا چاھیے کیو نکہ یہ دخالت خود اسلام کی قبول کردہ آزادی کے خلاف ھے۔اس وقت اس اعتراض کے بارے میں بحث کرتے ھیں کہ جو غیر مذھبی طور پر کیا جاتا ھے، اس اعتراض میں شبہ کرنے والے کی یہ فکر ھے کہ اسلام کے الزام آوراحکام اور اس کی اطاعت و پیروی کو جوھر انسانیت سے نا سازگار اور منافی قرار دے، اگرچہ یہ شبہ چند طریقوں سے کیا گیا ھے، ھم یھاں پر بعض طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ھیں۔منطق کی اصطلاح میں”اختیار” انسان کی فصل اور مقوم ھے اور اسی سے جوھر انسانیت کی وجود پاتا ھے، لھٰذا اگر ھم انسان سے اختیار اور اس کی آزادی کو سلب کرلیں اور اس کو مجبور کریں تو گویا ھم اس سے انسانیت کو سلب کررھے ھیں اور گویا اس کو ایک حیوان کی مانند قرار دے رھے ھیں،اور اس کی گردن میں لگام ڈال کر ادھر اُدھر کھینچ رھے ھیں، لھٰذا انسان کی اھمیت اس چیز کا تقاضا کرتی ھے کہ اس کو “حق انتخاب” دیں، اور اسکا نتیجہ یہ ھوگا کہ دین اس کے لئے الزام آور احکام بیان نہ کرے، اور اگر اس کو پیغمبر، ائمہ اور نائبین ائمہ کی اطاعت کے لئے مجبور کرے، تو اس صورت میں انسانیت کااحترام او راس کی اھمیت ختم ھوجاتی ھے اور گویا ھم اس کو حیوان کی طرح قرار دیکر ادھر اُدھر لے جارھے ھیں۔

7۔”ھیوم “کا اعتراضات اور ان کے جواباتاول: ھم مذکورہ اعتراض کے دو جواب پیش کریں گے اور چونکہ معترض کا اعتراض ھیوم کے اعتراض کی طرح ھے ، ھیوم کا اعتراض یہ ھے کہ عقل نظری “است ھا”(ھے) کو درک کرتی ھے اور عقل عملی “باید ھا ونباید ھا”(فلاں چیز ھونی چاھئے اور فلاں چیز نھیں ھونی چاھئے) کو درک کرتی ھے اور چونکہ عقل نظری کا ،عقل عملی سے کوئی ربط نھیں ھے لھٰذا عقل عملی کی درک شدہ چیزووں (بایدھا ونباید ھا) کو عقل نظری کی بنیاد قرار نھیں دی جاسکتی۔ھیوم کا اعتراض مغربی فلاسفہ کی قابل توجہ قرار پایا اور انھوں نے اس کو بھت سی علمی چیزوں کی بنیاد قرار دیا، جمھوری اسلامی ایران کے انقلاب کے بعد بھت سے مغربی دانشمندوں نے یہ اعتراض کیا کہ ھم “است ھا” سے “باید ھا”کا نتیجہ نھیں نکال سکتے مثلاً اگر کوئی شخص ایک خاص صفت رکھتا ھے تواسکا نتیجہ یہ نھیں لیا جاسکتا ھے کہ اس طرح ھونا چاھئے یا نہ ھونا چاھئے، کیونکہ “است ھا” کی درک کرنے والی عقل نظری ھے اور “باید ھا” کو درک کرنے والی عقل عملی ھے، جبکہ ان دونوں میں کوئی ربط نھیں ھے۔ھیوم کے اس اعتراض کو ماننے والے یہ کھتے ھیں: لوگوں کو کسی کام پر مجبور کرنا ان کی انسانیت کے خلاف ھے، لھٰذا دین کو الزام آور احکامات پیش نھیں کرنا چاھئے، کیونکہ انسان مختار اور آزاد ھے ، پھلے یہ کھتے ھیں کہ انسان مختار ھے لھٰذا اس کو آزاد رھنا چاھئے ، اور اس کو مجبور نھیں کیا جانا چاھئے اس بناپر انسان کے مختار ھونے سے کہ جو “است ھا” میں سے ھے اور جس کو عقل نظری درک کرتی ھے “باید ونباید” کہ جس کو عقل عملی درک کرتی ھے کا نتیجہ لیتے ھیں اور ان کی بنیاد یھی تناقض ھے کہ جس کو وہ خود قبول کرتے ھیں کہ “است ھا” کے ذریع “باید ھا”کا نتیجہ نکلے۔البتہ ھمارا عقیدہ یہ ھے کہ اگر است ھا کسی چیز کی علت تامہ ھو تو اس وقت اس کا نتیجہ باید ھا لیا جاسکتا ھے لیکن یہ نتیجہ ھماری بحث میں نھیں لیا جاسکتا، کیونکہ انسان کا مختار ھونا ، اس کے مکلف ھونے کی علت تامہ نھیں ھے، بلکہ اختیار تکلیف کے لئے راہ ھموار کرتا ھے، اور کسی کام پر تکلیف اور اس پر مجبور کرنا یا کسی کام سے روکنا کسی خاص مصلحت یا مفسدہ کی وجہ سے ھوتا ھے جس کے ضمن میں کام ھوتا ھی ھے، لھٰذا کسی کام پر مجبور کرنے میں اس کی مصلحت چھپی ھوتی ھے اور کسی کام سے روکنے میں اس کا ضرر اور نقصان پوشیدہ ھتا ھے۔

8۔دوسرا جواب: آزادی مطلق اور لامحدود نھیں ھےاگر ھم اس شبہ کو مان بھی لیں اور کھیں کہ چونکہ انسان مختار ھے لھٰذا اس کو کسی کام پر مجبور نھیں کیا جاسکتا اور کوئی بھی حکومت انسان کے لئے الزامی احکام نافذ نھیں کرسکتی کیوں کہ انسان آزاد ھے جس طرح چاھے عمل کرے اور آزادی کا سلب کرنا ھے اور آزادی کا سلب کرنا یا انسانیت کا سلب کرنا لھٰذا کوئی بھی قانون قابل اعتبار نھیں ھے اور جنگلی راج اور عسر و حرج کو قبول کرلیں۔لیکن ھم یہ عرض کریں گے کہ کس چیز کے الزام اجبار ھی کے ذریعہ قانون قانون ھوسکتا ھے قانون اس وقت قانون ھوگا کہ جب اپنے ھمراہ الزام و اجبار لیے ھو کوئی بھی محکمہ ھو جب اس کے قوانین اور دستورالعمل کو قبول کرلیا جائے تو اس کو ھر حال میں عمل کرنا ھی ھوگا یہ نھیں ھوسکتا کہ قانون تو قبول کرلے لیکن اگر وہ قانون اس کے نقصان کا باعث ھو تو اس پر عمل نہ کرے اور اپنے نفع نقصان کے بارے میں سوچے اس طرح تو وہ نظام محکمہ چل ھی نھیں پائے گا اور اس محکمہ کا دیوالیہ نکل جائے گا جب تک قانون قانون بنانے والے کی نظر میں مقید ھے سب لوگ اس کی اطاعت کریں یھاں تک کہ اگر اس قانون میں کوئی خامی ھو تو اس کی تلافی کرنا قانون گذار کی ذمہ داری ھے ، اور دوسروں کو قانون میں خامی کا بھانہ بناکراور اس پر عمل کرنے سے فرار کرنے کا کوئی حق نھیں ھے۔
9۔حاکمیت اور انسان کے خلیفة اللّٰھی عظمت کے درمیان تعارض ایک شبہایک دوسرا شبہ یہ کھا جاتا ھے کہ انسان قرآن کے مطابق خلیفہ اللہ ھے اس کے معنی یہ ھیں کہ انسان روئے زمین پر خدا کا جانشین ھے اور خدا کی طرح عمل کرتا ھے جس طرح خدا نے اس دنیا کو خلق فرمایا ھے اس طرح انسان بھی بھت سی چیزوں کو پیدا کرے اور جس طرح خدا وند عالم اپنی مرضی کے مطابق عمل کرتا ھے تو انسان بھی جس کے اختیار میں زمین ھے وہ بھی اپنی مرضی کے مطابق عمل کرے۔
اعتراض کا جواباس اعتراض کا جواب یہ ھے کہ پھلے خلافت الھٰی کے معنی صحیح طرح سے سمجھ لیے جائیں اور توجہ رھے کہ جس معنی میں حضرت آدم علیہ السلام کو خلیفہ اللہ کھا گیا ھےخدا وند عالم اس سلسلہ میں ارشاد فرماتا ھے:( وَاِذْقَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَةِ اِنِّیْ جَاْعِلٌ فِی الاٴرْضِ خَلِیْفَةً قَالُوا اٴَتَجْعُلُ فِیْھامَنْ یُفْسِدُ فِیْھا وَیُفْسِکُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحََمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ قَالَ اِنِّی اٴَعْلَمُ مَالَاتَعْلَمُوْنَ )(14)”یاد کیجئے اس وقت کو جب آپ کے پروردگار نے ملائکہ سے کھا میں روئے زمین پر جانشین (نمائندہ )بنانے والا ھوں تو اس وقت فرشتوں نے کھا کیا تو ایسے کو خلیفہ اور جانشین بنائے گا جو زمین پر خونریزی و فساد برپا کرے ھم تیری تسبیح و تحلیل کرتے ھیں تب اس وقت خدا وند عالم نے فرمایا جو میں جانتا ھوں تم نھیں جانتے “یہ مقام تمام اولاد آدم کے لئے نھیں ھے کیوں کہ قرآن بعض اولاد آدم کو شیطان کھتا ھے ارشاد ھوتا ھے :(وَکَذَالِکَ جَعَلْنَالِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوّاً شَیَاطِیْنَ الإنْسِ وَالْجِنِّ )(15)”اور(اے رسول) جس طرح یہ کفار تمھارے دشمن ھیں اسی طرح (گویا) ھم نے (خود آزمائش کے لئے) شریر آدمیوں اور جنوں کو ھر نبی کا دشمن بنایا”اس میں کوئی شک نھیں کہ شیطان ان افراد میں نھیں ھے کہ جس کو ملائکہ سجدہ کرتے اس موقعہ پر خداوند عالم ارشاد فرماتا ھے :(وَإذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَةِ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَراً مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَاءٍ مَسْنُوْنَ فَإِذَا سَوَّیْتَہ وَنَفَخْتُ فِیْہ مِنْ رُوْحِیفَقَعُوْا لَہ سَاجِدِیْنَ)(16)”اور (اے رسول وہ وقت یاد کرو) جب تمھارے پروردگار نے فرشتوں سے کھا کہ میں ایک آدمی کو خمیر دی ھوئی مٹی سے جو سوکہ کر کھن کھن لولنے لگے پیدا کرنے والا ھوں تو جس وقت میں اس کو ھر طرح سے درست کرچکوں او راس میں اپنی (طرف سے ) روح پھونک دوں تو سب کے سب اس کے سامنے سجدہ میں گرپڑنا”خلیفة اللہ ھونا بھت سے اھم شرائط رکھتا ھے جن میں سے کچھ شرائط مندرجہ ذیل ھیں :
1۔اسماء کا علم(وَعَلَّمَ آدَمَ الاٴسْمَاءَ کُلَّھا ) (17(“اور (آدم کی حقیقت ظاھر کرنے کی غرض سے) آدم کو سب چیزوں کے نام سکھادئے”
2۔اللہ کا خلیفہ روئے زمین پر عدالت و انصاف کو جاری کرنے کی صلاحیت رکھتا ھولھٰذا وہ انسان جس کی عادت قتل و غارت اور خونریزی ھو اور کوئی بھی ظلم کرنے سے نہ گھبراتا ھو وہ خلیفہ اللہ نھیں ھوسکتا (معاذاللہ ) کیا خدا وند عالم ظالم ھے کہ اس کا خلیفہ اور جانشین بھی ظالم ھو ؟اللہ کا خلیفہ وہ ھے جو اپنی فردی اور اجتماعی زندگی میں خدائی حفاظت کا اظھار کرے نہ یہ کہ جو دو پیروں سے انسانی شکل میں چلتا ھو وہ خلیفتہ اللہ ھے لھٰذا وہ افراد جو لوگوں کو گمراہ کرنے اور حکومت اسلامی کو درھم و برھم کرنے میں لگا ھو وہ افراد نہ یہ کہ اشرف المخلوقات نھیں ھیں بلکہ انسانی شکل میں شیطان ھیں جن کو خدا وند عالم حیوانوں سے بھی بدتر کھتاھے ان لوگوں کے بارے میں ارشاد ھوتا ھے:(إِنَّ شَرَّ الدَّوَابُّ عِنْدَ اللّٰہ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ )( 18 (“اس میں شک نھیں کہ زمین پر چلنے والے تمام حیوانات سے بدتر خدا کے نزدیک وہ بھر ے گونگے (کفار) ھیں جو کچھ نھیں سمجھتے”معترض کھتا ھے کہ انسان کی عظمت و بزرگی اس کے کردارسے ھے اور جو چیز یں انسان کی آزادی میں مانع ھوں وہ قابل قبول نھیں ھے یہ ایک دھوکہ والانعرہ ھے جو مغرب زمین میں لگایا جاتا ھے اور دوسرے ملکوں میں بھی اسے قبول کیا جاتا ھے جبکہ اس کے لوازمات اور اثرات پر توجہ نھیں کی جاتی اور نعرہ پر پا فشاری کی جاتی ھے بے شک اس نعرہ کے جوابمیں کہ جس میں بھت سے اغراض و مقاصد پوشیدہ ھیں ایک تفصیلی بحث کی ضرورت ھے اور انشاء اللہ بعد میں اس سلسلہ میں بحث کی جائے گی لیکن اس وقت ااجمالی طور پر یہ سوال کرتے ھیں کہ انسان کے مطلق طور پر آزاد ھونے کا مقصد کیا ھے اور کسی محدود یت کے قائل نہ ھونے سے آپ کی مراد کیا ھے ؟ کیا آپ کا مقصد یہ ھے کہ انسان کے لئے کوئی بھی قانون ضروری نھیں ھے ؟اس کو تو کوئی بھی عاقل انسان قبول نھیں کرسکتا کیونکہ اس کا مطلب یہ ھے کہ انسان ھر کام میں آزاد ھے اور جوآزاد ھے وہ کسی کو قتل بھی کرسکتا ھے کسی کی عزت بھی لوٹ سکتا ھے لوگوں میں نا امنی بھی پھیلا سکتا ھے اس میں کوئی شک نھیں کہ سب سے نقصان یا ضرر خود اس نظریہ رکھنے والے کو پھونچ سکتا ھے اور کیا ایسی آزادی رکھنے والوں کے درمیان زندگی بسر کی جاسکتی ھے ؟ لھٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان کی آزادی نا محدود نھیں ھے اور اور انسان ایسا آزاد نھیں ھے کہ جو بھی چاھے اسے انجام دے اب جبکہ روشن ھوچکا ھے کہ آزادی محدود اور مشروط ھے اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ آزادی کے حدود کو کون معین کرے ؟ اور آزادی کی حد کھاں تک ھے ؟اور اگر طے یہ ھو کہ ھر انسان آزادی کی حد کو معین کرے تو اس کا نتیجہ بھی آپ کے سامنے ھے کہ ھر انسان اپنی مرضی سے عمل کرے اور یھاں پر یہ اعتراض ھوتا ھے کہ جو مطلق آزادی پر ھوتا ھے لھٰذا ضروری ھے کہ آزادی کی حد کو معین کرنے کے لئے ایک قانونی مرجع ھونا چاھئے اس صورت میں اگر کوئی قبول کرتا ھے کہ خدا ھے اور انسان کے لئے نفع و نقصان کو خود اس سے بھتر جانتاھے اور انسان کی زندگی سے خدا کو کوئی فائدہ نھیں پھنچتا ھے اور وہ تو صرف اپنے بندوں کی بھلائی چاھتا ھے تو ایسے شخص کے لئے آزادی کی حد کو بیان کرنے کے لئے خدا کے علاوہ دوسرا کون ھوسکتا ھے ؟ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کے اعتقادی اور فکری مسائل میں کوئی تناقض نھیں ھے کیونکہ مسلمان اس خدا کو مانتے ھیں کہ جو انسان کے لئیے نفع ونقصان کو خود اس سے بھتر جانتا ھے اور بھتر طور پر جانتا ھے کہ انسان کی بھلائی کس چیز میں ھے لھٰذا وہ اس آزادی کی حد کو بیان کرے لیکن اگر کوئی خدا پر ایمان نہ رکھتا ھو یا اگر خدا پر ایمان تو ھو لیکن اس کو آزادی کی حد معین کرنے والا نہ مانے اور یہ کھے کہ انسان خود آزادی کی حد کو معین کرسکتا ھے تو ایسی صورت میں ھزاروں مصیبتوں میں مبتلا ھوجائے گا کیونکہ تمام انسان ایک نظریہ پر متفق نھیں ھوپائیںگے اور اگر اکثریت نے آزادی کی حد کو معین کیا اور اقلیت نے اس کو قبول نہ کیا وہ کس طرح اپنے حقوق تک پھونچ سکتے ھیں لھٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ اگرچہ آزادی ایک خوبصورت اور دل پذیر لفظ ھے لیکن مطلق اور لا محدود نھیں ھے اور کوئی بھی مطلق آزادی کو قبول نھیں کرسکتا۔
حوالے(1)سورہ غاشیہ آیت21، 22(2)سورہ انعام آیت 107(3)سورہ مائدہ آیت 99(4)سورہ انسان آیت 76(5) سورہ کھف آیت 28(6)سورہ احزاب آیت 36(7) سورہ مائدہ آیت 55(8) سورہ احزاب آیت 6(9)سورہ یونس آیت 99(10)سورہ نساء آیت 150و151(11 (سورہ نساء آیت 65(12 )سورہ نساء آیت 105(13)سورہ آل عمران آیت 7(14)سورہ بقرہ آیت 30(51) سورہ انعام ؛آیت 112(16)سورہ حجرآیات 29و 30(17)سورہ بقرہ آیت 31(18)سورہ انفال آیت 22

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.