اسلامى تہذيب كےمغربي تہذيب پر اثرات

223

اسلام سے مغرب ميں علم اور تہذيب كا نقل و انتقال تين راہوں سے انجام پايا :1) مسلمانوں كااسپين ، اٹلى ،سسلى اور صليبى جنگوں ميں عيسائيوں كے ساتھ ميل جول اور انكا عالم اسلام كے مختلف مناطق ميں اسلامى تہذيب اور كلچر سے آشنا ہونے اور عالم اسلام كى باہر كى دنيا سے سرحدوں كے ذريعے_2) پانچويں صدى سے ساتويں صدى ہجرى تك عربى كتب كا يورپى زبانوں ميں ترجمہ _3) ان عربى كتب كى تدريس اور ان سے فائدہ اٹھانا كہ جنہيں مسلمان دانشوروں نے علمى مراكز ميں تحرير يا ترجمہ كيا تھا_
مغرب والوں كا اسلامى تہذيب و تمدن سے آشنائي كا ايك اہم ترين مركز اسپين تھا _ اسپين كے عيسائيوں پر اسلامى نظريات كى چھاپ انكے عيسائي رہبروں پر اسلامى نظريات كے اثرات سے ديكھى جا سكتى ہے _ جيسا كہ كہاگيا ہے كہ ٹولڈو(طليطلہ ) شہر كے پادرى ايلى پنڈس نے اسلامى عقائد سے متاثر ہوتے ہوئے حضرت عيسى كى الوہيت كا انكار كيا اور كہا كہ وہ بشر اور خدا كے منہ بولے بيٹے تھے دوسرى طرف اس زمانہ ميں اسپين كے لوگ عربى لباس پہنتے تھے اور اسلامى و عربى آداب كاخيال ركھتے تھے كہا جاتا ہے كہ غرناطہ (گرايناڈا) شہر كى دو لاكھ مسلمان آبادى ميں سے فقط پانچ سو عرب تھے باقى سب خود اسپين كے لوگ تھے _ (1)اسلامى آثار كا يورپى زبانوں ميں ترجمہ : مجموعى طور پر عربى زبان سے يورپى زبانوں ميں ترجمہ كے رواج كو عيسائي مملكت كے اندرونى اوربيرونى دو قسم كے اسباب ميں تقسيم كيا جا سكتا ہے _صليبى جنگوں ميں عيسائيوں كا مسلمانوں كى تہذيب سے آشنا ہونا اور مسلمانوں كى علمى ميراث اور كتابوں كے ايك مجموعہ كا سامنا كرنے كو بيرونى سبب شمار كيا جا سكتا ہے،عيسائيوں ميں اہم ترين اندرونى سبب يہ ہے كہ عيسائي دانشور حضرات كو معلوم نہ تھا كہ يونانى علماء بالخصوص ارسطو ، سقراط، بطلميوس اور جالينوس كے علمى آثار كے مقابلے ميں كيا كريں ، بہت سارے دلائل اس بات كى طرف اشارہ كرتے ہيں كہ عيسائي علماء اور فلاسفہ ان يونانى آثار كے اصلى متون سے استفادہ كرنے پر قادر نہيں تھے ، چونكہ يونانى معيارى زبان اور ان آثار كى كتابت كے مابين بارہ صديوں كے فاصلے كے باعث عيسائيوں كے بہترين زبان شناس اور مترجمين بھى ان متون كے ادراك سے عاجز تھے ، اور ساتھ بہت سے يونانى كلاسيكى آثار ختم ہوچكے تھے اور ان تك پہنچنے كيلئے عربى زبان سے ترجمہ كے علاوہ كوئي اور راستہ نہ بچا تھا اسى ليے عربى آثار سے لاطينى ميں ترجمہ كى تحريك شروع ہوئي_يہ تحريك دو بڑے ادوار ميں تقسيم ہوتى ہے:پہلا دورہ ويٹيكن كے پاپ سيلوسٹر دوم ( 1003 _ 998عيسوي) كے اس عہدے پر پہنچنے سے شروع ہوا اور اسپين كے مقامى حاكموں ميں سے آلفونسوى دہم كى حكومت كے————————-1)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج 10 ، ذيل انڈلس_165 زمانہ ميں ختم ہوا _ اور دوسرا دور اين آلفونسو (1284 _ 1253 عيسوى ) كے زمانہ سے شروع ہوا _ دونوں ادوار ميں اہم فرق يہ ہے كہ پہلے دور ميں عربى آثار سے عمومى طور پر لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوتا تھا جبكہ دوسرے دور ميں زيادہ تر عربى زبان سے اسپينى اور رومى زبان ميں ترجمہ ہوتا تھا اس دور ميں وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ بہت سے مترجم افراد سامنے آئے كہ جنكى تعداد كا 150 تك تخمينہ لگايا گيا ہے _(1)ان افراد ميں بعض افراد كى اس حوالے سے خدمات پر يوں نگاہ ڈالى جا سكتى ہے :افريقى گروہ ميں كينسٹينٹن كے ذريعے وسيع پيمانہ پر آثار كا ترجمہ ہوا اسكے ترجمہ شدہ آثار ميں طب كے حوالے سے جالينوس كے آثار اور فلسفہ ميں ارسطو كے آثار قابل ذكر ہيں _ ہوگوسينٹالايى نے ارسطو ، يعقوب بن اسحاق كندى ، ابومعشر بلخى اور ديگر افراد كے آثار كا ترجمہ كيا ، يوہيس ہيسپايسنر نے ارسطو ، بتّانى ، فارابى ، فرغانى ، قبيسي، محمد بن موسى خوارزمى ، يعقوب بن اسحاق كندى اور ابو معشر بلخى كے كثير آثار كاترجمہ كيا اسكا اہم ترين كام بوعلى سينا كے آثار كو لاطينى زبان ميں ترجمہ كرنا ہے مايكل اسكاٹ نے بھى بہت سے ترجمے كيے بالخصوص اسكا اہم كام ارسطو كے تمام آثار كا ترجمہ كرنا ہے _ پلاٹوى ٹيولياى نے بھى مختلف علمى ميدانوں مثلا نجوم ، رياضى ، ہندسہ ، اور فلسفہ ميں بہت سے آثار كا لاطينى زبان ميں ترجمہ كيا _ (2)عربى سے لاطينى زبان ميں ترجمہ كى تحريك ‘گراردوى كرموناي’ كا مقام انتہائي كى اہميت كا حامل ہے اس نے لاطينى زبان ميں ستر كے قريب آثار كا ترجمہ كيا ان ميں بہت سے علمى موضوعات مثلا طب ، فلسفہ ، نجوم ، اخلاق ، سياست و غيرہ شامل ہيں ، طب كے حوالے سے اسكے قلم سے ترجمہ شدہ جالينوس اور سقراط كے آثار اور اسكے ساتھ مسلمان شارحين كے آثار كا ترجمہ يونانى طب كا ايك مكمل مجموعہ كہلاتا ہے _
1_ عقلى علوم ، اسلامى فلسفہ اور الہى علوم كے مغربى تہذيب پر اثراتبارہويں صدى عيسوى كے ابتدائي سالوں ميں گونڈيسالومى اور خواں شقوبى نے بوعلى سينا ، فارابى اور غزالي————————1)دانشنامہ جہان اسلام ، ج 7 ، ذيل ترجمہ ، نہضت (سيد احمد قاسمى )_2)سابقہ حوالہ، ج 5 ، ذيل پلاوى تيولياى ، فريد قاسملو_166كے آثار كا ترجمہ كيا ، اہل مغرب ان ترجمہ شدہ كتابوں كے ذريعے ارسطو كے نظريات و عقائد سے آشنا ہوئے ، حقيقى بات يہى ہے كہ اہل مغرب ارسطو كے بارے معلومات حاصل كرنے ميں مسلمانوں كے احسان مند ہيں اور اسميں كوئي شك و شبہہ نہيں ہے كہ يورپ والے مسلمانوں كے نظريات سے آگاہ ہونے كے بعد فلسفہ كے عاشق ہوئے اور ارسطو كے آثار كا مطالعہ كرنے لگے_ارسطو اور ابن رشد كى تعليمات آپس ميں مخلوط ہو چكى تھيں اس كى روش اور نظريات وسيع پيما نہ پر يہوديوں ميں پھيل چكے تھے_ اسى طرح يہ نظريات عيسائيوں ميں بہت گہرائي تك اس طرح سرايت كر رہے تھے كہ كليسا والے پريشان ہونے لگے يہاں تك كہ سن تھامس نے عربى زبان كے مترجميں پر تنقيد كى اور ارسطو اور اسكى كتابوں كے عرب شارحين كے عقائد و افكار ميں فرق پر زور ديا ابن رشد كے علاوہ بو على سيناكى آراء و افكار كا بھى سرزمين مغرب ميں بہت زيادہ استقبال ہوا_بوعلى سينا كے جو افكار مغرب ميں منتقل ہوئے ان ميں سے ايك معقولات كا موضوع تھايعنى وہ چيزيں جو عقل كے ذريعے قابل درك ہيں بوعلى سينا كا ايك نظريہ يہ بھى تھا كہ ہر موجود كى اساس تجزيہ كے قابل نہيں ہے اور موجودات ميں كثرت و اختلاف كى بنياد بذات خود مادہ ہے _سرزمين مغرب كے بعض دانشور مثلا راجر بيكن كا يہ عقيدہ تھا كہ ارسطو كے فلسفہ كے اثرات مغرب ميں زيادہ نہيں تھے خواہ اسكى وجہ اسكى كتابوں اور رسالوں كا كم ہونا ہو خواہ اسكى كتابوں اور رسالوں كا آسانى سے درك نہ ہونا ہو يہاں تك كہ پيغمبر اسلام (ص) كے بعد اسلام كے بڑے فلاسفہ مثلا بوعلى سينا اور ابن رشد نے ارسطو كے فلسفہ كو سمجھا اور موضوع بحث قرار ديا اگر چہ اس دور ميں بوئيٹس نے ارسطو كے بعض آثار كو ترجمہ كرديا تھا فقط مانيكل اسكاٹ كے دور ميں كہ جب اس نے ارسطو كى طبيعت اور حكمت كے بارے ميں بعض كتابوں كا عربى سے لاطينى ميں ترجمہ كيا تو اس دور ميں مغرب ميں ارسطو كے فلسفہ كو پسند كيا گيا(1)_————————–1)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ، ج 3 ذيل’ ابن رشد’ ( شرف الدين خراسانى اُ جَ ع ذيل’ ابن سينا’_167648 قمرى ہجرى ميں عيسائي مبلغين كے حكم پر ٹولڈو شہر ميں مشرقى علوم سے آشنائي كيلئے پہلا ادارہ قائم ہوا، اس ادارہ ميں عربى زبان ، عيسائي اور يہودى دينى علوم كى تعليم دى جاتى تھى تا كہ مسلمانوں ميں تبليغ كيلئے افراد تيار كيے جائيں اس ادارہ كا سب سے بہترين طالب علم ريمنڈ مارٹن تھا ،اسكا يورپ ميں مسلمان مصنفين كے بارے ميں معلومات كے حوالے سے كوئي ثانى نہ تھا وہ نہ صرف يہ كہ قرآنى آيات اور اسلامى احاديث سے آگاہى ركھتا تھا بلكہ فارابى سے ليكر ابن رشد تك علم الہى اور اسلامى فلسفہ كے تمام علماء سے نكات بھى جانتا تھا ريمونڈ مارٹين نے غزالى كى مشہور كتاب تھافت الفلاسفہ پر بھى تحقيق كى اور اس كتاب كے بعض حصوں كو اپنى كتاب ‘پوگو فيڈي’ ميں نقل كيا غزالى كے افكار و عقائد جب سے يورپى دانشوروں كے ہاں منتقل ہوئے اسى وقت سے عيسائي اہل فكر كيلئے بہت اہميت كے حامل ہيں اور اب بھى ان كے ليے مفيد ہيں _فلسفہ ميں اسلام كى ديگر عظيم شخصيات ميں سے كہ جو يورپ ميں مشہور ہوئيں جناب ابن رشد تھےاٹلى ميں انكے افكار و نظريات تقريباً سولھويں صدى عيسوى تك چھائے رہے،ان كے عقائد عيسائيوںميں بہت سى مباحث كا باعث قرار پائے_ مغرب ميں ابن رشد كے فلسفہ كى پيروى كہ جسے اصطلاحى طور پريوروازم كانام ديا گيا جديد علوم كے ظہور تك يورپ ميں فلسفہ كى بقا كے اسباب ميں سے ايك سبب تھا(1) _يہ مسلمہ بات ہے كہ اس علم الہى كے حوالے سے مسلمانوںكى خدمات بے حد اہميت كى حامل ہيںاور وہ لوگ جو اسلامى دانشوروں كو جدت و بنياد سے محروم كہتے ہيں يقيناً انہوں نے ابن رشد اور غزالى كے آثار كا مطالعہ نہيں كيا ٹوماز ايكوئنس كى مشہور كتاب ‘سوما’اسى كوتاہ فكرى پر ايك دليل ہے_چارصديوں سے زيادہ مدت تك يورپ كے تمام تعليمى اور ثقافتى مراكز پر اسلامى تہذيب و تمدن كے اثرات چھائے رہے _ جب يورپ ميں اسلامى افكار كى برترى كا دور ختم ہو ا پھر بھى مشرق و مغرب ميں ثقافتى رابطہ باقى رہا اور يہ رابط و تعلق تيرھويں صدى عيسوى ميں اپنے عروج كو پہنچا ، اگر ہم اس دور كے باقى ماندہ——————–1) سابقہ حوالہ ج 2_168آثار كا تجزيہ كريں تو ديكھيں گے كہ اسلامى تسلط ہميشہ جارى رہا اور يہ اسلامى برترى قرون وسطى كے ادوار ميں اس سے كہيں زيادہ تھى كہ جس كا تذكرہ آج كيا جاتا ہے_
2_ اسلامى طب كے مغربى تہذيب پراثراتاسلامى طب نے مغربى طب پر مختلف انداز سے اثرات ڈالے ان ميں سے ايك اسلامى طبيبوں كے بہت سے آثار كا لاطينى زبان ميں ترجمہ ہونا تھا، ان اطباء ميں سے ايك اہم ترين طبيب محمد بن زكريا رازى ہيں كہ جنكے بہت سے آثار لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئے اور ہر كتاب باربار شايع ہوئي بہت سے مغربى مورخين اور دانشوروں كا يہ نظريہ ہے كہ رازى كى كتاب ‘ الجدرى و الحصبة’ ( پھوڑے اور خسرہ) انكى سب سے بڑى تاليف ہے يہ كتاب 1498عيسوى ميں پہلى بار ترجمہ ہو كر شايع ہوئي اس كے علاوہ يہ كتاب چاليس بار يورپ ميں شايع ہوئي معلوم يہ ہوتا ہے كہ اسلامى تہذيب ميں اسلامى طبى كتابوں ميں سے اس كتاب كے ترجموں اور چھپنے كى تعداد ديگر كتب سے بہت زيادہ ہے _رازى كى ايك اور كتاب’ الحصى المتولدہ فى الكلى و المثانہ 1896 عيسوى ميں پيرس ميں شايع ہوئي _1279 عيسوى ميں چارلس اول كے دور ميں رازى كى كتاب الحاوى فرح بن سالم نامى ايك يہودى طبيب كے ذريعے لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئي اور 1542 عيسوى ميں پانچ بار شايع ہوئي _ يہ كتاب يورپ ميں علم طب كے نصاب كى اہم ترين كتاب شمار ہوتى تھى _دوسرے طبيب كہ جنہوں نے مغربى طب كو متاثر كيا جناب بو على سينا ہيں انكى كتاب قانون بہت سالوں تك مغرب كى اہم ترين طبى كتاب شمار ہوتى رہى پندرھويں صدى عيسوى كے آخر ميں اس كتاب كى سولہ بار يورپ ميں اشاعت كى گئي جو پندر ہ بار لاطينى زبان اور ايك بار عبرى زبان ميںتھى _ اس كتاب كى لاطينى اور عربى زبان ميں لكھى گئي تفاسيربے شمار ہيں يہ كتاب سترويںصدى عيسوى كے دوسرے نصف حصے تك كئي بار شايع ہوئي اور ايك طويل مدت تك ايك نصابى كتاب شمار ہوئي رہى شايد علم طب ميں آج تك اسكى مانند كوئي كتاب اسقدر رائج نہ رہى ہو_
169اس كے علاوہ اور كئي پہلوں سے اسلامى علم طب نے مغربى طب كو متاثر كيا_ ميرے خيال ميں يورپ ميں ہسپتالوں كا وجود ميں آنا شرقى اور اسلامى ہسپتالوں سے متاثر ہونے كى بناء پر تھا_ علاوہ ازيں يورپى طبيب جس چيزميں مسلمانوں كے احسان مند ميں وہ مختلف بيماريوں كے طريقہ علاج تھا يہ تو ہم جانتے ہيں كہ يورپى طبيبوں نے بہت سى بيماريوں مثلا خسرہ ، ٹائيفائڈاور طاعون كا علاج اور اسى طرح بہت سے طبى آپريشنوں كے طريقہ كار كو مسلمانوں سے سيكھا جسكى مثال يہ ہے كہ مسلمان طبيب زھراوى قرطبى كا طبى رسالہ يورپ ميں آج علم جراحت كى اساس كے طور پر جانا گيا ہے _(1)
3_ اسلامى رياضيات كے مغربى تہذيب پر اثراتمغرب ميں علم رياضى كى ترقى كے حوالے سے اسلامى رياضى دانوں كے اثرات بہت زيادہ ہيں يورپى لوگ مسلمانوں كے ذريعے دہائي نظام كى عدد نويسى اور ہندى اعداد كى شكل سے آشنا ہوئے جو آج بھى مورد توجہ ہے _ يہ اثرات خاص طور پر كتاب ‘ المختصر فى الجبر و المقابلہ’ كے ترجمہ كے ذريعے پڑے _ يہ كتاب بار بار لاطينى زبان ميں ‘ لبيبر الگوريسمي’ ( يعنى خوارزمى كى كتاب) كے نام سے ترجہ ہوئي اسى كتاب كے لاطينى ترجمہ سے كلمہ ‘algorism’ كا معنى حساب كرنا اور حساب كرنے كى روش ليا گيا _قرون وسطى كے ادوار ميں يہ كتاب يورپ ميں شہرہ آفاق تھي_ اور سولھويں صدى عيسوى ميں فرانسيسى رياضى دان فرانسويت كے زمانہ تك يورپى رياضى دانوں كے مطالعات كى بنياد چلى آئي _ خوارزمى كى ايك اور اہم ترين كتاب كہ جسكا نام ‘ حساب ھند’ ہے ،خود اصل كتاب تو اب باقى نہيں رہى ليكن چودھويں صدى عيسوى ميں اسكا لاطينى زبان ميں ہونے والا ترجمہ موجود ہے _ اسلامى ماخذات ميں يہ كتاب ‘ الجمع و التفريق بحساب الہندسہ’ كے نام سے پہچانى جاتى ہے _—————————1) فؤاڈ سزگين : تاريخ نگارشہا ى عربى ، ج 3 ترجمہ اشاعت از خانہ كتاب ، مقدمہ ، ص 30 كے بعد_170خوارزمى كے علاوہ ديگر اسلامى دانشوروں كے كى كتابيں بھى اسى دور ميں اور بعد كے ادوار ميں لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئيں (1) مثلا خيام ، خواجہ نصير الدين طوسى اور فارابى كى علم رياضى ميں كتابيں لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئيں _آخرى مسلمان رياضى دان كہ جنگے قرون وسطى بعد كے ادوار ميں آثار كا لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوا جناب بہاء الدين عادلى تھے كہ جو شيخ بہائي كے نام سے مشہورترين ہيں انكى كتاب ‘ خلاصة الحساب انگلش ، فرانسيسي، اور جرمنى زبان ميں ترجمہ ہوئي رياضى كے پرعملى پہلو مثلاًچند حصوں پر مشتمل منظم و غير منظم اشكال الجبرا كى مساواتوں كے متعدد عددى اور ہندسى راہ حل ، pعدد(n) كے دقيق ميزان تك پہچنا اور متعدد اضلاع پر مشتمل چيزوں كى حدود اور مساحت كى نمائشے كيلئے مختلف روشيںو غيرہ اس مسلمان رياضى دان كے محنتوں كا ثمرہ تھا كر جو مغرب ميں منتقل ہوا(2)
4_ اسلامى علم فلكيات كے مغربى تہذيب پر اثراتاسلامى ماہرين فلكيات كى معلومات و تحقيقات ميں انكى بہت سى اختراعات بھى شامل ہيں مثلا مختلف انداز كى جنتريوںكا بنانا اور ستاروں كے حوالہ سے مختلف معلومات اسى طرح سياروں كى حركت كے بارے ميں جديدنظريات يہ سب اسلامى نجوم كے اہم ثمرات تھے كہ جو سرزمين مغرب ميں منتقل ہوئے_آج تو مكمل طور پر واضح ہو چكا ہے كہ مغربى ماہرين فلكيات مثلا نيوٹن ، كپلر اور كوپرينك اسلامى علم نجوم سے آشنا تھے اور اسلامى ماہرين فلكيات كى تحقيقات اور ثمرات سے بہت زيادہ بہرہ مند تھے قرون وسطى كے ادوار ميں سب سے پہلے اسلامى ماہر فلكيات كہ جو مغرب ميں بہت زيادہ مشہور ہوے احمد بن كثير فرغانى تھے انكى كتاب ‘ جوامع علم نجوم’ گوارڈوى كرموناى اور يوھنيس ھسپالنسز كے ذريعے يورپ ميں ترجمہ ہوئي اور يہ——————————-1) گوسٹالو بون _ ص 567_2) سيد حسين نصر، علم و تمدن در اسلام ، ترجمہ احمد آرام ، تہران 1359 ، ج 2 ص 137_138_171كتاب يورپ ميں آٹھ صديوں تك مورد استفادہ رہى ايك اور اسلامى دانشور كہ جنكے نظريات مغرب ميں توجہ كا مركز قرار پائے پانچويں صدى ہجرى كے زرقالى اندلسى ہيں انكى علم نجوم ميں مشہور كتاب’ زيج طليطلي’ لاطينى زبان كے ماھرين فلكيات كى مركز توجہ قرار پائي_جب مسلمانوں نے اپنى حكومت كے تحت تمام اسلامى ممالك ميں رصد خانے قائم كے اور ستاروں كے حوالے سے ابتدائي معلومات حاصل كيں تو اسلامى ماھيرين فلكيات كا نام پورى دنيا معروف ہوا دور و نزديك سے علم كے تشنہ انكى طرف رجوع كرنے لگے مغرب كے بادشاہ نہ صرف يہ كہ اندلس كے مسلمان علماء كى طرف رجوع كرتے تھے بلكہ اپنى علمى مشكلات كے حل كيلئے اپنے نمايندے مشرق كے اسلامى ممالك ميں بھيجتے تھے تا كہ علم نجوم كے حوالے سے مشكلات حل كرسكيں اور مسلمانوں كے بنائے ہوئے بہت سے نجومى آلات مثلا اصطرلاب ، نجومى كرے (گلوب)اور گھڑياں و غيرہ سرزميں مغرب ميں منتقل ہوئيں _اسطرح مغرب ميں بھى ستارہ شناسى كا علم ترقى كرنے لگا تقريباًيہ بات يقينى ہے كہ اوقات كے تعين كيلئے پنڈولم كے استعمال كا طريقہ كار مسلمانوں سے اسپين كے راستے مغربى سرزمينوں ميں منتقل ہوا اوريہ مسلم ہے كہ يہى وسيلہ بہت سى ديگر علمى ايجادا ت كى اساس بنا، حقيقت ميں كہا جا سكتا ہے كہ مغرب ميں ستارہ شنا سى كے علم ميں ترقى اسلامى ستارہ شناسى كى بناء پر ہوئي اور يہ اسپين كے اس يہودى كے ذريعے ہو ا كہ جس نے 1106 عيسوى ميں عيسائيت كو قبول كيا اور پڈرو آلفونسو كے نام سے معروف ہوا _ آج اسكى تاليفات ميںسے بہت كم بچا ہے ليكن اس نے اپنے بعد كے ستارہ شناس لوگوں بالخصوص فرانس اورانگلنيڈ كے ماھرين فلكيات كو بہت متاثر كيا_رابرٹ گروسٹسٹ كہ جو ايك مدت تك آكسفورڈ يونيورسٹى كے پرنسپل بھى رہے اور اس مادى جہاں كے بارے ميں رياضياتى نظم كے قائل تھے ان كى علمى ترقى كااصلى سبب اسلامى كى زندہ روايت سے براہ راست تعلق اور عربى سے لاطينى زبان ميںعلمى آثار كا ترجمہ تھا_(1)—————————1) جرجى زيدان ،سابقہ حوالہ ، ص 294 _288 ، سيد حسين نصر ، سابقہ حوالہ ، ص 162_161 گوسٹالو لوبون ،سابقہ حوالہ، ص 586_1725_ اسلامى جغرافيہ كے مغربى تہذيب پر اثراتمسلمانوں كے مغرب كے جغرافيہ ميں اثرات اور وہاں اس علم كى ترقى ميں انكے كردار پر مطالعہ اور تحقيق كوئي آسان كام نہيں ہے كيونكہ يہ واضح نہيں ہے كہ مسلمانوں كى جغرافيہ كے حوالے سے معلومات كس حد تك مطالعاتى اور كس حد تك تجرباتى مشاہدات اور سير و سفر كى بناء پر تھيں_اگرچہ تيسرى صدى ہجرى سے چھٹى صدى ہجرى تك اس حوالے سے بہت سى كتابيں عربى زبان ميں لكھى گئيں ليكن ان سب كو درست اوربے عيب نہيں سمجھا سكتا دوسرى طرف تاجروں اور جہاز رانوں كے مختلف سير و سفر كے تجربات اور مشاہدات انتہائي اہميت كے حامل ہيں جغرافيہ كے موضوع پر لكھنے دالے مؤلفين يقينا ايسے لوگوں سے خوب بہرہ مند ہوتے تھے كيونكہ يہى تاجراور دريانورد لوگ ہى تھى كہ جنہوں نے اسلام كے قرون وسطى كے يورپ سے تعلقات قائم كيے اور اسلامى تہذيب كو يور پ ميں منتقل كيا _جغرافيہ كے حوالے سے مختلف سفرنامے ، جغرافيائي كتابيں اور زمين كے حدود اربعہ كى تشريحات ،مختلف انواع كے جغرافيائي نقشہ جات اورفلكيات كى راہنما كتابيں يہ سب مغربى جہاز رانوںاور جغرافيہ دانوں كے زير استعمال تھيں_اسلامى ماہرين فلكيات كے جغرافيائي آثار ديگر جغرافيائي كتب سے بڑھ كر قرون وسطى كے يورپ ميں مقبول و معروف تھے اور ان ميں سے بعض يورپى زبانوں ميں ترجمہ بھى ہوئے_ سب سے پہلى جگہ جہاں جغرافيہ كے عيسائي اساتذہ نے اسلامى جغرافيہ كى تعليم لى وہ اسپين كا شہر ٹولڈ تھا اور انہوں سے سب سے پہلى چيز زميں كا گول ہونا سمجھا كيونكہ اس كو سمجھے بغير بر اعظم امريكا كا دريافت ہونا ممكن نہ تھا_اسلامى ماہرين فلكيات علم جغرافيہ كو زيادہ تر جغرافيائي طول و عرض كے تعين كے ليے مطالعہ ميں لاتے تھے اور بطلميوس كى سات تقسيمات كے مطابق ربع مسكون (1)كو سامنے لاتے تھے_ اسى قسم كى تقسيمات 1501—————————1)زمين كا وہ چوتھائي سطحى حصہ جو خشك ہے اور انسانوں اور حيوانات سے آباد ہے_173سے 1504 عيسوى تك پرتگا ليوں كے دريائي نقشوں ميں مرتب و منظم كى گئي تھيںان ہى تقسيمات كے بعض نقشہ جات كوحتى كہ اٹھارہويں صدى كے اواخر ميں بھى يورپى جغرافيائي نقشہ جات ميں ديكھا جا سكتا ہے_مسلمان جہاز رانوں كاجغرافيہ ميں اہم ترين اقدامات ميں سے ايك قطب نما كو استعمال ميں لانا تھا _ اگر چہ يہ چينيوں كى ايجاد تھى _ ليكن يہ معلوم نہيں تھا كہ وہ لوگ آيا اسے كشتى رانى ميں استعمال كرتے تھے يا نہ؟ كيونكہ وہ كبھى بھى ساحل سے دور نہيں ہوئے تھے_ ليكن مسلمانوں كى صورت حال مختلف تھى جب يورپى لوگ چين كے وجود سے بے خبر تھے تو اس دور ميں يمسلمانوں كے اس ملك كے ساتھ تجارتى تعلقات تھے لہذا قوى امكان يہى ہے كہ مسلمانوں نے يورپى لوگوں كو اس قطب نماسے آگاہ كيا ہو_ چونكہ يورپى لوگ تيرھويں صدى سے پہلے تك قطب نما استعمال نہيں كرتے تھے جبكہ اسلام كے عظيم مورخ اور جغرافيہ دان ادريسى نے بارھوين صدى كے وسط ميں قطب نما كے بارے ميں گفتگو كى ، مسلمانوں ميں اس كے استعمال كو بيان كيا اور وہ اسكا يورپ ميں منتقل ہونا مسلمانوں كے ذريعے سمجھتے ہيں_دوسرى طرف سے واسكو ڈے گاما كے دريائي راستوں كے ذريعے مشرقى سرزمينوں تك پہنچے سے كئي صدياں قبل مسلمان ان سرزمينوں سے آگاہ تھے يہ شخص بھى مسلمان ملاح احمد بن ماجد كے ذريعے (Goodhope” (2،1″ كے راس (Promontry) سے ايشيا كے ساحل تك پہنچا حقيقى بات يہ ہے كہ ماركوپولو سے پانچ سو سال پہلے ہند اور چين كى طرف ملاح راستہ ايك مسلمان ملاح سليمان سيرافى كے ذريعے معلوم ہو چكا تھا(3)_————————1) جنوبى افريقا كا معروف را س جس كے بارے ميں كہا جاتاہے كہ واسكو ڈے گا مانے اسے 1497 ميں دريافت كيا (مصحح)2) را س يا Promontry ، خشكى كا وہ تكون اور ابھرا ہوا حصہ جو سمندر ميں دور تك چلا گيا ہو ( مصحح)_3)م،م شريف ، منابع فرہنگ اسلامى ، ترجمہ سيد جليل خليليان ، تہران ، ج 2 ص 84، شہريار رامہرمزى ، عجائب الہند ، ترجمہ محمد ملك زادہ ، تہران، احمد فرامرزى ، تاريخ جغرافى در دورہ اسلامى ، مجلہ تقدم ، ش 1 ص 538_1746_ اسلامى ہنر و فن كا يورپ ميںنفوذمسلمانوں نے مختلف علوم و دانش ميں علمى ترقى اور اختراعات كے ساتھ ساتھ فنون لطيفہ ميں بھى اپنےخاص ذوق و سليقہ كے ذريعے بھى اپنى دھاك بٹھائي _ اسلامى تعليمات سے الہام ليتے ہوئے ہنر و فن اور صنعت كو وسعت دينے لگے آئي ايچ كرسٹى اس بارے ميں كہتے ہيں كہ ‘ يورپ والے ايك ہزار سال سے زيادہ مدت تك تعجب كے ساتھ اسلامى دنيا كے ہنر و فن كى زيبائيوں كا مشاہدہ كرتے رہے اور وہ ان چيزوں كو غير معمولى سمجھتے تھے(1)_فنون لطيفہ كى يہ نئي اصطلاح ان مصنوعات كيلئے تھيںجو روح انسان كو وسعت بخشتى ہيں _ اسلام سے قبل بھى مہذب اقوام كم و بيش فنون لطيفہ كى حامل تھيں البتہ مسلمانوں كى ان فنون لطيفہ ميں استعداد ديگر اقوام كى نسبت زيادہ تھى _ كچھ مغربى دانشوروں كا خيال ہے كہ فن مصورى ميں اسلام نے بعض موانع كى وجہ سے زيادہ ترقى نہيں كى جبكہ يہ نظريہ تمام مسلمانوں پر صادق نہيں آتا كيونكہ مسلمان بالخصوص ايرانيوں نے اس فن ميں اہم ارتقائي مراحل طے كيے(2)مسلمہ بات يہ ہے كہ اسلامى ہنر و فن ان سرزمينوں سے تعلق ركھتا ہے كہ جہاں مذہب اسلام كا نور پھيلا ہوا تھا(3)اسلام كى ترقى اور مسلمانوں كے ديگر اقوام سے روابط نے بلا وجہ كے مذہبى تعصبات كو ختم كرديا تھامسلمان مختلف فنون مثلا معمارى ، انجينيرنگ، سنگتراشى ، لكڑى پر كندہ كارى اور خطاطى ميں بہت بڑے استاد تھے ليكن اچھے مجسمہ ساز ، اور مصور نہ تھے يا ان فنون ميں ماہرين كم تھے(4)—————————–1) توماس واكر آرنولد والفرد گيوم، اسلام ميراث ، ترجمہ مصطفى علم ، تہران ، انتشارات مہر 1325، ص 68_2) جرجى زيدان ، تاريخ تمدن اسلام ، ترجمہ على جواہر كلام ، تہران ، امير كبير ، 1333 ، ج 3 ص 9_298_3) ارنست كونل ، ہنر اسلامى ، ترجمہ ہوشنگ طاہرى ، تہران ، انتشارات توماس ، 1255، ص 12_11_4) كريتيس پرايس ، تاريخ ہنر اسلامى ، ترجمہ مسعود ، رجب نيا، تہران 1247بنگاہ ترجمہ و نشر كتاب ، ص 9_8_175فن خطاطى نے مسلمانوں ميں بہت ترقى كى اسى حوالے سے يورپى كاريگر اسلامى عربى خطوط سے آشنا تو ہوئے ليكن انہيں پڑھ نہيں سكتے تھے مگر ان كے مشابہہ لكھتے تھے_ دوسرى طرف سے مقدس مقامات كى زيارت ، يورپى لوگوں كا اسلامى علوم كے حصول ميں دلچسپى اور تجارتى حوالے سے انكا اشتياق و غيرہ انہيں اسلامى سرزمينوں كى طرف كھينچ لا يا لہذا جب وہ واپس پلٹے تو اپنے ساتھ اسلامى علوم و فنون كو بھى يورپى سرزمينوں تك لے گئے(1)ايك چيز جسے يہ يورپى طالب علم اسلامى مدارس سے اپنے ساتھ يورپ لے گئے وہ ‘ اصطرلاب’ تھا كہ آكسفورديونيورسٹى ميں آج بھى ايك قديمى ترين اصطرلاب موجود ہے كہ جسے 984 عيسوى ميں اصفہان كے اصطرلاب ساز ابراہيم كے بيٹوں نے بنايا تھا(2)اسلام كے ابتدائي دور كى دھاتى مصنوعات ميں سے قرطبہ كے ايك جرونا (3)نامى كليسا ميں ايك ڈبہ ہے كہ جو لكڑى سے تيار ہو اہے اور اسكے اوپر چاندى كا ورق چڑھا يا گيا ہے كہ جس پر شاخوں اور پتوں كا ڈيزائن ہے يہ ڈبہ اموى حكومت ( 76_961 عيسوي) كے دور سے تعلق ركھتا ہے_(4) اسلام كے ابتدا ئي دور سے سونے اور چاندى كى كوئي چيز باقى نہيں رہى البتہ امراء كے استعمال ميں رہنے والے پيتل ، تابنے اوركانسى سے بنائے گئے ظروف كے بارے ميں تحقيق كى جا سكتى ہے (5)اسلامى كاريگروں نے برتنوں كے جديد اور خوبصورت ڈايزائنز كے علاوہ ان كى خوبصورتى كے ليے ان پر طلائي نقش و نگارى ميں بہت كام كيا ، بارھويں صدى كے وسط ميں دھاتى چيزوں پر سونے كا كام عروج پر————————1)توماس واكر آرنولد و آلفرد گيوم ، سابقہ حوالہ، ص 35_2) سابقہ حوالہ ص 7_36_3) gerona_4)سابقہ حوالہ ص 38_5)سابقہ حوالہ، ارنست كوتل ، سابقہ حوالہ ، ص 70_68_176پہنچا (1) منگولوں كے عراق كے شہروں پر حملے نے اس علاقہ سے كاريگروں كو نكلنے پر مجبور كرديا اور يہ صنعت مصر ميں قدم جمانے لگي_(2)دوسرى چيزوں ميں سے مٹى كے كوزے اور طشت ملتے ہيں جو تيرھويں اور چودہويں صدى عيسوى كے دور سے متعلق ہيں كہ ان ميں سے بعض نمونے ويكٹوريا اورالبرٹ كے ميوزيم ميں موجود ہيں كہ ان نمونوں ميں سے تو بعض اسقدر اعلى اور خوبصورتى سے تيار ہوئے ہيں كہ دنيا ميں كسى جگہ بھى انكى مثال موجود نہيںہے_ ليكن چودھويں صدى عيسوى كے آخر ميں دھاتى چيزوں پر طلا كارى كى صنعت زوال كا شكار ہوگئي _(3)پندرھويں صدى عيسوى ميں اٹلى كے لوگوں نے مشرق سے تجارتى روابط كى بناء پر اپنے شہروں وينس اور وروناميں ان صنعتوں كى تقليد كرنا شروع كى _ اسى طرح شہر ونيس ميں رہائشے پذيرايك ايرانى كاريگر گروہ نے خوبصورت دھاتى اشياء تيار كرنا شروع كيں _قرون وسطى ميں اسلامى كاريگروں كے ہاتھوں دھاتى ظروف پر سونے چاندى كا كام يورپى لوگوں كى مينا كارى كى مانند تھا بس فرق يہ تھا كہ يورپى لوگ سونے چاندى سے تزيين كرنے كى بجائے مختلف رنگوں كے شيشوں سے نقوش تيار كرتے تھے_(4) اگر چہ مسلمانوں نے ان ظريف صنعتوں كے بعض ڈيزائنوں كو دوسرى جگہوں سے ليا ليكن اپنے ذوق اور سليقہ كى بناء پر ان ميں تبديلى كرتے ہوئے انكو جديد ڈايزائنوں ميں پيش كيا _——————————–1) توماس واكر آرنولڈ و آلفرڈ گيوم ، سابقہ حوالہ ، ص 38 ، گوسٹاولولوں ، تاريخ تمدن اسلام و عرب ، ترجمہ سيد ہاشم حسين ، تہران ، انتشارات كتابفروشى اسلاميہ ، 1347 شمسى ص 1_640_2) درشت كونل ،سابقہ حوالہ ، ص 5_94_3) گوسٹاولوبوں ، سابقہ حوالہ ، ص 41_ 639 ، ٹوماس واكر آرنولڈ وآلفرد گيوم ،سابقہ حوالہ ص 42_4) سابقہ حوالہ ص 3_42 ، ارنست كوئل ،سابقہ حوالہ ، ص 9_68177مسلمان چمكدار اور مينا كارى شدہ كوزے بنانے ميں بہت مہارت ركھتے تھے _ چوتھى صدى كے دور سے متعلق كچھ كوزے مشرق قريب ، شمالى افريقا اور اسپين ميں دريافت ہوئے جس سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ صنعت كس حد تك پھيلى ہوئي تھي_ شہر’ رے’ اسى صنعت كے بڑے مراكز ميں سے شمار ہوتا تھا اس خوبصورت ہنر كے بہت سے نمونہ جات وہاں سے دريافت ہوئے ہيں جو پيرس كے ليور عجائب گھر ميں ركھے ہوئے ہيں(1)يورپى كاريگروں نے پھولوں كى تصوير كشى جو اس دور ميں مغرب ميں موجود نہيں تھى ميں ايرانيوں كى تقليد كي_ شامات اور مملكت عثمانيہ سے جو ظروف ان تك پہنچے انہوں نے انہيں اپنے كام كيلئے نمونہ قرار ديا(2) شيشہ سازى كى صنعت اور اس پر آرائشے اور مينا كارى كا كام يہ سب مسلمانوں كے ذريعے يورپ ميں منتقل ہوا(3)ايران ، سوريہ اور مصر پر عربوں كے حملہ سے پہلے ان علاقوں ميں كپڑا بننے كى صنعت كا دور دورا تھا اور مشرقى روم كے ہمسايہ ميں ايسے مراكز تھے كہ جہاں مختلف نقش و نگار اور تصاوير والا ريشمى كپڑا تيار ہوتا تھا پھر اس صنعت كے بڑے بڑے مراكز ظہور پذير ہوئے اور اس صنعت سے متعلق اصطلاحات اور مخصوص الفاظ يورپى زبانوں ميں منتقل ہوئے_مصر ميں مسلمانوں كے سب سے پہلے دار الحكومت فسطاط كا تيار شدہ كپڑا كہ جو انگلستان ميں ليجايا جاتا تھا اسے فاستونى كہا جا تا تھا_ اسى طرح وہ كپڑا كہ جسے آج دمسك (دمسہ) يا دمياطى كا نام ديا جاتا ہے كہ اس زمانہ كے سب سے بڑے تجارتى مركز دمشق سے درآمد كيا جاتا تھا مسلمانوں كے ہاں تيارہ شدہ كپڑے كو اٹلى كے تاجر دمشق سے خريدتے تھے _ غرناطہ كے كپڑے يورپ ميںگرناڈين كے نام سے مشہور تھے، ہاتھ————————1)سابقہ حوالہ ص 47، كريشين ارايس ، سابقہ حوالہ، ص 3_42_2) شامات سوريا، اردن، فلسطين اور مصر كے مناطق كو اس زمانے ميں شامات كہا جاتا تھا(مصحح)_3) ارنست كوئل ، سابقہ حوالہ، ص 7_26 توماس واكر آرنولڈ وآلفرد گيوم ، سابقہ حوالہ، ص 51_50_4) سابقہ حوالہ ص 52_178سے بناہوا ايرانى ريشمى كپڑا بھى يورپ ميں بہت مقبول تھا(1) _يورپ كے درباروں كى بڑى تقريبات ميں خواتين ايران كے بنے ہوئے ابريشمى كپڑے زيب تن كيے شركت كيا كرتى تھيں بغداد اور ايران سے بننے ہوئے ريشمى كپڑوں كے ٹكڑے آج بھى برلن ،ليوور اور ليون كے ميوزيمز ميں موجود ہيں كہ جو دسويں صدى عيسوى كے آخر ميں بُنے گئے تھے مشرق سے تيارہ شدہ كپڑوں كى ہر روز مغرب ميں مانگ بڑھ رہى تھى جزيرہ سسلى ميں قصر پالرمو ميں مسلمانوں نے ريشمى كپڑے تيار كرنے كا كارخانہ لگايا جہاں سے مدتوں تك نفيس كپڑے يورپ كے ديگر مناطق ميںبرآمد ہوتے رہے (2)اسى دوران مغربى اور مشرقى ايشياء كے فنون كا تبادلہ ہوتا رہا ،چين ميں مسلمانوں كا ايسا گروہ سامنے آيا كہ جو عربى زبان ميں گفتگو كرتے تھے انكے فنون پورى اسلامى دنيا ميں مشہور تھے مشرقى اور اسلامى فنون كا يورپ پر اس قدر غلبہ تھا كہ ماہرين فن بھى مشرق اور مغربى فن پاروں كى تشخيص اور فرق كرنے ميں لاچار تھے_ (3)اسلامى فنون كے شاھكاروں ميں سے ايك قالين تھا كہ جو زندگى كے لوازمات ميں شمار ہوتاتھا_ سولھويں صدى عيسوى ميں ايرانى قالين باف افراد كى مہارت اتنے عروج كو پہنچ چكى تھى _ كہ ان سے پہلے اور ان كے بعد آج بھى اُس دور كے قالينوں كى نظير نہيں ملتى اُس زمانہ كے شاہكار قالينوں ميں سے ايك ويكٹوريا اورالبرٹ ميوزيم ميں موجودہے جوشہر اردبيل ميں شيخ صفى الدين اردبيلى كے مقبرہ سے ليا گيا تھا(4)مسلمانوں كے ديگر فنون لطيفہ ميں سے ہاتھى دانت كى خوبصورت چيزوں كے بعض نمونے (5)————————-1) گوستاوبولوں ، گذشتہ مدرك ، ص 638 ، ارنست كوتل ، سابقہ حوالہ، ص 91_190_2) سابقہ حوالہ، ٹوماس واكر آرنولڈ و آلفرڈ گيوم ، سابقہ حوالہ، ص 556_3) سابقہ حوالہ ص 8_57 ، كريستين پرايس ،سابقہ حوالہ، ص 6_158_4) ارنست كونل ،سابقہ حوالہ ص 192، 209،278، 8_284 ، ٹوماس واكر آرنولڈ و آلفرد گيوم ، سابقہ حوالہ ،ص 60_5) محمد مددپور ، تجليات حكمت معنوى در ہنر اسلامى ،تہران ، اميركبير ، 1374، ص 240_179لندن ، پيرس اور ديگر جگہوں پر موجود ہيں اگر چہ ان چيزوں كى ظاہرى شكل و صورت مشابہہ ہے ليكن ان پر بنے ابھرے ہوئے زيادہ تر نقوش مختلف ہيں_(1)مٹى اورپتھر كے برتنوں پر نقش و نگار ايك بہترين اسلامى ہنر تھا كہ پہاڑى دُركا بنا ہوا ايك ظرف آج بھى سينٹ مارك وينس ميوزيم وينس ميں موجود ہے اور اسكى تاريخى اہميت كى وجہ يہ ہے كہ اس پر دوسرے فاطمى خليفہ كا نام ‘ عزيز’ لكھا ہوا ہے(2) فنون ميں سے مسلمانوں كا ايك اور فن جو مغرب ميں منتقل ہوا اورجس نے يورپى لوگوں كو مسحور كيا وہ قيمتى دھاتوں اور پتھروں كى تراش كارى كا فن تھا_(3)يہ تسليم شدہ بات ہے كہ كتابوں كو چھاپنے اور جلدى بندى كرنے كى بنياد ڈالنے والے قرون وسطى كے مسلمان تھے_ اگر چہ چھاپنے كى صنعت پندرھويں صدى ميں يورپيوں كے ذريعے مكمل ہوئي ليكن زمانہ قديم ميںسنگى چاپ بہت مقبول تھى _ يورپ ميں كاغذ سازى كا سب سے پہلا كارخانہ مسلمانوں كے ذريعے سسلى اور اسپين ميں لگايا گيا پھر اٹلى ميں يہ كام آگے بڑھا _پندرھويں صدى ميں جب كتاب چھاپنے كا كام وسيع ہوا تو اس كام ميں كاغذ كو بنيادى حيثيت حاصل ہوگئي تھى _(4) سولھويں صدى كے آغاز ميں يورپى ماہرين فنون نے مسلمانوں كے فنون لطيفہ سے نئے ڈيزائن تخليق كيے ان ڈيزائنز سے سے معلوم ہوتا ہے كہ انہوں كسقدر زيادہ اسلامى فن پاروں كى تقليد كى (5) يورپى لوگوں نے آغاز اسلام كے دور سے ہى اسلامى ہنر كى خاص خصوصيات كا مشاہدہ كيا اور اس خاص ذوق و سليقہ كو سمجھنے كے ليے رغبت و اشتياق كا اظہار كيا_سترويںصدى ميں يورپ ميں جلد كے كاغذ ، حاشيہ اور كتاب كى جلد كے كونوںكا صيقل ( چمكدار پن)—————————1) ٹوماس واكر آرنولد و آلفرد گيوم، سابقہ حوالہ، ص 4_63_2) سابقہ حوالہ ص 64_3) گوستاولوبوں ، سابقہ حوالہ ، ص 385، 15_43، 639_4) ٹوماس واكر آرنولڈو آلفرڈ گيوم ، سابقہ حوالہ ص 65_5) سابقہ حوالہ ص 70_68_180ہونا اور اسكى رنگوں سے بھر پورڈيزائن معروف ہوئے تھے وہ براہ راست اسلامى اور مشرقى فن پاروں سے ليے گئے تھے_
اقوام اسلامى كے فن مصور ى كے مغربى فن مصور ى پر اثراتبعض اقوال كى بناء پر مسلمانوں كے نزديك انسان اور زندہ موجودات كى تصوير بنانا مكروہ شمار ہوتى ہے _ ليكن اسلامى تہذيب كے باقى ماندہ آثار سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ مسئلہ وقت گزرنے كے ساتھ اپنى اہميت كھوبيٹھا_ آرنلڈ كے نظريہ كے مطابق اسلام كے ابتدائي دور ميںمشرقى مصورى نے مغربى فن مصورى ميں زيادہ اثرات نہيں ڈالے بلكہ يہ اثرات اس وقت نماياں ہوئے جب مسلمانوں كا بحيرہ روم كے خطہ پر قبضہ ہواتھا(1)صليبى جنگوں كے زمانہ ميں كہ مسلمانوں اور عيسائيوںميں جنگى تعلق قائم ہوجانے كے باعث بہت سى خوبصورت اشيا، مصنوعات اور فن پارے جو مسلمانوں كے ذوق اور سليقہ كى عكاسى كرتے تھے يورپ ميں منتقل ہوئے يورپ كے شہروينس ، جينوا ، اور پيزا اس قسم كى اشياء كے سب سے بڑے تجارتى مراكز تھے بلا شبہہ يہ خوبصورت چيزيں اپنے جاذب نقش و نگار كے بدولت سرزمين مغرب كى فن مصور ى كو متاثر كرتى تھيں_وہ چيزيں كہ جنكى مغرب كے مصوربہت تعريف اور تقليد كيا كرتے تھے قالينوں اور كپڑوں پر گوناگوں تصاوير تھيں جنكا اس زمانہ ميں رواج تھا(2)ايك مشہور ترين اسلامى جام كہ جس پر انسانى صورت بنائي گئي ہے ليور كے ميوزيم ميں موجود ہے اس———————-1) سابقہ حوالہ ص 2_71_2 ) گوستاو لوبوں ، سابقہ حوالہ، ص 7_634_181جام كا نام ‘ جام سن لوئي’ معروف ہے جس سے ايك طويل مدت تك فرانس ميں بچوں كو غسل تعميد ديا جا تا رہا تھا(1)بارہويں صدى عيسوى كے بعد ڈيو سكوريڈس اور جالينوس كى تاليفات كے ساتھ ساتھ كتاب كليلہ و دمنہ اور مقامات حريرى ميں افسانوى حيوانات كى تصويريں اس انداز ميں بنائي گئي ہيں كہ ان كى رنگ آميزى مغربى مصورى كہ ہم پلہ نظر آتى ہے بلكہ بعض اوقات تو اس سے بھى بڑھ گئيں تھيں يہ نسخہ جات اور افسانوى تصاوير قرون وسطى كى اسلامى تہذيب كى تاريخ كے حوالے سے بے حداہميت كى حامل ہيں (2)
اسلامى موسيقى كے مغربى موسيقى ميں اثراتدسويں صدى عيسوى كے ختم ہونے سے پہلے تك اسلامى اور مغربى موسيقى ميں كوئي زيادہ فرق نہ تھا جس دور ميں مشرقى اور يورپى موسيقى ميں اختلاف بہت كم تھا دونوں مكتب فيثاغورس كے مقياس پر چلتے تھے اور يونانى اور شام كے اسلوب كو استعمال كرتے تھے_مسلمہ امر يہ ہے كہ ظہور اسلام سے قبل عربوں كى موسيقى ايران اور مشرقى روم كى موسيقى كے زير اثر تھى اور دونوں فيثاغورس كے مقياس كو استعمال ميں لاتے تھے بعد ميں موسيقى كے اوزان ميں تبديلى پيدا ہوگئي ليكن اسحاق موصلى نے فيثاغورس كے طريقہ كا ر كو دوبارہ رائج كرديا _(3)مسلمان موسيقى دانوں نے موسيقى كے جديد آلات ايجاد كرنے اور جديد راگ تيار كرنے كے ساتھ ساتھ علم موسيقى ميں بہت سى كتابيں بھى تاليف كيں_(4)—————————1) سابقہ حوالہ ص 7_636_2) ارنست كونل ،سابقہ حوالہ ص 8_87_3) ج ، فارس، موسيقى ، ترجمہ مصطفى علم ،تہران ، انتشارات مہر 1325، ص 6_135_4) جرجى زيدان ،سابقہ حوالہ ، ج 3، ص 301 _ 299_182اس دور ميں مندرجہ ذيل موسيقى كے اہم آلات رائج تھے: عود ، رباب ، قانون ، بانسرى ، دف اور طبل يہ آلات چھوٹى تقريبات ميں استعمال ہوتے تھے ليكن فوجى بينڈ يا بڑے پروگراموںميں شہنائي ، باجا ، جھانجھ اور ڈھول و غيرہ استعمال ہوتے تھے كہا جاتا ہے كہ اسلامى اقوام كا يہ نظريہ تھا كہ بيماريوں كے علاج ميں بھى موسيقى اثر ركھتى ہے حتى كہ بعض حيوانات بھى موسيقى كے راگوں سے متاثر ہوتے ہيں جبكہ عرفا كا عقيدہ تھا كہ روح پر سے موسيقى كى روحانى تاثير ايك ازلى (1)امر ہے اور موسيقى كو سننے كے دوران دوبارہ كلام حق سنتے ہيں_ (2)ايرانى اور عرب لوگ موسيقى كے آلات كو ايجاد كرنے اور انہيں پا يہ تكميل تك پہنچانے والے لوگ ہيں جسطرح كہ فارابى علم موسيقى كے ايك مولف اور رباب اور قانون كو ايجادكرنے والے تھے_ تيسرى صدى ہجرى كے آغاز ميںمسلمانوں نے بانسرى كو ايجادكيا _ البياض اور ابو المجدنے پانچويں صدى ہجرى ميں ارغنون(ايك قسم كا باجا) بنايا صفى الدين عبد الموسى ارموى نے چار كونوں والا سنتور اختراع كيا محمد بن احمد خوارزمى نے بھى اسى دور ميں ‘ مفاتيح العلوم نامى ايك كتاب تاليف كى جس ميں موسيقى كے بعض مسائل كو حل كيا _ فارابى كے بعد ابن سينا اور حسن بن ھيثم موسيقى ميںمعروف شخصيات تھيں ، ان نكات كو ديكھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے كہ چھٹى صدى ہجرى علم موسيقى كے بہت سے مؤلفين كا دور شمار ہوتى ہے _(3)جو كچھ مسلمانوں نے موسيقى كى دنيا كو ديا انتہائي اہم اور گرانقدر ہے اسلامى موسيقى ايشيا ميں ہندوستان تك پھيل گئي ليكن ہندوستان كى نسبت اسكے يورپ ميں اثرات زيادہ ہےں قرون وسطى ميں مسلمانوں كے قلم سے موسيقى ميں بہت سے كتابيں تاليف ہوئيں اور ان ميں سے بعض لاطينى زبان ميں ترجمہ ہوئيں _ ليكن اب ہمارے پاس اس حوالے سے اہم مصادر موجود نہيں ہيں_ اب صرف فارابى كى كتابوں كا لاطينى ترجمہ كہ جو يوھانس ھيسپالنسز كے ذريعے ترجمہ ہوئيں اور ابن رشد كى كتاب كا لاطينى ترجمہ كر جومائيكل اسكاٹ كے————————-1) ازلى امر سے مراد يہ ہے كہ ارواح اس دنيا ميں آنے سے پہلے مذكورہ امر كا تجربہ كرچكى ہيں (مصحح)2) محد مدد پور ، سابقہ حوالہ، ص 162_3) سابقہ حوالہ ، ص 62 _ 159 ، توماس واكر آرنولڈ وآلفرڈ گيوم ، سابقہ حوالہ ص 42 _139_جرجى زيدان، سابقہ حوالہ ص 301_183ذريعے انجام پايا موجود ہيں _راجر بيكن نے موسيقى كے حوالے سے اپنى كتاب ميں بعض مقامات پر بطلميوس اور اقليدس كے ساتھ فارابى كا نام ذكر كيا ہے اور ابن سينا كا بھى نام ليا ہے _ گروم مراوى نے اپنى كتاب ‘ميوزيكا’ كى ايك فصل فارابى پر لكھي_ موسيقى كى دنيا ميں مسلمانوں كى سب سے بڑى پيش كش موسيقى ‘موزون’ تھى جسكى ابتدا ميں كندى نے كچھ توصيف كى پھر فرانكو اور اسكے شاگردوں نے اسلامى موسيقى كے اوزان اور طريقہ كار كو استعمال كيا _ اسپين والے تيسرى صدى ہجرى مں اسلامى موسيقى كے اوزان اور راگوں كو استعمال كيا كرتے تھے_ مسلمانوں نے موسيقى كے سب سے زيادہ آلات اور وسائل يورپ ميں منتقل كيے_(1)
اسلامى معمارى كے يورپى معمارى پر اثرات اور نقوشبلا شبہ مسلمانوں نے يورپ كے مختلف فنوں بالخصوص فن معمارى كو متاثر كيا _ اگر چہ بہت سے مولفين يورپ ميں محرابى كمروں كو مسلمان كى تقليد سمجھتے ہيں اور انكے نظريہ كے مطابق دسويں صدى ہجرى ميں مصر ، سسلى اور اٹلى ميں اس قسم كے كمرے بنائے گئے ليكن يہ بات اتنى بھى درست نہيں ہے كہ ہم محرابى شكل كى معمارى كو مكمل طور پر مسلمانوںكا مرہون منت سمجھ ليں_(2)كچھ لوگوں كا خيال ہے كہ اسلامى معمارى كے اصول غير مسلم اقوام سے لئے گئے ہيں بعض ديگر كے مطابق مغربى معمارى رومى معمارى كى جديد صورت ہے جبكہ بعض تمام چيزوں كو ايران اور آرمينياكى طرف نسبت ديتے ہيں كہ اس نظريہ پر بحث قابل توجہ ہے كيونكہ ارمنستان ، ايران ، عراق اور ماوراء النہر ميں معمارى كے حوالے سے جو كام ہوا ہے اس نے مغربى معمارى كے رومى معمارى سے تعلق كو مشكوك بنا ديا ہے_(3)———————–1) توماس واكر آرنولڈ و آلفرڈ گيوم ، سابقہ حوالہ، ص 7_143_2) گوستاو لوبوں ،سابقہ حوالہ ، ص 12_710 ، ارنست كوئل ، سابقہ حوالہ، ص 16 ، 96_3) مارتين س ، بريگز ، معمارى اور ساختمان ، در ميراث اسلام ، ص 8_207_184مسلم بات يہ ہے كہ سوريہ كے علاقے، آرمينياكا كچھ حصہ ، شمالى افريقا كا آباد علاقہ اور مصر ان سرزمينوں كا حصہ تھے كہ جنہيں مسلمانوں نے رومى بادشاہت سے جدا كيا تھا اسكے علاوہ اسپين جو كہ ويزگوٹز كے ہاتھوں ميں تھا مسلمانوں كے قبضہ ميں آگيا_(1) مسلمانوں كو ان سررمينوں كى فتح كے دوران بہت زيادہ عمارتوں اور زبردست انجينيرزاور معماروں كا سامنا كرناپڑا كر جنكى معمارى كا طريقہ رومى معمارى سے مختلف تھا_ بعض محققين كے مطابق ان انجنيئروں اور معماروں نے بہت سے فنون بيزانسى معماروں كو سكھائے_بعض محققين كے فتوحات كے آغاز ميں عربوں كى معمارى سے آشنائي نہ ہونے كے نظريہ كے باوجود قابل اہميت نكتہ يہ ہے كہ اسلامى معمارى ان تمام صديوں ميں اگر چہ ديگر مختلف اقوام كے فن معمارى سے مستفيد ہوتى رہى ليكن ايسى خصوصيات كى حامل ہے كہ جس كى بناء پريہ دنيا كے تمام ديگر معمارى كے اساليب اور فنون سے ممتاز ہے_مسلمانوں نے شروع ميں مساجد اور محلات بنائے_ مدينہ كى سب سے قديمى مسجد كہ جو رسول اكرم(ص) كے زمانہ يعنى 622 عيسوى ميں بنائي گئي ، مسجد كوفہ 629 عيسوى ميں بنائي گئي اور 842 عيسوى ميں فسطاط (قاہرہ) ميںمسجد بنائي گئي يہ سب مسلمانوں كے ہاتھوں بنى ہوئے مساجد كے چند نمونے ہيں _(2)ساتويں صدى كے آخرى سالوں ميں 639عيسوى ميں مسلمانوں كے ہاتھوں بيت المقدس كى فتح كے بعد مسجد حضرت عمر كے نزديك قبة الصخرة كے نام سے ايك عظيم الشا ن عمارت بنائي گى قبة الصخرہ كے بعد مسلمانوں كى اہم تعميرات ميں سے دمشق كى سب سے بڑى مسجد ہے جو آٹھويں صدى كے ابتدائي سالوں ميں بنائي گئي البتہ يہاں امكان ہے كہ اس مسجد كى عمارت شام ميں عيسائيوں كے كليساؤں سے كچھ مشابہت——————–1) ويزگوٹ ان مغربى گوٹوں (جرمنى كى ايك قوم)ميں سے تھے كہ جو 410 عيسوى ميں اٹلى كے بادشاہ آلاديك كے زمانہ ميں وہاں سے پھولوں كى سرزمين(فرانس) چلے گئے اور پيرنہ پہاڑيوں كے دونوں طرف يعنى فرانس اور اسپين ميں آباد ہوگئے_2) محمد مددپور ،سابقہ حوالہ ، ص 250_249185ركھتى ہو اس مسجددمشق كے مينار سب سے پہلے مينار ہيں جنكے ذريعے لوگوں كو نماز كى طرف دعوت دى جاتى تھي_ (1)اسپين ميں قرطبہ كى مسجد اسلام كى سب سے بڑى مسجد ہے جسكى بنياديں 786 عيسوى ميں ركھيں گئيں اس مسجد كے بارہ حصے ہيں اور ہر حصہ ميں رومى ڈيزائن كے بيس ستون ہيں (2) سامرا كى مسجد بھى اسلام كے تاريخى آثار ميں سے ہے كہ جسكے صحن ميں گہرائي تك ايك محراب ہے اور اسكے گرد چند ايوان ہيں _(3) قاہرہ ميں مسجد ابن طولون بھى ان مساجد ميں سے ہے كہ جن ميں بين النہرين كى قديمى مساجد جيسى خصوصيات ہيں_(4)نويں سے بارھويں صدى عيسوى كے دوران مسلمانوں كے ہاتھوں بہت سى مساجد اور فوجى قلعے تيار ہوئے جنكے ڈيزائن صليبى جنگوں ميں عيسائيوں نے مسلمانوں سے سيكھے اسى طرح يورپ والوںنے ‘ميچيكوليشن'(5) نامى كنگرے بنانے كا طريقہ بھى مسلمانوں سے سيكھا چودھويں صدى عيسوى ميں فرانس اورانگلستان ميں محلات اور قلعے بنانے كے دوران اس قسم كے كنگروں نے دوسرى صورت اختيار كر لى _اسپين ميں تيرھويں صدى عيسوى كے بعد اسلامى معمارى كا شاہكار قصر الحمرائ’الكازار'(القصر) ہے اشبيليہ ميں المرابطين نامى محل كے كھنڈرات اور طليطلہ ميں عيسائيوں اور يہوديوں كے قديمى معابد كو ديكھ معلوم ہوتا ہے كہ كسطرح مراكش كى طرف سے مغربى معمارى كا طرز تعميراسپين ميں پھيلا_(6)—————————-1) ارنست كونل ، سابقہ حوالہ ،ص 17_114 ، محمد مددپور ، سابقہ حوالہ، ص 7_256_2) سابقہ حوالہ ص 4_363_3) ٹوماس داكر آرنولڈ و آلفرڈ گيوم ، سابقہ حوالہ، ص 217_4) محمد مدد پور ،سابقہ حوالہ، ص 6_265_5) Machicolation ، ديوار پر كنگرے كا نام ہے جسميں مختلف سوراخ ركھے جاتے تھے كہ جن سے مختلف وسايل كے ساتھ دشمنوں سے جنگ كى جائي تھي_6) سابقہ حوالہ ص 221 _ 220 ، ارنسٹ كوئل ، سابقہ حوالہ، ص 67 و 74_165_186قرون وسطى ميں مساجد كى عمارتوں كے ڈيزائن اور اسلوب معمارى نے واضح ترقى كى اور مختلف صورتوں ميں سامنے آيا سارا سن طرز كے اسلامى ، گنبدوں نے يورپ كے نشا ة ثانيہ كے دور كے گنبدوں كو متاثر نہيں كيا ليكن مسلمانوں كے ميناروں كى روش معمارى اٹلى ميں چودھويں اور پندرھويں صدى عيسوى ميں رائج تھي_جسطرح اسلامى معمارى نے ترقى كى اسى طرح گول ، نوك دار ، آدھى دائرہ كے اور دو مركز ركھنے والے ہلال اورايك اور ہلال جسے ‘ايرانى ‘كہتے تھے بھى رائج ہوئے اسى طرح ايسى كھڑ كيوں كا رواج ہوا جو مختلف رنگوں كے شيشوں سے مزين تھيں حالانكہ اس زمانہ ميں يورپ ميں رنگوں والے شيشوں كا رواج نہ تھا اسلام سے قبل آرمينيااور سوريہ كى پتھروں سے بنى ہوئي عمارتوں اور ايرانى اينٹوں والى معمارى كے قرون وسطى كے يورپ ميں اثرات سے ہٹ كر نوك دار ہلال بنانا مسلمانوں كى ہى ايجاد تھى _بلا شبہ ايك تو مسلمانوں كے صليبى جنگوں ميں تعلقات اور دوسراقرون وسطى كے دوستانہ روابط اسلامى معمارى كو سرزمين مغرب ميں پھيلانے كے باعث بنے _(1) ڈالور كى كتاب ‘پيرس كى تاريخ ‘ ميں ملتا ہے كہ ‘ پيرس كے نٹرڈام كليسا كو بنانے كيلئے اسلامى معماروں كے ايك گروہ كى خدمات لى گئي_(2) اسپين ميں اسلامى حكومت كے دوران اكثر عمارتوں ميں اسلامى فنون كو عيسائي فنون پر برترى حاصل تھى مثلا مشہور محل سقوبيہ جو گيارھويں صدى عيسوى ميںالفانس ششم كے حكم سے بنايا گيا تھا_(3)موسيولونر ميں لكھتا ہے كہ ‘ فرانس كے بہت سے كليساؤں ميں مسلمانوں كى معمارى كے اثرات واضح محسوس ہوتے ہيں’ (4) اسى طرح اسلامى فن معمارى كے ايك ماہر موسيو پريس كا يہ نظريہ ہے كہ ‘ يورپ ميں سولھويں صدى كے آخر تك خوبصورت ميناروں كا جو رواج تھا ان كے ڈيزائن مسلمانوں سے ليے گئے تھے’_(5)———————–1) سابقہ حوالہ، ص 8_47 ، ٹوماس واكر آرنولڈ و آلفرد گيوم ،سابقہ حوالہ، ص 3_222_2) سابقہ حوالہ ص 5_224 ، ارنست كونل ، سابقہ حوالہ ، ص 47، 65_3) گوسٹاو لوپوں ، سابقہ حوالہ، ص 714_4) كريستين پرايس ، سابقہ حوالہ، ص 117_5) گوسٹاؤ لولون ، سابقہ حوالہ ، ص 714_

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.