اسلامى تہذيب ميں انتظامي اور اجتماعى ادارے

132

1) ديوانيہ واضح سى بات ہے كہ فتوحات كے دور كے بعد وسيع و عريض اسلامى سرزمين ايك وسيع ، پيچيدہ دقيق اور نگہبان دفترى نظام كى محتاج تھى _ يہ ادارتى نظام انتہائي توجہ كےساتھ اس سرزمين كى درآمدت كو كنٹرول كرتا اور انكا دقيق حساب و كتاب كرتا بالخصوص وہ جو بيت المال سے ہميشہ اپنا خرچ ليتے ان ميں دقت كےساتھ مال تقسيم كرتا_ اسى طرح اسلامى سرزمين كے گردو نواح ميں جو فوجى دستے بھيجے جاتے انكى نگرانى كرتا اوروہ سپاہى جو اسلامى سرزمين كى سرحدوں پر نگہبانى كى ڈيوٹى دے رہے ہيں انكى ضروريات اور خرچ كو مخصوص وقفوں كے ساتھ بھيجتا اسى طرح كہ اسلامى سرزمينوں كے اندر بھى لوگوں كى زندگى پر نظارت كى جاتى _ شعبہ عدليہ لوگوں كے مسائل اور جھگڑے نمٹاتا اسى طرح دسيوں ديگر ذمہ دارياں تھيں كہ جنہيں يہ اسلامى سلطنت كے شعبہ جات نمٹاتے_دوسرى طرف سے اسلامى مملكت كے اس پيچيدہ نظام كى تشكيل كيلئے مضبوط بنياد كى ضرورت تھى كہ معلوم ہونا چاہيے كہ اس تمام سرزمين كى كل درآمد (اگر چہ اندازہ كے طور پر ہى )كتنى ہے اور يہ مقدار كس قدر زمين سے كس قسم كے ٹيكس كے ساتھ اور كس وقت اكٹھى كى جاسكتى ہے _اسى طرح رقم اور سكّے كہ جو اس سرزمين ميں رائج تھے اسطرح بنائے جائيں كہ اس مملكت كى تمام وسيع حدود ميں لوگ ان سے فائدہ اٹھاسكيں_ راستے تلاش كرنے كے بعد بنائے جاتے اور پل تعمير كيے جاتے تا كہ خلافت كے مركز سے جو احكامات صادر ہوں وہ سرعت كےساتھ اپنے مقصد تك پہنچيں _فتوحات كے دور كے بعد اسلامى سرزمينوں پر جب كسى حد تك امن و سكون كى فضا چھائي تو خلفاء نے ادارى نظام اور شعبہ جات كى تشكيل كيلئے قدم اٹھائے اسطرح كے بہت سے كام دوسرے خليفہ نے بالخصوص حضرت على (ع) كى راہنمايى ميں انجام ديے_ ان ميں سے كچھ مندرجہ ذيل ہيں :1_ اسلامى سرزمين كو حكومتى اور سياسى طور پر چھوٹے چھوٹے ٹكڑوں ميں تقسيم كرنا اور ہر ايك كيلئے گورنر
132كا انتخاب كرنا 2_اسلامى سرزمين كى پيمائشے بالخصوص زرخيز علاقوں كى سالانہ درآمد كا اندازہ لگانے كيلئے پيمائشے اورتخمينہ3_ زراعتى زمينوں سے بہرہ مند ہونے كيلئے جديد جنترى بنانا 4_ پيمانوں كى پيمايش ، وزن حجم اور فاصلے كى اكائيوںكو يكسان كرنا 5_ سكوں كو يكسان بنانا ،مالى منفعت كے حامل سرٹيفكيٹس كو رائج كرنا اور اس قبيل كے ديگر كام (1)فتوحات كے بعد كے سالوں ميں اسلامى ممالك ميں بڑے بڑے شہر عرصہ وجود ميں آئے يہ شہر يا تو انہى شہروں كا پھيلاؤ تھا كہ جو اسلام سے پہلے موجود تھے يا مكمل طور پر اسلام كے بعد تشكيل پائے_ بڑے بڑے شہروں ميں لوگ مجبور تھے كہ ان قوانين كے تحت زندگى گزاريں كہ جو اس دور كى حكومت بناتى تا كہ سب لوگ آرام و سكون سے زندگى گزار سكيں كوئي كسى كے حق پر تجاوز نہ كرسكے_ بہر حال ان بڑے شہروں كے وجود ميں آنے سے ديوانات اور مختلف محكمہ جات كى ضرورت اسلامى تمدن ميں ناگزير تھي_
ديوان خراج يا استيفائ:اسلام ميں جو سب سے پہلا اور اہم ترين ديوان تشكيل پايا اسكا نام ديوان خراج يا ديوان استيفاء تھا_ اس ديوان كى ذمہ دارى يہ تھى كہ وہ اسلامى سرزمينوں كے ايك بڑے حصے كى مالى امور ميں سرپرستى كرے _ اس ديوان ميں اسلامى سرزمينوں كے اموال و متاع كى فہرست بنا ئي جاتى تھى اس ديوان كے كاموں كى تفضيل يہ ہے كہ : ان سرزمينوں سے خراج اكھٹا كرنے كا طريقہ ، پھر انہيں مركز خلافت كے حوالے كرنا ، انكا مسلمانوں كے درميان تقسيم كا طريقہ اور خراج وصول كرنے كيلئے مسلمانوں ميں عہدوں كى درجہ بندى و غيرہ _جوں جوں اسلامى سرزمين وسعت پاتى گئي اور ساتھ ساتھ مسلمان بھى ديگر اقتصادى روشوں اور طريقہ كاروں سے آشنا ہوتے گئے مثلا زمين سے بہرہ مند ہونے كى مختلف روشيں و غيرہ تو ديوان خراج كى ذمہ داريوں اور سرپرستى كادائرہ بھى بڑھنے اور پيچيدہ ہونے لگا ايك دورانيے (term)ميں اسلامى سلطنت كي———————1)اس حوالے سے ديگر اقدامات كو جاننے كيلئے رجوع فرمائيں : محمد بن واضح يعقوبى ، تاريخ يعقوبى ، ترجمہ ، عبدالمحمد آيتى ، تہران ج 2،ص 54 _40_133درآمدات كاحساب و كتاب ، مال و متاع كو اكھٹا كرنا اور انہيں ترتيب دينا پھر انكے خرچ پر نگراني، ملك كى ممتاز شخصيات بالخصوص سلاطين اور حكام كے اموال كى فہرست بنانا اور ملك كے مختلف علاقوں ميں ماليات كو جمع كرنے كيلئے لوگوں كو بھيجنا و غيرہ يہ سب ديوان خراج كى ذمہ دارياں شمار ہوتى تھي_يہ ديوان خراج يا استيفاء ايران سے ليكر ہسپانيہ تك اسلامى سرزمينوں كے مختلف حصوں ميں موجود ہوتے تھے اس ديوان كے سرپرست كا نام مستوفى ، مستوفى خاصہ يا مستوفى الممالك ہوتا تھا_ ايران ميں بارہويں صدى تك يعنى ايرانيوں كے جديد مغربى كلچر سے آشنائي ہونے اور اہل مغرب كى تقليد ميں ملك كے نظام كو تبديل كرنے تك يہ ادارہ موجود تھا اور اپنا كام كررہا تھا(1)
ديوان بريد(ڈاك اور خبر رسانى كا نظام):معلوم يہ ہوتاہے مسلمانوں نے ديوان بريد كے نظام كو ايرانيوں يا روميوں سے سيكھا ہوگا،اسلامى دور ميں اس ديوان كى ذمہ دارياں بہت زيادہ اور اہم شمار ہوتى تھيں اس ديوان كى ذمہ داريوں ميں سے بعض مثلاخبريں پہچانا، حكومتى احكام منتقل كرنا اور اسلامى سرزمينوں كے گرد و نواح كى اطلاعات مركز خلافت تك پہچانا و غيرہ تھيں _وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ اس ديوان كى ذمہ دارياں بڑھتى گئيں يہاں تك كہ يہ ديوان اسلامى سرزمينوں ميں امن و امان قائم ركھنے كيلئے ايك اہم شعبہ كى شكل اختيار كرگيا_ چونكہ ان سرزمينوں كے گرد و نواح كے حادثات اور واقعات سے باخبر ہونا انتہائي اہم موضوع تھا اسى ليے وقت گذرنے كے ساتھ مختلف علاقوں سے جاسوسى كى ذمہ دارى بھى اس ديوان كے سپرد كى گئي _ اسى ليے يہ ديوان اسلامى سلطنت كے اہم ستونوں ميں شمار ہونے لگا كہ جنكا كام مملكت اسلامى كى نگہبانى تھا_ اس ديوان كا سربراہ خلافت كى بقاء كے ضامن چار اركان ميں سے ايك ركن شمار ہونے لگا _اسلامى خلافت نے خبروں كے نظام ميں سرعت پيدا كرنے كيلئے اور دوردراز علاقوں كى اطلاعات اور———————–1)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج 8 ، ذيل ، استيفاء ( سيد على آل داؤد)_134واقعات سے جلد آگاہ ہونے كيلئے وسيع پيمانے پر راستوں اور كاروانسراؤں كا جال بچھايا _ كہ ان تمام كاروانسراؤں ميں كچھ برق رفتار ، آمادہ اور تيار گھوڑے موجود ہوتے تھے كہ جيسے ہى دور كے سفر سے كوئي ڈاكيا پہنچتا فوراً اسكا تھكا ماندہ گھوڑا تازہ دم گھوڑے سے تبديل ہوتا اور قاصد بغير وقفے كے اپنا سفر جارى ركھتا_ يہ ڈاكيے عام انسان كى نسبت زيادہ تحمل و مشقت كے ساتھ بغير كسى آرام اور وقفہ كے سفر جارى ركھتے تھے (1)
ديوان انشاء :يہ ديوان اسلامى مملكت كى مختلف سرزمينوںميں ‘ ديوان رسائل ‘ اور ديوان ترسل’ كے نام سے بھى معنون كيا جاتاتھا اس كى اہم ترين ذمہ دارى حكومتى خطوط بالخصوص خليفہ كے فرامين كو ترتيب دينا اور انہيں عالم اسلام كے تمام نقاط تك بھيجنا تھى _ليكن وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ اس ادارہ كى ذمہ دارياں بھى بڑھتى چلى گئيں _ تاريخى اعتبار سے ايسا معلوم ہوتاہے كہ يہ وہ پہلا ديوان ہے كہ جو صدر اسلام ميں خود پيامبر اكرم(ص) كى حيات ميں تشكيل پايا تھا _آنحضرت(ص) كا عرب سرزمينوں كے ہمسايہ اور بڑى بڑى تہذيبوں كے حامل ممالك كے حاكموں اور بڑى شخصيات كو خط لكھنے كيلئے ايك شعبہ بنانا اس قسم كے ديوان كيلئے ايك نمونہ تھا اور ساتھ ہى ان لوگوں كيلئے دليل اور تاييد تھى جو اس شعبہ كو اسلام كا سب سے پہلا ديوان جانتے ہيں (2)
ديوان جيش:يہ ديوان كے جسے ‘ديوان جند’ كا بھى نام ديا گيا دوسرے خليفہ كے دور ميں تشكيل پايا_ اس ديوان كا اپنى تشكيل كے ابتدائي ايام ميں كام يہ تھا كہ وہ افراد جو كہ صدر اسلام كى جنگوں ميں شركت كيا كرتے تھے انكى فہرست تيار كرنا تا كہ درست ريكارڈ ہونے كى صورت ميں مسلمانوںكے بيت المال كوچيك كرتے ہوئے ہر ايك كے حصہ كى مقدار واضح كى جائے _ اس فہرست كے تيار ہونے كے دوران لوگوں كا پيغمبر اكرم (ص) سے قرب كو معيار بنايا جاتا تھا وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ اس ديوان كى ذمہ دارياں بھى بڑھ گئيں مثلا مسلمانوں———————–1)دانشنامہ جہان اسلام ج 3 ذيل بريد (بہمن سركاراتى ، نوراللہ كسايى و ناديا برگ نيسي) _2)قلقشندى ، صحيح الاعشى فى صناعة الانشاء ج1 ، ص 92_135كے لشكر كے حوالے سے امور كى سرپرستى ، جنگجو لوگوں كى تعداد معين ہونا ، شہيد اور زخمى ہونے والے حضرات كى فہرست بننا، اور ہر جنگجو كو اسكا حصہ يا تنخواہ ادا كرنا و غيرہ اس ديوان كى ذمہ داريوں ميں سے شمار ہوتى تھيں _ اس ديوان كے سرپرست كو ‘ ناظر الجيش’ كہا جاتا تھا_
ديوان بيت المال:يہ ديوان شروع ميں ايك خاص جگہ كو كہا جاتا تھا كہ جس ميں جز يہ اور خراج و غيرہ سے منتقل ہونے والے مال كو ركھا جاتا تھا تاكہ مسلمانوں ميں تقسيم كيا جائے حضرت عمر كى خلافت كے دوران مسجد النبى كا كچھ حصہ بيت المال كى حفاظت كيلئے انتخاب ہوا اور لوگ اسكى حفاظت كيلئے مقرر كيے گئے وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ يہ شعبہ اسلامى حكومت كے مالى شعبوں ميں سے ايك اہم ترين شعبہ كى حيثيت اختيار كرگيا _ اور خاص افراد اسكى سرپرستى كيلئے مقرر ہوتے تھے بيت المال كى درآمد اور مصارف معين ہوتے تھے مثلا ايك كلى تقسيم كے مطابق اسكى درآمد تين اقسام في، غنيمت اور صدقہ ميں تقسيم ہوتى تھى _ لوگوں كى ضروريات پورى كرنا اور انكى سطح زندگى كو بڑھانا و غيرہ اسكے مصارف شمار ہوتے تھے بعد كے ادوار ميں بيت المال اسلام كے مجاہدين كى تنخواہوں كو ادا كرنا انكے كيلئے اسلحہ مہيا كرنا ، مسلمان فقراء كى ضروريات پورى كرنا اور مسلمان اسيروں كو آزاد كروانا و غيرہ كا كام كرتا تھا(1)واضح سى بات ہے كہ ان چند ديوان يا دفاتر كےساتھ تمام اسلامى سرزمينوں كے نظام كو چلانا ممكن نہ تھا _ لہذا ان اہم ديوان يا دفاتر كے علاوہ چھوٹے كاموں كيلئے ان تمام سرزمينوں ميں متعدد اقسام كے ديوا ن موجود تھے كہ ان ميں سے چند مندرجہ ذيل ہيں :
ديوان نفقات:اس ديوان كے ذمے حكومتى ملازموںا ور اپنے ماتحت چھوٹے ديوانات كے مالى معاملات اور اخراجات كو نمٹاناتھا_———————1)دانشنامہ جہان اسلام ، ج 4 ‘ ذيل ‘ بيت المال (محمد كاظم رحمان ستايش)_136ديوان اقطاع :وہ زرخيز زرعى زمينيں جو كہ مركز خلافت سے زراعت كيلئے لوگوں كے سپرد كى جاتى تھيںانكى آمدنى كا حساب و كتاب اور ان پر نگرانى اس ديوان كے ذمہ تھى _
ديوان عرض:يہ ديوان سپاہيوں كے امور كے متعلق تھا اسميں انكے ناموں كى فہرستيں تيار ہوتى تھى تا كہ بوقت ضرورت انكے بارے ميں معلوم كياجاسكے_
ديوان العمائر يا ديوا ن الابنية المعمورة:اس ديوان كى ذمہ دارى يہ تھى كہ عمارتوں كى عمر كے حوالے سے تحقيق كرے اور انہيں تعمير كروائے اسى طرح شہرى عمارتوںكى ہميشہ ديكھ بھال كرتا رہے_
ديوان مظالم :يہ ديوان بھى اپنے مقام پر اسلامى سرزمينوں كے اہم دواوين ميںشمار ہوتا تھا اسكا كام لوگوں كى شكايا ت اور درخواستوں كے مطابق انہيں انصاف مہيا كرنا تھا بالفا ظ ديگر آج كے عدالتى اداروں كى مانند يہ كا م كرتا تھا اس ديوا ن كے منتظم كو قاضى كہا جاتا تھا اور سب سے بڑے عہدے پر فائز شخص قاضى القضات كہلا تا تھا_
2 ) خراجخراج ہميشہ سے اسلامى سرزمينوں ميں اسلامى خلافت كيلئے مالى درآمد كا ايك اہم ترين منبع شمار ہوتا تھا _ چونكہ بہت سے جديد شہر تشكيل پاچكے تھے، اسلامى سرزمين كى سرحدوں كى حفاظت امن و امان كے ليے ضرورى ہوچكى تھى سپاہيوں كى اجرت اور اسلامى خلافت كے ديگر اخراجات نے حكومت كو نظام چلانے كيلئے مالى درآمد كے منابع كى نئي نئي صورتوں سامنے لانے پر مجبور كرديا تھا_فتوحات كے دور سے قبل جزيرہ عرب ميں حكومت كيلئے جنوبى علاقوں اور يمن كى زراعت سے ہٹ كر اہم ترين مالى درامد اور ثروت كا منبع تجارت اور تجارتى كاروانوں سے ٹيكس وصول كرنے كى صورت ميں تھا قدرتى
137سى بات تھى كہ اسلامى سرزمينوں كے اخراجات اب فقط تجارتوں قافلوں اور كاروانوں كے ٹيكس سے پورے نہيں ہورہے تھے اسى ليے مسلمان خلفاء نے ثروت جمع كرنے كے ليے مختلف روشوں كو جانچا اور ان سب ميں اہم ترين خراج مقرر كرنا تھا_ معلوم يہ ہوتاہے كہ صدر اسلام كے مسلمانوں نے خراج جمع كرنے كى روش اور زراعتى زمينوں سے ٹيكس وصول كرنا ايرانيوں سے سيكھا ہوگا كيونكہ ہميں ايران ميں اسلام كے آنے سے قبل خراج كے حوالے سے معلومات ملتى ہيں بہر حال ايران كے فتح ہونے سے قبل جزيرہ عرب ميں زرعى زمينوں اور باغوں سے ٹيكس مثلا فدك كى زمينوں سے ٹيكس و غيرہ مقاسمہ (1)كى صورت ميں تھا نہ كہ خراج كى شكل ميں_ دوسرى طرف اہم ترين مسئلہ يہ تھاكہ كس طرح ايران اور ديگر علاقوں كى مفتوحہ زمينوں سے خراج وصول كيا جائے اور ان زمينوں سے ٹيكس وصول كرنے كى شرعى نوعيت كيا ہے ؟ صدر اسلام كے بعض فقہاء كى نظر كے مطابق كہ جن زمينوں كو مسلمانوں نے جنگ كے ذريعے فتح كيا تھا وہ غنيمت شمار ہوتى تھيں لہذا ضرورى تھا انكو لشكر والوں كے درميان تقسيم كرديا جاتا ليكن يہ چيز بذات خود بہت سى مشكلات كا باعث تھى ايك يہ ہے كہ اس طرح يہ زرخيز زمينيں بہت چھوٹے حصوںميں تقسيم ہوجاتيں اور اس سے آمدن كى شرح گر جاتى دوسرا يہ كہ مفتوح ممالك ميں موجود مسلمان سپاہى زمين كے مسائل اور كاشت كارى كيلئے ضرورى تجربہ بھى نہ ركھتے تھے اور اگر يہ كام كرنے پر بھى قادر ہوتے تو اس وجہ سے فوجى امور نمٹانے اور اسلامى لشكر كى ہمراہى سے محروم ہوجاتے تھے_اسى وجہ سے مركز خلافت ميں متعدد نشستيں ہوئيں اور آخر كار يہ طے ہوا كہ مفتوحہ ممالك كى سرزمينيں انہى لوگوں كے اختيار ميں دى جائيں جو پہلے سے ان پر كام كرتے تھے اسكے عوض ميں ان سے سالانہ ايك معين مقدار ميں مبلغ بہ عنوان زرعى ٹيكس يا خراج وصول كيا جائے لہذا ہر دس ہزار مربع ميٹر كے عوض معين خراج طے كيا گيا _ البتہ يہاں بذات خود پہلے زمينوں كے زرخيز ہونے نہ ہونے ، آب ہوا كے مناسب ہونے يانہ ہونے اور جو فصليں ان ميںكاشت ہوئي تھيں انكے حوالے سے ايك تقسيم كى گئي تھي(1)ليكن وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ خراج اكھٹا كرنے كے طريقہ كار ميں نقائص پيدا ہوئے ان ميں سے———————1) مقاسمہ : محصولات كے ايك حصے كو متعين كرنے كے بعد اس پر ٹيكس مقرر كرنا(مصحح)_2) ابويوسف ، كتاب الخراج جو كہ موسوعة الخراج ميں مذكور ہے بيروت ص 41، 20_138ايك مستقل خراج جمع كرنے كا وقت تھا ، اكثر و بيشتر ايسا ہوتا تھا كہ قمرى جنترى كى بناء پر خراج وصول كرنے كا وقت فصلوں كى كٹائي و غيرہ سے پہلے آجاتا تھا اس بات نے كسانوں كو كافى شكايت ميں ڈال ديا اس مشكل كو دوركرنے كيلئے اسلامى خلافت نے خراج كى جمع آورى كيلئے ايسا نظام بناياكہ اسكى رو سے فقط كٹائي كے موقع پرخراج ديا جاتا تھا(1)وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ خراج جمع كرنے كى صورت پہلے وقتوں كى سادہ شكل و صورت كھو بيٹھى بلكہ بہت سے پيچيدہ نظاموں كى طرف حركت كرنے لگى چوتھى صدى ہجرى كے بعد ہم ٹيكس اور مالى امور كے بہت سے نظاموں كامشاہدہ كرتے ہيں كہ جنكى بناء يہ آہستہ آہستہ خراج كا ٹيكس ملا نظام توجہ كھوبيٹھا ان نظاموں ميں مثلا نظام اقطاع اور سيور غال كا نام ليا جاسكتاہے كہ جو منگولوں كے تسلط كے بعد اسلامى سرزمينوں ميں بہت شدت سے اجراء ہوئے (2)
3)حسبہ(احتساب كا نظام)معلوم يہ ہوتا ہے مسلمانوں نے معاشرہ ميں لوگوں كے كاموں بالخصوص بازار ميں مختلف تجارتى اجناس كے حامل لوگوں پر نگرانى كيلئے جو نظام وضع كيااس حوالے سے اپنے ہمسايوں بالخصوص مشرقى روم سے سيكھاہوگا_البتہ اس بات كو تسليم كرنا چاہيے كہ وہ امور جو مسلمان دوسروں سے نہيں سيكھ سكتے تھے وہاں فقہى امور اور دينى تحقيقات نے اس جديد نظام كو ايجاد كرنے ميں مدد دى _ اسى طرح محتسب كے عہدہ پر فائز ہونے يعنى امور كو اجرا ء كرنے كے نظام پر آنے كيلئے خاص شرائط وضع ہوئيں البتہ ان شرائط كى تشريح كيلئے شيعہ و سنى علماء ميں عميق و دقيق مباحث بھى ہوئيں مجموعى طور پر ان شرائط كو تين اقسام ميں تقسيم كيا جاسكتاہے :1_ عادل ہونا 2_ درجہ اجتہاد پر فائز ہونا 3_ مرد ہونا (3)———————–1)دانشنامہ جہان اسلام ج 7 ذيل تقويم ( فريد قاسملو)_2)دائرة المعارف بزرگ اسلامى ج 9 ذيل ‘ اقطاع’ (سيد صادق سجادي)_3) محمد حسين ساكت، نہاد داورى در اسلام، مشہد، ص 21 بہ بعد_139علمى نگاہ اور معاشرہ ميںمحتسب كى ذمہ داريوں كى اہميت كے پيش نظر ان ذمہ داريوں كو بطور كلى درج ذيل اقسام ميں تقسيم كرسكتے ہيں : (1) بازار اور پيشہ ورانہ كاموں پرنگرانى (2) معاشرہ كے عمومى رويوں پر نگرانى (3) قيمتوں اورناپ تول پر نگرانى (4) لوگوں كى عبادتوں كے طور طريقہ پر نگرانى (5) راستوں اور عمارتوں پر نگرانى (6) محدود قضاوت كے متعلقہ مسائل مثلا كم فروشى اور خريد و فروخت ميں مكر وفريب پر نگرانى (7) مختلف ديگر ذمہ دارياں(1)ايك نگرانى كرنے والے شعبہ كى حيثيت سے حسبہ كا مسئلہ انتہائي نازك اور حساس تھا حسبہ كى لوگوں كے درميان اہميت اور لوگوں كے امور ميں اسكا نگرانى كرنے والے ادارے كے عنوان سے كام بتاتاہے كہ يہ فقط نگرانى كرنے والا ادارہ تھا ليكن اسلامى قوانين كااجراء اسكے اختيار ميں نہ تھا محتسب فقط نگرانى كرتا تھا ايسا نہيں تھا كہ وہ كسى مجرم كو سزا دے بلكہ يہ كام عدالتى اور فوجدارى اداروں مثلا ادارہ قضاوت مظالم، شرطہ اور نقابت كے ذمہ تھے اور يہ ادارے اپنے اختيارات كى حدود ميں رہتے ہوئے كام كرتے اور مجرموں كو انكے اعمال كى سزا ديتے (2)تاريخى اعتبار سے ہم قرون اوليہ ميں عالم اسلام كے تمام بڑے شہروں اور سرزمينوں ميں اس ادارے كے قيام كا مشاہدہ كرتے ہيں ايسے افراد جو حسبہ كى ذمہ دارى ادا كرتے تھے وہ محتسب يا ولى حسبہ كہلاتے تھے_ ايران ميں چھٹى صدى ہجرى كے بعد سے محتسب كا تقرر سلطان يا حاكم كى ايك اہم ترين ذمہ دارى شمار ہوتى تھى _ وزراء اور كاتبين ايسے افراد كے انتخاب كے حوالے سے سلطان كو مشورہ ديا كرتے تھے_ مصر ، خلافت عثمانيہ ، اندلس اور ہندستان (مغليہ دور ميں ) ميں بھى ادارہ حسبہ اور محتسب موجود تھے ، مصر ميں فاطمى خلفا كے دور ميںمحتسبين كے اختيارات بہت وسيع تھے يہانتك كہ وہ فاطمى سلطان كے امور كى نگرانى كرنے كا اختيار————————-1)سيف اللہ صرامى ، حسبہ يك نہاد حكومتى ، قم ص 10 سے بعد_2)محتسب كى ذمہ داريوں كے حوالے سے بيشتر معلومات كيلئے رجوع فرمائيں : محمد بن احمد قريشي، آئين شہرداري، چاپ و ترجمہ جعفر شعار، تہران، مقدمہ ص 5_4 متن ص 10 كے بعد_140ھى ركھتے تھے_ عثمانى دور ميں حسبہ ادارہ خاصے دقيق اور پيچيدہ سسٹم كا حامل تھا اس منصب پر فائز افراد محتسب يا احتساب آغاسى كہلاتے تھے _عثمانيہ دور ميں محتسب كى ايك ذمہ دارى احتساب كے ساتھ ساتھ ٹيكس وصول كرنا بھى تھا _ہند ميںمغليہ دور سے حسبہ اور ديگر نگرانى والے اداروں كا قيام عمل ميں آيا تو اس سرزمين كے مسلمان حاكم كى ان اداروں كے امور كى رعايت كرنے يا نہ كرنے سے يہ ادارے كبھى قوت اور كبھى ضعف كا شكار رہتے كبھى تو محتسب كى شان اسقدر بڑھتى كہ سلطان بذات خود محتسب كے امور انجام ديتا اور كبھى يہ امور عدم توجہ كى بناء پر گوشہ گمنامى كى نذر ہوجاتے _ ليكن يہ نگرانى كرنے والے ادارے، ہميشہ ہندوستان كے مسلمانوں كى حكومت ميں موجود رہے ان سرزمينوں كے علاوہ شمالى افريقا، الجزاير، تونس اور مغرب ميں بھى نگرانى كرنے والے اداروں اور ادارہ حسبہ كے موجود ہونے كى معلومات ملتى ہيں _حسبہ كے حوالے سے مختلف فقہى اور اصولى مباحث مسلمان فقہاء ميں خاص ادب كے پيدا ہونے كا باعث بنيں _ اس ادب ميں وہ تمام كتابيں اورآثار شامل ہيں كہ جو حسبہ كے بارے ميں لكھے گئے اور ان ميں حسبہ كے فقہى اور اصولى بحث انجام پائي ان آثار كو دو اقسام ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے : ايك قسم ايسے آثار كى ہے كہ جن ميں عمومى طور پر اسلامى سرزمينوں ميں مختلف امور كے نظاموں پر بحث ہوئي اور ساتھ كچھ حصہ حسبہ كے حوالے سے بھى خاص كيا گيا جبكہ دوسرى قسم ايسى كتابوں پر مشتمل ہے كہ جو فقط حسبہ كے حوالے سے لكھى گئيں _ پہلى قسم كى كتابوں ميں سے ‘ماوردي’ كى تاليف ‘احكام السلطاية’ اور غزالى كى تاليف احياء علوم الدين قابل ذكر ہيں اور دوسرى قسم كى كتابوں ميں عبدالرحمان شيزرى كى كتاب محاكم القربة فى احكام الحسبة اور ابن تيميہ كى كتاب الحسبة فى الاسلام كا نام ليا جاسكتاہے (1)———————-1)دراسات فى الحسبة والمحتسب عند العرب ، بغاد، كتاب كى مختلف جگہوں سے اقتباس_
 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.